Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > گلستانِ عشق > عرضِ مصنف

گلستانِ عشق |
حسنِ ادب
گلستانِ عشق

عرضِ مصنف
Authors

ARI Id

1689954541792_56117090

Access

Not Available Free

Pages

11

بندہ ناچیز انتہائی ادب سے عرض گزار ہے کہ اللہ رب العزت نے ہمیں انسان بنایا اور اپنے پیارے محبوب کے دامن رحمت سے وابستہ فرمایا ۔ علاوہ ازیں بے شمار نعمتوں سے نوازا۔
ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے رب کی عبادت کریں اور اس کے شکر گزار بندے بنیں۔ شریعت مطہرہ کے مطابق اپنی زندگی بسر کریں، لیکن ہم دین سے بہت دور ہوتے جارہے ہیں ۔ نفس کی خواہشات اور رسم و رواج کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیںاور دین کے معاملہ بھی اپنی مرضی کرتے ہیں ۔ کسی نے کیا اچھا لکھا ہے:
جیویں پیارا راضی ہووے مرضی ویکھ سجن دی
جئے کر مرضی اپنی لوڑیں ایہہ گل کدے نہ بندی
جب کہ خدمت، ہمدردی ، درد دل کا جذبہ ہونا چاہیے ۔ علماء کا کام تو صرف بتادینا ہے عمل ہم نے کرنا ہے: ’’جیسا کریں گے ویسا بھریں گے‘‘ ۔ ذکر آتا ہے کہ بھگت کبیر کی جھونپڑی مذبح خانے کے پاس تھی ۔ جانور ذبح ہوتے وقت درد بھری آواز نکالتے تو آپ پریشان ہوکر کلی سے باہر آجاتے ۔ آخر آپ نے فرمایا :
کبیرا تیری جھونپڑی گل کٹیوں کے پاس
جو کرے سو بھرے توں کیوں رہے اداس
یہ دنیا کی زندگی بہت ہی مختصر ہے۔ سب کچھ یہیں چھوڑ کر چلے جانا ہے۔ کسی نے کیا خوب لکھا ہے:
اجڑ گئے وہ باغ جس کے لاکھوں مالی تھے
سکندر جب گیا دنیا سے دونوں ہاتھ خالی تھے
لکھیا چن چراغ نے سرفراز خان نوں:
کجھ کھا لیئے کجھ پی لیئے کچھ دے دیئے رحمان نوں
اتنا غرور نہیں چاہیے اس قبر دے مہمان نوں
چن چراغ میاں اس پینگ نے ٹٹ جاونا
ایہ جیہڑی چڑھی ہے اسمان نوں
اس زندگی کو کیوں نہ اللہ کی یاد میں گزارا جائے ، یہی ہماری کامیابی ہے بلکہ کوئی لمحہ بھی اللہ کی یاد سے غافل نہ گزرنے پائے ۔ ابھی جوانی میں ہی زندگی میں تبدیلی آنی چاہیے۔ بڑھاپے میں ہمت و طاقت جواب دے جاتی ہے جیسے حج و عمرہ میں پہاڑوں پر چڑھا نہیں جا سکتا ۔ زیار ت کی حسرت دل ہی میں رہ جاتی ہے اور بزرگوں کا بھی یہی فرمان ہے :
جس کھیتی دا ککھ نہ رہیا نہ سکا نہ ہریا
کیہ کرسی دھپ سکاون سیتی کیہ کرسی بدل ورھیا
ذکر آتا ہے کہ حضرت بابا فرید گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ خط بنوارہے تھے، حجام نے عرض کی حضور ہونٹوں کو روک لیں کہیں کٹ نہ جائیں ۔ آپ نے فرمایا :ہونٹ اگر کٹ بھی گئے تو زخم ٹھیک ہوجائے گا لیکن جو لمحہ اللہ کی یاد سے غافل گزرا وہ واپس نہیں آئے گا۔
یہ وہ لوگ تھے جن کی پوری زندگی اللہ کی یاد میں گزری ۔ ان کے مرنے کے بعد بھی ان کے مزاروں پر رونق ہے اور تاقیامت رہے گی اور لوگ فیض یاب ہوتے رہیں گے اور ان کا نام زندہ رہے گا۔ یہ لوگ ہماری طرح نہ دولت و شہرت نہ نفس کے پجاری تھے اور ان کی تعلیم بھی بہت ہی سادہ تھی۔ ایک مرید نے قینچی پیش کی تو آپؒ نے فرمایا یہ کس کام کے لیے عرض کی حضور یہ کاٹنے کا کام دیتی ہے ۔فرمایا سوئی کیوں نہیں لائے جو سینے یا جوڑنے کا کام دیتی ہے۔ اس سے مسلمانوں کو آپس میں اتفاق سے رہنے کا سبق ملتا ہے ۔ حضور بابا فرید الدین گنج شکر ؒنے اولیائے کاملین کی محفل میں بیٹھنے کا اشارہ بھی دیا ہے ۔ اللہ والوں کی محفل میں انسان کی عملی زندگی بہتر ہوجاتی ہے۔ فرمایا :
اُٹھ فریدا ستیا سیر کرن نوں جاء
جئے کوئی مل جائے بخشیا ہویا توں وی بخشیا جاء
اور جو لوگ دوسروں کا مال و دولت دیکھ کر دل میں تمنا رکھتے ہیں ان کو حوصلہ دینے کے لیے فرمایا :
رکھی سکھی کھاء فریدا ٹھنڈا پانی پی
ویکھ پرایاں چوپڑیاں نہ ترساویں جی
فرمایا: آگے چل کر حساب ہونا ہے ۔ تیرا سارا اعمال نامہ تیرے ہاتھ میں آجائے گا پھر تو پچھتائے گا اور جو ناجائز کمائی سے مال کماتے ہیں اور سمجھتے ہیں ہم کامیاب ہوگئے ہمیں سکون مل جائے گا ان کے متعلق فرمایا :
روٹی تیری کاٹھ دی لاون تیرا بھکھ
جیہناں کھادی چوپڑی گھنے سہن گے دکھ
باوجود اتنے زہد و تقویٰ کے آپ اپنے نفس کو اس طرح تسلی دیتے اور فرماتے :
کالے میڈے کپڑے کالا میڈا بھیس
گناہیں بھریا میں پھراں لوک کہن درویش
پھر فرمایا ـ:
چٹی چادر لاء دے کڑیے پہن فقیری لوئی
چٹی چادر نوں داغ ہزاراں لوئی داغ نہ کوئی
قادری سلسلے کے حضرت سلطان باہو ارشاد فرماتے ہیں :
عدل کریں تاں تھر تھر کنبن اچیاں شاناں والے ہو
فضل کریں تاں بخشے جاون میں ورگے منہ کالے ہو
عاجزی ،انکساری ہی اصل دولت ہے ۔ اس سے ہی انسان کو عزت و شہرت ملتی ہے ۔ بقول بہادر شاہ ظفر:
نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنے خبر رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر
پڑی اپنی بُرائیوں پر جو نظر تو نگاہ میں کوئی بُرا نہ رہا
لوگ بغیر سوچے سمجھے پیرو مرشد پکڑ لیتے ہیں، پھر مقصد حاصل نہیں ہوتااور ساری زندگی دھکے کھاتے رہتے ہیں۔ جس مرشد کا اپنا عمل شریعت کے مطابق نہیں وہ شریعت و طریقت اور روحانیت کا علمبردار کیسے ہوسکتا ہے؟ کسی نے بہت ہی اچھا لکھا ہے:
خلاف پیمبر کسے را گذید
ہرگز بہ منزل نہ خواہد رسید
علاوہ ازیں محاورہ بھی ہے :
پانی پیئوئے پن کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پیر پکڑیئے چن کے
کوئی آدمی کسی پیر کا مرید ہونے گیا تھوڑے دن رہنے کے بعد اجازت چاہی ۔ بزرگوں نے فرمایا کیسے آئے تھے ۔ حضور مرید ہونے آیا تھا مگر کوئی کرامت ہی نہیں دیکھی ۔ فرمایا میرا کوئی کام شریعت کے خلاف دیکھا ۔ عرض کیا نہیں ۔ حضور نے فرمایا یہی سب سے بڑی کرامت ہے۔ اس شخص نے معذرت چاہی اور مرید ہوگیا۔ آج کل یہ زیادہ ہوگیا ہے کہ درویشوں اورپیروں کا روپ دھار کر سادہ لوح لوگوں کا ایمان خراب کرتے پھرتے ہیں جو نہ نماز پڑھتے ہیں اور نہ شریعت مطہرہ پر عمل کرتے ہیں یہ دوسروں کی رہنمائی کیا کریں گے۔ ان کے متعلق کسی شاعر نے کیا اچھا لکھا ہے :
تسبی توری کاٹھ کی دھاگے لئی پرو
من میں گھنڈی پاپ کی اب رام جپاں کی ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
من میلا تن اجلا بگلے جیسا بھیس
ان سے تو کوا بھلا جو اندر باہر ایک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سچ آکھاں تے بھانمبڑ مچدا اے
جھوٹ اکھاں تے کجھ نہ بچدا اے
(بابا بلھے شاہ )
آخر وچ میں اپنے پڑھن والے بھراواں دی خدمت وچ بڑے ادب نال گزارش کراں گا۔ پئی میرا اپنے بزرگاں نال اظہار عقیدت تے انہاں دے روحانی سفر دی وی منظر کشی بڑے ہی اچھے ، بہتر انداز دے وچ کیتی اے ۔ امید ہے کہ پئی معرفت تے سلوک رکھن والیاں دے شوق وچ ہور وی زیادہ وادھا ہووے گا۔ بندہ بھلن ہار اے۔ اگر کسی جگہ کوئی کمی کوتاہی ویکھو تاں ضرور دسیا جاوے پئی دوجی واری اسنوں دور کیتا جاسکے ۔
خاکپائے اولیاء
اقبال قادریؔ
بہاول نگر

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...