Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

حسن کن : مسدسِ مصطفیٰؐ |
حسنِ ادب
حسن کن : مسدسِ مصطفیٰؐ

آمد اور معجزات
ARI Id

1689954781228_56117185

Access

Open/Free Access

Pages

۳۵

اُجلی زمین رنگِ فلک جگمگا اُٹھا
قوسِ خدا کو ایک نیا رنگ مل گیا
بادِ شمیم سے وہ معطر ہوئی فضا
مبعوث کر رہا تھا نبیؐ کو وہ کبریا
کھلنے لگی طبعیتِ ادوار دیکھیے
پوری ہوئی ضرورتِ ادوار دیکھیے

چہرہ زمیں کا سارے کا سارا چمک اٹھا
جب آمنہ کی گود میں آئے ہیں مصطفیٰؐ
اور مُطّلب کی آنکھ نے دیکھا کہ جا بجا
کعبہ میں ایک نور ہے جیسے اُتر رہا
احساں ہے کائنات پر ربِ غفور کا
الطافِ بے بہا ہوا صدقہ حضورؐ کا

شاہی محل کے جتنے تھے سارے کلس گرے
دریا و بحر خشک ہُوئے، در زمیں چھپے
آتش کدہ بجھا ہے، لبِ کافراں سِلے
حق یوں ادا ہُوا کہ سبھی حق ادا ہُوئے
اہلِ نظر نے دیکھے ہیں یہ معجزے ضرور
آتے ہی فارقِ حق و باطل ہوئے حضورؐ

تاریخ نے یہ بات لکھی بات ٹھیک ہے
اک اور یہ مثال ملی، بات ٹھیک ہے
محرابِ کعبہ دیکھ جُھکی ، بات ٹھیک ہے
یعنی کہ احترامِ نبیؐ بات ٹھیک ہے
خالق کو سب سے بڑھ کے محمدؐ عزیز ہیں
جو مانتے نہیں ہیں بڑے بے تمیز ہیں

بے آب و بے گیاہ زمیں گلستاں ہُوئی
سُنبل کھلا کہیں کلی ریحان کی کھِلی
نسرین و نسترن کو نئی زندگی مِلی
ہر شاخِ بے ثمر میں رگِ جاں پھڑک اُٹھی
اللہ کے نبی کی دعا کارگر ہُوئی
آئے حضورؐ اور زمیں زندہ ہو گئی

بدلی فضا کہ آئے یہاں شاہِؐ مُرسلیں
ذاتِ نبیؐ پہ ہو گیا اکمل خدا کا دیں
نازِ فلک بھی آپؐ ہوئے ارضِ نازنیں
ایمان بھی اُنھی سے ہے اقرار بالیقیں
اُن کے طفیل کوہ و دمن لہلہا اُٹھے
پژمردۂ حیات سبھی مسکرا اُٹھے

اُنؐ کا ظہور، جیسے اُجالے کی منتہا
اُنؐ سے ہی جیسے نور کا اک سلسلہ چلا
جلوہ نمائی اُنؐ کی ہے بس دیکھیے ذرا
روشن ہوئی زمین، فلک جگمگا اُٹھا
ذرہ ہو، آفتاب ہو، مہتاب یا شجر
روشن سبھی ہیں روئےؐ منور سے سر بہ سر

خوشبوئے مصطفیٰؐ میں ہُوا کُل جہاں مگن
رنگیں قبائیں اوڑھے تھے نسرین و نسترن
یوں گلشنِ حیات میں آئی نئی پھبن
رنگین و دل کُشا ہُوا کُل عالمِ چمن
اُنؐ کے بہارِ حسن کی چھب ہی نرالی ہے
موسم بھی جیسے آپؐ کے در کا سوالی ہے

موجِ نسیم چلنے لگی افتخار سے
مرغانِ خوش نوا ہوئے گویا وقار سے
شکوہ رہا کسی کو نہ فصلِ بہار سے
عہدِ خزاں کہ دب گیا پھولوں کے بار سے
قیدِ حیات کاٹنا بھی ٹوٹنے لگا
ہر پنکھڑی میں جوشِ نمو پھوٹنے لگا

نکلے قفس سے اور چہکنے لگے طیور
شاخیں ہوا سے جھوم اُٹھیں ہو کے پُر سرور
انسانیت کو مل ہی گیا اک نیا شعور
طیبہ کی خاک اپنی جگہ ٹھہری خاکِ نور
بے رونقی کا سارا سماں دور ہو گیا
آئی بہار دورِ خزاں دور ہو گیا

شادابیوں نے چار سو ڈیرہ جما لیا
بنجر زمیں پہ سبزے نے قبضہ جما لیا
پھولوں نے چاروں اور کٹہرا جما لیا
بادِ نسیم نے وہاں پہرا جما لیا
خوشبوئوں اور رنگوں میں کیا آس اُگ پڑی
بنجر زمین دل تھا ہری گھاس اُگ پڑی

لہرا کے جھوم جھوم کے مسکائی پتیاں
سر سبز ہو گئیں سبھی مرجھائی پتیاں
دل کش بڑی حسین نظر آئی پتیاں
جیسے بہار تازہ ابھی لائی پتیاں
یوں پتیوں کے کھلنے کا اعجاز ہو گیا
گلشن مہک بکھیرتا دم ساز ہو گیا

پھولوں نے پائی ساری مہک آپؐ کے طفیل
شاخوں میں بھی ہے آئی لہک آپؐ کے طفیل
روئے زمیں کی ساری دمک آپؐ کے طفیل
سورج، ستارے، چاند، چمک آپؐ کے طفیل
روشن سبھی ہیں روئے پیمبرؐ کے فیض سے
خوشبوئیں پھوٹیں جسمِؐ مطہر کے فیض سے

روشن روش روش ہے، مہکتا ہے گلستاں
مستی میں ہیں شمیم و نسیم و صبا یہاں
ہیں نازشِ زمیں بھی وہی نازِ آسماں
جن سے شعائیں لے کے چمک اٹھی کہکشاں
اُنؐ کے طفیل، اُنؐ کے سبب، اُن کی ذاتؐ سے
مہکا ہے ہست و بود فقط اُنؐ کی بات سے

تخلیق میں ہو صبح کہ تخلیق میں ہو رات
دراصل ہو رہی ہے یہ تخلیقِ کائنات
حُسنِ صدائے کُن ہے مرے مصطفیٰؐ کی ذات
مانا یہاں کسی کو نہیں ہے کوئی ثبات
جاری ہے ورد اُنؐ کا فلک اور زمین پر
رحمت بنا کے بھیجے گئے عالمین پر

اک ایک سنگ راہ کا ٹھوکر سے کٹ گیا
ایسا کٹا ہزارہا ٹکڑوں میں بٹ گیا
ہر کار ہائے ظلم سے انساں پلٹ گیا
ہر چند زعم زعم اندھیرے کا پٹ گیا
ہر سمت روشنی ہوئی روشن ضمیر کی
ممکن نہیں نظیر کوئی بھی منیرؐ کی

صرصر کے دور میں تھے نویدِ بہار آپؐ
پتھر کے دور میں بھی تھے انساں وقار آپؐ
ناکامیوں کے دور میں بھی کام گار آپؐ
واللہ! عہدِ کفر میں بھی حق شعار آپؐ
ہر سمت آپؐ خیر کا پیغام لائے ہیں
ارض و سما پکار اُٹھے آپؐ آئے ہیں

کوثر کی موج موج ہے اُنؐ پہ عطائے خاص
پیغام ایک یہ بھی ہے اترا برائے خاص
دیکھیں تو کبریا کی ہے یہ بھی ادائے خاص
سوچیں تو اور کون ہے اُنؐ کے سوائے خاص
ہر اک جہاں انھیؐ کے لیے ہے سجا ہُوا
یعنی کہ کبریا نے ہے اُنؐ کو چُنا ہُوا

نظریں ملا ہی سکتے نہیں راندگانِ حق
جب بھی ہیں سر اٹھا کے چلے بندگانِ حق
حق ہی سے تو بنے ہیں درخشندگانِ حق
پھولے نہیں سماتے ہیں سب تشنگانِ حق
ایسا سرورِ حق کا وہ پیمانہ کھُل گیا
کوثر انھیںؐ عطا ہوئی مے خانہ کھُل گیا

صدیق ؓ وہ ہوئے کہ گواہِ جلی ہوئے
حضرت عمرؓ کہ خاص دعائے نبیؐ ہوئے
فیضِ نظر سے آپؐ کے عثماںؓ غنی ہوئے
میں علم کا ہوں شہر کہا، در علیؓ ہوئے
بخشا نہیں ہے کس کو بھلا مژدۂ بہار
ہر ایک پر ہیں آپؐ کے احسان بے شمار

بوذرؓ، اویسؓ پر کہ صہیبؓ و بلالؓ پر
احسان اُنؐ کے سب پہ ہیں جن ہوں کہ یا بشر
جو اُنؐ سے لو لگا لے مقدر گیا سنور
ہر ایک اُنؐ کے سایۂ رحمت سے باثمر
سینچا ہے دیں کے باغ کو ایسا حضورؐ نے
بخشا ہر اک کو ذوقِ تمنا حضورؐ نے

ناآشنا زوال سے تھا اُن کا ہر کمال
کس میں تھا اتنا دم کہ کرے آکے قیل و قال
چھایا ہُوا تھا چاروں طرف یارؐ کا جمال
تاریکیوں کا رہنا وہاں ہو گیا محال
حاصل قدم قدم پہ معیت حضورؐ کی
اصحابِ خوش نصیب رعیت حضورؐ کی

پرتو ہے حسنِ یار کا یہ عالمِ بہار
گردش میں حق کے جام و سبو آئے پُر وقار
رنگینیِ جہاں کو ملا اصل کا نکھار
مل ہی گیا قرار انھیں تھے جو بے قرار
آوارگانِ شوق کو منزل ہوئی نصیب
دیوانگانِ ذوق کو منزل ہوئی نصیب

پُر نور ، پُر وقار ہیں وہؐ پُر جمال ہیں
اُنؐ کے طفیل رونقیں، بزمِ خیال ہیں
دشمن کے سر پہ تیغ ہیں، اپنوں کی ڈھال ہیں
اُنؐ کے غلام سارے بڑے با کمال ہیں
کتنی ورا ہے شانِ غلامانِ مصطفیٰؐ
اُنؐ پر نثارِ جانِ غلامانِ مصطفیٰؐ

شیرِ خدا سے میرے نبیؐ نے یہ جب کہا
لوٹا کے سب امانتیں آ جانا مرتضٰےؓ
گویا ہوئے علیؓ کہ نہ مرنے کا خوف تھا
وہ ایک رات چین سے سویا ہوں با خدا
گویا نویدِ حق ہے مؤدت حضورؐ کی
یعنی حیات بھی ہے ضمانت حضورؐ کی

دیکھا بھی ہے کسی نے بھلا ایسا آئینہ
جس پر پڑے نہ گرد نہ ہو میلا آئینہ
قدرت نے بھی بنایا نہ پھر ویسا آئینہ
کیوں کر تلاش کیجیے پھر اُنؐ سا آئینہ
یہ آئینہ ہے جس میں سنورتی ہے زندگی
سنگھار حرفِ حق سے ہی کرتی ہے زندگی

آلائشِ جہان سے ہے پاک زندگی
فطرت ہے پاک باز، حیا دار دائمی
نصرت سے ہمکنار ہے اُنؐ کی ہر اک گھڑی
لازم ہے یعنی ہم پہ کریں اُنؐ کی پیروی
اسرارِ جسم و جان کے کشّاف آپؐ ہیں
معصوم، پاک باز ہیں، شفّاف آپؐ ہیں

چلنے لگیں درخت، جھکیں اور کریں سلام
دستِ نبیؐ میں سنگ بھی آکر کریں کلام
اِذنِ نبیؐ سے پائے ہر اِک مختلف مقام
ہر ایک پر ہے آپؐ کی یہ رحمتِ مُدام
رحمت کی سلسبیلِ اِصالت لیے ہُوئے
سایہ کُناں ہیں فخرِ امامت لیے ہُوے

بکری اُٹھا کے بھیڑیا پہلے چلا گیا
پھر اُس کو زندہ لے کے پلٹ آیا اُس جگہ
دراصل اُس نے یہ بھی فقط اس لیے کیا
اُس کو تو شوقِ دید رسالت مآبؐ تھا
صحرا میں زندگی کے مرتب ہُوئے اصول
ورنہ تو اڑ رہی تھی یہاں ساعتوں کی دھول

یہ مانتے ہیں لوگوں کے وہ درمیاں ہُوئے
عالم مگر وہ اور تھا جس میں جواں ہُوئے
اک ہاتھ میں وہ تھامے زمامِ زماں ہُوئے
اور دوسرے میں تھامے وہ کون و مکاں ہُوئے
خالق کی دین اُنؐ کو سوا سے سوا مِلی
اور شان وہ مِلی کہ وراء الوریٰ مِلی

اُنؐ سے بھلا مقابلہ کیسے کوئی کرے
ہر روپ ہر ادا میں وہ بے مثل ہی رہے
اُنؐ کے قدم سے کوئی قدم کیا مِلا سکے
قامت میں اُنؐ کے جیسا کوئی اور کیا مِلے
اُترے کوئی پہاڑ سے جیسے وہؐ یوں چلیں
مجمع میں سرفراز فقط وہؐ کھڑے ملیں

فرقِ فلک کا ناز ہے ہر صبح کا جمال
حُسنِ ردائے دوش سے ہر شام بے مثال
وہ سرخ سرخ ڈوروں کا پھیلا ہُوا جلال
دنیا کو رنگ دینا اُنؐ آنکھوں کا ہے کمال
یعنی نظامِ دہر و گلستانِ رنگ و بو
اُنؐ کے طفیل پاتے ہیں سب سلسلے نمو

انفاس مرغزار محمدؐ کے فیض سے
اذہان مشک بار محمدؐ کے فیض سے
ہر سمت عطر بار محمدؐ کے فیض سے
عالم پہ ہے بہار محمدؐ کے فیض سے
یعنی حضورؐ کاملِ حُسنِ بہار ہیں
اکمل ہیں، بحر زیست میں وہؐ بے کنار ہیں

ثابت قدم قدم پہ ہے عِطرت حضورؐ کی
بے مثل و بے مثال شرافت حضورؐ کی
کافر بھی مانتے ہیں صداقت حضورؐ کی
دیکھی ہوئی ہے سب نے امانت حضورؐ کی
نورِ خدا کا پردۂ اخفا کِیے ہُوئے
ساری خصوصیاتِ بشر بھی لِیے ہُوے

لوگوں کو درسِ امن و محبت سُنا دِیا
جھگڑا جو ہونے والا تھا اس کو مِٹا دِیا
چادر کا پلڑا اُن کے بڑوں کو تھما دِیا
اور حجرِ اسود آپؐ نے خود ہی لگا دِیا
انصاف و عدل ہو تو نہ ہو کوئی بھی ملول
بتلا دیا جہان کو یہ لازمی اُصول

پیغامِ کبریائی سنانے کو آئے آپؐ
لوگوں کو حق کا جام پلانے کو آئے آپؐ
دیوار شر گرانے ، ہٹانے کو آئے آپؐ
بُعدِ خدا و خلق مٹانے کو آئے آپؐ
ایسا شعور اور قرینہ لیے ہُوئے
آپؐ آئے زندگی کا سفینہ لیے ہُوے

جس طرح انبیا کو مِلے معجزے کئی
حضرتؐ کی ذات سے بھی ہُوئے معجزے کئی
کون و مکاں میں ہوتے رہے، معجزے کئی
ارض و سما میں دیکھے گئے، معجزے کئی
اب تک یہی مثال ہے قرآن بالیقیں
لاریب معجزہ ہے یہ تاحشر ناظریں

ہوتا ہے کب محب بھلا محبوب سے جدا
کرتا خطاب اُنؐ سے ہے کچھ ایسے کبریا
والشمسؐ و والضحیٰؐ، کہیں والعصر کی صدا
یٰسینؐ و والقلمؐ، کہیں والیل کی ادا
یعنی حیاتِ قلزمِ نورِ ثبات سے
مژدہ اُتر رہا ہے نہایت تپاک سے

باطل معاشرت کو پیامِ خدا دِیا
قرآن سے جہاں کو نظامِ خدا دِیا
ہر اک کو صدقِ دل سے سلامِ خدا دیِا
بے شک نگاہِ ساقی نے جامِ خدا دِیا
جو بھی دیا حضورؐ نے سب یاد تھا سبق
نشّے میں حق کے جھوم اٹھے بندگانِ حق

وحشی تھے جنگجو تھے، بڑے سخت لوگ تھے
منکر تھے حق کے ایسے وہ بد بخت لوگ تھے
جنگِ منافرت میں وہ خود رخت لوگ تھے
بے تاج بادشاہ تھے ،بے تخت لوگ تھے
اب یوں ہیں اپنا بخت بناتے عرب کے لوگ
نامِ نبیؐ پہ سر ہیں کٹاتے عرب کے لوگ

اخلاص اور مہر و مروت کا نام آپؐ
ایثار اور امن و محبت کا نام آپؐ
انوار اور جاہ و وجاہت کا نام آپؐ
کردار اور حق و صداقت کا نام آپؐ
ہر ایک وصف ذاتِ نبیؐ میں ہے جلوہ گر
اخلاق آپؐ کا تو ہے قرآن سر بہ سر

الحمد سے وہی تو ہے والناس تک حسیں
سرمایۂ حیات ہے ہر پارۂ مبیں
آپؐ اُس کے حرف حرف کا مصدر ہیں بالیقیں
کرتے ہیں رشک آج بھی سب آسماں ، زمیں
دراصل کائنات کا محور حضورؐ ہیں
منظر حضورؐ ہیں، پسِ منظر حضورؐ ہیں

گو ہے پھٹی پرانی چٹائی حضورؐ کی
عرشِ بریں تلک ہے رسائی حضورؐ کی
مقصود تھی جو حق کو بڑائی حضورؐ کی
اُلفت ہر ایک دل میں بسائی حضورؐ کی
کلمہ، نماز، چاہے اذاں کا ہو سلسلہ
ذکرِ خدا کے ساتھ ہے ذکرِ نبیؐ روا

برتائو سب سے ایسے کِیا ہے حضورؐ نے
جو بھی کسی نے مانگا دِیا ہے حضورؐ نے
احسان کب کسی کا لِیا ہے حضورؐ نے
خود ہی لباسِ چاک سِیا ہے حضورؐ نے
خلقِ عظیم برتا سدا نازنینؐ نے
خود اپنے جوتے گانٹھے شہِ مُرسلینؐ نے

طرزِ ادا جدا ہے نرالا ہے بانکپن
شرم و حیا قدم بہ قدم آپؐ کا چلن
ہر لمحہ حق کے واسطے مصروف اور مگن
کھائے نہ مات ایسا ہے مضبوط وہ بدن
رکانہ کو وہؐ ایک ہی دم میں پچھاڑ دیں
دم کیا ہے چاہے اس سے بھی کم میں پچھاڑ دیں

ظلمت کی کھائیوں سے نکالا ہے آپؐ نے
جو گر چکے تھے اُن کو سنبھالا ہے آپؐ نے
سر پر کڑا جو وقت تھا ٹالا ہے آپؐ نے
انسانیت کو اس طرح پالا ہے آپؐ نے
یعنی کبھی بھی سخت نہ اک لفظ تک کہا
نرمی سے اور دھیان سے ہر بات کو سُنا

بوڑھی کی گٹھڑی تھام چلے شاہِ انبیاؐ
وہ جانتی نہ تھی کہ یہی ہیں وہ مصطفیٰؐ
کہنے لگی کہ جادوگر اک ہے یہاں بڑا
خود کو نبی وہ کہتا ہے بس اُس سے بچ ذرا
منزل پہ جا کے بولے کہ میں ہی ہوں وہ نبی
یہ سن کے بوڑھی حلقۂ ایماں میں آ گئی

دائودؑ نے کہا تھا کہ پیارے کا چہرہ ہے
یہ ابراہیمؑ کے ہی گھرانے کا چہرہ ہے
ہر ایک نے کہا ہے کہ اپنے کا چہرہ ہے
پورا یقین ہے کسی سچے کا چہرہ ہے
چہرہ نبیؐ کا دیکھ کے حق بات کی تمام
ایماں ابھی نہ لائے تھے عبداللہ بن سلام

فخرِ امامِ انبیاء ہو کر متین ہیں
دامن ، نظر، جبیں کے کشادہ، حسین ہیں
ہر اک ادا میں آپؐ سدا وقفِ دین ہیں
ایسے وہ دل پذیر ہیں اور دل نشین ہیں
آواز اُنؐ کی عرشِ بریں کی مکیں ہُوئی
عکسِ فلک اُنہیؐ کے سبب سے زمیں ہُوئی

بیساکھیاں ہٹا کے یوں چلنا سکھا دِیا
یعنی بنا سہارے سنبھلنا سکھا دِیا
یوں مزرعِ حیات کو پھلنا سکھا دِیا
دینِ مبیں کے رنگ میں ڈھلنا سکھا دِیا
خالق پہ اعتقادِ نظر آپؐ سے مِلا
کھویا ہوا مقامِ بشر آپؐ سے مِلا

ایمان کو نصیب ہُوا اعتمادِ ذات
ایقان کو نصیب ہُوا اعتمادِ ذات
پہچان کو نصیب ہُوا اعتمادِ ذات
انسان کو نصیب ہُوا اعتمادِ ذات
کچھ بانکپن سے اور نہ ناز و ادا سے ہے
یہ اعتمادِ ذات انھیؐ کی عطا سے ہے

حیراں ہے دنیا آپ نے کیسا بنا دیا
اپنے کرم سے دیکھنے والا بنا دیا
نادان آدمی کو بھی دانا بنا دیا
اور دین کے حصول کا رسیا بنا دیا
اُنؐ کے کرم سے دیکھیے وہ پھیلی روشنی
ظلمت کی وادیوں سے نکل آئی روشنی

افضل ہیں انبیا میں حبیبِؐ خدا بجا
اُمت میں اُنؐ کی ہونے کو مانگیں نبی دعا
ہر اک کو اُنؐ کی بخششِ پیہم کا آسرا
گرتے ہوئوں کا رحمتِؐ عالم پکارنا
سیلِ حوادثات میں بس وہؐ کنارا ہیں
کوئی نہیں سہارا فقط وہؐ سہارا ہیں

چھائی ہُوئی تھی تیرگی حُجرہ میں جا بہ جا
ہونا تھا یعنی ایک نیا اور معجزہ
گُل تھے چراغ جلتا نہ تھا ایک بھی ’’دِیا‘‘
روشن جمالِ یارؐ نے وہ حُجرہ کر دیا
تصدیقِ جسم و جانِ معطر ہے ضو فشاں
کرتے ہیں رشک آپؐ پہ سارے زماں، مکاں

ہر سمت جلوہ ریز ہیں جلوہ نمائیاں
پھوٹیں جبینِ ناز سے وہ روشنائیاں
تاریکیاں کہ دینے لگی ہیں دہائیاں
صبحِ طلوعِ نور نے آنکھیں بچھائیاں
میرے نبیؐ ہیں ایسے اجالے لیے ہُوئے
تاریخ کے تمام حوالے لیے ہُوے

ظلمت کدہ کے رنگ بکھرتے چلے گئے
افکار دیں کے سارے سنورتے چلے گئے
الفاظ اُنؐ لبوں سے نکھرتے چلے گئے
اذہانِ خشک، تر ہوئے ، بھرتے چلے گئے
کایا پلٹ کے رکھ دی جہانِ خراب کی
اللہ کی زباں تھی رسالت مآبؐ کی

سایہ فگن وہ نور کا عالم تھا جا بہ جا
جلوہ اَحد کا اور تھا احمدؐ کا اور تھا
عرشِ بریں پہ آپؐ نے جس دم قدم رکھا
وہ انبساطِ شوق سے خود جھومنے لگا
یعنی کہ باکمال ہے معراجِ مصطفیٰؐ
بے مثل و بے مثال ہے معراجِ مصطفیٰؐ

وہؐ نازنینِ کُنجِ حرا، حُسنِ لازوال
مقصودِ کائنات ہیں بے مثل و بے مثال
کونینِ حسنِ یار سے ہے شوکتِ جمال
راہِ نجات بھی ہیں وہیؐ منزلِ کمال
دنیا میں یعنی سب سے ہی برتر حضورؐ ہیں
محشر میں بھی تو شافعِ محشر حضورؐ ہیں

ٹوٹا جمودِ ذات، گئی فکرِ انجماد
اجلا نظامِ فکر، مٹی فکرِ انجماد
نقشہ بدل گیا کہ ہٹی فکرِ انجماد
صلِ علیٰ کی رو میں بہی فکرِ انجماد
ذہنوں کو تیرگی سے کیا پاک آپؐ نے
روشن مثال کر دیا ادراک آپؐ نے

نیرنگیٔ بہار طلسمِ نمود ہے
اِس سے سجی ہُوئی ہے جو بزمِ شہود ہے
بزمِ شہود میں بھی انھیؐ کا وجود ہے
جن پر بروئے اعظم و پاکش درود ہے
جانِ ازل ہیں، حُسنِ حقیقت ہیں مصطفیٰؐ
روحِ ابد ہیں، صدقِ مؤدت ہیں مصطفیٰؐ

ہر سو کرم کے جیسے گلستان کِھل اُٹھے
رو پوش تھے جو دہر کے امکان کِھل اُٹھے
ایماں کے سارے پھول بصد شان کِھل اُٹھے
روشن ہوئے قلوب تو اذہان کِھل اُٹھے
میرے نبیؐ نے ایسے بڑھائے یہاں قدم
ذرّوں نے گفتگو کی ستاروں سے دم بہ دم

کیا گہرا نیلا، سبز، بنفشی سماں مِلا
نارنجی، پیلا، سرخ، اُفق پر نشاں مِلا
اک آسمانی رنگ کِھلا درمیاں مِلا
رنگوں سے کھیلتا ہُوا یوں آسماں مِلا
قوسِ خدا کے رنگ یہ پہلے بھی تھے مگر
رحمت کا ابر برسا تو نکھرے تمام تر

رحمت ہیں عالمیں کے لیے آپؐ سر بہ سر
راحت ہیں غم گزیں کے لیے آپؐ سر بہ سر
جلوت ہیں بزمِ دیں کے لیے آپؐ سر بہ سر
شوکت ہیں عاشقیں کے لیے آپؐ سر بہ سر
سب انبیا کی شان وریٰ الوریٰ مگر
دیکھا ہے رتبہ آپؐ کا سب سے سوا مگر

وسعت پذیر اُن کے سبب ایک اک جہاں
ہر ایک دور اُنؐ سے ہی ٹھہرا ہے با اماں
تسلیم کیوں کریں نہ اسے ہم بہ صدقِ جاں
بحث و مباحثہ کیے بنتی نہیں یہاں
اُنؐ کے نہ بعد آئے گا کوئی نبی رسول
اللہ نے کہا کہ وہؐ ہیں آخری رسول

جس نے بھی کی قبول ہے دعوت رسولؐ کی
اُس کو عطا ہوئی ہے حمایت رسولؐ کی
اُس کے نصیب میں ہے شفاعت رسولؐ کی
اللہ کے قریب ہے اُمت رسولؐ کی
دنیا و آخرت میں سبھوں کا سہارا آپؐ
روزِ جزا میں تشنہ لبوں کا سہارا آپؐ

تاریخ ہے گواہ کہ دیکھی نہیں کبھی
لغزش کوئی بھی قدموں سے لِپٹی نہیں کبھی
سلجھی ہر ایک گُتھی کہ اُلجھی نہیں کبھی
دیکھی ہو ایسی ذات بھی کوئی نہیں کبھی
راہیں بصد سیلقہ و ڈھب جا بجا مِلیں
اُنؐ کے طفیل منزلیں، تب جا بجا مِلیں

دشمن پہنچ کے بھی نہ پہنچ پایا غار میں
بس جال دیکھ کر ہی نہ وہ آیا غار میں
گویا کہ اس کا در نہ سکا سایا غار میں
تھا جب کہ کائنات کا سرمایا غار میں
محبوبِ کبریا ہیں کوئی آپؐ سا نہیں
پہنچے گزند آپؐ کو حق چاہتا نہیں

یثرب تھا پہلے، بعد میں شہرِ نبیؐ ہُوا
اُن کی ضیائِ فکر سے ہی روشنی ہُوا
یوں روشنی ہُوا کہ وہ ساماں دلی ہُوا
فیضِ نظر سے آپؐ کے وہ زندگی ہُوا
زندہ کیا کچھ ایسے درخشندہ کر دیا
اس خارزارِ دہر کو تابندہ کر دیا

اذہان پُر سکون ہُوئے، روشن ہُوئے ضمیر
اکسیرِ باصفا سے منور ہُوئے خمیر
اللہ سے وہ دیں کی ملی دولتِ کثیر
شاہوں سے بڑھ کے مرتبہ میں اُنؐ کے ہیں فقیر
مشکل کشا و قبلۂ حاجات ہے وہؐ ذات
منبع صفات، ایسی جدا ذات ہے وہؐ ذات

مکہ کی فتح آپؐ کا اک اور معجزہ
اپنے ہر ایک دشمنِ جاں کو ہے یہ کہا
الزام تم پہ کوئی نہیں جو ہُوا، ہُوا
آزاد ہو تم آج کے دن درگزر کِیا
اپنوں پہ ہی نہیں ہے عنایت حضورؐ کی
رحمت ہے سب کے واسطے رحمت حضورؐ کی

ہر بے اماں کو دیکھیے کیسی اماں مِلی
سایہ کناں وہ رحمتِ حق جاوداں مِلی
بے نطق، بے زبانِ جہاں کو زباں مِلی
اصحاب کو وہ صحبتِ شایانِ شاں مِلی
نازل ہُوئی ہے جس پہ ہمیشہ کی اک کتاب
جس سے چمک رہا ہے یہ انفاسِ آفتاب

کچھ یوں بساطِ دشمناں پل میں الٹ گئی
سر بھی جھکا غرور کا، گردن بھی کٹ گئی
یعنی مسافتِ غمِ دوراں سمٹ گئی
آدم کی زندگی کی تو کایا پلٹ گئی
اُنؐ کے طفیل، اُنؐ کے دیے حلم سے اُٹھا
پرچم سلامتی کا فقط علم سے اُٹھا

پھر یوں کتابِ زیست کا کھلنے لگا ورق
آسان ہو کے رہ گیا ہر مرحلہ ادق
ہر سو بلند ہونے لگا ایسے حرفِ حق
جامع کلام نے ہی کِیا تیرگی کو شق
یعنی جہانِ تیرہ چمک اُٹھا آپؐ سے
حتیٰ کہ نخلِ علم لہک اُٹھا آپؐ سے

یوں بابِ حرف و صوت کا اک سیل ہے رواں
جس کو سلام کرتا ہے قرطاسِ آسماں
جس کی ہر ایک موج میں لاکھوں تجلّیاں
اور یہ تجلّیاں ہیں حقیقت کی ترجماں
یعنی وہؐ حق نواز ہیں اور حق شناس ہیں
اقلیمِ علم کی وہؐ مکمل اساس ہیں

خطبہ شعور و آگہی کا، حجۃالوداع
آئینِ بے مثال بنا، حجۃالوداع
ابلاغ نے کمال کِیا، حجۃالوداع
منشور کا جمال ہُوا، حجۃالوداع
دکھلا دیا جہاں کو فصاحت کا رنگ بھی
سمجھا دیا جہاں کو بلاغت کا ڈھنگ بھی

اُنؐ کو فقیہہ، اُن کو مقرر کہے کوئی
اُنؐ کو امام، اُنؐ کو سخن ور کہے کوئی
اُنؐ کو حبیب، اُنؐ کو پیمبر کہے کوئی
اُنؐ کو بشیر، اُنؐ کو منوّر کہے کوئی
مجھ سے ہے فقر اور فقیری سے ہوں، کہا!
ورنہ یہ کائنات تو صدقہ ہے آپؐ کا

افضل نہیں ہے کوئی کسی سے یہاں مگر
اُس کے قریب ہے کہ جو با تقویٰ ہے بشر
قائم نظامِ فکر کِیا اور مٹایا شر
جو بھی کہا وہ کر کے دکھایا ہے عمر بھر
وحدت کا اک جہان دکھایا حضورؐ نے
ہر امتیازِ کہن مٹایا حضورؐ نے

جیسا خدا نے چاہا تھا ویسا بنا دیا
انسان کو حقیقی خلیفہ بنا دیا
ذکرِ خدا کو اُس کا وظیفہ بنا دیا
دونوں میں بات چیت کا رستا بنا دیا
جب راستے میں آپؐ نگہبان ہو گئے
مشکل ترین مرحلے آسان ہو گئے

سوئے ہوئے ضمیر کو بیدار کر دیا
سر کو انھیؐ نے لائقِ دستار کر دیا
اللہ کے غضب سے خبردار کر دیا
رحمان کے تقاضوں سے ہشیار کر دیا
انسان کو فضیلتِ انساں نواز دی
مردہ دلوں کو دولتِ ایماں نواز دی

ایسا یقین بخشا کہ اوہام مٹ گئے
ذہنِ رسا عطا کیا، ابہام مٹ گئے
بے مایا فکر کے سبھی آلام مٹ گئے
باطل کے یعنی سارے در و بام مٹ گئے
اللہ کی مدد سے عمارت حسین کی
ہیں اینٹ آپؐ آخری دینِ مبین کی

اِنسان کو شعور مِلا ، راستہ مِلا
گرتے ہوئوں کو ایک نیا آسرا مِلا
اُنؐ کے طفیل ہی تو درِ ’’اِنَّما‘‘ مِلا
وِردِ زبان نعرۂ حق جا بجا مِلا
ذہنوں میں پرتپاک چلی ’’ہل اتیٰ‘‘ کی رَو
وحدانیت کا درس ہے ’’صلِ علیٰ‘‘ کی رَو

فکر و عمل کو ایسے چڑھایا ہے سان پر
نعرہ زمیں پہ گونجا ، دھمک آسمان پر
محبوبِ کِبریا کی تجلی جہان پر
دو رائے ہو ہی سکتی نہیں اُنؐ کی شان پر
اُنؐ سے شعور و آگہی کا باب وا ہُوا
وحدانیت کا درس اُنھیؐ کے سبب ملا

سیلِ حوادثات میں بھی کیوں نہ ہو رواں
وحدانیت کی کشتی ہے احمدؐ ہیں بادباں
مضبوط ہیں یہ دونوں، نہیں کوئی ناتواں
پھر رخنہ ڈالے کون، کرے کون این و آں
سورج کو کون ہے جو برابر تکا کرے
بینائی لے کے سامنے اُس کے کھڑا رہے

پیشِ نظر ہے جلوۂ تابانِ مصطفیٰؐ
تابانِ مصطفیٰؐ، رخِ شایانِ مصطفیٰؐ
مسکان کا شرف رخِ خندانِ مصطفیٰؐ
تھامے ہوئے ہے زندگی دامانِ مصطفیٰؐ
ہر لمحہ عین حق و صداقت لیے ہُوئے
وحدانیت کا درسِ فضیلت لیے ہُوے

شائستگی کو آپؐ نے بیدار کر دیا
ظلم و ستم کی راہ میں دیوار کر دیا
فرسودگی کو زیرِ گراں بار کر دیا
انسانیت کی راہ کو ہموار کر دیا
یعنی زمینِ فکر برابر اُجال کر
تخییلِ زندگی کو یوں سینچا سنبھال کر

سورج ہو چاند ہو کہ ستاروں کی اصلیت
باغِ جہاں میں پھولوں کی خاروں کی اصلیت
غیروں کی اصلیت ہو کہ یاروں کی اصلیت
اللہ ! جانتے ہیں وہ ساروں کی اصلیت
اللہ نے حضورؐ کو کچھ ایسی شان دی
مٹھی میں کائنات ہے شاہِؐ زمان کی

انساں نے کائنات کو دیکھا ہے جھوم جھوم
چوں کہ ہے کائنات میں بس آپؐ ہی کی دھوم
بخشے ہیں آپؐ ہی نے زمانے کو سب علوم
کردی عیاں حقیقتِ عرش و مہ و نجوم
تخلیق کا سبب بھی ہیں، صاحب نظر بھی ہیں
یعنی اِدھر بھی ہیں وہی یعنی اُدھر بھی ہیں

آپؐ اولین نغمۂ سازِ الست ہیں
رازِ الست و کاشفِ رازِ الست ہیں
نازِ الست بھی ہیں نیازِ الست ہیں
دراصل باعثِ تگ و تازِ الست ہیں
اسرار کیا زمین کے کیا آسمان کے
وا کر دیے خدا نے سبھی لا مکان کے

اللہ کے بسیط خزینے سے ہے مِلا
اُنؐ کے طفیل سب ہی قرینے سے ہے مِلا
جینے کا ڈھنگ اُنؐ کے ہی جینے سے ہے مِلا
خوشبو کو ناز اُنؐ کے پسینے سے ہے مِلا
وہؐ عطر بیز ، عطر فشاں روحِ زندگی
نازاں اُنھیؐ کے دم سے ہے بس ذوقِ بندگی

شیرینیِ سخن میں جڑے بے حساب پھول
لب ہائے دل نوا سے جھڑے بے حساب پھول
پتھر دلوں میں اُگ ہی پڑے بے حساب پھول
لگ کر قطار میں ہیں کھڑے بے حساب پھول
سب دست بستہ خدمتِ عالی جناب میں
حاضر ہیں سر جھکائے رسالت مآبؐ میں

رحمت نے اُنؐ کی سارے زمانے کو پالا ہے
بھوکے رہے حضورؐ سوالی نہ ٹالا ہے
وہم و گماں ، یقین کے سانچے میں ڈھالا ہے
کہتا ہے ہر سوالی کہ اک دینے والا ہے
خندہ جبین و لب وہؐ گہر پارۂ کمال
دیتے ہیں جو بھی مانگے کوئی شاہِ خوش خصال

ہر ایک کے لیے ہیں وہیؐ با اماں ہُوئے
ہر جلتے بلتے جسم پہ وہ چھتر چھاں ہُوئے
یوں انگلیوں سے فیض کے دریا رواں ہُوئے
سیراب اتنے پیاس کے مارے کہاں ہُوئے
وہ کامراں ہوا جو چلا اُنؐ کے ساتھ ساتھ
یعنی سبیلِ رحمتِ باری ہے ہاتھ ہاتھ

یہ رہنمائے زندگی ہے آیۂ حیات
یہ آیۂ حیات کہ ہے پایۂ حیات
یہ پایۂ حیات کہ ہے مایۂ حیات
یہ مایۂ حیات ہے سرمایۂ حیات
وہؐ سلسبیلِ فکر و عمل کا نشور ہیں
وہؐ کیسے ڈگمگائیں کہ جن کے حضورؐ ہیں

ایمانیت کا ایسا جلایا گیا چراغ
شیطانیت کا چہرہ ہوا خود ہی داغ داغ
نورانیت کے پھولوں سے مہکا تمام باغ
انسانیت کے رنگوں سے آخر بھرا ایاغ
حق جام پی کے زندگی مسرور ہو گئی
چھائی ہُوئی تھی مُردنی سب دُور ہو گئی

چشمِ فلک نے جذبہ ایماں میں رَم کِیا
پھوٹی کرن، جہان نے سر اپنا خم کِیا
تارِ نفس کو تارِ حقیقت میں ضم کِیا
ہر موجۂ حیات رواں دم بہ دم کِیا
دیکھو! مرے حضورؐ نے کیا کیا نہیں کِیا
سوچو! مرے حضورؐ نے کیا کیا نہیں کِیا

ہر اک فصیلِ خار کو خاشاک کر دیا
ہر زاویہ نگاہ کا یوں پاک کر دیا
غلطیدہ ہر نظر کو تہِ خاک کر دیا
مخفی جو جلوہ تھا سرِ ادراک کر دیا
کچھ اس طرح وہ جذبِ دروں دے دیا گیا
آنکھوں کو نور دل کو سکوں دے دیا گیا

جو سوچتے ہیں کیسے بھلا دم دکھائی دے
بیمار کے دموں میں شفا دم دکھائی دے
وقتِ نزع ہو اور نیا دم دکھائی دے
رنگت ہو زرد اور ہرا دم دکھائی دے
دیکھیں اُدھر حضورؐ کی نظرِ کرم ہُوئی
دم آگیا دموں میں سحر تازہ دم ہُوئی

ہر ڈوبتے کو سانس عطا آپؐ نے کیے
لرزے ہوئے حواس بجا آپؐ نے کیے
صرصر کے جھونکے بادِ صبا آپؐ نے کیے
مدت کے قید پنچھی رہا آپؐ نے کیے
اُنؐ کے طفیل زندگی سوغات ہو گئی
رحمت کی چار سمت ہی برسات ہو گئی

بے مایہ آدمی بھی بہت قیمتی ہُوا
اُسؐ ہی سخی نے نظرِ سخا سے سخی کِیا
دونوں جہاں کی خوشیوں سے دامن کو بھر دیا
رنج و الم کا دریا کہ فوراً اتر گیا
اِحسان زندگی پہ کِیا یوں حضورؐ نے
وجدان زندگی کو دیا یوں حضورؐ نے

جس سر پہ چھت نہیں تھی اُسے بھی ہے چھت مِلی
یہ چھت بھی یعنی آپ ہی کی معرفت مِلی
اِس معرفت سے ایسی ہے اپنائیت مِلی
جس پر نثار دنیا کی ہر سلطنت مِلی
بخشش حضورؐ کی ہے نرالی ہے صبحِ نور
روشن گھروں میں دیکھنے والی ہے صبحِ نور

سرسبز زندگی کا نشاں بولنے لگا
گرہیں تصورات کی سب کھولنے لگا
ایسے کتابِ حق کے ورق پھولنے لگا
میزانِ عقل پر وہؐ اُنھیں تولنے لگا
سیکھا ہے یہ طریق بشر کس کتاب سے
یہ بھی مِلا شعور رسالت مآبؐ سے

ظالم نے چل کے دیکھ لی ہر ایک چال، سوچ!
لوگوں کو اس نے کیسے کیا یرغمال، سوچ!
انسانیت کو ہوتے ہُوئے پائمال، سوچ!
پھر شاہِؐ دوجہان کا اوجِ کمال، سوچ!
مظلومیت کے سر پہ رکھا دستِ تاج بھی
اِنسانیت کا فخر سے سر اونچا آج بھی

اُنؐ کے سوا خیال کسی کو عدو کا ہے
مژدہ ہر اک کے واسطے ’’لا تقنطو‘‘ کا ہے
نعرہ جو گونجتا ہے فقط اللہ ہُو کا ہے
کیا سلسلہ زمیں تا فلک گفت گو کا ہے
ہر سلسلہ حبیبِؐ خدا کے طفیل ہے
ہر مرحلہ حبیبِؐ خدا کے طفیل ہے

اُمت کے غم میں ہوتاہے یوں بے قرار کون
غم خوار کون اور ہُوا غم گسار کون
خلوت میں ہو رہا تھا بھلا اشک بار کون
ہر ایک سر پہ دیکھیے ہے سایہ دار کون
کچھ سوچیے تو حضرتِ انسان! کون ہے
کس کو خبر نہیں کہ وہ ذیشانؐ کون ہے

یہ الفتِ مدام کہ ہے حکمتِ مدام
یہ حکمتِ مدام کہ ہے نعمتِ مدام
یہ نعمتِ مدام کہ ہے راحتِ مدام
یہ راحتِ مدام کہ ہے رحمتِ مدام
اللہ نے کیا ہے یہ کیوں انتظام بول
پیشِ نظر ہے کون رہا خود مقام بول

جس نے دلوں میں حق کو اُتارا ہے وہ نبیؐ
انسانیت کو جس نے سنوارا ہے وہ نبیؐ
ارض و سما نے جس کو پکارا ہے وہ نبیؐ
دونوں جہاں میں انجمن آرا ہے وہ نبیؐ
قربان جائیں شانِ رسولِ اَنام پر
اللہ بھیجتا ہے درود اُنؐ کے نام پر

خوش بخت روشنی ہے کہ تجسیم کی گئی
تجسیم کر کے باعثِ تکریم کی گئی
تکریم سے جہان میں تقسیم کی گئی
تقسیم میں نہ پھر کبھی ترمیم کی گئی
ذاتِ نبیؐ سے پھوٹتی نازاں ہے روشنی
خندہ کناں ہے اور درخشاں ہے روشنی

آنکھوں کی روشنی کہیں حرفوں کی روشنی
تابانیِ حیات کے جذبوں کی روشنی
ہر سمت جلوہ ریز ہے سوچوں کی روشنی
سورج کو خیرہ کرتی ہے لفظوں کی روشنی
نورانیوں کے تو شہِ والا حضورؐ ہیں
ترسیلِ روشنی کا حوالہ حضورؐ ہیں

دنیا کے یہ نظارے بھی ہیں کس شمار میں
دریا ندی کے دھارے بھی ہیں کس شمار میں
یہ کہکشاں ستارے بھی ہیں کس شمار میں
اُنؐ کے حضور سارے بھی ہیں کس شمار میں
نقشِ قدم سے اُن کے ابھرتا ہے آفتاب
دریوزہ گر ہے اُنؐ کی گلی کا یہ ماہتاب

دیکھا کریں یہ دیکھنے والے، بچھے ہُوئے
راہوں میں اُنؐ کی چاند ستارے بچھے ہُوئے
قدموں سے اُنؐ کے لپٹے اجالے،بچھے ہُوئے
یکجا ہوئے ہیں ایسے یہ بکھرے بچھے ہُوئے
یعنی اُجالے ایک ہی صف میں ہیں آگئے
آتے ہی صف میں ظلمتِ شب پر ہیں چھا گئے

پیشِ نظر ہے آج بھی روضہ حضورؐ کا
وہ روشنی کا منبع وہ جلوہ حضورؐ کا
دنیا میں ساری نعمتیں صدقہ حضورؐ کا
ہے آخرت میں بھی یہی خاصہ حضورؐ کا
کیسے ہم اُنؐ کا چھوڑ کے در ، دربدر پھریں
بھیجیں درود اُنؐ پہ نہ کیوں اُنؐ کا دم بھریں

یہ منبعِ ضیا ہے سدا آپؐ کی عطا
عقلِ سلیم، عقلِ رسا آپؐ کی عطا
ایسے ہوئی ہے جلوہ نما آپؐ کی عطا
ہر سمت اللہ ہُو کی صدا آپؐ کی عطا
اللہ کی عطا نے خزانے شعور کے
انسانیت کو بخشے ہیں صدقے حضورؐ کے

اُنؐ کا اگر خیال نہ ہو زندگی نہ ہو
اُنؐ کا اگر جمال نہ ہو روشنی نہ ہو
اُنؐ کا اگر وجود نہ ہو دل کشی نہ ہو
اُنؐ کا اگر دیار نہ ہو تازگی نہ ہو
ہے جو ازل سے نوعِ بشر کے لیے سفیر
میرے نبیؐ کی ذات ہے جو ہے ابد نظیر

فکر و نظر کی اور تخیّل کے دھوم کی
دیکھیں برس رہی ہے گھٹا کیا علوم کی
بوچھار ہو رہی ہے زمیں پر نجوم کی
ذہنوں سے تیرگی کہ چھٹی ہے غموم کی
اُنؐ کے سوا بتائو اگر ہے کسی کے پاس
انساں نوازنے کا ہنر ہے کسی کے پاس؟

ایوانِ علم اور عمل اُنؐ کی بات ہے
بنیادِ فکر و آگہی بس اُنؐ کی ذات ہے
اور رہنما حیات کی، اُنؐ کی حیات ہے
اقرار اُنؐ کا ، دن ہے ، نفی اُنؐ کی، رات ہے
سامانِ زندگی کا احاطہ کیے ہُوئے
اللہ کی عطا سے ہیں سب کچھ لیے ہُوے

ہر سو اُنھیؐ کا فیضِ تجلی رواں دواں
ہر دم اُنھیؐ کے دم سے مشرف ہیں جسم و جاں
ہر پل اُنھی کے ذکر سے ہے زینتِ جہاں
ہر سمت اُنھیؐ کی ضو سے منور ہے کہکشاں
لطف و کرم کے سلسلے الطاف و نور کے
ہیں سارے معجزات یہ میرے حضورؐ کے

زیادہ مِلے کہ مجھ کو مِلے کم قبول ہے
ہر اک خوشی سے اُنؐ کا مجھے غم قبول ہے
جو اُنؐ کی یاد میں ہو بسر دم قبول ہے
آنکھوں کو اُنؐ کے واسطے ہی نم قبول ہے
مجھ کو قبول اُنؐ کی خوشی سے خوشی مری
اُنؐ کے طفیل ہی تو ہے یہ زندگی مری

میں بھی ہوں اور ساتھ ہے جمِ غفیر بھی
آزاد بھی، غلام بھی، شہ بھی ، فقیر بھی
لائے ہیں اپنے ساتھ گناہِ کثیر بھی
پیوست ہیں دلوں میں ندامت کے تیر بھی
ہیں دست بستہ ساری نگاہیں جھکی ہوئیں
بخشش کی سمت سب کی ہیں آنکھیں لگی ہوئیں

بخشش کے دیکھ لیجیے سامان ہو گئے
اُنؐ کی وِلا سے مرحلے آسان ہو گئے
سایہ فگن وہ صاحبِ قرآن ہو گئے
اُس زندگی کے بھی وہ نگہبان ہوگئے
صلِّ علیٰ، وَسَلِّمُوْ تسلیم آپؐ ہیں
دونوں جہاں میں صاحبِ تکریم آپؐ ہیں

اقرارؔ کی زباں پہ درودوں کے سلسلے
ان سلسلوں سے پھوٹے سحر خیز حوصلے
ان حوصلوں نے بخشے اسے تازہ ولولے
ان ولولوں کی رو میں درودِ نبیؐ چلے
غم مٹ گیا ہے رقصاں ہوئیں شادمانیاں
قدموں کو بڑھ کے چومتی ہیں کامرانیاں

نقطے کو بھی وہؐ وسعتِ مثلِ زمین دیں
الفاظ کو بھی ذوقِ عمل کا یقین دیں
سائل کو مانگنے کا طریقہ حسین دیں
دیں روزگارِ روز و شب اور بہترین دیں
رب کی عطا سے ایسے زباں داں ہیں وہ کہ بس
زیر و زبر کے باب میں ہے اُنؐ کو دسترس

اُنؐ کی عطا نے کر دیا ہے با ہنر مجھے
تسکین کیوں نہ دے گا ہنر کا سفر مجھے
رحمت نے اُنؐ کی ایسے کِیا باثمر مجھے
نکتہ وری نے اُنؐ کی کِیا نکتہ ور مجھے
ہر ایک وصف اور مرا خاصہ اُنھیؐ سے ہے
یعنی مرا تمام اثاثہ اُنھیؐ سے ہے

عقل و شعور، فکر و نظر کا ثمر مجھے
ملتا ہے اُنؐ سے ایسا مِلا ہے ہنر مجھے
اُن کی عطا نے بخشا ہے اک ایسا گھر مجھے
جس نے کبھی کِیا ہی نہیں در بدر مجھے
عرفان اُنؐ کے در سے مِلا، آگہی مِلی
احساں ہے اُنؐ کی ذات کا ہر لمحہ ہر گھڑی

نام اُنؐ کا بے ادب کی زباں پر نہ آئے گا
آ بھی گیا تو حق سے توجہ نہ پائے گا
پائے گا وہ توجہ ، جو دل میں بسائے گا
دل میں بسا کے اُنؐ کا کہا مان جائے گا
یعنی کہ اُنؐ کا نام ادب کی اساس ہے
یعنی یہی اساس حقیقت شناس ہے

قرآن میں بیان ہوئی مدح آپؐ کی
محبوب ایسے ہونے لگی مدح آپؐ کی
توفیق جس کو بھی ہُوئی ، کی مدح آپؐ کی
ہر اک نے صدقِ دل سے کہی مدح آپؐ کی
نکھرا ادب کہ حرفِ جلی بالیقیں مِلا
حسّانؓ سے بھی ذکرِ نبیؐ بالیقیں مِلا

برتے ہوئے خیال، بہر حال فق ہُوئے
الجھے ہوئے سوال، بہر حال فق ہُوئے
بے وجہ با کمال ، بہر حال فق ہُوئے
معنیٔ قیل و قال، بہر حال فق ہُوئے
معنی نئے خیال سرِ ناز ہو گئے
الفاظ اُنؐ لبوں سے سرافراز ہو گئے

علمِ بحور، قافیہ خوانی بجا مگر
علمِ بیان، علمِ معانی بجا مگر
رنگِ فصیح، شعلہ بیانی بجا مگر
رنگِ بلیغ اور روانی بجا مگر
اُنؐ کی عطا ہو، دل میں محبت اُنھیؐ کی ہو
توصیف اِن علوم سے آگے نبیؐ کی ہو

قسمت سے آج میرا ستارہ بلند ہے
ہونٹوں پہ ذکرِ شاہِ زمانہ بلند ہے
کیسے بتائوں تم کو کہ کتنا بلند ہے
اُنؐ کے کرم سے مجھ سا بھی ادنیٰ بلند ہے
ذکرِ حبیبؐ، جان سے بڑھ کر حبیب ہے
میرا نصیب اُنؐ کی غلامی نصیب ہے

قطرے پہ کی نظر اُسے گوہر بنا دیا
ذرے کو آفتاب کا ہم سر بنا دیا
اپنے کرم سے صحرا، سمندر بنا دیا
بے نطق ، بے زباں کو سخن ور بنا دیا
ہر شے کی حد ہے اُنؐ کی عطائوں کی حد نہیں
لکھوں میں نعت کیسے مرا اتنا قد نہیں

تکریمِ فکرِ رزق حبیبِؐ خدا نے کی
تعلیمِ فکرِ رزق حبیبِؐ خدا نے کی
تفہیمِ فکرِ رزق حبیبِؐ خدا نے کی
تقسیمِ فکرِ رزق حبیبِؐ خدا نے کی
کاغذ، قلم، دوات نے سر کو جھکا دیا
میں بے ہنر تھا آپؐ نے لکھنا سکھا دیا

پہلے درود میں نے پڑھا، ساتھ کی دعا
بعد از دعا قصیدہ کہا، ساتھ کی دعا
لوگوں نے جب یہ مجھ سے سُنا، ساتھ کی دعا
اُنؐ کا ہو قربِ خاص عطا، ساتھ کی دعا
مجھ کو مرے قصیدے کا ایسا ثمر ملے
اُنؐ کے طفیل اجر بھی شام و سحر ملے

پھیلی ہُوئی ہوا میں صدا عطر بیز ہے
اُنؐ کے سبب جو مانگی دعا عطر بیز ہے
بیرون، اندرون مرا عطر بیز ہے
کیسے نہ ہو کہ اُنؐ کی عطا عطر بیز ہے
موجِ نفس اُنھیؐ کے سبب مشک بار ہے
ہر زاویہ حیات کا اب پُر وقار ہے

کتنے قریب پائے ہیں قوسِ خدا کے رنگ
جیسے قلم کے سائے ہیں قوسِ خدا کے رنگ
شعروں میں کھل کے آئے ہیں قوسِ خدا کے رنگ
قرطاس پر سجائے ہیں قوسِ خدا کے رنگ
قوسِ خدا کے رنگوں میں بھی اُن کی ہے ترنگ
’’ارض و سما و بینَ ھما‘‘ میں ہے جن کا رنگ

چھائیں نہ کیسے ابرِ مضامین سر بہ سر
وردِ زباں وہ نام ہے جس کا ہے یہ ثمر
لفظوں کی آبرو کو نہیں کوئی بھی خطر
کوئی کرے کلام بھی کیوں اس کلام پر
لکھوں میں نام اُنؐ کا تو کاغذ بھی جھوم جائے
نوکِ قلم کو اوس بھی روز آکے چوم جائے

آپؐ آئے اس جہان میں یعنی برائے زیست
ہر سر پہ دی ہے آپؐ نے آکر ردائے زیست
بخشی ہوئی ہے آپؐ کی ساری فضائے زیست
ہر سو سے آ رہی ہے دما دم صدائے زیست
یعنی کہ شرطِ زندگی مدحِ رسولؐ ہے
اقرارؔ روحِ بندگی مدحِ رسولؐ ہے

اب تو حضورؐ قوتِ پرواز دیجیے
اب تو حضورؐ رس بھری آواز دیجیے
اب تو حضورؐ لائقی انداز دیجیے
اب تو حضورؐ اپنے تئیں ناز دیجیے
دوری سے آقاؐ عرض ہے میرا سلام ہو
اذنِ سفر ملے تو یہ حاضر غلام ہو
٭٭٭٭٭

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...