Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > منزل شوق > جواں جذبوں اور امکانات کا شاعر

منزل شوق |
حسنِ ادب
منزل شوق

جواں جذبوں اور امکانات کا شاعر
Authors

ARI Id

1689956522114_56117345

Access

Open/Free Access

Pages

۰۹

جواں جذبوں اور امکانات کا شاعر
ڈاکٹر رحمت علی شادؔ
جینے کے ڈھنگ تیری جدائی سکھا گئی
اور یاد تیری مجھ کو ہے شاعر بنا گئی
شہرِ فرید میں جنم لینے والے ڈاکٹر فہد ملک ایک خوش اخلاق،خوش لباس، خوش اطوار اور خوبرو نوجوان ہیں۔ جن کی پہچان کے دو بڑے حوالے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ ایک فرض شناس میڈیکل ڈاکٹر ہیںاور دوسرا معتبر حوالہ یہ بھی ہے کہ وہ پاک پتن کے ابھرتے ہوئے ایک عمدہ لب و لہجے کے نووارد شاعر ہیں۔ شہرِ فرید کی ادبی روایت میں ایک خوش گوار اضافہ ثابت ہونے والے فہد ملک کے کلام میں فنی و فکری ہر دو طرح کی جھلکیاں بخوبی دیکھی جاسکتی ہیں۔
ڈاکٹر فہد ملک کی شاعری میں سادگی اور سلاست کا نصر نمایاں ہے۔ وہ کبھی لفاظی ،ثقیل اور بھاری بھرکم تراکیب کے چکر میں نہیں پڑتے ان کو جو بات کہنا ہوتی ہے بڑے سادہ اور موثر انداز میں کہہ دیتے ہیں۔ انھوں نے غزل کے ساتھ نظم بھی لکھی ہے جہاں انھوں نے نہ صرف خیال اور موضوع کو بہتر انداز میں بیان کیا ہے بل کہ عام فہم استعارات و تشبیہات ،اضافتیں، اشارے کنایے اور روایتی علامات بھی استعمال کی ہیں۔ ان کے خیالات منفرد اور لہجہ زود فہم ہے۔ وہ کوئی بھی خیال پیش کرتے ہیں تو اس کو الجھاتے نہیں۔بل کہ کھول کر بیان کر دیتے ہیں۔کسی بھی شاعر کے کلام میں سہلِ ممتنع کا استعمال ایک عمدہ خوبی سمجھا جاتا ہے۔ کیوں کہ بڑے بڑے موضوعات اور بڑی بڑی باتوں کو چند موزوں الفاظ میں بیان کر دینا کوئی آسان بات نہیں۔ چھوٹے چھوٹے مصرعوں میں ایک مکمل اور بھرپور مضمون کو بیان کرنا غیر معمولی بات ہے۔ فہد ملک کی شاعری میں بھی سہلِ ممتنع کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔ سہلِ ممتنع کا انداز لیے ہوئے ان کی ایک غزل کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں جن میں زندگی کو عذاب اور ایک خوش نما سراب قرار دیا گیا ہے۔ نیز زندگی کے امتحان کا نصاب درد اور زندگی کی کتاب میں محبوب کو ادھورا باب گردانا جارہا ہے۔ لکھتے ہیں:
خوش نما سراب ہے
زندگی عذاب ہے
امتحانِ عمر کا
درد ہی نصاب ہے
عمر کی کتاب میں
تو ادھورا باب ہے
کلام میں اگر تکلف اور تصنع نہ ہو اور شعر سلاست اور سادگی کا عنصر لیے ہوئے ہو تو شعر کی اس خوبی کو بے ساختگی کا نام دیا جاتا ہے۔ فہد ملک نے اپنی شاعری میں کبھی جذبے سے کبھی تحسین و آفرین سے کبھی استفہام سے اور کبھی سوز و گداز سے بے ساختگی کا عنصر کشید کرنے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے اپنے کلام میں علامات بھی سادہ اور زود فہم استعمال کی ہیں۔ ان کا کلام ایسی علامات اور تراکیب مزین ہے کہ ان کی یہ تراکیب ان کے کلام کو زیادہ خوب صورت اور جاندار بنادیتی ہیں۔ سازِ درد، حالِ دل، فکرِ روزی، شعلہ امید، گردِ ایذا، محرومیِ اناج، دردِ جنوں، دلِ زبوں، دشمنِ جاں، راہِ عشق، دردِ دوام، کتابِ زیست، خلوتِ دل، نارِ ہجر، سرابِ وصل، چراغِ عشق، محوِ یاس، قلزمِ خوں اور رودادِ عشق جیسی تراکیب کا استعمال دیکھیے:
رودادِعشق رنج کا اک جال بن گئی
اوڑھے ہیں درد اتنے کہ اک شال بن گئی
ایک اور مثال ملاحظہ فرمائیے جس میں قلزم خوں جیسی ترکیب استعمال ہوئی ہے:
سکون کی لحد میں اب اتر ہی جائیں گے
یہ قلزمِ خوں پار اب تو کر ہی جائیں گے
ڈاکٹر فہد ملک کی شاعری میں زورِ بیاں کے ساتھ شیرینی اور لطفِ بیان کا حسن بھی نمایاں ہے۔ ان کے ہاں محاورے کی بندش بالکل فطری انداز میں ہوئی ہے گویا محاورہ کلام کا ہی حصہ ہو۔ان کی شاعری میں روز مرہ اور محاورہ یک موزوں استعمال سے زبان و بیان میں خوب صورتی اور چاشنی کا عنصر در آیا ہے۔ ان کی غزل میں بہت سے ایسے اشعار مل جاتے ہیںجو زبان کی صفائی ، خیال کی پاکیزگی اور مصرعوں کی روانی و سلاست جیسی خصوصیات سے متصف ہیں۔ ان کے ہاں ہاتھ ملانا، منہ اٹھانا، دم لینا، اشک بہانا، ہوش ٹھکانے پہ آنا، پاس بٹھانا، اور آسمان سر پہ اٹھانا جیسے سادہ اور معروف محاورات نظر آتے ہیں۔’’ آسمان سر پہ اٹھانا‘‘جیسے محاورے کا برجستہ استعمال ملاحظہ کیجیے:
مانا کہ فہدؔ زندگی بھی ہے بہت کٹھن
پر آسماں تو سر پہ اٹھانے سے میں رہا
اسی غزل کا ایک اور شعر دیکھیے جس میں ’’ہوش ٹھکانے پہ لانا‘‘جیسے محاورے کو بڑے فطری انداز میں استعمال کر کے شاعر نے اپنی فنی پختگی اور چابک دستی کا بین ثبوت پیش کیا ہے۔ بتاتے ہیں کہ جب اذیتیں کسی کو پاگل کر دیںتو ہوش ٹھکانے پہ رہنا ذرا مشکل ہو جاتا ہے۔
ان سب اذیتوں نے تو پاگل ہی کر دیا
ہوش اپنے اب ٹھکانے پہ لانے سے میں رہا
ڈاکٹر فہد ملک دراصل عروضی شاعر نہیں۔وہ اگرچہ شاعری کی دنیا میں نووارد کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن ان کا شعری آہنگ ان سے بر وزن شعر کہلوا لیتا ہے۔فنی حوالے کلام کا حسن اور شاعری کی جان ہوتے ہیں۔جن سے کلام میں پختگی اور نکھار کا اندازہ ہوتا ہے۔جہاں ان کے کلام میں فکری حوالے ملتے ہیں وہاں فنی حوالے بھی ان کے کلام کا جزوِ لا ینفک ہیں۔ان کے ہاں معروف ضرب الامثالمحاورات کا بر محل استعمال ، انوکھی تشبیہات، استعارات متعدد تلمیحات، منہ بولتے قافیے اور منفرد ردیفیں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ ردیف قافیے کی مثال کے لیے درجِ ذیل اشعار دیکھیے:
اس گردشِ جہان کا مارا ہوا وجود
لے جائیں ہم کہاں بھلا ہارا ہوا وجود
آدم کی لغزشوں کی سزا سہہ رہا ہے اب
دیکھو بہشت سے یہ اتارا ہوا وجود
بعض شعرا استفہامیہ انداز اختیار کر کیاپنی بات قارئین تک پہنچاتے ہیں تا کہلوگ ان کے مذکورہ انداز کی طرف متوجہ ہوں۔سوالیہ انداز میں ایک خاص کشش موجود ہوتی ہے جو دوسروں کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کرتی ہے۔استفہامیہ انداز لیے ہوئے ڈاکٹر فہد ملک کے درج ذیل اشعار ملاحظہ ہوں۔
ڈھلتی سی شام کی جو ہوا چل پڑی تو پھر
اک اختتام کی جو ہوا چل پڑی تو پھر
حاکم تجھے ہے خوف جو سچ کے نظام سے
گر اس نظام کی جو ہوا چل پڑی تو پھر
ڈاکٹر فہد ملک چوں کہ ایک نوجوان شاعر ہیں۔ اس طرح ان کی شاعری بھی جوان جذبوں کی شاعری دکھائی دیتی ہے۔ ان کے کلام میں محبوب کے وصل کی خواہش بعض اوقات شدت اختیار کر جاتی ہے اور جب محبوب کے وصل اور لمس کے لمحات میسر نہیں آتے تو وہ خدا کی ذات سے بھی شکوہ کرتے نظر آتے ہیںکہ اے اللہ اگر تو کُن کہہ دیتا تو وہ مجھے مل سکتا تھا۔جس سے میرے دل کا زخم مندمل ہو جاتا اور اگر محبوب کا وصل میسر آ جاتا اور وہ میرے ساتھ چلنے پہ آمادہ ہو جاتا تو اس پہ مرجھایا ہوا دل کا غنچہ کھل اٹھتا:
یہ زخم اپنے دل کا تو سل بھی سکتا تھا
تو کُن اگر جو کہتا وہ مل بھی سکتا تھا
پژمردہ سا یہ غنچہ ہم دل ہیں جس کو کہتے
گر ساتھ وہ جو چلتا تو کھل بھی سکتا تھا
شاعر چوں کہ معاشرے کا حساس فرد ہوتا ہے۔ جب وہ اپنے گرد و پیش رونما ہونے والے واقعات سماجی ناہمواریوں ،معاشرتی رویوں کو دیکھتا ہے تو ا س کا دل دکھتا ہے۔ وہ اپنی حساسیت کے ہاتھوں مجبور ہو کرصدائے احتجاج بلند کرتا ہے۔ اسی طرح کے سماجی رویوں میں محبوب کی بے وفائی اور وعدہ خلافی کے حوالے سے فہد ملک لکھتے ہیں:
تری قسمیں ترے وعدے کبھی سچے نہیں نکلے
کہ ہم تکتے رہے تھے راہ تم گھر سے نہیں نکلے
کہیں کیا حادثہ تو روز ہوتا ہی رہا کوئی
یوں اچھے دن بھی اپنے خیر سے اچھے نہیں نکلے
ڈاکٹر فہد ملک کے کلام میں غالب موضوع نا آسودگی اور نارسائی کا عمل دکھائی دیتا ہے۔ لاحاصل سے حاصل تک کا سفر جگہ جگہ ان کے کلام کا حصہ نظر آتا ہے۔ وصل کی نا آسودہ خواہشات نارسائی کا کرب، محبوب کی بے وفائی تکلیف دہ معاشرتی رویوں کی بازگشت ان کے کلام میں واضح سنی جاسکتی ہے۔ مثال کے لیے اشعار پیشِ خدمت ہیں:
ہر غم ہنسی کے پیچھے چھپانے سے میں رہا
اس بارِ زندگی کو نبھانے سے میں رہا
حساسیت سے چیخ کر یہ کہہ رہا ہوں میں
گر یہ ہے زمانہ تو زمانے سے میں رہا
فہد ملک نے غزلوں کے ساتھ ساتھ نظمیں بھی تخلیق کی ہیں۔ ان کی تخلیق کردہ معروف نظموں میں ’’انا‘‘،’’ ہجر کے تین سال‘‘،’’ہر روز‘‘،’’ ماتم‘‘، ’’کرشمے‘‘ اور’’ عشق کا گائوں‘‘وغیرہ شامل ہیں۔ ان کی نظم ’’عشق کا گائوں‘‘ سے صرف دو اشعار ملاحظہ فرمائیں،جن سے محبوب سے تعلق ،اعتبار اور پیار کے حوالے سے اطمینان کا اظہار کر رہے ہیں اور بتا رہے ہیں کہ ایک عشق کا گائوں ہے جہاں وہ میرے پاس رہتا ہے ۔ اس حوالے سے وہ لکھتے ہیں:
اسے اعتبار آ گیا آخر
مجھ پہ پیار آ گیا آخر
اک عشق کا گائوں آتا ہے
وہاں وہ میرے پاس رہتا ہے
ڈاکٹر فہد ملک نے اردو کلام تخلیق کرنے کے ساتھ ساتھ پنجابی زبان میں بھی طبع آزمائی کر کے اپنی ماں بولی اور اپنی مٹی سے محبت کا ثبوت پیش کیا ہے۔ پنجابی زبان میں بھی ان کا اسلون سادہ اور عام فہم ہے۔ دونوں زبانوں میں بڑی روانی کے ساتھ ان کا قلم چلتا چلا جاتا ہے۔ پنجابی زبان میں لکھی گئی ایک غزل سے محض دو اشعار بطور نمونہ ملاحظہ ہوں:
بھانویں سوکھا سریا نہیں
جیوندا ہاں میں مریا نہیں
سارا دن مزدوری کیتی
ڈِھڈ تے فیر وی بھریا نہیں
ڈاکٹر فہد ملک کو ادبی ذوق وراثت میں ملا ہے۔ ان یک والدِ محترم ملک محمد اشرف ایک ماہرِ تعلیم، بہترین منتظم، لٹریچر کے استاد اور افسانہ نگار بھی ہیں۔ گویا ادبی ذوق ان کی جبلت میں شامل ہے۔ اسی لیے فہد ملک کا شعری ذوق ان کے موروثی ہونے کی غمازی کرتا ہے۔ بہر حال یہ نوجوان جس کا بنیادی تشخص ایک میڈیکل ڈاکٹر کا ہے لیکن اب پاک پتن کے ادبی حلقوں میں ان کی پہچان ایک معتبر شاعر کی بھی ہے۔ ان کے کلام میں موجود سادگی سلاست اور فنی و فکری حوالے ان کے روشن مستقبل کے امکانات کا اور واضح کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس طرح وہ مستقبل قریب میں اپنی منفرد اور الگ شناخت بنانے میں کافی حد تک کامیاب نظر آئیں گے۔ اس تازہ شعری مجموعے یعنی اس معرکہ خاص پر راقم انھیں ہدیہ تبریک پیش کرتا ہے۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...