Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > مباحث > مواد کی اہمیت، مواد کی اقسام، مواد کی فراہمی کے ذرائع

مباحث |
حسنِ ادب
مباحث

مواد کی اہمیت، مواد کی اقسام، مواد کی فراہمی کے ذرائع
ARI Id

1689956600868_56117419

Access

Open/Free Access

Pages

۲۶

موضوع3:مواد کی اہمیت، مواد کی اقسام، مواد کی فراہمی کے ذرائع
مواد کیا ہے؟
مواد عربی لفظ "مادہ" کی جمع ہے۔ اس کے معنی رسالہ، سامان اوراسبا ب کے ہیں۔علمی اصطلاح میں مواد سے مراد وہ اسباب ہیں جو محقق تحقیق کے دوران استعمال میں لاتا ہے۔مواد کا متبادل لفظ موازنہ ہے یہ بھی عربی کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی ضروری چیزیں یا سامان ،میٹریل کے ہیں۔Contentاور ڈیٹا کے انگریزی الفاظ بھی مواد کے متبادل کے طورپر مستعمل ہیں۔لفظ میٹیریل بالعموم مادی اشیاء کے لیے ڈیٹا، اعداد و شمار ، Contentاور نفس مضمون کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
مواد کی اہمیت:
تحقیق کسی بھی شعبے میں ہو مواد کے بغیر ممکن ہی نہیں بلکہ کئی ایک ماہرین کا مانناہے کہ تحقیق کی گاڑی مواد کے ایندھن کے بغیر چل ہی نہیں سکتی اور مواد ہی محقق کے غور و فکر کی بنیاد ہوتا ہے۔ پروفیسر عبدالستار دلوی کے مطابق:
’’خالص مواد کی شکل خام مال کی طرح ہوتی ہے۔ اسی خام ما ل سے تجزیہ ، درجہ بندی اور تحقیق کے ذریعہ نتائج اور عام اصول وضع کیے جاتے ہیں۔‘‘
مواد کی فراہمی تحقیق میں کافی اہمیت کی حامل ہے۔ اس کا سارا بار ایک ریسرچ اسکالر کو خود ہی اٹھانا پڑتا ہے۔ خلیق انجم نے اپنے ایک مضمون ’ادبی تحقیق اور حقائق‘ میں لکھا ہے:
"ایک محقق کو سب سے پہلے یہ معلوم کرنا ہوگا کہ موضوع سے متعلق کیا مواد ہے؟ کہاں ہے؟ اور کیسے فراہم کیا جاسکتا ہے؟"
مواد کی فراہمی کے سلسلے میں محقق کو شہد کی مکھی سے تعبیر کیا گیا ہے کہ جس طرح شہد کی مکھیاں مختلف پھولوں کارس چوس کر شہد بناتی ہیں ،اسی طرح ایک محقق کو بھی مختلف ماخذوں کو حاصل کر کے اپنی تحقیق کو بہترین بنانا پڑے گا تب جاکر وہ تحقیق کا حق ادا کر پائے گا۔مواد کی فراہمی میں ایک محقق کو بڑے غور و فکر سے کام کرنا پڑتا ہے۔ اسے بنیادی مواد تک رسائی حاصل کرنا ضروری ہوتاہے۔ اکثر ریسرچ اسکالر ثانوی مآخذ سے مدد لے کر اپنی تحقیق کو مکمل کر لیتے ہیں، جس کی وجہ سے آگے چل کر انھیں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ بنیادی ماخذوں کی غیر موجودگی میں اس کی تحقیق ناقص ہی رہتی ہے۔ ایسی صورت میں حاصل شدہ نتائج کی صحت پر شکوک و شبہات کی انگلی اٹھ سکتی ہے۔
تحقیق چونکہ کافی دشوار گزار کام ہے اس لیے اس میں دلچسپی، دل جمعی ، لگن ومحنت کے ساتھ ساتھ خاطر خواہ وقت بھی چاہیے۔ ان تمام مراحل سے ہم تبھی نبرد آزما ہو سکتے ہیں جب ان کے لیے پہلے سے ہی ذہنی طور پر تیار ہوں۔ بعض ریسرچ اسکالر ابتدائی تین چار برس مواد اکٹھا کرنے میں ہی گز ار دیتے ہیں، ایسے میں آخری برسوں میں انھیں کافی دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے ریسرچ اسکالر کو چاہیے کہ جتنی جلد ہو سکے مواد کو اکٹھا کرکے، اس کی چھان پھٹک کا کام شروع کر دے۔جو لوگ واقعی تحقیق سے دلچسپی رکھتے ہیں، وہ کبھی کبھی اپناکھانا پینا بھی بھول جاتے ہیں۔اس ضمن میں گیان چند جین نے قاضی عبدالودود کے حوالے سے بڑے پتے کی بات کہی ہے۔ لکھتے ہیں:
’’تحقیق صرف وہی کر سکتا ہے جسے سوائے کھانے پینے او ر تحقیق کرنے کے دوسرا کام نہ ہو۔‘‘
مواد کی اقسام :
ادبی مواد متعدد قسم کا ہوتا ہے۔دومختلف بنیادوں پر مواد کی دو قسمیں کی جاتی ہیں۔
• اولین اور ثانوی • داخلی اور خارجی
اولین اور ثانوی مواد:
ان اقسام کا اطلاق زیادہ تر تحقیق کے سلسلے میں ہوتا ہے اولین مواد زیر تحقیق ادیب کی جملہ تخلیقات اور دوسری تحریروںمثلا مسودوں ، ڈائری، خطوط وغیرہ پر مشتمل ہوتا ہے۔ ان کے علاوہ تاریخی دستاویزات، قانونی دستاویزات، طبی ریکارڈ، تعلیمی ریکارڈ، ملازمت کا ریکارڈ، ٹیپ ریکارڈ وغیرہ بھی اولین ماخذ ہیں۔بقیہ مواد ثانوی ہے۔ داخلی اور خارجی مواد یا شہادت کا تعلق کسی متن سے ہوتا ہے۔
داخلی اور خارجی مواد:
داخلی مواد کسی مصنف کی نگارشات کے مشمولات ہیں بقیہ سب خارجی مواد ہے۔ اس طرح اقبال کا میونسپل رجسٹرڈ کا اندراج، تعلیمی ریکارڈ وغیرہ اولین ریکارڈ ہوتے ہوئے بھی خارجی مواد ہیں، داخلی نہیں۔ماخذی مواد کو ذیل کی قسموں میں بانٹا جا سکتا ہے:
کتابیں:
کتابوںکی دو قسمیں ہیں:الف۔مطبوعہ۔ب۔ قلمی یا خطی۔ ان میں ادبی مخطوطات کے علاوہ مسودے ، ڈائریاں، میونسپل رجسٹر، اسکول رجسٹر وغیرہ بھی شامل ہیں۔
جریدے:
ان میں رسالوں کے علاوہ اخبار بھی شامل ہیں۔
دوسرے کاغذات:
ان میں منجملہ دوسری چیزوں کے ذیل کے کاغذات قابل ذکر ہیں۔کسی مصنف کے منتشر کاغذات ، خطوط، تاریخی دستاویزیں، قانونی دستاویزیں
بصری مواد :
یعنی فلم، ٹیلی ویڑن وغیرہ۔ مثلا دستاویزی فلمیں
مائیکرو فلم:
مائیکرو فلم جس کے مواد کو مائیکرو گرافکس کہا جاتا ہے۔
سمعی مواد:
ریکارڈ یعنی کیسیٹ ریڈیو کے ادبی پروگرام یعنی تقریریں ، مباحثے وغیرہ
لوحیں:
قبروں کے تعویز، دیواروں پر لوحیں، مقبروں کے گنبد، دروازوں پر نقوش
انٹرویو:
مراسلت کے ذریعے استفسار۔سوال نامے
مواد کی فراہمی کے ذرائع
فن تحقیق کے ماہرین نے درج ذیل وسائل و ذرائع کی نشاندہی کی ہے جہاں سے مواد تحقیق حاصل کیا جا سکتا ہے۔
لائبریریاں:
ادبی تحقیق کے لیے مواد کی فراہمی کا سب سے بہترین ذریعہ لائبریریاں ہیں۔ لائبریریوں میں نہ صرف ادبی کتابیں موجود ہوتی ہیں بلکہ دنیا میں رائج الوقت علوم و فنون سے متعلق کتابیں بھی ہر وقت دستیاب رہتی ہیں جن سے ضرورت پڑنے پرنہ صرف محققین بلکہ عام قارئین بھی استفادہ کرسکتے ہیں۔ محقق کو چونکہ اپنے موضوع سے متعلق مواد لائبریریوں سے ہی فراہم ہوتا ہے، اس لیے وہ زیادہ تر کتب خانوں سے ہی استفادہ کر تے ہیں۔پروفیسرعبدالستار دلوی نے اپنی کتاب ’ادبی تحقیق‘ میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ تحقیقی عمل کی کامیابی اور تکمیل کا انحصار لائبریری کے مواد کی وسعت اور اس کی ہمہ گیری پر ہوتا ہے۔لائبریری کو کتب خانہ بھی کہتے ہیں۔یہ کتب خانے سات اقسام کے ہوتے ہیں۔
1۔یونیورسٹیوں کے کتب خانے:
ان لائبریریوں میں علم و ادب کا گراں قدر ذخیرہ موجود ہوتا ہے۔ مثلا پنجاب یونیورسٹی میں قدیم مخطوطات ، نادر کتب ، رسائل اور اخبارات کا ذخیرہ موجود ہے۔ہر یونیورسٹی میں کتب خانہ موجودہوتا ہے۔
2۔ اداروں کے کتب خانے:
انجمن ترقی اردو کراچی میں اردو ادب کی قدیم دستاویزات موجود ہیں۔ ترقی اردو بورڈ گوٹھ کراچی میں لغت پر قابل قدر مواد موجود ہے۔
3۔عوامی کتب خانے/پبلک لائبریریاں:
مثلا پنجاب پبلک لائبریری لاہور،دیال سنگھ لائبریری لاہور اور لانگے خان پبلک لائبریری ملتان
4۔ ذاتی کتب خانے:
علم و ادب اور تحقیق سے متعلقہ افراد کے پاس کتب کے اچھے ذخیرے موجود ہیں مثلا پروفیسرصابر حسین کلوری کے کتب خانے میں 27000 کتب موجود ہیں۔
5۔ ورثاء کی تحویل میں ذخیرہ کتب:
لاہور کے ورثا کے پاس ا ن کا ذخیرہ کتب موجود ہے۔
لائبریریوںمیں دستیاب مواد کی اقسام:
لائبریریوں کے ذریعے بالعموم درج ذیل اقسام کا مواد دستیاب ہو سکتا ہے:
• دستاویزات، اصل قلمی نقول، دستی تحریروں کی نقول
• موضوع سے متعلق فاضلانہ مطالعہ
• ایسی کتابیں یا مضامین جن میں موضوع سے متعلق اقوال یا نقطہ ہائے نظر پیش کیے گیے ہوں۔
• دیگر قسم کا ملا جلا مواد
• یونیورسٹیوں میں تحقیقی اسناد کے لیے پیش کیے جانے تحقیقی مقالات کی مصدقہ نقول
• حوالے کی کتابیں، کی متعلقہ کتب، تحقیقی مقالات کے مختصر جائزے اور فہرست کتب
• نایاب کتابوں کی فوٹو اسٹیٹ نقول
حلقہ عمل:
جس طرح محقق اپنا ضروری مواد لائبریری کے ذریعہ حاصل کرتا ہے، اسی طرح بعض تحقیقی مسائل کو حل کرنے کے لیے اسے اپنے حلقہ عمل سے بھی مواد فراہم کرنا پڑتا ہے۔محقق اپنی صلاحیت، سہولت اور ضرورت کے مطابق مواد کی فراہمی کے لیے ایک مخصوص حلقے کا انتخاب کر لیتا ہے۔
تحقیقی رسائل وجرائد:
ادبی تحقیق کے لیے کتابوں کے علاوہ رسائل و جرائد بھی کافی اہمیت رکھتے ہیں بلکہ کئی حضرات کا یہاںتک ماننا ہے کہ رسائل کی اہمیت کتابوں کے مقابلے میں زیادہ ہے کہ ان میں جدید معلومات ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر گیان چند جین رسائل کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’تحقیق میں لکھنے سے کہیں زیادہ وقت مواد کی فراہمی میں صرف ہوتا ہے۔ اپنے موضوع سے متعلق نہ صرف تمام اردو کتابوں کو چھان مارنے کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ رسالوںمیں بھی اپنے کام کے مقالے کھوجنے چاہئیں۔ کیوں کہ ان میں بسا اوقات وہ بیش بہا نکتے مل جاتے ہیں جو ہنوز کتابی صورت میں نہیں آئے۔‘‘ (تحریریں، ڈاکٹر گیان چند جین، ص 13)
تحقیقی رسائل میں ماضی اور حال کے تحقیقی کاموں کی تفصیل پیش کی جاتی ہے اور فاضل علما کے مضامین بھی شائع ہوتے ہیں۔ان میں تحقیقی موضوعات سے متعلق مواد کے بارے میں معلومات بھی پیش کی جاتی ہیں۔
اخبار:
رسالوں کی طرح، گو ان سے کم ، بعض اوقات اخبار بھی تحقیق کا معتبر ماخذ ثابت ہوتے ہیں۔
عوام:
حصول مواد کے ذرائع میں سے ایک ذریعہ عوام ہے۔ بعض اوقات ، واقعات اور روایات کی تصدیق صرف عوام کے ذریعہ ہوتی ہے، عوامی ذرائع میں عام طور پر سوال نامے، انٹرویوز اور سروے شامل ہیں۔ ان ذریعوں سے بہت سی معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔
انٹرویو:
مواد کی فراہمی میں انٹرویوز کی بھی خاصی اہمیت ہے۔ ایک نئے ریسر چ اسکالر کے لیے جب وہ کسی دور پر کام کر رہا ہو تو اسے متعلق مواد حاصل کرنے کے لیے ادیبوں، ناقدوں اور دانشوروں سے انٹرویوز کے ذریعے متعلقہ مواد سے متعلق اہم معلومات اکھٹا کرنا بھی ضروری ہوتا ہے لیکن اکثراوقات ایسا ہوتا ہے کہ یو نیورسٹیوں کے اساتذہ بھی جو اس میدان میں ماہر ہوتے ہیں ، جس پر کام ہو رہا ہوتا ہے ،جب طلبہ ان سے انٹرویو کا وقت چاہتے ہیں تو وہ مصروفیات کا بہانہ بنا کر ٹال دیتے ہیںیا پھر وقت دیتے بھی ہیں تو خوش دلی کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ حد تو یہ ہے کہ جتنی معلومات ان کے پاس ہوتی ہیں، انھیں بھی وہ بڑی کنجوسی سے پیش کرتے ہیں۔ اس طرح بھی بعض اوقات محققین کو دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...