Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

اِیلافِ وفا |
حسنِ ادب
اِیلافِ وفا

ارادھنا
ARI Id

1689953282333_56116992

Access

Open/Free Access

Pages

37

ارادھنا
ساعت نایاب میں!
معانیوں کے شباب میں۔۔۔سبز بارشوں کے سحاب میں!
جذبات کی خوشبو۔۔۔چشم عہد وفا میں!
روایتوں کے تلازمے میں۔۔۔آپؐ کے نام سے زندگی ہے
آپؐ محبوب رب العالمین ۔۔۔آپؐ رحمت اللعالمین ہیں
آپؐ کے نسب نامے کا ورد کرتے ہوئے!
وجد انگیز قوسوں کا ذکر کرتے ہوئے!
زعفرانی لحن کو۔۔۔گلاب کے بانکپن کو!
رشتۂ لکنت سے منسلک!
آگ کا تاثیر توریت میں ڈوبا ناول پڑھتا ہوں!
مکہ سے مدینہ کا سفر نامہ پڑھتے ہوئے !
غارِ ثور میں گونجتی نثری نظمیں سناتا ہوں
میں تو بس صبح و شام !
آپؐ کی بارگاہ میں درود و سلام پیش کرتا رہتا ہوں
آپؐ کا نام میری بندگی ۔۔۔زندگی ہے
آپؐ محبو ب رب العالمین ۔۔۔آپؐ رحمت اللعالمین ہیں
آپؐ شافعِ محشر۔۔۔آپؐ حبیبِ خدا!
صلِ علیٰ۔۔۔صلِ علیٰ۔۔۔صلِ علیٰ

بہلول کافی دنوں سے حالتِ سفر میں تھا۔ میں بھی اُس کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کی کوشش میں گرمی کے تشدد اور صحرائی ہوائوں کے رقص سے بے حال تھا۔ جب سے بہلول کو پتہ چلا تھا ۔۔۔ کہ مجھے نثری نظم سے عشق ہے وہ تب سے مجھے گھنجلک باتیں نثری نظم کے انداز میں بڑی روانی اور آسانی سے سمجھانے لگا تھا۔ ایک دن جب ہم شام کے صحن میں لیٹے ہوئے ۔۔۔ صحرائی گرم ہوائوں میں آرام کرنے(رات بسر) کا سوچ رہے تھے۔ کہ نہ جانے کیسے ۔۔۔ اُس کی سوچوں میں نثری نظم اُتر آئی۔ وہ بولا۔۔۔نثری نظم خوب صورت اور دل آویز قدیم صنف ہے۔
یہ عہد الست سے موجودہ دور کے نشیب و فراز تک ، مزاجِ شفق کی دلیلوں کو فکری اساس کی وادیوں میں پروان چڑھانے میں لگی رہی ۔ یہ کٹھور اور سنگدل لمحوں کی طرف سے دی جانے والی اذیت سے نڈھال ضرور رہی، لیکن مری نہیں۔ اس کی وسعت ، آفاقی شگفتگی اور لطافت کچھ عرصہ کے لیے نظروں سے اوجھل ہو جاتی۔۔۔لیکن جب موسم بہار آتا۔۔۔ تو یہ پھر سب کے سامنے رونما ہو جاتی۔ عجم کی وادیوں میں بھی یہ اک دیوی کی طرح سرفلک کی جالیوں سے لگائے ، دھڑزمین پر اور پائوں پاتال میں رکھے کھڑی نظر آئی۔ یہ زمین پر پہلے مرد کی طاقت بن کر ، اس کے ساتھ پہلو میں بیٹھی ۔ مرد نے اسے پرندوں کی چہچہاہٹ میں پھولوں کے ساتھ آرزو ، محبت، چاہت کے ساتھ سرد ہوائوں سے سرگوشیاں کرتے ہوئے دیکھا۔ یہ رشیوں کے سینے میں دھڑکتی رہی۔ اس نے موہنجداڑو اور ہڑپہ کے موسموں کو دیکھا (یہاں سے برآمد ہونے والے سبھی کتبوں کے تراجم نہیں ہو سکے)اس نے ’’اصحابِ رس‘‘کے ظالمانہ رویوں کو بھی دیکھا۔
یہاں ایک اور بات بتاتا چلوں۔۔۔!
وہ یہ کہ ۔۔۔!
تم نے مختلف اذہان جنم دینے والی سوچ کو ،خود پر حاوی کرنے کے بعد کچھ نثری نظمیں لکھی ہیں جن میں،’’ تاریخِ مذہب‘‘ کی کتاب میں موجود طبعیات اور مابعد الطبعیات کے درمیان گردش کرتی ہوائوں کاتذکرہ ملتا ہے۔ مطالعہ کرنا بری بات نہیں ہے لیکن ہر وقت کتابوں میں غرق رہنے سے وہ شعور کبھی زیارت نہیں کراتا جو کسی دوسرے سے بات چیت کرنے کے بعد ملتا ہے۔ یہ کوئی افلاطونیت کا نظریہ نہیں جو ڈیکارٹ مختلف بہانوں سے زیرِ بحث لاتا ہے۔ پھر اسی کی چھائوں میں بیٹھ جاتا ہے۔ میں تمھیں یہاں ایک مثال دیتا ہوں ۔۔۔
تم جب مٹی ،روح اور چاک کی طرف جاتے ہو تو نثمیہ شکل کی نوک پلک سنوارتے نظر آتے ہو۔ لیکن اس کے برعکس جب ہوا مٹی اور پانی کی طرف آتے ہو تو خوب صورتی سے نثری نظم کو عیاں کرتے چلے جاتے ہو۔ جس سے سوچ کا مادہ ،ادراک کی دنیا میں لڑکھڑاتا نہیں۔ کیوں کہ اس کی دلیلیں موجود ہیں۔ تم مثلث کے اضلاع کو فتح کرتے ہوئے ،فیثا غورثی زائچہ بناتے ہو ۔
فارابی کی طرح تشریح کرتے ہوئے ،ابو ریحان البیرونی کی طرح آوارگی کی وسعتوں میں ،جابر بن حیان اور بو علی سینا کی طرح مختلف زخموں پر مرہم پٹی کرتے ہو ، دھونی بھی رماتے ہو۔کبھی کبھی درد کے تشدد سے زمین پر لیٹے تڑپتے رہتے ہو جس سے حواس ، مظہری دنیا سے عنصری دنیا تک ، دھڑکنوں کا داخلی ادراک اور خارجی ترکیب واضح ہو جاتی ہے۔
یہی نثری نظم رسم اسرار کے ساتھ سنگ تراشی کرتے ہوئے ، پانیوں کے ساتھ بہتے ہوئے ، بادبانی بجروں کے بادبانوں پر عیاں ہوتی رہی۔
عبداللہ تم نثری نظم کے نقیب اور اسیر ہو۔ تم نے کبھی اس طرح بھی سوچا۔۔۔؟

اے وقت۔۔۔!
تجھے واسطہ پیغمبرانہ تعلق کی آئینہ داری کا!
ذرا پیچھے بھاگ۔۔۔!
اُسی نشاط حساس کے بانکپن کے نزدیک۔۔۔!
سبز بیلوں پر کھلے سرخ پھولوں اور مندر کی سیڑھیوں کے نزدیک!
جہاں لرزتے شبنمی لہجے کے چاک پر!
موسم چنار و صندل کا اساسی گلاب تخلیق ہو رہا تھا
دشت شعور میں محبت کی نشانی چمک رہی تھی
داسیوں کے سینے سے!
عقیدتوں میں ڈوبا۔۔۔وارفتگی کا نصاب طلوع ہو رہا تھا
میں نے اُس کی نثری نظم سنی__پھر صحرا کے جلتے بدن سے وحشی ہوائوں میں جھلستے خواب تک ، اک نظر دوڑاتے ہوئے کہا۔۔۔!میں نے عجم کی وادیوں میں لہلہاتی فصلوں میں مسکراتی، گنگناتی گوریوں کی جبیں چوم کر ، چاندنی راتوں میں گنگا اور جمنا کے دریائوں میں ۔۔۔پوربی اور اْتری سمتوں میں محبت کو سفید مندروں کے سنہری کلس سے گلے ملتے ہوئے دیکھا۔ میں نے نارائن کے ساتھ پانیوں پر تیرتے ہوئے، کیلاش پربت پر دیویوں کیساتھ رقص کرتے ہوئے دیکھا:

میں نے وجدان کے تازہ سحر میں سمٹ کر!
پھولوں کے ساتھ۔۔۔کسی کے پاؤں سے لپٹ کر!
انگ بھبھوتی رماتے ہوئے۔۔۔دیکھا۔۔۔!
اس نے سانسوں میں خمار اْتار کر!
جسے بے باک حیرت کے زاویوں میں!
تشکیک اور گمان کی رگیں کاٹ کر!
اک پتھر کو دیوتا بناتے ہوئے دیکھا
اس نے گنگا کو خانہ شیو سے نکلتے ہوئے!
جمنا کو شراب میں تڑپتے ہوئے دیکھا
میں نے اسے۔۔۔دیوی کے ہونٹ چوم کر!
کالی مرچ اور سبز الائچی کے ڈالیوں کو!
ساحل مکران تک لاتے ہوئے دیکھا
بہلول حالت وجد میں نہ جانے کیا کچھ کہہ رہا تھا۔ میں بھی خاموشی سے لیٹ گیا۔ اور آنکھیں بند کر لیں۔ کافی دیر بعد۔۔۔۔بہلول بولا۔۔۔!
جب لکشمی ، سرسوتی دیویاںوجود میں آئیں تو ہندوؤں کی جو کتابیں کہتی ہیں وہ بالکل نثری نظمیں لگتی ہیں۔ اس پر میں نے اس کی طرف کروٹ بدلتے ہوئے دیکھا۔۔۔! وہ بڑے ہی خمار آلود انداز سے کہنے لگا۔ تم مجھے پتہ نہیں کیا سمجھتے ہو۔ لیکن مجھے جو اچھا لگتا ہے، میں اسی کی تاثیر کے ساتھ محو سفر رہتا ہوں۔ مجھے نہیں پتا ہم کب بچھڑ جائیں گے؟ اسی لیے دل میں جو بھی ہوتا ہے اسے بولتا رہتا ہوں:
میں پیام زاہدان میں!
آذر بائیجان کی خوشبو کو رقص کرتے ہوئے دیکھتا ہوں
قم، رے، سامرہ کی مٹھیوں میں!
نیل کی روانیوں میں۔۔۔!
جمال مستجاب کی نشانیاں دیکھتا ہوں
لوگ مجھے سیلانی، آوارہ، پاگل کہتے ہیں
میں تعبیر کو ۔۔۔تاثیر سے گلے ملتے ہوئے دیکھتا ہوں

میں نے بڑے سکون سے بہلولی نثمیہ مصرعے سنے۔۔۔اور ایرانی تقویم میں مختلف ستاروں کے زائچوں کے نقشے۔۔۔ذہن کے پردے پر بنتے مٹتے دیکھنے لگا۔ اسی دوران بہلول سے مخاطب ہو کر! عتیق و جدید کے منظروں میں ایرانی تفہیم کا سوال کیا۔ بہلول ابھی چپ تھا۔ لیکن مین نے بولنا شروع کر دیا۔
ایران میں یہودیوں کی موجودگی تین ہزارسال پرانی ہے۔ جو اسرائیل سے آشور، بابل اور مغربی ایران میں مختلف ادوار میں ہجرت کرتے رہے۔ یہ لوگ اب بھی آذر بائیجان کے مختلف حصوں میں نظر آجاتے ہیں۔ اسی وجہ سے فارسی اور عبرانی زبان کے باہم ملنے سے۔۔۔اک تیسری زبان وجود میں آئی۔ اس تاریخ کا مطالعہ کرنے سے ایک آستر نامی خاتون کابھی پتہ چلتا ہے۔ جو مرد کی نامی شخص کی بھتیجی تھی۔ یہ خاتون یہودی ہونے کے باوجود ایران کی ملکہ بنی۔ اس وقت کا بادشاہ ہامان تھا۔ جو یہودیوں کا دشمن تھا۔ لیکن اس کی سازشوں کا پتہ چلنے پر اسے پھانسی کی سزا ہوئی تھی۔
اس کے مرنے کے بعد’’ مردکی ‘‘ بادشاہ کا مشیر بنا۔ یہ پاک باز وہی خاتون ہے، جس کے نام سے کتاب مقدس کے عہد نامہ عتیق میں ایک حصہ یا ایک باب ہے۔ میرے خیال میں ایک بات کہنا مناسب ہے۔اس کے باب کا نام ابی خیل تھا۔اس کی کچھ نثری نظمیں دستیاب ہوئی ہیں۔ جن کا اسلوب زبوری فضاؤں میں دھندلا سا یونانی لڑکیوں کی تنہائی میں سرگوشیوں جیسا نثری نظمیہ اسلوب سے ملتا جلتا ہے۔ جن پر مذہبی رنگ غالب ہے۔ اسی دور کے گردو نواح میںہخامنشی خاندان کی حکومت بھی موجود تھی۔ جس میں ’’ہراسا‘‘ اور ’’ہمدان‘‘ کے علاقے شامل تھے۔
اساطیری دور میں ایسی عورتوں کے نشانات بھی ملتے ہیں جنہوں نے مختلف مذاہب کو اپناتے ہوئے، دیواروں پر تصویری شکل میں دِلی جذبات کو عیاں کیا۔ وہ اگر آگ کی پوجا کرتیں۔ تب بھی چند حرف و معانی سے بنی ہوئی چادر ضرور اوڑھتی تھیں۔ جس سے ان کے دل کے تڑپنے کی کیفیت کا پتہ چلتا تھا۔ وہ آتشکدوں میں موبدوں( اتش پرست راہب) سے مختلف فطری مسائل کا حل معلوم کرتیں ۔ پھر چاندنی راتوں میں سر گوشیوں کے انداز میں جو ذہن سے دل کی سر زمین پر اترتا۔۔۔اسے زبان سے ادا کرتی رہتی تھیں۔ میں نے اپنی طرف سے اس گفتگو میں اضافہ کرتے ہوئے، تفسیر قرآن کے حوالے سے کہا۔ ۔ ۔ کہ۔۔۔!
مجوس۔۔۔مجوسی کی جمع ہے جو دوخداؤں کو مانتے ہیں۔ یزدان اور اہرمن۔عرب انھیں مجوسی کہتے ہیں۔ اور عجمی ان کو آتش پرست کہتے ہیں۔
اس پر بہلول بول پڑا۔۔! یہ وہی مذہب ہے ، جس کا بانی زرتشت تھا۔ ساسانی عہد میں یہ شاہی مذہب تھا۔ اسی دور میں مزدوک اور مانی مذہب کو بھی خوب پذیرائی ملی۔ جب کہ زرتشی علماء اس کے مخالف تھے۔ آخر کار نوشیروان نے مزدوک مذہب کے ایک لاکھ پیرو کار قتل کروا دیے تھے۔ یہ نوشیرواں وہی ہے، جس کی دو پوتیاں تھیں۔ ایک کا نام زنان بانو اور دوسری کا نام کائنات بانو تھا۔ لیکن کائنات بانو کا نام بدل کر شہر بانو رکھا گیا تھا۔جو امام حسین ؑکی بیوی اور امام زین العابدین کی ماں تھیں۔
یہ ارد شیر اول اور پارتھیوں کا دور تھا۔ اسی کے ساتھ سفر کرتے ہوئے ، ہم یزدگرد سوئم تک آتے ہیں۔ جو سلطنت اسلامیہ کے دوسرے خلیفہ کا دور بنتا ہے۔ عرب کے چوکوں اور ستاروں کی چھاؤں میں نرم ٹھنڈی ریت پر بیٹھ کر، کچھ صالحین ادب پتھروں سے ٹیک لگائے ،ادب ، سبامعلقات اور امراو القیس جیسے مقربین کی باتیں کرتے رہتے تھے۔ جن میں نثری نظم کا بھی ذکر چھڑ جایا کرتا تھا۔ جس پر کافی طویل بحثیں ہوتی رہتی تھیں۔
علمی، سیاسی اور فلسفیانہ بحثوں کا سلسلہ مذہبی رنگ میں بھی موجود رہتا تھا۔ جو امام اعظم سے ہوتا ہوا، علامہ ابن جوزی تک آتا ہے۔ جنہوں نے آتش پرستوں پر بڑی تفصیل سے لکھا ہے۔ وہ ان عورتوں کے بارے میں بھی لکھتے ہیں، جو آتشکدوں کی دیواروں پر اپنے دل کی باتیں لکھ جایا کرتی تھیں۔
قدیم آتشکدوں کی دیواریں عصری تشدد کی وجہ سے مٹی ہو گئیں، لیکن جو اس تشدد کے باوجود بچ گئیں۔ ان پر لکھی قدیم ایرامی اور عبرانی رسم الخط میں لکھی عبارتوں کا۔۔۔ صالحین نے جوترجمہ کیا ہے وہ قابل قدر اور لائق تحسین ہے۔ جو میرے نزدیک نثری نظمیں ہیں۔
میں بہلولی خطبات میں چھپے سفر نامے، افسانے اور نثری نظمیں اطمینان سے سن رہا تھا۔ بہلول نے بڑے اطمینان سے اپنی گٹھڑی سے ایک چیز نکالی ، جو نہ تھرماس تھی۔۔۔نہ ہی مشکیزہ یا چھاگل تھی۔ بلکہ ایک بوتل پر کپڑا سا لپٹا ہوا تھا۔ پھر اس میں سے۔۔۔دو پیالوں میں پانی ڈالا۔۔۔! ایک بوسیدہ سے رومال میں سے سوکھی روٹی کے دو ٹکڑے نکال کر ، ایک مجھے دیتے ہوئے، خود بھی مزے سے ایک ٹکڑا پانی میں بھگو کر کھانے لگا۔ روٹی کھانے کے بعد۔۔۔!
اس نے ایک نوک دار پتھر لیا۔ اپنی ٹوٹی چپل کے اوپری حصے کو تلوے پہ رکھ کر، دوسرے پتھر سے ضربیں لگائیں۔ جب اوپر نیچے دونوں طرف سوراخ ہو گیا۔ تو اس میں دھاگہ ڈال کر باندھ لیا۔ پھر اسے پاؤں میں پہن کر ایک ہاتھ میں پوٹلی جیسی گٹھڑی اور دوسرے ہاتھ میں لاٹھی لیے چلنے لگا۔ وہ اس وقت نہ چرواہا۔۔۔نہ سارباں لگ رہا تھا۔ بلکہ اک خانہ بدوش لگ رہا تھا۔ میں بھی اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ میری حالت سیلانی، آوارہ جیسی تھی۔
میں مختلف خیالوں کے ہجوم میں زائرین عرفان کی عقلیہ حقیقت کے تلازموں میں معنویت کا نسب نامہ دیکھ رہا تھا۔ شام کا دھند لکا۔۔دھیرے دھیرے تاریکی کی چادر اوڑھتے ہوئے، ستاروں کو جھنجھوڑ کر، جگا رہا تھا۔ دن بھرکا تھکا ماندہ سورج، کعبہ کا طواف کرنے کے بعد، نجف کی طرف چراغ جلانے چلا گیا تھا۔ پرندے مشکل لمحوں کے چہروں پر لکھی تحریریں پڑھتے ہوئے ، بحث و مباحث کے دوران مناجات و منقبت پڑھتے ہوئے ، خاموشیوں میں ڈوب کر ، ساحرانہ نیند کی وسعتوں میں نہ جانے کن خوابوں کی آغوش میں سو گئے تھے۔ میں اپنے خیالوں میں ڈوبا ہوا تھا۔۔کہ۔۔بہلول کی چپ کا روزہ افطار ہو گیا، وہ میری طرف دیکھے بغیر روانی سے بولنے لگا۔
عبداللہ۔۔۔! جب ہم کسی غیر مانوس بستی میں داخل ہوتے ہیں۔ تو لوگ ہمیں سوچوں کے بیچ کھوجتی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ لیکن کتے بھونکتے ہیں۔ حالانکہ وہ فقیروں کو بھی دیکھ کر بھونکتے ہیں۔ حقیقی فقیر میں ایجابی کیفیت ہوتی ہے۔ مسافر میں حساسی قبولیت ہوتی ہے۔ دونوں فکری اور عملی قوت کی شرطوں کے اسیر ہوتے ہیں ، جو خواہشوں کی تسخیری مشقوں میں خیالی مضامین کے رحجان کو تشکیکی نظروں سے دیکھتے ہیں۔
وہ تکمیلی ہیئت کو امکان کے روبرونفسیاتی معانیوں کی وفاداری کو لمبے عرصے تک تجرباتی لیبارٹریوں میں نہیں رکھتے۔ کیونکہ دونوں کو تسکینی لطافت سے غرض ہوتی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے۔ ایک پرانی گلیوں میں صدائیں دیتے ہوئے نکل جاتا ہے، اور دوسرا جذباتی بقاء کے رومانی عہد کو مختلف جزیروں کے صفحوں پر لکھتا چلا جاتا ہے۔ یہی فکر طرازی کا مربوط زاویہ تعلقات مصوری کے حوالوں میں لمحوں کی طرح تقسیم ہو کر ، دلفریب رنگوں کی تفہیم کرتا ہے۔
ان سارے معاملات میں افکاری قافلے تسلیمی اعمال کے ساتھ محوِسفر رہتے ہیں۔ یہی سفر کبھی واقعاتی تو کہیں داستانی بیانات کی عمومی صداقتیں بن کر، تاریخی مواد بن جاتا ہے۔ اس مقام پر تسلیم شدہ بیان، اس لیے حقیقت سے خالی نہیں ہوتا۔ وقت کے سائے میں کچھ لوگ جہاں سے قافلہ نکلتا ہے۔ وہیں واپس آجاتے ہیں اور کچھ لوگ جہاں قافلہ جا کر قیام کرتا ہے وہیں رہ جاتے ہیں۔ پھر اجتماعی رسوم کے تہواروں میں جو واقعات پیش آتے ہیں ان کو بیان کیا جاتا ہے۔
اسیبیانیہ تحریک کے سلسلوں میں ضد اور انا بھی شامل ہو جاتی ہے۔ میرے دل میں ایک درد سااٹھا۔۔! جو آسمان پر مجھ سے لپٹ لپٹ کے۔۔! زمین پر جانے سے روک رہی تھی۔ وہ چاندنی کی طرح ذہن میں اتری، پھر دل کی زمین پر دید کی پیاسی۔۔۔ ایڑیاں رگڑنے لگی۔ بس اس کے ایڑیاں رگڑنے کی دیر تھی۔۔۔کہ میری آنکھوں سے چشمے بہنے لگے۔ بہلول میری طرف دیکھتا رہا۔ میں بڑ بڑانے کے اندازمیں، چندنثمیہ لائنیں بولنے لگا:

فلک کی جالیوں سے۔۔۔!
زینت حسن دف بجاتے ہوئے اترنے لگی
دست حنائی کے زاویوں میں!
کشش قاف کی ہیئت ویران جھیلوں کو سبزہ گاہ کرنے لگی
اس کی خوشبو۔۔۔!
زمانوں کے دل میں اترتے ہوئے!
دل کی دھڑکنوں میں۔۔۔آہٹوں کو بنتے ہوئے!
بزمِ فسوں کی خیمہ گاہ کو!
محبت کی خانقاہ۔۔۔خانۂعشق کو بارگاہ کرنے لگی
میری مسافت گرد آلود۔۔۔میرا اثاثہ جنگلوں میں بکھرتا رہا
اس کے وعدوں میں چھپا لمس۔۔۔!
پھر بھی اسی کی محبت کا پتہ دیتا رہا
صندل میں بسی روشنی صحرا کو آباد کرتی رہتی
بدن زخموں کا فرغل پہنتارہتا۔۔۔!
روح تڑپتے ہوئے۔۔۔اسے یاد کرتے ہوئے۔۔۔!
غار قیس سے دشت لبنیٰ کی طرف نکلنے لگی
عبداللہ جانی۔۔۔!میں تمہیں برا نہیں کہتا۔ میں بس تمہیں یہ کہنا چاہتا ہوں۔۔۔! تم جس سے بھی ملو ، وہ تمہاری دھڑکنوں کو سمجھ لے۔۔۔! میںنے آج پہلی بار۔۔! بہلول کو اداسی میں ڈوبا ہوا دیکھا۔ وہ سر جھکائے ہوئے اپنی دھن میں مگن بول رہا تھا۔ چند لمحے سانس لینے کو رکا ، اور پھر روانی سے بولنے لگا۔
میں صرف یہ چاہتا ہوں ، کہ تمہارے دل میں بسی محبوبہ کو۔۔۔یہ لوگ پہچان لیں۔ دیکھو ایک کی پسلی نکال دی گئی۔ لیکن وہ زندہ ہے۔ جو پسلی نکلی۔۔۔وہ اپنی علیحدہ حقیقت سے اپنی الگ پہچان کے ساتھ تیری روح میں اتر گئی۔ میں بہت اچھی طرح جانتا ہوں۔۔۔جب۔۔۔!

خدا اپنا پہلا خطاب کر رہا تھا
سبز بانہوں کی تخلیق میں!
سرخ موجوں کی روانی کنواری کرنوں میں ہمراز تھی
مخمور معانیوں کی ہمراز۔۔۔فسوں خیز زندگی
تیرے پہلو میں بیٹھی۔۔۔!
مقطعات عشق کا ورد کر رہی تھی
جب تیرے پہلو میں تیری محبت ، چاہت بیٹھی، تجھے بڑی فریفتگی سے دیکھ رہی تھی۔ تب تم نے بھی بہت کچھ بولا تھا۔ یا دہے نا۔۔۔؟

جب تو نے فلک کی جالیوں کے نزدیک
بارگاہ عشق میں پہلا کلام کیا تھا
وہ مست چراغ کی الست روشنی میں!
آب مغرب ، تاثیر عشاء کی زندگی میں!
دست حنائی میں ایجاب نثر قبول نظم کی کتاب لیے آئی تھی
تہجد شناس نظروں سے دیکھتے ہوئے!
فجر شناس ہونٹوں سے چومتے ہوئے!
پہلے رشتے کی استواری میں!
ماہتابی کساء بن کے جھک رہی تھی
حواؑ کی طرح لپٹ رہی تھی
بہلول یہاں رکا نہیں بلکہ اس نے میری طرف دیکھتے ہوئے شہادت کی انگلی سے ریت پر دائرہ بناتے ہوئے کہا ۔۔۔!
معلوم نہیں تم نے فلک پر کتنا عرصہ گزارا تم اگر اک دوسرے کی بانہوں میں گم ہو جاتے، تو کئی بہاریں طواف کرتے ہوئے ، تم دونوں کی حالت دیکھ کر، مختلف کیفیات کو الوہی فرغل پہناتی۔ خوشبو کی شناسا آیتیں تلاوت کرتی رہتیں۔ پھرآنے والے وقت میں جن کھڑکیوں کے پردوں سے تم نے باتیں کرنی ہوتی تھیں۔ انہی پردوں کے گیت گاتیں۔ لیکن تمہیں تو اپنی محبت سے فرصت نہ ہوتی۔ تم تو قطرہ قطرہ شبنم کی طرح معصومیت سے شباب کے دائروں میں فقیہہ سانسوں کی توریت والا نجیل کے لہجے میں تلاوت کرتے رہتے۔۔۔فریفتگی کی محراب پر زبور کی رحل پر سورہ یوسف کی تفہیم و تفسیر میں گم رہتے ہوئے:

جذبات تطہیر کے منظروں میں!
ولایت جذبات کی سمتیں متعین کرتے ہوئے
کوہ بلقان کی وادیوں میں۔۔۔کون لبنان کے دامن میں!
صندلی جنگلوں سے سرگوشیاں کرتی ہواؤں کو سوچتے رہتے تھے۔
عہد الست کے ذوق وفا کو۔۔۔!
آب ایلافِ دلنشیں کو۔۔۔!
لاہوت و جبروت پیالوں میں بھرتے ہوئے!
کبھی تشکیل میکدہ میں۔۔۔کبھی وارفتگی کی مدہوش دھڑکنوں میں!
تعبیر خواب کے مکمل زائچوں کے ساتھ پیتے رہتے
جمیل تقاضوں میں۔۔۔بنتِ خمار کی سرگوشیاں گونجتی رہتیں
تم میثاق چاہت کی سطروں میں ڈوبے!
خیر العمل کی فسوں زاد نثری نظمیں لکھتے رہتے
پھر اس کے بعد۔۔۔وہ ابتدائی بقاء میں اجتماعی اجتہاد کی تمنا اور فناء کے تخیل کا رنگ بھرتے ہوئے، کریمی حسن میں بدلتے موسموں کا رنگ سمو کر، معانیوں کی درجہ بندی بدلنے لگا۔ منطقی روشنی کے اجزائے ترکیبی میں مستقیم مقدمات کی پہچان کو تقسیم کرتے ہوئے، بنیاد و تعلق کو مستقل تلازموں کے ساتھ واضع کرنے لگا۔ میں اس دوران عجیب کشمکش کا شکار ہو کر، ان ادبی وادیوں میں بھٹکنے لگا۔ جن میں زرتشی عورتیں اجوائن کے ساتھ صندل سلگاتیں پھر اپنے محبوب کا نام لے کر۔۔مختلف پتے اپنے سینے، اور ہونٹوں پر لگا کر، محبت کے لفظ بولنے لگتی۔
قیس بن ذریع اللیثی کنعانی اور لبنیٰ کی تصویریں ذہن سے دل کی وادیوں میںاتر کر، درد جگا دیتیں۔ قیس بن الملوح اور لیلیٰ عامری کی تصویریں بہت رولا تیں۔ لیلیٰ عامریہ نے شادی کی، ہجر کے باوجود بھر پور زندگی گزاری۔ لیکن لبنیٰ ہجر کی ماری۔۔۔دید کی پیاسی دوران عدت روتے روتے فوت ہو گئی۔ شاید اسی لیے مجھے اکثر ایسا محسوس ہوتا ، جیسے میں لیلیٰ کی گود میں سر رکھے روتا ہوں۔ وہ میرے بالوں کو سنوارتی ، مجھے دلاسہ دے کر ماتھا چومتی محسوس ہوتی۔
میں جس کا تقاضہ تھا۔ میں جسے چاہتا تھا۔ وہ زمین پر ابھی تک نہیں آئی تھی۔ لیکن مجھے وقت ان صفحوں پر تحریر کر رہا تھا جن کو پڑھ کر آنے والے دور کے لوگ یہ ضرور سوچیں گے کہ میں نے کن کن سے باتیں کی تھیں۔ بہلول نے شائد میری سوچوں کو پڑھ لیا تھا۔
وہ تھوڑا سا کرخت ہوا۔۔۔پھر میری آنکھوں میں جھانکتے ہوئے ، انتہائی سرد لہجے میں بولا۔۔۔! تم کیا زیوس ہو۔۔۔؟ اشوت نامی سپاہی ہو یا کرشن۔۔۔؟
یاد رکھو۔۔۔! سب سے پہلے الفاظ کو ان کی روانی میں ڈھالنے کی کوشش کرو۔ اس سلسلے میں بہتر یہی ہو گا کہ جس روانی سے تم مانوس ہو ، اسی روانی کو اپناؤ۔ پھر قطرہ سحرسے شفق تک کا سفر طے کرو۔ پھر تسلیم شدہ حجاب کے بارے میں محسوس و معلوم کو پرکھتے ہوئے ، علم الاحادثات اور تعبیری احساسات کے دلائل کے بارے میں مختلف اذانوں کی تشریح بھی کر لو۔ اگر تم اس مقام تک پہنچ جاؤ گے۔ تو صالحین اور منافقین کے درمیان سولی پر لٹکنے سے بچ جاؤ گے۔
یوں پھر تم اسیر سوسن، حیرت نسترن کی گرہیں کھول کر ، آنکھ اور دماغ کے درمیانی افق پر چمکتے ستاروں کو دیکھ لو گے۔ جو جلامی احساسات کے ساتھ وقار ازل سے محشری افراتفری تک کی داستاں سنا رہے ہوں گے۔ اسی داستان سے آتش پرستوں کا جنگلوں اور پہاڑوں میں چھپنا، لباس بدلنے والوں کا مختلف وادیوں میں رہنے والوں کے ساتھ گل مل کر رہنا، پھران سے آرین کا وجود میں آنا سمجھ آجائے گا۔
یہ تو تم اچھی طرح جانتے ہو۔ مہندی کے سبز پتوں کو توڑ کر ہاتھوں پرملنے کے بعد، جب دھویا جائے تو سرخ رنگ عیاں ہو جاتا ہے۔ اسی طرح فطری حقیقت کی راہوں پر چلتے ہوئے، جب اعمال معنی کے نظریہ کی تشکیل ہوتی ہے۔ تو پھر تشکیکی رگوں کو کاٹتے ہوئے، منطقی جذبات کا رنگ ابھر آتا ہے۔
تم مجھے ترتیب تعلق کے دائمی خیال اور محسوسات جمال کے زائچوں میں مشکوک نظر سے نہ دیکھو۔ کیوں کہ سارا قرآن گواہ ہے کہ مرکزی شعور اور ذات محسوس کو علیحدہ کرتے ہوئے، معلوم کو تسلیم شدہ منزلوں کی طرف آتے ہوئے، مسافت کے معنی اور منکرین کا تسلسل واضع ہو جاتا ہے۔
’’ہم رات کے سینے سے دن کو کھینچ لیتے ہیں۔‘‘(القرآن)
یہاں شعور کا سفر اندھیرے سے روشنی کی طرف اور پھر روشنی سے اندھیرے کی طرف واضح ہے۔اس کے بعد انجیلِ مقدس کی آیت بولتے ہوئے آگے بڑھ جائوں گا۔
’’جو جان گناہ کرے گی وہی سزا پائے گی۔‘‘(انجیلِ مقدس)
اس کے علاوہ دوسری آیت جو ماورا لنہر کے علاقے میں مسلمانوں کو زندہ جلانے کے لیے بولی تھی۔ وہ بھی بول دیتا ہوں۔
’’جس درخت سے پھل نہ ملے اسے کاٹ کر جلا دو۔‘‘(انجیل مقدس)
لیکن جب گالوں اور کلائیوں پر سرخ رنگ کو سورہ الرحمن میں ’’لولو والمرجان‘‘ کی میزان پر دیکھتا ہوں تو بائبل کی یہ آیت بھی یاد آجاتی ہے:’’خداوندنے شمال کی جانب صحرا میں دریا کنارے اپنے لیے ایک عظیم مذبح وقف کیا ہے‘‘ ۔(پرمیاہ)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...