Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > منزل شوق > منزلِ شوق کے رنگ

منزل شوق |
حسنِ ادب
منزل شوق

منزلِ شوق کے رنگ
Authors

ARI Id

1689956522114_56117346

Access

Open/Free Access

Pages

۱۵

منزلِ شوق کے رنگ
ڈاکٹر نوید عاجزؔ
ڈاکٹر فہد ملک کا پہلا تعارف انسانیت کے مسیحا کا ہے۔ لیکن وہ روح کی مسیحائی پر یقین رکھتے ہوئے شاعری کو مقدم گردانتے ہیں۔ سچائی، خلوص اور انسان دوستی کی صفات اُن کی شخصیت کی تعمیر میں کلیدی حیثیت رکھتی ہیں۔ چونکہ وہ شاعری کو شخصیت کے اظہار کا وسیلہ تصور کرتے ہیں، اس لیے ان کے کلام میں بھی مذکورہ صفات پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر نظر آتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں:
عداوتوں کو تیرگی، وفا کو روشنی کہا
تمام عمر ہم نے تو جو سچ تھا بس وہی کہا
غزل کی روایت کا ایک موضوع احباب کی بے وفائی کا ہے۔ یہ موضوع اس قدر آفاقیت کا حامل ہے کہ ہر دور و ہر دیار میں پنپتا ہوا مل جائے گا۔ہمارے معاشرتی نظام میں دولت کی چمک دمک انسان کے ضمیر کو سلا کر وقتی مفادات پر مبنی فیصلے لینے پر مجبور کر دیتی ہے لیکن بے وفائی کی کوئی توجیہہ قابلِ قبول نہیں۔ یہ موضوع شاعری کا سدا بہار حصہ ہے۔ بقول فہد ملک:
ہم راہ دیکھتے رہے تھے جس کی عمر بھر
وہ شہر میں جو آیا تو ہم سے نہیں ملا
فہد کے اندر حساس انسان اُسے غور و فکر پر اکسائے رکھتا ہے، جس کی دلیل یہ ہے کہ اس کے ہاں فلسفیانہ مزاج کے اشعار ملتے ہیں۔ وجودی کرب انسان کا مقدر ہے۔ جو شخص دنیا میں آ گیا ہے وہ غم ہائے روزگار سے جان نہیں چھڑا سکتا۔ میرؔ و غالبؔ سے قاسمیؔ اور فرازؔ تک سبھی اس کرب کو محسوس کرتے اور پھر بیان کرتے نظر آتے ہیں۔ انسانی تخلیق کے حوالے سے فہد بھی اسی کرب سے گزرتے ہوئے لکھتا ہے:
اس گردشِ جہان کا مارا ہوا وجود
لے جائیں ہم کہاں بھلا ہارا ہوا وجود
آدم کی لغزشوں کی سزا سہہ رہا ہے اب
دیکھو بہشت سے یہ اتارا ہوا وجود
کہتے ہیں زمانہ بہترین استاد ہے ۔ زندگی گزارنے کے بعد جو سبق انسان حاصل کرتا ہے ، اُس کے اثرات دیر پا ہوتے ہیں۔ فہدؔ ملک نے زندگی سے یہ سیکھا ہے کہ انسان تنہا آیا ہے اور تنہا جائے گا۔۔ تنہائی کا یہ احساس اُسے کسی کی بے وفائی نے دان کیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ جدائی کے کرب نے اُس کے حوصلے پست نہیں کیے۔وہ کرب کے گہرے احساس کے باوجود زندگی کی دوڑ میں شامل ہو گیا ہے:
اک عمر جو گزاری تو ہم کو پتا چلا
لازم نہیں ہے کوئی بھی جینے کے واسطے
لمحہ ٔ جدائی سے زندگی کی مسدود راہوں کا سدِ باب کرنا حوصلہ مند لوگوں کا کام ہوتا ہے۔ فہدؔ ملک نے بھی اپنے غم کے اظہار کی صورت پیدا کر لی ہے اور وہ ہے شعر و سخن ! وہ اپنے داخلی جذبوں کو شعروں کے روپ میں پیش کرنے پر آمادہ ہیں اور یہ عمل کسی مہربان کی جدائی کا صلہ و انعام ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
جینے کے ڈھنگ تیری جدائی سکھا گئی
اور یاد تیری مجھ کو ہے شاعر بنا گئی
خارج کے مشاہدے کے بعد شاعر کے داخل میں ردو قبول یا قیاس و قیافہ کے احساسات کا سامنے آنا فطری عمل ہے۔ فہد نے ان جذبوں کو الفاظ کا خوب صورت پیرہن عطا کیا ہے۔ انھوں نے محبوب سے متعلق اپنی دلی کیفیت کی عمدہ اور مبنی بر صداقت قیاس آرائی کی ہے۔ شعر دیکھیے:
کہنے کو ایک پل بھی تو مجھ سے جدا نہیں
پر یہ بھی سچ ہے مجھ پہ تو پورا کھلا نہیں
لگتا ہے آج کل اسے میرا بھی دھیان ہے
جانے یہ بات سچ ہے کہ دل کش گمان ہے
ایسے اشعار مستقبل میں اس کے کامیاب شاعرہونے کی دلیل ہیں۔مثال میں چند اشعار دیکھیے:
تو مت بنا دریچہ بھلے دل کے محل میں
میرے ہی نام کی جو ہوا چل پڑی تو پھر

خلوت دل کے ان دریچوں میں
اک صدا سرگمی سی رہتی ہے

نام دوستوں کا بھی آئے گا چھوڑیے
چھوڑیے! نہ دشمنوں پہ بات کیجیے

ضبط نے وحشتوں کو باندھا ہے
آج پھر آنسوئوں کو باندھا ہے

امتحانِ عمر کا
درد ہی نصاب ہے
ایسے خوب صورت اشعار جس شاعر کو عطا ہو جائیں،اُس سے مستقبل میں خوش گوار توقعات کی جاسکتی ہیں۔ ڈاکٹر فہدؔ ملک اس خوب صورت مجموعے کی اشاعت پر داد و تحسین کے ساتھ نیک تمنائوں کے مستحق ہیں۔ امید ہے اُن کا یہ شعری مجموعہ قارئین کے دلوں میں جگہ بنانے مین کامیاب ہو گا۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...