1689953282333_56117001
Open/Free Access
71
خیر العمل
سنہری کرنوں میں!
سبز فرش پر چمکتے شبنمی قطروں میں۔۔۔!
کشش قا ف جیسی سرگوشیاں کرتی ہواؤں میں!
بہار کے قافلے کی ساربانی کرتے ہوئے!
اک مسافر زیتون و صنوبر کے گیت گائے جا رہا تھا
حر فِ سحر میں آب بقاکی لذتوںکو۔۔۔!
خوشبو کی شدتوں میں۔۔۔شبنم کے زائچوں کو سمو کر!
اک مسافر پیپل اور کھجور کی سبز شاخیں لیے!
سبز موسم کے عابدوں،صندلی معبدوں کا طواف کیے جار رہا تھا
قدیم سنبلہ کے پہلو میں!
ناہید، زہرہ۔۔۔درگا دل فریبی سے اتر رہی تھی
گاتھا، اوستا کی مٹی میں
صحرا کی ریت ملاتے ہوئے!
وینس آب حیات میں گوندہ رہی تھی
بہار کی خوب صورت راہوں پر خمار میں ڈوبی ناقہ!
محملوں کی روایتوں کا مفہوم بدلتے ہوئے چل رہی تھی
کوئی عصر یونان کی بستیوں میں!
جبرائیل کے لہجے میں ستاروں کی زباں بول رہا تھا
اک مسافر پاتال کی گرھیں کھولتے ہوئے!
خیرالعمل کی آیتیں سنائے جا رہا تھا
سبز موسم کے عابدوں ، صندلی معبدوں کا طواف کیے جا رہا تھا
جہاں لبنیٰ کی گود میں!
میں سر رکھے تڑپ رہا تھا۔۔۔ایڑیاں رگڑ رہا تھا
وہیں ماریہ، زلفہ اور صودابہ کے چشم روغن سے۔۔۔!
اک زعفرانی خیمے کے روبرو چراغ روشن ہو رہا تھا
جہاں کشش قاف کی تعبیر۔۔۔!
ایلاف وفا کے مجدد۔۔۔!
صحرا میں بہار کی اسیری کا قصہ لکھتے ہوئے چھوڑ گئے تھے
وہیں اِک ایوان دل میں!
مسافر حسن کے تعاقب میں!
لذت لمس کو لوح کنعان سے منکشف کیے جا رہا تھا
سبز موسم کی خانقاہوں، صندلی معبدوں کا طواف کیے جا رہا تھا۔۔۔
ستاروں کے زائچے میں !
ارباب جنوں کی تاثیر گردش کر رہی تھی
تاریک کمرے میں رتجگوں کی داستاں!
درد کی بندگی میں متاع بسمل کے ساتھ۔۔۔!
پھول میں خوشبو۔۔۔آنکھ میں آنسو کا بھید کھول رہی تھی
کھڑکیوں اور دروازوں پر جھکی بیلیں۔۔۔!
زیتون وانجیر جیسی آیتیں تلاوت کر رہی تھیں
درے طلسم سے۔۔۔چھوتھے آسمان تک۔۔۔!
سبز بہار کی سرگوشیوں میں!
دست حنائی، جذبات زلیخائی کا چرچا ہو رہا تھا
اک مسافر سلام عشق۔۔۔این از عشق سبز کہتے ہوئے!
ایلاف وفا کے رشتوں کو درد کہف کہے جا رہا تھا
سبز موسم کے عابدو، صندلی معبدوں کا طواف کیے جا رہا تھا
طواف کی گردشوں میں!
رقص بسمل کا راز منکشف کیے جا رہا تھا
سبز موسم کی خانقاہوں ، صندلی معبدوں کا طواف کیے جارہا تھا
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |