Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > اِیلافِ وفا > ارادھنا(کرونا وبا کے تناظر میں)

اِیلافِ وفا |
حسنِ ادب
اِیلافِ وفا

ارادھنا(کرونا وبا کے تناظر میں)
ARI Id

1689953282333_56116995

Access

Open/Free Access

Pages

52

ارادھنا
(کرونا وبا کے تناظر میں)
آسمان سے بارش نازل ہوتی ہے
محبت کی نشانیوں کو دفن کرتے ہوئے!
صبح و شام کے معانیوںمیں!
لذت خواب کی تعبیر کو پیاسا تڑپتا چھوڑ دیتی ہے
اے محبت۔۔۔اے محبت۔۔۔!
میری رگوں میں رواں دواں۔۔۔اے محبت!
تو بھی دیکھ رہی ہے
دلفریب دھڑکنوں کا دشمن!
سبز درختوں کے سائے میں۔۔۔!
میرے خیموں کو جلانا چاہتا ہے
میری معصوم کلیوں کی لاشیں!
ویرانوں بیابانوں میں بکھری پڑی ہیں
میرے دو بیٹوں کے کٹے سر قصر ِعمارہ میں!
دھڑ ندی میں لمحوں کے ساتھ بہتے جا رہے ہیں

وصال مبیں کی وسعتوں میں!
مقام جمال کی رفعتوں میں!
سبز بہار کا دشمن۔۔۔!
خوشبو کے قبیلے کو برباد کر رہا ہے
اے محبت۔۔۔ میری پیاری سبز محبت!
تیری چادر تطہیر سے مس ہو کر!
عود و لوبان زندہ ہوتے ہیں۔۔انجیر و زیتون مسکراتی ہے
نیازِ الہام نامہ بروں میں تقسیم ہوتی ہے
فرشتے خود تیری دہلیز تک چلے آتے ہیں
اے محبت۔۔۔جمال شہابہ کی ردا، کساء محبت ۔۔۔!
دشمن نے ہواؤں میں زہر گھول کر!
ظہر اور عصر کے بیچ میرے بازو کاٹ دیے ہیں
گھونسلوں میں فرشتوں کو جلا دیا ہے
میں سورہ عشق کی تلاوت کر رہا ہوں
وہ میرا سر بھی کاٹنا چاہتا ہے
اے محبت۔۔۔ذرا صبر۔۔۔!
بس اب مسیحا آنے والا ہے

بہلول جب مذبح کی باتیں کرتے ہوئے، تصوراتِ آشنائی کی لازمی شرطوں میں ساختیاتی اعمال کی تنہائی بیان کر رہا تھا۔ تو یہ وہ مقام تھا، جہاں سوالات کی بہتات ختم ہو جاتی ہے۔ یہاں صادقین کے اذہان اور دھڑکنوں کے بیچ طلسم سولی پر لٹکتا نہیں، بلکہ طلسم قلندروںپر نازل ہوتے ہوئے، سمعی اور بصری احساس کی شکل بن کر جنون کو جگا دیتا ہے۔ اس سارے منظر نامے سے آگہی ، شعور حاصل ہوتا ہے۔ جو خیالات کو خزانی نیزوں سے اتار کر، احوال شعور کے صادق ہونے کی تصدیق کرتا ہے۔ پھر شفاف بصیرت کی فطری منزلوں میں موجود یادوں، خیالوں اور جذبات کے احسن التقویم کی وادیاں دکھاتا ہے۔ پھر احساسات بسیط کے عصری فلسفوں سے منسوب تشکیکی علامتوں کی روانیوں میں مختلف حالتوں کا ذکر کرتا ہے۔ وہ حقیقی نظریات میں جلال و جمال کا صحیفہ کھولتا ہے۔
اضطراب کی کیفیت کو ، سکون کی حالت سے علیحدہ کرتے ہوئے ، متغیر شہادتوں کو عجمی نظریات کے روبرو لا کھڑا کرتا ہے۔ اس سے عبرانی مسافتوں کی حالت واضع ہو کر، سفر ناموں اور افسانوں کے چہرے دکھاتی ہے۔ لیکن ذہنی اور جسمانی تعلقات کی روانی درد اوراذیت کے بارے میں دلائل دیتی رہتی ہے۔ جس سے کبھی رادھا اور کرشن کے افسانے عیاں ہوکر، میرا اور لبنیٰ کی ہیئت ظاہر کرتے ہیں۔ کبھی رام چندر اور سیتا کی داستاں موسٰیؑ اوران کی کہانی کے نمونے واضح ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔ اس مسافت میں ضروری نہیں ، کہ زخم نظر آئیں۔
اگر زخم نظر آئے گا، تو درد اور اذیت کی نثری نظم ضرور واضع ہو جائے گی۔ وہ چاہے رادھا کے لبوں سے ادا ہو یا میرا کی دھڑکنوں سے۔۔۔! ان سبھی سے انکار ممکن نہیں۔ اگر انکار واجب ہو تو متحرک برچھی اسباب ہیئت کے سینے میں اترتی نظر آئے گی۔ جس کے ساتھ خنجر بھی ہو گا۔ جو سارے مکافاتِ عصر کی گردن کاٹ دے گا۔ بدعت ناچتے ہوئے آئے گی اور خمار کا سینہ چیر کر کلیجہ نکالے گی ، قہقہے لگاتے ہوئے ، چبائے گی۔ ضد اور انا فریفتگی کو سنگسار کرتی رہے گی۔
میں نے بہلول کی باتیں سنتے ہوئے، اک ٹھنڈی آہ بھری۔۔۔! چند لمحے عقلی صداقتوں سے استدلال کرتے ہوئے، تسلیمی میدان میں اختلافات کے روبرو تعلقات یقین کی سند کو دیکھا۔ سبز اور نیلے باب سے ماہرین حرف و معانی کے سیاہ و سفید کی علمی صلاحیت میں زردیوں کی گرہیں کھولتے علم کی روشنی میں کہا۔۔۔!
آ پ نے تو بے دردی سے قتل عام شروع کر دیا۔

مجھے سبز پیڑوں کے سائے میں!
ابھی زخمی پرندوں کے ساتھ!
طاق سحر کے رازداں کی۔۔۔
ظہر کے خیموں میں مسافتوں کے امین کی!
عصر کے رو برو۔۔۔ سورہ حسن کی تلاوت کرنی تھی
فطری تہذیب کے ابجدی منظروں کو بیان کرنا تھا
دیواروں پر لہو سے لکھی ہوئی!
ممکناتِ جمال کے طلسم کی حکایتوں سے ملاقات کرنی تھی
میری یہ باتیں سن کر۔۔۔بہلول پھر سے اپنی پرانی روانی کی حالت میں آگیا۔ اس نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا۔۔۔! عبداللہ۔۔۔!
تمہیں جس سے پیا رہے۔تم اسی کے خمار و سحر میں ڈوبے رہتے ہو۔ کبھی اندر کی آنکھ کھولو، اور اپنے ارد گرد دیکھو۔۔۔! تو تمہیں رجی راشی بھی نظر آئے گا۔
یہ رجی راشی وہی ہے، جس کے ماں باپ نے اس کا نام صلو مو اسحاق رکھا تھا۔ اس نے تالمود کتاب کی شرح و تفسیر لکھی ہے۔ اس کی تفسیر و شرح کے حوالے سے یہودی علماء نے اپنے اپنے نظریات بیان کیے ہیں۔ جس میں صحیفہ شیث ؑ کے بارے میں دلائل اور ایسی تحریریں لکھی ہیں۔ جن کا کرافٹ نثر ی نظم سے ملتا جلتا ہے۔ غور سے سنتے رہنا۔ میں نے قریب ترین نہیں کہا۔۔۔! اس میں عشرہ تقویمی جو اہل مجوس میں بھی ملتا ہے لسان داؤ دی، اشکنازی کے ساتھ تقویم حنو کاہ، بیت مدراش ، لسان القدس،صنمیات تورات جیسی کتابوں میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
میرے نزدیک یہ ساری کتابیں یہودی معاشرے نے صرف ’’پسندیدہ قوم‘‘ کے لیے ہی لکھی ہیں۔ لیکن قدیم ساختیات، ما بعد قدیم ساختیات کی راہوں پر چلتے ہوئے، وہ تورات کی اہمیت کو بھول نہیں سکے۔ اس کے علاوہ یہودیت کی علمی اور ادبی کتاب ’’زوہر‘‘ یا ’’ظہر‘‘۔۔۔! ترتیب و تاریخعال Olam rabbah the great order of the world" "Seder اسی کا حصہ ہے۔ جس کی ’’یوم العالم‘‘سے بھی کچھ روایتوں کی رشتے داریاں ملتی ہیں۔ اس میں کچھ ترمیم کرنے کے بعد ’’قصص اسرائیلیات (اَگادا یا اَگدہ) سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ تلمود کتاب، ایسی کتاب ہے ، جس سے یہودیت اور مسیحیت کے ساتھ مسلمانوں کو بھی انکار کرنے کی ہمت نہیں۔
اس کتاب میں دریائے فرات کے ساتھ ساتھ جو دشت بیابان پھیلا ہوا ہے، اس کے بارے میں بہت کچھ لکھا ہوا ہے۔ اس میدان سے جونبی گزرا اس کا لہو ضرور اس میدان میں بہا تھا:
نہ جانے پرانے درخت کی شاخوں سے
کس کے سفر کی باتیں کرتے تھے
پھر تڑپتے ہوئے۔۔۔زمیں پر گرتے ہوئے!
پرندے زندگی کے محور سے نکل جاتے تھے

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...