Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > اِیلافِ وفا > جو خانہ بدوش ہوتا ہے

اِیلافِ وفا |
حسنِ ادب
اِیلافِ وفا

جو خانہ بدوش ہوتا ہے
ARI Id

1689953282333_56117004

Access

Open/Free Access

Pages

77

جو خانہ بدوش ہوتا ہے
سنو بہلول۔۔۔!
جو خانہ بدوش ،آوارہ ، چرواہا بھی ہو۔۔۔!
وہ پرانے تبسم کو نئے موسم کی تلخیوں میں سموتا نہیں
زخموں سے بہتے گرم لہو میں۔۔۔!
خواب کی سیڑھیوں پر سبز پتے سرخ پھول سجاتے ہوئے
ایوان وفا میں دلفریب دھڑکنوں کو قتل کرتا نہیں
پرندوں کی سنتے ہوئے!
پرانی خانقاہوں کا طواف کرتے ہوئے

عزازیل کی طرح نوری فرغل اتارتا نہیں
محبتوں کا سینہ چیرتا نہیں۔۔۔چاہتوں کا جگر کھاتا نہیں

میرے بہلول۔۔۔میرے دل کے رازداں بہلول۔۔۔!
جن سے موسم گل کی آبیاری ہو۔۔۔!
وہ متاع خواب کو رقص بسمل میں ڈبوتا نہیں
ماہ کامل کا وظیفہ پڑھتے ہوئے!
تاثیر سحر کی بزم میں۔۔۔ذوق بہار کا صحیفہ پڑھتے ہوئے!
ساکنانِ شباب کو لسان جمال کے لہجے میں پکارتا ہے
اسیران درد کے زخموں کو دھوتے ہوئے!
سبز بیلوں کی جڑوں میں دل نچوڑتے ہوئے!
معصوم جذبوں کو خزانی نیزوں میں پروتا نہیں
وعدوں کے شعور میں بجتی دف سنتے ہوئے!
اہل عشق کی راہوں میں پھول بچھاتے ہوئے!
روغن چشم سے چراغ روشن کرتا ہے
عزازیل کی طرح نوری فرغل اتارتا نہیں
محبتوں کا سینہ چیرتا نہیں۔۔۔چاہتوں کا جگر کھاتا نہیں

میرے بہلول۔۔۔میرے پیارے بہلول۔۔۔!
ہم خانہ بدوشوں کا۔۔۔!
ہواؤں کے رشتے میں خوشبوؤں کو سمو کر۔۔۔!
چاندنی راتوں کی مسیحائی پر لہجہ بدلتانہیں
جو سبزہ سرخ قاصدوں کو سینے سے لگا کر۔۔۔!
نیل کی وادیوں میں۔۔۔فرات کے صحراؤں میں بکھرے صحیفوں کی تلاوت کرتا ہے
زخموں کو چھپاتے ہوئے۔۔۔پھولوں کو روندتا نہیں۔
وفا کی کہانی، دھڑکنوں کی نشانی سے!
فقیروں کے حجرے گراتا۔۔۔درویشوں کو رولاتا نہیں
عزازیل کی طرح نوری فرغل اتارتا نہیں
محبتوں کا سینہ چیرتا نہیں۔۔۔چاہتوں کا جگر کھاتا نہیں

بہلول جی۔۔۔پیارے بہلول جی۔۔۔!
جو لسان جبرائیل سے تسکین الہام کی آیتیں سنتے ہوئے!
حقیقت اسرار کی دھڑکنوں میں!
بلقیسؑ کی مسکراہٹ۔۔۔عارض سلیمان کا رنگ بھرتے ہوئے!
لبنیٰ کی گود میں سر رکھے ہوئے!
وصال یوسفؑ ، نشاط زلیخاؑ کی حدیثیں سناتا ہے
حنائی شاخوں کے وسوسے دور کرتے ہوئے!
شب لیلیٰ میں سنت قیس پوری کرتے ہوئے!
صندلی خوشبو میں۔۔۔داسیوں کو آنسوؤں میں ڈبوتا نہیں
چنار وصنوبر کے تاریک جنگلوں میں۔۔۔!
وہ بس تتلیوں، جگنوؤں کو بلاتا ہے
عزازیل کی طرح نوری فرغل اتارتا نہیں
محبتوں کا سینہ چیرتا نہیں۔۔۔چاہتوں کا جگر کھاتا نہیں

دھوپ کی جوانی میں۔۔۔پانیوں کی روانی سے ۔۔۔!
لذت ماہتاب، چنبیلی کے شباب، رات کی رانی کے عذاب سے!
مزاج سورج مکھی، زعفرانی پھولوں کی داستاں بدلتی نہیں
تاریخیں بدلتی رہتی ہیں۔۔۔ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں
پھر بھی عشق کی فطرت دل اور دماغ کے بیچ صلح کراتی نہیں
بھولے بھالے ابابیل۔۔۔عندلیب۔۔۔!
نئے خوابوں میں، پرانے خواب جھنجھوڑ کر جگاتے ہیں۔
پرانے میخانوں کے روبرو۔۔۔قلندرانہ رقص کی !
خانہ بدوشوں۔۔چرواہوں کو داستان سناتے ہوئے
آب ِعشق کو زم زم کی طرح بانٹتے ہوئے!
پرانی خانقاہوں کا۔۔۔میکدوں کا دروازہ جلاتا نہیں
عزازیل کی طرح نوری فرغل اتارتا نہیں
محبتوں کا سینہ چیرتا نہیں۔۔۔چاہتوں کا جگر کھاتا نہیں

بہار شرماتے ہوئے۔۔۔مرمریں بانہوں میں چوڑیاں ۔۔۔!
پھولوں سے گلے ملتی خوشبو دکھاتے ہوئے!
قافلوں کو۔۔۔چاندنی کے ساربانوںکو۔۔۔!
سبز پہاڑوں سے اترتی دھند میں بلاتی ہے
غبار دشت میں ناقہ و آہو کو رولاتی نہیں
جس کو لذت معانی سے شناسائی ہو۔۔۔!
وہ خانہ بدوش ، سیلانی ، آوارہ۔۔۔!
ایلا ف وفا میں۔۔۔ساحلوں پر قتل ہو جاتا ہے
جھیل کنارے تتلیوں، جگنوؤں کا قتل عام کرتا نہیں
ابابیلوں کے ساتھ آتے ہوئے!
آنسوؤں سے وضو کرتے ہوئے۔۔۔سبز کہف کی تلاوت کرتے ہوئے!
اپنے ساتھ مقتل میں کوئی اور قبیلہ بساتا نہیں
عزازیل کی طرح نوری فرغل اتارتا نہیں
محبتوں کا سینہ چیرتا نہیں۔۔۔چاہتوں کا جگر کھاتا نہیں

میں بہلول کی گود میں سر رکھے ہوئے، نہ جانے کہاں سے کہاں تک کا سفر کر رہا تھا؟ یہ مجھے بھی معلوم نہیں تھا۔ بہلول کبھی میرے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگتا۔ کبھی میرے کپڑوں پر لگی مٹی ملی ریت جھاڑنے لگتا۔
وہ وارثان حصار و اضطراب کی باتوں میں حقیقت کا رنگ بھرتے ہوئے، موسم گل اور معارف شام کے چہروں کوسنوارتا ہوا، سانس کے عمل سے ہواؤں کی اہمیت کو ثابت کر رہا تھا۔ اسے سینے کی حرکت سے سب معلوم ہو رہاتھا۔ وہ ایسے محور کی بات کر رہا تھا، جس کو سانسوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن میں اک اور ہی نقطے کے گرد گھوم رہا تھا۔جس میں سانس اور سفر قبولیت کی حالت میں جاری رہتے ہیں۔ بہلول شاید میری ذہنی کیفیت سے واقف تھا۔ اس لیے اس نے ذہنی خیال کی تقسیم کو دل کی طرف لے جاتے ہوئے ، ذہن کی دنیا کو دل کی دنیا سے الگ کیا۔ پھر مجھ سیکہنے لگا۔۔۔!
ہوائوں میں پھول رقص کر رہے تھے ۔
موسم پر وجد طاری تھا۔
عبداللہ۔۔۔اب اگر تم ذہن کے دلائل کو دل کی بحث میں شامل کرتے ہوئے، ذہن کے طلسم کو دل کے خمار میں ڈبونے کی کوشش کرو گے، تو ایسا نہیں ہو گا۔ ذہن اور طرف لے جائے گا۔ دل اور طرف۔۔۔لیکن معصوم کبوتروں اور خوب صورت فاختاؤں کو یہ دونوں رد نہیں کریں گے۔ جس سے تم سنگدلی سے بچ جاؤ گے۔
ہم جس غار میں رات گزارنے کے لیے ٹھہرے تھے، اس میں ابھی اندھیرا تھا۔ باہر ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں۔ بادل بہت گہرے تھے۔ لیکن بارش کا کوئی امکان نہیں تھا۔ پھر نہ جانے غار میں بھیڑ کا بچہ کہاں سے آگیا۔۔۔؟
جس نے ہماری سوچوں کو۔۔۔درہم برہم کر دیا۔ ہم ابھی بھیڑ کے بچے کے بارے میں سوچ ہی رہے تھے کہ غار کی دہلیز پر اک لڑکی نمو دار ہوئی۔۔۔!
اس کے ہاتھ میں اک چھوٹی سی چھڑی تھی۔ وہ بھیڑ کے بچے کا تعاقب کرتے ہوئے، غار تک چلی آئی تھی۔ اس نے عجیب وضع قطع کا لباس پہنا ہوا تھا۔ سر پر سمور کی ٹوپی تھی۔ بانہوں میں رنگ برنگی چوڑیاں تھیں۔گلے میں مختلف منکوں کی مالائیں تھیں۔ جو اسے جوگن ثابت کرتے ہوئے، شریر سوچوں کی مالک بھی ثابت کر رہی تھیں۔ میں نے بہلول کی طرف دیکھا۔۔۔اور بولا ۔۔۔!
مرشد لگتا ہے ، یہ چاندنی میں پھولوں کے سینے سے نکل کر
خیالوں کو سانسوں کے نوالے دیتے ہوئے، وعدہ انگیز تنہائی میں دعائیہ کلمات کو عصر رواں کے سپرد کرتے ہوئے، سحرکی نقیب بن کر آئی ہے۔
یہ یقین کے لفظوں میں سما کر، دھند کو چیرتے ہوئے، خواہش اور آرزو کے بیچ دھڑکنوں کا رنگ بدل کر، زردی اور تازگی کے دائروں میں اصرار اور تاکید کے ساتھ خمار کی تفہیم لیے۔۔۔
غار تک،اک معصوم بھیڑ کے بچے کا تعاقب کرتے ہوئے چلی آئی ہے۔
میری ابھی بات جاری تھی، کہ یکایک اس کوہستانی دوشیزہ کی آواز نے بہلول اور میری باتوں کے سحر کو توڑتے ہوئے کہا۔۔۔واہ ایک سیلانی ، آوارہ، خانہ بدوش۔۔۔!
جو کائناتی تبسم میں مقام فطرت پر اک قطرے کی حقیقت کو لوتھڑے میں بدلتے ہوئے، روشنی اور اندھیرے کی اہمیت نہیں جانتا۔ لیکن دل میں آئینہ ناسوت اور بربط لاہوت کی گرھیں کھولنے کا دعویٰ کرتا ہے۔ وہ ابو ریحان البیرونی، الخوارزمی کو خیرہ شہر کے ساتھ بخارہ شہر تک بو علی سینا سے بھی اپنی نسبت کو ثابت کرنے کی کوشش میں رہتا ہے۔ اظہار کی پیچیدگیوں میں موجود کامل فاضلین سے بیانیہ روانی کی گلیوں تک۔۔۔اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے، کسی سے اختلاف نہیں کرتا۔ کتنا سادہ دل اور جدائی کا مارا انسان ہے۔ جو سوچ کو لفظوں کا لباس پہنا کر، اکثر جگہوں پر ہونے والے رقص بسمل سے مختلف دروازے کھولتاہے۔پھر منطقی فیصلوں تک جاتے ہوئے، منافق نظریے کو بھی سامنے لے آتا ہے۔لیکن اس کی بات کوئی نہیںمانتا ۔
میں اس کی باتوں میں چھپے نشتروں سے بچنے کے لیے چند نثمیہ مصرعے بولتا چلا گیا۔ حالانکہ مجھے اس دوران پروفیسر احمد ہمیشکا نظریہ اور اخلاق حیدر آبادی کے نثری نظم کے بارے میں خیالات و احساسات یاد آگئے لیکن پھر بھی میں نے کہا۔۔۔،
جسے میں عشق جاوداں سے۔۔۔!
بزم آسماں سے لایا تھا
وہ نشانی تاثیر کے طاق میں پڑی ہوئی تھی
ابابیل واپس چلے گئے تھے۔۔۔عندلیبانِ چمن چھپ گئے تھے
دعا پھر بھی مقتل میں تڑپ رہی تھی
واہ۔۔۔ اپنی نثری نظم کو سینے سے لگائے، اس محبت کو ڈھونڈتے پھرتے ہو، جو آسماں پر رہ گئی۔ میں نے پھر کوہستانی دوشیزہ کی باتوں کو کاٹتے ہوئے، سورۃ النساء کی آیتوں کا سہارا لیتے ہوئے بولا۔۔۔!
’’یہ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے، (ہوں گے) جب تک یہ آپس کے اختلافات میں آپ سے فیصلہ نہیں کروا لیتے۔‘‘
بہلول نے میری باتوں کو سنتے ہوئے کہا۔ واہ خوب۔۔۔! صرف ساڑھے تئیس سال کا زمانہ ثابت کرتے ہوئے، کام قیامت تک کا لیے جا رہے ہو۔ بڑی خوب صورت کتاب ہے جس میں سفر نامے کے ساتھ ساتھ افسانہ بھی ملتا ہے۔
بہلول ابھی چپ نہیں ہوا تھا کہ کوہستانی دوشیزہ بولی۔۔۔!
تم دونوں میں فکری سوچ، ذہنی فلسفہ اور نفسیاتی عنصر کے تکونی کے اعراف و ایقاف پائے جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے ایک خانہ بدوش، ایک پاگل کے نقشے قدم پر چلتے ہوئے، مختلف علاقوں کی خاک چھانتا پھرتا ہے۔ اس میں فاعل اور مفعول کا ہونا ضروری ہے۔ جس کی وجہ سے خیالات کی بحث میں خواہشات پر گفتگو ہوتی ہے اس میں مرد اور عورت کا ہونا ضروری ہے۔ لیکن عرفانی اسلوب میں وجدانی اسباب کی تفہیم وتقسیم بھی ضروری ہے۔
جس میں مرد بھی ہو سکتے ہیں، جن کا آپس میں مرشد اور مرید کارشتہ بھی ہو سکتا ہے۔ اس مقام پر مرشد، مرید کے ساتھ چلتے ہوئے، خواہشات کا مالک نہیں ہوتا۔ بلکہ خواہشات و خیالات صرف مریدکی ملکیت ہوتے ہیں۔ مرشد تو وجدانی عرفان کی وراثت کا مالک ہوتا ہے۔ یہ وراثت کی گٹھڑی اتنی وزنی ہوتی ہے ، جسے مرید نہیںاٹھا سکتا۔ لیکن مرشد آسانی سے اٹھائے ہوئے، چلتا رہتا ہے۔ مرید کے راستوں میں خواہشات اور خیالات کی رکاوٹیں آتی ہیں۔ لیکن مرشد اس کا ہاتھ پکڑے ہوئے، آسانی سے پیا سے صحرا اور دریا آسانی سے پار کرا دیتا ہے۔ جس طرح ہمارے ترکستان کی پہلی روحانی شخصیت حضرت خواجہ احمد یساوی جن کا سلسلہ نسب حضرت حنفیہ بن علی بن ابی طالب سے ملتا ہے۔
انہوں نے جو فرمایا ہے، وہ بالکل نثری نظموں سے مشابہہ ہے، اور وہ اپنی طرف بڑی وارفتگی اور لگاوٹ سے کھینچتی ہیں۔حالانکہ نثری نظم کی تعریف کرنے کی جب بات آتی ہے تو اکثر جگہوں پر خاموشی کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔ میرے نزدیک نثری نظم اسے کہتے ہیں، جس میں لفظوں کی بنت کے ساتھ کائنات کی روانی شامل ہو۔ اسے نثری نظم کہتے ہیں۔ ضروری نہیں، کہ یہیں قیام کر لیا جائے۔ یہ پڑاؤ بھی ہو سکتا ہے اور آگے چلتے ہوئے، جو قدیم خیالوں اور حوالوں کے چہرے سنوارتے ہوئے، خواب کی وسعتوں میں عودو لوبان کی طرح سلگتی ہے، اسے نثری نظم کہتے ہیں۔ اسی طرح۔۔۔!
جس میں حرف و معانی کو بہار میں سمو کر،چاندنی اور خوشبو سے گلے ملنے کی باتیں ہوں۔ اسے نثری نظم کہتے ہیں۔لیکن اس کی اگر مناسب کرافٹنگ کی جائے گی تو وہ نثم کہلائے گی۔
اسی وجہ سے میرے نزدیک ناثم اور ناثمہ کی حقیقت مضبوط انداز سے موجود ہے موجودہ دور میں نثری نظم کو نثم کہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن نثم کے حوالے سے اس کے تخلیق کار کو شاعر نہیں کہہ سکتے۔ اسے صرف ناثم(مرد کے لیے) اور ناثمہ (عورت کے لیے) کہا جائے گا۔اس کی ایک لائن کو نثمیہ مصرعہ اور جس اساطیری حوالوں کے ساتھ دھڑکنوں کی بندش موجود ہو اسے نثمیہ کرافٹ میں حرف و معنی کی بندش کہا جائے گا۔ جس میں آنے والے واقعات کی پیش گوئی ہو گی۔ اسے نثمیہ پیشگوئی بھی کہا جائے گا۔
اس کا حسن سرخ ترکستانی شگفتگی میں کھو کر ، گل بنفشا کی تازگی میں گم ہو جاتا ہے، حالانکہ جب تک ذہن اور دل ایک نقطے پر متفق نہ ہوں۔ اس وقت تک وجدانی آنکھ نہیں کھلتی اور جب یہ آنکھ کھلتی ہے تو پھر نثری نظم وجود میں آتی ہے اور اسی آنکھ کے کھلنے سے انسان کو ترکستان، آذر بائیجان، گرگان، زہدان، تفتان، سراوان، مکران۔۔۔ایسے لگتے ہیں۔ یا ان کو ایسیدکھائی دیتے ہیں، جیسے انسان انہی علاقوں میں بیٹھا ہو۔
میں بھی خانہ بدوش ہوں، لیکن تم سے مختلف ہوں۔ میں تاجکستان کو کوہ قاف میں سمیٹ کر، چاندنی راتوں میں ماژندران کے کھنڈروں میں بھٹکنے والی روح جیسی نہیں ہوں۔ جس نثری نظم کو تم پیار کرتے ہو، وہ میرے سینے میں بھی موجود ہے:
زیتون کے شباب سے۔۔۔صندل کے خواب سے!
نجف کی تفسیر سرخ سبز پھولوں میں مکمل ہو رہی تھی
تطہیر کی پرکار۔۔۔!
تاثیر انکشاف کا دائرہ مکمل کر رہی تھی
آفاقی جالیوں سے۔۔۔اک نگاہ۔۔۔!
میرے تعاقب میں تھی۔۔۔اور مجھ پر!
قلندرانہ بہار کے ساتھ۔۔۔عارفانہ وجد طاری تھا
غور کرو۔۔۔یہ نثری نظم اور نثم دونوں کے قوانین ثابت اور پورے کرر ہی ہے۔ ہمارے سامنے کوہستانی دوشیزہ خوشبو کی تفسیر بنی سیاہ بادلوں سے گرتی سفید بوندوں میں کسی الوہی وادی میں کھلتے پھولوں کی پہچان بنی ہوئی تھی۔ علمی حوالے سے با کمال معلم محسوس ہو رہی تھی۔ میں حیران تھا۔ لیکن بہلول پتھر سے ٹیک لگائے، آنکھیں بند کیے مسکرائے جا رہا تھا۔ لیکن کوہستانی خوشبو مختلف راستوں سے ہوتے ہوئے، یونانی دیو مالائی کہانیوں میںکیوپڈ (محبت کا دیوتا) کو عظیم کہتے ہوئے، کرشن کی حیثیت کو عجمی دیوی دیوتاؤں میں معتبر ثابت کر رہی تھی۔ اس نے مزید کہا۔۔۔کہ! گایا نے کرونس کو پیشگوئی کی تھی کہ اس کا بیٹا۔۔۔اس کے لیے زوال کا سبب بنے گا۔ کرشن کے بارے میں بھی کنس کو ایسی ہی پیشگوئی سنائی گئی تھی۔ کہ ایک لڑکا اس کے جاہ و جلال کے زوال کا سبب بنے گا۔ اس کے علاوہ اکثر انبیاء کے بارے میں بھی ایسی پیشگوئیاں نظر آتی ہیں، جن میں مشہور و معروف موسیٰ ؑکے بارے میں فرعون کو بتائی گئی تھی۔
ایسی حالت میں مصری بھی پیچھے رہنے والے نہیں تھے۔ انہو ں نے دیوتائوں سے شروعات کی ان میںآمون را طاقتور دیوتا تھا۔ انہوں نے آمون کے ساتھ زیوس کا اضافہ کرتے ہوئے، اپنے لیے زیوس آمون کا دیوتا بنا لیا۔
پھر اس نے بہلول کی طرف دیکھتے ہوئے، بہلول کو مخاطب کیا۔۔۔بہلول تم بھی آوارہ گرد ،سیلانی اور خانہ بدوش ہو۔۔۔تم اچھی طرح جانتے ہو۔۔۔۷۵۰ قبل مسیح میں ایک شاہ بلوط کے جنگل میںخانقاہ (کاہن گاہ) بنائی گئی تھی۔ اس میں مرد کاہن تھے، جو ننگے پاؤں شاہ بلوط کے پتوں پر ننگے پاؤں چلتے ہوئے کاہن گاہ میں آتے تھے۔ لیکن ہیرودوت کے نزدیک اس میں زنانہ کاہنائیں تھیں۔ اس خانقاہ کی دیواروں پر نثری نظمیں تحریر ہیں۔ جن کے تراجم کو پڑھنے سے نثری نظم کا یقین روح میں اتر جاتا ہے۔ اس خانقاہ میں جو لوگ آتے تھے، وہ پتوں پر بھی کچھ نہ کچھ لکھ کر لاتے تھے اسی دور کے گرد و نواح میں نظر دوڑائی جائے، تو سیفو بھی نظر آجاتی ہے۔
سیفو معاشرتی طور پر باغی کہلائی جاتی تھی۔ بوس وکنار کے اعتبار میں وہ دشمنی اور حسد کو عجیب انداز سے پرکھتی تھی۔ اس کی نظمیں پڑھی جائیں، تو وہ زندہ کائنات کی فریفتگی کے ساتھ وارفتگی کی ظہوریت میں ڈوب کر، وادیٔ و حشت میں لذت زندگی کی معراج کا ہونٹوں پر ذائقہ تازہ کرتی ہیں۔ جس طرح قلندر صحرا میں رقص کرتے ہوئے، خوب صورت لفظوں کے خوب سیرت معانی عیاں کرتے ہوئے محو سفر رہتا ہے۔
بالکل اسی طرح وہ اپنے لفظوں سے فطری خواہشات و صفات کو وادیٔ حیرت تک لے آتی تھی۔ تاریخی ، تحقیقی کتابوں کامطالعہ کرنے سے فکری سوچ سپنوں کے ماحول کوزندہ کرتی ہے، جس کی وجہ سے خیال مختلف سمتوں میں پرواز کرنے لگتے ہیں۔اسی وجہ سے دل ورطۂ احساس میں بھیگی ساعتوں کے پہلو سے لگ کر، عزت فکر کی راہوں میں ٹھوکریں کھاتے مسافروں سے بھی ملتا ہے۔ کوہستانی دوشیزہ جب یہاں تک پہنچی۔۔۔تو یکا یک بہلول بول پڑا۔۔۔!
اس نے کہا۔۔۔!
حیاتیاتی شعور اور نرم گرم کرنوں کا سماجی جمال۔۔۔اسی تخلیق کار کے ہاں موجود ہوتا ہے، جو بقائے دوا م کے کیفیاتی تعلق سے اپنی دھڑکنوں کوملا کر، ہیجان اور احترام میں فرق واضح کر سکے۔ یونانی سر زمین عشقیہ ادب اور رزمیہ رومان میں ہمیشہ خود کفیل رہی ہے۔ اسی وجہ سے یونانی تہذیب و ثقافت نے تاریخ عالم پر گہرے اثرات مرتسم کیے ہیں۔ سیفو (ساپغو Sappho) حسن و عشق کی دیوی افرو دیتی کی پجارن تھی۔ جو ساتویں صدی قبل مسیح میں شمالی یونان کے لیبوس جزیرے کے علاقے ایریسوس میں پیدا ہوئی تھی۔ اس کی ہمجولیوں میں کنواری دوشیزائیں شامل تھیں۔
اس پر طوائف ہونے کا الزام بھی تھا۔ لیکن میری برنارڈ نے مختلف ادبی تخلیقات کی روشنی میں رد کیا ہے۔ میرا جی، سلیم الرحمن نے بھی تقریباً رد کیا ہے۔ لیکن ڈاکٹر صفدر سیتا پوری نے کہا۔۔۔! ’’سیفو کا عشق گوشت پوست کے جسم اور اس کے ظاہری حسن سے ہے۔‘‘
سیفو کے اظہار میں احساسات و جذبات کا تخلیقی بہاؤ خطرناک ہے۔ یہ جس ملاح سے عشق کرتی تھی، وہ جلد ہی اسے چھوڑ کر کہیں گم ہو گیا۔ سیفو نے اسے بہت تلاش کیا۔ لیکن ایک دن اس نے پہاڑ سے دریا میں کود کر ، خود کشی کر لی تھی۔ ارسطو اسے ’’حسن مجسم‘‘ کہتے ہوئے، جا بجا ۔۔۔ان نظموں کے حوالے دیتا ہوا نظر آتا ہے۔جس میں ا س کی شاعری نے اہل یونان کو مضبوطی سے اپنی گرفت میں رکھا۔ اس کی شخصیت کا سحر۔۔۔اور باطن کا اضطراب۔۔۔! اس کی نظموں کو خوب صورت بناتا ہے۔ بہلول کی ان باتوں سے میرے دل اور دماغ میں حرف و معانی کی جمالیاتی جنگ شروع ہو گئی۔ جس کی وجہ سے درے شیرازپہ ملائے رومی کی تسبیح کرتے ہوئے، ہاتھوں میں کشکول لیے، شمس تبریزی جیسی خیرات مانگنے والے نظر آنے لگے :
لیکن میرے اندر کا اضطراب لبوں پر کھیلنے لگا۔۔۔
راز طریقت کی اجازت سے۔۔۔!
روشن صحیفے سے عیاں عکس مکرم کی نشانی ہوں
پورے جرثان سے۔۔۔محترم اسد کی کہانی ہوں
جس کی تنہائی پہ۔۔۔!
صحیفہ جمالیات کی آیتیں فدا تھیں
سبز پتوں میں چھپ چھپ کر۔۔۔!
جس کو خوب صورت تتلیاں دیکھتی تھیں
میں اسی خوب صورت شاہسوار۔۔۔!
چاندنی کے محدث کا یقین ہوں
جس کا نام۔۔۔میری دھڑکنوں کا مکین ہے
جب میرے لبوں پریہ الفاظ نثری نظم کی تاثیر بن کر کھیل رہے تھے۔ تبکوہستانی دوشیزہ ا ور بہلول نے میری طرف دیکھا۔۔۔!
بہلول تو وجد کی کیفیت میں مسکرائے جا رہا تھا۔ لیکن کوہستانی دوشیزہ نے کہا۔۔۔!
جس کی خاطر تم یہ ننثری نظمیہ مصرعے گنگنا رہے ہو، اس کے بارے میں ام قیس نے بھی بہت کچھ کہا ہے۔ احادیث ِمبارکہ موجود ہیں۔ طبری، ابن رشد، نے بھی بہت کچھ لکھا ہے۔ بلاذری، ذہبی کے ہاں بھی بہت کچھ ان کے بارے میں موجود ہے۔ جس مہاجری کو تم دل میں بسائے اسدی خون کا اظہار کر رہے ہو۔۔۔ اس کی تھوڑی سی جھلک تم میں بھی نظر آتی ہے۔ میں اب سمجھی۔۔۔! تم مجھے کیوں مانوس لگے۔۔۔تم میں ایک انسیت کی کشش تھی، جس نے مجھے تم سے بات کرنے پر اکسایا۔ شائد میں تمہاری خوشبو ہوں۔۔۔؟ لیکن خوشبو قید نہیں رہتی۔
تم یہ بھی نہیں جانتے، مزاج کے چہرے پر پڑی وقت کی دھول، کس طرح صاف کرنی چاہیے؟ جس سے سنت معانی کی طرح قبولیت کے تسلسل میں دل گرفتار ہو جائے۔ پھر ذہن کی غلام گردشوں میں سورج طلوع ہو کر، کسی بیت النشرح کے خطوط قطع کرنے لگے۔
کوہستانی دوشیزہ اپنی دھن مین مگن بول رہی تھی۔ لیکن میں اپنی سوچوں میں گم۔۔۔!
شیراز، گلستان، قم،زاہدان کی مختلف وادیوں سے ہوتے ہوئے!
سبز پتوں اور زعفرانی پھولوں کے ساتھ گل داؤدی کے چہرے نظروں سے چومتے ہوئے، ان کی خوشبو کو محسوس کرتے ہوئے، تبریز کی وادیوں میں سوکھے گلاب کی جڑوں میں اترتی سرخ شراب سے شاخوں پر سبز پتے نمودار ہوتے دیکھ رہا تھا۔ میں اپنے ہمزاد سے جھگڑا کرتی سوچوں کے بیچ کنوارے بدن کو یوسفؑ کے تابوت سے مانوس نیل کے پانیوں کی لہروں میں بھیگتے ہوئے، شب جبران کی گرم مرطوب ہواؤں کے دائرے میں بہتے چشموں پر خیالوں کی چادر دھو کر ، حلب کی گلیوں میں بھٹک رہا تھا۔ دمشق کی خون رولاتی یادوں سے بھی ملاقات ہو رہی تھی۔ جس کی وجہ سے یثرب اور نینواء کی کٹھن اور اذیت انگیز یادیں تازہ ہو رہی تھیں۔ لیکن پھر بھی محوسفر تھا۔
میں آل رکن کی مٹھی میں دبی نشانی کے ساتھ شب امتحان کے موضوع پر داستان کمال، بغداد سامرہ، قم اور رے کی وادیوں میں’’نو‘‘ کے ہندسے کی حساس کیفیات کے سوکھے کوزوں کو دشت نینوامیں دیکھ کر، حضرت جرجیسؑ کے زخموں کو بھی سوچ رہا تھا۔
کوہستانی خوشبو نے مجھے عجیب و غریب خیالات میں گرفتار دیکھا۔۔۔پھرمسکراتے ہوئے بولی ۔۔۔!
جو مختلف کیفیات کی بھیڑوں کو لسانی شعور کے متکلم آہنگ کو علامتی تلفظ کے کردار میں سمو کر،تعلق اور شعوری احساس کے حرف و معانی بیان نہیں کرتے، وہ ظاہری فصاحت وبلاغت کے وارثوں کی باطنی فکر کو بھی پہچان کی وادیوں میں بیان نہیں کر سکتے۔ اسی وجہ سے وہ نگر نگر کی خاک چھانتے پھرتے ہیں۔ اسلوبی دھڑکنیں امتیازی پہچان میں تخلیقی کرداروں پر تنقید نہیں کرتیں۔ تم یکسانیت کا شکار نہیں ہوتے۔ تمہاری رگوں میں خانہ بدوشی دوڑتی ہے۔ تمہارے ذہنی شعور میں مہاجرت کی دھوپ چھاؤں نے۔۔۔ایسی لذت کو جنم دیا ہے جس کی وجہ سے تم۔۔۔ ابھی تک مجھے پہچان نہیں سکے۔ تم نے مورمن کے زمانے میں جنم لیا۔ میں تیرے ساتھ رہی۔ پھر مورمن کی کتابوں میں سما کر، زرتشت کے زمانے سے ہوتے ہوئے۔۔۔اردا ویراف تک چلی آئی۔ پھر مانی پیدا ہوا۔۔۔!
جس نے کنفیوشس کو تو معاف کر دیالیکن زرتشت، گوتم بدھ اور عیسیٰؑ کو انبیاء شمار کرتے ہوئے، خود کو ان کے سلسلے کا آخری نبی کہا۔ لیکن جس طرح خلیل جبران کی کتاب The Prophetکو نہ نثر اور نہ نظم کہہ کر تنقید کی گئی تھی۔ میں بالکل انہی نثری نظموں کی طرح مانی کی کتابوں میں دفن ہو گئی۔ میں نے جب سیفو کی طرح ہجر میں خود کشی کر لی۔۔۔ چلویہ تو بہت دور کی باتیں ہیں۔
یا د کرو وہ وقت۔۔۔!
جب تمہیں اک کاہن، راہب، ولی نے کھدر کی چادر میں لپیٹ کر دیا تھا۔میں اس وقت بھی تمہارے پہلو سے لگی ہوئی تھی۔ لیکن تمہارے باپ نے۔۔۔تمہیں قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
تم قیس بن ذریع بن کے دنیا میں آئے۔۔۔ میں لبنیٰ بن کر تم سے کھیلتی رہی، لیکن بعد میں تم نے ہی مجھے چھوڑ دیا۔۔۔پھر میں دنیا کو بھی چھوڑ کر چلی گئی۔ میں لیلیٰ بن کرغارِ قیس کا طواف کرتی رہی۔ لیکن تم کبھی میری وادیوں تک کبھی آئے ہی نہیں۔
آج تم جہاں ملے ہو یا د کرو۔۔۔! صدیوں پہلے تم نعیم کے روپ میں آئے تھے۔ میں بالکل اسی طرح کوہستانی لڑکی کے روپ میں بھیڑیں چراتی نرگس کے روپ میں ملی تھی۔ تم اروڑ، الور اور برہمن آباد کی وادیوں میں کبھی حسن۔۔۔ کبھی محمد بن کے ملتے رہے۔۔۔لیکن کبھی رَتنا۔۔۔کبھی رعنا کو پہچان ہی نہیں سکے۔
میں تمہیں ماریہ نصرانی، اپنائے بنتِ دانیال بن کے بھی ملی، گور گانی فضاؤں میں بانو کے روپ میں ملی۔ تم بس خانہ بدوش ، سیلانی ، آوارہ بن کر ملتے رہے۔۔۔بچھڑتے رہے۔ آج تم عبداللہ کے روپ میں آئے ہو۔۔۔ میں تمہیں نثری نظم کے روپ میں ملی ہوں۔ لیکن پھر بچھڑ جائیں گے۔
اب میں تم سے پوچھتی ہوں۔۔۔!
جس طرح میں نے تمہیں یاد رکھا۔۔۔جب فلک کی سرحدوں پر دوبارہ ملاقات ہو گی۔۔۔تو کیا تم بھی مجھے اسی طرح یاد رکھتے ہوئے ملو گے۔۔۔؟
میں نے اک سرد آہ بھرتے ہوئے، آنکھیں بند کیں اور غار کی دیوار سے ٹیک لگالی۔ باد ل نہ جانے کب کے برس کر جا چکے تھے۔جس کی وجہ سے ہانپتا کانپتا سورج بھی اپنا سفر طے کرنے کے بعد کسی غا رمیں آرام کرنے جا چکا تھا۔ یا پھر بقول امیر اُنیس۔۔۔نجف میں دیا روشن کرنے چلا گیا تھا۔ بہلول رہبانیت کی چادر اوڑھے، رہبانی عصا کے ساتھ نہ جانے کب غار سے نکل کر۔۔۔انجانی منزلوں کی طرف چلا گیاتھا۔ لیکن کوہستانی دوشیزہ میرے دل میںاُتری ہوتی تھی۔ جس کی وجہ سے۔۔۔!
چاندنی زینہ بہ زینہ۔۔۔!
اک چراغ پر درود۔۔۔!
خشک لبوں پر سلام پرھتے ہوئے اْتر رہی تھی
سوسن و نسترن بھی شبنم سے وضو کر رہی تھیں
جب ہوا کی دستک پہ۔۔۔!
پھولوں کا دروازہ کھولتی ہوئی خوشبو!
تطہیر بہار کی رازداں لگی
میں شعور اورلا شعور کے بیچ محبت کی سرخی اور تبسم کی دلفریبی سوچتے ہوئے، پکارنے والے کی سبز محبتوں کے سفیر و اسیر کی فکر اور اسلوب میں ڈوبا ہوا، گزرتے دنوں کی استخارہ کرتی کرنوں میں الجھا ہوا۔ تلازماتی تاثیر کے روبرو جذباتی فعلیت کی روانی میں کائناتی اور بشری فلسفے کی وادیوں میں۔۔۔پہاڑیوں پر بھیڑوں اور پہاڑی بکروں کی مانند لوگوں کو بھاگتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔۔۔ساتھ ساتھ اشوک کے کتبوں سے یرمیاہ نبی کے نوحوں کے روبرو اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کی طرف بھی جا رہا تھا۔ جب کہ روحانی داخلی اور خارجی علم کی روانی سے۔۔۔ میرے ذہن میں یہ الفاظ بھی گونج رہے تھے۔۔۔!
’’آنکھیں کھول سبز موسم کا راز داں آگیا ہے۔‘‘میں اپنے خیالات میں گم نہ جانے کہاں کہاں کی سیر کر رہا تھا، اور میرے سامنے میری روحانی تسکین کوہستانی دوشیزہ کے روپ میں بول رہی تھی۔
وہ اختلافی تہذیب میں مصریوں کے نقطۂ نظر کو تقسیم کرتے ہوئے، یونانی ہیئت کو عجمی اسباب کے ذریعے واضح کر رہی تھی۔ وہ پارسیوں کے کردار سے مسیحی ہواؤں میں بقراطی فلسفے کے زاویوں کے میخائل نعیمی، خلیل جبران، اوشو اور پنڈت اچاریہ سے خط قطع بھی کر رہی تھی۔ جس سے ادبی جغرافیہ محدود ہوتے ہوتے۔۔۔بالکل غیر محسوس انداز سے وسیع ہوتا جا رہا تھا۔
اس نے میری آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔۔۔! درندے انسانوں کو چیر پھاڑ کر کھا جاتے ہیں۔ سانپوں کے ڈسنے سے انسان مر جاتے ہیں۔ سفر پھر بھی جاری رہتا ہے۔
وہ میرے سامنے بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔اور مسلسل بولے جا رہی تھی ۔ کچھ لمحے ر کی ۔۔۔ اور پھر دوبارہ بولی!
میں اچھا چرواہا ہوں۔۔۔مزدور کو بھیڑوں کی فکر نہیں ہوتی (بائبل)
اس کے بعد وہ پھر۔۔۔کچھ اس انداز سے بولی۔۔۔کہ بائبل میں ہی ہے۔ ’’ باپ مجھ میں ہے۔ اور میں باپ میں ہوں۔‘‘ حالانکہ اس کا سورہ اخلاص سے ٹکراؤ ہو کر، قیامت میںاور زندگی کا فلسفہ مختلف سمتوں کی طرف رخ اختیار کرتے ہوئے، عجیب و غریب حوالوں میں الجھ جاتا ہے۔ لیکن اسی بائبل میں ایک اور آیت ہے:
’’لیکن جب وہ یعنی سچائی کا روح آئیگا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا۔اس لیے کہ وہ اپنی طرف سے کچھ نہ کہے گا۔ وہ جو سنے گا وہی کہے گا۔ اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گا۔‘‘(بائبل)
پہلی آیت سے میں اس لیے انکار کر رہی ہوں۔ کیونکہ دوسری آیت میں آنے والے کا ذکر موجود ہے۔ جو احادیث سے بھی ثابت ہے۔ اب ان پر یقین وہ کرتے ہیں، جنھوں نے صلیب پر ریشمی کپڑا ڈالا ہوا ہے۔۔۔یا۔۔۔وہ جنھوں نے صلیب پر حضرت عیسی ؑکی شبیہ بنائی ہے۔ اس بارے میں مجھے نہیں پتہ۔ پھر بائبل میں ہی ہے۔۔۔کہ۔۔۔! ’’تم مجھے جلد دوبارہ دیکھو گے۔‘‘
بائبل اس کو تیسرے دن کے بعد کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ لیکن میرے نزدیک حشر کے قریب کا زمانہ ہے۔
ان ساری باتوںکے اقرار و قرار کو پرکھا جائے تو قطرے سے ، لوتھڑا اور پھر لوتھڑے سے انسانی شکل کے ساتھ شاخوں پر سرخ پھول ، سبز پتوں کے نازل ہونے کی ترتیب و تشکیل بھی نظر آتی ہے۔ نظریہ قرار کی شاخوں پر سرخ پھولوں کے ساتھ سبز پتے نازل بھی ہوتے ہیں۔ یہاں نفسیاتی رجحانات کا عمل دخل معانیوں کی حد تک ضرور ہے۔ جس میں سماجی شعور اور تہذیبی فکر میں حیوانات نباتات کے ساتھ نفسیاتی شعور بھی سامنے آتا ہے۔
جس طرح ہوا اور پانی کے ساتھ روشنی اہمیت رکھتی ہے۔ بالکل اسی طرح عشق میں آوارگان کی محفلوں میںحنوط تتلیوں کے ساتھ ماہتابی روشنی میں روشن چراغوں کے رو برو غنودگی کی گرہیں کھلنا ضروری ہیں۔ اس سے روحانی سمتوں کے سوالوں کا جواب عہد الست کی گلیوں میں ٹھوکریں کھانے سے بچ جاتا ہے۔ میں مختلف حوالوں میں دھڑکنے والے معانیوں میں الجھا۔۔۔!
نہ جانے کہاں سے کہاں بھٹک رہا تھا۔ تخلیقی کائنات کا فلسفی اور جمالیاتی دیوتائی مقامات کے روشن نقطوں میں اساطیری سوچ اور فکر کی شکلیں دکھا رہا تھا۔۔۔اور میرے ہونٹوں پر بھی عجیب و غریب حرف معانی کھیل رہے تھے۔
کل شام عشق کی بارگاہ میں۔۔۔!
لوبان و صندل سلگا کر۔۔۔!
ولیوں نے میری نثری نظم پڑھی
سنا ہے ، کہ۔۔۔!
کسی مجذوب کو دم کرنا تھا
مجھ پر کپکپی سی طاری تھی۔ مجھ سے بات بھی نہیں ہو رہی تھی۔ لیکن کوہستانی دوشیزہ ۔۔۔! گلاب و زعفران کی خوشبو۔۔۔میری نثری نظم۔۔۔!
مسلسل ’’ اِن اللہ اعلیٰ کل شئی قدیر‘‘ پڑھتے ہوئے، دلاسے دیے جا رہی تھی۔
تم محبتوں کے اسیر۔۔۔چاہتوں کے سفیر ہو۔۔۔کہے جا رہی تھی۔
مجھے جب ہوش آیا۔۔۔ تو غار میں۔۔۔میں اکیلا تھا۔ لیکن غار کی حالت بتا رہی تھی کہ جہاں کوئی اور بھی موجود تھا۔ پھر میں نے خود سے کہا۔۔۔!
بے شک عبداللہ سفر ختم نہیں ہوتا۔

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...