Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > اِیلافِ وفا > ارادھنا(کرونا وائرس کے تناظر میں)

اِیلافِ وفا |
حسنِ ادب
اِیلافِ وفا

ارادھنا(کرونا وائرس کے تناظر میں)
ARI Id

1689953282333_56116989

Access

Open/Free Access

Pages

20

ارادھنا
(کرونا وائرس کے تناظرمیں)
اے خالق عصر۔۔۔اے مالک ’’کن‘‘۔۔۔!
مسجدوں کے دروازے بند ہیں
مندروں میں ہُو کا عالم ہے
آنسوئوں سے بھیگی صدائوں میں!
قاتل ہوائوں میں!
بچے گلیوں میں نکلتے نہیں۔۔۔کرفیو کا نفاذ بھی نہیں
اہلِ زباں۔۔۔حسن بیاں کے پھول کھلتے نہیں
اے خالق ارض و سما۔۔۔!
عنکبوتی تاروں کی طرح وبا کی موجودگی میں!
اسلوب کنعان میں ڈوبی جوانیاں،
موج زلیخا کی دلفریب روانیاں۔۔۔!
روایاتِ اذیت سے ڈرتے ہوئے گھروں سے نکلتی نہیں
اے ازل کے مالک۔۔۔اے ابد کے خالق۔۔۔!
یہ دنیا تیری ہی بنائی ہوئی ہے
جس کے سر پر وبا موت بن کے چھائی ہے
نشاط روح، سرور ازل ، وعدئہ اول کو یاد کرتے ہوئے!
شبنمی گلابوں پر اُداسی چھائی ہوئی ہے
کوئلیں ، فاختائیں اور عندلیبانِ چمن۔۔۔!
نہ جانے کن گمنام جزیروں کی طرف نکل گئی ہیں
اے رب دو جہاں۔۔۔کچھ معلوم نہیں
رحم فرما ۔۔۔رحم فرما ۔۔۔اے حافظ حفیظ رحم فرما
بہلول مسکراتے ہوئے بولا۔۔۔ اچھا تم نثری نظم لکھتے ہو۔ عہدِحاضر کی اک معروف شخصیت جسے ریاض مجید کہتے ہیں۔ وہ اسے نثم کے نام سے یاد کرتا ہے۔ اس صنف کے لیے دونوں نام بہتر ہیں۔ لیکن میں ’’نثم‘‘ کو ذاتی طور پر پسند کرتا ہوں جو اس نام کو پسند نہیں کرتے ، نثری نظم پر بضد ہیں ۔مجھے اُن سے بھی اختلاف نہیں۔
ادبی دنیا میں اک مندائیت کی شکل میں فرقہ ہے جو اس صنف کو آج بھی نہیں مانتا۔
تم جانتے ہو۔۔۔مندائیت کیا ہے؟
میں نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے جواب دیا، اور خاموش رہا۔ کیونکہ بہلول دلچسپ شخصیت کا مالک تھا اور میں اُسے صرف سننا چاہتا تھا ، کہ وہ کیا کہتا ہے۔
اُس نے میری طرف دیکھتے ہوئے ،بولنا شروع کیا۔۔۔!
مندائی ایک فرقہ ہے۔ جو آدمؑ ،شیثؑ ، نوحؑ، سامؑ اور ادریسؑ کو مانتا ہے۔
یوحنا اصطباغی کے پیرو کار ہیں۔ یوحنا اصطباغی کا ذکربائبل میں اور قرآن مجید میں یحییٰ بن زکریا یعنی یحییٰ ؑ کے نام سے موجود ہے۔ یوحنا اصطباغی کا مطلب بپتسمہ دینے والا کے ہیں۔ ان کی پیدائش عیسیٰ ؑ سے پہلے ہوئی تھی لیکن عیسیٰ ؑ کے عہد میں موجود تھے۔ بائبل کے بقول انھوں نے عیسیٰ ؑ کو بپتسمہ دیا تھا۔یہ مذہب حضرت ابراہیمؑ ، موسٰی ؑ اور یسوع مسیح کی نبوت کا انکار کرتا ہے۔ ان کے بارے میں مشہور ہے ، کہ یہ آغاز مسیحیت کے غناسطی فرقے کے طور پر ارتقائی مرحلوں سے گزرتے ہوئے، ایک الگ مذہب بن گیا۔ ان کی مقدس کتابیں سریانی زبان میں ہیں۔ ان کا نشان بھی مسیحیت سے ملتا جلتا ہے۔ جسے درفش کہتے ہیں ۔ یہ دراصل ایک صلیب پر ریشم کا کپڑا خاص انداز سے ڈالا ہوتا ہے۔ ان کے ہاں خدائے یکتا نے کائنات کو پیدا کیا ہے جس کو ’’ھیی قدما‘‘ (ھیی قدیم) کہتے ہیں۔ اور یحییٰ معمدانی بھی ثنیائی جیسے ھیی الثانی ہے۔ یعنی عیسٰیؑ کو کہتے ہیں۔ پہلے یحییٰ ؑ اور پھر عیسٰی ؑ کا نام ہے۔ وہ کہتے ہیں خدا نے سات عالم بنائے ’’عالم دھشوخا‘‘ یعنی عوالم ظلمت کو پیدا کیا۔ انھیں سورج سے روشن کیا۔ یہاں ایک بات کو واضح کرتے ہیں کہ سات آسمان ، سات طبقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ آسمان کے چوتھے طبقے میں سورج اور ساتویں طبقے میں چاند ہے۔ اسی مذہب کا یہ نظریہ ہے۔ زمین و آسمان دو مادوںآب و آتش کے ٹکرانے سے مخلوقات عالم وجود میں آئی۔ آدمؑ کو ’’گبرا قدمیا‘‘ یعنی مردِ اوّل کہتے ہیں۔
’’وہ کہتے ہیں کہ خدا نے چاہا ۔۔۔وہ آدم کو پیدا کرے۔ تو اس نے ھیبل زیوا (عزرائیل) کو زمین پر بھیجا۔ اس نے پہلے آدم کو پھر بائیں پسلی سے حوا کو پیدا کیا۔ ان میں روح پھونک کر بپتسمہ کا طریقہ سکھایا۔ پھر فرشتوں سے کہا ، کہ انھیں سجدہ کریں لیکن’’ھادبیشا‘‘ (ابلیس) نے سجدہ نہیں کیا۔ مکالمہ اور حالات کے درمیان جو کچھ بھی لفظوں کی صورت میں ادا ہوا ۔ وہ نثری نظمیں تھیں۔ جہاں مرضی جا کر تحقیق کر لو۔ تم ’’مقالہ، ڈاکٹر جواد ، کتاب مقدس الصائبون، تاریخ الحکمائ، علامہ جمالدین تقظی متوفی۶۴۶ء الصائبون فی حاضرھم وماضیھم جیسی کتابیں پڑھ لو۔ تمھیں میرا یقین آ جائے گا۔ میں نے اُس کی باتیں سن کر کہا، مجھے نثری نظم دل کی دھڑکنوں کی مانند لگتی ہے۔ یہ میری پہلی محبت ہے۔آپ جانتے ہیں جب فرشتے مجھے سجدہ کر رہے تھے تو یہ میرے پہلو سے لگی ، مجھے بڑی چاہت ، محبت اور فریفتگی سے دیکھ رہی تھی:
یہ بزم دلربائی میں!
فرشتوں کی طرح معصوم تھی
میرے ذہن کی غلام گردشوں میں!
زینت ِقراربن کر۔۔۔اعتبار کے لہجے میں گونجتی رہتی تھی
ہوائیں گل دائودی ، گل مریم کے ساتھ!
سوسن و نسترن سے گلے ملتی رہتی تھیں۔
یہ چراغوں سے سرگوشیاں کرتے ہوئے!
فلک کی جالیوں کو محبتوں کا صحیفہ سناتی !
محبتوں، چاہتوں کے حروف مقطعات کی تسبیح کرتے ہوئے!
میرے ذہن و دل کی پاسبان بن کر!
سنہری کرنوں میں۔۔۔میرا طواف کرتی رہتی تھی
بہلول سر جھکائے سب سنتا رہا ۔ وہ شفق کی فریفتگی میں وعدوں کے وقار تک سفر کرتے ہوئے ، بولا۔۔۔! پہچان کی حقیقت میں قیام و مقام کی وضاحت ہر فقیہہ اور زاہد نے اپنی عقلی تشکیلات کے زاویوں میں تصور یا خیال کے تحت لمحوں کی روانی میں لکھی ہے۔
کسی نے اس کو نظریہ کہا۔۔۔ تو کسی نے اثباتی تحقیق کے عمیق ذروں سے اکتساب کرتے ہوئے ، سفیدیوں کے تصور کو نیلاہٹوں میں ملا کر ،تسلیمات کی گنجائشوں میں واحد اقرار کے ساتھ کئی عنوانات حقیقی اور مجازی کے سایہ میں مختلف ابواب کی نشاندہی کی ہے۔ پھر مختلف جگہوں سے تصورات کی کڑواہٹ کو محسوس کرتے ہوئے ، نقطۂ موجود کی وضاحت میں مختلف عقائد کو پرکھا۔۔۔ پھراُن کے سینے سے اُبھرتی دھڑکنوں کی آواز سن کر، عجیب و غریب ادیان کی بنیاد رکھی۔ لیکن جو لمحوں کے سینے میں دھڑکتے ہوئے ، نظریات محوِ سفر تھے، اُن کو سننے کی بہت کم صالحین میں صلاحیت تھی ، جنھوں نے دھڑکنوں کی سنی، وہ تہذیبی رسوم سے فکری عقائد کی جڑوں تک پہنچ گئے۔ جنھوں نے جڑوں تک رسائی حاصل کی وہ خواب آثار سے تعبیر مستجاب تک ۔۔۔تورات والانجیل کی تصدیق کرتے ہوئے ، کافِ فسوں سے تعلقات کہف کی دلیلیں دیتے ہوئے، بے گور و کفن پیاسی ریت پر تڑپتے رہے۔ کچھ پیاسی ہوائوں کا محور بن کر، گزرتے لمحوں کے سینے میں محفوظ ہو کر، گمنام جزیروں کی طرف نکل گئے۔جو چلے گئے ۔۔۔یا ظاہری طور پر ، ظاہری پردے سے غائب ہو گئے ، وہ نظریاتی طور پر قوت و طاقت کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ، کسی قوت کے رازداں ضرور تھے۔شروع شروع میں جب انسان کو طرزِ معاشرت کے لفظوں کا پتہ بھی نہیں تھا تب بھی وہ لڑنے کے فن سے بخوبی واقف تھا۔ وہ اپنے مدِ مقابل کو مارنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ اس کے برعکس جو مقتول تھا وہ فطری مناظر کی دل کشی میں مزاج نمود کے زاویوںمیں جذباتی طور پر سبز نظریات کے ساتھ سرخ پھولوں کے ساتھ رونق بسمل میں لسان زماں کے شمس و قمر لیے، کون و مکاں پر محیط پہچان کو بتانے والا اورنشاط شگفتگی میں سما کر ، واحد آگہی کی محبت بتانے والا بھی تھا۔
بہلول کی یہ باتیں سن کر ، بے اختیار میرے لبوں پر چند لائنیں کھیلنے لگیں:

میں قانون بہار میں!
زمانی مسیحا کے رنگ میں بولتا رہتا ہوں
میرا قاتل جاجوج ماجوج قوم میں چلا گیاہے
پھر بھی اپنے لہو سے!
دل بسمل کی ۔۔۔ارغوانی شفق کی!
بزمِ ارض و سما کے بیچ داستان لکھتا رہتا ہوں
توریت والانجیل کی دلیلوں میں!
عہد کاف ، بیاض اسرار کے معنی ڈھونڈتا رہتا ہوں
بہلول مسکراتے ہوئے بولا۔۔۔!
ابتدائی احساس کی حقیقی ترتیب میں جن عوامل کوفوقیت حاصل ہے اُن کے بارے میں مختلف کتابوں میں ان گنت حوالے موجود ہیں۔ جو کسی نہ کسی طرح لکھنے والے اور پڑھ کر سنانے والے کی ذہنی رو کو عیاں کرتے رہتے ہیں۔ جس کی وجہ سے قدیم اساطیری زمانوں سے موجودہ لمحوں کی روانی تک ظاہر ہوتی ہے۔ اب ایک پتھر کو صحرا میں یا کسی سبز وادی میں رکھ دیا جائے ، پھر اُس پر گردشِ ایام کی تحریر اُبھرنے کا انتظار کریں تو کافی سالوں بعد اُس پر مختلف نشانات اُبھرنے شروع ہو جائیں گے ۔ پھر بخوبی اُن نشانات میں سے وہ نشان پہچان لیں گے کہ کون سا نشان گرم دنوں سے سرد راتوں کی طرف ہمیں لے کر جا رہا ہے۔ بالکل اسی طرح مفہوم اور منطقی خیال کے زاویوں میں اختیارات کے بخارات سے وجود میں آنے والی نفسیاتی ٹھنڈک اور تاثراتی گرمی کے درمیان روح میں اُترتی کسی شکل یا صورت کی ٹھنڈ ک بھی محسوس و معلوم ہو جاتی ہے۔
میں نے فکر کی معنویت میں احساس کا دروازہ کھولتے ہوئے ، عقلی مسافتوں کا ذکر کرنا شروع کیا۔ پھر مختلف قوتوں کا ذکر کرتے ہوئے ، کشش گل ماہتاب کو آنسوئوں کے مدوجزر کے ساتھ کچھ اور بھی بولنا چاہتا تھا۔ لیکن عجیب سی نظروں سے بہلول نے مجھے دیکھا۔ پھر سریانی بارشوں میں عبرانی فضائوں کا پیوند لگاتے ہوئے ، گفتگو کا رخ موڑا۔
پھر بڑی روانی میں اپنی جنونیت کا اظہار کرنے لگا۔
اُس نے عقلی استدلال کے ذریعے، اُس قوت کے بارے میں بولنا شروع کیا جو باریک پردوں کے پیچھے رہتے ہوئے ایسی تصویر بناتی ہے جو ظاہری روشنی میں قول و قرار کے جذبوں میں سمٹ کر ، تکمیل تاثیر کے گزرتے لمحوں میں دلوں میں اُتر جاتی ہے۔ پھول پتوں میں نظر آتے ہوئے ، تاریک سینوں میں دھڑکتی ہے۔ میرے ذہن میں بخارات کا دبائو ایسے چشمے کی نشان دہی کر رہا تھا جس کے کنارے جابر بن حیان اور صودابہ بیٹھے ہوئے تھے۔ دونوں بہتے ٹھنڈے پانی میں ہاتھ ڈال کر ، اک دوسرے کی آنکھوں میں بڑی محبت ، چاہت اور دلربائی سے دیکھ رہے تھے۔ اُن پر سایہ فگن درختوں کے پتے دف بجا کر ، پرندوں کے گیتوں میں شامل تھے۔ لیکن جُدائی کی گھڑی لمحہ بہ لمحہ قریب آ رہی تھی۔ جابر بن حیان خراسان کا تھا ۔ حضرت جعفر صادقؑ کا شاگرد تھا۔ وہ صودابہ اور اُس کے اہلِ خانہ کو فرخ کے حوالے کر کے، قم بھیجنا چاہتا تھا ۔ خود اُموی حکمرانوں سے بچتے ہوئے، رے، گرگان، نیشا پور کی خاک چھانتے ہوئے ، بصرہ آنا چاہتا تھا لیکن صودابہ کے دل کی دھڑکنیں اُسے اپنی آغوش میں لے کر چومنا چاہتی تھیں۔ ہمیشہ اُس کے ساتھ رہنا چاہتی تھیں ۔ میں خیالوں ہی خیالوں میں نہ جانے کہاں سے کہاں چلا گیا:
عیسیٰ بن عبداللہ قمی کو۔۔۔!
اُس جابر بن حیان کا خط مل گیا تھا
جس کی عقیدت تیسری سماعت کے منظروں میں قید تھی
جو خود خراسانی دشت سے بصرہ تک کی خاک چھان رہا تھا
سودابہ رومانویت کی بیل بن کر !
نرم گرم دھڑکنوں کی حدت سے لپٹ چکی تھی
اِک خواب سیلانی آوارہ سوچوں میں بھٹک رہا تھا
جانے والے کو کیا معلوم؟
کون کب تک ۔۔۔بھیگی آنکھوں سے اُسے دیکھتا رہا تھا
تم یہ کیا کہہ رہے ہو؟ اچانگ میرے کانوںمیں بہلول کی آواز آئی۔۔۔!
میں نے چونک کر بہلول کو دیکھا ۔۔۔! کیا ہوا۔۔۔؟ میں نے حیرانی سے پوچھا۔
اُس نے کہا۔۔۔کچھ نہیں۔۔۔! پھر بولا۔۔۔!
ترتیب کی روانی میں خاکساری کے ساتھ تاثیر انااور تکمیل مدعا کے والہانہ پن کو پورا کرتے ہوئے خوب صورت نثم ہے۔جس میں صودابہ اور جابر بن حیان کی کہانی سمٹی ہوئی ہے۔ یہاں علمی اور عقلی استدلال میں جذبات متنازعہ تغیرات کا سبب بن رہے ہیں۔ اسی قانون کو اساطیری زمانوں میں دیکھا جائے تو متنازعہ تغیرات کا وقوع مختلف تہذیبوں کی بنیاد بنا تھا۔
غور کیا جائے تو علمی مسافتوں میں اسباب فطرت اور انسانی خصائل کی وحشیانہ سوچ۔۔۔! اُس وقت زرد پتوں کو گردشِ ایام کی دھول میں دفن کرتی رہتی تھیں۔ جب ان پر تسکین عصر کی بارشیں ہوتی تھیں۔ بارشوں کے بعد مختلف سوچیں دھنک رنگ کا فرغل پہن کر ، ارضی سینے سے نمودار ہو کر، اُفق پر عیاں ہوجاتیں۔ یا دوسرے لفظوں میں ، ارضی سینے سے نمودار ہونے والے سبزے میں محوِ سفر ہو جاتیں۔ یہ مسافتیں ذہنی اقتصادیات کی خوش حالی میں اپنا حصہ ڈالتی رہتیں ، جو مختلف قوانین کی روح بن کر ، ہوا، پانی اور مٹی کے متفقہ ابواب کی تعبیر میں اول رسم سے صحیفہ ادریسؑ تک لے آتی ہیں۔ اس کے بعد تعلقات رشی میں طلوع ہوتے ، پران، اسبابِ منفرد میں روح الامین کے مناظرات سے ہوتے ہوئے، یونانی منسوبات ، ایرامی، سریانی اور عبرانی فضائوں تک چلے جاتی ،جن میں دوشیزگی کی دل فریب خمار میں ڈوبی سرگوشیاں اور نثری نظمیں گونجتی سنائی دیتی ہیں۔اسی دوران دشت و بیابان میں منقلب ستاروں کے ماہر، آغاز معطر کے حسین ہالوں میں سوسن کے رازداں حکمت کے آسماں اور عقیدہ توحید کی تقویم میں تعبیر عشق کے پاسباں محفلیں جمائے، بارشوں کی روانی اور دلوں کی کہانیوں۔۔۔پر ستاروں کے زائچے بناتے ہیں۔ کئی زخموں پر محبتوں، چاہتوں کی پٹیاں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
ان ساری زمانی روانی میں سوچ اور فکر نے ذومعنی لفظوں کے بھید میں اشاروں کی طبیعات میں کنائے کے اثر کو واضح کرتے ہوئے ، ارضیات کے حوالوں میں دن اور رات کو اِک دوسرے کے تعاقب میں دیکھ کر ، زمانی فطرت سے منسلک ریاضیاتی فرغل کو مختلف شکلوںمیں پہنانا شروع کیے ۔ پھر سحر ان میں سرایت کرنے لگا، اور یہ لسانی تاثر سے اُن میں سرایت کرنے لگے۔ پھر وقت، خیال، نظم اور آرزو وجود میں آتے چلے گئے۔ احساسات و جذبات ، محبتوں کے اشاراتی نظریے پر محیط ہو کر ، آنکھوں کے معنی، اسباب دل اور ذہنی عمارت کو وسعتیں دینے لگے۔ جس سے اسمائے محبوب و مسجود وجود میں آ گئے۔ شعور ہست و الست کی نفسیاتی خوشبو نے ہوائوں کے ساتھ مل کر، تعلقات آہنگ نے رجحانی عقائد کے اذہان کو معطر کیا۔ احساس فکر نے مظہر العجائب کی داخلی اور خارجی طبیعات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ، ایسی قوت کی طرف اشارہ کیا جو مختلف قوتوں کی خالق تھی۔
بہلول نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔! تم نے اپنا نام عبداللہ بتایا۔ خود کو ابن آدم بھی کہتے ہو تم نے کبھی اپنے نام کے لفظوں پر غور کرتے ہوئے، اُس طاقت کے بارے میں سوچنے کی زحمت کی؟ جس نے موجود ادراک کو ’’اوّلون و سَابِقون‘‘ کے صحائف سے، ہیلن کی شگفتگی کے ساتھ لسانی لطافت کی حرکتِ مستقیم کے رنگ میں تشریح کی؟ مجھے تو بس خاموش رہنا تھا۔میں بس خاموش ہی رہا۔ کیونکہ جس طاقت ، تاثیر ،تعبیر کی وہ بات کر رہا تھا میں تو اُسی کے جملہ میں ڈوبا ہوا ۔۔۔حقیقی تسکین کی لذتوں میں گرفتار۔۔۔! دل میں چند نثمیہ مصرعے پڑھ رہا تھا:

جس نے ارض و سما بنا کر!
لسان الہام میں جمال یوسف ؑ کی طرح سما کر!
جس نے تاثیر عصر کے جلوئوں میں!
جبرائیل کو ضمیر لوح و قلم کا نامہ بر بنایا ہے
جنوں کی سانسوں میں وہی سمایا ہے

موسموں کی روانی میں!
ارغوانی تبسم ، ماہتابی شبنم کے صحیفے سجائے ہوئے!
گلزار ہست و الست میں حقیقی خواب دکھاتے ہوئے!
جس نے طائر حسن کو!
ٍ شانِ معصوم کے مخمل پر سلایا ہے
جنوںکی سانسوں میں وہی سمایا ہے

زعفران کی شگفتگی میں۔۔۔گل مریم کی فریفتگی میں!
وفا کی نشانیوں میں۔۔۔عشق کی جوانیوں میں!
ٍٍ جس نے کشش قاف کی جوانی کو سجایا ہے
جنوں کی سانسوں میں وہی سمایا ہے
بہلول نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے، میری طرف دیکھا ، پھر بولا۔۔۔! تم اپنی نثری نظم کے سحر سے باہر آ جائو ۔میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔! آ گیا ہوں۔ آپ کچھ فرما رہے تھے ، تو اُس نے لمحوں کی روانی کے رنگ میں ، اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔‘‘
مجھے یہاں اسباب یہودیت میں عصاء نظر آتا ہے۔ عقائد عجم میں سوئمبر کی کمان کے ساتھ بنتِ ارض کی خوب صورت مسکراہٹ بھی نظر آتی ہے۔ لیکن دونوں طرف پرستش ، پوجا پاٹ، اور سجدے موجود ہیں۔ زمین سورج کے گرد گھومنے پر مجبور ہے۔ چاند سورج سے اکتساب و انتساب کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ سب سے پہلے زمین پر توریت بتاتی ہے ، کہ دُمبی سٹی اور اُونٹ کٹارے پیدا ہوئے۔ وہ بھی ایسی قوت یا طاقت کی تسبیح کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جو دکھائی نہیں دیتی۔
میںایک دم میں بول پڑا۔۔۔کچھ لوگ تو خدا کو مانتے نہیں۔ وہ کہتے ہیں جس کا وجود نہیں، اُسے ہم کیسے مان لیں؟
اچھا۔۔۔کچھ لوگ خدا کو نہیں مانتے ، لیکن مجھے ایک آیت یاد آ گئی۔۔۔تم بھی سنو۔۔۔!
’’سور ج کو چاند پر ، چاند کو ستاروں پر کوئی فوقیت نہیں لیکن اُن کے لیے کھلی کھلی نشانیاں ہیں جو ان پر غور کرتے ہیں۔‘‘ (القرآن)
اسی تناظر میں اگر سورج کو غروب ہوتے ہوئے دیکھیں تو اُس وقت سورج گردآلود ، زرد آتشی ہالا سا بنا ہوتا ہے جو آسمان پر دور تک پھیل جاتا ہے ۔ زمین پر سفید برف کی تہہ ، درختوں پر زرد سبز پتے اور سرمئی ریت کا پہاڑ مختلف جگہوں سے نظارہ کرنے پر، علیحدہ علیحدہ مختلف کیفیاتی سحر سے روشناسی ہوتی ہے۔ اسی دوران دھیرے دھیرے شام اُترتی ہے اور شام کی کوکھ سے اندھیرا جنم لینے لگتا ہے۔ جو چاند اور ستاروں کی ڈوریاں کھینچتے ہوئے اعلیٰ تہذیب کی زندہ فکر کے نقطہ نظر کو روح میں اتارتا ہے۔ پھر یہی نکتۂ حیات پرستی اور رجعت کی زرخیزی میں ’’مؤمن، مھیمنُ، عزیز الجبار المتکبرُ‘‘ کے فلسفے پر روشنی ڈالتے ہوئے ، ’’لا‘‘ اور ’’الا‘‘ کے شذروں میں ’’محمد رسول اللہ‘‘ تک لے آتا ہے۔ ان شجروں کو پڑھ کر سناتے ہوئے ، وہ نقطہ نظر نہیں۔۔۔بلکہ نقطہ حیات بن کر ، اساطیر کی تقویم میں قدیم مرکز کے واحد رشتے کی استواری میں ، اپنی سانسوں اور مسافتوں کی روانی کو نہیں بھولتا۔وہ لہولہان پیروں سے پیاسی ریت پر تڑپتے منظروں کو بڑی آسانی کے ساتھ بیان کر دیتا ہے ۔ وہ چاہے نیل کے کنارے ہو یا فرات کے کنارے پر ! وہ گنگا جمنا کے بیچ جنم لینے والے سے گوکل کی فضائوں میں کوکتی بانسری کو بھی یاد رکھتا ہے۔
میں نے بہلو ل کی باتوں کو اطمینان سے سنا۔ پھر عمومی خیالات میں تاثراتی حرفوں کا رنگ بھرتے ہوئے ! لذت اقرار کے داخلی اور خارجی پہلوئوں میں فکر، جذبات اور فخر کو سمویا۔ پھر اس کے بعد درد کے نفسیاتی پہلوئوں پر بات کرتے ہوئے ، فکر، تاسف اور نفرت کو گھسیٹ کر شامل کر لیا ۔ یوں حصول تاثیر کے لیے ایک نظریہ ذہن میں ترتیب دے کر ، بہلول سے خیالات کے مرکب میں نیلے لفظوں کی وضاحت چاہتے ہوئے ، بالغ احساسات کے ساتھ کچی عمر کی ٹھنڈی شاموں ، شبنمی راتوں کے رتجگوں کا سوال کر دیا۔
بہلول نے اطمینان سے سوال سنا۔ پھر خیالات میں اصنام کی تقسیم کرتے ہوئے، فکر کو خانقاہوں کی طرف لے آیا۔ اُس نے لذت اور درد کو علیحدہ علیحدہ رکھنے کی بجائے ایک ہی علامت میں دونوں کو پرو دیا ۔ یعنی وہ’’ لذت درد‘‘کے آئینے میں پرو کر، شفق کی بالیوں سے سنہری گندم کی بالیوں تک سفر کرتا ہوا آ گیا۔ پھر بولا۔۔۔!
قدیم صنمیات کی کتابوں کو غور سے پڑھا جائے ، تو ان میں دیوی، دیوتائوں کے ساتھ مختلف جنگجوئوں کے نسب نامے نظر آتے ہیں۔ اس ضمن میں ہندوئوں اور اہلِ یونان کی کتابیں ذرا دِقت سے ملیں گی۔ اُن میں پرانوں سے بھی پہلے کی داستانیں موجود ہیں۔ عصرِ رواں کے ساتھ اُن کا مطالعہ کیا جائے ، تو قدیم سے قدیم تر واقعات مل جاتے ہیں۔ یہی حال یونانی دیوتائوں کے حوالے سے کتابوں کا ہے۔ اُن پر غور کرو گے تو نایاب قسم کی نثری نظمیں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ اب یہاں انسانی عقل کا کمال بھی دیکھ سکتے ہو۔ انسان نے جاذب آواز اور کرختگی کی جوانی بحال رکھنے والی فضائوں اور ہوائوں کو کس طرح اپنی سوچ کے تابع رہتے ہوئے مختلف دیوتائوں سے منسوب کیا۔
تم مجھے چھوڑو۔۔۔!
تم مجھے ایک ہی سمت کا مسافر کہہ کر، مختلف دلائل دے سکتے ہو۔ تم بتائو۔۔۔!
جب ارتقائے رونق میں ابتدائی محبت میں ڈوبی آوازنے ازلی محور سے دائرہ مستقبل تک کا سفر طے کیا ہو گا تو سب سے پہلے اپنے محور کی ہی نشان دہی کی ہو گی۔ وقت نے سچے درد اور لگن کو محسوس کرتے ہوئے ، اُس کے اثرات کو مختلف مقامات کی جاذبیت میں سمویا ہو گا۔ پھر مسحوریت کو قریب لا کر ، احساس انتخاب کو اظہاریت پر محیط کر دیا ہو گا، یوں محبوب کی ذمہ داریوں کو جگا دیا ہو گا۔۔۔کیا ان باتوں سے اتفاق ہے۔۔۔؟
میں نے اپنے دوست کی جذباتیت کو مجبوری اور توجہ سے بچاتے ہوئے ، مختلف پھولوں کا ذکر کیا۔ اسدمحمودخان کے افسانوں میں درد کی کوک میں سرمئی دھوپ کے ساتھ بیان کرتے ہوئے، انسانی مرکز کے گرد گھومتے ہنگامے اور بے چینی کو دور رکھا۔ پھر سوچوں کو مرکز میں داخل کرتے ہوئے، دل اور دماغ کو بالکل ہلکا کر دیا۔ اسی کلیے کے تحت ، میں نے اسد محمود خان کے افسانوں میں عارضی پاگل پن کو مستقل پاگل پن کہہ کر، کرشن یا بدھ کی مانند سوچوں کو مسرت انگیز لمحات کی طرف موڑ کر، چاندنی اور ریت کے درمیان سکون کو__اُس کی حد سے باہر ہونے نہ دیا۔ اس طرح پہچان ، سکون اور مرکز کی ایک تکون بنا کر، خاموش ہو گیا۔
بہلول شاید اندر تک خوش ہو گیا تھا۔ اسی لیے اُس کے چہرے پر بڑی دل فریبی اور آنکھوں میں نور چمکنے لگا تھا۔ پھر بہلول نے مٹی کا پیالہ اُٹھایا اُس میں پانی اور ستو ڈال کر مجھے دیا۔ دوسرے پیالے میں ستو پانی کا شربت خود پینے لگا۔
اُس نے بھی چند پھولوں میں لذت ہجر اور بقائے وصال کے عناصر میں سانسوں کی روانی کو جذبہ روح کہا۔ پھر اسے تسکین کی چہل قدمی کے قریب لاتے ہوئے ، ہوائوں کی سرسراہٹ ، پیار میں ڈوبی لڑکھڑاہٹ کو مجوسیت کی نسبت میں جمالیاتی تناسب کو بنیادی وحدت کے معیار کی کشش کے ساتھ عورت اور مرد کی بصری قوت اور دھڑکنوں کی روانی کو جذبہ محبت کے ایسے رنگوں کی کشش قرار دیا۔ جس میں منفی یا تضاد کا رجحان نہیں ہوتا۔
پھر وہ حمدیہ نثری نظم کے نثریہ مصرعے دھڑکنوں کے آہنگ کے ساتھ پڑھنے لگا ۔ سچی بات ہے میں بھی اُس کی نثری نظم میںڈوب گیا:
جو خیال کی تہذیب میں!
گل بنفشا ، گل یاسمین کی مثالیں رکھتے ہوئے!
سحر کی انگڑائی میں شفق کی جوانی رکھتے ہوئے!
وہی عقیدتوں کے روشن چراغوں کی داستاں ہے
وہی چشم سوسن و نسترن میں شگفتگی بن کر!
ادراک کی رگوں میں فریفتگی بن کر!
دلفریب جھیلوں کے کنارے تتلیوں ، جگنوئوں کا آسماں ہے
جس کی ذرہ ذرہ تعریف کرتا ہے
وہی درختوں کو سبز قبائیں دے کر!
پھولوں کو مختلف رنگوں کے فرغل پہنا کر!
خواب کے طاق میں روشن ہو کر!
جمال فسوں کی وسعتوں میں عیاں ہے
انبیاء سے لِسان انجیر، شاخ زیتون کے لہجے میں باتیں کرتے ہوئے!
وہی ’’ایلوہیم ، ایل شیدائی، یہو واہ، تزیوت۔۔۔!
میرا کریم، قادر مطلق، رب العالمین۔۔۔میرا پاسباں ہے
میرا رحیم، میرا کریم۔۔۔میرا آسماں ہے

پھر بہلول تخلیقی مشکل کی نفسیاتی حالت پر بات کرتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔!
تمھیں آج کل ایسے لوگ ضرور ملیں گے ۔ جو قرآن سے بات شروع کریں گے۔ پھر اسی دوران سفر کرتے ہوئے احادیث کی طرف نکل جائیں گے۔ سورہ اخلاص ۔۔۔جو بہترین سورہ توحید ہے۔ اس تناظر میں بحث شروع ہو، تو بہت دور تک نکل جاتی ہے جیسے ایرانیوں کی ایک ہوشربا داستاں میں کوہ کاف کی داستاں شامل ہے۔ جس سے مقدس واقعات بھی جڑے ہیں۔ اس کے گردو نواح پر نظر ڈالیں تو زرتشت اور مختلف انبیا کے ساتھ ساتھ مختلف صحابہ کرام بھی نظر آتے ہیں۔ ایسا ہی ایک پہاڑ یونانیوں کے ہاں بھی موجود ہے۔ وہ اُسے کوہ اولمپس کہتے ہیں۔
اوستا سے منسوب کتابوں میں اسی پہاڑ کے بارے میں بہت کچھ موجود ہے، اور کوہ کاف کو ہی تمام پہاڑوں کی جڑ قرار دیا گیا ہے لیکن کیلاش پربت کے بارے میں اور بھی داستانیں منسوبات کے تحت موجود ہیں۔ مسلمانوں میں کوہ طور موجود ہے۔ اس معاملے میں جین مت بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ اُن کے ہاں روایات کے مطابق ’’مالوسوتر‘‘ موجود ہے جو انسانی آبادی کی آخری حد سمجھا جاتا ہے۔
ایک قوم ’’منداپتی‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اُن کے ہاں یہ روایت پائی جاتی ہے کہ زمین چپٹی ہے۔ اس کے تین طرف پانی ہے ۔ شمال کی طرف زمرد کا پہاڑ ہے جس سے شعاعیں پھوٹتی ہیں۔ اسی وجہ سے آسماں کا رنگ نیلا ہے۔ یہاں غور کیا جائے تو مشرقی قوموں میں شمال کی طرف قدیم زمانوں سے ایک پہاڑ موجود ہے جس کی دلیل مختلف کتابوں میں ، مختلف حوالوں سے نظر بھی آتی ہے ۔ اسی کے ساتھ دیوی ، دیوتائوں کے ساتھ ایک یہ بھی نظریہ موجود رہا۔۔۔کہ۔۔۔ ایک طاقت ایسی ہے جس کی کوئی تصویر، شبیہ نہیں اور نہ ہی کوئی پرچھائی ہے۔ اب اس پر بھی صالحین کی بحثیں موجود ہیں ، کہ یہ خیال اہلِ بابل سے لیا گیا ہے کیونکہ اس طرح کی کہانیاں قدیم عبرانیوں کے ہاں بھی موجود ہیں۔ اگر تورات کا مطالعہ کیا جائے تو یہ کہانیاں آسانی سے مل جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف منسوبات یہود کی کتابوں کا مطالعہ کیا جائے تو نثری نظمیں بھی کثرت سے ملتی ہیں۔ ان کتابوں میں جو نثر کیشکلیں موجود ہیں اُن کا بنیادی بہائو اور حرفی بنت بالکل نثری نظم سے ملتا ہے اسی وجہ سے میں دعویٰ کرنے میں حق بجانب ہوں۔
میں اور بہلول حرف و معنی کے حوالے سے بہت الجھے ہوئے تھے۔وہ مجذوبیت کے دائروں میں سفر کرتے ہوئے اپنی سوچوں کے تابع چل رہا تھا ۔ میں بھی الجھا ہوا تھا لیکن میں اپنی سوچوں کو فسوں اور خمار کے بیچ لٹکنے سے بچاتے ہوئے اک عجیب راہ کی طرف چل نکلا۔
ٍ میں عثمان مروندی اور بلھے شاہ کی شریعت پر چلنے والا
دل میں باسم سلطان اور لبنیٰ جیسے جذبات رکھنے والا
امرتا پریتم اور سارہ شگفتہ کی طرح ۔۔۔۔!
چاندنی راتوں میں ستاروں سے سرگوشیاں کرنے والا
دعائوں کے قفس میں ۔۔۔۔ !
حرف و معنی کے پرندے قید نہیں کرتا
اک تم ہو ۔۔۔ جو ابتدا کی روشنی میں۔۔۔!
دل کی سند کو پارسا ایجابی ، درویش قبولی کے سامنے ۔۔۔!
جذباتی احساس کی پہچان کے مروجہ لفظوں کی۔۔۔!
ترتیب و ترکیب واضح کرتی رہتی ہو
فلک کی جالیوں سے لگی ۔۔۔،
دستِ حنائی سے چراغ روشن کرتی رہتی ہو
بہائو اور بنت کے حوالے سے عہد نامہ عتیق اور توریت کے تقابلی جائزے سے تھوڑا ہٹ کر، ادبی نظریات کے متوازی چلیں تو اس کے حوالے مضبوطی سے موجود ہیں۔اس جائزے میں زبور شریف اس لیے شامل نہیں کیا کیونکہ وہ سارا نثری نظموں کی شکل میں ہے۔ جیسے گایا گیا ہے۔ اس کی کرافٹنگ کی گئی ہے ۔ میں تسلیمی اعمال کے فکری ، نظری اور بصری نظریات کے سائے میں سفر کرتے ہوئے ، کوہ بلقان ، کوہ سینا ، کوہِ لبنان ، کوہ سراندیپ کی داستانی وادیوں میں کیلاش پربت، کوہ ژندہ، کوہ کلوری، کوہ ہلمند کے ساتھ کوہ سلیمان، کوہ آٹھ (آٹھ پہاڑوں کا سلسلہ جو اب کوہاٹ ہے) سے ہوتا ہوا۔۔۔کوہ ذبیح تک چلا گیا۔ پھر صفا اور مروا تک آئے ہوئے، کوہ قبیس، کوہ ہیبرون کو ذہنی غلام گردشوں میں تصویری شکل میں دیکھتا ہوا۔ غارِ حرا کی دہلیز تک آ گیا تھا۔اس کے بعد شاید میں تھک گیا تھا؟ اسی لیے میں ایک پتھر سے ٹیک لگائے ، سو گیا تھا۔ سونے کے دوران پتہ نہیں خواب کی حالت رہی یا نیند میں بھی آوارگی کی کیفیت برقرار تھی، جو میں نیند کی حالت میں کوہ جود ی ، کوہ عین(جس کے سلسلوں میں حضرت اسماعیلؑ کو اُن کی والدہ کے ساتھ چھوڑا گیا تھا) کوہ زیتون ، کوہِ نور کی وادیوں سے ہوتا ہوا ۔۔۔کوہ تفتان اور پھر وہاں سے کوہِ صہیون ۔۔۔!
کوہ صہیون ! جس کی وادی سے صہیونیت کا آغاز ہوا۔ اسی طرح اگر ایران کی طرف جائیں تو کوہ البورزبائکل ویسا ہی ہے، جیسے کلر کہار کا پہاڑی سلسلہ۔۔۔!
میں جبلِ رحمت دیکھ رہا تھا جب بہلول کی آواز میرے کانوں میں آئی۔تم کافی دیر سے بڑ بڑا رہے ہو۔کیا ہوا۔۔۔؟ مجھے بھی بتائو۔۔۔! تم کیا سوچ رہے ہو۔۔۔؟
میں ذہنی طور پر حاضر ہوتے ہوئے بولا۔۔۔میں سوچ کچھ نہیں رہا تھا۔ ویسے تو میں سویا تھا لیکن نیند کی حالت میں بدن کہیں۔۔۔روح کہیں والا معاملہ ہو گیا تھا۔۔ پھر میرے لبوں پر کچھ ایسے حرف و معانی آ گئے جس سے مجھے سکون سا محسوس ہونے لگا:

آ پؐ حقیقت خفی۔۔۔آپؐ حقیقت جلی
ہجر کے درد کی تحقیق میں۔۔۔ وصال کی تہذیب میں!
فرخندہ زمانوں کے طاق اسرار میں!
چراغ راز داں بن کے روشن ہیں
آپؐ ہی تاثیر اول۔۔۔آپؐ ہی عشق کی انتہا،
صلی علیٰ ۔۔۔حبیبِ خدا۔۔۔صلی علیٰ!
چاند تاروں کے روشن وظیفوں میں تو!
معانیوں کے لطف سخن!
چشم وفا۔۔۔باخبر سمندروں کے صحیفوں میں تو!
آپؐ کی وجہ سے صندل، صنوبر، چناروں میں زندگی ہے
آپؐ خیرالورا۔۔۔آپؐ سیدالمرسلین۔۔۔آپؐ شافع روزِ جزا
اے حبیب خدا۔۔۔صلی علیٰ۔۔۔صلی علیٰ
اے شمس و قمر۔۔۔اے انبیائے مرسل۔۔۔اے ارض و سماء کے گواہ
اے خیرالوریٰ۔۔۔اے حبیبِ خدا۔۔۔صلی علیٰ

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...