Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > مباحث > اسلام میں تحقیق کے اصول

مباحث |
حسنِ ادب
مباحث

اسلام میں تحقیق کے اصول
ARI Id

1689956600868_56117418

Access

Open/Free Access

Pages

۲۱

موضوع 2:اسلام میں تحقیق کے اصول
قرآن پاک کی روشنی میں تحقیق کی اہمیت:
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس کی بنیاد قرآن پاک پر قائم ہے۔اس میں قیامت تک کے انسانوں کے لیے رہنمائی موجود ہے۔ اس میں ہدایات، احکام،اصول و کلیات پر مشتمل بنیادی باتیں بیان کی گئی ہیں۔اسلام وہ واحد آفاقی مذہب ہے جو رہبانیت کی نفی کرتا ہے اور سچائی تک پہنچنے کے لیے کسی حد تک عقل کے استعمال کی اجازت دیتا ہے کیونکہ تحقیق و تجربے سے غوروفکر سے پہلو تہی کرنا حقائق تک پہنچنے کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے۔
ایسے موضوعات جو انسانی عقل سے مابعد طبیعاتMetaphysics مثلا اللہ تعالی کی ذات اورصفات وغیرہ سے متعلق ہیں اسلام ان کے بارے میں سوچ و بچار کی اجازت نہیں دیتا ہیے۔ ایسے سوالات ہیں جومحدود انسانی عقل میں نہیں سما سکتے ان کا علم صرف وحی کے ذریعے سے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔ان کے علاوہ ہر وہ موضوع جس کا تعلق فلاح انسانی سے ہے۔ قرآن پاک میں جابجا غوروفکر کی دعوت دی گئی ہے۔جن میں سے چند آیات کریمہ درج ذیل ہیں۔
1۔سورۃالنساء کی آیت نمبر 82 میں اللہ تعالی فرماتے ہیں:
"تو کیا لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے۔اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں تفاوت پاتے۔"
2۔سورۃمحمد کی آیت نمبر 24 میں اللہ تعالی فرماتے ہیں:
"تو کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے یا دلوں پر کفر لگ گئے ہیں۔"
3۔سورۃ الانعام کی آیت نمبر50 میں اللہ تعالی فرماتے ہیں:
"آپ کہیے کہ اندھا اور بینا کہیں برابر ہو سکتے ہیں؟ کیا تم غور نہیں کرتے۔"
ان آیات کریمہ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ حق تعالی نے قرآن پاک کے ذریعے انسان کو غوروفکر یعنی تحقیق کرنے کا حکم دیا۔
اسلام میں حدیث کی اہمیت:
ظہور اسلام سے قبل عرب حدیث کے لفظ کو اخبار کے معنی میں استعمال کرتے تھے۔ آنحضرت نے بذات خود اپنے قول کو حدیث کا نام دیا ہے۔ شرعی اصطلاح میں حدیث سے مراد وہ اقوال و اعمال ہیں جو آنحضرت کی جانب منسوب ہیں گویا نبی پاک کے قول و فعل اور تقریر کو حدیث کا نام دیا جاتا ہے۔ اس کے تحت وہ تمام اقوال و افعال مراد لیے جاتے ہیں جو حضور کے سامنے ہوئے اور آپ نے ان سے روکا نہیں۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کریم کے ہوتے ہوئے حفاظت حدیث کی ضرورت کیوں کر پیش آئی؟
قرآن کریم کی بہت سی آیات جن کی وضاحت نبی نے اپنے قول و فعل سے فرمائی مثلااگر آپ نماز، روزہ، حج ، زکوۃ وغیرہ کی تفصیلات سے آگاہ نا فرماتے تو ہمارے پاس منشائے الہی کی تعمیل کا دوسرا کوئی ذریعہ نا تھا۔قرآن حکیم کے احکامات کی وضاحت کا حکم خود حق تعالی نے نبی کو دیا۔سورۃ نخل کی آیت نمبر 44 میں اللہ تعالی فرماتے ہیں:
"اور ہم نے آپ پر قرآن نازل کیا ہے تاکہ لوگوں کے سامنے اس تعلیم کی تشریح و توضیع کرتے جائیں جو ان کے لیے نازل کی گئی ہیں۔"
نبی کریم کے ارشادات کی تعمیل کا حکم ہی مسلمانوں کو سورۃ الحشر کی آیت نمبر 7 میں دیا گیا ہے:
"ـاور رسول جو کچھ عطا کرے اسے لے لو اور جس کام سے منع کرے اس سے باز رہو۔"
سورۃ النساء کی آیت نمبر 80 میں دو ٹوک الفاظ میں رسول کی اطاعت کو اللہ کی اطاعت قرار دیا گیا ہے:
"جس نے رسول اللہ کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔"
گویا سنت کے بغیر قرآن حکیم کو سمجھنا ممکن نہیں اس کی چند امثال حسب ذیل ہیں:-
1۔سنت کو اعجاز حاصل ہے کہ قرآن پاک کی آیت میں موجود کسی شرط کو ختم کرسکتی مثلامسافر کی نماز قصر۔ارشاد باری تعالی ہے:
"اور جب تم سفر پر جاؤ تو تم پر کچھ گناہ نہیں کہ نماز کو کچھ کم کرکے پڑھو بشرطیکہ تم کو خوف ہو کہ کافرتم کو ایذا دیں گے"
اس پر صحابہ نے عرض کی اب توامن کا زمانہ ہے اور ہم پھر بھی کسف کرتے ہیں۔آپ نے فرمایا اس میں کوئی حرج نہیں۔
2۔حدیث مبارکہ قرآن مجید کی کسی آیت کے مطلق حکم کو متعین کرسکتی ہے۔مثلاسورۃ المائدہ کی آیت نمبر 38 میں ارشاد باری تعالی ہے:
"اور چوری کرنے والے مرد اور چوری کرنے والی عورت کا ہاتھ کاٹ دیا جائے۔"
اس آیت کریمہ کی وضاحت میں نبی ﷺنے فرمایا کہ چور کا ہاتھ چوتھائی دینار یااس سے زائد کی چوری پر کاٹا جائے۔ اس سے ثابت ہوا کہ قرآن و حدیث دونوں لازم و ملزوم ہیں جس نے ان میں سے صرف ایک کو اختیار کیا اور دوسرے کو ترک کیاتو گویا اس نے کسی ایک کو بھی اختیار نہیں کیا۔
حدیث پاک کی صحت جانچنے کے بارے میں مسلمانوں نے جو اصول وضع کیے ہیں ان کی طرف رہنمائی بھی آنحضرت نے فرمائی۔
• زبانی روایت کی اجازت
• کتابت کی اجازت
• روایت اور کتابت کی حوصلہ افزائی
• جھوٹی روایتوں پر سخت وعید
یہ وہ تمام طریقے ہیں جن سے سنت کو محفوظ کرنے کی طرف رہنمائی کی گئی ہے۔حدیث مبارکہ میں حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
"آدمی کے جھوٹا ہونے کی یہی دلیل کافی ہے کہ جو سنے بلاتحقیق بیان کردے۔"
احادیث نبوی ﷺکی اہمیت کے پیش نظراحادیث عہد نبوی ، عہد صحابہ اور عہد تابعین میں بھی محفوظ تھیں۔پہلی صدی ہجری کے آخر میں حضرت عمر بن عبدالعزیز کے عہد میں علم حدیث کی تدوین اور ترتیب کا کام سرکاری سطح پر عمل میں آیا اورتحقیق و تنقید کے اصولوں کو عملی طور پر برتا گیا پھر یہ سلسلہ تسلسل کے ساتھ جاری رہا۔ تیسری صدی ہجری میں ترتیب و تدوین حدیث ایک مستقل فن بن گیا۔ مسلمانوں نے احادیث نبوی ﷺکی صحت جانچنے کے لیے جو اصول وضع کیے وہ درج ذیل ہیں:
• صحت ماخذ • اصول روایت
• اسماء الرجال کی تدوین • اصول درایت
1۔صحت ماخذ:
آپ نے نے آغاز وحی میں احادیث قلمبند کرنے سے منع فرمایا مصلحت یہ تھی کہ مبادا آپ کے اقوال،تشریحات اور سیرت قرآن سے مل جائے،ان دونوں میں فرق و امتیاز باقی نا رہے اور صحابہ بھی ان دونوں میں فرق نا کر سکیں۔جب قرآن کا اکثر حصہ نازل ہو گیا اور بہت سے صحابہ نے اسے حفظ کر لیا تواختلاط کا خطرہ باقی نا رہا تو آپ نے حدیث کو قلمبند کرنے کی اجازت دے دی۔آپ نے فرمایا:
"قلم بند کرکے ان کو محفوظ کر لو"
مسلمانوں نے احادیث نبوی کی صحت کو جانچنے کے لیے انتہائی باریک بینی سے کام لیا صحت ماخذ پر بحث کرتے ہوئے شبلی نعمانی لکھتے ہیں:
"سیرت نبویﷺ کے واقعات جو قلمبند کیے گئے وہ نبوت کے سو برس بعد قلمبند کیے گئے اس لئے مصنفین کا ماخذ کوئی کتاب نہ تھی بلکہ اکثر زبانی روایتیں تھیں۔ مسلمانوں نے احادیث نبوی کی صحت جانچنے کے لیے نا تو محض تحریروں پر اکتفاء کیا نا ہی زبانی روایتوں کوبلا تحقیق قبول کر لیا بلکہ اس کے لئے ایک باقاعدہ فن تخلیق کیا جسے اصول فن روایت کہا جاتا ہے۔"
2۔اصول فن روایت:
روایت کی تعریف مولاناشبلی نعمانی نے یوں کی ہے:
"روایت سے مراد یہ ہے کہ جو واقعہ بیان کیا جائے اس شخص کے ذریعے سے بیان کیا جائے جو خوداس واقعے میں موجود تھا۔ اس سے لے کر اخیر راوی تک روایت کا سلسلہ متصل بیان کیا جائے اس کے ساتھ تمام راویوں کی نسبت تحقیق کیا جائے کہ وہ صحیح الروایت اور ضابطہ تھے یا نہیں۔"
3۔ اسماء الرجال:
محدثین نے اپنے معاصرین کے احوال کا پوری طرح کھوج لگایا اور ان کے بارے میں ایک جچی تلی رائے قائم کی۔ اس طرح جو لوگ ان کے معاصر و ہم زماں نہیں تھے ان سے متعلق باوثوق ذرائع سے معلومات فراہم کیں اور اس بات میں کسی قسم کی ملامت کی پرواہ کیے بغیر اپنے مشن کو جاری رکھا۔ مسلمانوں کی ان تحقیقات کی بدولت اسماء الرجال کا ایک عظیم الشان فن تیار ہوگیا اس فن کی عظمت کا اعتراف ڈاکٹر اسپرنگر نے بھی کیا ہے جسے مولانا شبلی نعمانی نے یوں نقل کیاہے:
" نا کوئی قوم دنیا میں ایسی گزری نا آج موجود ہے جس نے مسلمانوں کی طرح اسماء الرجال کا عظیم الشان فن ایجاد کیا ہوا اس کی بدولت آج پانچ لاکھ اشخاص کا حال معلوم ہوسکتا ہے۔"
4۔اصول درایت:
درایت کے لغوی معنی معرفت کے ہیں جبکہ اصطلاحی تعریف کے مطابق" درایت حدیث وہ علم ہے جس میں الفاظ حدیث سے سمجھے گئے مفہوم ومراد سے بحث ہوتی ہے جبکہ وہ عربی قواعد اور شرعی ضوابط پر مبنی اور رسول اللہ ﷺکے اقوال کے مطابق ہوں"۔ اس تعریف سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ درایت کے معنی عقلی حثیت سے روایتوں کو پرکھنا ہے۔
درایت کی ابتدا اس وقت ہوئی جب منافقین نے حضرت عائشہ پر تہمت لگائی تو بعض صحابہ تک مغالطے میں آگئے۔چنانچہ آپ کی برات و طہارت کے بارے میں جو آیات نازل ہوئیں ان میں ایک سورۃالنور کی آیت نمبر 2 ہے اس میں اللہ فرماتے ہیں:
"اور جب تم نے سنا تو یہ کیوں نہ کہہ دیا کہ ہم کوایسی بات بولنا مناسب نہیں۔ سبحان اللہ یہ بہت بڑا بہتان ہے۔"
ابتدا میں خبر کی تحقیق کے لیے راوی کے ثقہ اور صحیح الروایت ہونے پر انحصار کیا جاتا تھا۔نزول آیت سے اصول درایت پر عمل کرنے کا حکم ہوا چنانچہ اس طرز تحقیق یعنی درایت کی ابتدا صحابہ کے عہد سے ہوگئی۔ درایت کے اصول سے یہ بات واضح ہوگئی کہ روایت اگر درایت کے خلاف ہو تو اسے خلاف حقیقت قرار دیا جائے۔
محدثین نے اصول فن روایت اور درایت کو معیار بنا کر بہت سی احادیث کے ضعیف ہونے کا کھوج لگایا اگر محدثین اس عرق ریزی سے کام نا لیتے تو آج امت مسلمہ بہت سے ابہام کا شکار ہوتی۔صحت حدیث کے بارے میں باوجود دوسرے معیار قائم کرنے کے آج بھی سب سے بڑا معیار قرآن کریم ہے کیونکہ قرآن کریم وعدہ خداوندی کے مطابق پوری حفاظت کے ساتھ ہم تک پہنچا ہے۔اسی کسوٹی پر احادیث مبارکہ کی صحت جانچی جاتی ہے جو حدیث اس معیار پر پورا اترے گی وہ صحیح اور دوسری غلط۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...