Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > مباحث > ماخذ کا مفہوم ،اہمیت اور اقسام

مباحث |
حسنِ ادب
مباحث

ماخذ کا مفہوم ،اہمیت اور اقسام
ARI Id

1689956600868_56117421

Access

Open/Free Access

Pages

۳۷

موضوع5:ماخذ کا مفہوم، اہمیت اور اقسام
ماخذ:
ماخذ سے مراد وہ معاون کتاب ، سند، تقریر،تحریر، گفتگو جو مقالے کے لیے مواد یا معلومات فراہم کرے اور سند و ثبوت کا کام دے اور جس کی وجہ سے تحقیق مستند اور معیاری سمجھی جا سکے۔تحقیق کا بنیادی کام سچائی کی تلاش اور اس کی تصدیق ہے۔ زندگی کی سچائیاں بہت سے لوگوں پر عیاں ہوتی ہیں لیکن علم و ادب کے سارے حقائق تک رسائی کم ہی لوگوں کو ہوتی ہے۔محقق کا پہلا فرض ہے کہ وہ ان حقائق کو تلاش کرکے دوسروں پر ظاہر کرے۔ ادبی تحقیق کا زیادہ تر انحصار کتابوں پر ہوتا ہے اس لئے ادبی تحقیق میں دوسرا قدم ان تمام کتابوں یا تحریری مواد کی تلاش ہے جو موضوع تحقیق سے متعلق ہو ں۔
ماخذ کا اطلاق ان ذرائع پر ہوتا ہے جن سے کسی بھی زیرتحقیق موضوع کی تکمیل کیلئے مواد اخذ کیا جاتا ہے۔ ماخذ کو مصادر یا منابع یا مراجع بھی کہتے ہیں۔محققین نے ماخذ کے مفہوم کو یوں بیان کیا ہے :
"ماخذ میں وہ کتابیں رسالے اور تحریریں شامل کی جاتی ہیں جن کا تعلق متن کی اساسیات سے ہوتا ہے، یعنی متن کے مختلف مخطوطے یا مطبوعہ نسخے جو اس کی تیاری، صحت اور تکمیل میں اساسی اہمیت رکھتے ہیں۔مصادر میں ان ماخذ بھی شامل کیا جاتا ہے جن سے مقدمہ اور حواشی کی ترتیب میں مدد لی گئی ہو۔مراجع میں ایسی کتب کا ذکر آ سکتا ہے جن سے توسیعی اور تفصیلی معلومات کی فراہمی میں مزید مدد مل سکتی ہو۔ سب سے پہلے قلمی ماخذ پھر قدیم مطبوعات اور آخر میں بیاضوں اور رسائل وغیر ہ کا تذکرہ ہوتا ہے۔ان سب کی فہرستیں علیحدہ علیحدہ تیار کی جاتی ہیں۔"
ماخذ کی اہمیت:
ماخذ خواہ بنیادی ہو یا ثانوی ان کی اہمیت مندرجہ ذیل نکات کی حامل ہوتی ہے:
• ماخذ کے بغیر نئے حقائق کو منظر عام پہ نہیں لایا جا سکتا۔
• ماخذ کے بغیر مستنداور معروضی نوعیت کی حامل تحقیق ممکن نہیں۔
• ماخذ کے بغیر فہرست کتب، تصحیح و تدوین متن، حواشی و تعلیقات ، اقتباس اور حوالے کا اندراج جیسے تحقیقی اقدام اٹھانا ممکن نہیں۔
• ماخذ کے بغیر تحقیق میں شامل جعل سازی یا سرقہ کی نشاندہی کرنا ممکن نہیں۔
• ماخذ کے بغیر قدیم معلومات اور روایات کی دریافت ممکن نہیں۔
• ماخذ کے بغیر کسی دو شخصیات ، نظریات ، گروہ یا اداروں کے مابین تقابلی جائزے اور کسی شخصیت کی کیس سٹڈی جیسے طریقہ کار میں بیانیہ تحقیق کا کام ممکن نہیں۔
• ماخذ کے بغیر کسی قسم کی تحقیقی صلاحیتوں اور کارناموں پر روشنی نہیں ڈالی جا سکتی۔
ماخذ کی اقسام:
یہ تحریری مواد درج ذیل اقسام کا ہو سکتا ہے:
• انسائیکلو پیڈیا • لغات
• تذکرے • سوانح عمریاں
• نایاب کتب کی فہرست • مخطوطات
• فہرست غیر مطبوعات • فہرست مطبوعات
• کتابیات • رودادیں اور پمفلٹ
• ادبی جرائد • اخبارات
• انٹرنیٹ • انٹرویوز
• نمونوں کی اقسام • کیس اسٹڈی
• مشاہدات
اس میں سے کس قسم کے مواد پر پہلے توجہ دی جائے اس کو اپنے موضوع کی نوعیت سے خود کرنا ہے۔
1۔انسائیکلوپیڈیا:
ہر قسم کی تحقیق میں بنیادی مواد بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ بنیادی مواد کی تلاش میں آسانی کے لیے ضروری ہے کہ محقق سب سے پہلے انسائیکلوپیڈیا پر نگاہ ڈالے۔ اس سے محقق کو نہ صرف حوالوں کی دیگر کتابوں کا پتہ چلتا ہے ہے بلکہ موضوع کو مختلف جزئیات میں تقسیم کرنے میں رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔ انسائیکلوپیڈیا دو قسم کے ہوتے ہیں :
الف۔عمومی انسائیکلوپیڈیا ب۔خصوصی انسائیکلوپیڈیا
الف۔عمومی انسائیکلوپیڈیا:
اس میں علوم و فنون اور زبان و ادب کے ہر موضوع پر معلومات درج ہوتی ہیں۔
ب۔ خصوصی انسائیکلوپیڈیا:
جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ اس میں مخصوص/قومی علوم کی معلومات ہوتی ہیں اور ہر علمی شاخ کے لیے علیحدہ سے انسائیکلوپیڈیا ہوتا ہے۔ مذہبی انسائیکلوپیڈیا یا اسلامی انسائیکلوپیڈیا اور ادویاتی انسائیکلوپیڈیا وغیرہ۔
2۔لغات:
تحقیق کے کام کے لیے لغات بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔ خاص طور پر زبان کے مسائل سے بحث کرنا ہو تو لغات کا مطالعہ بنیادی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔بعض لغات میں تو انسائیکلو پیڈیا کی طرح بہت زیادہ تفصیل موجود ہوتی ہیں۔
3۔ تذکرے:
تحقیقی کام میں سوانحی لغات یا تذکرے بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ خاص کر جو تحقیقی کام کسی شخصیت سے متعلقہ ہو۔ اس سے شخصیت کے تمام پہلو اجاگر ہو جاتے ہیں جن پر خاص طور پر تحقیقی نگاہ ڈالنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور اس طرح کے تحقیقی کام میں سوانحی لغات، محقق کے لئے بے حد مددگار اور معاون ہوتی ہیں۔
4۔سوانح عمریاں:
اردو ادب میں سوانح عمریاں بھی بنیادی اہمیت کی حامل ہیں۔ خاص طور پر جب تحقیق کا موضوع کسی خاص شخصیت اور اس کے دور سے متعلقہ ہو تو سوانح عمریوں کا مطالعہ ضروری ہے۔سوانح عمری سے شخصیت کے معاشی اور معاشرتی حالات کا پتہ چلتا ہے ،جو تحقیقی کام میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔
5۔نایاب کتب کی فہرست:
بہت ساری ادبی کتب ایسی ہیں جو نایاب ہوچکی ہیں اور ان کا ملنا بہت مشکل کام ہے ان کی فہرست حاصل کرنا اور مختلف لائبریریوں سے ان کتابوں کا پتہ لگانا بھی اہمیت کا حامل ہے۔
6۔مخطوطات:
بعض کتب ایسی ہیں جن کا تعلق زمانہ قدیم سے ہے اور یہ ہاتھ سے لکھی گئی ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کتب کی فہرست شائع ہو چکی ہیں۔ ان فہرستوں میں مخطوطات سے متعلق ساری معلومات درج ہیں۔ قدیم ادب کی تحقیق میں مخطوطات کی فہرست کا مطالعہ از حد ضروری ہے اور مواد کی فراہمی میں نہایت اہمیت کا حامل ہے۔
7۔فہرست غیر مطبوعات:
اس میں غیر مطبوعہ کتب اور وہ تمام تحقیقی مقالے شامل ہیں جو کسی وجہ سے کتابی شکل میں شائع نہیں ہوسکے اور متعلقہ لائبریریوں میں موجود ہیں۔تحقیق کے لیے ان مقالات تک رسائی حاصل کر کے درج شدہ حقائق کا مطالعہ ضروری ہے بعض لائبریریوں میں اس طرح کی فہرستیں پہلے سے موجود ہوتی ہیں۔ ان فہرستوں سے مطلوبہ مواد کی کتب تلاش کی جاسکتی ہیں۔
8۔فہرست مطبوعات:
اس میں وہ ساری کتابیں اور مواد شامل ہیں جو شائع ہو چکا ہے۔ لہذا محقق کے لئے ضروری ہے کہ وہ لائبریری میں جاکر کیٹلاگ کا مطالعہ کرے اور اپنے موضوع سے متعلقہ کتابوں کی ایک فہرست تیار کرے۔کسی قسم کی ادبی تحقیق کے لیے محقق کا یہ پہلا قدم ہے۔ یہ فہرست درج ذیل خاکہ کے تحت تیار کی جا سکتی ہے تاکہ دوران تحقیق کتاب کے حصول اور مواد کی تلاش میں آسانی رہے۔یہ فہرست لائبریری میں موجودکارڈوں یا پھر کیٹلاگوں سے بھی بنائی جا سکتی ہے۔
8۔خاکہ کی تیاری:
خاکہ درج ذیل حصوں پر مشتمل ہوتا ہے: • مصنف یا مولف کا نام
• عنوان کتاب، مضمون رسالہ ، اخبار • ناشر
• مقام اشاعت • تاریخ /سن اشاعت
• لائبریری کا نام • کتاب نمبر
• خلاصہ
9۔کتابیات:
اپنے تحقیقی کام کو موثر بنانے کے لیے اور اس کی رفتار کو تیز کرنے کے لیے مختلف لائبریریوں کی کتابیاتی فہارس حاصل کی جا سکتی ہیں۔جن سے اپنے موضوع سے متعلقہ کتابوں کی فہرست بنائی جاسکتی ہے۔خاکہ کی تیاری میں بھی کتابیات کی فہرست دی جاتی ہے لیکن یہاں پر کتابیات سے مراد موضوع سے متعلقہ کتابوں کی کتابیاتی فہرست ہے جو دوران تحقیق محقق کی رہنمائی کرے گی۔ اور یہ کتاب تحقیقی کام کے دوران بڑھتی رہے گی جو ں جوں محقق کا مطالعہ وسیع ہوگا توں توں نئے انکشافات ہوتے رہیں گے۔
10۔رودادیں اور پمفلٹ:
مختلف تنظیموں، اسمبلیوں وغیرہ کے اجلاسوں کی کارروائیوں کی روداد لکھی جاتی ہیں۔تحقیقی کام میں یہ بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں اور اس طرح کے اور بہت سار ے تحقیقی کام کو چھوٹے چھوٹے پمفلٹ کی صورت میں شائع کیا جاتا ہے لہذا تحقیقی کام میں ان کا مطالعہ بھی بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔
11۔ ادبی جرائد:
بعض اوقات ادبی ماہناموں سے بھی تحقیقی اور قیمتی مواد مل جاتا ہے لیکن مختلف ادبی ماہنامہ کی فہرست مضامین سے بھی اپنے موضوع سے متعلقہ مواد حاصل کیا جاسکتا ہے کیونکہ بعض فضلا اور محققین کے مضامین پہلے ماہناموں میں شائع ہوتے ہیں اور بعد میں کتابی صورت میں لہذا ان کتابی صورت میں شائع ہونے والے مضمون کی فہرست مضامین پر بھی ایک نظر ڈال لی ہے اس طرح وہ ناموں کے نام ملنے کی کمی کو پورا کیا جا سکتا ہے۔
12۔اخبارات:
اخبارات میں بہت زیادہ تحقیقی مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں لہذا اخبارات بھی تحقیقی کام میں مواد فراہم کرنے کا اہم ذریعہ ہیں۔ لیکن بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ملک میں اخبارات میں شائع شدہ تحقیقی مضامین کاا نڈکس تیار نہیں کیا گیا۔جس کو پڑھ کر متعلقہ اخبار اور مواد تک رسائی ممکن ہو سکے۔ بہرحال محقق کے لئے ضروری ہے کہ مختلف اخبارات سے اپنے موضوع سے متعلقہ مواد کا کھوج لگائے۔
13۔انٹرنیٹ:
آج کے ترقی یافتہ دور میں جہاں دوسری چیزیں مثلا سفر وغیرہ میں تیزی آئی ہے وہاں پر معلومات میں بھی برق رفتاری آگئی ہے۔ہم گھر بیٹھے پوری دنیا میں ہونے والے اہم واقعات سے باخبر رہتے ہیں اور ان کو اپنی نظروں سے دیکھتے ہیں۔اسی طرح بہت ساری معلومات ایسی ہیں جو ہم انٹرنیٹ سے حاصل کر سکتے ہیں۔ کیونکہ بہت ساری یونیورسٹیوں، ادبی اداروں اور لائبریریوں کے ادبی اور تحقیقی کام کو انٹرنیٹ سے نہ صرف پڑھا جاسکتا ہے بلکہ ڈاؤن لوڈ بھی کیا جاسکتا ہے۔لہذاتحقیقی کام میں مواد کے حصول کے لیے انٹرنیٹ تیز ترین ذرائع ہے۔
14۔انٹر ویو:
یہ بہت نازک طریق کار ہے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ سوال پوچھنے والا علم نفسیات کا ماہر ہو۔ انٹرویو کے ذریعے حاصل ہونے والی معلومات زیادہ درست اور صحیح ہوتی ہیں۔ سوال پوچھنے والا سوالات کے ذریعے بہت سی باتوں کی وضاحت حاصل کر لیتا ہے۔پیچیدہ واقعات کی حقیقت کو جانچنے کے لیے اس سے بہترکوئی ذریعہ نہیں۔انٹرویو سوال نامہ کی نسبت زیادہ مفید ہے۔
15۔نمونوں کی اقسام:
روزمرہ کی زندگی میں سینکڑوں ایسے کام کرتے ہیں جس سے نمونوں کا کام لیا جاتا ہے۔خواتین چاول کے چند دانوں کو چھو کر معلوم کر لیتی ہیں کہ چاول پک گئے ہیں یا نہیں۔یہ چند دانوں کا عمل نمونہ یا Samplingہے۔ادب میں نمونوں سے اسی طرح کام لیا جاسکتا ہے جس طرح سائنس اور سماجی سائنس کی تحقیق میں نمونوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔غزل کے چند اشعار غزل کی جن خصوصیات کو بیان کرتے ہیں وہ ایک طرح سے پوری غزل کی نمائندگی کرتے ہیں۔
16۔کیس سٹڈی:
اس کا مطلب کسی شخص، خاندان، برادری یا قوم کی زندگی سے متعلق ان تمام پوشیدہ اور غیر پوشیدہ خصوصیتوں کی دریافت کی جائے۔یہ شناخت زیادہ تر ان رویوں کے ذریعے ہوتی ہے جو اشخاص کے طرز زندگی، حسن سلوک، عمل اور ردعمل کے ذریعے ظاہر ہوتی ہے۔
17۔مشاہدات:
لوگ ہر وقت ،ہر لمحے، مشاہدہ کی مختلف منزلوں سے گزرتے ہیں۔ لیکن تمام مشاہدات سائنٹفک نہیں ہوتے۔مشاہدہ کرنے والے کا ذہن چار طرح کے سوالوں کے بارے میں بالکل واضع ہونا چاہیے۔
• کس کا مشاہدہ کرنا ہے؟ • مشاہدات کی تحریری نوعیت کیسی ہوگی؟
• مشاہدات کی صحت کی ضمانت کیا ہے؟
• مشاہدہ کرنے والے اور مشاہدہ کے درمیان قربت کیسی ہوگی؟اگر ان میں قربت نہیں ہے تو یہ کیسے قائم کی جائے گی؟

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...