Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > حسن کن : مسدسِ مصطفیٰؐ > اُردو نعت میں’’ حسنِ کُن‘‘ کا اختصاص

حسن کن : مسدسِ مصطفیٰؐ |
حسنِ ادب
حسن کن : مسدسِ مصطفیٰؐ

اُردو نعت میں’’ حسنِ کُن‘‘ کا اختصاص
Authors

ARI Id

1689954781228_56117181

Access

Open/Free Access

Pages

۱۵

اُردو نعت میں’’ حسنِ کُن‘‘ کا اختصاص
ڈاکٹر عارف حسین عارفؔ
نعت، کمالاتِ نبویﷺ کی تفسیر ہے۔یہ محض حضورﷺ کی منظوم توصیف کا نام ہی نہیں بلکہ حضور نبی کریمﷺ کے حقیقی کمالات کی ایسی پیشکش کا نام ہے جس سے ایمان میں تازگی اور بالیدگی اُسی وقت پیدا ہوتی ہے جب مدّاح کا دل رسول اللہﷺ کی محبت کے حقیقی جذبات سے سرشار ہو۔جذبۂ نعت دل میں محبتِ رسولﷺ کی شمع فروزاں کر دیتا ہے۔ اس سے جمالیاتی سرور کی تعبیر بھی حاصل ہوتی ہے۔ نعت توصیفِ مصطفیٰؐ کا وہ مستحسن انداز ہے جس میں الفاظ، زبان سے نہیں پلکوں سے ترتیب دیے جاتے ہیں۔ بقول راجا رشید محمود:
’’نعت سنتِ کبریا ہے ۔ قلم و زبان کا اس راہ پر قدم رکھناتلوار پر چلنا ہے ۔ اس فرض سے وہی شخص بطریقِ احسن عہدہ برآ ہو سکتا ہے جس کی نگاہ علم کے تمام شعبوں پر ہو، جو شریعت پر پوری طرح عامل ہو۔ جو رحمتِ عالمﷺ سے سچی محبت رکھتا ہو۔ جس شخص کوممدوحِ کبریا کی رفعتِ شان کا ادراک و احساس نہ ہو وہ نعت کیا لکھے گا،کیا سمجھے گا۔‘‘
نعت(ن ع ت) با لفتح(مؤنث)عربی زبان کا ایک مادہ ہے۔جو عام طور پر وصف کے مفہوم میں مستعمل ہے ۔ نعت کے معنی وصف کے ہیں۔ وصف میں جو کچھ کہا جائے اُ سے بھی نعت ہی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ وصف بیان کرنے والے کو ’ناعت‘ کہتے ہیں اور اس کی جمع’ نعات‘ ہے ۔ مضامین نعت کے مآخذ قرآن اور حدیث ہیں۔ قرآنِ مجید جس طرح اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اسی طرح وہ اسلامی ادب کی بھی پہلی کتاب ہے۔ اس میں رسولﷺ کے اوصافِ حمیدہ ملتے ہیں۔عربی کی مشہور لغت ’’المنجد‘‘ میں نعت کا مفہوم یوں بیان کیا گیا ہے:
’’نعتاً، تعریف کرنا،بیان کرنا، اچھی صفات دکھانا، اَنعَت، خوبصورت چہرے والا ہونا ،اچھے اخلاق والا ہونا۔‘‘
قرآن کریم کے بعدمستند طور پر جہاں نبی کریمﷺ کا ذکر ملتا ہے ،ان میں سب سے بڑا ذخیرہ حدیث کا ہے۔ بہت سی احادیث میں حضورﷺ کی تعریف اور نعت ملتی ہے ۔سیرت و شمائل کی تمام حدیثیں اس میں شامل ہیں۔
فارسی لغات میںنعت کا لفظ مطلق وصف اور ثنائے رسولﷺ دونوں معنی میں استعمال ہوا ہے۔ عربی اور فارسی کے باوصف اردو میں نعت کا لغوی استعمال قریب قریب ناپید ہے اور تمام لغات میں اس کے لغوی تصور کے ساتھ ساتھ یہ بھی درج ہے کہ لفظ بمعنی مطلق وصف ہے لیکن اس کا استعمال حضورﷺ کی ستائش و ثنا کے لیے مخصوص ہے۔ ممتاز حسن نے ’’ خیرالبشر کے حضور میں ‘‘ نعتیہ شاعری اور نعت کے موضوع اور فن پر گفتگو کرتے ہوئے اس کی بڑی بلیغ اور جامع تعریف کی ہے:
’’ میرے نزدیک ہر وہ شعر نعت ہے جس کا تعلق ہمیں حضور رحمت اللعالمین ﷺ کی ذاتِ گرامی سے قریب لائے،جس میں حضورﷺ کی مدح ہو یا حضورﷺ سے خطاب کیا جائے ۔ صحیح معنوں میں نعت وہ ہے جس میں محض پیکرِ نبوتؐ کے صوری محاسن سے لگائو کے بجائے مقصدِ نبوتؐسے دل بستگی پائی جائے۔ جس میں رسالت مآب ؐسے صرف رسمی عقیدت کا اظہار نہ ہو بلکہ حضورؐ کی شخصیت سے ایک قلبی تعلق موجود ہو ۔ وہ مدح یا خطاب بالواسطہ یا بلا واسطہ اور وہ شعر نظم ہو یا غزل قصیدہ ہو یا مثنوی ، رباعی ہو یا مثلث مخمس ہو یا مسدس ،اس سے نعت کی نوعیت میں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔البتہ نعتیہ کلام کی معنوی قدر و قیمت کا دار و مدار اس کے نفسِ مضمون پر ہے۔اگر ا س کا مقصد ذاتِ رسالتؐ کی حقیقی عظمت کو واضح کرنا اورآقائے دو جہاں کی جو بعثت کی اہمیت نوعِ انسانی اور جملہ موجودات کے لیے ہے ،اسے نمایاں کرنا ہو تووہ صحیح طور پر نعت کہلانے کا مستحق ہے۔ پیکرِ رسالتؐ سے قرب کا جذبہ یقینا ایک نعتیہ پہلو رکھتا ہے۔‘‘
شاعرانہ اصطلاح میں وصف کسی چیز کے عوارض اور اس کی خصوصیات کو نمایاں کرنے کو کہتے ہیں اردو ادب اور دنیا کی تمام دوسری زبانوں میں نعت کا لفظ صرف اور صرف حضوراکرمﷺ کی مدح میں کہے گئے منظوم اظہار کو کہتے ہیں۔ راجا رشید محمود ’’نعت کائنات‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’ اب قریباً دنیا بھر کی مسلم علاقوں کی زبانوں میں ’’ نعت ‘‘ لغوی معنوں کے دائرے سے نکل کر اصطلاحی معنوں کے واضح اور وسیع تناظر میں نظر آنے لگی ہے ۔لفظ نعت سے ایک خاص قسم کی شاعری مراد لی جاتی ہے،جس میں آنحضورؐ کی پاکیزہ شخصیت کی تعریف و توصیف کی جاتی ہے۔‘‘
رفیع الدین ہاشمی نعت کے مفہوم کو واضح کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’ نعت وہ صنفِ نظم ہے جس میں رسول اللہ ﷺ کی ذات، صفاتِ اخلاقی اورشخصی حالات وغیرہ کا بیان ہوتا ہے۔‘‘
نعت کا لفظ عربی سے فارسی میں اور فارسی سے اردو میں آیا ۔یہ لفظ اردو تک پہنچتے پہنچتے ایک خاص مفہوم سے وابستہ ہو چکا تھا۔ اس لیے اردو میں اس کا استعمال ایک مخصوص اصطلاح کے طور پر نظر آتا ہے ۔یعنی اس سے صرف آنحضرتﷺ کی مدح مراد لی جاتی ہے۔
عربی میں لفظ نعت کا استعمال سب سے پہلے حضرت علی ؑ نے استعمال کیا ۔ ابتدا میں اس کا نام المدح النبوی ﷺ تھا اور بعد میں آپ ﷺ کی تعریف و توصیف کے لیے نعت کا لفظ استعمال ہونے لگا۔عربی کے پہلے اور اہم شاعر حضرت حسانؓ بن ثابت ہیںجنھوں نے آنحضرتﷺ کی شان میں اپنے جذبے کو عشقِ رسولﷺ میں ڈبو کر نعت لکھی۔ انھیں شاعرِ دربارِ رسالت ہونے کا شرف حاصل ہے۔ عربی کے دوسرے شاعر جنھیں نعت گوئی میں خاص شہرت حاصل ہے وہ کعب ؓبن زبیر ہیں۔ عربی میں نعتیہ شاعری کا باقاعدہ اور پر زور آغاز اس وقت ہوا جب ہجرتِ مدینہ ہوئی تو کفارِ مکہ نے آپؐ کی ہجو کہی۔ حضرت حسانؓ بن ثابت ،حضرت عبد اللہ ؓ بن رواحہ اور حضرت کعب ؓ بن مالک ، کفا ر کی ہجو کا جواب دیا کرتے۔عربی نعت گوئی کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے حضورﷺ کے جاں نثار صحابہ کرامؓ نے اپنے آقاؐ و مولاؐ حضرت محمد ﷺ سے کس طرح ٹوٹ کر محبت کی اس کی مثال کہیں مل ہی نہیں سکتی۔محبت کے اظہار کی ایک صورت ’’نعت‘‘ بھی ہے۔صحابہ کرامؓ کے دور کے بعد تابعین کے دور میں بھی نعت کو بھرپور طریقے سے اپنایا گیا اورحضورﷺ سے اپنی عقیدت و محبت کا ثبوت پیش کیا گیا۔
حضور ﷺ کے دور کے بعد بھی عربی میں نعت ایک مستحکم روایت کی صورت اختیار کر گئی اور آج تک عربی میں نعت کہی جا رہی ہے جو حضورﷺ سے محبت و عقیدت کا ثبوت ہے۔
عربی کے ساتھ ساتھ فارسی میں بھی نعت لکھنے کا رجحان بہت پرانا ہے۔ فارسی شاعری کے دورِ اول یعنی عہدِ سامانی میں نعت کا سراغ نہیں ملتا ۔ رودکی ؔاس عہد کا سب سے اہم اور ممتاز شاعر ہے۔ اس کے کلام میں نعتیہ اشعار نہیں ملتے۔ دوسرا دور عہدِ غزنوی ہے جس میں فردوسیؔ جیسا بڑا شاعر موجود ہے۔ اس نے ’’شاہنامہ‘‘ میںنعتیہ اشعار کہے ہیں۔ تیسرا دور عہدِ سلجوقی ہے ۔ اس دور میں تصوف نے شاعری کو ایک نئے انداز اور نئی فکر کے ساتھ پیش کیا ہے۔اس دور میں نعتیہ رباعیات ملتی ہیں۔ اس دور کے ممتاز شعراء میں حکیم سنائیؔ نے نعت کی طرف خاص توجہ کی ۔ فرید الدین عطاؔر بھی ایک ممتاز نعت گو شاعر گزرے ہیں۔ ان کی مختلف مثنویوں میں نعتیہ کلام شامل ہے۔مولانا جلال الدینؒ رومیؔ کو فارسی کے صوفی شعراء میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔ ان کے نعتیہ مضامین میں ایک تنوع اور خوبصورتی اور تمثیلی انداز دکھائی دیتا ہے۔سعدی ؔشیرازی بھی فارسی شاعری میں ایک اہم نام ہے ان کی نعت میں حضورﷺ سے ان کی محبت اور دلی کیفیات کھل کر سامنے آتی ہیں۔فارسی زبان کا ایک ضخیم انتخاب سید ضیا الدین نے پیش کیا ہے جس میں شعرا کو حروفِ تہجی کے تحت بیان کیا گیا ہے۔
اردو میں نعت گوئی کی ابتدا اردو شاعری کی ابتدا سے مربوط ہے ۔ اردو شاعری کا باقاعدہ آغاز نویں صدی ہجری میں ہوا اوراس صدی کے شعری نمونوں میں نعتیہ اشعار بھی ملتے ہیں۔ڈاکٹر طلحہ برق رضوی رقم طراز ہیں:
’’ اردو زبان کو دیگر زبانوں کے درمیان یہ اعزاز وافتخار حاصل ہے کہ یہ اپنی پیدائش ہی کے وقت سے مومنہ اور کلمہ گو رہی ہے‘‘
نویں صدی ہجری میں سید برہان الدین قطبِ عالم(متوفی۸۵۰ھ) صدرالدین (متوفی۷۶ ۸ھ) شاہ میراں جی شمس العشاق بیجا پوری (متوفی ۹۰۲ھ)، شیخ بہائو الدین باجن (متوفی ۹۱۲ھ) ، کبیر داس(متوفی ۹۱۵ھ)،اور دسویں ہجری کے شاہ اشرف بیابانی(متوفی ۹۳۵ھ)،قاضی محمود ریائی (متوفی ۹۴۱ ھ)،شاہ علی محمد جیو گام دھنی(متوفی۹۷۳ھ) ،حضرت شاہ برہان الدین جانم(متوفی ۹۹۰ھ)،خوب محمد چشتی گجراتی (متوفی ۱۰۲۳ھ)کے نعتیہ اشعار ملتے ہیں۔ ان شعرا کا نعتیہ کلام ان کے ملفوظات یا صوفیانہ رسائل میں درج ہے اور مثنوی کی صورت میں ہے قاضی محمود بحری (متوفی ۱۱۳۰ھ) سید محمد فراقی بیجا پوری (متوفی ۱۱۴۴ھ) شیخ محمد فاضل الدین بٹالوی( متوفی ۱۱۵۱ھ)وغیرہ کے ہاں بھی نعتیہ کلام موجود ہے۔اس صدی میں مرزا محمد رفیع سوداؔ(متوفی ۱۱۹۵ھ) کا نام آتا ہے جو شمالی ہند کے شاعروں میں پہلے ممتاز شاعر سمجھے جاتے ہیں۔ سودا کا قصیدہ ان تمام تبدیلیوں کا آئینہ دار ہے جو ولی سے لے کر اب تک کی روایات میں رو پذیر ہوئی ہیں ۔اس قصیدے کو شمالی ہند میں اردو کی باضابطہ نعتیہ شاعری کا ابتدائی نمونہ کہا جا سکتا ہے۔
تیرھویں صدی میں جب اردو شاعری کا مرکز شمالی ہند بن چکا تھا قدما سے لے کر متوسطین تک مشاہیر شعرا میں سے سبھی نے قریب قریب نعت کہنے کی سعادت حاصل کی مگر حصولِ برکت کے لیے یا پھر حمد کے بعد نعت کی روایت نبھانے کے لیے ۔اس صدی کے وسط تک کسی بھی شاعر نے نعت گوئی کو شعار نہیں بنایا۔ لیکن اکا دکا نعتیہ نظمیں ہر کسی نے کہی ہیں۔ جن میں سے میر کی مسدس،اسماعیل شہید دہلوی کی مثنوی ’’سکِ نور‘‘ کے نعتیہ اشعار، کرامت علی شہیدی کا قصیدہ ’’غزّا‘‘ مومن خان مومن کا قصیدہ بہ عنوان ’’زمزمہ سنجی ٔ طبع بہ مضمون یاد خوانی نسیم ِ گلشنِ نبوت و شمالِ چمنِ رسالت‘‘ مثنوی ناتمام دیگر ، پلا ساقیا جامِ کوثر مجھے، مثنوی بہ مضمون جہاد اور تضمین بر نعت ِ قدسی قابلِ ذکر ہیں ۔ انیس اور دبیر کے مراثی میں بھی نعتیہ عناصر موجود ہیں۔ میر ؔسے پہلے اردو زبان میں نعتیہ مسدس لکھنے کے آثار نہیں ملتے۔ البتہ عربی اور فارسی میں خال خال مسدس دکھائی دیتے ہیں۔ میر تقی میرؔ نے اپنے مسدس میں حضورﷺ کے اوصاف کے ساتھ ساتھ زمانے کے حالات کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ مسد س کا ایک بند ملاحظہ ہو:
لطف تیرا عام ہے کر مرحمت
ہے کرم سے تیرے چشمِ مکرمت
مجرمِ عاجز ہوں کر ٹک تقویت
تو ہے صاحب تجھ سے ہے یہ مسئلت
رحمۃ اللعالمینی یا رسولؐ
ہم شفیع المذنبینی یا رسولؐ
نعت گوئی کے دورِ جدید کا آغاز صحیح معنوں میں۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی کے بعد ہوا۔جب ملتِ اسلامیہ میں فکری انقلاب کی لے تیز تر ہو گئی تو نعت میں نیا طرزِ احساس،اجتماعی شعور پیدا کرنے والوں میں جدید اردو شاعری کے امام،مولانا الطاف حسین حالی ،مولانا شبلی نعمانی،نظم طباطبائی، مولانا ظفر علی خاںاور علامہ اقبال کے نام سرِ فہرست ہیں۔
قیام پاکستان کے وقت متعدد ایسے شاعر تھے جو نہ صرف یہ کہ نعت کا اعلیٰ ذوق وشوق رکھتے تھے بلکہ نعت گو کی حیثیت سے معروف بھی تھے۔اُن میں ضیا ء القادری،بہزاد لکھنوی اور ماہر القادری کے علاوہ شمس ضیائی،درد کاکوروی، ،اثر صہبائی اور اسد ملتانی وغیرہ بیشتر ایسے شاعر تھے جنہوں نے قیام پاکستان کے بعد نعت گوئی کے فروغ و ارتقاء میں اہم کردار ادا کیا۔اس دور کے نمائندہ شاعروں میںحافظ مظہرالدین، حفیظ تائبؔ،عبدالعزیز خالد،حافظ لدھیانوی،مسرور کیفی، مظفر وارثی،ادیب رائے پوری،راجا رشید محمود،عبد الکریم ثمر،احمد ندیم قاسمی،انجم رومانی،حافظ مظہر الدین،رفیع الدین ذکی قریشی،جعفر بلوچ،علامہ ذوقی مظفر نگری،ستار وارثی،اصغر سودائی، رشک ترابی،عابد نظامی،مقبول احمد قادری،عاصی کرنالی،عارف عبدالمتین،ندیم نیازی،اقبال عظیم، ہلال جعفری،یزدانی جالندھری،قمر میرٹھی،محشر بدایونی،کرم حیدری،جمیل نظر،نظیر شاہ جہان پوری،نیّر اسعدی،درد اسعدی،قاضی عبدالرحمن، آثم فردوسی،اعظم چشتی،سید امین گیلانی،خلیق قریشی،تابش صمدانی،بدر ساگری،ازہر درانی،انور فیروز پوری،محمد منشا تابش قصوری،حسرت الٰہ آبادی،صائم چشتی،ڈاکٹر ریاض مجید،ڈاکٹر افضال احمد انور،سید صبیح رحمانی اور طاہر سلطانی، طالب حسین کوثریؔ ، ریاض احمد پروازاور ریاض احمد قادری وغیرہ شامل ہیں۔
ریاض احمد پروازؔ کی نعتیہ شاعری میں زیادہ تر نعتیں غزلیہ ہئیت میں ہی لکھی گئی ہیں لیکن ان کے ہاں ایک نعتیہ مسدس بھی دکھائی دیتی ہے جس کا ایک بند پیشِ خدمت ہے
حضورؐ سیرت و کردار ہے ہمیں درکار
حضورؐ طالع ِ احرار ہے ہمیں درکار
حضورؐ مطلعِ انوار ہے ہمیں درکار
حضورؐ مطلعِ انوار ہے ہمیں درکار
حضورؐ چشمِ کرم اس طرف بھی ہو جائے
حضورؐ ہم کو عطا یہ شرف بھی ہو جائے
انھوں نے علامہ اقبال کی ایک نظم ’’ اے روحِ محمدؐ‘‘ پر تضمین میں بھی ملت کی زبوں حالی کا استغاثہ حضور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پیش کیا ہے:
جو افضل و بر تر تھے وہی ٹھہرے ہیں کم تر
محمود ہی اس دور میں بنتے ہیں صنم گر
’’شیرازہ ہوا ملتِ مرحوم کا ابتر
اب تو ہی بتا تیرا مسلماں جائے کدھر‘‘
غرقاب ہوئے ہیں وہ حسب اور نسب میں
ڈوبے ہیں ،وہ کھوئے ہیں وتد اور سبب میں
سیماب اکبر آبادی کا مجموعۂ نعت’’سازِ حجاز‘‘ کے نام سے منظر عام پر آیا۔ ان کے اس مجموعے میں مختلف ہئیتوں میں لکھی گئی نعتیں موجود ہیں۔ ان میں ایک نعتیہ مسدس بھی موجود ہے۔ جس کا ایک بند ملاحظہ ہو:
آج کل حالتِ اسلام بہت ابتر ہے
اور ادبار کی گھنگور گھٹا سر پر ہے
ہم تو محدود ہیں دشمن کا بڑا لشکر ہے
نہ انہیں آپؐ کی پرواہ نہ خدا کا ڈر ہے
اب مدد کیجئے مظلوم مسلمانوں کی
شرم رکھ لیجئے مظلوم مسلمانوں کی
علامہ ذوقی مظفر نگری کے ہاں بھی نعتیہ مسدس دکھائی دیتی ہے۔ ان کی اس مسدس میں استغاثہ و استمداد کو موضوع بنایا گیا ہے اور وہ حضور نبی کریمﷺ کے حضور امت کے احوال بیان کرتے ہیں اور ان سے مدد کے خواست گار ہیں۔
چشم و دل کے آئینوں پر گردِ عصیاں جم گئی
اب نہ جذبِ خود شناسی ہے نہ ذوقِ آگہی
رنج و الم کے دائروں میں ہے فسردہ سی خوشی
زندگی کا لمحہ لمحہ ہے سزائے زندگی
المدد اے مقصدِ لوح و قلم کی آبرو
المدد اے معنیٔ مکتوبِ جانِ آرزو
رشک ترابی کے مجموعہ میں بھی ایک مسدس دکھائی دیتی ہے۔ وہ بھی مسدس کو حضور ﷺ کے اوصاف تک محدود نہیں رکھتے بلکہ امت کے موجودہ احوال اور پریشانیوں پر مدد بھی طلب کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا انداز سوالیہ ہے۔
تمہارے ماننے والے گرفتارِ بلا کیوں ہیں
علمدارانِ حق، نخچیر جورِ نا روا کیوں ہیں
بساطِ دہر پہ،مانندِ سازِ بے نوا کیوں ہیں
تہہِ افلاک،یہ محرومِ الطافِ خدا کیوں ہیں
یہ مخفی راز اب ہم پر عیاں ہو یا رسول اللہؐ!
تمہی تو مایۂ بے مائیگاں ہو،یا رسول اللہؐ!
اقرار مصطفیٰ بھی نعتیہ شعرا کی اسی قبیل سے تعلق رکھتے ہیں۔ انھوں نے نعت میں مسدس کی ہئیت کو اپنایا ہے اور اس میں اوصافِ رسول اور معجزاتِ رسولﷺ کو بیان کرنے کی سعی کی ہے۔ مسدس ایک ایسی صنفِ شعر میں جس میں شاعر کے پاس کہنے کے لیے بہت سہولت موجود ہوتی ہے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ شاعر کی اُپج اور اس کے مطالعہ کا بھی پتا چلتا ہے۔ یہ صنف جس قدر طوالت پسند ہے اسی قدر یہ مشکل بھی ہے۔ اقرار مصطفیٰ کے لیے یہ بات باعثِ اعزاز ہے کہ انھوں نے پہلی مرتبہ مسدس ہئیت میں ایک ایسا نعتیہ مجموعہ تخلیق کیا ہے جس میں نعتِ رسولﷺ کے تمام وصف شاملِ نعت کیے گئے ہیں۔ آغاز میں حمدیہ کے عنوان کے تحت حمدِ خدا بیان کی گئی ہے اور اس کے بعد عرب کے حالات بیا ن کیے گئے ہیں۔ آمد سے پہلے کے حالات اور معجزات کو بیان کیا ہے اور اس کے بعد حضورﷺ کی آمد اور ان کے معجزات کو شاملِ مسدس کیا گیا ہے۔
مسدس جس شکوہِ الفاظ اور معانی کی در و بست اور تکرارِ لفظی کا تقاضا کرتی ہے ،اقرار مصطفیٰ نے اس کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے تخلیق کاری کے اعلیٰ جواہر پیش کیے ہیں۔ اس میں نہ صرف ان کے فن کی تکنیکی باریکیاں دکھائی دیتی ہیں بلکہ ان کے ہاں فکری بلندی بھی نمایاں طور پر دکھائی دیتی ہے۔ اُن کا اسلوب نہایت سادہ ،رواں اور شستہ ہے۔ لفظوں میں عقیدت اور عاجزی واضح جھلکتی دکھائی دیتی ہے۔ یہ مسد س جہاں اقرار مصطفیٰ کے علم و مطالعہ کی گواہی دیتی ہے وہاں ان کے فنِ شعر پر عبور کی بھی شاہد ہے۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ حضورﷺ کی بارگاہِ پر سعید میں پیش گیا یہ مجموعہ قبول فرمائے اور اس کو اقرار مصطفیٰ کے لیے توشۂ آخرت بنائے۔ (آمین)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...