Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > مباحث > موضوع کا انتخا ب اور خاکہ

مباحث |
حسنِ ادب
مباحث

موضوع کا انتخا ب اور خاکہ
ARI Id

1689956600868_56117420

Access

Open/Free Access

Pages

۳۲

موضوع4:موضوع کا انتخاب اور خاکہ
خاکہ کا مفہوم:
خاکہ اردو زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب’ بنیادی نقشہ‘ یا ’تصوراتی ڈھانچہ‘ ہے۔ انگریزی زبان میں اس کے لیے لفظ Synopsis استعمال کیا جاتا ہے جو کہ دو الفاظ ’Syn ‘ اور ’Opsis ‘سے مرکب ہے۔’Syn‘ کامطلب ’ایک ساتھ‘ ، ’یکجا‘ اور ’Opsis ‘کا مطلب ’دیکھنا‘ہے۔یعنی کسی چیز کو ایک ہی جگہ مجموعی طور پر دیکھنا۔اس کے لیے لفظ’’ Out Line‘‘بھی استعمال کیا جاتا ہے۔عربی زبان میں اس کے لیے ’خط‘ یا’ خط البحث‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔جو کہ خط،یخط سے ہے یعنی لکیریں کھینچنا،لکھنا وغیرہ۔
خاکہ، دراصل کسی عمارت، منصوبے،کتاب یا مقالے کا ابتدائی تصوراتی ہیولا یا نقشہ ہے جس پر ساری عمارت تعمیر کی جاتی ہے یا تحقیق و تفتیش کی جاتی ہے۔اے۔جے۔راتھ نے خاکے کامفہوم اس طرح سے بیان کیا ہے:
’’خاکہ سادہ طریقے سے لکھنے کی منصوبہ بندی، مختلف تصورات کی تقسیم اور ترتیب کا نام ہے۔ اوراس کاخصوصی مقصدمختلف تصورات کے مابین، باہمی رشتے اور تعلق کو ظاہر کرنا ہے۔‘‘
تحقیق میں خاکہ کی اہمیت:
تحقیق کے عمل میں خاکہ بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔یہ اساس تحقیق بھی ہے اور محقق کے لیے امکانی منزل کا درجہ بھی رکھتا ہے۔یہ کوئی بند ساخت نہیں ہے کہ جس سے ذرا برابر انحراف جائز نہ ہو، بلکہ یہ ایک نموپذیر اکائی کی حیثیت رکھتا ہے جس میں مقاصد تحقیق کے مطابق جب نئی چیزیں سامنے آتی ہیں تو اس میں رد و بدل کیا جا سکتاہے۔ رشید حسن خان لکھتے ہیں:
’’تحقیق ایک مسلسل عمل ہے۔ نئے واقعات کا علم ہوتا رہے گا، کیونکہ ذرائع معلومات میں اضافہ ہوتارہتا ہے۔یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کون سی حقیقت کتنے پردوں میں چھپی ہوئی ہے۔ اکثر صورتوں میںیہ ہوتا ہے کہ حجابات بالتدریج اٹھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تحقیق میں اصلیت کا تعین اس وقت تک حاصل شدہ معلومات پر مبنی ہوتا ہے۔ یہ واضح ہونا چاہیے کہ اس سے نئی معلومات کے امکانات کی نفی نہیں ہو سکتی۔‘‘
موضوع کا انتحاب:
محقق کے لیے سب سے پہلا اور سب سے اہم کا م موضوع کا انتخاب ہے۔موضوع کے انتخاب میں محقق کو درج ذیل امور کا خاص خیال رکھنا چاہیے:
۱۔ موضوع اچھوتا ہو۔افکار میں ندرت ہو اوروہ کسی طرح بھی معاشرے اور علوم و فنون کے شائقین کے لیے مفیدہو۔
۲۔ دور حاضر کے تقاضوں اور ضروریات سے متعلق ہو۔
۳۔ اس موضوع پر تحقیق کی واقعی ضرورت ہو اور اس نہج پر کسی نے اس پر کام نہ کیاہو۔
۴۔ موضوع محقق کو دیے گئے مقرر شدہ وقت میں پایہ تکمیل کو پہنچ جائے۔
۵۔اس کے لیے درکار مواد باآسانی دستیاب ہو اور محقق کی دسترس میں ہوتاکہ اسے دوسروں کا محتاج نہ ہونا پڑے۔
۶۔ موضوع سے متعلقہ ماہرین فن سے مشاورت اور استفادہ سہولت سے ممکن ہو۔
۷۔ محقق کا طبعی رجحان اس موضوع سے مطابقت رکھتا ہو، تاکہ تحقیق کے پورے عمل میں،شروع سے آخر تک ، اس کی دل چسپی قائم رہے۔اور وہ کسی مرحلے میں اکتاہت یا انضباط کا شکار نہ ہو۔
۸۔ موضوع نہ تو اتنا زیادہ وسیع ہو کہ اس پرتحقیق کرتے کرتے سالوں بیت جائیں اور محقق کے لیے اسے سمیٹنا مشکل ہو جائے، اور نہ اتنا مختصر ہو کہ چند صفحات میں سمٹ جائے۔
۹۔ڈگری کے حصول کے لیے جس موضوع کا انتخاب کیا جائے وہ مناظرانہ اور مروجہ افکار و نظریات سے بہت زیادہ متصادم نہ ہو۔
۰۱۔محقق کو موضوع کے انتخاب سے پہلے اپنی مالی حیثیت اور وسائل کا بھی اندازہ کر لینا چاہیے کہ کیا وہ اس سارے عمل میں استعمال ہونے والی رقم کا انتظام کر سکتا ہے۔
خاکہ کے لوازمات
۱۔ تحقیق کا طریق کار:
خاکے میں تحقیق کے طریق کا ر کا ذکر بھی کرنا چاہیے۔ محقق کو اپنے ذہن میں اس سارے طریق کا ر کو محفوظ رکھنے کے ساتھ ساتھ خاکے میں بھی اس کو بیان کرنا چاہیے کہ وہ کون کون سے موضوعات پر کس ترتیب سے تحقیق کرے گا: اس سے خود محقق کوبھی اندازہ ہو جائے گاکہ وہ اپنے تحقیقی عمل سے کس طرح اور کن طریقوں سے عہدہ برا ہو سکے گا۔عام طور پر مواد یا معلومات جمع کرنے کے تین طریقے استعمال کیے جاتے ہیں:
• سوال ناموں کے ذریعے
• افراد کے مشاہدات کے ذریعے
• ماضی میں جمع کیے گئے مواد کے مطالعے کے ذریعے
اس سلسلے میں محقق کو طریق کا ر سے متعلق ضروری تعلیم و تربیت حا صل کر لینی چاہیے۔اسی طرح ریسرچ میں استعمال ہونے والی اور معاون چیزوں، مثلا کیمرہ، ریکارڈنگ کے آلات، کمپیوٹر،وغیرہ کوچلانے میں مہارت حاصل کرنی چاہیے۔
۲۔ تحقیق کے امکانی دائرے کا تعین:
محقق کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی تحقیق کے امکانی دائرے کا تعین قبل از وقت کر لے تاکہ کسی مرحلے پر بھی تحقیق کا عمل اس کی گرفت سے نہ نکلے۔ اس چیز کو ریسرچ ڈیزائن بھی کہا جاتا ہے۔ محقق کو اپنے خیالات اور تصورات کے مطابق ایک راہ عمل بنا لینی چائیے جس کے مطابق وہ اپنی تحقیقی کا عمل آگے بڑھائے گا۔ ممکن ہے اس کا ذہن بہت طاقت ور ہو اور اس میں بے شمار تصورات موجود ہوں، لیکن ان سب باتوں کو یاد رکھنا اس کے لیے مشکل ہوگا۔ اس لیے اسے مختلف علامتوں اور نشانات کے ذریعے اپنی تحقیق کے پورے نقشے کو ہر وقت ذہن میں رکھنا چاہیے۔تحقیق کے سارے عمل میں یہ علامتیں محقق کے کام آئیں گی اور اس کی راہیں آسان ہو جائیں گی۔
۳۔نظام الاوقات کا تعین:
خاکہ بنانے وقت تمام تحقیقی اور تکنیکی مراحل کے دورانیہ کا اندازہ کر لینا چاہیے۔۔سندی تحقیق یاڈگری کے حصول کے لیے کی جانے والی تحقیق کے لیے اوقات کا تعین ازحد ضروری ہے، کیونکہ جامعات میں اس مقصد کے لیے ایک متعین وقت دیا جاتا ہے، اس لیے یہ بات محقق کے پیش نظر رہنی چاہیے کہ اسے مقررہ اوقات کے اندر ہی اس مقالے کو جمع کرانا ہے۔ورنہ دوسری صورت میں اس کی یہ ساری تحقیق محض تضیع اوقا ت ہو گی۔اسی طرح غیر سندی تحقیق کے لیے بھی اوقات کا خیال رکھنا ضروری ہے کیونکہ بعض دفعہ انسان ناگہانی حالات کا شکار ہو جاتا ہے، اور کچھ معاملات اس کی توقعات کے خلاف پیش آ جاتے ہیں ۔
۴۔عمدہ خاکہ کے اوصاف
۱۔ابتدائیہ:
ابتدائیہ جیسے کہ نام سے ظاہر ہے، کسی مقالے کا دیباچہ ، مقدمہ یا پیش لفظ ہوتا ہے۔ اگر چہ یہ ترتیب کے لحاظ سے مقالے کے آغاز میں ہوتا ہے، لیکن تحریر کے لحاظ سے مقالے کے آخر میں تحریر کرنا چاہیے۔چونکہ دوران تحقیق بہت سی نئی باتیں اور مسائل سامنے آتے ہیں اس لیے ابتدائیہ میں اس حصے میں محقق کودرج ذیل چیزوں کا خیال رکھنا چاہیے:
• ابتدائیہ بہت ہی جاندار اور جامع ہونا چاہیے، تاکہ قاری پر پہلا تاثر عمدہ طریقے سے پڑے اور وہ مزید مطالعے کے لیے مجبور ہوجائے۔اس کا اسلوب سادہ ، عام فہم اور دلچسپ ہو۔
• موضوع کا تعارف اور اس کے بارے میں مکمل معلومات فراہم کی جائیں۔
• موضوع اختیار کرنے کی وجوہات کا ذکر کیا جائے۔
• موضوع سے متعلق سابقہ تحقیقات کا جائزہ پیش کیا جائے۔
• سابقہ تحقیقات کی تشنگی، اور مزید تحقیق کی ضرورت واضح کی جائے۔
۲۔حسن ترتیب:
خاکہ مختلف تصورات کی تقسیم اور ترتیب کا نام ہے۔ اس میں تمام ابواب کا شروع سے آخر تک ربط وتسلسل ہونا چاہیے۔
۳۔ ابواب کی تقسیم:
موضوع سے متعلق تمام ابتدائی معلومات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ، ترتیب کے ساتھ ابواب بندی کی جائے۔ مقالے کے تمام عنوانات کی خصوصیات اس کے عنوانات میں بھی ہونی چاہییں، کیونکہ عنوان پورے باب کا علامتی نمائندہ ہوتا ہے۔ تمام ابواب ایک تسلسل کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح مربوط ہوں کہ پوری تحریر یکجا محسوس ہو۔کسی باب کا نام اس میں موجود مواد کی مناسبت سے مقرر کرنا چاہیے، تاکہ باب کا نام پڑھتے ہی اس کے تمام مشمولات کا تصور قاری کے ذہن میں اجاگر ہو جائے۔
۴۔ذیلی ابواب:
خاکہ بنانے وقت موضوع سے متعلق مواد کو جب ابواب میں تقسیم کر کے ترتیب دیا جائے تو موضوع کی مناسبت سے تمام ابواب کے ذیلی حصے یا ذیلی ابواب بنا لیے جائیں تاکہ بعد میں دوران تحقیق اگر کو ئی اضافہ کرنا پڑے تو وہ آسانی سے ممکن ہو۔
۵۔ماحصل:
خلاصہِ بحث، مقالے کا آخری حصہ اور سارے مقالے اور تحقیق کا جو ہر ہے۔اس کو نہایت احتیاط سے لکھنا چاہیے۔ اس میں محقق نے اپنی ساری تحقیق کا جائزہ پیش کرنا ہوتاہے۔ اپنا دعویٰ، اس کا ثبوت اور اس کی تائیدمیں دلائل مختصر اور جامع طریقے سے بیان کرنا چاہیئے۔ اس جائزے کے نتیجے ہی میں تحقیقی عمل کے نتائج کا تعین کیا جاسکتاہے۔
۶۔ضمیمہ جات:
مقالے میں ضمیمہ جات کا شامل کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ اگر دوران تحقیق کچھ نئی چیزیں سامنے آتی ہیں جن کا تعلق خاکے میں بیان کردہ، دعویٰ جات اور پیش کردہ دلائل سے تو نہیں ہوتا لیکن محقق ان کو سامنے لانا ضروری سمجھتا ہے تو ایسی چیزیں ضمیمہ میں بیان کی جا سکتی ہیں۔
۷۔مصادر و مراجع:
مصادر و مراجع یا کتابیات مقالے کا بہت اہم حصہ ہوتا ہے۔ان سے ایک طرف تونو آموز محقق کے لیے تحقیق کی راہیں آسان ہوتی ہیں اور دوسری طرف وہ اپنی آرا کی تائید میں علوم و فنون کے ماہرین کی آرا سے اقتباس پیش کر کے اپنی تحقیق کی اہمیت کو بڑھا سکتا ہے۔ خاکے کی تیاری کے دوران محقق کوموضوع سے متعلق ممکنہ دستیاب کتب، مقالات، اخبارات،رسائل، لغات، انسائیکلو پیڈیاز، ریکارڈز،مخطوطات،یادداشتوں اور خطوط وغیرہ کی ایک عارضی فہرست تیار کر لینی چاہیے۔ چونکہ خاکہ ایک بیج کی حیثیت رکھتاہے جس سے پودا وجود میں آتا ہے۔پھر اس میں سے مزید شاخیں اور پھل پھول پیدا ہوتے ہیں۔ اسی طرح جب محقق مجوزہ کتب کامطالعہ کرے گا تو اس دوران نئے ماٰخذات و مصادر بھی سامنے آئیں گے جن کو وہ بعد میں اپنی فہرست میں شامل کرے گا۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...