Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

اِیلافِ وفا |
حسنِ ادب
اِیلافِ وفا

سلام
ARI Id

1689953282333_56116998

Access

Open/Free Access

Pages

59

سلام
جس نے خواب کے دین۔۔۔سحر کے ایمان کو!
روشن استعاروں میں گونجتی اذان کو!
چاہتوں کے شفیق موسموں میں سمو کر!
چاروں سمتوں کے سنگم پر۔۔۔
تطہیر کساء کا پانچواں چراغ روشن کیا
اس حسینؑ ابن حیدر پہ لاکھوں سلام
جس نے موت کی نبض پر ہاتھ رکھ کر۔۔۔!
نوک نیزہ پہ سورہ کہف کی!
توریت والانجیل کی گرھیں کھول دیں
سرمئی لوح کی رگوں میں سبز زندگی بھرتے ہوئے!
جس نے میزان حق میں!
در ِ وفا ۔۔۔شہر وفا کی آبرو تول دی
اس حسینؑ ابن علی ؑ پہ لاکھوں سلام
بنتِ محمدؑ و علی ؑ پہ درود و سلام

میں مختلف خیالوں میں الجھا ہوا تھا۔ لیکن بہلول نے محبت کی باتوں میں مختلف تلازموں کو واضع کرنا شروع کر دیا تھا۔ میں انسانی نمود اختیار میں محبت کی داخلی اور خارجی کیفیتوں میں جنگ سے کتراتے ہوئے،۔۔۔خیال، آرزو اور چاہت کے دامن تھامتے ہوئے، تنہائی پہ فریفتہ گزرتے لمحوں کے درمیان احساس تازگی کی وسعتوں میں جو بھی سوچتا۔ وہ نثری نظم یا نثم کی شکل میں ہی سوچتا۔ حالانکہ میرنے نزدیک نثری نظم اپنی شکل، کرافٹ اور ’’انزلنا ھو فی لیلۃ القدر‘‘ کی ہمرا ز نظر آتی ہے۔ جب کہ نثم کے نام کو عقلیہ کی تخلیقی جامعات میں اصلاحی دائرے میں ملنساری کی تہذیب کے طرز عمر کی لمبی مسافتوں کے بعد سامنے لایا گیا ہے۔
ان دونوں اصناف یا ایک ہی صنف کے دو نام کہہ دیا جائے۔ مجھے اس سے کوئی مسئلہ نہیں۔ لیکن ریاض مجید کے حوالے سے اکثر مختلف شعراء سے باتیں ہوتی رہی ہیں۔ اس میں بحث کا لفظ جان بوجھ کر حذف کیا ہے۔ اس میں جناب خالد احمد صاحب، مقصود عامرصاحب، جواز جعفری صاحب،انہیں نثم سے بھی کوئی مسئلہ نہیں۔
جناب وجہی صاحب، اقبال سید صاحب، روش ندیم صاحب، افتخار شفیع صاحب کے ساتھ ساتھ افتخار مغل، عظیم مشوانی، شکیل نایاب، اسحاق وردگ صاحبان کے ساتھ ساتھ شاہین احمد(ضلع چاغی) صادق مشوانی،علی قمبرانی ، تاج الدین تاجور صاحب۔ صلاح الدین درویش اور احمد ہمیش کے ساتھ جب بھی بات ہوتی ، میں اس حوالے سے نثری نظم او رنثم کا کرافٹ علیحدہ علیحدہ منوانے کے لیے دلائل دیتا رہتا۔ ڈاکٹر جعفر حسن مبارک ، محمود سرور، حفیظ تبسم، امجد بابر اور میں جب کبھی ملتے، تو اس صنف پر سیر حاصل گفتگو ہوتی۔
ٍ جس میں علی محمد فرشی صاحب، نصیر احمد ناصر صاحب، اور دلائل کے حوالے سے اخلاق حیدر آبادی اور پروین کمار اشک کے ساتھ ساتھ شبہ طراز صاحبہ، خالد قیوم تنولی صاحب، حفیظ اللہ بادل صاحب، اختر رضا سلیمی صاحب، ماجد مشتاق صاحب سے بھی باتیں ہوتیں۔
اس دوران نثری نظم کے حوالے سے دو بدو تک بات چلی جاتی تھی۔ جعفر حسن مبارک صاحب ’’ کیسپر کے دیس میں‘‘ اور ’’اپنے استنبول‘‘۔۔۔جو کہ ان کے سفر نامے ہیں۔ ان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے، خلیل جبران کا ذکر بڑے دلنشین انداز سے کرتے۔ جس پر محمود سرور پر نزول کی کیفیت طاری ہو جاتی۔
میں مشتاق شباب صاحب۔ ناصر علی سید صاحب کے کالموں کی بحث میں بہت پیارے اسد محمود خان جو کہ خوب صورت ناول نگار اور سفر نامہ نگار ہیں۔ ان کا بھی ذکر خیر چلا آتا۔ جس پر ڈاکٹر جعفر حسن مبارک ان کے مضامین کے حوالے سے حرف و معانی کی لذتوں میں ڈوب جاتے۔ نظم کے حوالے سے بڑا نام امجد اسلام امجد اور ان کے بعد کمال نظم نگار ارشد نعیم کی ملاقاتیں بھی یاد آتیں۔ جس کی وجہ سے ، عظمی جان صاحب، نائلہ آپا، ریاض شاہد صاحب، فرتا ش سید کے چہروں میں خالد سجاد صاحب کا میٹھا میٹھا لہجہ شہباز گردیزی کی طرف لے جاتا۔
خیالات کی رو سے جھٹکا لگتا۔ تو اظہر عباس کی شرارتوں میں نعیم گیلانی، اشرف نقوی، شبیر بٹ صاحب کی سنجیدہ گفتگو کے ساتھ ساتھ اصغر علی جاوید صاحب، اشفاق ورک صاحب، اکرم سعید صاحب، کے شفیق چہرے اکثر نثری نظم کے حوالے سے عصری دشت و بیابان میں۔۔۔ اک خوب صورت سائے کی طرح نظر آتے۔ وقت کا پہیہ اپنی روانی کیساتھ دن رات کے راستوں پر چلتے ہوئے ، فخر زمان صاحب کی شگفتہ باتوں میں پشاور کے یار غار انور خاں کی باتوں اور ملاقاتوں کا احوال لے آتا۔
مجھ پر جب ایسی کیفیت طاری ہوتی تو اکادمی مفکرکے پلیٹ فارم پر ملنے والے عارف حسین عارفؔ سے دلی رشتہ قائم ہوا جو تاحال قائم ہے، طلوع سحر، ایوان نثری نظم کے دوستوں کے ساتھ میاں اقبال اختر، رشید مصباح، مقصود وفا، اشرف یوسفی، احمد شہباز خاور کی محبتیں، انجم سلیمی بھی یاد آجاتے جو میری نثری نظم پر محمود ثناء صاحب کی طرف دیکھتے، تو وہ کہتے، اس میں کیا خامی ہے؟ جس پر فضل حسین راہی کا قہقہہ گونجتا، عدیم ہاشمی صاحب کا آخری خط ابھی تک میرے پاس پڑا ہوا ہے۔جس میں انہوں نے میری ایک نثری نظم پر کہا تھا!
’’تم میری جان ہو‘‘
مقصود اختر، طارق ہاشمی، ریاض قادری اور قیصر ہاشمی کی محبتیں لازوال ہیں۔
میں خیالوں میں اور نہ جانے کہاں کہاں جاتا۔۔۔کن نایاب صورتوںسے ملاقاتوں کے منظر دیکھتا۔ لیکن بہلول نے جھنجھوڑ کر۔۔۔اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔! تم نثری نظم کے عاشق ہو۔۔۔؟

میں نے کہا۔۔۔وہ تو میری زندگی ہے۔۔۔میری رگوں میں سمائی ہوئی ہے۔
اگر یوں کہوں کہ۔۔۔میری روح ہے۔
میںچاک سے میثاق نثری نظم لے کراُترا تھا۔
مجھے صرف نثری نظم کے لیے تخلیق کیا گیا ہے۔ میرے سینے نے نثری نظم کے لیے سانسیں قبول کی تھیں۔ میرے دل اور دماغ نے پہلا ایجاب و قبول نثری نظم سے کیا تھا۔۔۔تو یہ جھوٹ نہیں۔
تم نے آسمان سے ہجرت کی ، جب کہ عزرائیل کی وجہ سے ، تم پہلے ہی مہاجر تھے۔ تم جامع حسیات کے مربوط تسکینی مفہوم کے جواد و سخی ہو۔ جو خوشگوار حقیقتوں کی تعبیر کو تباہ نہیں کرتا۔ تم محبتوں کے اسیر۔۔۔چاہتوں کے سفیر ہو۔
تم دشت جنوں میں زخموں کا فرغل پہن کر، ساحلوں تک آتے ہو، پھر سر سبز وادیوں کی طرف نکل جاتے ہو۔ تم نے سبھی کے احساسات کا خیال رکھتے ہوئے، رتجگوں کو گلے لگایا۔ تم نے اپنے قوانین کو کسی بھی طرح دوسروں پر مسلط نہیں کیے۔ تم نے محبت کی طبیعات کو عرفان مسرت کی کیمسٹری میں کھولتے ہوئے، ضد اور انا کی رگیں کاٹنے کی کوشش کی۔
عبداللہ۔۔۔!جب طاقت کے نشے میں ، کوئی دوسرے گھر کو تباہ کرتا ہے۔ تو وہ وہاں کے رہنے والوں کے ساتھ دیواروں، پودوں اور درختوں کے اتھ ساتھ پرندوں کی محبتوں ، چاہتوں کو بھی برباد کر دیتا ہے۔ و ہ تو اپنے دل کی تسکین کرتا ہے۔ اسے تیری محبتوں اور میری چاہتوں سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ تم جن چراغوں کو روشن کرو گے۔۔۔وہ ان چراغوں کو توڑتے ہوئے، آگے بڑھتا رہے گا۔ حالانکہ زندگی محبتوں اور چاہتوں کی سوا کچھ بھی نہیں۔ دیوار گریہ سے دیوار جدائی تک ، عہد الست کے بعد موجودہ دور تک۔۔۔!
محبتوں کے کتنے موسم آئے؟ زمین پر پہلا خون ہوا۔۔۔لیکن محبتوں ، چاہتوں کو محسوس نہ کیا گیا۔ لڑائیوں سے گھروں میں رونقیں نہیں آتیں۔
نینوا سے رے، قم، سامرہ تک آتے ہوئے، کئی گل گاؤزبان، گل مریم اور زعفران آگ میں جل گئے۔ کئی پھول جن میں خصوصاً چمپا، سیوطی، رات کی رانی، اور گل داؤدی راہوں کی دھول میں مل گئے۔۔۔! محبت۔۔۔ہائے محبت۔۔۔! اس کے آنچل کو۔۔۔خوب صورت چہرے کو کسی نے نہیں دیکھا۔

محبت۔۔۔توحیدی اسرار کی گرھیں کھولتے ہوئے!
مکرم و جدان کی قوسیں عیاں کرتی ہے
یہ تسلیمی۔۔۔ابجدی قافلوں میں!
ناقہ و محمل کے اعراف کی سمتیں دکھاکر۔۔۔!
نقاط مسافت کے تعلق میں!
بقائے سبز قطب۔۔۔اور دائم دھڑکنوں کو
آوارگان دشت میں شامل آہوؤں کی داستان میں پروتی ہے
یہ علمی اثبات کو ہیجان وفا میں سمو کر!
خود کفیل آفاقی فلسفے کی پہچان بن کر!
اصناف قلب اور دھڑکنوں کے جمالی جنوں کے بھید کھولتی ہے
اے میرے درویش۔۔۔اے خانہ بدوش!
یہ فسوں ساز، طرحدار، خماری اعتبار میں!
جمالی خواب کے ارغوانی، زعفرانی پھولوں کی قاموس الکتاب ہے
یہ رومانی، وجدانی اور روحانی گہرائی کا راز بن کر!
غلاف بقا ء کی رازداں۔۔۔ایلاف وفا کی دمساز ہے
لیلیٰ، لبنیٰ، عذرا اور نرگس کی دلفریب آواز ہے
بہلول اپنی روانی میں مست تھا۔ میں لاجوابی کے زنداں میں قید۔۔۔ ابن علی واعظ کے تراجم میں ڈوبا ہوا۔۔۔! کنفیوشس، گوتم بدھ اور زرتشت کی تکون بناتے ہوئے، لی آن شن کی پہاڑیوں میں۔۔۔اس حسن پری کی محبت کو سوچ رہاتھا، جس کی زلفیں ہواؤں سے کھیل رہی تھیں۔ جس کو۔۔۔اس کے محبوب نے ریشمی پری کا نام دیا تھا۔ میں نے بہلول کے رکتے ہی کہا۔۔۔!
جب شعور زندہ ہوتا ہے۔ تو پھر محبت اور نفرت میں فرق نظر آہی جاتا ہے۔ صرف محبت ہی ایسا عنصر طلسم ، خمار اور جادو ہے، جس کی ترتیب و تراکیب کے ذریعے متضاد راہوں سے ہٹ کر۔۔۔! سبز محراب کی آگہی اور اس پر روشن چراغ کی روشنی میں عرفانی نروان حاصل کیا جا سکتا ہے۔ محبت ہی ہے، جو جنگ کا درس نہیں دیتی۔ یہ صوفیانہ، والہانہ، عاشقانہ وجد میں ڈبو کر، روح کے موسموں کی تکمیل کرتی ہے۔
جس کے بعد انگلیوں پر چھری چلے یا گردن پر خنجر۔۔۔! کوئی پروا نہیں ہوتی۔ اس کی خانقاہ سے مسحوریت ، مخموریت، مسروریت جیسی حقیقتیں ملتی ہیں۔ جو عشق کے مندروں ،منظروں، سمندروں کی زیارت کراتے ہوئے، عشق کی بارگاہ میں مقام مستجاب تک لے جاتی ہیں۔ یہ ’’مھیمن‘‘ بن کے، سرے حیات سے تمہیں جمال کائنات کازائر بنا کر! معصوم چشموں سے مقدس قلزموں کو دکھاتی ہے۔ جب یہ ساری منزلیں طے ہو جاتی ہیں تو پھر یہی محبت تم پر ’’محیط‘‘ ہو کر۔۔۔نشاط ِمحویت اور گلابی سجود کے بھید کھولتی ہے۔ میری باتیں سن کر، بہلول نے مسکراتی آنکھوں سے میری طرف دیکھا۔ پھر بولا۔۔۔!
تم تکمیل روح کے مرحلوں میں تغیرات جذبات کی شکل سے واقف ہو۔۔۔؟وہ محبت خوب صورت ہے، کہتے ہوئے! دوبارہ شروع ہو گیا۔

یہ صبحِ جما ل کی نبض پر ہاتھ رکھ کر!
شبنمی ہواؤں میں!
پرندوں کے گیتوں سے عیاں ہوتی ہے
یہ محبت عاشقین، مرسلین کا صحیفہ بن کر
نسیم سحر کا نشاط جمال بن کر!
صندلی جنگلوں سے سر گوشیاں کرتے ہوئے!
زیتون والانجیر کی دلنشین انداز میں تفہیم کرتی ہے
یہ سنہری کرنوں میں!
چنارو صنوبر سے گلے ملتی ہے
بہار زماں میں۔۔۔دھڑکنوں کی شرح میں!
لسانِ سبو میں۔۔۔ چشمِ خمار کے شبنمی لہجے میں گفتگو کرتی ہے
کشش قاف کی طاق راتوں میں!
عہد جنوں، قلندرانہفسوںسے روشناس کراتے ہوئے!
آرزو کے واعظوں کے ساتھ!
رسم کنعانی، تہذیبِ ایل خانی، آتش جاودانی، خانہ بدوش سیلانی دکھاتی ہے
ماریہ ، فاریہ کے ساتھ۔۔۔!
زلفہ۔۔۔صودابہ کو بھی بلاتی رہتی ہے

بہلول نے گزرتے لمحوں کو انگلیوں پر نچاتے ہوئے!
کائناتی رشتوں میں با معنی لفظوں کی مساوات کا ایجابی سوچ کے قبولی جملوں کی صورت خیالوں کے گھوڑے دوڑاتے ہوئے! مجھے عجیب و غریب سوچ کا شکار بنا دیا۔ جس کی وجہ سے۔۔۔میں ان وادیوں میں بھٹکنے لگا۔ جن میں گل گامش کی نثری نظموں کو ہومر کے روبرو کرتے ہوئے، مشترک نمود کی جڑوں سے تخلیق پانے والے پودوں کو رامائن، مہا بھارت کی شکل میں رشیوں نے تخلیق کیا تھا۔ جن صالحین نے تراجم کیے تھے۔
ان کے مطابق اسباب مخرج کے عوامل مختلف کیفیات کا آئینہ بن کر، سورج کی روشنی میں چمکتے ذروں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ جس سے مختلف علاقوں کے رجحانات بندگی اور زندگی عیاں ہوتی ہے۔ لیکن اگر تم غورکرو تو آگ کی حقیقت نہیں بدلتی۔۔۔بلکہ مختلف علاقوں میں ، اس کی حیثیت اور مکرم ہونے کی ہیئت بدل جاتی ہے۔ یہ آگ کہیں منقلب شجر کی رازداں، کہیں پرستش کا محور۔۔۔کہیں اس کے گرد گھومنے والے، دن رات کے ساتھی بن جاتے ہیں۔
یہی آگ نار نمرود کی شکل میں موجود ہے۔۔۔ اور نار رام چندر کی شکل میں بھی (اگنی پرکشا) موجود ہے۔ بہلول جب بولتے ہوئے رکا۔۔۔تو میں نے۔۔۔حدود عصر میں کشش امکان کا رنگ بھرنا شروع کیا۔ ارتقائی جذبات کو تہواروں سے ملانے کی کوشش کرتے ہوئے، احساس و روایت کا ذکر کرنے لگا۔ بہلول صحرائی گرمی میں پسینے سے شرابور اک چشمے پر ہاتھ دھوتے ہوئے، میری باتیں سنتا رہا۔ پھر پانی پی کر میری طرف لوٹا۔ ایک پتھر سے ٹیک لگا کر، اپنا عمامہ پتھر پر رکھتے ہوئے لیٹ گیا۔ کافی دیر بعد بولا۔۔۔!
سنو ناثم وقت۔۔۔نثری نظم کے امام۔۔۔!
جب اس نے یہ کہا تو مجھے پروفیسر تاج الدین تاجور کی صدارت میں منعقد ایک اجلاس یا دآگیا۔ جس میں ڈاکٹر اسحاق وردگ ، چند سٹوڈنٹس، مہمان خصوصی مشتاق شباب (ڈائریکٹر اباسین آرٹ کونسل) پروفیسر شکیل نایاب، پروفیسر اورنگ زیب خٹک، انور خاں، شامل تھے۔
بہلول اپنی روانی میں مست وقت کے ساتھ رواں دواں تھا۔ اس نے مزید کہا۔۔۔!
دماغی رضاو رغبت میں جب تضادات رو نما ہونے شروع ہوتے ہیں، تو میلانات کو تہواری شکل نہیں دیتے، اور نہ ہی ادبی جبلت کے ہیجان کو جذبات کا درجہ دیا جاتا ہے۔ کیونکہ ہیجان میں صر ف سامنے دیکھا جاتا ہے۔ لیکن جذبات میں احساس بھی شامل ہوتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو یہ موضوعاتی فکر کے باطنی رویوں کے تابع ہوتے ہیں۔ یہاں اعزاز علامت اور احساس روایت کو رد کر دیا جاتا ، تو رامائن اور مہا بھارت کی روش یونانی دریافت ہونے والے ادبی اثاثے سے کبھی بھی نہ ملتی۔ یہ تم اچھی طرح جانتے ہو کہ عجم میں دیویاں تھیں۔ یونان میں بھی دیویوں کی موجودگی مختلف خطوں کو اپنی گرفت میں لیتی رہی تھیں۔
ہر دور میں مسکراتی آنکھوں کے مؤکل۔۔۔ احساسات و جذبات کے دشمنوں کی رگیں کاٹتے رہے۔ مذہبی افکار سنگدلی کے خلاف تھے۔ لیکن سنگ دلی سے کتابیں بھری ہوئی ہیں۔
اس کے بعد بہلول نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئیکہا۔۔۔!
آسمان بتا رہا ہے۔۔۔آج رات بارش ہو گی۔ اس لیے ہم ادھر ہی کہیں سایہ دار جگہ۔۔۔یا کسی پہاڑی اوٹ۔۔۔یا کسی ایسی جگہ کو ڈھونڈ کر۔۔۔قیام کریں گے جس کی وجہ سے بارش ہمیں تنگ نہ کرے۔ چلتے چلتے اک غار نما جگہ نظر آئی ۔
بہلول نے کہا چلو رات گزارنے کا انتظام ہو گیا۔میں تو بس اپنے ہی خیالوں میں مگن تھا۔ شائد میری سوچ چیختی رہتی تھی۔ یا میں اونچی آواز میں بڑ بڑاتا تھا۔ لیکن پھر بھی میں۔۔۔!
حرف اور حدود معانی کی حیات و کائنات کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ جو ایک جامع تصور کی طرف راہنمائی کرتے ہیں۔ یہ کائناتی ماورائیت سے صبح تاریخ و اساطیر اور شام سوالوں کے چہروں سے آشنائی کرواتے ہیں۔ اسی سے ایسی طاقت کا بھی پتہ چلتا ہے ، جو بہت زبردست ہونے کے باوجود نظر نہیں آتی ۔ میں نے بہلول کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔۔۔!
روح، جسم،موت اور خیر و شر کی علامتوں میں مختلف اشارے بکھرے ہوئے ہیں۔ جو فروغ مسرت کی کشش کے بنیادی رشتوں پر محیط ہو کر۔۔۔مجوسیت، یونایت کے چہرے دکھاتے ہیں۔ لیکن تنقید نگار مخالفت کرتے ہیں۔۔۔اور جو ادبی درویش ہیں۔ وہ انکار نہیں کرتے۔ بلکہ لذتِ معنی میں کھو کر، نظام حقیقت اور تہذیبی فکر کے شاداب لمحوں کا تعاقب کرتے ہوئے ، عقل کو تقسیمہونے سے بچاتے ہیں۔ وہ عملی کرداروں میں بہار کے زیر اثر رہتے ہوئے، گلاب و بہار کو نفسا نفسی سے دور رکھتے ہیں۔ وہ شرح بسیط پر موجودات کبیر کا شعوری نغمہ گنگناتے ہوئے، ادراک کے بیچ ناقص اجتماعات کی فطرت کا پرچار بھی نہیں کرتے اور نہ ہی کسی کی کتابوں کو نذر آتش کرتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ زندہ اور حکیم فلسفے کے بانی ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ چراغ روشن کرنے کی فکر میں رہتے ہیں۔ جب چراغ روشن ہو جائے، تو پھر ہواؤں سے لڑتے ہیں۔
اب بہلول مجھ سے متفق تھا۔۔۔ یا نہیں۔۔۔! اس کا اندازہ لگانا میرے لیے مشکل ہو رہا تھا۔ لیکن میں نے اپنی دانست میں سوال کی روح کو جواب کے سحر میں قید کر دیا تھا۔ اب جو میں نے اسلوبی حیات کی تصویر کشی کی تھی۔ اس پر بہلول پتہ نہیں ’’ اِنا اللہ و اِنَا علیہ راجعون‘‘ پڑھ دیتا۔ اس کے ذہن میں پتہ نہیں۔۔۔علمی لحاظ سے کب سبزی، دال یا گوشت پک رہا ہو۔ مجھے پتہ نہیں چلتا تھا۔
ہم جس جگہ بیٹھے ہوئے تھے۔ وہاں سر مئی ریت میں سفید اور سیاہ پتھر بھی نظر آرہے تھے۔ چٹانیں سنگلاخ تھیں۔ لیکن بھوری چٹانوں کے سلسلوں میں سیاہ چٹانیں بھی نمایاں نظر آرہی تھیں۔ جو مجھے نوشکی سے نکلتے ہی۔۔۔جنوب، مغرب کی طرف ریلوے لائن کے ساتھ شمال مشرق کی طرف سڑک۔۔۔جو تفتان تک بالکل متوازی چلتی تھیں، ریلوے لائن سے دور اور سڑک سے د ور پہاڑوں کی یاد دلا رہی تھیں۔ جب کہ ہم سیستان سے کافی آگے نکل چکے تھے۔ یعنی زہدان، سیستان سے قافلوں کی روانی کے حساب سے پندہ بیس دن کے فاصلے پر تھے۔
میں نے موسم کی گردش میں لباس بدلتے درختوں کا ذکر شروع کیا۔ پھر طبقاتی جزا و سزا کی تفہیم میں احساس فکر کی خصوصیات کو ادراک کے قریب لاتے ہوئے ، ہوا کے کندھوں پر سوار بادلوں کی باتیں کرنے لگا۔
یہ شاید صحرا میں کہیں کہیں سبزہ نظر آنے کی وجہ سے تھا۔ پہاڑی سلسلوں میں درخت بھی نظر آرہے تھے۔ کبھی کبھی انتہائی سرد ہوا کا جھونکا۔۔۔! خیالوں میںبسے صحرائی جلال کا غرور توڑتے ہوئے روح میں اتر جاتا تھا۔ گزرتے لمحے شام کی ڈوری کھینچتے چلے جا رہے تھے۔ سورج بادلوں میں آتشی رنگ جگاتے ہوئے، مغرب کے غار میں چھپنے کی تیاری کر چکا تھا۔
بہلول میری ساری باتوں کو سن کر صادق خیالوں کی تصدیق کو ایسی سرخ کیفیت سے تعبیر کرنے لگاجو دکھائی نہیں دیتی۔ لیکن جب احساس میں ڈوبتے ہوئے سوچا جائے، تو ساری تصویر ذہن کے پردے پر عیاں ہو جاتی تھی۔ وہ معیار کی تحقیق میں حقیقی تر سیلات کو متروک معانیوں سے ہٹاتے ہوئے ، تعلقاتی نظریے کی اشتراکیت میں پیدا شدہ شگفتگی کو وسعت دینے کا قائل تھا۔ اس کے نزدیک۔۔۔اس طرح محبت مرتی نہیں۔ بلکہ اور شدت سے عیاں ہونے لگتی تھی۔ جس کی وجہ سے وہ چشم اثبات کے تسلیم شدہ جذبات کا اعلان کرتے ہوئے، ہیئت جمال کا سبب بن جاتی ہے۔
میں سکون سے بہلول کی باتیں سنتا رہا۔ جب وہ خاموش ہوا۔۔۔!
تب بھی میں خاموشی سے ریت پر آڑی ترچھی لکیریں کھینچتا رہا۔ کبھی چھوٹی چھوٹی کنکریوں کو اکٹھا کر کے ان کے ارد گرد ریت کی ہلکی سی تہہ چڑھا دیتا۔ پھر انہیں بکھیر دیتا۔ باہر کافی اندھیرا ہو گیا تھا۔ اماوس کی راتیں نہیں تھیں۔ بادلوں کی وجہ سے ستارے اور چاند یا چاندنی کا کوئی ثبوت نظر نہیں آ رہا تھا۔ بہلول کے عمامے کا ایک پیچ کھل کر داڑھی کے نیچے تک آگیا تھا۔ دوسرا پیچ ماتھے پر آ چکاتھاجو آگ کی ہلکی ہلکی روشنی میں نظر آ رہا تھا۔ اس کی آنکھیں بند تھیں۔ لیکن حرف و معانی کا سفر جاری تھا۔ اسی دوران تھکاوٹ کی وجہ سے۔۔۔ میں نہ جانے کب نیند کی گود میں سر رکھے، اپنے اردگرد کے ماحول سے غافل ہوچکا تھا۔
میں گلاب زادوں میں
صبح و شام رقص بسمل کی طرح تڑپتے ہوئے!
سفید پھولوں پر لہو چھڑکتے ہوئے!
پتھروں پر دل نچوڑ کر۔۔۔!
جنوں کی وادیوں میں!
دل، آنکھیں اور دھڑکنیں بو جاؤں گا
عشق کی بارگاہ میں مستجاب ہو جاؤں گا
پتہ نہیں وہ کیسی رات تھی، جس کی کراماتی ساعتوں میں۔۔۔مجھے اس طرح کے خواب نظر آتے رہے۔ کہیں ایسے محسوس ہوتا جیسے میں بہت ہی نرم پر سکون گود میں سر رکھے۔۔۔کچھ بول رہا ہوں۔ جب کہ میرے کانوں کو جو الفاظ سنائی دیتے ان کا مفہوم کسی لحاظ سے واضح نہیںہو رہا تھا، لیکن ذہن میں حرف ومعانی کی تقسیم اور تفہیم ایسے ہوتے ہوئے سنائی دے رہی تھی، جیسے میں ہی بول رہا ہوں۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...