Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > حسن کن : مسدسِ مصطفیٰؐ > اقرار کی مسدسِ مصطفیٰؐ

حسن کن : مسدسِ مصطفیٰؐ |
حسنِ ادب
حسن کن : مسدسِ مصطفیٰؐ

اقرار کی مسدسِ مصطفیٰؐ
Authors

ARI Id

1689954781228_56117179

Access

Open/Free Access

Pages

۷

اقرار کی مسدسِ مصطفی ﷺ
پروفیسرڈاکٹرمحمدافتخارشفیع
نعت کو دیگر اصناف ادب پر وہی تفوق حاصل ہے جو اس کی موضوعہ ہستی کو باقی انسانوں پرہے(یعنی بعدازخدا.....)۔گزشتہ صدیوں میںنعت کا تخلیق کردہ سرمایہ بہت زیادہ ہونے کے باوجود طلب سے کم ہے۔زمانوں کے تغیر نے کیسے کیسے نامیوں کے نشانات کو بود سے نابود کردیا ۔ دنیا کے فٹ پاتھ سے انسانی نسلوں کے نہ جانے کتنے گروہ بے خیالی میں گزر گئے ،ایسی مقدس ہستیاں بہت کم ہیں جنھوں نے جلوسِ جہاں میں اپنی یادوں کے دستخط ثبت کیے ۔وقت کے بہتے دھارے نے انسانی چہروں پر فراموشی کی دھول جما دی، لیکن چنیدہ لوگوں میں سر فہرست ایک باکمال ذات ایسی بھی ہے کہ وقت کا یہ سیلِ بے پناہ اس کے جمال ِپرانوار میں روز بہ روز اضافہ کرتا جارہا ہے۔اس کا ذکر حسب ِوعدہ بلند سے بلند تر ہوتا جارہا ہے ۔دنیا کے دیگر مذاہب اور عقاید میں تصویریں اور بت بنا کر اپنے مشاہیر کو خراج تحسین پیش کرنے کی روایت موجود تھی،اسلام میں اس کی سخت ممانعت کی وجہ سے پیغمبراسلام ﷺ کی خدمت میں الفاظ کا نذرانہ بہ ذریعہ نعت پیش کرنے کا آغاز ہوا۔
نعت کی صنف اپنے جلو میں متعدد فکری زاویے رکھتی ہے ۔آپ جناب سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کے ساتھ ساتھ صورت میں بھی نورونکہت کی ہمیشگیاں فی الحقیقت اسی مقدار میں موجود ہیں جسے دوسرے لفظوں میں خیر کثیر کہا جاتا ہے۔جس طرح زندگی کے جمالیاتی زاویوں کی افادیت سے انکار ممکن نہیں بالکل اسی طرح اس عظیم ہستی کے جمال پرنور کی عظمت سے کیسے انکارممکن ہے۔ہماری شاعری میں داخلی کیفیات کی ترجمانی ہو، یا ملت کے اصلاح احوال کے تذکرے، ملتِ بیضا کی مشکلات کو استغاثے کی صورت میں بیان کرنے کا ہنر ہو یا حسن وجمال روحانی نقش گری کی لگن، آپﷺ کی تعریف و توصیف کے منظم رحجانات بہ آسانی دیکھے جا سکتے ہیں۔ قدیم اردو میں معراج ناموں اور شمائل ناموں سے فروغ پانے والی اس پر نور اور معطر شاعری نے اکیسویں صدی میں مذہبی شاعری کے تشکیلی عناصر کوبھی سائنس کی ترقی اور مادیت پرستی کے تناظر میں فرد کی تنہائی کے ساتھ وابستہ کردیا ہے۔اس ماحول میں نعتیہ شاعری میں استغاثے کی روایت نے جنم لیا۔مولانا الطاف حسین حالی کی ’’مدوجزراسلام‘‘ (مسدس حالی) اس سلسلے کی ابتدائی کاوش تھی۔اس شہرہ آفاق تخلیق نے قوم کے دردوغم کو آنحضور ﷺ کی سرکارمیں پیش کرکے برصغیرپاک وہند کے مسلمانوں کے سماجی مسائل کے حل کی ایک کوشش کی تھی۔شعری ہئیتوں کو عصری شعورکے ساتھ منسلک کرکے دیکھاجاناچاہیے،نعتیہ شاعری کے لیے غزل، نظم،مسمط،مثنوی،قطعہ،نظم ِمعریٰ،ہائیکو،آزاد نظم وغیرہ کی شکلیں رائج رہی ہیں۔ اردوکی قومی شاعری میں مسدس کی ہیت ہمارے شعراکے لیے خاصی پرکشش رہی تھی،لیکن انیسویں صدی کے آخرمیں نئی ہئیتوں کے ورود سے اس کی چمک قدرے ماندپڑگئی ۔
اردو کے معروف شاعر اقرار مصطفی کے لیے اس سے بڑھ کرسعادت اورکیاہوگی کہ ان کا نام ایک سو پینتالیس بند پرمشتمل اس نعتیہ مجموعے کے ذریعے آپﷺے مدح سرائوں میں شامل ہورہاہے۔اقرار شعر و سخن کی دنیا میں نئے نہیں اس سے پہلے’’اقرار‘‘ اور ’’درکار‘‘کے عنوان سے ان کے دو شعری مجموعے شائع ہوکر اہل نظر سے داد پاچکے ہیں۔ادبی حلقے ان کے شعری مقام ومرتبے سے خوب آگاہ ہیں۔اقرار مصطفی صاحب کے ہاں پیدا شدہ فکری ارتقانے نعت رسول مقبول کواظہارکاوسیلہ بنایاہے،بلکہ یوں کہیے کہ ذات باری تعالیٰ نے اقرار کی نعت کو ایک معدوم ہوتی ہوئی شعری ہئیت کی نئی زندگی کے لیے چن لیاہے۔ اس شعری مجموعے کی اشاعت نعتیہ ادب کی مقدس روایت کی تجدید ہے۔ہر وہ شعر نعت ہے جوہمیں آقائے نامدارﷺکے قریب کردے،اس کتاب میں تو جابجا حسنِ عقیدت کی،اسی نوعیت کی متنوع جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں۔یہاں کتاب کا انتساب دیکھیے:
تخلیق کا سبب ہے مرے مصطفیٰؐ کی ذات
وہ ذات بھی ہے ایسی کہ ہے منبعِ صفات
وہ منبعِ صفات کہ ہے حاصلِ حیات
ایسی حیات جس سے درخشاں ہے کائنات

ان کی عطاسے ان کے لیے ہی لکھی کتاب
پھرکیوں نہ ان کے نام کروں اس کا انتساب
اس مجموعۂ کلام کا اساسی موضوع ہرمرحلے پر نعت ہی رہاہے، کسی مقام پربھی انقلابی یا اصلاحی روپ میں منتقل نہیں ہوا۔خوب صورت منظرکشی اوردیگرجزئیات کے باوجود یہ شاعری کسی مقام پر بھی اپنے موضوع سے انحراف نہیں کرتی۔ابتداروایت کے مطابق حمدباری تعالیٰ سے ہوتی ہے۔غم واندوہ کے مارے لوگوں کے لیے مالک ومعبود ِ حقیقی کا نام زخموں کے لیے مرہم اور قلب و نظرکے لیے سرور کا باعث ہے:
اے خالقِ حقیقی ہویدا ہے تیرا نام
وردِ زباں ہے تو کہ جلیسا ہے تیرا نام
زخموں کا اندمال ہے، ایسا ہے تیرا نام
یعنی مداوا رنج والم کا ہے تیرا نام

واحدہے لاشریک ہے یکتا ہے صرف تو
تیرے سوا نہیں کوئی مولا ہے صرف تو
نعت گوئی کااولین محرک تو عشق واطاعت رسول ﷺ ہی ہے لیکن اس کا ایک خوب صورت جزوآپﷺ کے دنیامیں تشریف لانے کی خوشی کو شعری پیراے میں بیان کرناہے۔فی الحقیقت ولادت ِمصطفی ﷺ اہلِ عشق کے لیے دنیاکا سب سے اہم واقعہ ہے،اقرار نے اپنے موضوع سے باہم ارتباط رکھنے والے اس شعری مجموعے میںکچھ اس مہارت سے شعر کہے ہیں کہ کسی بھی مرحلے پر اس کا نعتیہ آہنگ متاثرنہیں ہوا،آپؐ کی ولادت باسعادت کے حوالے سے حضرت محشر بدایونی کا ایک شعر دیکھیے:
وہ ایک رات چراغاں ہوا زمانے میں
ہوا بھی ہوگئی شامل دیے جلانے میں
اقراؔر نے اس موضوع کو اپنے مخصوص انداز میں بیان کیا ہے،ان کے ہاں قاری یا سامع کوچونکادینے کی بجائے گردونواح کے ماحول کی منظرکشی اور اس کے اثرات کاپہلو نمایاں رہا ہے۔آپ کی ولادت باسعادت کے حوالے سے ایک بنددیکھیے:
چہرہ زمیں کا سارے کا سارا چمک اٹھا
جب آمنہ کی گود میں آئے ہیں مصطفیٰؐ
اور مُطّلب کی آنکھ نے دیکھا کہ جا بجا
کعبہ میں ایک نور ہے جیسے اتر رہا

احساں ہے کائنات پہ ربِ غفور کا
الطافِ بے بہا ہوا صدقہ حضورؐ کا
’’مسدسِ مصطفی‘‘میں آپ ﷺکی بادشاہی میں فقیری کا ذکربھی ملتاہے،ہماری موضوعہ ہستی ہردوعالم میں چنیدہ ہے۔جس کے نعلین کی رسائی آسمانوں تک ہو ،اس کے حضیض ِ بندگی کی یہ مثال ہو تو سوچیے کہ اوجِ کبریا کی منزلیں کیاہوں گی۔ یہ وہی متبرک ومقدس ہستی ہے جس کا ذکر اللہ کے بعدسب سے بلندہے۔اقرار مصطفی کااندازملاحظہ ہو:
گو ہے پھٹی پرانی چٹائی حضورؐ کی
عرش بریں تلک ہے رسائی حضورؐ کی
مقصود تھی جو حق کو بڑائی حضورؐ کی
الفت ہرایک دل میں بسائی حضورؐ کی
کلمہ، نماز چاہے اذاں کا ہو سلسلہ
ذکر خدا کے ساتھ ہے ذکر نبیؐ روا
ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نعت جیسے وسیع موضوع میں کہیں کہیں اپنے عقاید کے باعث تحدید کا شکارہوجاتے ہیں۔یہ الگ بات کہ مشرقی شعریات میں زیادہ تر حضورﷺ کے حلیۂ مبارک،معجزات اور واقعہ معراج کو موضوع بنایاگیاتھا،اس سلسلے میں معمولات ،غزوات، عبادات، اعمال،حسن بیان،حسن سلوک،شرم وحیا،عدل وانصاف،ایثار وقربانی،رقیق القلبی،شجاعت ودیانت،جود و سخا، مساوات و التفات،حلم وبردباری اور ایسے کئی موضوعات کی طرف توجہ ذرابعدمیں دی گئی۔حالانکہ اب تک جتنی شعری تخلیقات منظرعام پر آئی ہیں ان میں آپﷺ کے درجات وکمالات کاذرا ساحق بھی ادا نہیں ہوسکا،ایک شاعر نے اپنے محدود فکروتفلسف کی بدولت مدحت ِ رسول ﷺ کی سعادت حاصل کی لیکن اس کے باوجود وہ حق کہاں ادا کرپایا،اور اگر اس نے کربھی لیاتو جواشیا اس کی فہم وفراست سے ماورا ہیں ان کے اظہارکی کیا صورتیں ہوں گی۔کیوں کہ یہ ہر کجا ہنگامہ عالم بود؛رحمتہ للعالمینی ہم بود والا معاملہ ہے۔اقرار مصطفی نے کوشش کی ہے کہ اپنی نعتیہ شاعری کے موضوعات میں کچھ منفرد بات بھی کریں۔اس میں وہ کہاں تک کامیاب ہوئے ہیں،اس کا فیصلہ ان کا قاری احسن طریقے سے کرسکے گا۔
ٹوٹا جمود ِذات، گئی فکرِ انجماد
اجلا نظامِ فکر، مٹی فکرِ انجماد
نقشہ بدل گیا کہ ہٹی فکرِ انجماد
صلِ علیٰ کی رو میں بہی فکرِ انجماد

ذہنوں کو تیرگی سے کیا پاک آپؐ نے
روشن مثال کردیا اِدراک آپؐ نے

اُنؐ کو فقیہہ اُنؐ کو مقرر کہے کوئی
اُنؐ کو امام اُنؐ کو سخن ور کہے کوئی
اُنؐ کو حبیب اُنؐ کو پیمبر کہے کوئی
اُنؐ کو بشیر اُنؐ کو منور کہے کوئی

مجھ سے ہے فقر اور فقیری سے ہوں، کہا!
ورنہ یہ کائنات تو صدقہ ہے آپؐ کا
’’مسدس ِمصطفی‘‘کے اختتام پر شاعر ملتجی ہے کہ اس تخلیق کی نسبت سے اسے بھی اذنِ حضوری عطاہو:
اب تو حضورؐ قوتِ پرواز دیجیے
اب تو حضورؐ رس بھری آواز دیجیے
اب تو حضوؐر لائقی انداز دیجیے
اب تو حضورؐ اپنے تئیں ناز دیجیے

دوری سے آقاؐ عرض ہے میرا سلام ہو
اذنِ سفر ملے تو یہ حاضر غلام ہو
میرے خیال میں جس معاشرے میں ملائیت دورکعت کے امام کی محتاج ہو اور فکروتفلسف ذہنی انجماد کا مظہرقرار پائے وہاں ایسی شعری ضوفشانیاں خراج تحسین کے لائق ہیں۔اقرار مصطفی صاحب کی اس شعری تخلیق میں ایک مختلف اندازکی جھلک موجود ہے،اگروہ کوشش کریں تواس فن کی مزید سمتوں کاسراغ لگاسکتے ہیں۔اللہ پیش حضورﷺ اس ادنیٰ سے نذرانے کو قبولیت کی سندعطاکرے۔آمین

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...