Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > اِیلافِ وفا > ایلافِ وفا کا تجزیاتی مطالعہ

اِیلافِ وفا |
حسنِ ادب
اِیلافِ وفا

ایلافِ وفا کا تجزیاتی مطالعہ
ARI Id

1689953282333_56117017

Access

Open/Free Access

Pages

108

ایلافِ وفا کا تجزیاتی مطالعہ
اخلاق حیدر آبادی
(شعبہ اردو ، رفاہ انٹر نیشنل یونیورسٹی ،فیصل آباد)
شاعری انسانی تخیل کا پُر جمال اور بلیغ اظہار ہے۔ شاعری میں نظم نے انسانی فکر اور ادراک کو مربوط اور پر اعتماد ہو کر آگے بڑھایا ہے۔ آرائش خیال کے لیے کبھی پابند نظم اور کبھی نظم ِ معرا کو خوب پذیرائی حاصل ہوئی۔ پھر آزاد نظم نے نسبتاً انسانی فکری جہتوں کو زیادہ بے باک انداز اور آزادی کے ساتھ پیش کیا ۔اردو شاعری کے منظر نامے میںنظم گو شعرا ابلاغ کی سطح پر پیش رفت کرتے نظر آتے ہیں۔ وقت کے ساتھ نظم کی روایت نے تخلیق کار کو ایک نئے آہنگ سے متعارف کرایا۔
شاعری کی بابت بہت کچھ کہا گیا ہے اور کہا جاسکتا ہے مگر مختصر اور جامع طور پر ہم کولرج اور شیلے کے ہم زبان ہو کر کہہ سکتے ہیں ’’شاعری تخیل کی زبان ہے‘‘ ۔کانٹ نے بہت دل نشین اندازمیں اپنی کتاب ’’انتقادِ محاکمہ(Aesthetic judgment of critique) ‘‘ میں اپنے کلیدی جملہ میں اپنے نظریہ تخیل کا خلاصہ یوں پیش کیا ہے
’’ تخیل اس مواد سے جو فطرت اس کے لیے مہیا کرتی ہے،ایک فطرتِ ثانی تخلیق کرنے والا ایک زبر دست عامل ہے‘‘(۱)
شاعر یا تخلیق کار کے پاس اظہار کے لیے جو چیز اساس بنتی ہے۔ وہ اس کا احساسِ تخیل ہے۔ ابلاغ کے لیے علامت، استعارہ ،مشاہدہ اور تجربہ تو ہوتا ہے۔ بلکہ الفاظ کے انتخاب کا کڑا فیصلہ بھی شاعر کو ہی کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح نظم کا نام بلا شبہ علامت ہے۔ کسی چیز کی ماہیت نہیں ۔ شعریات کو صنف میں علامتی سطح پر وابستہ کیا جا سکتا ہے۔ حالی ؔ کا یہ قول’’ نفسِ شعر وزن کا محتاج نہیں‘‘ اب تک ایک بامعنی اور راہنما ہے۔ عبدالسمیع اپنی کتاب ’’اردو میں نثری نظم‘‘ میں لکھتے ہیں:۔
’’نثری نظم موجودہ اصنافِ سخن کا نتیجہ ہے۔ اگر ہم تاریخی تناظر میں اصنافِ نظم کا جائزہ لیں تو ہم پہ کھلے گا کہ ہم سالہا سال بتدریج نثری نظم تک پہنچے ہیں۔ اور درمیانی مراحل میں پابند نظم، نظم ِ معرا اور آزاد نظم ظہور پذیر ہوئی ہے۔ اب نثری نظم آئی ہے۔ اس تدریج کو حریت فکر کے تدریجی فروغ کا نام بھی دے سکتے ہیں‘‘۔(۲)
کائنات کی فطرت میں تغیر ہے ۔ اسی طرح انسان بھی جامد شے نہیں ہے۔ حالات اور گردش ِ لیل و نہار کے ساتھ ساتھ انسان بھی بدلتا ہے۔ انسان کے تخیل اور اجتماعی شعور میں مختلف مدارج کا سفر جاری رہتا ہے۔تیز رفتار دنیا میں افراتفری اور انتشار ہے۔کشمکش انسانی ذہن کا مظہر ہے۔انسان کے لہجے ،اظہار اور ابلاغ نے بھی تغیر کو قبول کیا ہے۔ یا پھر یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ شعرا کا نثری نظم کی طرف رجحان ان کی خود احتسابی کا نتیجہ ہے۔ اس ضمن میں بہت سی باتیں کہی جاسکتی ہیں۔ ایک ہی طرح کے تجربات اور استعاروں کی تکرار سے نئی شاعری کا پھیلائو کس قدر رک سا جاتا ہے۔ خیر چشمۂ تخلیق کے لیے بہائو اور نئے پانی کی ضرورت رہتی ہے۔ تاہم نئے لہجے اور شاعری کے اسلوب میں بڑی شاعری کے امکانات روشن ہیں۔ انیس ناگی اپنے ایک مضمون ’’نثری نظم یا شاعری‘‘ میں لکھتے ہیں:۔
’’ اب جب کہ اردو شاعری کے پنڈال میں نثری نظم کا اسلوب اپنا جواز پیدا کر رہا ہے۔ تو اس کی تحریک سہل نگاری یا کج روی کا پیدا کار نہیں ۔یہ مروجہ شاعری میں پیدا شدہ بعض بدعتوں اور کلیشیز سے نجات حاصل کر کے شاعری کی تاریخ کو ایک نئی اسلوبیات سے روشناس کرانے کا عمل ہے جو لفظ کے مابعد کی دریافت کے ذریعے شاعری میں لفظ نئی انتالوجی‘‘ پیدا کرتا ہے اور اس کی غایت اور صوت و معانی کے الحاق کے ذریعے ایک نیا عالمِ صوت و معانی تعمیر کرتا ہے جوا س عہد کے شور و غوغا کو اپنے اندر سمو کر تجربے اور شعری اظہار کے فاصلوں کو کم کر سکے۔ ان لہجوں، علوم اور مادی معروضات کو ،جوہماری آج کی دنیا میں در آئے ہیں ، انھیں اپنے اندر سموسکے‘‘۔(۳)
گوپی چند نارنگ نثری نظم کے حوالے سے اپنی کتاب ’’ادبی متغیر اور اسلوبیات‘‘ میں لکھتے ہیں:۔
’’کوئی ایسا فن پارہ جس میں بحور اور اوزان کی روایتی اسمیات سے قطع نظر کر کے زبان کا زندہ رہنے والا استعارہ کہا گیا ہو اور خاموشی کے وقتوں میں مناسب قالب سازی کی گئی ہو۔ نیز اس میں وہ معنیاتی وحدت بھی ہو جسے عرفِ عام میں نظم سے منسوب کیا جاتا ہے،تو اس فن پارہ کو نثری نظم کہتے ہیں‘‘۔(۴)
گوپی چند کی رائے نثری نظم کی تخلیقات کے قریب ترین معلوم ہوتی ہے۔ انھوں نے نثری نظم کی تعینات کو جامع طور پر بیان کیا ہے۔ چوں کہ نثری نظم اپنے اظہار و بیان میں ایک طے شدہ ضابطے کی پابند نہیں ہے۔ اس میں مروجہ عروض اور تراکیب نہیں بلکہ تخلیقی فطری آزادی کو اہمیت دی جاتی ہے۔ نثری نظم کی ترکیب قائم ہوئے عرصہ ہو گیا ہے اور یہ ترکیب آج بھی قائم ہے۔ نثری نظم کے متبادل اسما ادبی تاریخ کی کتابوں اور رسالوں میں گم ہو گئے ہیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ نثری نظم کی ترکیب میں وہ تمام خوبیاں ہیں جس سے ایک اصطلاح تادیر قائم رہتی ہے۔
فیصل آباد کے منفرد لہجے کے شاعر منصف ہاشمی نثری نظم کے سرخیل ہیں۔ وہ ادبی حلقوں میں نثری نظم کی داغ بیل ڈالنے کی سعی کرتے رہے ہیں۔ یہ وہ دور تھا جب کراچی اور لاہور کے نثری نظم کے تخلیق کار ایک تحریک کی صورت میں اسے فروغ دے رہے تھے۔ ایسے میں فیصل آباد کے شعرا نے بھی نثری نظم کی طرف رجوع کیا۔ اگرچہ اس دور میں فیصل آباد کے ادبی حلقوں میں نثری نظم کے بارے میں مباحث کا بازار گرم تھا۔ لیکن ایسی ہی فضا میں منصف ہاشمی نے نثری نظم کو یوں تھاما کہ پھر کہیں دوسرا در نہ دیکھا۔ یوں وہ اور نثری نظم ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ٹھہرے ۔ان کا نثری شاعری کا ایک مجموعہ ’’ مٹھی میں ستارے لیے‘‘ منظرِ عام پر آچکا ہے۔
’’ایلافِ وفا‘‘کو جب میں نے دیکھا تو مجھے امرتا پریتم کی کلاسیک پستک ’’ چراغوں کی رات‘‘ یاد آگئی ۔ اس میں مختلف مذہبوں کے علاوہ مختلف ملکوں کے ادب پر بھی بہت کچھ لکھا تھا۔ اس کتاب کی سب ملی جلی کیفیتیں بھی مجھے ’’ایلافِ وفا‘‘ میں نظر آئیں۔ اس مجموعے کا آغاز ’’اے رب العالمین‘‘ سے ہوتا ہے۔ یہ نظم دراصل مناجات ہیں، مالک کے حضور۔ نظم کا لہجہ کسی الوہی نظموں کی بازگشت ہے جہاں سرمدی گیت پھوٹے ہیں۔ روح اپنے وجدانی سفر پہ محوِ پرواز ہو جاتی ہے۔ نظم کا لہجہ ملاحظہ ہو:
اے مرے مالک۔۔۔۔اے میرے خالق۔۔۔!
آسمانی نسترن عصر ِ ضیا کی سناں پر!
مردود وفا کی باتوں میں!
دلِ بسمل کی نسیم ِ سحر کے ساتھ کہانی سناتی ہے۔۔۔مجھے بہت تڑپاتی ہے
منصف ہاشمی کے ہاں اپنا منفرد اسلوب رائج ہے۔ ایک پر اسرار فضا کا ہالہ قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ اساطیر ،علامت اور استعارہ ان کی نظموں کو بلاغت عطا کرتے ہیں۔ ان کی نثری نظموں کی ہئیت اور تکنیک خوبصورت ہے۔ تخیل میں وصل کی لپک اور محبت کی کسک کی کیفیت ہے۔ شاعر محبت کی نایافت میں بے کل ہے۔ یہی انسانی زندگی کا سب سے بڑا خلا ہے کہ انسان محبت سے تہی دست نہ رہ جائے۔
یہ آج بھی مکمل چاہتوں کے معصوم خط!
قرآن میں موجود تیرے سفر ناموں کے رتھ
عصرِ جمیل کے شگفتہ گلابوں کو دکھاتا ہے
لہجے میں مناجات اور عاجزی بھری ہوئی ہے۔ نظم بھرپور اساطیر اور علامتوں کے باوجود رواں اور شستہ ہے۔ اسی طرح انداز ان کے ہاں ایک دل سوز کیفیت میں در آیا ہے:۔
جذبات کی خوشبو۔۔۔چشمِ عیدِ وفا میں !
روایتوں کے تلازمے میں۔۔۔آپ ؐ کے نام سے زندگی ہے
یہاں تخلیق کار کے لیے فطرت کے اثاثے امکانی نشانیوں کی صورت میں میسر ہیں ۔لہجے میں تراوت ہے ۔نظم ’’ارداس‘‘کے الفاظ قاری کو معطر کرنے کے لیے اپنے نافے کھول دیتے ہیں۔ منصف ہاشمی کے ہاں تخیل کی جمالیات حرف حرف یک جا ہوتی ہے۔ تخلیقیت پر جوبن آ جاتا ہے اور ایک وجدانی کیفیت لہو کی طرح تخلیق میں دوڑنے لگتی ہے۔
تہذیبِ عشق کی بارگاہ میں
سرخ موجوں کی روانی میں۔۔۔پیاس کی کہانی میں
منصف ہاشمی لفظوں کا استعمال محتاط ہی نہیں بلکہ پوری ہنر مندی سے کرتے ہیں۔ اسی لیے تو مربوط مصرع سازی میں کہیں خلا اور تشنگی کا احساس نہیں رہتا۔ جملے اپنی نفسیات کے مطابق ڈھل کر آتے ہیں۔ نثری نظم کا چہرہ اور نکھر جاتا ہے۔ انھوں نے اپنے اسلوب کو ایک آفاقی لہجہ یوں بھی عطا کیا ہے کہ وہ توریت، زبور، انجیل ِ مقدس،قرآنِ مجید، گیتا ،رامائن اور اوستا کی تلمیحات کا جا بجا رنگ بھر دیتے ہیں۔ اگر دیکھاجائے تو نثری نظم کا آہنگ آور لہجہ بھی آسمانی کتابوں اور صحیفوں کی طرح بلیغ اور ارفع ہے۔ ان صحیفوں کے کلام میں نثر و نظم کے عناصر یوں مدغم ہو گئے ہیں کہ ایک بلند پایہ اور فصیح لہجہ وجود میں آتا ہے یعنی ایک موزوں اور خوب تر آہنگ کا روپ بن جاتا ہے۔ اس نثری نظم کا اسلوب یوں تراشتے ہیں:
پھر ظہر ہوئی۔۔۔۔عصر بھی گزر گئی
اب تو دشتِ نینوا پر۔۔۔۔!
جلتے خیموں کا دھواں ہی دھواں
انسان تہ در تہ ہے ۔کہیں کہیں اس کا اعتقاد اور یقین کشف و کرامت کے ہاتھ بیعت کرتا ہے۔ منصف ہاشمی کے ہاں تو تصوفانہ روایت کے روشن باب کھلے ہیں۔ لہجے میں کرامات اور یقین کے پرتو ہیں۔ پاسبان عقل ہماری لاٹھی تو ہے مگر اس کی رسائی زیادہ دور تک نہیں ۔ ہم امکانات و ممکنات کے سفر میں زیادہ دور تک صرف وجدان کا ہاتھ تھام کر چل سکتے ہیں۔ایسے ہی لہجے اور فکر کی حامل نظم ’’اسرارِ خمار‘‘ میں یوں لکھتے ہیں:
زمانے عصر کے زاویوں میں
ایک ناقہ خمار میں ڈوبی چل رہی تھی
شبنمی چاندنی میں اسرار خوب ڈھل رہے تھے
ذات جب کسی عرفان سے فیض یاب ہوتی ہے تو خوشبو کا پیراہن پہنتے ہوئے ماورائیت کی حدود میں داخل ہو جاتی ہے ۔پھر عرفانِ ذات کا عکس نظر آتا ہے۔ نظم کی فضا میں الوہی نغمے بکھر جاتے ہیں۔ ایک عظیم تر تقدس کا خیال بکھر جاتا ہے۔ شاعر اپنے لمحے کی گرفت میں رطب اللسان ہو جاتا ہے اور قرطاس پر نثری نظم کا ہیولا ابھر آتا ہے۔ نظم کا خاکہ اور بنت نپے تلے انداز سے سامنے آتے ہیں،جس سے لہجے کی تاثیر میں اور بھی گہرائی آجاتی ہے۔ نظم ’’تمنا‘‘ کی یہ تین سطریں دیکھیں:
جس کے ماتھے پر عین شین قاف لکھا ہوا
انھی قافلوں کے جنابِ قیس ۔۔۔۔
صحرا سے ساحلوں تک علمدار بن کے آتے ہیں
حیرت ہے فراق ہجر اور وقت کا جبر سہتے ہوئے بے رحم اور بے مروت حالات کے مقابل شاعر کا لہجہ تلخ نہیں اور کڑواہٹ کا ذائقہ جیسے کافور میں بدل جاتا ہے۔ لہجے کی روانی اور زبان پر معتبر مناجات کی صدا نظم کو کہیں بھی اس کی بلندی سے نیچے نہیں آنے دیتی۔ یہی نثری نظم کا خاصہ ہے جو منصف ہاشمی سے منسلک ہو کے رہ گیا ہے۔ نظم’’جو خانہ بدوش ہوتا ہے‘‘ کی یہ سطریں ملاحظہ ہوں:
مثالِ یوسف نشاطِ زلیخا کی حدیثیں سناتا ہے
حنائی شاخوں کے وسوسے دور کرتے ہوئے
منصف ہاشمی کو ماورا سے فرصت نہیں ملتی ۔محبت وجدان اور عرفان سے آشنا انسان زمینی مسائل کو جھیلتا ہے تو انھیں محسوس بھی کرتا ہے مگر روح کا کرب تو کچھ اور ہے اور وہ روح کے اشارے پر ایک قدیم ترین راستے پر چلتے ہوئے سحر آفرین وجد کے ساتھ ہو لیتا ہے، جہاں زمینی دکھ اور کرب کہیں غیر اہم ہو کے رہ جاتے ہیں۔ محبت و عرفان کے طلسم کدے میں زیست کے جھنجٹ محض لفظوں تک محدود رہ جاتے ہیں۔ معراج محبت نہیں، فراق کا ذائقہ روح کو قرار دینا شروع کر دیتا ہے۔ اس میٹھی آنچ میں مٹی سلگتی رہتی ہے اور چاک پر مجسم تخلیق ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ لہو تسکین آور رگوں میں اترنے لگتا ہے تب نثری نظم جنم لیتی ہے۔ نظم ’’وہ‘‘ کی یہ سطریں ملاحظہ ہوں:
شہرِ عشق میں بجتی دف کے ساتھ
مندروں میں رقص کرتی داسیاںدکھاتے ہوئے
قم، رے اور سامرا کی داستان سناتا ہے۔۔۔بہت رلاتا ہے
منصف ہاشمی کے ہاں نظم صحیفے کی طرح نازل ہوتی ہے جیسے الفاظ قرینے سے استعمال کرتے ہیں کہ لفظ اپنی لے میں مغنی بن جاتے ہیں اور الوہی گیت سماعتوں میں رس گھولنے لگتے ہیں۔ شاعر قدیم دریچوں سے گزرتے ماضی کے دھندلکوں کی گرد صاف کرتے ہوئے اپنی چشم ِ تصور سے ان منظر ناموں کی حکایت بیان کرتا ہے جو ازل سے انسان کا مقدر ہے ۔انسان کی رگوں میں جنون، ضمیر کا لہو گردش کرتا ہے۔ محبت تو انسان کے خون کی تاثیر کے نام ہیں ۔یہ بھی ضمیر میں گوندھی گئی ہے مگر محبت کے باب میں نایافت کی کڑی منزل ہے ۔آہیں ،سسکیاں اور تمام حسرتیں شاعر کے لہجے اور لفظوں میں تخلیق کا روپ ڈھال لیتی ہیں،نہیں تو یہ صرف شاعر کا اثاثہ نہیں ۔ یہ تو ایک انسان کا ورثہ ہے۔ یہ کہانی ازل تا ابد جاری رہے گی۔
نظموں کی کرافٹ مضبوط تکنیکی سطح پر مصرعوں کی نشست خوب جمائی گئی ہے۔ کہیں تیز اور مدھم سُر زیرو بم ک نکھار دیتے ہیں۔ نثری نظم کی اس فضا میں اساطیری حوالے تراکیب اور علامتیں ایک نئے منطقے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ تخلیق کار ہوتا ہے جو تخلیق کو دائروں اور مخصوص علاقوں سے نکال کر وسیع تر کائنات کی پرواز سکھاتا ہے ۔ ’’ایلاف ِ وفا‘‘میں ان کا اسلوب یوں ہے:
جواز صلیب کی ارغوانی خانقاہوں کا ۔۔۔!
میں کیسے گم شدہ لفظوں کی عمیف بن کر طواف کرتا ہوں
لذت آشنائی بھی عجب ہے ۔کوئی دم ساز اور ہمراز مل جائے تو روح جھوم اٹھتی ہے۔ واقفِ روح سے سرگوشیاں کی جاسکتی ہیں ۔نیاز مہک اٹھتا ہے۔ راز کھلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ راز آشنائی کی سر زمین بھی کیا ہے ۔روح وجد میں آ جاتی ہے۔ تصورات ہم آہنگ ہو جاتے ہیں۔ کبھی کبھی زندگی میں وہ پل مل جاتا ہے جس کی کبھی خواہش کی ہوتی ہے۔ جس سے کی ہوئی محبت کو فراموش نہیں کیا جاسکتا اور جب حادثات شب و روز میں اچانک رو برو آ ٹھہرتا ہے تو کائنات بھی جھوم اٹھتی ہے۔ ایک تسکین آمیز سکوت طاری ہو جاتا ہے۔
تاثیر انکشاف کا دائرہ مکمل کر رہی تھی
آفاقی جالیوں سے اک نگاہ۔۔۔۔میرے تعاقب میں تھی اور مجھ پر
قلندرانہ بہار کے ساتھ۔۔۔عارفانہ وجد طاری تھا
اس مجموعے میں شامل ایک اور نظم جس میں حرف و تصور کا حسن مدغم ہو گیا ہے اور نثری نظم کا صحیفہ اترتا ہے، الفاظ کا تناسب اور قدر محتاط اور متوازن ہے کہ داخلی آہنگ کا سحر پوری طرح رواں ہو جاتا ہے۔ بند شاعری رشک کرتی نظر آتی ہے۔ مختصر لکھی ہوئی نظموں میں اساطیر اور علامت کا حوالہ نظم کو کامل بنا دیتا ہے۔ بعض اوقات کسی تخیل کی وضاحت میں بے شمار صفحات اور مضامین کم پڑ جاتے ہیں مگر خیال ،آمد کی تکمیلی اساس اگر ایک تلمیح یا اساطیر پر ٹھہر جاتی ہے تو مکمل واردات بھی سمجھ آنے لگتی ہے۔
منصف ہاشمی کے ہاں تو قدیم حوالے اور تاریخی آثار کے نئے طلوع ہوتے ہوئے معانی کثرت سے ہیں۔ ان کے ہاں تخلیقی فضائیں ماضی اور اس کے اسرار یوں رچ بس گئے ہیں کہ ہم ان عناصر کے بغیر شاید ہی کوئی نظم تکمیل کے مرحلے سے گزرتے ہوئے دیکھیں:
فرشتوں کی طرح معصوم۔۔۔میرے ذہن کی غلام گردشوں میں
زینتِ قرار بن کر ۔۔۔۔اعتبار کے لہجے میں رہتی تھی
جس طرح غزل نے تغزل کے بغیر روایتی غزل کا ہیولا ہمارے سامنے ادھورا رہ جاتا ہے اسی طرح منصف ہاشمی کے ہاں نثری نظم ،حکایت، من و تو کو وجدان آفرین لہجے میں ادا کرتی ہے کہ ہم دیگر عصر ِ موجودات کو فراموش کر دیتے ہیں۔ ان کے ہاں نظم کی فضا کیف آفرین ہے۔ جہاں روح رقص کرتی ہے۔ جذبے اپنے گھنی بیلوں کے بن میں جھومتے ہیں۔ نشیلے چراغ جل اٹھتے ہیں۔ جہاں سایوں کا لہلہاتا عکس حقیقت بن جاتا ہے اور باقی ساری کائنات مدہوش ہو جاتی ہے۔ لفظوں کی اس فنکاری اور مصرعوں کی تکنیک اور تخیل کی انفرادیت ان کے ہاں نثری نظم میں ایک اور ہی آسماں کو وا کر دیتی ہے ،جہاں کسی دوسری پرواز کا پرتو نہیں ہوتا ۔یہ اعجاز منصف ہاشمی کی نظم کو حاصل ہے۔
حوالہ جات
۱۔ محمد ہادی حسین، شاعری اور تخیل، لاہور، مجلسِ ترقی ادب، ۲۰۰۵ئ، ص۵۳
۲۔ عبدالسمیع، اردو میں نثری نظم، نئی دہلی، ادارہ تحقیق دریا گنج، ۲۰۱۴ئ، ص۳۱۴
۳۔ انیس ناگی، نثری نظم یا شاعری، مضمون مشمولہ ادبیات، اسلام آباد، شمارہ اکتوبر ۲۰۰۷، ص۲۵
۴۔ گوپی چند نارنگ، ادبی متغیر اور اسلوبیات، لاہور، سنگِ میل، پبلی کیشنز، ۲۰۰۸ئ،ص ۳۱

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...