Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > مباحث > حوالہ جات کا طریق کار

مباحث |
حسنِ ادب
مباحث

حوالہ جات کا طریق کار
ARI Id

1689956600868_56117422

Access

Open/Free Access

Pages

۴۳

موضوع6:حوالہ جات کا طریق کار
حوالوں کی ضرورت و اہمیت:
تحقیقی کتابوں اور مقالات میں حوالے بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔حوالوں کے بغیر تحقیقی کام کی تصدیق کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ جس طرح ایک وکیل اپنے دلائل کو تقویت دینے کے لیے قانون کی کتابوں سے حوالے دیتا ہے بالکل اسی طرح ایک محقق اپنے خیالات کو تقویت دینے کے لیے دوسرے ماہرین کی تحریروں کے حوالے دیتا ہے اور ان کا اندراج باقاعدہ طے شدہ اصولوں کے مطابق کرتا ہے۔ حوالوں کی اہمیت کا اندازہ درج ذیل باتوں سے لگایا جا سکتا ہے :
• قارئین کو مقالے کی بہتر تفہیم میں مدد دیتے ہیں۔
• محقق کے مطالعے کی وسعت کا پتہ چلتا ہے۔
• قارئین کوتحقیق میں استعمال کیے گئے ماخذ سے آگاہی ہوتی ہے۔
• ماخذات کے ذرائع اور اقتباسات کے مصنفین کی کاوشوں کو خراج تحسین پیش کرنے میں مدد دیتے ہیں۔
حوالے دینے کے مختلف طریقے:
حوالہ بالحاظ صفحہ:
ہر صفحہ کے متن کے نیچے آخری سطور پر حوالے درج کیے جاتے ہیں۔ایسی صورت میں ہر صفحہ کا حوالہ نمبر 1،2،3سے شروع ہوگا
حوالہ بالحاظ باب:
باب کے آخر میں حوالہ دینا:ایسی صورت میں حوالہ نمبر مسلسل دینے ہوں گے ،گویاجہاں باب ختم ہوگا وہاں حوالے درج کیے جائیں گے۔
حوالہ بالحاظ مقالہ/کتاب:
پورے مقالے یا کتاب کے آخرمیں ابواب کی ترتیب باب نمبر 1،2،3وغیرہ سے حوالے درج کیے جاتے ہیں۔
نوٹ: مشقی کام یا اسائنمنٹ کے لیے حوالہ بالحاظ صفحہ اور مقالہ کیلیے حوالہ بالحاظ باب نمبر کو زیادہ موزوں خیال کیا جاتا ہے۔
حوالے کے اندراج کے اصول:
• حوالہ میں صرف طے شدہ ،مختصر تفاصیل درج ہونی چاہییں۔
• پہلی بار حوالہ مکمل صورت میں درج کرنا ہوگا۔
• دوسری بار صرف مصنف،تحریر کا عنوان اور ص نمبر کا اندراج ہوگا۔
• اگر حوالہ مسلسل ہے تو ایضاً لکھا جائے، اور صفحے کی تبدیلی درج کی جائے۔
• ناموں کو ان کی فطری ترتیب کے مطابق درج کیا جائے۔ مثلاسید احمد، محمد حسین، محمد اقبال وغیرہ۔
•غیر فطری ترتیب جس سے نام کی شناخت مسخ ہو جائے، کی سختی سے ممانعت ہے۔مثلا شبلی نعمانی کو
نعمانی، شبلی۔ معین الدین کو الدین، معین۔گیان چند کو چند،گیان۔ہرگز نہ لکھا جائے۔
• نام میں اگر تخلص موجود ہے تو پہلے تخلص درج کیا جائے۔مثلا آزاد، غالب، حالی وغیرہ
• نام میں خطاب و فضیلت کو نام کے بعد درج کیا جائے۔ مثلا سر، ڈاکٹر، مولوی، مولانا، حافظ وغیرہ
• حوالے میں کہیں بھی اوپری اکہر ے یا دوہرے واوین استعمال نہ کیے جائیں۔
• حوالے میں کسی کتاب یا مضمون کے نام کو انڈر یا اور لائن نہ کیا جائے۔
• حوالے میں مضمون، نظم، فلیپ، دیباچے، مرتب، مترجم وغیرہ کی تخصیص کے لیے چھوٹی قوسین کا استعمال کیا جائے
• حوالے میں سنین کو اکٹھا لکھنے کی صورت یوں ہوگی۔12-2011ء
• حوالے میں ایک سے زیادہ صفحات کا اندراج یوں ہوگا۔ص:88-87
حوالے لکھنے کا طریقہ کار:
حوالہ جات لکھنے کے لیے ضروری اجزاء درج ذیل ہیں:
ساخت:
مصنف کا نام، کتاب کا نام، جلد، ادارے یا پبلشر کا نام، مقام اشاعت،سنہ اشاعت، صفحہ نمبر
نمونہ:
عبادت بریلوی،ڈاکٹر، اردو تنقید کا ارتقائ،ج -1، انجمن ترقی اردوکراچی، 1980ئ، ص 144
1۔ ایک کتاب سے ایک سے زیادہ بار حوالہ دینا:
ایسی صورت میں پہلی بار پورا حوالہ لکھا جاتا ہے جیسا کہ اوپر درج ہے۔اس کے بعد درج ذیل طریق عمل اپنا یا جاتا ہے۔
نمونہ: پہلی بار:
عبادت بریلوی،ڈاکٹر ، اردو تنقید کا ارتقا،ج-1، انجمن ترقی اردوکراچی، 1980ء ، ص: 144(مکمل)
دوسر ی بار:
عبادت بریلوی،ڈاکٹر ، اردو تنقید کا ارتقا، ص :144
تیسری بار:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایضا۔۔۔۔۔۔۔۔ص: 154
وضاحتی نوٹ:
اگر حوالہ ایک ہی صفحہ پر اور ایک دوسرے کے نیچے آرہا ہو تودوسری بار ایضاً لکھیں گے۔بصورت دیگرحوالہ مختلف صفحات پر آرہا ہے تو دوسری بار حوالہ درج کرتے ہوئے مصنف، کتاب کا نام اور صفحہ نمبر لکھیں گے۔
اگر کسی کتاب کے مصنفین یا مرتبین کی تعداد دویا دو سے کم ہو تو تینوں مصنفین /مرتبین کے نام ترتیب وار لکھے جائیں گے۔
نمونہ:
نوازش علی،ڈاکٹر، یوسف حسن، احمد جاوید، ج-1،راولپنڈی، 1997ء ، ص: 233
اگر ایک کتاب کے تین یا تین سے زیادہ مرتبین یا مصنفین ہونے کی صورت میں پہلے مصنف یا مرتب کا نام مروجہ طریقے سے لکھ کر،و دیگر کا اضافہ کردیں اور آخر میں صفحہ نمبر لکھ دیں۔
نمونہ:
نوازش علی، ڈاکٹر ، ودیگر، ج-1، راولپنڈی، 1997ء ، ص: 233
اگر کسی کتاب کی ایک سے زیادہ جلدیں ہوں تو وہ بھی ضرور لکھیں۔جلد اول، دوم،سوم۔ایڈیشن پہلا ،دوسرا، تیسرا وغیرہ
نمونہ:
تبسم کاشمیری،ڈاکٹر، ادبی تحقیق کے اصول،ج-1، مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد، 1980ئ، ص: 338
2۔مرتبہ کتابوں سے حوالہ دینا:
ساخت:
مصنف کا نام، مضمون کا نام، مشمولہ، کتاب کا نام، جلد(اگر ہے)،مرتب کا نام، پبلشر کا نام، مقام اشاعت، سنہ اشاعت، صفحہ نمبر
پہلی بار:
عبدالرزاق قریشی، مضمون :فن تحقیق، مشمولہ اردو میں اصول تحقیق، ج- اول، مرتبہ ڈاکٹر ایم سلطانہ بخش، مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد،1986ء ، ص: 252
دوسری بار:
عبدالرزاق قریشی، مضمون: فن تحقیق، مشمولہ اردو میں اصول تحقیق، ج- اول، ص: 256
3۔رسالہ یا جریدے سے حوالہ دینے کا طریقہ کار:
ساخت:
مصنف یا ادیب کا نام، مضمون کا نام مشمولہ:ماہانہ، سہ ماہی، ششماہی، سالنامہ،رسالہ کا نام، شمارہ نمبر، مقام اشاعت،ماہ،سال اشاعت، صفحہ نمبر
اشفاق حسین بخاری، ڈاکٹر،سید،مضمون :اشاریہ سازی، مشمولہ: سہ ماہی تسطیر، شمارہ18، لاہور، اپریل 1999ء ، ص:38
دوسری بار: اشفاق حسین بخاری، ڈاکٹر،سید ، (مضمون :اشاریہ سازی)، مشمولہ: سہ ماہی تسطیر، ص:38
4۔ذاتی خطوط، سوال نامہ:
نمونہ(ذاتی خطوط): 1۔غلام رسول،مہر، لاہور، مکتوب بنام مئولف(مرتب: مضمون نگار)، مورخہ یکم ستمبر 1975ء
نمونہ(سوال نامہ): 2۔ عبدا لستار صدیقی،ڈاکٹر،الہ آباد، جواب سوالنامہ، مرتبہ: مئولف (مرتب: راقم مضمون)
5۔انسائیکلو پیڈیا سے حوالہ:
ساخت:
مصنف کا نام، نام کا حوالہ، انسائیکلوپیڈیا کا نام، سنہ اشاعت، جلد، صفحہ نمبر
نمونہ:
مرتضی احمد خان میکش، فرید الدین شکر گنج، اردو دائرہ معارف اسلامیہ، 1975ء ، ج-16، ص :234
6۔لغت سے حوالہ:
اگر کسی لغت سے حوالہ دینا مقصود ہو تو صفحہ نمبر دینے کی ضرورت نہیں ، حوالہ درج کرنے کا طریقہ یہ ہے:
نمونہ:
جمیل جالبی،ڈاکٹر، قدیم اردو کی لغت، مرکزی بورڈ لاہور، 1973ء
7۔مخطوطے کا حوالہ:
ساخت:
مصنف کا نام، مخطوطے کا نام، لائبریری کا نام، مقام/جگہ، مخطوطے کا سلسلہ نمبر
نمونہ:
مراد شاہ لاہوری، دیوان ،مخزومہ پنجاب یونیورسٹی لاہور، 5690
8۔ترجمہ شدہ کتاب کا حوالہ:
کسی دوسری زبان سے ترجمہ شدہ کتاب کا نام درج کرنے کے بعد مترجم کا نام اور پھراصل کتاب کا نام وغیرہ اس طرح دیں:
ساخت:
مترجم کا نام، ترجمہ شدہ کتاب کا نام، اصل مصنف کا نام،اصل کتاب کا نام، پبلشر کا نام، مقام اشاعت، سنہ اشاعت، صفحہ نمبر
نمونہ:
اشتیاق قمر(مترجم)، وباء کے دنوں میں محبت ، گاشیا گبریل ، Love in the days of cholera، رحمن بک ڈپو راولپنڈی، 1999ء ، ص :122
9۔اخباری مضمون کا حوالہ:
اگر کسی اخبار میں کسی علمی ادبی مضمون کا حوالہ دینا مقصود ہو تو یوں لکھیں گے۔
ساخت:
مصنف کا نام، مضمون کا نام، اخبار کا نام، مقام اشاعت، تاریخ اشاعت، اخبار کا صفحہ نمبر
نمونہ:
اشتیاق قمر، اردو ماہیا، روزنامہ نوائے وقت، لاہور، 26 فروری 2000ئ، ص:3
10۔مذہبی کتابوں کا حوالہ:
ساخت:
(الف) قرآن پاک کا حوالہ:سورت کا نام، آیت نمبر
نمونہ:
القرآن: سورۃ البقرہ، آیت نمبر:14
ساخت:
(ب) بائبل کا حوالہ: عنوان، پبلشر کا نام، مقام اشاعت، سنہ اشاعت
نمونہ:
بائبل، ہم عصر انگریزی ایڈیشن، کراچی، 1958ء
11۔ویب سائٹ کا حوالہ:
ویب سائٹ سے مواد حاصل کرنے کے بعد حوالہ کے لیے درج ذیل طریقہ اپنا یا جائے گا:
ساخت:
مصنف کا نام، تحریر کا عنوان، ویب سائٹ، تاریخ، وقت
نمونہ:
انور نسیم، ڈاکٹر، اردو افسانے کا مطالعہ،www.anwarnasim.com،2 جون 2010ئ￿ ، pm 10.24
12۔اسمبلیوں وغیرہ کی روائداد کا حوالہ:
ساخت:
اس حوالے میں سب سے پہلے اسمبلی کا نام پھر روئداد کا نام اور بعد میں تاریخ، سال اور آخر میں جلد اور وقت ہوتا ہے۔
نمونہ:
قومی اسمبلی پاکستان، مباحث، یکم جنوری 2010ئ￿ ، ج-2، ص 11، 3:44
13۔کتاب کی مائیکرو فلم کا حوالہ:
ساخت:
مصنف کا نام، کتاب کا نام، مائیکرو فلم، مقام/لائبریری، فلم کا نمبر
نمونہ:
قدرت اللہ قاسم، مجموعہ نغز(مائیکروفلم)، پنجاب یونیورسٹی لائبریری لاہور، 154
14۔فوٹو/تصویر کا حوالہ:
ساخت:
فوٹوگرافر/آرٹسٹ کا نام، تصویر بنانے کا سال، تصویر کا عنوان، لائبریری یا گیلری کا پورا نام، مقام/جگہ
نمونہ:
استاداحمد کمال، 2010ئ، علامہ اقبال کی تصویر، نیشنل میوزیم آف آرٹس، لاہور
15۔دستاویزات کا حوالہ:
ساخت:
دستاویز، نام/شناخت، مملوکہ/مخزونہ
نمونہ:
سند میٹرک(رشید امجد)، عکسی نقل مملوکہ راقم
16۔انٹر ویو کا حوالہ:
ساخت:
نام:جس سے انٹرویو لیا گیا، تصریح، نام: جس نے انٹرویولیا، مقام، تاریخ، وقت
نمونہ:
احمد ندیم قاسمی، (انٹرویو)، از سجاد نعیم، لاہور، 2اگست2010ئ، بوقت دس بجے دن
موضوع 7:متن اور تدوین متن
تدوین:
تدوین تحقیق کی شاخ ہے۔ جس میں مدون عہد گزشتہ اور ماضی میں دفن تحریروں کو اصل انداز میں سامنے لاتا ہے۔
تدوین متن:
تدوینِ متن ایک ترکیب ہے جو اضافت کے ذریعے تدوین اور متن کوجوڑے ہوئے ہے۔ لفظ تدوین ، عربی زبان کا لفظ ہے جو کہ ہیت میں مونث ہے اور ایک فن کی حیثیت رکھتا ہے جب کہ اس کا معنی تالیف کرنا، جمع کرنا یا مرتب کرناہے۔ جبکہ لغات کشوری میں تدوین کے معنی’’ جمع کرنااور تالیف کرنا‘‘کے ہیں۔تدوین متن میں محقق و مدون کا اصل مقصد و مدعا مصنف کے تصنیفی کام کی روح تک پہنچنا ہوتا ہے۔
تدوین متن کا آغاز:
جب ان مخطوطات کی جانچ پرکھ کا کام شروع ہوا اور انھیں سمجھنے اور جدید عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کا کام شروع ہوا تو تدوینِ متن کا آغاز ہوگیا۔ یو ں عرفِ عام میں کہا جا سکتا ہے :
"تدوینِ متن کی اصطلاح سے مراد ہے کہ مصنف کی اصل عبارت کو احسن انداز میں جمع کرنا اور ترتیب دینا۔یہ ترتیب اس طرح کی ہو کہ اصل اورنقل عبارت میں فرق واضح کر سکے اور یہ بیان کر سکے کہ اصل عبارت میں کہاں کہاں اور کیا کیا تبدیلیاں واقع ہوئیں ہیں۔"
متن:
متن کے معنی کتاب کی اصل عبارت،کتاب،کپڑے یا سڑک کے بیچ کا حصہ، درمیان، وسط، درمیانی اور پشت کے ہیں۔ متن انگریزی لفظ Textکا ہم معنی ہے جو کہ عبارت یا عکس، نقشِ عبارت کے زمرے میں آتا ہے۔ اسٹینڈرڈ اردو ڈکشنری میں اس کی تعریف یوں نقل کی ہے:
• مصنف کے اصل الفاظ یا کتاب کی اصل عبارت
• الہامی کتب کی آیت یا آیات
• خطوط،نصابی یا درسی کتب
تدوین درحقیقت کیاہے؟ اس حوالے سے پروفیسر خالق داد ملک اپنی کتاب ’’تحقیق وتدوین کا طریقہ‘‘میں اس طرح سے رقمطراز ہیں :
’’اردو زبان میں تدوین عربی میں تحقیق اور انگریزی میں ایڈیٹنگ (Editing)ایک جدید اصطلاح ہے جس سے مراد مخطوطہ (قلمی کتاب)کو ایسی شکل میں متعارف کروانا ہے جیسے کہ اس کے مولف نے اسے اپنے ہاتھ سے تحریر کیا تھا۔ وہ قابل مطالعہ و قابل فہم ہوجائے اور مقرری معیارات کے مطابق اسے مدون شکل میں پیش کیاجائے۔ "
مخطوطہ:
مخطوطہ کی بحث میں اس سے مراد ایسی ہر قلمی کتاب ہے جو مولف نے خود اپنے ہاتھ سے لکھی ہو یا اس کے شاگردوں میں سے کسی نے اسے اپنے ہاتھ سے لکھا ہو یا ان کے بعد آنے والے کاتبوں نے اسے ہاتھ سے تحریرکیاہو۔ تدوین کے حوالے سے مخطوطہ سب سے اہم مقام رکھتا ہے۔
مخطوطات کی تاریخ:
اگردنیا بھر میں مخطوطات کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تویہ اندازہ لگاناہر گز مشکل نہیں ہوگا کہ یہ کام اتنا ہی پرانا ہے جتنا کہ فنِ کتابت۔انسان نے جب سے لکھنا پڑھنا سیکھا تبھی سے مخطوطات کاآغاز ہو گیاتھالیکن یہ مخطوطات کاغذ پر نہیں لکھے گئے تھے۔انسان نے اول اول تو اپنے خیالات کے اظہار و ابلاغ کیلئے پتھروں پر ان کی ترجمانی لکھنے کی صورت کی جس کا پہلا روپ عجیب و غریب اشکال کی صورت میں تھا۔بعد میں یہی اشکال علامات اور پھرالفاظ کی صورت میں ڈھلنے لگیں۔پھر یہ فن مذہبی عبارات و آیات کو دیواروں پرکندہ کاری کرنے کی طرف مائل ہوا۔ وہاں سے مخطو طات کی حفاظت کے لیے چمڑے اور پتوں کا استعمال کیا جانے لگا جنھیں انسان نے لکھنے کیلئے استعمال کیا۔بہت ساری جگہوں پر کپڑا بھی اس مقصد کے لیے استعمال ہوا۔ اس کے بعد چین کے ایک موجدتسائی لون نے کا غذ کی ایجاد کے ساتھ ہی یہ سہرا اپنے سر باندھ لیا اور دنیا بھر میں فنِ کتابت تیزی سے پر وان چڑھنے لگا۔
مخطوطات کی اقسام:
• پتھرپہ لکھائی • دیوار پہ لکھائی
• چمڑے،پتے، کپڑے پہ لکھائی • کاغذ پہ لکھائی
اردو میں تدوین متن کی روایت:
گو کہ اردو میں مخطوطات کی تاریخ بہت زیادہ پرانی نہیں ہے بلکہ یہ مورخین کے مطابق اردو کے جنم لینے کے بعد آغاز پذیر ہوئی اور اسی لحاظ سے مخطوطات کی تدوین بھی بہت زیادہ پرانا کام نہیں لیکن اگر دنیا بھر کی زبانوں میں موجود مخطوطات کی تدوین کے حوالے سے دیکھا جائے توحقیقت یہ ہے کہ نہ صرف اردو میں اس سے قدرے بے اعتناعی برتی گئی بلکہ اعلیٰ درجے کے مدونین کی تعداد بھی محدود رہی ہے۔ مخطو طا ت کی کم یابی کی ایک وجہ لائبریریوں میں اور ذاتی ذخیروں میں موجود مخطوطات کی جانب عدم توجہی بھی ہے۔ڈاکٹر عطا الرحمن میو اردو میں تدوینِ متن کی روایت کے حوالے سے اس طرح رقمطراز ہیں :
’’اردو میں ادب میں کتابوں کی تصنیف و تالیف کا باقاعدہ باضابطہ ادارہ ایشیا ٹک سوسائٹی (بنگال )کے نام سے 15جنوری 1784 سے وارن ہینگٹو (Warren Hastings)کی سرپرستی میں قائم ہوا۔ اس کے پہلے بانی صدر سر ولیم جونز کے بیان کے مطابق اس ادارے کا دائرہ کار ایشیا کے علمی ، تمدنی اور تاریخی کارناموں کی تحقیق مغرب کے جدید اصولوں کے مطابق کرنا تھی۔ اس کے بعد 1800ء میں فورٹ ولیم کالج کلکتہ میں قا ئم ہوا جس کا مقصد انگریز افسروں کے واسطے، جو تازہ وارد ہوئے تھے ، ایسی کتابیں تیار کی جائیں جن سے انتظام ملکی اور ہندوستانیوں کے ساتھ میل جول اور ربط و ضبط بڑھانے میں آسانی ہو۔‘‘
تدوین کی ابتدائی صورت:
اردو میں تدوین کے ابتدائی دور میں اس کی صورت کیسی تھی اس حوالے سے رام بابو سکسینہ ، تاریخِ ادب اردومیں اپنی تحقیق ان الفاظ میں سمیٹتے نظر آتے ہیں:
’’ان اداروں میں جو کتب تحریر ہوئیں ، ان کا تدوینی معیار بہت حد تک ابتدائی شکل میں تھا لہٰذا ناقص تھا۔آج امتدادزمانہ سے متعدد پہلوؤں سے مخطوطات اور مسودات کی ترتیب و تدوین میں جدید اصولوں کے مطابق اضافہ ہوتا ہے ، ترمیم و تنسیخ ہوتی ہے۔ اضافہ یا ترمیم و تنسیخ ان معنوں میں نہیں کہ تحریف کی جائے بلکہ ان معنوں میں کہ وقت کے ساتھ ساتھ الفاظ کا املا اور جملے میں الفاظ کی تقدیم و تاخیر میں جو تغیر آتا ہے جب یہ مسودہ تدوین کی سان پر چڑھتا ہے تو اسے مدون اپنے دور کے اصولوں کے مطابق تیار کرتا ہے۔"
اردو تدوین کے ابتدائی نقوش:
اردوکو بطورِ زبان شروع ہوئے کم و بیش چھ سو سال ہو چکے ہیں مگر تدوین کا کام ابھی تک نا مکمل ہے۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا کہ اردو میں تدوین کے ذرائع مخطوطات اور تذکرے ہی تھے جن سے کسی بھی شاعر یا ادیب کا کلام تدوین کیا جا سکتا تھا اس لئے اردو میں تدوینِ متن کا ذکر ان تذکروں کے بغیر ادھورا ہے جنھوں نے اردو میں تدوین کو بنیاد ی صورت عطا کی۔ یہاں یہ واضح کرنا بھی ضرور ی ہے کہ مولانا محمد حسین آزاد اس نظریئے کے قائل ہیں کہ اردو میں پہلے نظم اور اس کے بعد نثر کی ایجاد ہوئی۔ اس لیے اردو میں تدوین کے حوالے سے شعرا کرام کے کلام کا ہی زیادہ حصہ ملتا ہے۔اس زبان میں جو تذکرے لکھے گئے ہیں وہ اردو تحقیق کے ابتدائی نقوش ہیں۔ تذکروں کے بعد محمد حسین آزاد کی ’’آبِ حیا ت ‘‘ سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ آبِ حیات تذکرہ نویسی اور باقاعدہ تاریخ نویسی کے درمیان مضبوط کڑی ہے۔ اگرچہ اس پر بہت اعتراض کیے گئے اور اس کے بعض معلومات کو غیر مستند قرار دیا گیا تاہم آبِ حیات کی بنیادی حیثیت کے بارے میں کلا م نہیں۔
اردو میں تحقیق و تدوین:
اردو میں تحقیق و تدوین کے حوالے سے سر سید احمد خان کی علم دوست تحریک کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جس کی وجہ سے جو نیا علمی اور سائنسی رْجحان پیدا ہوا، اس سے تحقیق کو بھی تقویت پہنچی۔ بیسویں صدی میں اس روایت کی مزید توسیع محمودشیرانی ، ڈاکٹر عبدالحق، مولوی محمد شفیع، قاضی عبدالودود مسعود حسن رضوی اور امتیاز علی عرشی جیسے بلند پایا محققین ادب کے ہاتھوں ہوئی۔
متن کی اقسام
اصل متن/بنیادی متن/اساسی متن:
ایسا متن جو مصنف کا اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا ہو، نیز اس متن کی داخلی اور خارجی شہادتیں اس بات کی تصدیق کریں کہ یہ صاحب تصنیف کا دست خطی نسخہ ہے۔
اضافی متن:
ایسا متن جو کہ تشریحی اور توضیحی انداز کی عبارتوں پر مشتمل ہوتاہے جو کہ بعض اوقات مصنف کی اپنی تحریر ہوتا ہے اور بعض اوقات بعد کی اضافی نگارشات کا درجہ رکھتا ہے۔
املائی متن:
ایسا متن جو مصنف بولتا گیا ہو اور کوئی دوسرا شخص لکھتا رہا ہو۔
سماعی متن:
وہ متن جو صدیوں تک زبانی اور سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے رہے ہوں اور اسے سن کر کاغذ پر منتقل کردیا گیا ہو۔
تقلیدی متن:
اگر لکھنے والے نے بولنے والے کی مکمل پیروی کی ہے تو اسے تقلیدی متن کہا جائے گا۔
نیم تقلیدی متن:
اگر لکھنے والے نے مصنف کے خیالات کواپنے الفاظ میں یا کسی دوسری زبان میں قلمبند کیا ہو تو اسے نیم تقلیدی متن کہا جائے گا۔
استنادی متن:
مصنف کی ایما پر تیار کیے گئے وہ نسخے جو مصنف کی نظر سے گزرے ہوں۔یہ نسخے عموما مصنف کے شاگردوں کے ہاتھ کے لکھے ہوئے نسخے ہوتے ہیں۔
متون کی صحت:
متون کو صحت کے ساتھ پیش کرناتحقیق و تدوین میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔اس سلسلے میں پاک و ہند دونوں جانب کے محققین نے قابل قدر خدمات انجام دی ہیں۔ پاکستان میں اس حوالے سے ڈاکٹر جمیل جالبی ، مولوی عبدالحق، ڈاکٹر خلیق انجم، ڈاکٹر غلام عرفان، ڈاکٹر مسعود حسین خان اور دیگر محققین کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔
تدوین زمانہ حال میں:
اردومیں تذکروں سے شروع ہونے والی تدوین کا کام اس وقت روز افزوں ہوچکا ہے۔اب اسے سائنسی بنیادوں پر بھی استوار کیا جا رہا ہے اور ایسے سائنسی آلات موجود ہیں جن سے کسی بھی تحریر کا اس کے کاغذاور روشنائی کی تاریخ کا پتہ چلانا ہرگز مشکل نہیں رہا۔ اگر تعداد کے حوالے سے تدوین کا کام دیکھا جائے تواس وقت تحقیق و ترتیبِ متن پرلکھی جانے والی کتب کی تعداد۳۰ سے زائد ہے جبکہ مخطوطات و مطبوعات کی فہرستوں کی بات کریں تو یہ ۲۰ سے زائد موجود ہیں۔ وہ تذکرے جو ابھی تک دریافت ہوسکے ان کی تعدادڈاکٹر سلطانہ بخش نے ۵۶بتائی تھی لیکن اب ان کی تعداد۰ ۷ سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ مرتب کردہ متون کا ذکر کریں تو ان کی تعداد ۷۰ سے قریب ہے۔
موضوع8:معیاری مقالے کی خصوصیات
تحقیقی مقالہ:
آرتھر کول Arthur Cole نے تحقیق مقالہ کی تعریف یوں کی ہے:
"تحقیق مقالہ اس مکمل رپورٹ کو کہتے ہیں جسے کوئی محقق اپنے تحقیقی کام کا کامیاب تکمیل کے بعد پیش کرتا ہے۔ یہ رپورٹ مطالعے کے تمام مراحل کا احاطہ کرتی ہے، یعنی موضوع کے متعلق ابتدائی سوچ سے لے کر تحقیق کے نتیجے میں حاصل ہونے والے نتائج تک دلائل و براہین کی روشنی میں مرتب ومدون کرکے پیش کیا جاتا ہے۔"
معیاری تحقیقی مقالے کی خصوصیات:
ایک معیاری تحقیقی مقالہ وہ ہوتا ہے جس کی تیاری میں درج ذیل تحقیقی اصولوں کا لحاظ رکھا گیا ہو:
مواد کی ترتیب و تنظیم:
مقالہ نگاری کا ایک اصول یہ ہے کہ موضوع سے متعلق جمع شدہ مواد کو اچھے اسلوب میں مدون و مرتب کیا جائے۔اس کی افادیت یہ بھی ہے کہ ابواب کے عنوان اور ذیلی سرخیاں بنائی جاسکتی ہیں۔
تسوید مقالہ:
مقالہ سے متعلقہ مواد کو منظم و مرتب کرلینے کے بعد اسے لکھنے کی باری آتی ہے۔اس پر پہنچ کر محقق کو اپنے موضوع سے متعلقہ مرتب شدہ مواد کو استعمال کرنا ہوتا ہے۔
آغاز تحریر کے اصول:
فن تحقیق کے ماہرین نے تحریری کام کے آگاز کے چند اصول متعین کررکھے ہیں جوکہ یہ ہیں:
• مقالے کی تحریر کا آغاز براہ راست اپنے موضوع سے کرنا ہی اچھا اور سائنسی طریقہ کار سمجھا جاتا ہے۔ طویل تمہید اور تبصروں سے پرہیز کرنا چاہیئے کیونکہ اس سے مقالے کی ضخامت بڑھ جاتی ہے۔
• کوئی بھی محقق اپنے تحقیقی عمل کے شعبے کے متعلق ساری معلومات رکھتا ہے۔ا سی پر وہ اپنے موضوع اور تحقیقی کام کی بنیاد رکھتا ہے اور اپنے اخذ کردہ نتائج اور تاثرات کو پورے خلوص اور اختصار کے ساتھ پیش کردینا چاہیئے۔
اسلوب تحریر:
معیاری مقالے کے لیے اس کے اسلوب تحریر کا معیاری ہونا لازمی ہے۔محقق کو خوب محنت اور لگن سے کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ جو بات بھی لکھے سوچ سمجھ کر موقع و محل کے مطابق سیدھے سادے انداز میں لکھے اور قاری کے لیے اس میں دلچسپی پیدا کرے۔مقالے کے اسلوب تحریر کو دوخصوصیات سے مزین ہونا چاہیئے:ایک سنجیدگی اور دوسری اثر۔ ان دونوں کے ساتھ تکمیل ، وحدت اور وضاحت وغیرہ کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔
تکرار کلمات سے اجتناب:
معیاری مقالہ کلمات کے تکرار سے خالی ہو ناچاہیے کیونکہ مقالے کا اسلوب نگارش تکرار کلمات سے متاثر ہوتا ہے۔
مناسب اختصار:
مقالے میں جس قدر کم سے کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ مفہوم ادا ہوسکتا ہے ہو اتنا ہی بہتر ہے۔
مطالعہ مواد:
معیاری مقالے کی تیاری میں محقق نے موضوع سے متعلقہ مواد کا خوب توجہ اور گہرائی سے مطالعہ کیا ہو۔
جدت:
معیاری مقالے کی ایک اہم خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ اس میں کسی نہ کسی طرح کی جدت اور نیا پن پایا جاتاہو۔تحقیق کے میدان میں جدت کئی طرح کی ہو سکتی ہے۔
اقتباسات کا صحیح استعمال:
معیاری مقالے کی تیاری میں مصادر و مراجع سے اقتباسات کی صورت میں متعلقہ مواد کو تحقیق کے مروجہ اصولوں کے مطابق استعمال کیا گیا ہو۔
جملوں اور پیراگراف میں ربط:
ایک اچھے اور معیاری مقالے کی اندرونی خوبی یہ ہوتی ہے کہ اس کے جملوں اور پیراگراف کے درمیان ربط ہو اور ان میں کسی بھی قسم کا انقطاع اور بعد نہیں ہوتا۔
حواشی و حوالہ جات:
جس مقالہ میں تحقیق کے مقررہ اصولوں کے مطابق حواشی و حوالہ جات کا اہتمام کیا گیا ہو وہ معیاری مقالہ کہلاتا ہے۔
نظرثانی کرنا:
مسودہ کی تکمیل کے بعد محقق کو چاہیے کہ وہ خوب محنت، توجہ اور دقت نظر سے کئی با ر اپنے مقالہ پر نظرثانی کرے۔نطرثانی یا دہرانے کے عمل کا مقصد حذف و اضافہ کرنا، ترتیب نو، حوالوں کی تصحیح، جملوں کی ساخت اور زبان کی بہتری ہوتی ہے۔
پروف ریڈنگ:
مقالے کو مکمل کرنے کے بعد مقالے کی پروف ریڈنگ دقت نظر سے کی جا ئے تا کہ کسی قسم کی غلطی کا امکان باقی نا رہے۔سب سے مشکل کام ہی یہی ہے۔
عمدہ کتابت اور جلدبندی:
تحقیقی مقالے کی عمدہ کتابت ٹائپ اور جلد بندی اس کے معیاری ہونے کا ثبوت ہوتا ہے۔
تحقیقی مقالے کی ہیئت:
ماہرین تحقیق کے نزدیک معیاری مقالہ اسے کہا جاتا ہے جس کی ہیئت درج ذیل اجزائ￿ پر مشتمل ہو:
سرورق:
مقالے کی ابتدا سرورق سے ہوتی ہے۔ اس پر درج ذیل چھ باتوں کا لکھا ضروری ہے۔
مقالے کا عنوان:
• ڈگری کا نام جس کے لیے مقالہ پیش کیا گیا
• دائیں جانب مقالہ نگار کا نام
• بائیں جانب استاذ کا نام جس کی نگرانی میں مقالہ مکمل ہوا
• شعبہ، فیکلٹی اور یونیورسٹی کا نام جہاں مقالہ پیش کیا گیا۔
• تاریخ ،یعنی ماہ اور سن جس میں مقالہ پیش کیا گیا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم:
سرورق کے بعد ایک صفحہ پر بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھا جاتا ہے۔
حلف نامہ:
بسم اللہ الرحمن الرحیم کے بعد اگلے صفحہ پر حلف نامہ لکھنا ہے۔
تصدیق نامہ :
حلف نامہ کے بعد اس سے اگلے صفحے پر تصدیق نامہ لکھا جاتا ہے۔
دستخط:
اس صفحے پر ایڈوائزر وغیرہ کے دستخظ کیے جاتے ہیں۔
پیش لفظ:
اس صفحے پر پیش لفظ لکھا جاتا ہے۔
ہدیہ تشکر:
اس صفحہ پر مقالہ نگار ان افراد اور اداروں کا شکریہ ادا کرے جنہوں نے مقالہ کی تیاری میں اس کی کسی نوعیت کی مدد کی ہوتی ہے۔
فہرست مضامین:
کلمات تشکر کے صفحے کے بعد مقالے کے مضامین کی فہرست دی جاتی ہے۔فہرست کی ترتیب یوں ہوتی ہے۔ دیباچہ/تمہید/مقدمہ/پیش لفظ۔
ابواب بندی:
مقدمہ کے بعد اصلی موضوع شروع ہوجاتا ہے۔ موضوع کو عام طورپر ابواب، فصول، مباحث یا صرف فصول اور مباحث میں بانٹ دیا جاتا ہے۔
نتائج یا خلاصہ بحث:
یہ تحقیقی مقالے کا اہم ترین حصہ ہوتا ہے جس سے اس کی صحیح قدروقیمت کا اندازہ ہوجاتا ہے۔
ضمیمے:
مقالہ سے متعلقہ مواد لکھتے وقت کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جو اہم تو ہوتی ہیں مگر انھیں متن میں ذکر کرنا مناسب نہیں رہتا۔ ایسی باتوںکو مقالہ میں ملحقات یا ضمیموں کے طور پر شامل مقالہ کردیا جاتا ہے۔
مصادر / مراجع/کتابیات کی فہرست:
یہ کسی بھی تحقیقی مقالے کی ہیئت کاآخری حصہ ہوتا ہے۔ اس کے لیے وہی طریقہ اختیار کیا جاتا ہے جو مقالہ میں حوالوں کے لے استعمال کیاگیا ہو۔
متن سے متعلقہ بنیادی مباحث
متن کا صفحہ:
مقالے کے متن کے لیے صفحے کا سائز A4ہونا چاہیے۔ صفحے کے دائیں طرف ڈیڑھ انچ جبکہ باقی تین اطراف 1 انچ جگہ چھوڑی جائے۔کمپوز شدہ متن کے پرنٹ بھی A4 سائز پر لیے جائیں۔اس کے لیے 80گرام کا سفید کاغذ استعمال کیا جائے۔سفید کاغذ کے علاوہ مقالے میں کہیں بھی کوئی دوسرا کاغذ استعمال نا کیا جائے۔
متن کا فونٹ اور سائز:
ایم فل کا مقالہ فونٹ سائز 17 پر لکھا جاتا ہے۔
ہر صفحے پر متن کی گنجائش:
• ہر صفحہ پر مناسب متن فونٹ سائز کے مطابق آنا چاہیئے۔
• اسکالرز صفحے بڑھانے کے لیے لائنوں کے درمیان اضافی فاصلہ بڑھانے سے اجتناب کریں۔
• متن میں لائن گیپ آٹو ہونا چاہیئے۔
• متن میں کیریکٹر اسپیننگ صفر ہونا چاہیئے۔
• متن میں پیراگراف میں فاصلہ 0.1 ہونا چاہیئے۔
متن میں مختلف اندراجات:
• متن میں جہاں بھی کتاب یا مضمون کا نام آئے اس پر دوہرے اوپری واوین لگائے جائیں۔
• متن میں کہیں بھی پھول،سٹار، ہاتھ کا نشان، دائرے ،اشکال یا آرائشی اشارات استعمال نا کیے جائیں۔
• متن میں سنین کا اندراج اردو ہندسوں میں کیا جائے۔
• تشریحی بیان کو چھوٹی قوسین میں لکھا جائے۔
• متن میں حوالہ نمبر اردو ہندسوں میں ہوں۔ ہندسے کا فونٹ سائز 13 ہو۔ اس کے گرد چھوٹی قوسین لگائی جائیں۔اس کی نشست لائن کے تناسب سے ذرا بلند رکھی جائے۔
اوقاف و علامات:
• جملے کے اختتام پر ختمہ کی علامت ہو۔
• جملے کید رمیان مختلف الفاظ میں فرق قائم کرنے کے لیے نچلے قومہ کی علامت استعمال کی جاتی ہے۔
• حوالہ نمبر لکھنے کے لیے علامت بیعہ کی بجائے چھوٹی قوسین استعمال کریں۔
• متن میں کسی عبارت کو انڈرلائن یا اوور لائن نا کیا جائے۔
• علامت حذف کے لیے ختمہ کی علامت (۔۔۔)تین بار استعمال کرسکتے ہیں۔
متن کا املائی نظام:
• ان کو، آپ کے، اس کا وغیرہ کے الفاظ جوڑ کر نا لکھا جائے۔
• ناموں کے الفاظ اور انگریزی الفاظ کو توڑ کر نا لکھا جائے۔
• لیے ،چاہیے،کیجیے، وغیرہ پر (ہمزہ) کا استعمال نا کیا جائے۔
• آئندہ، آزمائش، مائل ، رسائل، عقائد وغیرہ کے الفاظ میں (ہمزہ) استعمال کیا جائے۔
• چونکہ، کیونکہ، تاوقتیکہ، چنانچہ ،بطور،بطریق یہ الفاظ الگ نا لکھے جائیں۔
موضوع9:تحقیق میں مفروضے کی اہمیت
مفروضات:
مفروضات ،مفروضہ کی جمع ہے اسے فرضیہ بھی کہتے ہیں مفروضہ یا فرضیہ کی فن تحقیق کے ماہرین نے مختلف تعریفیں کی ہیں۔سادہ اور پچیدہ مسائل کے لئے فرضیات کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ان کے اطلاق کی مثالیں ہمیں روزمرہ معمولات میں ملتی ہیں۔
فرضیہ ایک آزمائشی اور توضیحی بیان ہوتا ہے جو دو یا دو سے زیادہ متغیرات کے تعلق کے بارے میں موجود ہوتا ہے۔ اس تعلق کا تجرباتی طور پر مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔چونکہ فرضیہ تحقیق کا ایک اہم ذہنی آلہ ہوتا ہے ، اس کی حیثیت ایک سائنسی اندازے کی ہوتی ہے جو کسی عملی یا نظری مسئلے سے متعلق متغیرات کے تعلق کے بارے میں قائم کیا جاتا ہے۔سید جمیل احمد رضوی کے بقول:
"روزمرہ زندگی کے معمولات میں رائے(Opinion)کا لفظ کثرت سے استعمال کیا جاتا ہے۔ شروع میں محقق زیرتحقیق مسئلے کے حل کے لیے کوئی ایک رائے یا چند آرا قائم کرلیتا ہے۔ان میں سے ہر ایک کو فرض یہ کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔"
ہل وے کے مطابق:
"لغت کے اعتبار سے فرضیہ اس کو کہا جاتا ہے جو نتیجے یا نظریے سے کم یا کم یقینی ہوتا ہے۔ یہ ایک معقول اندازہ ہوتا ہے جس کی بنیاد اس شہادت پر ہوتی ہے جو اندازہ لگانے کے وقت موجود ہوتی ہے۔محقق دوران تحقیق کئی فرضیات بنا سکتا ہے یہاں تک کہ وہ آخر میں ایک ایسا فرضیہ یا لیتا ہے جو زیرتحقیق صورتحال سے بہت زیادہ زیادہ مناسبت رکھتا ہے یا جو تمام معلومات کی توضیح نہایت عمدہ طریقے سے کرتا ہے۔"
ڈاکٹر شین اختر کے بقول:
"مفروضہ اسکالر کو حقائق اور اعداد و شمار کی ایک وسیع و عریض دنیا میں لے آتا ہے ،جہاں اسے اپنے کام کے مواد کا انتخاب کرنا ہے۔یہ مواد ایسا ہوتا ہے جو معنویت سے پر ہوتا ہے اور جو مسائل کے حل کرنے میں مدد دیتا ہے۔ مواد کی صرف فراہمی تحقیق کے مسائل کو حل نہیں کرتی بلکہ یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ مثبت اور منفی مواد الگ الگ حاصل کیا گیا ہو تاکہ اپنے نقطہ نظر کی تردید اور تائید میں مدد مل سکے۔ نقطہ نظر کی دنیا میں مفروضات کے نام سے موسوم ہے۔اس کے بغیرکسی قسم کی تحقیق ممکن نہیں۔"
تحقیق میں مفروضہ کی اہمیت:
تحقیق کی دنیا میں اس وقت جتنے بھی نظریے رائج ہیں وہ آغاز ہی میں ایک نظریے کی شکل میں وجود میں نہیں آئے تھے بلکہ نظریہ بننے سے پہلے ان کی جو ابتدائی صورت تھی اسے 'مفروضہ' کا نام دیا جاتا ہے۔ڈارون کا نظریہ ارتقا فوری طورپرنہیں بن گیا بلکہ اس نظریے کو پہلے اس نے ایک مفروضے کی شکل دی اور اس میں تحقیق کاسلسلہ جاری رکھا۔ جب وافرمقدارمیں اس نے تحقیقی مواد فراہم کر لیا تو اس مفروضہ کی صداقت کو ثابت کر دکھایا اور یہ مفروضہ ثبوت ملنے کے بعد ایک نظریے کی شکل اختیار کرگیا۔جدید علوم میں رائج تمام نظریات اپنی ابتدائی شکل میں مفروضے کی حیثیت رکھتے تھے اور یہی مفروضے تحقیق ، تجربات و مشاہدات کے مراحل طے کرنے کے بعد جب صحیح ثابت ہوگئے تو نظریات بن گئے۔ مفروضے اور نظریات کے درمیان جو تعلق ہے، وہ ہمیشہ جاری رہنے والا ہے۔ آج بھی بے شمار مفروضے مختلف علوم و فنون میں موجود ہیں۔ ادب میں بھی یہی صورتحال ملتی ہے علامہ اقبال کے نظریات، مثلا خودی ،نظریہ فن،نظریہ عشق اور بعض دوسرے نظریے مفروضے کی منزلیں طے کر کے نظریات بنے ہیں۔
متغیرات:
ایک متغیر ایسی چیز ہے جو اپنی قدر تبدیل کر لیتی ہے، جیسے ایک خاصیت یا قدر۔ متغیرات عام طور پرتحقیق کے تجربات میں استعمال کیے جاتے ہیں کہ اگر کسی چیز میں تبدیلی کسی دوسرے میں تبدیلیوں کے نتیجے میں ہوتی ہے۔تحقیق میں فرضیے کی اہمیت کا درج ذیل نکات سے پتہ چلتا ہے:
1۔مسائل کی نشاندہی:
فرضیے کے بغیر محقق مسئلے کے بارے میں سطحی اور عام سی تحقیق کرکے اپنا وقت ضائع کر سکتا ہے۔فرضیہ قائم کرنے کے لیے کسی مسئلے کے بارے میں تمام واقعاتی اور نظری عناصر کا بغور معائنہ کرنا پڑتا ہے۔ ان کا باہمی تعلق تلاش کرنا ہوتا ہے اور متعلقہ انفارمیشن کو الگ کرکے اس طرح جوڑا جاتا ہے کہ وہ تمام عناصر کا احاطہ کرنے والا بیان بن جاتا ہے۔
2۔ حقائق کے ساتھ مناسبت:
سائنسی علم کی بنیاد منتخب حقائق پر ہوتی ہے۔ تحقیق میں حقائق کا انتخاب بہت اہمیت رکھتا ہے۔فرضیہ یہ معلوم کرنے میں محقق کی مدد کرتا ہے کہ کون سی معلومات جمع کی جائیں اور اس کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ کتنی معلومات مطلوب ہیں تاکہ نتائج کو مناسب طریقے سے آزمایا جا سکے۔
3۔ طریق تحقیق کی نشاندہی:
فرضیہ یہ بتاتا ہے کہ معلومات کی جمع آوری کے لیے کون سا طریق تحقیق اختیار کیا جائے گا، کن لوگوں سے معلومات حاصل کرنی ہیں۔ ان کی آزمائش کس طرح کرنی ہے، اور اس کے لیے کون سے آلات درکار ہیں۔کون سے کام کرنے ضروری ہیں، کون سے شماریاتی طریقے موزوں ہیں۔
4۔فرضیات کی بتائی ہوئی وضاحتیں:
تحقیق کا جدید سائنسی طریق کار، حقائق کی جمع آوری یا ان کی سطحی خصائص کے لحاظ سے درجہ بندی اور وضاحت سے آگے بڑھتا ہے۔یہ فرضیات ،جن کو مسلمہ حقائق اور تخیل کی قوت پرواز سے بنایا جاتا ہے ، محقق کو نامعلوم کی دریافت اور وضاحت کرنے کے لیے نہایت عمدہ ذریعہ یا آلہ فراہم کرتے ہیں۔
5۔ نتائج کے لیے فریم ورک کی فراہمی:
فرضیہ ایسا ڈھانچہ یا فریم ورک فراہم کرتا ہے جس کی وجہ سے نتائج کو عمدہ اور معنی خیز طریقے سے بیان کیا جاتا ہے۔
6۔ مزید تحقیق کے لیے تحریک:
ایک اچھا فرضیہ صرف زیر غور مظہر کی وضاحت ہی نہیں کرتا بلکہ وہ ایک ذہنی ماخذ(Lever) کے طور پر کام کرسکتا ہے جس سے محقق ایسے بہت سے غیر مربوط حقائق معلوم کرلیتا ہے جن کو دوسری وضاحتوں میں یا مجموعی نوعیت کی وضاحتوں میں استعمال کیا جا تاہے۔
اچھے فرضیے کے خصائص:
ایک اچھے فرضیے کو درج ذیل خصائص کا حامل ہونا چاہیے:
• اس کو معقول ہونا چاہیے۔
• اس کو معلوم حقائق یا نظریات کے ساتھ مطابقت رکھنی چاہیے۔
• اس کو اس انداز سے بیان کیا جائے کہ اسے آزمائش کے مرحلے سے گزارا جا سکے اور اس کو درست یا غلط ثابت کیا جا سکے۔
• اس کو آسان ترین الفاظ و اصطلاحات میں بیان کیا جانا چاہیے۔
• فرضیے کی نوعیت آفاق ہونی چاہیئے یعنی متغیرات کے درمیان زیر غور تعلق محدود نہ ہو۔
• اس کو غیر متغیر ہونا چاہیئے۔ یہ وقت کے ساتھ تبدیل نہ ہوتا ہو۔
• فرضیہ علت(Cause)کو بیان کرنے ولاہو۔ یعنی وہ ایسا تعلق بتائے جس میں وجہ یا علت بیان کی گئی ہو۔
فرضیہ لکھنے کے متعلق تجاویز:
• تمام متعلقہ لٹریچر کا جائزہ لینے کے بعد فرضیہ لکھنا چاہیئے۔
• فرضیات عام طور پر تحقیقی مقالے کے پہلے باب میں لکھے جاتے ہیں۔
• فرضیات کو لکھنے کا انداز بیانیہ ہونا چاہیئے نہ کہ سوالیہ
• عام طورپر محقق کے پاس آزمانے کے لیے ایک سے زیادہ فرضیات ہونے چاہیئں۔
• فرضیات کو متغیرات کے درمیان اہم اختلاف یا اہم تعلقات کی پیش گوئی کرنی چاہیئے۔
• مقالے میں بیان کردہ فرضیے میں ہر لفظ کی واضع طور پر تعریف کردینی چاہیے۔اگر زیادہ الفاظ و اصطلاحات کی تعریفیں کرنا مقصودہو تو وہ ایک الگ حصے میں لکھ دینی چاہئیں۔
٭٭٭٭٭٭

لسانیات کے مباحث
موضوع1:لسانیات کے معنی ،مفہوم اور ماہیت
لسانیات دو الفاظ کا مرکب ہے:لسان اور یات۔ لسان عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں زبان اور یات کے معنی علم کے ہیں یعنی زبان کے علم کو لسانیات کہتے ہیں۔بہت سے ماہرین زبان کے علم کو زبان کا سائنسی مطالعہ بھی کہتے ہیں کیونکہ جس طرح سائنسی علوم کے لیے تجربات، مشاہدات اور تجزیات کے بعد کسی نتیجے پر پہنچا جاتا ہے اس طرح لسانیات بھی ایک سائنسی مطالعہ ہے۔محی الدین قادری زور کے مطابق:
"لسانیات اس علم کو کہتے ہیں جس میں زبان کی ماہیت، تشکیل، ارتقا، زندگی اور موت سے متعلق آگاہی ہوتی ہے"
الفاظ کا وجود کیسے آتا ہے، زبان کا آغاز کیسے ہوا ؟ اردو میں ماہر لسانیات نسبتا کم ہیں۔ اس حوالے سے مغربی ماہرین کو الفاظ کے ماخذ تک زیادہ رسائی حاصل ہے۔ اگرچہ گلکرائسٹ نے سیاسی مقاصد کے لیے تراجم کروائے لیکن اس کا اردو ادب کو بہت زیادہ فائدہ پہنچا۔
لسانیات از مغربی مفکرین:
ایف سی باکٹ کے مطابق:
" زبان کے بارے میں منظم علوم کو لسانیات کہا جاتا ہے"
منظم علوم میں ساخت، بناوٹ ا،اجزائ،سمجھنا سمجھانا شامل ہیں۔ہر لفظ کو لسانیات میں شامل نہیں کیا جا سکتا جب تک اس پر مشاہدہ اور تحقیق نا کی جائے یا عملی طور پر اس کا تجزیہ نا کیا جائے۔لسانیات چونکہ سائنسی علم ہے لہذا بغیر تصدیق اورجانچ پرکھ کے کسی بات کو نہیں مانتی۔ایسا صرف تحقیقات کرکیممکن ہے۔ اسی طرح ہم زبان میں بھی ہر لفظ کو شامل نہیں کیا جا سکتا ہے۔
ہوکٹ Hocketکے مطابق:
" لسانیات سے مراد معلومات کا وہ ذخیرہ ہے جوکہ ماہر لسانیات کی تحقیقات کے نتیجے میں حاصل ہوتا ہے"۔
روٹیس کیمطابق:
"انسانی زندگی میں زبان کو جو مقام حاصل ہے اور زندگی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے زبان جو خدمات سرانجام دیتی ہیاور اپنے طریقہ کار کی جس طرح تنظیم کرتی ہے ماہر لسانیات اسے سائنسی انداز سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں"
لسانیات از مشرقی مفکرین :
اردو کے محققین نے بھی لسانیات پر نہایت عمدہ کام کیا ہے۔حامداللہ ندوی کے بقول:
"زبان کے مختلف پہلووں کا فنی مطالعہ لسانیات کہلاتا ہے۔زبان کا یہ فنی مطالعہ دو زمانی بھی ہوسکتا ہے اور ایک زمانی بھی۔دو زبانی مطالعے کی حیثیت تاریخی ہوتی ہیجس میں کسی زبان کی عہد بہ عہد ترقی اور مختلف ادوار میں اس کی نشوونما کا مطالعہ کیا جا تا ہے اورایک زمانی مطالعے کی حیثیت توضیحی ہوتی ہے جس میں ایک خاص وقت یا ایک خاص جگہ میں ایک زبان جس طرح بولی جاتی ہے اس کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔"
لسانیات کا کام الفاظ کی پرکھ کرنا ہے اس میں الفاظ کو مخصوص انداز میں سائنسی نقطہ نظر سے پرکھا جاتا ہے پھر لسانیات میں شامل کیا جاتا ہے۔اسے سائنسی مطالعے میں ڈھالنا ہے، اس کی صوتیات کو دیکھنا ہے کہ اس کی ادائیگی کس طرح ہوتی ہے۔لفظ کی بناوٹ کس طرح سے ہے۔الفاظ کو سائنسی مطالعے سے پرکھنے کے بعد لسانیات میں شامل کیا جاتا ہے۔ماہر لسانیات زبان کے مختلف حروف کا تجزیہ کرتے ہیں۔ سب سے پہلے الفاظ کے حوالے سے دیکھا جاتا ہے کہ یہ کس زبان سے تعلق رکھتے ہیں کیونکہ ماہر لسانیات کا کام مخصوص زبانوں تک محدود نہیں ہوتا ہے۔لسانیات کے حوالے سے دوسرے ماہرین کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے اسی وجہ سے ڈاکٹر سید عبداللہ وقار عظیم، ابواللیث صدیقی، ڈاکٹروحید قریشی نے زبان کے حوالے سے مختلف نظریات پیش کیے ہیں۔لیکن ایک نظریے پر اتفاق ہو تو وہ باقاعدہ صنف کا تعین کردیا جاتا ہے کہ یہ لفظ کس صنف سے تعلق رکھتا ہے۔
زبان کی ماہیت میں اصل پر غور کیا جاتا ہے۔ حقیقت پر بھی۔ماہرین لسانیات کا اردو ادب پر احسان ہیکہ جب زبان کی ماہیت پر غور کیا تو داستانوں کے فرضی ناموں اور قصوں سے جان چھڑا کر سائنسی بنادیاا ور اس کی اہمیت میں اضافہ کیا۔بقول شان الحق حقی:
"لفظ لسانیات انسانی بولیوں کے تحقیقء و تقابلء مطالعے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔"
فیروزاللغات کے مطابق:
" لسانیات زبان کی ابتدا ، ارتقائ￿ اور اس کی تشکیل کے قانون کا علم ہے۔ اس سے زبان کی تاریخ کا بھی پتہ چلتا ہے۔"
موضوع2:لسانیات کے انسانی زندگی پر اثرات
لسانیات کا انسانی زندگی پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ زبان اور ادب کے ساتھ اس کا گہرا تعلق ہے۔لسانیات کی مدد سے ہم قدیم سے قدیم اور جدید سے جدید ادب کی تشکیل اور تفہیم میں آسانی ہوتی ہے۔لسانیات کی مدد سے کس بھی زبان کے قواعد اور تراکیب کو باآسانی سمجھا جا سکتا ہے۔یہ کام ماہر لسانیات ہی کر سکتے ہیں۔لسانیات تاریخ کے ان گوشوں کو بھی بے نقاب کرتی ہیجو وقت کی دھند میں کہیں گم ہو چکے ہوتے ہیں۔ماہر لسانیات کا صرف اپنی زبان میں ماہر ہونا ضروری نہیں ہے۔بلکہ دوسری زبانوں کا ماہر ہونا ضروری ہے۔اگر اردو کا ماہر ہے تو فارسی اور عربی زبان کا ماہر ہونا بھی ضروری ہے۔نہ صرف آگہی بلکہ جانچ پڑتال ضروری ہے۔جو الفاظ متروک ہو چکے ہیںوہ کیوں متروک ہیں۔میرکا دیوان ولی کا کلام دیکھیں نہ وہ الفاظ استعمال ہیں جو اب متروک ہو چکے ہیں۔ لسانیات کے علم سے شاعر کے اسلوب سے بھی آگاہی ہوتی ہے اور اس دور کے متعلق معلومات ملتی ہیں۔
لسانیات میں مختلف زبانوں کے انسانی معاشروں کے درمیان پائے جانے والے تعلق اور رشتوں کی بازیافت کا کام بھی ہوتا ہے۔لسانیات کا کام سماجیات اور اس کے کئی پہلووں کو جانچنا اورپرکھنا اور اسے اجاگر کرنا ہوتا ہے۔ لسانیات تعصبات،قومیت اور وطنیت سے قطع نظر خطوں، ملکوں اور شہروں میں بنے ہوئے لوگوں کو لسانی خصوصیات کے مطابق نزدیک لانے کے اسباب پیدا کرتی ہے۔
زبان کے مختلف نام:
اب لسانیات کے مختلف نام مروج ہیں۔اس سے پہلے کیا تھا؟فرانس میں کارڈینل ریستلو نے 1635ء میں Richelienفروغ اکیڈمی قائم کی اس کا مقصد یہ تھا کہ یہ فرنچ زبان کی تمام جزئیات کو ضابطے اور سلیقے کے سانچے میں ڈھالے۔فرانس میں سترھویں صدی عیسوی میں بالائی متوسط طبقے کے چند افراد نے اپنی زبان کے ماہرین کی خدمات حاصل کیں۔ان کا مقصد یہ تھا کہ زبان کی تمام جزئیات کو پیش کرنا۔
ڈیوس:
ڈیوس نے 1716ء میں علم زبان کو گلاسولوجی Glossology کا نام دیا۔قدیم زمانے میں لسانیات کو قواعد کے مماثل سمجھا جاتا تھا۔ اس لیے اس کو کوئی الگ نام نہیں دیا جاتا تھا۔ مگر جب ہند یورپی زبانوں کا آپس میں تقابلی موازنہ اور تجزیہ کیا گیا تو اس موضوع پر لکھی گئی کتابوں کا نام " تقابلی قواعد" رکھا گیا۔مگر جب یہ معلوم ہوا کہ علم زبان صرف قواعد یا صرف و نحو تک محدود نہیں بلکہ اس میں مختلف آوازیں ،صوتیات اور معنویات کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے تو انیسویں صدی میں اس کا نام تقابلی فیلالوجی رکھا گیا۔
فیلالوجی:
فائلو معنی محبت اور لوجی معنی علم۔یوںفیلالوجی کا مطلب زبان کی محبت۔فیلالوجی یونانی زبان کا لفظ ہے جس کامطلب وہ علم ہے جس میں زبان کے حوالے سے کام کیا جائے۔اس کے بعد بعض لوگوں نے اعتراض کیا کہ تقابل کیا جائے تو تقابل تو سائنس میں بھی ہوتاہے۔اس لیے یہ لفظ مناسب نہیں صرف فیلالوجی رکھا جائے۔اس طرح انیسویں صدی میں فرانس میں علم زبان کا نام Linguisticsرائج ہو گیا۔لینگو لاطینی زبان کا لفظ ہے۔ Linguistics زبان کے علم کو کہا جاتا ہے۔انگریزی میں انیسویں صدی کے دوران علم زبان کے لیے Linguist کا لفظ استعمال ہونے لگا۔جو چند سالوں کے بعد Linguist کے نام سے مقبول ہوا۔اب لسانیات کے لیے Linguistics کا لفظ رائج ہو چکا ہے۔ اردو میں اس کو علم زبان یا لسانیات کہتے ہیں۔
لسانیات کی ابتدا:
زبان کے بارے میں مختلف ادوار میں مختلف آراء کا اظہار کیا گیا ہے۔بعض نے اسے عطیہ خداوندی کہا ہے۔بعض نے اسے مافوق الفطرت عناصر سے منسوب کیا ہے۔بعض نے دیوتاؤں کی دین سمجھا۔البتہ یہ ایک دلچسپی کا مسئلہ ہے کہ اس کی ابتدا کہاں سے ہوئی؟رگ،رگ،وید،وید ،ہندوؤ ں کی چار مذہبی کتابیں ہیں۔ان کتابوں میں سے رگ وید سب سے پہلی کتاب ہے۔یہ کتاب مناجات پر مشتمل ہے۔ زبان کے حوالے سے عین الحق فرید کوٹی لکھتے ہیں۔
"کہیں اس سے سرسوتی اور ثوث کو اس کا خالق قراردیا۔لیکن جب ہم دنیا کی قدیم ترین کتاب "رگ وید" میں واک بمعنی لفظ کے عنوانسے دیئے ہوئے ایک نغمہ حمد کا مطالعہ کرتے ہیں تو اسے موجودہ لسانیات کے نظریوں سے کافی حد تک مماثلت پا کر حیران رہ جاتے ہیں۔"
اس نغمے میں ایک دیوی ہے جس نے اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے۔اس کے منہ سے جو کلمات نکلے وہ پاکیزہ الفاظ تھے جسے عرصہ دراز سے انسان دل کی گہرائیوں میں چھپائے ہوا تھا۔پیار میں اس نے الفاظ کی چھان پھٹک کی اور نامناسب الفاظ نکال دیئے۔اچھے الفاظ رہنے دیئے۔الفاظ کی تلاش میں دور دراو علاقوں کا سفر طے کیا اور محنت کی۔مقامی لوگوں سے رابطے کیے اور خوبصورت آوازوں میں ان الفاظ کو گیتوں کی صورت میں ڈھالا گیا۔
عین الحق فرید کوٹی نے منظر کشی کی ہے:
"ایک آدمی تو بیٹھا ہوا شعر وں کے حسین پھول بکھیر رہا ہے۔دوسراہے کہ میٹھی دھنوں میں ایک نغمہ آلاپ رہاہے۔تیسرا بطور ایک برہمن کے اس عالم میں موجودات کے قانون بیان کر رہا ہے اورچوتھا مقدس قربانی کے حصوں کے لیے پیمانے مقرر کر رہا ہے۔"
سرسوتی دیوی کو زبان اور علم و ہنر کی دیوی کہا جاتا ہے۔لسانیات کی قدیم ترین تاریخ کے حوالیسے عین الحق فرید کوٹی کی کتاب "اردو زبان کی قدیم تاریخ" ہے۔
عہد نامہ عتیق میں زبان کی ابتدا سے متعلق لکھا ہے:
"اورخداوند فدا نے کل دشتی جانور اور ہوا کے کل پرندے مٹی سے بنائے ہیں اور ان کو آدم کے پاس لایا کہ دیکھیے وہ ان کے کیا نام رکھتا ہے۔اور آدم نے جس جانور کو جو کہا وہی اس کا نام ٹھہرا"
مشہور یونانی فلسفی اور مفکر افلاطون زبان کے مافوق الفطرت ماخذکا حامی نظر آتا ہے۔اگر چہ وہ اس معاملہ میں زیادہ ماہر نہیں اور تذبذب کا شکار ہے۔
اردو زبان اور اس کے لسانیاتی پہلوؤ ںسے دلچسپی:
اردو زبان اور اس کے لسانیاتی پہلوؤں سے سب سے پہلے دلچسپی انگریزوں کو ہوئی۔ پرتگالی،فرانسیسی، جرمن،اطالوی اور انگریز علما ء شامل تھے۔ انہوں نے نہایت شوق کے ساتھ اردو کے قواعد مرتب کیے۔لغات ترتیب دیئے اور اصول زبان سے متعلق کتابچے لکھے۔اس ضمن میں گلکرسٹ، شیکسپیئر، گارساں دتاسی، جان ڈوسن ، جان ٹی پلیٹیس، ایس ڈبلیو فلن کی خدمات قابل ذکر ہیں۔اردو لغت کی بات کرتے ہیں تو اس میں ہندوستان نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ اور بہت سی کتابیں لکھی ہیں۔ جو بہت زیادہ مقبول بھی ہوئیں ہیں۔
اردو زبان کی سب سے پہلی گرائمر ایک ڈچ شاعر نے تحریر کی جس کا نام کیٹلر تھا۔اور یہ ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی کا ڈائریکٹر تھا۔یہ ہندوستان میں ڈچ سفیر کی حیثیت سے آیا تھا۔ "صرف و نحو" کتاب 1701ء میں لکھی گئی۔اردو زبان کی پہلی لغت پر بات کرتے ہوئے S.K Husainلکھتے ہیں:
"جارج ہیڈلے نے اردو صرف ونحو پر ایک کتاب 1873ء میں تالیف کی۔جس میں ہندوستانی لغت بھی شامل ہے۔یہ انگریزی لغت نویسی کا پہلا خاکہ ہے۔یہ کتاب کافی مقبول ہوئی۔اس کے بعد جے فرگوسن نے ایک لغت ترتیب دی جس میں سے صرف و نحو کے لیے ایک حصہ مختص کیا۔"
فرگوسن کے بارے میں مولوی عبدالحق کا خیال ہے کہ:
"ڈاکٹر گلرائسٹ سے اول بھی ایک شخص(فرگوسن) نے اردو کی ایک لغت لکھی جو لندن میں 1773ء میں طبع ہوئی مگر بالکل ناکافی تھی۔جنرل ولیم کرک پیاٹرک نے ایک ڈکشنری لکھنے کا ارداہ کیا جس کے انھوں نے تین حصے کیے۔مگر اس کا ایک ہی حصہ طبع ہونے پایا۔اس حصے میں انہوں نے وہ الفاظ لیے جو عربی،فارسی اور ہندی میں آ گئے ہیں۔یہ ایک حصہ لندن میں 1985ء میں طبع ہوا۔"
انگریز ماہر لسانیات کی خدمات کا یہ نتیجہ نکلا کہ اردو زبان میں قواعد اور لغت کے حوالے سے اتنا وسیع ذخیرہ نکلا کہ غیر ملکیوں کے لیے اردو زبان سیکھنا کوئی مسئلہ نا رہا۔
موضوع3:زبان کیا ہے؟ زبان کے معنی ومفہوم، تاریخ و اہمیت
انسان اور انسانی خیالات میں اگر اس کا مطالعہ کیا جائے تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ انسان بچپن سے لے کر لڑکپن جوانی بڑھاپے اور اور اپنی عمر کے آخری لمحے تک زبان کا استعمال کسی نہ کسی صورت کرتا ہے۔ مثلا۔جب بچے کو کھانے پینے کی حاجت ہوتی ہے تو وہ بچہ جو بول کر اپنا مدعا بیان نہیں کرسکتاجیسے کہ بڑے کرسکتے ہیں مگر اس کے باوجود و ہ ہاتھوں کے اشاروں سے یا ٹانگوں کے اشاروں کی مدد سے مختلف حرکات سے مدد لیتا ہے۔
بچہ اشاروں اور حرکات کے ذریعے سے دوسروں کو متوجہ کرتا ہے۔ما ںاس کے اشاروں کو سمجھتی ہے۔ماں تھپکی یا لوری دے کر سلا دیتی ہے۔بڑا ہونے کے بعد وہ چیزوں کو مختلف نام دینا شروع کردیتا ہے اور پھر وہ وہی نام قبول کر لیتا ہے جو معاشرے میں رائج ہوتا ہے۔وہ معاشرے میں اپنے آس پاس کی زبان سن لیتا ہے۔اگروہ عام لوگوں سے متعلقہ ہے تو اس کی زبان بھی عام لوگوں جیسی ہوگی اگر خاص ہوتو اس کا اثر زبان پر پڑے گا۔زبان انسان کی ذہنی و جسمانی نشوونما اور فکری ارتقاء اورجسمانی بالیدگی کے ساتھ ابتدائی مراحل طے کرتی ہے۔
بچہ وہی زبان سیکھتا ہے جو اس کے اردگرد بولی جاتی ہے۔ معاشرے کا ہرفرد زبان کو اپنے دائرے اور وسعت عملی کے مطابق استعمال کرتا ہے۔اگر اس کاواسطہ عام لوگوں سے ہے تو اس کی زبان الفاظ بھی ویسے ہی ہوں گے۔اگر وہ کسی مخصوص شعبے سے تعلق رکھتا ہے تو اس کی زبان بھی ویسی ہی ہوگی۔یہ آس پاس کے ماحول پرمنحصر ہوتاہے۔
ادب اور سائنس کے لوگ ہیں ان کی زبان میں فرق ہوگا۔ادبیات سے تعلق رکھنے والے شخص کی زبان مختلف ہوگی۔سائنس کے شعبے سے تعلق رکھنے والے شخص کی زبان مختلف ہوگی۔اسی طرح کوئی شخص اان پڑھ ہوگا تو وہ زبان کو پڑھے لکھے لوگوں سے مختلف اندازمیں استعمال کرے گا۔ اسی طرح زبان ہر شعبے کے لوگوں کی مختلف ہوگی۔ہر شخص اپنی اہلیت کے اظہار کے لیے زبان استعمال کرتا ہے زبان انسان اور حیوان میں فرق ہے۔ حصی زبان وہ زبان جو بڑے ادیب ماضی میں استعمال کرتے تھے۔زبان کا آغاز کب اور کہاں سے ہوا کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ زبان کے ذریعے سے اپنے نظریات اور خیالات کا اظہار کیا جا سکتا ہے۔
فصیح زبان:
فصیح زبان وہ ہے جو ماضی میں بڑے بڑے ادیب استعمال کرتے تھے۔ زبان کی تاریخ انسانی تاریخ کی طرح قدیم ہے۔زبان کا آغاز کب ہوا اور کہاں سے ہوا اس کے باریوثوق سے نہیں کہا جا سکتا۔البتہ زبان کازندگی اور معاشرے سے گہرا تعلق ہے تما م تر سائنسی اور معاشرتی ترقی کا دارومدار زبان پر ہے۔زبان ہی وہ ذریعہ ہے جس کی مدد سے ہم نا صرف اپنے خیالات کا اظہار کرسکتے ہیں۔ بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ہم سوچتے ، سمجھتے اورغوروفکر کرتے ہیں اور اپنے خیالات و نظریات تحریری زبان کی صورت میں محفوط کرلیتے ہیں۔
زبان کے لغوی معنی:
لغت نگاروں اور ماہرین لسانیات نے مختلف تعریفیں پیش کیں ہیں:
" زبان 32 دانتوں کے درمیان گوشت کا لوتھڑا فارسی میں زبان، عربی میں لسان، انگریزی میں Tongue اور اردو میں جیب کہتے ہیں۔"
نور اللغات:
"لسان، زبان، جیب،بول چال اور روزمرہ زبان وہ بولی ہے جس کے ذریعے جذبات کااظہار کیا جا سکے۔"
زبان کے اصطلاحی معنی:
" وہ صلاحیت جس کی مدد سے انسان ذاتی اور اجتماعی معاملات کے لیے ماحول اور معاشرتی حالات کے تقاضوں کے مطابق لکھ کر یا بول کر اظہار کر سکے۔"
فیروز اللغات:
• جیب، لسان
• بول چال، محاورہ، بولی، بات ،گفتگو
• قول، اقرار، وعدہ
• بیان
ڈاکٹر محی الدین قادری زور:
"زبان خیالات کا مجموعہ ہے اس کا کام یہ ہے کہ لفظوں اور فقروں کے توسط سے انسانوں کے ذہنی مفہوم اور دلائلاور ان کے عام خیالات کی ترجمانی کرے۔اس ترجمانی میں حرکات جسمانی بھی شامل ہیں جو کسی مفہوم کے سمجھانے کے لیے خاص خاص زبان بولنے والوں کے درمیان مشترک ہوتی ہیں۔"
پس زبان کی واضع تعریف ان الفاظ میں کی جاتی ہے:"زبان، انسانی خیالات اور احساسات کی پیدا کی گئی ہے اور ان تمام اشاروں اور حرکتوں کا نام ہے۔
اظہار کی دو صورتیں ہیں:تقریری اور تحریری۔قوت گویائی دراصل ہماری زبان کی حقیقی شکل ہے۔
برجموہن:
" زبان تخیل اور خیال کے ظاہر کرنے یا اپنا مطلب ادا کرنے کا ذریعہ ہے۔ہمارا مقصد ناقطہ کے ذریعے اظہار خیال سے ہے جس کا تعلق آواز سے ہے۔
ڈاکٹر اقتدار حسین:
ڈاکٹر اقتدار حسین اپنی کتاب لسانیات کے بنیادی اصول میں لکھتے ہیں کہ:
" لسانیات کی رو سے زبان ایک ایسی خود اختیاری اور روایتی صوتی علامتوں کے نظام کہتے ہیں جو کہ انسان اپنے سماج میں اظہار خیال کے لیے استعمال کرتا ہے"
زبان دراصل آوازوں کا مجموعہ ہے۔بول چال اس کاپہلا روپ جبکہ تحریر اس کا ثانوی روپ ہے۔ زبان ایک تغیر پذیر شے ہے جو اپنا الگ نظام رکھتی ہے۔جن زبانوں کو بولنے والے زیادہ ہیں وہ زندہ زبانیں ہیں اور جن کو بولنے والے کم وہ گئے ہیں وہ مردہ زبانیں کہلاتی ہیں۔
زبا ن کے دو پہلو ہیں۔
• اشارتی پہلو(ہمہ گیر پہلو اختیار نہیں کرسکا)
• صوتی پہلو
اشارتی پہلو زیادہ دیرپا ثابت نا ہوسکا اس کا وجود مٹ جانا تھاجبکہ تحریری چیز صدیوں چلتی ہیں۔
ڈارون کا نظریہ:
اشارتی زبان کے لیے ہاتھوں کا ہونا ضروری ہے نیزاس کے لیے روشنی کا ہونا بھی ضروری ہے۔جبکہ معذور لوگ ہاتھوں کے بغیر بھی زبان کا اظہار کرتے ہیں۔زبان کا صوتی پہلو زندہ جاوید ہے۔
جان ڈیوی :
جان ڈیوی نے زبان کے صوتی پہلو کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ:
"زبان کے وجود کا دارومدار کسی بولنے والے پر ہی نہیں بلکہ سننے والے پر بھی منھصر ہے۔"
گلیسن کے مطابق:
زبان کے تین عناصرہیں:
• اظہار کی ساختStructure of Expression
• مواد کی ساخت Structure of Content
• ذخیرہ الفاظ Vocabulary
کچھ الفاظ ایک ہزار سال میں ÷20 بدلے جا سکتے ہیں۔
قدیم ترین زبان:
سامی یا سمیری زبان کو دنیا کی قدیم ترین زبان مانا جاتا ہے۔ یہ نوح? کے عہد کی زبان ہے۔اس کا تذکرہ عہد نامہ عتیق میں ملتا ہے۔بابل میں مینار کی تعمیر پر زبان کا اختلاف پیدا ہوا۔یہ لوگ جدا ہو کر الگ ہو کر رہنے لگیجس سے ان کی زبانیں ایک دوسرے سے مختلف ہو گئیں اور تلفظ کا اختلاف بھی پیدا ہوا۔یوں ان کا اصل زبان سے کوئی تعلق نا رہا۔
"سام" نوح کے بیٹے تھے۔اور سامی زبان کا آغاز آپ سے ہوا۔سام کے 3 بیٹے تھے۔ان کے ناموں پر زبانیں بنیں۔
• آرام(آپ کی نسل حجاز سے یمن تک آباد ہوئے اور آپ کی زبان آرامی کہلائی)
• عابر (عبرانی/عبری زبان )
• عاشور(شام /سوریہ میں آباد ہوئے)اس کو سریانی زبان بھی کہتے ہیں۔
قدیم بابل میں سمیری زبان بولی جاتی تھی۔یہ زبانیں تاریخی تغیرات کے باوجود ایک دوسرے پر اثر انداز ہوئیں۔اورتقریبا2000 قبل مسیح تک بولی جاتی رہیں۔
اگرچہ اب یہ زبانیں ختم ہو چکی ہیں اور ان کے بولنے والے معدوم ہو چکے ہیں۔البتہ تورات سریانی زبان میں محفوظ ہے اور عہدحاضر میں اسرائیل میں عبرانی زبان کو زندہ کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔
حضرت نوح ؑ کے تین بیٹے تھے۔
سام
آریائی زبانوں کا آغازسام کی نسل سے ہوا۔ یورپی اقوام کا تعلق سام کی نسل سے ہے۔ان کو سفید فام کہا جاتا ہے۔
عام
یہ افریقہ کے سیاہ فام حبشی اور قدیم ہندوستانی باشندے ہیں۔ ان کو سیاہ فام کہا جاتا ہے۔
یاس/ یافث
ان کا تعلق منگول نسل سے تھا۔ ان کو زرد فام کہا جاتا ہے۔
قدیم ترین زبانوں کا سراغ لگانے میں دقت پیش آتی ہے۔یعنی جو زبانیں معدوم ہو چکی ہیں ان کا صرف کھنڈرات میں ہی سراغ ملتا ہے۔آدم? کو پہلے عبرانی زبان اور پھرمعافی کے لیے عربی زبان سکھائی گئی۔ فرہنگ آصفیہ میں آدم کے معنی گندم اور رہنما کے ہیں نیز سریانی زبان میں اس کا معنی "مایوس" کے ہیں۔جبکہ حوا کے معنی جز کے ہیں ہیں عربی میں یہ مونث ہے سانولے یا سیاہ ہونٹوں والی کو کہتے ہیں۔
جان شیکسپیئر:
جان شیکسپئیر کہتے ہیں کہ وہ تمام زندوں کی ماں ہے
عہد نامہ عتیق:
عہد نامہ عتیق میں میں ابوالبشر ابو اللسان آدم علیہ السلام کو کہا جاتا ہے۔
فرہنگ آصفیہ:
فرنگ آصفیہ کے مطابق سریانی زبان آدم علیہ السلام کی تھی۔
حضرت شاہ عبدالطیف:
حضرت شاہ عبدالطیف کے مطابق حضرت آدم جب بہشت میں تھے تو عربی بولتے تھے۔ جب ان کو سزا کے طور پر زمین میں بھیجا گیا اور حضرت جبرائیل و میکائیل نے ان کے سر سے تاج اتار لیا تو عربی زبان کو ختم کردیا گیا تھا اور ان کے منہ پر سریانی زبان چڑھا دی گئی تھی۔اور جب ان کی توبہ قبول ہوئی تھی تو ان کو دوبارہ سے عربی زبان دے دی گئی تھی۔
مصنف تاریخ خامیس:
آدمؑ کو اللہ نے تمام زبانیں سکھائیں اور انہوں نے اپنے ہر بچے سے الگ زبان میں گفتگو کی اور وہ زبان یوں پھیلی۔غور و فکر کی صلاحیت اللہ نے انسان کو دی ہے اور اظہار کے لیے مختلف طریقے استعمال کرتا ہے یا نشانی استعمال کرتا ہے۔
• زبان • نشان/نشانی
• کپڑے پر گرہ • ماضی میں ڈوپٹے کو گرہ لگاکر چیزیں یاد رکھا جاتا تھا۔
زبان کی ماہیت:
زبان اپنی ساخت اور ماہیت کے اعتبار سے مختلف علامات اورتشریحات پر مبنی ہے اس کے علاوہ زبان کے ارتقاء اورنشوونما میں تصویریں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ الفاظ اور حروف کی ایجاد سے پہلے انسان علامات، اشارات اور تصویروں کی مدد سے اپنا مدعا دوسروں کے آگے بیان کرتا تھا۔زبان اظہار کا ذریعہ ہے وقت گزرنے کے ساتھ جوں جوں انسان ترقی کرتا ہے زبان میں بھی مختلف اصطلاحات ،محاورے وغیرہ کا اضافہ ہوتا چلاجاتا ہے۔زبان ایسی نعمت ہے جو صرف انسان کو ودیعت کی گئی ہے۔چاہے انسان پڑھا لکھا ہو یا ان پڑھ ،روزمرہ زندگی کے معاملات زبان کی بدولت ہی ممکن ہے۔زبان دوسرے انسانوںسے تعلقات استوار کرتی ہے۔
گیان چند جین:
"زبان بامقصد من مانی قابل تجزیہ صوتی علامات کا وہ نظام ہے جس کے ذریعے سے ایک انسانی گروہ کے افراد اپنے خیالات کی ترسیل و ترجمانی باہمی کرتے ہیں۔"
زبان ایک مسلسل عمل ہے۔جو انسان اپنی پیدائش سے لے کر سیکھتا ہے اور سیکھتا ہی چلاجاتا ہے۔ معاشرے میں ہر فرد دوسرے سے زبان اور حروف کے ذریعہ سے تبادلہ کرتا ہے اسی سے زبان پنپتی ہے اور ترقی کرتی ہے زبان دراصل سماجی ورثہ ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ سماجی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں اور یہ سماج کے لوگوں کی وجہ سے ہوتی ہے زبان کسی سوچے سمجھے طریقے سے وجود میں نہین آئی تھی بلکہ یہ خودبخود معرض وجود میں آئی۔
محی الدین قادری زور:
" زبان کی تشکیل اور ارتقا براہ راست انسانی خیالات کی تشکیل پر منحصر ہے زبان کی تفہیم آوازوں کے علاوہ انسانی احساسات و خیالات پر مبنی ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ فہم انسانی کے نفسیاتی قوانین بھی ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہوتے ہیں"
الفاظ حروف کا مجموعہ ہوتے ہیں اور یہ حروف اکائیوں کی حیثیت رکھتے ہیں جب یہ اکائیاں مختلف الفاظ کی صورت میں وقوع پذیر ہوتی ہیں اور اجتماعی طور پر اشتراکی عمل سے گزرتی ہیں تو یہی بے معنی حروف مختلف زاویوں سے وقع پذیر ہو کر ایک جہاں معنی کی صورت اختیار کرلیتے ہیں۔
جیسا کہ( ق۔ا۔ل۔ب) الگ سے کوئی حیثیت نہیں رکھتا لیکن جب ہم اس کو اکٹھا کرلیتے ہیں توایک جہان معنی کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔الفاظ اور معنی باہم گہرا ربط رکھتے ہیں اور بعض اوقات ایسا ہوتا ہیکہ الفاظ وہی رہتے ہیں لیکن معنی اپنی حیثیت بدل لیتے ہیں۔معنی کی تبدیلی حالات و واقعات کے ساتھ ہوتی ہے۔ زبان کو شروع ہی سے ہر شعبہ حیات میں اہم مقام رہا ہے۔جب زبان کسی سانچے میں ڈھلتی ہے تو تب ہی انسان اپنا مدعا بیان کرتا ہے۔دراصل یہ جتنی بھی ترقی ہے یہ ترقی زبان کی ترقی سے مشروط ہوتی ہے وہ معاشرہ جو ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا ہے وہ اپنی زبان کی تراش خراش پر توجہ دیتے ہیں۔ترقی کے مختلف مدارج یعنی سماجی ترقی،معاشی ترقی ،معاشرتی ترقی وغیرہ سب کے لیے زبان کی ترقی ضروری ہے۔اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی زبان زیادہ دیر تک چلے تو اس کے بولنے والے زیادہ ہوں۔اس طرح سے زبان ترقی کے مختلف مدارج طے کرتی ہے۔
اختر حسین رائے پوری:
" انسان کی سب سے بڑی ایجاد زبان ہے اور ادب اس کے تخلیقی اظہار سے عبارت ہے زبان کی ترقی معاشرے کی ترقی سے وابستہ ہے۔"
سائنس و ٹیکنالوجی ہی نہیں بلکہ شعر وادب کے میدان میں بھی زبان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ زبان اور ذخیرہ الفاظ شعرو ادب کی وجہ سے محفوظ ہیں۔اور جب تحریری شکل میں محفوظ ہوں تو زبان زیادہ دیر تک قائم رہ سکتی ہے اور ترقی کر سکتی ہے۔
مرزا خلیل احمد بیگ:
"زبان کی لسانیاتی سطح سے قطع نظر اس کی ایک سطح اور ہوتی ہے جو اس کی ادبی سطح کہلاتی ہے۔ ادبی سطح پر بھی زبان کی جڑیں سماج اور تہذیب کی ہر کروٹ زبان کے وسیلے سے ادب میں منعکس ہوتی ہیں۔گویا زبان وادب سماج اور تہذیب کی آئینہ دار ہوتی ہے۔"
زبان اگر فصیح ہو گی تو آپ کا معاشرہ بھی ترقی کرے گا۔ماہرین لسانیات کے مطابق انسان کی سب سے بڑی کامیابی اس کی زبان اور دوسری کامیابی اس کی تحریر ہے۔ سب سے پہلے انسان سنتا ہے ،سمجھتا ہے، اظہار کرتا ہے اور تحریر کرتا ہے۔زبان انہیں متاثر کرتی ہے۔چاہے کوئی ا ن پڑھ ہے کوئی مہذب ہوے وہ خیالات کے اظہار کے لیے زبان کا ہی سہارا لیتا ہے۔بہتر طریقے سے اپنے مقاصد کو بیان کر سکت اہے۔ زبان جتنی فصیح و بلیغ ہوگی آپ کا ادب بھی اتنا فصیح و بلیغ ہوگا۔
محمد ساجد خاکوانی :
"انسانی معاشرے میں ادب کی اہمیت نونہال کے لئے پانی کی مانند ہے۔ قبیلہ بنونوح انسان ان کے بہترین اذہان ادب تخلیق کرتے ہیں اور ادب کی ترویج اوراشاعت کی واحد بہترین بیساکھی زبان ہی ہے۔ حتیٰ کے بہترین ادب کی تخلیق کے لئے بعض اوقات تعلیم کی شرط ناکافی ہو جاتی ہے۔"
زبان میں جو بھی تبدیلی آتی ہے وہ انسانی زندگی پر بھی اثرا نداز ہوتی ہے۔زبان کی انفرادی کوئی حیثیت نہیں۔ ریاست کی وجہ سے ہی زبان پھلتی پھولتی اور پنپتی ہے۔ زبان انسانوں میں رابطے کا بہترین ذریعہ ہے۔ زبان انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔زبان کو انسان سے جد ا نہیں کیا جا سکتا۔زبان و علم کی ترقی زبان ہی کی بدولت ممکن ہے۔
موضوع4: زبان کے خاندان
زبانیں کیسے پیدا ہوئیں؟اس سوال کے جواب پر ماہرین متفق نہیں ہیں۔ کسی نے کہا ہے غیر ذی روح اشیاء مثلاً پانی، ہوا وغیرہ کے شور کی نقل سے الفاظ بنائے گئے۔ کسی نے دعوی کیا کہ حیوانات کی آوازوں سے الفاظ اخذ کئے گئے۔ کوئی انسان کی ضطراری یا نعروں کو زبان کی بنیاد قرار دیتا ہے۔ ان قیاس آرائیوںکی بنا پر بہت کم الفاظ کا پتا چلتا ہے۔
ایک بات قابل توجہ ہے، حیوانات اور انسان کو خواص خمسہ اور جبلتیں عطا ہوئی ہیں۔ انسان کو علم ،شعور ارادہ ،اختیار اور قوت گویائی سے بھی نوازا گیا۔ حواس خمسہ اور جبلتوں کے علاوہ ان مذکورہ اوصاف سے گویائی یا بیان کا گہرا تعلق ہے جس نے یہ صفات عطا کیں،اسی نے قوت گویائی بھی عطا کی۔گویائی یا بیان بھی اسی کی دین ہے۔ سورۃ رحمٰن کی تیسری اور چوتھی آیت میں بتایا گیا ہے کہ اللہ عزوجل نے انسان کو پیدا کیا اور اسے بولنا سکھایا( اسے زبان عطا کی)۔
فرنچ اکیڈمی کے نزدیک دنیا میں 2796 زبانیں ہیں۔شمالی امریکہ میں 351،میکسیکو اور وسطی امریکہ میں96 اور جنوبی امریکہ میں783۔ یہ امریکہ کے قدیم باشندوں ، امریکی ہندیوں(Red Indians) کی زبانیں ہیں۔ان کی صحیح گروہ بندی ابھی تک نہیں ہوئی۔بیشتر زبانوں کا مطالعہ کم ہوا ہے۔ جزائر بحرالکاہل کی زبانوں کا پورا مطالعہ بھی نہیں ہوا۔تقریبایہی حال افریقی زبانوں کا ہے جنہیں چار گروہوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔یہ گروہ حسب ذیل ہیں :(جہاں زبانوں کی تعداد لکھیں ہے وہاں زبانوں سے بیشتر بولیاں مراد ہیں)۔
1۔سوڈان گنی گروہ:
435 زبانیں۔یہ گروہ مشرقی افریقہ سے مغربی افریقہ تک، خط استوا کے اوپر پھیلا ہوا ہے۔
2۔بانتو خاندان:
83زبانیں۔۔۔۔یہ خاندان افریقہ کے وسطی اور جنوبی حصوں میں پھیلا ہوا ہے۔
3۔لش مین گروہ:
6 زبانیں۔
4۔حامی سامی خاندان:
46 زبانیں۔(حام اور سام حضرت نوح علیہ السلام کے دو بیٹے تھے) یہ زبانیں شمالی افریقہ میں بولی جاتی ہیں۔ حامیوں کو سامیوں نے بحیرہ روم کے ساحل سے نیچے کی طرف دھکیل دیا تھا۔غیر متعین زبانوں سے قطع نظر یورپ اور ایشیا میں زبانوں کے حسب ذیل خاندان ہیں:
سامی خاندان:
اس خاندان کی اہم زبان عربی ہے ہے۔حجازی ،عراقی، شامی اور مصری اس کی مختلف شکلیں ہیں۔ شمالی افریقہ میں طرابلسی ،تیونسی، الجزائری، مغربی اندلسی اور مالٹائی کا تعلق عربی سے ہے۔ دوسری اہم زبان عبرانی ہے جو بول چال کی حیثیت سے مردہ ہو چکی تھی۔ اب بھی کسی کی مادری زبان نہیں ہے تاہم یہ اسرائیل کی سرکاری زبان ہے۔
شمالی خطے کی زبانیں:
اس خاندان میں گرین لینڈ کی اسکیمو زبان اہم ہے۔ یہ خاندان الاسکا سیسائیبریا تک پھیلا ہوا ہے۔
یورال ور التائی خاندان:
یور الی 32 اور التائی 43 زبانوں پر مشتمل ہے۔یورال اور الطائی پہاڑوں کے نام ہیں۔ یورال کوہ قاف کے شمال اور الطائی منگولیا میں ہے۔
قافی خاندان:
قافی یا کاکیشیائی خاندان کی 26زبانیں ہیں۔اس خاندان کا تعلق کو و قاف کے علاقے سے ہے۔
تبت چینی خاندان:
اس میں115 زبانیں ہیں۔ یہ خاندان چین ، تبت، برما ،تری پورہ، ناگالینڈ ، میگھالے اور تھائی لینڈ میں پھیلا ہوا ہے۔
جاپانی کوریائی خاندان:
اس خاندان میں یہی دو زبانیں ہیں۔ جا پان نے تیسری صدی عیسوی میں چینی رسم الخط اختیار کیا۔
آسٹرو ایشیائی خاندان:
آسٹرو ایشیائی میں چام، کھاسی نکو ہار گروہ،مون کھمیر گروہ اور منڈا زبانیں شامل ہیں۔منڈا کوکول کہا جاتا تھا جس کا مفہوم سنسکرت میں سور ہے۔ گریرسن نے منڈا نام رکھ دیا جس کا مطلب منڈاری میں سردار ہے۔منڈا زبانوں میں منڈاری کے علاوہ سنتھالی،کرکو،کھڑیا اور کناوری وغیرہ شامل ہیں۔ان کا مرکز چھوٹا ناگپور ہے، اسے جھاڑکھنڈ کہتے ہیں۔ منڈا زبانوں میں سنتھالی اور منڈاری کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔
دراوڑ خاندان:
دراوڑی خاندان میں 26 زبانیں ہیں۔ ان میں بلوچستان کی براہوی شامل ہے۔ کرکھ زبان بہار، اڑیسہ اور مدھیہ پردیش سے گھرے ہوئے علاقے میں بولی جاتی ہے۔ دراوڑی خاندان کی زبانیں جنوبی ہند میں پھلی پھولیں۔ ان میں سب سے پرانی تامل ہے۔یہ زبان تامل ناڈو، شمالی لنکا اور ملائیشیا کے بعض حصوں میں بولی جاتی ہے۔ کنٹر کرناٹک کی زبان ہے۔ملیالم اور تیلگو بھی اہم زبانیں ہیں۔تیلگو بولنے والے سب سے زیادہ ہیں۔
ہند یورپی خاندان:
اس میں 132 زبانیں ہیں۔ یہ زبانوں کا اہم ترین خاندان ہے۔امریکہ،آسٹریلیا اور یورپ کے براعظموں کے علاوہ ایران، افغانستان، آرمینیہ اور برصغیر پر حاوی ہے۔اس کی دو شاخیں کینٹم اور ستم ہیں۔ ذیلی خاندان یہ ہیں:
1۔ کینٹم: حتی، طخاری، یونانی، اطالوی، ایرانی، ٹیوٹافی(جرمن)، کیٹلک
2۔ البانوی، بالتک، سلافی، آرمینیائی، ہند ایرانی
ٹیوٹافی یا جرمن خاندان کی انگریزی اہم ترین زبان ہے۔ اسے بین الاقوامی حیثیت حاصل ہے۔ یہ برطانیہ ،امریکہ، نیوزی لینڈ، آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ (کے گوروں کی) مادری زبان بھی ہے۔
ہند ایرانی یا آریانی کی تین شاخیں ہیں:
• ایرانی • دردستانی • ہند آریائی
ایرانی گھرانے کی سب سے اہم زبان فارسی ہے۔رضا شاہ پہلوی کے عہد میں اس سے عربی الفاظ نکالنے کی مہم چلی،ان کی جگہ آریائی الفاظ رکھے گئے۔فرانسیسی الفاظ کو بھی مفرس کرکے رواج دیا گیا۔ ایرانی گھرانے کی دوسری زبانوں میں کردی، مازندرانی، تالی، دری،اوسیتی، غلچہ (پامیر کی بولیاں)،پشتو،ا رمی اور بلوچی شامل ہیں۔
دری زبانیں کشمیر کے شمالی اور شمال مغربی اطراف میں بولی جاتی ہیں۔کشمیری،کشتواری، شنا، کوہستانی ، چترالی اور کلاشا زبانیں دری گروہ میں شامل ہیں۔ ڈاکٹر محمد یوسف بخاری کشمیری کی اصل بروشکی بتاتے ہیں جو ان کے نزدیک غیر آریائی( تورانی گروہ کی ) زبان ہے اور شورسینی پراکرت یا ا پ بھرنش (آریائی) کے سہارے زبان کے درجے پر فائز ہوئی۔شورسینی پراکرت اردو کے راست سلسلہ نسب میں آتی ہے۔شورسینی ادبی زبان تھی، اس کی ابتدائ￿ بول چال کی شکل اردو کی نانی قرار دی جاسکتی ہے۔
ہند آریائی زبانوں میں سندھی، سرائیکی، پنجابی، اردو(ہندی)، گجراتی ، راجستھانی، بہاری ،بنگالی، آسامی، اڑیا، مراٹھی، نیپالی اور دوسری پہاڑی زبانیں شامل ہیں۔اردو(ہندی) ہند آریائی کی اہم ترین زبان ہے۔اسے برصغیر میں لنگو افرنیکا کا درجہ حاصل ہے۔ یہ زبان دنیا کی چند ایک بڑی زبانوں میں شامل ہے۔
برصغیر میں نسل انسانی کا آغاز نہیں ہوا۔یہاں جو اقوام بھی آئیں، باہر سے آئیں۔ افریقہ کے حبشی نسل کے "نیگریٹو(Negrito)" غالبا سب سے پہلے یہاں آئے۔ ان کی نسل ختم ہوتی گئی۔ڈاکٹر سینتی کمار چیٹرجی نے اپنے ایک رسالے " لینگوجز اینڈ لنگوسٹک پرابلمز" میں لکھا ہے:
"1931ء میں "جزائر انڈیمان" میں ان کی تعداد 500 تھی۔ اس نسل کے لسانی اثرات کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔ نیگریٹو نسل کے بعد یہاں کول یا منڈا قبائل آئے۔انہیں پروٹو آسٹرالائڈ (Proto-Astealoide) بھی کہا جاتا ہے۔چیٹرجی نے انہیں " آسٹرک" کہا ہے۔"
پروفیسر گیان چند جین کی وضاحت کے مطابق :
"آسٹرک عالمی زبانوں کا ایک گروہ ہے جس میں جزائر بحر الکاہل کی زبانوں کے علاوہ ملایا، پولی نیشیائی خاندان(633 زبانیں) اور آسٹرو ایشیائی خاندان (52زبانیں) شامل ہیں۔آسٹرو ایشیائی خاندان میں برما اور تھائی لینڈ کا مون کھمیر گھرانہ اور ہندوستان کی منڈا زبانیں شامل ہیں۔ان زبانوں کا علاقہ جھاڑکنڈ ہے۔اس کے علاوہ یہ زبانیں آندرا پردیش اور ہماچل پردیش کے بعض حصوں میں بھی بولی جاتی ہیں۔"
چیٹرجی نے مذکورہ کتابچے میں خیال ظاہر کیا ہے کہ آسٹرک قبائل مغرب سے آئے اور مشرق کی طرف سیلون، برما، ہند چینی، ملایا اور انڈونیشیا میں آباد ہوتے ہوئے آسٹریلیا جا پہنچے۔ظاہر ہے کہ بحر الکاہل کے دوسرے جزائر بھی ان کی پہنچ سے باہر نہیں رہے۔
تیسرا گروہ دراوڑوں کا ہے جو 3500 ق-م میں سندھ میں وارد ہوا اور پنجاب کی طرف پیش قدمی کی۔دراوڑ بحیرہ روم کے علاقوں سے آئے تھے۔ انہوں نے سندھ اور جنوبی پنجاب میں عظیم شہری تہذیب کی بنیاد ڈالی۔بقول چیٹرجی وہ گنگا کی وادی میں بھی پہنچے جہاں ان کا ملاپ آسٹرک بولنے والوں سے ہوا۔چیٹرجی لکھتے ہیں کہ:
" ہندوستانی تمدن کی تشکیل کا سہرا ان کے سر نہیں بلکہ اس کی بنیادیں فراہم کرنے میں بڑا حصہ غیر آریائی لوگوں کا تھا۔ دراوڑ شہروں میں بستے تھے، ان کے سامنے آریا محض خانہ بدوش وحشی تھے۔آریا 1500ق-م میں برصغیر آئے۔ ان کا اصل وطن وسط ایشیا سے یورپ کی سرحدوں تک وسیع تھا۔یہ لوگ یورپ ،ایران اور برصغیر کے بڑے حصے پر پھیل گئے۔ "
پروفیسر گیان چند نے لکھا ہے:
"آریوں کے اصل وطن کے سلسلے میں پسندیدہ نظریئے دو ہیں۔پہلا یہ کہ ان کا اصلی وطن بحر اخضر اور والگا ندی کے دہانے کے بیچ کا علاقہ تھا۔ دوسرا یہ کہ یورال کا جنوبی علاقہ ان کا اصلی وطن تھا۔"
بقول مسعود حسین:
"وسطی ایشیا والے نظریئے کی تائید ان ریکارڈوں سے ہوتی ہے جو 1906ء میں ایشیائے کوچک میں دریافت ہوئے ہیں اور جن کا تعلق 1500 ق-م سے ہے۔ان ریکارڈوں میں بعض دیوی دیوتاؤں کے نام مثلا اندرا، ارونا وغیرہ سنسکرت کی مقدس کتابوں میں جوں کے توں پائے جاتے ہیں۔ بالخصوص اعداد سنسکرت کے اعداد سے بالکل مشابہ ہیں۔"
دو ہزار قبل مسیح آریا ایران میں داخل ہوئے۔ایران میں آریائی(ہند آریائی) کی تشکیل ہوئی۔ برصغیر میں آریوں کی آمد کا سلسلہ کئی صدیوں تک جاری رہا۔ یہاں ان کا سامنا دراوڑوں سے ہوا۔دراوڑوں نے سخت مزاحمت کی۔بقول چیٹرجی :
"شاید پنجاب میں بڑی خوفناک مدافعت ہوئی اور پنجاب ہی میں آریاؤں کی سب سے بڑی آبادیاں قائم ہوئیں۔رفتہ رفتہ آریا شمالی ہند(بشمول موجودہ پاکستان، بنگلہ دیش) اور شمالی دکن میں پھیل گئے۔"
مہذب دراوڑ عسکری اعتبار سے کمزور نکلے۔آریا دراز قد اور نیم وحشی تھی۔ انہوں نے دراوڑوں کو مار مارکر بھاگنے پر مجبور کردیا۔دوراڑوں نے وطن چھوڑا اور دکن چلے گئے۔ وہاں آریوں کا تسلط نہ ہوسکا۔دراوڑوں کی نسلیں اور زبانیں وہیں پھلی پھولیں۔جو دراوڑ دکن نہ جا سکے، انہیں آریوں کا خدمت گار بننا پرا۔وہ حقیر و ذلیل ہو کر رہ گئے اور شودروں میں شامل ہو گئے۔
یہ درست ہے کہ ہندوستانی تمدن کی تشکیل میں دراوڑوں کا بڑاحصہ ہے۔وہ ترقی یافتہ تمدن کے مالک تھے۔ آریوںمیں ان کی رسم و رواج پا گئیں، مذہبی خیالات نفوذ کر گئے اور ان کی اشیا کا استعمال آریوں میں عام ہوتا گیا۔ان اشیا کے نام بھی آریائی زبانوں میں شامل ہو گئے۔اسما کے دخیل ہونے سے زبانوں کی ساخت نہیں بدلتی۔آریائی آبادیوں میں آریائی بولیاں حاوی رہیں۔ آریوں نے دیہاتوں کی شکل میں بستیاں بسائیں۔وہ فاتح تھے، اکثریت میں تھے، انہیں کیا مجبوری تھی کہ اپنی زبانیں چھوڑ کر دراوڑی زبانیں اختیار کرے البتہ دراوڑوں نے رفتہ رفتہ آریائی بولیوں کو اختیار کرلیا ،دراوڑوں کی ایک بولی "براہوی" بلوچستان میں محفوظ رہ گئی۔
موضوع 5:زبان اور بولی میں فرق
زبان:
زبان خیالات و احساسات کا ذریعہ اظہار ہے۔جذبات و احساسات کی شکل زبان ہے اس کا کام لفظوں اور فقروں کے توسط سے ان کے ذہنی مفہوم و دلائل اور ان کے عام خیالات کی ترجمانی کرنا ہے۔زبان بولیوں کے مجموعے کا نام ہے۔
بولی :
بولی کسی زبان کی وہ ذیلی شاخ ہے جس کے بولنے والوں کو زبان کے کسی اختلاف کا احساس نہیں ہوتا البتہ کسی زبان کی ایک بولی بولنے والوں کو اسی زبان کی دوسری بولی کے تلفظ کے فرق کا احساس ہوتا ہے۔ہر زبان کا ہر بولی کا مخصوص انداز ہوتا ہے زبان چشمے کی حیثیت رکھتی ہے اور بولی اس سے پھوٹنے والی نہریں۔بولی ایک ایسی زبان ہے جو کسی علاقے میں رائج ہوتی ہے اس کی کوئی ادبی حیثیت نہیں ہوتی۔ زبان جس قدر وسیع ہو گی اس کی بولیاں بھی اسی قدر وسیع ہو گی۔ بولی عام فہم زبان ہے جو ہم مقامی لوگوں سے سیکھتے ہیں ایک بولی بولنے والے عام طور پر ایک زبان استعمال کرتے ہیں ہر علاقے کی بولی کا مخصوص انداز ہوتا ہے۔
تلفظ کا اختلاف:
بولی قواعد و ضوابط سے آزاد ہوتی ہے بولیوں میں لفظ کی ادائیگی میں اختلاف پایا جاتا ہے مختلف علاقوں میں مختلف بولیاں بولی جاتی ہیں۔بعض بولیاں ترقی کرکے زبان کا منصب حاصل کر لیتی ہے اور بعض جگہوں پر صرف بولی بن کر رہ جاتی ہے۔ ہمارے ملک میں قبائلی علاقے ہیں جو غیر متمدن ہیں وہاں نقل مکانی کے مواقع کم ہوتے ہیں ان کے تلفظ میں اختلاف پایا جاتا ہے۔
زبان کا نظام:
ہر زبان اپنا نظام رکھتی ہے۔ یہ مختلف عناصر پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس کے قواعد و ضوابط ہوتے ہیں مثلا صرف و نحو اس میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ ماہرین لسانیات کا کہنا ہے زبان استعمال کرنے والا اگر اس نظام سے واقف نہیں جس سے زبان کی تشکیل ہوئی تو وہ صحیح طور پر زبان استعمال نہیں کر سکتا مثلا انگریزی زبان کے ماہر دواشخاص آپس میں گفتگو کرتے ہیں تو وہ ایک دوسرے کی بات اس لئے سمجھ سکتے ہیں کیونکہ وہ انگریزی زبان کے نظام سے واقف ہیں۔ اسی لئے جس قدر کسی زبان کے قواعد و ضوابط اس کے نظام سے واقف ہوں گے اسی قدر زبان کا استعمال سہولت سے ہوگا۔ اس کے ساتھ آوازوں کے نظام کو سمجھ کر معنی و مفہوم کا ادراک زیادہ بہتر طور سے کر سکتے ہیں۔ بعض ماہرین کے مطابق غیر مادری زبان سیکھنے کے لئے زبان کے نظام سے واقفیت ضروری ہے لیکن مادری زبان سیکھنے کے لئے نہیں۔
زبان ایک سماجی عمل:
انسان اور معاشرہ لازم و ملزوم ہیں۔کسی معاشرے میں رہنے والے افراد جو مقامی بولی بولتے ہیں اس کے اثرات زبان میں آجاتے ہیں۔ بولی سے مراد زبان کا اپنی اصل شکل سے تبدیلی لانا ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں اسی لیے انسان کو سماجی حیوان کہتے ہیں کیونکہ وہ دوسروں کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ زبان بھی ایک سماجی عمل ہے اگر زبان اپنے مرکز سے دور ہو تو وہ اپنے ارتقائی مراحل طے کرتی ہے۔ مرکزی معیار سے رشتہ ٹوٹ جانے کی وجہ سے زبان کا علاقائی رخ سامنے آتا ہے وہ مقامی زبان کہلائے گی۔ ایک زبان ایک سے زیادہ لسانی ماحول میں بولی جارہی ہو تو قدرتی طور پر دوسری زبان کے اثرات مرتب ہوں گے اور یہ لسانی تغیرات زبان کی جس شکل کو پیش کریں گے۔وہ لسانی زبان کہلاتی ہے۔
زبان میں طبقاتی فرق کے اثرات :
ادب اور لسانیات کے ماہرین بخوبی جانتے ہیں کہ مختلف معروضی حالات اور ادوار میں ہر زبان میں دو طرح کا ادب تخلیق پاتا ہے ایک خو اس کے لئے اور دوسرا ادب عوام کے لئے اس تصادم کا زبان اور بولی پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے اس سکوت،جمود اور غاصبیت کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
پیشہ ورانہ بولیاں :
زبان کی ایک قسم اس کے بولنے والوں کے پیشوں سے تعلق رکھتی ہے۔جیسے تجارت پیشہ لوگوں کی زبان مختلف ہوگی، وکالت کا پیشہ اختیار کرنے والے افراد کی زبان اور ہوگی ،سکول کالج اور یونیورسٹی کے اساتذہ کی بولی ان کا لب و لہجہ الفاظ کی ادائیگی میں فرق ہوگا۔ زبان میں اس طرح کے واضح فرق سامنے آتے ہیں اسے پیشہ ورانہ زبان کہتے ہیں۔ہر زبان بولنے والا مرضی کے مطابق قواعد اور لغت استعمال کرتا ہے جو لاشعوری طور پر ہوتا ہے۔ بعض اوقات محاورات کا استعمال تشبیہات وغیرہ کا استعمال اس کے بولنیوالے کی ذہنی تربیت اور شخصیت کا مظہر خیال کیا جاتا ہے۔ اس طرح کی بولی کو فرد کی بولی کہا جاتا ہے۔بولی زبان کی فطری شکل ہے جو علاقائی، لسانی، سماجی، شخصی اور پیشے کے اثرات کا نتیجہ ہوتی ہے۔کسی زبان کی بولیاں جن تبدیلیوں کی وجہ سے وجود میں آتی ہیں ان کے سلسلوں کو مختلف سطحوں پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔بولیاں مختلف سماجی اور جغرافیائی حدود میں لسانی خطوط بناتی ہیں۔بولیوںکاتصور ہر زبان میں ناگزیر ہے۔
انشاء اللہ خاں انشا نے دریائے لطافت میں سب سے پہلے بولیوں کی پہچان اور نشاندہی کی۔ اس کے بعدمولوی عبدالحق نے بھی چند مضامین لکھے تھے۔ ان میں ایک مضمون اردو کی زبان اہم ہے اور ان کی تحریروں میں ان کا دھیان دکنی اردو پرگیا۔ محی الدین قادری اپنی کتاب"ہندوستانی لسانیات"میں دل کھول کر لکھتے ہیں عبدالقادر سروری نے دکنی بولی کے موضوع پر دل کھول کر لکھا۔اسی سلسلے میں عبدالغفار شکیل کی کتاب" دکنی اردو کی ابتدا اور ارتقا"، " زبان اور مسائل زبان" فہمیدہ بیگم نے " لسانی تحقیق" گوپی چند نارنگ نے ‘‘Language & Linguistics’’میں بولی کے صوتی، حرفی اور لفظی پہلووں کا جائزہ لیا۔"اردو کی بولیاں" اور" عمرانی لسانیات" میں اردو کے مختلف پہلوؤں پر عمرانی لسانیاتی نقطہ نظر سے روشنی ڈالی گئی ہے۔اس کے علاوہ سماجی لسانی اور علاقائی بولیوں کا ذکر بھی ملتا ہے۔جہاں جغرافیائی حالات بھی بولیوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔اردو کی ساخت پر ان زبانوں کے لسانی اثرات مرتب ہوئے۔جس کے نتیجے میں اردو کی بہت سی لسانی بولیاں سامنے آئیں۔
موضوع6: زبان کی مختلف سطحیں(معنویات)
معنویات:
وہ علم ہے جو معنی اور اس کے متعلقات سے بحث کرتا ہے اور معنی وہ ذہنی شبیہ ہے جو ہر لفظ کی صوتی شبہ کے پیچھے چھپی ہوتی ہے۔چنانچہ لفظ اور معنی کا رشتہ اٹوٹ ہوتا ہے۔ لفظ سے معنی اور معنی سے لفظ جدا نہیں ہو سکتا۔ جس طرح الفاظ کی آوازوں کا مطالعہ صوتیات کہلاتا ہے اسی طرح معنی کا مطالعہ معنویات کہلاتا ہے اور یہ دونوں لسانیات کے اہم حصے ہیں۔ یعنی لفظ وہ اشارہ ہے جس کی طرف معنی اشارہ کرتا ہے اور زبان دونوں کے ربط کا دوسرا نام ہے۔ پروفیسر جوز شور کہتے ہیں :
‘‘انسانی معاشرے میں لفظ کی جو قدروقیمت ہے وہ صرف اس کے معنی کی بدولت ہے جو اس میں چھپا ہوتا ہے ناکہ ان مفرد آوازوں کی جن سے لفظ مرکب ہوتا ہے"
آوازوں کے بے مقصد مرکب کے لحاظ سے لفظ کو بھی لسانیات میں کوئی منزلت حاصل نہیں ہو سکتی۔جس سے یہ نتیجہ نکالا جاتا ہے کہ فطرت انسانی کے نقطہ نظر سے معنی کو لفظ پر ترجیح حاصل ہے۔ بعض اوقات لوگ زبان کی طرح معنی میں بھی تعریفیت کا سراغ لگاتے ہیں۔ڈاکٹر سہیل بخاری کہتے ہیں:
"اس غلط سوچ نے علم بیان کے محققوں کو بہت بھٹکایا ہے معنویات مطالعہ معنی ہے اور مطالعہ معنی گرامر کا مطالعہ ہے۔"
یہ خیال بھی پچھلے خیال کی طرح بے بنیاد ہیں معنویات مطالعہ معنی ضرور ہے لیکن گرامر کا معنی یا مطالعہ معنی سے کوئی تعلق نہیں رکھتا گرامر کلام کے ظاہر یا ہیت کا مطالعہ کرتی ہے اور اس کے اجزا اور ارکان کے درمیان باہمی روابط کو توجہ کا مرکز بناتی ہے اس طرح گرامر اور معنویات کا دائرہ ایک دوسرے سے الگ ہیں۔
لفظ اور معنی کا تعلق:
زندگی ایک با مقصد حقیقت ہے جس کی ہر حرکت اور ہر کیفیت کی کوئی نہ کوئی غا یت ہوتی ہے۔سانپ حملہ کرنے کے لیے پھن اٹھاتا ہے اور بگلا مچھلی پکڑنے کے لئے چپ سادھ لیتا ہے یہ تمام اشارے ہیں اور ان کا کوئی نہ کوئی مقصد ہے۔آنکھ مارنا شرارتوں سازش کا مظہر ہے ہاتھ پھیلانا ذلت کی علامت ہے۔یہ پوری کائنات جو ہمارے حواس کے سامنے پھیلی ہوئی ہے فکر کا ایک جہان آباد ہے اس میں ہر جز کو ایک انفرادی حیثیت حاصل ہے۔ انسانی فطرت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنے جہاں فکر کو دوسرے سے متعارف کرائے۔ انسان اس غرض کے لئے قوت گویائی استعمال کرتا ہے اور دوسروں کے مابین ایک ذریعہ مواصلات بناتا ہے گویائی کا مقصد معنی کی ترسیل ہے۔
معنی اس ذہنی شبیہ کو کہتے ہیں جو ہر لفظ کی صوتی شبی کے پیچھے چھپی ہوتی ہے۔ مثلاً دن سے مراد ہم دن کا وہ حصہ لیتے ہیں جو سورج کی شعاعوں سے روشن ہوتا ہے۔اور اس میں زندگی اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ رواں دواں ہوتی ہے۔انسانی ذہن ہرنئی صوتی شبیہ کو اپنی سابقہ معلومات کی مدد سے معنی عطا کرتا ہے۔
معنویا ت کا اہم ترین موضوع لفظ اور معنی ہیں جس کی نوعیت مادی نہیں ہوتی۔یعنی دونوں کے درمیان ہمارے حواس خمسہ کا عمل دخل بالکل نہیں ہے نہ دونوں کی شکلیں ملتی ہیں نہ آوازیں مثلا لفظ باگھ شیر کی تحریری شکل اس درندے کی تصویر سے نہیں ملتی ہے وہی اس جانور کی دھاڑ سے ملتی ہے۔اگر لفظ اور معنی میں کوئی مادی رشتہ ہو تو دنیا میں تمام زبانوں میں اس لفظ کے معنی ایک ہی ہوتے ہیں۔
وجہ تسمیہ :
لفظ اور معنی میں ذہنی رشتہ ثابت ہونے کے بعد یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کسی شخص کے لیے کوئی لفظ کس طرح وضع کیا گیا ہے یعنی تسمیہ کیوں کر عمل میں آیا اس طریقہ کار کو سمجھنے کے لئے لفظ "چال "جو رفتار کے لیے وضع ہوا ہے ایک مقام سے دوسرے مقام تک حرکت کرنے کے عمل کو اس لفظ سے ظاہر کیا گیا ہے اور پھر اس عمل کو دوسری اقسام کیفیات متعلقات اور پہلوؤں کے لیے بھی استعمال کیا گیا۔ جیسے چلنا ،چلاؤ، چالان، چلنے والا، چلا،چلن وغیرہ بہت سے الفاظ وضع کر لیے گئے۔ لیکن ان سب میں ایک چیز مشترک ہے وہ ہے چال۔کیونکہ چال رفتار کی مختلف صورتیں ہیں لیکن غور طلب وہ ابتدائی لفظ ہے جسے رفتار سے متعلق کیا گیا ہے۔رفتار کا مطلب عمل کرنا اور چال لفظ ہے دونوں کے درمیان مشابہت کا رشتہ نہیں ہے تو کوئی دوسرا لفظ جاگ، جام، توڑ وغیرہ مقرر کیے جا سکتے تھے۔ ابتدا میں واضح زبان نے اس عمل سے یہی لفظ وابستہ کردیا تو بس نہ کوئی منطقی وجہ بیان کی نہ دلیل دی۔ جب ایک بار یہ نام استعمال ہونے لگا تو سب نیاسے تسلیم کرلیا۔ یعنی نام دوہرائی تسمیہ کی غرض اشیائ￿ کی پہچان ہے اور ان کے مختلف نام رکھنے کا سبب ان کیباہمی اختلافات ہیں۔ انسان نے پہلے اشیائ￿ کی خصوصیات پر غور کیا ان کے خواص دیکھے ،ان کی بنا پر ان کے نام رکھے۔ گرائمر نے ان کو صفات کہا اور یہی ان کے لئے تسمیہ کی بنیاد بن گئیں۔
گرائمرکی رو سے بھی اسم اور صفت ایک ہی چیز ہیں یعنی ایک ہی لفظ دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے مثلا لفظ اجلا بطور صفت یعنی صاف استعمال : پلنگ پر اجلی چادر لگا دو و معنی بطور اسم اجلا بو لنے سے ذہن میں آ جائے تو یہی معنویات ہے۔
معنی کی اہمیت:
انسان اپنا ما فی الضمیر بیان کرتا ہے اس کے پیش نظر وہ لفظ نہیں خیال ہوتا ہے جو وہ بتانا چاہتا ہے اور سننے والا اس کی بات کو سمجھ جاتا ہے۔ اس کے معنی و مفہوم تک رسائی ہو جاتی ہے۔ لفظ کی اہمیت نہیں ہوتی۔ خیال اور پس منظر کی اہمیت ہوتی ہے کیونکہ معنی کے لیے لفظ استعمال کرتے ہیں لفظ کے لیے معنی پیدا نہیں کرتے۔ معنی ہمیں فطرت عطا کرتی ہیں لفظ کا جامہ اسے ہم خود پہناتے ہیں لفظ کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔
"معنی روح ہے اور لفظ بدن یا معنی جسم ہے اور لفظ لباس یا معنی مغز ہے اور لفظ پوست معنی کو لفظ پر فوقیت حاصل ہے لفظ اور معنی لازم و ملزوم ہیں"
اگر لفظ نہ ہو تو ہم دوسروں تک اپنا عندیہ اور منشا کیسے پہنچائیں گے۔بولتے وقت جب ہمیں موضوع لفظ یاد نہیں آتا یافوری طور پر دستیاب نہیں ہوتا تو ہم ایک دم کوئی دوسرا قریب المعنی لفظ بول جاتے ہیں۔ کبھی اردو بولتے بولتے یکایک عربی یا انگریزی یعنی غیر زبان کا لفظ بول جاتے ہیں۔لفظ کا انتخاب اس لحاظ سے کرتے ہیں جو اسے ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے۔بعض اوقات دوسری زبانوں کا سہارا لیتے ہیں۔ اس کے پیش نظر اہمیت معنی کی ہوتی ہے جس کے لئے وہ لفظ تلاش کرتے ہیں۔ معنی سے انسان کا تعلق جذباتی ہے۔ بعض اوقات معنی کے معاملے میں اس قدر حساس اور جانب دار بن جاتا ہے کہ اس کے ذکر سے ہی اس میں خوف نفرت وغیرہ پیدا ہوجاتی ہے۔ مردوں کے مقابلے میں عورتیں زیادہ جذباتی ہوتی ہیں۔ رات کے وقت سانپ کا لفظ استعمال کرنے کے بجائے رسی کے نام سے ذکر کرتی ہیں بعض اوقات غصے کی وجہ سے لوگوں کو گدھا بولنا ،الو کا لفظ استعمال کرنا اس کی حیثیت کو اس کے ساتھ منسوب کرتے ہیں۔
معنی کی تقسیم:
• حسی یا تاثراتی
• فکری یا تصوراتی
• موضوعاتی جامد نامیاتی
حسی یا تاثراتی تقسیم:
اس میں وہ تمام مادی اشیاء جو ہمارے حواس کو متاثر کرتی ہیں شامل ہیں جن کا علم ہم اپنے حواس خمسہ سے حاصل کرتے ہیں۔بناوٹ ،ذائقے وغیرہ عناصر فطرت ہوا ،پانی، آگ مظاہر قدرت سورج ،چاند، زمین ،آسمان وغیرہ رنگ بو ، خاص فرد احمد، عارف وغیرہ شامل ہیں۔
فکری یا تصوراتی تقسیم:
اس قسم میں ہمارے مجرد تصورات شامل ہیں جس کی بظاہر کوئی شکل نہیں ہوتی مثلا اداسی ،سچائی، گھبراہٹ ،خوشی، چاؤ، بھولا پن ،امید وغیرہ ان معنی کو ہم حواس سے نہیں جان سکتے بلکہ صرف سمجھ سکتے ہیں۔معنی کی دوسری بڑی قسم اسمی ہے اس کی تقسیم نام کے لحاظ تین ہیں:
واحدالاسم :
اس میں معنی کے لئے صرف ایک لفظ استعمال ہوتا ہے جیسے کاغذ
کثیر الاسم:
معنی کی نشاندہی کے لیے ایک سے زیادہ مترادف الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں ہیں جیسے اجلا، چمکیلا ،چٹا وغیرہ
شریک الاسم:
جس کا نام دوسرے معنی کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے قحط سے ہم موت کے معنی لے سکتے ہیں جوڑا لفظ سے ہم کپڑوں کا جوڑا لوگوں کا جوڑا جوتوں کا جوڑا سمجھ سکتے ہیں۔
موضوعاتی تقسیم:
جامدتقسیم: یہ معنی اپنے تصور میں محدود اور خاص ہوتے ہیں کراچی لاہور علی داود وغیرہ یعنی اگرکراچی کہتے ہیں تو آج بھی کل بھی اس کا معنی کراچی ہی ہوگا۔
نامیاتی تقسیم:
یہ معنی نہایت عام غیر محدود قابل تغیر ہوتے ہیں۔جیسے انسانوں کی بہت سی بستیوں کو شہر کہا جاتا ہے حالانکہ وہ ایک دوسرے سے چھوٹے بڑے ہوتے ہیں۔آب و ہوا کا فرق ہوتا ہے رقبے کے لحاظ سے فرق ہوتا ہے۔ اسی طرح ہر انسان اپنے کم عمر بیٹے کو لڑکا کہتا ہے۔ ان کی عمروں میں فرق ہوتا ہے، اسی طرح محاوروں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
کان مروڑنا سزا کے معنی میں
جتانا اپنی نزاکت تمہیں ہے گلشن میں
تم اس خطا پہ ذرا گل کے کان تو پکڑو
نفسیاتی تقسیم:
1۔حقیقی معنی
حقیقی معنی وہ ہیں جن کے لیے واضعین زبان نے کوئی ایک لفظ وضع کر دیا۔مثلا چا ند زمین کے گردگھومتا ہے، یہ چمکیلا کرہ انسانی جسم کا وہ حصہ جس سے کام لیا جائے وہ ہاتھ کہلاتا ہے۔
2۔مجازی معنی
مجازی معنی کسی وجہ سے ایک بار وضع ہونے والے لفظ جب کسی خصوصیت کے پیش نظر ان الفاظ چاند ہاتھ کو بالترتیب بیٹے اور قابو کرنے کے لیے استعمال کیا گیا تو یہ ان کے مجازی معنی قرار پائے۔ الو ایک پرندہ ہے جسے ہمارے یہاں منحوس سمجھا جاتا ہے لیکن مجازاً اس سے احمق آدمی بھی مراد لیتے ہیں حقیقی اور مجازی معنی میں تعلق ہوتا ہے جسے قرینہ کہتے ہیں۔
معنوی تبدیلی کی اقسام:
ایک ہی لفظ کوجب سب مختلف سیاق و سباق میں استعمال کرتے ہیں تو اس کے معنی میں کچھ تبدیلیاں آ جاتی ہیں۔ لفظ کے محض ایک آواز بدل جانے یا گھٹ بڑھ جانیسے معنی بدل جاتے ہیں۔مثلا اندھی نابینا عورت اور آندھی تیز ہوا ایک موقع وہ ہوتا ہے جب بولنے والا ارادے کے طور پر معنی بدل لیتا ہے۔ یہ صورت لہجے کی تبدیلی آواز کے اتار چڑھاؤ سے پیدا ہوتی ہے۔مثال کے طور پر لفظ اچھا اس کے چار معنی نکلیں گے۔
• آپ کا حکم ہے تو اچھا • اچھا تاکید کے معنی میں
• اچھا اس نے یہ کہا تھا سوالیہ انداز • اچھا یہ سازش طنز کے طور پر
لہجے میں تبدیلی کیفیت اور معنی بدل دیتی ہے ماحول کے بدل جانے سے بھی لفظ کے معنی بدل جاتے ہیں۔
معنیات کی تاریخ یا ارتقاء :
معنیات سے مراد معنی کا مطالعہ ہے معنی کے مطالعے سے عالموں کو بہت پرانے زمانے سے ہی دلچسپی رہی ہے۔ یہی فلسفیوں اور منطقیوں کو بطورِ خاص اس شغف رہا ہے۔اس کی وجہ سے بے شمار لغات اب تک مرتب ہو چکی ہیں۔لان جائنس کے مطابق:
‘‘معنیات کی اصطلاح انیسویں صدی کے اواخر میں یونانی فعل سے وضع کی گئی ہے جس کے معنی ہیں اِشارہ کرنا۔"
شیوزن اوہم کے مطابق:
"ریزنگ نے انیسویں صدی کی چوتھی دہائی میں معنیات کو لسانیات کی ایک جداگانہ شاخ کی حیثیت دی۔"
ہوکٹ اور گلین کی کتابیں امریکہ میں اہم درسی کتابیں سمجھی جاتی رہی ہیں۔ مگر ان میں معدنیات کا ذکر نہیں۔اس سے ہم یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ انہوں نے اس موضوع کو لسانیات میں شامل ہی نہیں کیا۔ آج بھی بہت سے ماہرین معنی کے مطالعے کی اہمیت کے قائل نہیں۔اسٹیفن کے مطابق اس منفی رویے کا سرا بلوم فیلڈ کی تعلیمات سے جا ملتا ہے۔چومسکی نے معنیات کواپنی قواعد کے تین عناصرمیں شامل کیا اس کے بعد سے معنیات کو باقاعدہ طور پر لسانیات کی ایک اہم شاخ تصور کیا جانے لگا۔
معنیات پر ماہر لسانیات کے علاوہ ماہربشریات نے بھی کام کیا ہے انہیں اپنے زیر تحقیق حق موضوعات پر جہاں مشکل پیش آئی ان کی بنا پر معنی کے بعض نظریات وجود میں آئے متعدد کتابیں لکھی گئیں ابھی اس کے باوجود لان جائنس کہتا ہے :
"اب تک کسی جامع اور اطمینان بخش نظریہ پیش کرنا شاید ممکن نہیں ہم کہہ سکتے ہیں زبان کا ہر لفظ معنی رکھتا ہے"
روایتی قواعد میں لفظ کو نحو اور معنیات کو بنیادی اکائی سمجھا جاتا ہے۔ لفظ ایک علامت ہے اور اس کے دو پہلو ہیں جنہیں بقول لان جائنس لفظ کی ہیت اور اس کے معنی کہنا چاہیے۔ یونان کے قدیم عہد میں فلسفیوں نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ الفاظ کا ان اشیاء سے کیا تعلق ہے جس کی طرف وہ اشارہ کرتے ہیں۔ان کے نزدیک معنی کا یہ رشتہ اشیائ￿ کو نام دینے کا تھا۔رفتہ رفتہ از منہ وسطی میں یہ فارمولا بن گیا کہ کسی زبان کے بولنے والوں کے ذہنوں میں کسی شے کے بارے میں جو تعقل تصور ہوتا ہے۔ اس بنا پر لفظ کی ہیت اس شے کی جانب اشارہ کرتی ہے اس نقطہ نظر کی رو سے گویا تعقل کو معنی قرار دیا گیا ہے۔
موضوع 7:زبان کی مختلف سطحیں(صوتیات، لفظیات، نحویات)
صوتیات:
صوتیات لسانیات کی ایک شاخ ہے ،اس میں آوازوں کی ادائیگی کا مطالعہ کیا جاتا ہے؛ آوازیں کیسے پیدا ہوتی ہیں، آوازوں کی درجہ بندی کیسے کی جاتی ہے۔لسانیات کے اس شعبے میں انسانی اعضائے تکلم سے پیدا ہونے والی آوازوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔صوتیات تکلمی آوازوں یا اصوات کے سائنسی مطالعے کا نام ہے۔ اس میں اصوات کے اجزائ، ماہیت، نوعیت اور کیفیات سے بحث کی جاتی ہے۔ڈیوڈ کرسٹل کے بقول:
"اعضائے صوت کا مطالعہ جن کی مدد سے ہم تکلم یا کلام کی بنیادی آوازوں کو ادا کرتے ہیں۔آوازکی لہروں کا مطالعہ یعنی ہوا کا وہ عمل جس کے ذریعے سیایک شخص کے بولے ہوئے الفاظ دوسروں تک پہنچتے ہیں نیز وہ طریقہ جس سے انسان آوازوں کا ادراک کرتا ہے۔یہ تینوں چیزیں لسانیات کی اس اہم شاخ کے تین باہم مربوط پہلو ہیں جنہیں صوتیات کا نام دیا جاتا ہے۔"
• اعضائے صوت کا مطالعہ • آواز کی لہروں کا مطالعہ
• آوازوں کا ادراک • صوتیات کا آغاز
قدیم ہند کی روایت :
پہلی روایت یہ ہے کہ اس کا تعلق ویدک اورسنسکرت سے ہے۔ قدیم ہند میں سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے رہنے والے الفاظ،حمدیہ مصرعے ،اشلوک جس زبان میں تھے وہ زبان مروجہ نہیں رہی۔ مقدس منتروں کی ادائیگی کی اغلاط سے بچنے کے لئے انہوں نے گرائمر اور صوتیات کو فروغ دیا۔اگر ہم گرائمر کی بات کریں تو صوتیات کی پہلی گرامر سولہویں صدی میں بنائی گئی اس کا نام اشت ادھائے رکھا بعض لوگ اسے ویدک اور بعض سنسکرت زبان کی گرائمر کہتے ہیں۔
قدیم لاطینی اور یونانی روایت:
یہ روایت برائے نام ہے اس میں افلاطون نے باصدا اور بے صدا آوازوں میں تفریق توضرور کی ہیمگر زبان کا صوتیاتی تجزیہ نہیں کیاہے۔
مشرق وسطی کی عربی صوتیات کی روایت:
مشرق وسطی کی عربی صوتیات کی روایت جدید مغربی صوتیات کی روایت سے سینکڑوں سال قبل قائم ہو چکی تھی۔ لیکن اہل مغرب کو اس کا علم نہیں تھا۔چونکہ عربی کا تعلق سامی خاندان سے ہے اس لیے ہند یورپی لسانیات نے اس سے خاص استفادہ نہیں اٹھایا۔انیسویں صدی میں "گرم"(Grim)نے صوتیاتی تبادل کا تذکرہ نظریہ حروف کے طور پر کیا۔ مولوی عبدالحق کے قابل قدرکتاب اردو قواعد کا آغاز" ہجہ" کی بحث سے ہوتا ہے۔ ابھی تک ترقی پذیر اقوام کی کتابوں کا پہلا باب ہجہ یا حروف تہجی سے شروع کرتے ہیں۔
صوتیات کے مطالعہ کے زاویے:
صوتیات کا مطالعہ تین زاویوں سے کیا جاتا ہے۔
توضیحی /تکلمی صوتیات:Articulatory Phonetics
اس میں اجزائے صوت کے میکانی عمل ،اجزائے صوت، مخارج ادا اور طریقہ ادا کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔یعنی کون کون سے عضلات حرکت میں آتے ہیں جو ہمیں تکلم میں مدد دیتے ہیں جیسا کہ زبان اور جسمانی عضلات وغیرہ
کیفیاتی/طبیعاتی صوتیات: Acoustics Phonetics
اس میں صوتی لہروں ، اسں کی ترسیل، خصوصیات ،نوعیت اور کیفیات کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔اس میں آواز کی رفتار ، لینگتھ، پچ وغیرہ میں گفتگو کرتے ہیں۔اس کے علاوہ مختلف آلات استعمال کیے جاتے ہیں جن سے آوازوں کو ناپا جا سکتا ہے۔
سمعی صوتیاتAuditory Phonetics:
یعنی سننے کا عمل کیسے شروع ہوا۔آواز کان تک کیسے پہنچتی ہے، دماغ کیسے عمل کرتا ہے۔ ایک کے مقابلے میں دوسری آوازوں کو کیسے پہچانا جاتا ہے اس کو سمعی صوتیات میں موضوع بحث لایا جاتا ہے۔
لفظیاتMorphology:
لسانیات میں لفظ کی تعریف کچھ یوں کی جاتی ہے:
"یہ ایسی آزاد شکل اور لسانی روپ ہے جو پورے طور پر دو یا دو سے زیادہ آزاد مارفیموں میں تقسیم نا کیا جا سکے۔ عموما لفظ کو لکھتے وقت اس کے آس پاس خالی جگہ چھوڑ دی جاتی ہے یا بولتے وقت یہ کہا جاتا ہے کہ لفظ وہ جس سے پہلے اور بعد میں وقفہ ممکن ہے۔ لفظ کی پہچان یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ یہ اکیلا پورے جملے کے مفہوم کو ادا کرنے کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔"
گیان چند جین لفظ کی تعریف یوں کرتے ہیں:
"لفظ کوئی سنجیدہ لسانیاتی اصطلاح نہیں۔ یہ قواعد کی اصطلاح ہے۔ عام خیال یہ ہے کہ یہ وہ عنصر ہے جس کو لکھتے وقت دونوں طرف کچھ جگہیں چھوڑی جاتی ہے۔"
لفظیات کئی کئی آوازیں ملنے سے ایک لفظ بنتا ہے ،لفظ ہی زبان ہے کیونکہ معنویت جو زبان کی جان اور پہچان ہے، لفظ سے شروع اور لفظ پر ہی ختم ی ہوجاتی ہے۔ڈاکٹر سہیل بخاری لفظیات کی تعریف یوں کرتے ہیں:
"جس طرح کئی کئی آوازوں سے ایک لفظ بنتا ہے ،اسی طرح کئی کئی لفظوں سے ایسی اور کوئی لسانی اکائی نہیں بنتی جسے لفظوں کے مقابلے میں وہی حیثیت حاصل ہے جو آوازوں کے مقابلے میں لفظ کو حاصل ہے۔البتہ ایک لفظ سے دوسرا لفظ بن ہی جاتا ہے ، چنانچہ آوازوں سے لفظ کا بننا زبان کی تخلیق یا اس کا وجود میں آنا ہے اور لفظ سے جو لفظ بنتا ہے وہ اس کی توسیع اور ارتقاء ہے۔ زبان کی تخلیق اور توسیع میں بنیادی فرق ہوتا ہے۔"
رکن:
لفظ چاہے آوازوں سے براہ راست بنایا گیا ہو چاہے کسی دوسرے لفظ سے تراشا گیا ہو، دونوں حال میں اس کی مقدار کا تعین ضرورکیا گیا ہے جس کا پیمانہ رکن کہلاتا ہے۔یہی کلام کی مختصر ترین اکائی ہے اس کو انگریزی میں (Syllable) کہتے ہیں۔
لہجہ :
لہجہ اردو کا ہر لفظ کم از کم ایک رکن یا زیادہ سے زیادہ تین ارکان پر مشتمل ہوتا ہے۔ یعنی ہماری زبان میں تین ارکان سے زیادہ کا لفظ نہیں بولا جاتا۔اگر لفظ سازی میں کسی لفظ کے رکن تین سے زیادہ ہو جائیں تو انہیں مختصر کر کے تین ارکان تک لے جاتے ہیں۔ اردو کا لہجہ اختصارکی طرف مائل ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ تین تو تین دو ارکان سے بننے والے الفاظ بھی چھوٹے کرلئے جاتے ہیں۔
بناوٹ کے لحاظ سے لفظ کی اقسام:
بناوٹ کے لحاظ سے الفاظ کی درج ذیل قسمیں ہیں۔وہ الفاظ دوسرے لفظوں سے نہیں بنتے۔یہ ابتدائی الفاظ ہیں جو براہ راست آوازوں سے بنتے ہیں۔ ان کی بھی دو قسمیں ہیں۔
مصدر :
یہ وہ ابتدائی الفاظ ہیں جن سے دوسرے الفاظ بنتے ہیں ان کو مادہ کہتے ہیں۔مثلا آنا مصدر سے آؤ، آئی، آئیں، آئے وغیرہ بنتے ہیں۔
جامد:
وہ ابتدائی لفظ ہے جن سے دوسرے لفظ نہیں بنتے جیسے میں، نے کو، اور ،وغیرہ ان کی الگ حیثیت ہے۔
نحویات:Syntax
اس میں فقروں اورجملوںمیں الفاظ کی ترتیب کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔اس میں مرکب جملوں اور عبارتوں سے متعلق تفصیل سے بحث کی جاتی ہے۔ غرضیکہ اجزائے کلام کو ترتیب دینے اور جدا جدا کلمات کے باہمی ربط، الفاظ کی ترتیب ان میں ربط و تعلق کا حال معلوم کرنے کے علم کو نحویات کہتے ہیں۔ یہ کلام کو اس غلطی سے بچاتا ہے جس سے اس کا مطلب ادھورا رہ جاتا ہے۔ اس سے کلمات کے باہمی ربط اور تعلق کا پتہ چلتا ہے۔ڈاکٹر اقتدار حسین کے بقول:
"لفظ کے اوپر جملوں تک پہنچنے میں کئی سطحیں ہو سکتی ہیں۔ لفظ سے اوپر کی تمام سطحوں کے مطالعے کو نحو کہتے ہیں۔"
ماہرین کا خیال ہے کہ جملہ قواعد کی تشریح کی سب سے بڑی اکائی ہے۔نحویات میں ان اصولوں کو دیکھا جاتا ہے۔ماہرین لسانیات کی رو سے اس بات کی کوئی اہمیت نہیں کہ زبان میں جملوں کو کس طرح توڑا جاتا ہے بلکہ اہمیت اس بات کی ہے کہ جملے کس طرح بنتے ہیں۔ڈیوڈ کرسٹل کے مطابق:
"ماہر نحویات کا یہ کام ہے کہ وہ زبان کے ان اصولوں کو دریافت کرے جس کے ذریعے ہم پتہ لگا سکتے ہیں کہ زبان کے کون سے جملے قواعد کے مطابق ہیں اور قابل قبول ہیں اور کون سے نہیں۔ اس سے یہ بھی واضح کرنا چاہیے کہ جملوں کے اجزاء کیا ہیں اور ان کا ایک دوسرے سے کیا تعلق ہے۔"
بچہ الفاظ کو ربط دینے کی جہاں غلطی کرتا ہے وہاں ان پڑھ انسان بھی ان نحویات کی نشاندہی کر دیتا ہے۔اگر قواعد کے اصولوں کی نفی کرتے ہیں تو اہل زبان اس جملے کو تسلیم نہیں کرتے اسے غیر جملہ کہتے ہیں اردو جملے میں اجزائے کلام کے مقام مقرر ہیں لیکن کسی حد تک وہ اختیاری بھی ہوجاتے ہیں جیسے ؛آج تم میرے گھر آنا۔
موضوع 8: اردو زبان کے مختلف نام
اردو زبان کو مختلف ادوار میں مختلف ناموں سے پکارا گیا۔ مختلف ادوار میں اسے ہندی،ہندوی ، ہندوستانی کے ناموں سے پکارا جاتا رہا ہے۔ڈاکٹر سلیم اختر نے اپنی کتاب "اردو ادب کی مختصر تاریخ" میں کہا ہے:
"یہ نام بعض اوقات اس مخصوص عہد کے لیے ایک بلیغ استعارہ بھی بن جاتے ہیں۔"
اردو کا لفظ:
اردو کا لفظ وسط ایشیا یا بالائی یورپ سے برصغیر میں داخل ہوا۔وہاں ریوڑ کے معنی میں استعمال کیا گیا۔سندھی زبان میں ڈھیر اور ترکی زبان میں لشکر کے معنی میں ملتا ہے۔ مغل دور میں فوج اور چھتر شاہی کے معنی میں مستعمل رہا۔اسی لیے عساکر(عسکری) کی زبان کو زبان اردو کہا جاتا تھا۔
ہندی یا ہندوی:
اردو زبان کو ہندوستان کی مناسبت سے قدیم زمانے میں ہندی یا ہندوی کہا جاتا تھا۔بقول ڈاکٹر مرزا خلیل احمد بیگ :
"شروع شروع میں یہ زبان اپنی مقامی خصوصیات کی بنا پر ہندوی ، ہندوئی یا ہندی کہلائی۔"(اردو زبان کی لسانی تشکیل)
اس نام کی شہادت قدیم ادبی تصنیفات میں بھی ملتی ہیں۔ قاضی بدر سے لے کر میں سراج الدین خان آرزوتک قدیم لغت نویسوں نے اس زبان کو ہندی یا ہندوی لکھاہے۔ اس کے علاوہ صوفیا کرام کی تحریریں اور اقوال بھی کارآمد ہوتے ہیں۔میر تقی میر نے اپنا تذکرہ "نکات الشعراء میں بھی ہندی کا لفظ استعمال کیا تھا۔ڈاکٹر سہیل بخاری نے بھی اپنی کتاب " اردو کے روپ "میں ہندی یا ہندوی کی مثال دیتے ہوئے کہا :
" شاہ عبدالطیف نے بھی قرآن مجید کا جو ترجمہ کیا اسیزبان ہندی قرار دیا۔"
زبان دہلوی:
امیر خسرو نے اردو کے لیے زبان دہلوی کا نام استعمال کیا ہے۔ اپنی مثنوی "نئے سفر" میں انھوں نے ہندوستان میں تمام مروجہ زبانوں کا تذکرہ کیا ہے۔امیر خسرو کے300 سال بعد ابوالفضل نے ہندوستان میں موجود ( 13) زبانوں کا ذکر کیا جس میں پہلی زبان "زبان دہلوی " کا ذکر کیا۔
ہندوستانی /زبان ہندوستان:
ملا وجہی نے سب رس میں سب سے پہلے اردو کے لیے "ہندوستانی" کا لفظ استعمال کرتے ہوئے زبان ہندوستان لکھا تھا۔ اردو کے لیے "ہندوستانی" کا لفظ شاہ جہاں کے دور میں عام نہیں تھا۔ابوالفضل کی "آئین اکبری" میں بھی 'ہندوستان' کا لفظ استعمال ہوا تھا۔
مغربی مصنفین:
اس کے علاوہ مغربی مصنفین نے اردو کی زیادہ تر ہندوستان ہی کہا تھا۔جب انگریز برصغیر پاک و ہند مین آئے تو ان کو یہاں کی لسانیات بہت عجیب لگی۔انھوں نے اسے ہندوستان اور ہندوستانی کہنا شروع کردیا۔ اس طرح مغربی مصنفین میں "فیلن" کی گرائمر کا نام "ہندوستانی گرائمر"تھا۔ڈاکٹر گلکرائسٹ:
ڈاکٹر گلکرائسٹ نے بھی ۷۸۸اء میں ہندوستانی کا لفظ استعمال کیا تھا اور اسے اپنی کتاب کے دیباچے میں لکھا تھا:
"میں نے ہندوستانی کی تعریف /تاریخ یوں کی ہے کہ یہ ایسی زبان ہے جس میں ہندی، عربی اور فارسی کی آمیزش برابر تناسب سے ہو۔"
ڈاکٹر عطش درانی:ڈاکٹر عطش درانی "اردو جدید تقاضے، نئی جہتیں" میں کہتے ہیں:
"ہندوستانی زبان کے نام کی کچھ سیاسی وجوہات تھیں اور مہاتما گاندھی بھی اسی کا پرچار کرتے ہیں اور پریم چند بھی اسی کے حامی نظر آتے ہیں۔ آل انڈیا کانگریس نیبھی سیاسی چال چلتے ہوئے "ہندوستانی " کے لفظ پرزور دیا اور کہا کہ یہ زبان مسلمانون کی زبان نہیں ہے بلکہ ہندوستان کی زبان ہے۔"
کھڑی بولی:
اردو کے نام کے بارے میں یہ نظریہ بھی ہے کہ کھڑی بولی اردو کا قدیم ترین نام ہے۔ڈاکٹر شوکت سبز واری، ڈاکٹر سہیل بخاری اور گیان چند جین نے بھی کھڑی بولی کو 'اردو' کا نام دیا۔ کھڑی بولی اردو کا قدیم ترین نام ہے۔ہندو اہل علم بھی زبان کے لیے کھڑی بولی کا نام دیتے تھے اور "برج بھاشا" کو ہندی شاعری کی جان سمجھا جاتا تھا اور اس کو ہندی کہ کر پکارا۔للو جی لال پریم ساغر کے مقدمے میں لکھتے ہیں:
"عربی ،فارسی الفاظ کو چھوڑ کر میں نے یہ کہانی دہلی آگرے کی کھڑی بولی میں لکھی ہے۔"
کھڑی کے دومعنی ہیں:اکھڑا اور کھردری۔یعنی وہ بولی جس کے اسمائ￿ و افعال کے آخر میں الف ہو۔
ریختہ:
اردو کے لیے ریختہ کا لفظ بھی استعمال ہوتا رہا ہے۔ ریختہ کے دو معنی معروف ہیں؛ "آمیزہ" اور "گری پڑی"۔اگر ہم اصطلاحا اس کی بات کرتے ہیں تو آمیزش والی زبان طنزیہ تحریر گری پڑی زبان استعمال ہوتا ہے۔حافظ محمود شیرانی کی تحقیقات سے یہ احساس ہوتا ہے کہ بابر کے دور میں اردو ، فارسی اور ترکی زبان کی آمیزش یعنی ریختہ کا آغاز ہو چکا تھا۔ چنانچہ انھوں نے بابر کی ترکی زبان کا ایک شعر نقال کرنے کے بعد اس کے بارے میں ڈاکٹر گریسن کے مطابق :
"اس میں ہم اردو اور ترکی زبانوں کا ایک غیر معمولی اتحاد اور مشاہدہ کرتے ہیں۔فارسی اور اردو کے مخلوط استعمال ایک زمانے میں نہایت عام تھے۔"
مولانا محمد حسین آزاد کی "آب حیات"میں بھی ریختہ کا ذکر کیا گیا ہے۔ڈاکٹر سلیم اختر کے مطابق میر نے ریختہ کے جو انداز گنوائے ہیں میر نے غزل کو ریختہ قرار دیا ہے۔عادل شاہی عہد میں ریختہ کا مفہوم طے پاچکا تھا۔غالب نے بھی اپنی شاعری میں ریختہ کا ذکر کیا تھا۔
ریختے کے تمہیں استاد نہیں ہو غالبؔ
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میرؔبھی تھا
اردو معلی:
ترکی زبان میں اردو"لشکر"کو کہتے ہیں۔مغلوں کی آمد کے ساتھ اردو کا لفظ کسی نا کسی طرح اپنے اصل مفہوم میں مل جاتا ہے۔ بابر اپنی لشکری زبان کو بھی اردو کہتا تھا۔بابر جمیعت لے کر آیا تھا۔اس لییمحض اردوتھا۔اکبر کے دور میں سلطنت مضبوط ہوگئی۔لشکر وسیع ہو گیا۔اس نے لشکر کے لیے "اردوئے معلی "کا لفظ استعمال کیا۔
ریختہ جس کامعنی 'گری پڑی 'تھا۔زبان کی جگہ "اردوئے معلی " کا لفظ استعمال ہوا۔شاہی قلعہ اور درباری زبان ہونے کی وجہ سے اس کو برتری حاصل ہے۔ مصحفی نے"تذکرہ ہندی" میں "اردو" کا لفظ استعمال کیا تھا۔ڈاکٹر سید عبداللہ کے مطابق:" میر امن نے باغ و بہار کے دیباچے میں اردو کا لفظ استعمال کیا ہے۔"
ہر زبان کی تاریخی حیثیت ہوتی ہیاور ہر زبان کو اسی حوالے سے مختلف نام دئیے گئے تھے۔
موضوع 9:لسانیاتی طریقہ مطالعہ
لسانیات کا تعلق زبان سے ہے اور زبان معاشرے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ زبان معاشرے پر انمٹ نقوش چھوڑتی ہے اورمعاشرہ زبان پر اثر انداز ہوتا ہے۔جب ہم زبان کا تقابل کرتے ہیں اور جائزہ لیتے ہیں تو مزید صورتحال واضح ہو جاتی ہے۔ زبان دنیا کے ہر حطے ہر کونے میں پائی جاتی ہے اور تغیر سے گزر رہی ہوتی ہے۔زبان کے کام اور ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے بہت سے ماہرین نے کانٹ چھانٹ کر کے زبان کے اصول و ضوابط کے مطابق رکھا اور تبدیلیاں منظر عام پر لائے۔
زبان کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی کے انسانی تاریخ۔ اردو میں ابتدائی لسانیات کے حوالے سے جنہوں نے کام کیا ان میں کچھ فرانسیسی ،اطالوی اور کچھ فرنگی تھے جوکہ زبان میں تبدیلیاں لے کر آئے۔ان میں زبان کی محبت، جستجو اور جذبہ تھا۔کسی بھی زبان کو سمجھنے کے لئے مقامی لوگوں سے رابطہ کرنا پڑتا ہے۔ جبکہ مقامی لوگ ان لوگوں کے کام کو وقت کا زیاں سمجھتے ہیں۔
لسانیات پر مشتمل کتابیں منظر عام پر آئیں اوران میں ادب کے حوالے سے اپنے خیالات نظریات کا اظہار کیا۔ اس میں سرسیداحمدخان کی قواعداردو شامل تھی۔ اس رسالے میں گرائمر کے مختلف قاعدے درج ہیں اس کا سن اشاعت 1840 ہے۔ اس رسالے کے متعلق مولوی عبدالحق لکھتے ہیں:
"اگرچہ یہ کتاب کچھ ایسی قابل لحاظ نہیں لیکن اس سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ مرحوم کو اردو زبان سے کس قدر دلچسپی تھی۔"
سر سید احمد خان نے زبان کے لیے جامع قسم کی لغت کی ضرورت کو محسوس کیاانہوں نیاپنے عہدمیں اردو لغت مرتب کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ انہوں نے اس لغت میں لفظ کی تعریف اور تشکیل کو بھی شامل کیا تھا۔ انہوں نے لفظ کی تعریف کی ،لفظ پہ بات کی اور مترادفات سے کام نہیں لیا۔ قواعد کی صورت میں زیادہ کام ہوا ہے۔زبان کے حوالے سے جو گفتگو ہوتی رہی لسانی تحقیق کا آغاز بھی اسی حوالے سے ہوا۔ ولیم شیکسپیئر ،گلکرسٹ نیاس حوالے سے کافی کام کیا مگر ان کا مقصد سیاسی تھا۔ ان ماہرین نے لسانیات کی بات کرتے ہوئے کام کیا انہوں نے اس لسانی فریضہ کو انجام دینے کے لیے یورپی زبانوں سے استفادہ کیا۔ فارسی زبان کو بھی استعمال کیا اسی دور میں جو کام ہوا وہ دوسری زبانوں میں زیادہ ہوا۔جس سے نئے آنے والوں کے لئے راہیں کھل گئیں۔ لسا نی خد و خال، قواعد و ضوابط لغات متعین کئے گئے۔ شہاب الدین ثاقب لکھتے ہیں:
"انجمن ترقی اردو کی علمی و ادبی خدمات کے لئے غیر اہل زبان کے لیے زبان کا سیکھنا قواعد کے بغیر مشکل ہے۔اس خیال کے پیش نظر ہندوستانی اردو زبان کے قواعد پر سب سے پہلے یورپی علمائ￿ نے توجہ کیوں کی کہ وہ اس زبان کو سیکھنا اور سکھانا چاہتے تھے۔ ان میں سے بیشتر ایسے تھے جنہوں نے اردو زبان کے مزاج اور ساخت کو بھی پیش نظر رکھا۔ اس کے برعکس ہندوستانی مصنفین نے اردو قواعد کی جو کتابیں لکھیں ان میں فارسی قواعد کی تقلید ملتی ہے۔"
یہ سب وہ لوگ ہیں جنہوں نے اردو قوائد اصول خدوحال لغات پر کام کیا مولوی فتح محمد خان جالندھری کی "مصباح القواعد"(1904ئ)بھی ان اثرات سے خالی نہیں۔اسی طرح انشاء اللہ خاں انشا کی "دریائے لطافت" اردو صرف و نحو کے اصولوں پر مبنی ہے۔ یہ فارسی میں لکھی گئی تھی۔ اردو زبان اورلسانی تحقیق کو اپنی ارتقائی تشکیل میں جو ملکی اور غیر ملکی ماہرین قواعد ولغات میسر آئے ان میں نہایت مخلصانہ طور پر اردو زبان کو صحیح لسانی سہاراا دینے کے لئے قابل قدر کوششیں کیں۔ ان کوششوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اردو لسانیات کے جدید رویے اور نظریے اسی بنیاد کے سہارے قائم ہیں۔ان اصحاب لسانیات نے آنے والے محققین کے لیے ایک واضح لائحہ عمل مرتب کرکے تحقیقی موشگافیوں کو حل کر دیا۔ اس کے حوالے سے مرزا خلیل احمد بیگ لکھتے ہیں:
"یہ امر واضع ہے کہ اردو کے اولین قوائد یورپی عالموں کی ہی دین ہیں۔اردو میں لسانی مطالعہ اور تحقیق کا جدید دور بیسویں صدی سے تعلق رکھتا ہے۔بیسویں صدی میں لسانیتحقیق اپنے ابتدائی ارتقائی مرحلے سے گزر کر ایک باقاعدہ علم کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ اس دور میں زبان کا مطالعہ مشاہداتی، تجزیاتی اور طرزیاتی بنیادوں پر کیا گیاجبکہ انیسویں صدی کے اس لسانی مطالعے میں یہ خصوصیات نہ ہونے کے برابر تھیں۔اس سے پہلے انیسویں صدی میں زبانوں کا مطالعہ روایتی اور فرسودہ انداز میں کیا جاتا تھا، تاثراتی اور بیانیہ طریقہ تحقیق کو بروئے کار لایا جاتا تھا۔محققین کی نظر صرف مختلف علاقوں میں بولی جانے والی زبانوں اور لسانی تبدیلیوں پر رہتی تھی اور مستند تحریر زبان ہی کو قرار دیا جاتا تھا جو اس وقت زبان رائج تھی۔"
زبان کے ارتقاء اور زبان میں جو تبدیلیاں آتی رہی اسے لسانیات کہتے ہیں۔ جدید لسانیات کی منزلیں کیسے طے ہوئیں ،کوئی لسانی عنصر کس طرح مختلف زبانوں کی تبدیلی کے مراحل سے گزرتا ہے۔ان تمام باتوں کی نشاندہی لسانی طریقہ مطالعہ میں شامل ہے۔
زبان کن مراحل سے گزرتی ہے ،کن مراحل سے گزر کر یہاں تک پہنچتی ہے۔لسانیات کے محقق کو زبان میں وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں اور زبان سے تعلق رکھنے والی بولیوں اور لہجوں پر نظر رکھنی پڑتی ہے۔ اس کے علاوہ اس زبان پر دوسری زبانوں کے اثرات کا جائزہ بھی لسانی تحقیق کا اہم جزو ہے۔ اس کے لیے لسانیات کے محقق کو ایک سے زیادہ زبانوں پر عبور ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ صوتیات، معنیات ،نحویات اور تکلمی آوازوں کامحققانہ مشاہدہ کیا جاتا ہے۔لسانی طریقہ کار میں ماہرین لسانیات نا صرف زبان بلکہ وہ مقام یا ملک جس جگہ کا ماہر ہونا ضروری ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ جس علاقے میں زبان بولی جاتی ہے وہاں کی آب و ہوا ،تہذیب و ثقافت اور رسم و رواج کا بھی گہرا مطالعہ کرنا چاہئے کیونکہ یہ تمام چیزیں اس علاقے کی زبان و ادب پر اثر انداز ہوکر تہذیبی اور ثقافتی روایات میں تعمیر کا فریضہ سرانجام دیتی ہیں۔ رشید حسن خان" ادبی تحقیق مسائل و تجزیہ" میں لکھتے ہیں :
"تحقیق میں ہر واقعہ بجائے خود ایک حیثیت رکھتا ہے اور اس کے متعلق ضروری معلومات حاصل کی جانی چاہیں۔ ان معلومات سے کہا ں، کس طرح اور کس قدر کام لیا جائے یہدوسری بات ہے اور اس کا تعلق ترتیب و واقعات کے تقاضوں سے ہوگا۔"
لسانی طریقہ مطالعہ میں محقق کو ایسے اطلاع کار کی ضرورت ہوتی ہے جو مقامی باشندہ ہو جو محقق کو مزید معلومات فراہم کرسکے۔ محقق لسانی حالات کا جائزہ لے کر ہی لسانی تحقیق کے لیے لسانی مواد حاصل کرے گا اورمقامی سطح پر جائزہ لینے میں مقامی باشندہ مدد کرے گا۔اس کے لیے رسم الخط سے واقف ہونا بھی ضروری ہے۔ مقامی لوگوں کی یادداشت سے کافی معلومات اکٹھی ہو جاتی ہیں۔ یہ بات انتہائی اہم ہیکہ وہ بیک وقت کئی اطلاع کاروں سے رابطہ رکھے۔ صرف ایک پر ہی اکتفا نہ کرے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ ایک شخص کی معلومات میں صداقت نہ ہو تاکہ جہاں کم وقت میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل ہوں وہیں ایک ہی مطالعے کی مختلف حوالوں سے تصدیق بھی ہو سکے۔
لسانی تحقیق میں ذخیرہ الفاظ اورمختلف فقروں اور جملوں کا جائزہ لیا جاتا ہے۔مختلف لوگوں کی آراء کو جمع کرکے ان کا موازنہ کرنا اور ان سے نتائج اخذ کرنا لسانی تحقیق میں کافی مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ سوالنامہ اور انٹرویوکو بھی اس تحقیق کا ذریعہ بنایا جا سکتا ہے۔ لسانیاتی طریقہ مطالعہ میں محقق کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ ایک سے زیادہ علوم میں مہارت رکھتا ہو کیونکہ تقابلی لسانیات میں اس کی اہمیت کلیدی ہے۔ڈاکٹرعبدالستار صدیقی لکھتے ہیں:
"ہماری لسانی تحقیق کو زمان و مکان دونوں کے لحاظ سے صحیح ہونا چاہیے اور انسانی علوم کے مسلمات سیخلاف نا ہونا چاہیے۔الغرض لسانیات انسانی علم کی ہر شاخ سیخوراک حاصل کرتی ہے اور اس کے معاوضے میں ہر علم کو قوت پہنچاتی ہے۔ لسانیات ہی کے میدان میں پہنچ کر یہ حقیقت ہم پر پوری وضاحت اور درخشانی کے ساتھ منکشف ہوتی ہے کہ سب انسانی علوم آپس میں متداخل (انٹر لنکڈ) ہیں۔"
لسانیات میں صرف اسی زبان کا علم ہونا ہی ماہرلسانیات نہیں کہلائے گا جب تک وہ عربی فارسی کا ماہر نا ہو۔ لاطینی ،اطالوی اور ہندی کا بھی پتا ہونا چاہیئے۔اورلسانیاتی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کافی نہ ہوگا بلکہ اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ دوسری کئی زبانوں جن کا تعلق مذکورہ زبان سے بلاواسطہ یا بالواسطہ ہے ان کو سمجھنا اور اس کا علم حاصل کرنا انتہائی ضروری ہے۔ایک لسانی محقق کے لئے قدیم اور جدید دونوں زبانوں کے علم کا حصول ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر وہ اپنا تحقیقی مواد منطقی ربط کے ساتھ پیش کرنے سے قاصر رہے گا۔
موضوع 10:اردو زبان کا آغاز و ارتقا
کسی زبان کے آغاز اور ارتقاء کی داستان کچھ مخصوص تہذیبی اور معاشرتی حالات سے جڑی ہوتی ہے۔ زبان اپنی ترقی یافتہ شکل اختیار کرنے سے پہلے مختلف مراحل سے گزرتی ہے۔ اسے رنگ و روپ دینے اور نکھارنے میں مختلف عوامل کار فرما ہوتے ہیں۔ اردو زبان جو آج کی چند ترقی یافتہ اور کثرت سے بولی جانے والی زبانوں میں سے ایک ہے اسے بھی معرض وجود میں آنے سے قبل مختلف مراحل سے گزرنا پڑا۔ ان مختلف مراحل اور تہذیبی اور معاشرتی عوامل کو سمجھنے کے لئے ہمیں ماضی کی طرف پلٹنا ضروری ہے۔
جیسا کہ تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان کے قدیم باشندے دراوڑ تھے۔آریا قوم باہر سے آئی اور مقامی باشندوں کو پیچھے دھکیل کر ملک پر قابض ہو گئی۔آریا قوم ملک پر ایک نئی تہذیبی طاقت بن کر ابھری۔ ان کی زبان کو مرکزی حیثیت حاصل ہوئی۔ مقامی باشندوں سے میل جول کی وجہ سے آریاؤں کی زبان متاثر ہونے لگی اور بہت سے الفاظ کا تلفظ کچھ سے کچھ ہو گیا۔ آریاؤں نے اپنی زبان کو محفوظ رکھنے کے خیال سے اسے قواعدی اصولوں سے جکڑ دیا اور اپنی زبان میں صرف ٹکسالی الفاظ باقی رکھے۔مقامی اثرات اس سے پاک و صاف ہو کر ان کی زبان نے اپنا ایک معیار برقرار رکھا اور اسی معیاری زبان کو سنسکرت کا نام دیا گیا۔
اس زبان کو کافی فروغ حاصل ہوا لیکن اس کا رشتہ عوام سے کٹ گیا گیا اور ایک مخصوص دائرے تک سمٹ کر رہ گئی۔ عوام کی زبان مختلف علاقوں میں تھوڑے سے فرق کے ساتھ ایک رسم الخط میں موجود رہیں اس زبان کو پراکرت کا نام دیا گیا۔ پراکرت زبان برابر ترقی کرتی رہی اور مختلف علاقوں میں مختلف روپ اختیار کرتی رہی۔ آگے چل کر ان پراکرتوں نے ادبی حیثیت اختیار کرلی اور عوام سے ان کا تعلق منقطع ہوگیا۔ عوام عام بول چال کی زبان بولتے رہے جن میں مختلف بولیوں کی آمیزش شامل رہی۔ اہل علم حقارت سے اس زبان کو ابرنش یعنی گری ہوئی زبان کہتے رہے لیکن عوام میں اس کی مقبولیت بڑھتی گئی۔ اہل علم بھی اس زبان کی طرف متوجہ ہوئے اور مقامی بولیاں بھی اس سے متاثر ہوئیں۔ان ابرنشوں کی نشوونما شمالی ہند میں 600ء سے 1000ء تک ہوتی رہی۔ پھر اس کے ارتقاء کی رفتار رک گئی۔ابرنشوں سے جدید ہند آریائی زبانوں کی تشکیل کی راہ ہموار ہوئی۔
اردو زبان کی تشکیل کا بھی یہی زمانہ ہے۔ اگرچہ اس کا باقاعدہ ارتقا مسلمانوں کے ہاتھوں دہلی کی فتح کے بعد ہوا۔ دوآبہ شورسینی پراکرت کا علاقہ تھا۔جلد ہی پراکرت شورسینی ابرنش کے علاقے میں عام ہوگئی۔اس زبان کو کھڑی بولی اور ہندوستانی بھی کہا جاسکتاہے۔ اسی زمانے میں میں مسلمان عربی اور فارسی زبان کے ساتھ آئے۔ عربی اور فارسی زبانوں کے الفاظ بھی کھڑی بولی میں داخل ہونے لگے جس سے نئی زبان اردو کے لیے راہ ہموار ہوئی۔مسلمانوں کی آمد سے اردو زبان میں تیزی سے ترقی آئی لیکن اردو زبان کی ابتدائ￿ کو مسلمانوں کی آمد سے منسوب کرنا کسی طرح سے مناسب نہیں ہوگا۔ یہ ایک لسانی مظہر تھا جو بہرحال وجود میں آیا اگرچہ اس کے وجود میں آنے میں کافی تاخیر ہوئی۔بقول ڈاکٹر سینتی کمار چیٹرجی:
"اگر مسلمان شمالی ہند میں داخل نہ ہوئے ہوتے تو جدید ہند آریائی زبان میں کافی تاخیر ہوتی۔ اسی طرح شورسینی ابرنش عربی اور فارسی زبانوں کی آمیزش سے اردو زبان کے خدوخال نمایاں ہونے لگے اور شمالی ہند میں دو سو سال تک تشکیلی دور سے گزرنے کے بعد تیرہویں صدی میں اس نے اپنے آغازو ارتقاکا باقاعدہ سفر شروع کیا۔ اس طرح اس اردو زبان کی وہی تاریخ ہے جو فتح دہلی کی تاریخ ہے۔ فتح دہلی کے بعد مختلف علاقوں سے سے لوگ دہلی میں آنے لگے۔ یہاں پر آنے والے لوگوں میں زیادہ تر ترکی زبان کے لوگ اور پنجابی تھے اور نواح دہلی میں ہریانی،کھڑی بولی، برج بھاشا اور میواتی زبانیں بولی جاتی تھیں۔ ان زبانوں کے لسانی امتزاج سے ایک نئی زبان وجود میں آئی جس سے پہلے ریختہ ، ہندی، ہندوی اور بعد میں اردو کا نام دیا گیا۔اس طرح شمالی ہند میں مسلمانوں اور دوسری زبانیں بولنے والوں کے میل جول سے اردو زبان کے لئے راہ ہموار ہوئی۔ یہ زبان عوام تک ہی محدود نہ رہی بلکہ اس زمانے کے فارسی اور ترکی شعرا نے بھی اس زبان کی طرف توجہ دیں چنانچہ اس زمانے کے شاعر خواجہ سید سلیمان نے اس نئی زبان میں اشعار کہے۔ پرتھوی راج نے بھی اپنے راسوں میں اس کے الفاظ استعمال کیے۔ دو سال بعد خسرو نے اپنی پہیلیوں میں کھڑی بولی میں اشعار کہے۔"
پرتھوی راج نے اپنی راسوں کے لیے اردو کے الفاظ استعمال کیے۔ زبان کا علاقہ وسعت اختیار کرگیا اس میں فوجیوں کا بڑا ہاتھ رہا جو مختلف جگہوں پر آکر آباد ہوئے۔ اس زبان کو پھیلانے میں صوفیائ￿ کرام اور بزرگان دین کی خدمات سب سے زیادہ ہیں شیخ فرید الدین گنج شکر ،خواجہ نظام الدین، شیخ بو علی قلندر کے علاوہ کبیر داس اور بابا گرو نانک کا نام بھی قابل ذکر ہے ڈاکٹر مسعود حسین خان اردو زبان زبان کے لئے ان صوفیوں فوجیوں بزرگوں کی کوشش کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"زبان دہلی کھڑی بولی کا ارتقا ایک طرف اردو کی شکل میں خسرو اور صوفیہ کرام کے ہاں ہو رہا تھا تو دوسری طرف فوجیوںاور سادھوؤں کی شکل میں پنجاب دکن کے علاقوں میں رواج پا چکی تھی۔ اس کی شہادت ہمیں بابا گرونانک اور کبیر داس کے نام سے ملتی ہے۔ شمالی ہند میں نشوونما پانے والی زبان دکن میں چودھویں صدی کے اواخر میں پہنچی علاؤالدین خلیجی اور ملک کافور کے حملوں اور صوفیاء کرام کی کوششوں سے دکن میں اردو کے لئے راہ ہموار ہوئی۔لیکن اردو کی ترقی اور فروغ کے امکانات اس وقت روشن ہوئے جب محمد بن تغلق نے دولت آباد کو اپنا پایہ تخت بنایا۔ محمد بن تغلق کے ساتھ ایک بہت بڑی آبادی بشمول علماء ، فضلاء ،اولیاء کرام دہلی سیدکن منتقل ہوئے۔اتنی بڑی آبادی دکن میں پہنچی جانے سے نئی زبان کو پھلنے پھولنے کا موقع نصیب ہوا۔ آگے چل کر بہمنی سلطنت عادل شاہی اور قطب شاہی سلاطین کے زیر سایہ اس زبان کو فروغ حاصل ہوا۔.معراج العاشقین خواجہ بندہ نواز گیسو دراز،شہادت الحقیقت شمس العشاق، ارشاد نامہ شاہ برہان الدین جانم،"کلیات محمد قلی" قطب شاہ،علی عادل شاہ ثانی" پھول بند" "کلیات ولی" ولی دکنی ان کے شاندار کارنامے ہیں۔"
اردو زبان کے فروغ اور ارتقا کی روشن دلیل ہمارے پاس موجود ان کتابوں کی شکل میں موجود ہے۔ یہ تعجب کی بات ہے کہ اردو زبان شمالی ہند کے مقابلے میں دکن میں دیر سے پہنچی لیکن بہت جلد وہاں ایک ادبی سرمایہ وجود میں آگیا۔ شمالی ہند میں ہمیں کوئی خاص ادبی سرمایہ نظر نہیں آتا۔ یہ زبان صرف بول چال کی زبان رہی اور فارسی زبان کو ادبی حیثیت حاصل رہی۔ ہمیں ادبی سرمایے کے طور پر بزرگوں کے مواعظ اور ملفوظات میں ادبی زبان کا عکس واضح طور پر ملتا ہے ۔ان بزرگوں میں شیخ فرید الدین گنج شکر،خواجہ نظام الدین شیخ بو علی قلندر خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔اس کے بعد میر اور سودا نے اس زبان کو زمین سے آسمان تک پہنچا دیا۔ غالب، مومن، ذوق، مصحفی ان سب نے اس زبان کو ایسی روشنی بخشی جو آج بھی پوری طرح روشن اور درخشاں ہے۔ ہمارے شعرا اور ادیب کی وجہ سے اس زبان کو فروغ ملا یہ ہے اردو زبان کے آغاز و ارتقا کہانی جس سے ظاہر ہوتا ہے یہ ہندو مسلم اتحاد اور مشترکہ تہذیبی اور قومی یکجہتی کے چراغ کو روشن کیے ہوئے ہیں۔
موضوع 11:اردو اور ہندی کا لسانی رشتہ
ہندی کیا ہے؟
اکثر ماہرین زبان اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ کھڑی بولی ہندوستانی کا دیوناگری روپ ہے۔ جس کی ابتداء فورٹ ولیم کالج سے ہوئی۔ موجودہ ہندی کے بارے میں یہ رائے صرف قیاس پر مبنی ہے۔اس سے پہلے کوئی تاریخی اور لسانی استدلال ایسانہیں ملتا جو ہندی کو کھڑی بولی کی روایت سے جوڑے۔دیو نام یا نام دیو اور کبیرداس کی شاعری لسانی اعتبار سے اپنے عہد کی کھڑی بولی میں سے ہے۔محض رسم الخط کی بنیاد پر اسے ہندی کی ادبی روایت نہیں کہا جا سکتا۔بالکل پدماوت، چتروالی (کتابوں کے نام) کی طرح جو اردو رسم الخط میں لکھی گئی ہیں لیکن اردو نہیں ہیں۔
بعض ماہرین ہندی کا خیال ہے کہ ہندی کی ابتدا دسویں صدی عیسوی یااس سے پہلے ہوئی۔اس نظریے کی حمایت میں جو تاریخی اور لسانی استدلال پیش کیے گئے ان کی صحت پر شبہ ہے۔ دراصل یہ غلط فہمی لفظ"ہندی" سے ہوئی جسے مغربی اور مشرقی ماہرین لسانیات نے ہند آریائی زبانوں کے مطالعے میں کثرت سے استعمال کیا ہے۔گریسن اپنی گروہ بندی میں وسطی اور اندرونی حلقے کی زبانوں کو مشرقی ہندی اور مغربی ہندی کہتا ہے۔ ماہر لسانیات ڈاکٹر سینتی کمار چیٹرجی بھی مشرقی ہندی اور مغربی ہندی کی اصطلاحیں استعمال کرتے ہیں۔اسی لفظ کو ہندی والے لے اڑے۔ انہوں نے تصور کرلیا کہ بہت پہلے قدیم ہندی ایک زبان تھی جس کی مختلف بولیوں کو بعض لسانی خصوصیات کی بنیاد پر مشرقی ہندی اور مغربی ہندی میں بانٹ دیا گیا۔اسی لیے اہل ہندی کی اکثریت آج بھی برج، فوجی، بندیلی اور اردو یہاں تک کہ بوجھ پوری، اودھی، راجستھانی اور پنجابی وغیرہ کو ہندی کی بولیاں قرار دیتی ہے۔ لیکن اس قیاس کی کوئی لسانی توضیح نہیں ہے۔ زبانوں کی اس فہرست میں اکثر وہ زبانیں ہیں جن کی لسانی تاریخ اس وقت شروع ہوتی ہے جب موجودہ ہندی اپنی پیدائش کے ابتدائی مراحل سے بھی دور تھی۔ یہاں بنیادی غلطی یہ ہوئی ہے کہ ہندی والوں نے "ہندی "لفظ کو موجودہ ہندی سے جوڑ کر اسے اپنی زبان کی لسانی تاریخ کا حصہ بنا لیا اور اردو کی لسانی تاریخ کو توڑ مروڑ کر اسے ہندی کی تاریخ کہنے لگے۔
دراصل ہندی ہند یعنی ہندوستان لفظ فارسی ہے۔اور فارسی ترکیب سے بنا ہے جسے باہر سے آنے والی سامی، ترکی اورایرانی قوموں نے ہندوستانیوں کے لیے اختراع کیا۔بعد میں یہ لفظ عربی اور فارسی بولنے والے نوواردوں اورمقامی لوگوں کے باہم اختلاط سے پیدا ہونے والی زبان کے لیے مخصوص ہوگیا۔
مسعود شاہ سلمان اور امیر خسرونے اپنی زبان کو ہندی ہی کہا ہے۔ گیارھویں صدی کے نصف آخر اور اٹھارہویں صدی تک یہ ہندی لفظ اردوکے لیے برابر استعمال ہواہے۔ بعد میں انشائ￿ اللہ خان انشائ￿ نے اپنی کتابوں "دریائے لطافت" اور "رانی کیتکی کی کہانی" اور غالب نے "اودھ ہندی"یہاں تک کہ آزاد وغیرہ نے بھی ہندی لفظ کو اپنی زبان وغیر ہ کے لیے اپنی تحریروں میں استعمال کرتے رہے ہیں۔ کوئی لسانی شہادت ایسی نہیں ملتی جو موجودہ ہندی کو کھڑی بولی کی روایت کے ساتھ اٹھارہویں صدی کی آخری دہائیوں سے پیچھے لے جائے۔موجودہ ہندی کی قدیم روایت برج ہوسکتی ہے۔جیساکہ بعض عالم زبان بھی کہتے ہیں۔گیان چند جین کے مطابق:
"انیسویں صدی کی ابتداء میں کھڑی بولی ہندی کااحیاء ہوا اور اسے اردو کے نمونے پر تیار کیا گیا۔"(اردو لسانیات)
ڈاکٹر سینتی کمار چیٹرجی کے بقول:
" انیسویں صدی کے وسط میں ناگری ہندی یعنی کھڑی بولی میں شاعری ہوئی۔اس طرح یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ کھڑی بولی ہندی کی باقاعدہ روایت غدر(1857ئ) کے بعد شروع ہوئی۔"
مغربی ماہرین لسانیات:
مغربی ماہرین لسانیات اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ موجودہ اردو اور ہندی کے علاقوں میں ایک ایسی زبان تھی جسے کھڑی بولی ہندوستانی کہا جا سکتا ہے۔ اس کی عربی اور فارسی شکل اردو اور سنسکرت شکل ہندی کہلائی۔ اس نظریے کی بنیاد فورٹ ولیم کالج کی وہ شعوری کوششیں تھیں جہاں اس نے ایک لسانی اکائی یعنی کھڑی بولی اردو جو اٹھارہویں صدی عیسوی تک آتے آتے ہندوستان کی ہندی بن چکی تھی۔ اس زبان کو دوحصوں میں بانٹ دیا گیا اور اس بات کی تاکید کی گئی کہ اس سے عربی اور فارسی الفاظ کے ساتھ اردو رسم الخط اور سنسکرت کے ساتھ دیوناگری لکھا جائے۔ اس طرح انگریزوں کی سیاسی حکمت عملی نے اقوام کی طرح زبان کو بھی دوحصوں میں تقسیم کردیا۔ کھڑی بولی ہندوستانی اور اس کے ہندی اور اردو ریوں کا تصور دراصل لسانی اور تاریخی حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی ایک کامیاب کوشش ہے۔
موضوع12:اردو اسلوبیات
اردو میں اسلوب کے تعلق سے کافی لکھا گیا ہے طرز تحریر کے مطالعے کا یہ سفر تذکروں سے شروع ہو کر ادب تاریخوں اور ترتیب دیئے گئے متنوں کے مقدموں سے گزرتا ہوا تنقیدی مضامین پر ختم ہوتا ہے۔اردو میں نثر کے مقابلے میں شاعری کی زبان کو زیادہ ترجیح دی گئی ہے۔ شاعروں کے اسلوب یا طرز تحریر کے جائزے کے لیے ہمارے پاس درجنوں اصطلاحیں ہیں جو اسلوب کے مطالعے کے روایتی انداز فکر کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ادھر زبان کے لسانیاتی تجزیے کے رواج کے بعد ہماری سوچ میں کچھ تبدیلی آئی ہیجسے گزشتہ صدی کی چھٹی دہائی سے محسوس کیا جا سکتا ہے۔
اسلوبیاتی مطالعے میں دراصل ہم لسانی مواد کا تجزیہ اور اس کی توضیح پیش کرتے ہیں۔ادبی تحریر میں اسلوبیاتی خصائص کی شناخت ہمارا مقصد ہوتا ہے جن کی صراحت کے بعد برآمد ہونے والے نتائج کی تعمیمی شکل دیدی جاتی ہے۔یہاں ادیب یا شاعر کے داخلی و خارجی ماحول اور اس کی ذات کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ ہماری توجہ کا مرکز فنکارکی بجائے فن پارہ ہوتا ہے جس کی زبان کو بنیاد مان کر معروضی انداز فکر کے ساتھ اس کی صوتی، صرفی، نحوی، معنوی اور لفظی ترتیب و تنظیم کا تجزیہ کرکے فن پارے کے مجموعی تاثر کی توضیح پیش کردی جاتی ہے۔ اس اعتبار سے ہمارے یہاں اب تک جو اسلوبیاتی تجزیے کیے گئے ہیں وہ نامکمل ہیں۔ اردو میں اسلوبیات کا علم نیا ہے۔غالبا اسی لیے اسلوبیاتی طریق کار وں پر ہماری گرفت کمزور ہے تاہم جو تحریریں سامنے آئی ہیں ان کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ہے۔انھوں نے اسلوب کے مطالعے کی جدید کاری میں کئی گراں قدر اضافے کیے ہیں۔ڈاکٹر محی الدین قادری زور:
اردو اسلوبیات کی باقاعدہ شروعات ڈاکٹر محی الدین قادری زور نے۱۹۶۴ء میں اپنی کتاب’’اردو کے اسالیب زبان‘‘ سے کی جس میں اسلوبیاتی مطالعے کا نسبتا جدید شعورملتا ہے۔ اس سلسلے میں موجودہ انشاء پردازوں کی نثر اور اس کے اسالیب اور اردو نثر کے رجحانات خصوصاقابل ذکر ہیں۔
مسعود حسین خان:
مسعود حسین خان کے چند مضامین اسلوبیاتی مطالعہ کی جدید تکنیک کو سامنے رکھ کر لکھے گئے ہیں۔مثلا کلام غالب میں قوافی و ردیف کا صوتی آہنگ(شعر وحکمت : حیدرآباد)، غالب کے خطوط کی لسانی اہمیت(فکروفن :گورکھپور) اورمطالعہ شعر(اردو زبان و ادب:علی گڑھ)وغیرہ۔پہلے مضمون میں ردیف اور قافیہ کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے دیوان غالب کی منتخب غزلوں کے قافیوں اور ردیفوں کے اعدادو شمار تیار کرنے کے بعد غالب کے صوتی آہنگ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔مطالعہ شعر میں اردو کے صوتی نظام کا تجزیہ کرتے ہوئے شعر میں مختلف آوازوں کے استعمال اور ان کے توازن و تناسب کی توجیہہ بیان کی ہے۔ اس کے علاوہ صوت، جمالیاتی کیفیات، ان کی اثریت اور معنیاتی رشتوں کی بھی نشان دہی کی گئی ہے۔
گوپی چند نارنگ:
گوپی چند نارنگ نے "مسجد قرطبہ" کے حوالے سے اقبال کے کلام کا صوتیاتی تجزیہ پیش کیا ہے۔ حاصل مضمون یہ ہے کہ اقبال کی شاعری میں ایک مخصوص انداز کی غنائی کیفیت اورموسیقیت پائی جاتی ہے۔ انہوں نے تبادلی تخلیقی قواعد کی روشنی میں ذاکر حسین کی نثر کا تجزیہ بھی کیا ہے جو اردو میں اپنی نوعیت کا پہلا کام ہے۔ اسی طرح سے انیس شناسی (۱۹۸۱ئ) اسلوبیات انیس کے علاوہ میر کی اسلوبیات پر بھی انہوں نے ایک کتاب مرتب کی ہے۔
محمد حسن نے غالب کی نثر کا تجزیہ خطوط غالب کے جملوں کی ساخت کو ملحوظ خاطر رکھ کر کیاجو اردو میں اپنی نوعیت کی پہلی کوشش ہے(آجکل نئی دہلی)۔
شمس الرحمان فاروقی:
شمس الرحمان فاروقی کے مطالعے کا ایک موضع "اسلوبیات" بھی ہے۔ ان کا مضمون" مطالعہ اسلوب کا ایک سبق " اردوادب کے شمارہ نمبر ۱ ،علی گڑھ میں چھپا۔ اس کے علاوہ انہوں نے میر اور غالب کے تعلق سے بھی لکھا ہے۔ ان کی تازہ ترین تخلیق "شعر شور انگیز"جلداول اورجلد دوم (ترقی اردو بورڈ نئی دہلی ) ذراہٹ کر ہے لیکن اسلوب کے مطالعے کی جھلک اس میں بھی مل جاتی ہے۔
اس کے علاوہ اسلوب اور اسلوبیات پر لکھی گئی اہم کتب کے نام درج ذیل ہیں:
شب خون از گوپی چند نارنگ
اسلوب از عابد علی عابد
عصری ادب از اقتدار حسین خان
اسلوبیات از شمشاد زیدی
زبان اسلوب اور اسلوبیات از مرزا خلیل بیگ
مندرجہ بالا کتب ایسی تحریریں ہیں جن میں علم لسانیات کے اصول و ضوابط اسلوبیاتی تجزیے کے طریق کاروں سے بحث کی گئی ہے اور ان کتابوں میں رشید احمد صدیقی، اخترانصاری اور فیض کی طرز نگارش پر بھی اظہار خیال ہے۔
مغنی تبسم نے تحقیقی مقالے "فانی بدایونی:شخصیت اور شاعری(حیدرآباد)" کے آخری ابواب میں فانی کے شعری اسلوب اور صوتی حسن کی انفرادیت کا تجزیہ کیا ہے۔ "اصوات اور شاعری(فکرو نظر، علی گڑھ)" اور " غالب کی شاعری: بازیچہ اصوات(فکروفن گورکھ پوری) بھی ان کے دو اہم مضامین ہیں جن میں اسلوبیاتی مطالعے کی طریق کار کو بخوبی برتا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی کتاب"اسلوب تنقید"بھی منظر عام پر آچکی ہے۔ اس کے علاوہ علامہ اقبال، رجب علی بیگ، سر سید، مشتاق یوسفی، رشید صدیقی، سجاد ظہیراور محمد حسین آزاد کے اسالیب کا اسلوبیاتی مطالعہ کیا ہے۔
اقبال کا اسلوب اور ساقی نامہ، بانگ دراکا اسلوب، رجب علی بیگ کا اسلوب " فسانہ عجائب" کی روشنی میں ، لندن کی ایک رات: اسلوب و فن، رشید احمد صدیقی کے اسلوب کی خصوصیات اور مشتاق احمد یوسفی کے اسلوب کا تجزیہ، یہ مضامین کتابی شکل میں "ادبی اسلوبیات "کے نام سے ترتیب دیئے گئے ہیں۔احمد حسین انصاری کاپی ایچ ڈی کا تحقیقی مقالہ " پریم چند کے اسلوب کا ارتقائ۱۹۸۷ئمیں منظر عام پر آچکا ہے۔اس مقالے میں پریم چند کے اسلوب کے تین ادوار مقرر کرکے ہر دور کے اسلوب کی خصوصیات کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭

تنقیدکے مباحث
موضوع1:تنقید کیا ہے
تنقید:
تنقید عربی زبان کا لفظ ہے۔ جس کے عام معنی اخراج کے ہیں۔نورالغات میں مولوی نورالحسن نے اس کی تعریف یوں کی ہے:
"کھوٹا کھرا پرکھنا یا جانچ کرنا۔ایسی جانچ جو ضعیف اور مشکوک چیزوں کو الگ کردے یعنی اچھے اور برے کی تمیز کرنا"
اردو ادب میں اس کے مترادف لفظ تنقید استعمال ہوتا ہے لیکن انگریزی میں اس کے مترادف لفظ Criticism استعمال ہوتا ہے۔بعض اوقات اس کے لیے نقد یا انتقاد کے الفاظ بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔حامداللہ افسرنے اسی تناظر میں اپنی کتاب "تنقیدی اصول و نظریے" پہلے نقد الادب کے نام سے شائع کی۔ان کی ایک کتاب" انتقاد" اور دوسری "اصول انتقاد ادبیات" کے نام سے شائع ہوئی لیکن ہمارے معاشرے میں اکثریت کے ساتھ چلنا پڑتا ہے۔لہذا حامداللہ افسر اس نتیجے پر پہنچے کہ چونکہ اکثریت اس طرف جا رہی ہے تو میں چونکہ اس کو نام نقد یا انتقاد دینا چاہ رہا ہوں تو شاید کامیاب نہ ہو سکوں تو انہوں نے اپنی کتاب کا نام تبدیل کیا اور اسی کتاب کو پھر شائع کیا اور اس کا نام رکھا" تنقیدی اصول و نظریے"۔
حامد اللہ افسر کی اس کے بارے میں رائے یہ ہے کہ وہ کیوں اس طرف آئے۔وہ کہتے ہیں :
"لفظ تنقید عربی صرف و نحو کے اعتبار سے صحیح نہیں ہے جس کی جگہ نقد یا انتقاد ہونا چاہیئے۔لیکن اردو ادب میں اب یہ لفظ رائج ہو گیا ہے۔اس کی جگہ کسی دوسریلفظ کا استعمال مناسب نہ ہوگا۔جہاں تک اردو زبان کا سوال ہے اسے صحیح سمجھنا چاہیئے۔"
ادبی اصطلاحات کا تعارف" کے صفحہ 167 پر مصنف ابوالاعجاز صدیقی کی رائے یہ ہے :
"تنقید اصل میں کسی بھی فن پارے کو ذاتی پسندو ناپسند سے بالا ہو کر پرکھنے اور جانچنیکا نام ہے۔تنقید کسی ادب کے فنی محاسن کی پرکھ کا نام ہے"
فنی محاسن:
فنی محاسن سے مراد فنی خوبیاں مثلا اگر ایک ڈرامے کی بات کی جاتی ہے تو ڈرامے میں دیکھتے ہیں کہ اس کے کردار کیسے ہیں، مکالمے کیسے ہیں؟مصنف کیا پیغام دینا چاہتا ہے۔اس طرح ناول یا افسانے میں دیکھا جاتا ہے کہ اس میں پلاٹ کیا ہے؟کردارنگاری ، منظرنگاری اور مکالمہنگاری کس طرح کی ہے؟اس میں قاری کی دلچسپی کا کتنا سامان موجود ہے۔غزل یا نظم میں تشبیہ، استعارہ اور دیگر قواعدکا خیال رکھا گیا ہے یا نہٰیں۔یہ تمام باتیں فنی محاسن میں آتی ہیں۔
• تنقید کے ذریعے کسی فن پارے کے فنی محاسن کا جائزہ لیا جاتا ہے۔
• اس کی خوبیوں کو اجاگر کرنا اور خامیوں کی نشاندہی کرنا مقصود ہوتا ہے۔
• خوبیوں کو اجاگر کرنے سے کوئی ادب پارہ لوگوں کی توجہ کا مرکز بنتا ہے۔
مثبت تنقید سے تخلیق کار کی حوصلہ افزائی ہوتی ہیجبکہ عیب بیان کرکے ناقص تحریروں کو آگے بڑھنے سے روکا جا سکتا ہے، اصلاح کی جاسکتی ہے اور تخلیق کار کو نئے سرے سے کاوش کرنے کا موقع ملتا ہے۔ وہ پھر سے اپنی تخلیق کق مفید بنا سکتا ہے۔تنقید کی مختلف لوگوں نے مختلف تعریفیں بیان کیں ہیں۔بقول وٹسن:
"ادبی نقاد اسے کہتے ہیں جس میں کسی فن پارے کو سمجھنے اور اس پر غورکرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ اس فن کے ماہر کا کام ہوتا ہے کہ کسی فنی تخلیق کو دیکھے، سوچے سمجھے،غور کرے اور اس کی اچھائیوں اور برائیوں کی جانچ کے بعد اسکی قدروقیمت کا اندازہ لگائے۔"
تنقید نگار میں تنقیدی فن کا ہونا لازم ہے۔ مثال کے طور پر بڑھئی نے فرنیچر بنایااور اس کو پرکھنے کے لیے کسی ریڑھی لگانے والے آدمی یا کسی شاعر کے پاس لے جاتا ہے کہ بتاؤ یہ لکڑی جو استعمال ہوئی کیا معیاری ہے یا نہیں تو وہ بغیر جانچے کہ دے گاکہ ٹھیک ہے یا اگر لکڑی معیاری نہیں لگی تو کہ دے گا کہ ٹھیک نہیں ہے۔دراصل لکڑی کی صحیح جانچ بڑھئی ہی کرسکتا ہے۔
اسی طرح شاعری، ناول، افسانے یا کسی بھی صنف پر تنقید کے لیے متعلقہ نقاد ہی بہتر تنقید کرسکتا ہے۔تنقید پر بھی تنقید ہوتی رہتی ہے کیونکہ چھانٹ پھٹک کے بعد ہی اصل چیز سامنے آتی ہے۔
تعریف لکھنیکے لیے لفظ بہ لفظ لکھنا ہے اگر لفظ بہ لفظ یاد نہ ہو تو لکھنا ہے کہ رائے ہے یا خیال ہے۔اور پھر اپنے لفظوں میں بیان کردینا ہے جبکہ ہو بہو ویسا لکھنے کے لیے متعلقہ شخص کا حوالہ دے کر اس کی بات "کومہ" میں بیان کرنی ہے۔ایک نقاد کس نظر سے دیکھتا ہے۔ایمرسن کا خیال ہے کہ:
" نقاد وہ شاعر ہوتا ہے جسے شعر گوئی میں ناکامی ہوتی ہے تو وہ تنقید کی طرف آتا ہے۔"
ایمرسن کی رائے وٹسن کے بالکل الٹ ہے۔تنقید میں یہ ضروری نہیں ہوتا کہ سب کی رائے سے اتفاق کیا جائے۔رائے سب کی پڑھنی ہے اور آخر میں اپنی رائے قائم کرنی ہوتی ہے۔ سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ تنقید کار تخلیق کو بغور پڑھے۔
جامع تعریف:
کھرے اور کھوٹے کو پرکھنا، اصلیت کا پتہ لگانا اور معیار جانچنا تنقید کہلاتا ہے۔
تنقید کے حوالے سے اصول:
تنقید کے بارے میں تین مختلف نظریے مختلف لوگوں نے دیئے ہیں۔
• بعض لوگوں کا خیال ہے کہ تنقید محض تعریف اور مدح سرائی کا ذریعہ ہے۔
• تنقید تشریح ہے
• تنقید ایک تجزیہ ہے۔
جن لوگوں کی یہ رائے ہے کہ تنقید تعریف ہے تو وہ اس کی خوبیاں، اچھائیاں بیان کریں گے تو یہ تعریف ہی ہوگی اور اگر کوئی نقص نہ نکالا جائے تو مزید بہتری نہ ہوگی۔اعتراض یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ اچھائی اور برائی میں امتیاز کی صلاحیت عوام میں باقی نہیں رہے گی۔تشریح کے حوالے سے کہتے ہیں کہ تنقید کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ تخلیقی ادب کی شرح بن کر رہ جائے اور صرف اس کی تفسیر لکھی جائے۔بڑھا چڑھاکر وضاحت تو کردی گئی لیکن اچھائی اور برائی بھی بیان نہ کی جائے تو یہ طریقہ بھی غلط ہے۔
تجزیہ کے مفہوم میں بڑی وسعت ہے۔اس لیے کہ یہ خیال کہ فن کار تخلیقی ادب میں جو خیال پیش کرتا ہے۔ان سب کا پتہ لگانا اور تجربہ کرنا تنقید ہے۔ یقینا بہت اہم معلوم ہوتا ہے۔ اس لیے کہ جو باتیں ضروری ہیں وہ سب اس میں موجود ہیں۔ناول، افسانے یا کسی بھی چیز پر جب کوئی نقاد انگلی اٹھائے گا تو وہ اس کے سب پہلوؤں کا تجزیہ کرے گا۔جب اس انداز سے تنقید کی جائے تو درست مانی جائے گی۔
اصول تنقید:
• جتنا وقت تنقید پڑھنے پرصرف کیا جاتا ہے وہی وقت مصنف کو پڑھنے میں صرف کریں۔
• فن کے بارے میں رائے فنی فنی ماہر دے سکتا ہے جیسے تصویروں کے بارے میں مصور
موضوع2:نقاد کی خوبیاں اورذمہ داریاں
• اچھا نقاد وہ ہوتا ہے جس میں مندرجہ ذیل خوبیاں پائی جائیں۔
• اچھا نقاد فن پارے پر رائے دیتے ہوئے ہمیشہ سچائی سے کام لیتا ہے۔
• مبالغہ آرائی سے پرہیز کرتاہے • تعصب سے پاک ہو
• غیر جانب دارہو • ہٹ دھرم اور ضدی نا ہو
• مالی فائدے کے لیے نا لکھے۔
• اچھا نقاد محنتی ہوتا ہے اور جانفشانی سیکام کرتا ہے۔
• اچھا نقاد بے صبری اور عجلت کا مظاہرہ نہیں کرتا
• اختلاف کی جرات ہونی چاہیے۔
• ضعیف الاعتقاد نا ہو • اچھے حافظے کا مالک ہو
• نقاد کی رائے قطعی او ر حتمی ہوتی ہے۔
• مختلف زبانوں کا ما ہرہو
• مختلف اصطلاحات کے بارے میں آگاہی رکھتا ہو
• اس کا اسلوب عام فہم ہو اور تحریر سادہ ہو
• اچھا نقاد وہ ہے جس کا مزاج بھی تنقید والا ہو۔
• فن کی عمارت تنقید پر کھڑی ہوتی ہے۔
بقول ڈاکٹر محی الدین قادری:
" صحیح نقاد وہ ہے جو خوبیوں پر نظر رکھتا ہے اور معائب کو چھپاتا ہے"
موضوع3:نقاد کو پیش آنے والی مشکلات
نقاد کو پیش آنے والی مشکلات:
• ماخذات کے حوالیسے مشکلات
• انسانی رویوں کے حوالے سے مشکلات
موضوع4:تنقید کے اصول
تنقید کے اصول:
تنقید کے اصول اور طریقہ کار میں فرق ہے۔تنقید کے دو مروجہ طریقے ہیں:
• استخراجی طریقہ کار • استقرائی طریقہ کار
استخراجی طریقہ کار:
اس طریقہ کار میں کل سے جزویا عام سے خاص کی طرف جاتے ہیں۔مثلا تمام انسان فانی ہیں لہذابلال بھی فانی ہے۔
استقرائی طریقہ کار:
اس طریقہ کار میں جزو سے کل یا خاص سے عا م کی طرف جایا جاتا ہے۔مثلا خیبر پختونخواہ کے کوے کالے ہیں، پنجاب کے کوے کالے ہیں، بلوچستان کے کوے کالے ہیں لہذاپاکستان بھر کے کوے کالے ہیں۔
تنقید کے اصول
غیر جانبداری:
تنقید کا پہلا اصول غیر جانبداری ہے۔دوستی ،تعلق داری یا پیسے کی لالچ میں جانبداری کا مظاہرہ کرنا نہیں۔اصل نقاد غیر جانبداری کا مظاہر ہ کرتا ہے۔
محنت اور لگن سے کام:
نقاد ہمیشہ محنت سے کام کرتا ہے۔ اچھا نقاد کسی کتاب کو پڑھ کر ہی اس پر تنقید کر سکتا ہے اور رائے دے سکتا ہے۔
حقائق سے آگاہی:
نقاد کو حقیقتوں کا پتہ ہونا چاہیے مثلا انٹرنیٹ کے مسائل ہر جگہ پر ہیں۔ اس حقیقت کو مدنظر رکھ کر رائے دینی چاہیئے یعنی حقیقت پسند ہونا چاہیئے۔
مضمون پر عبور:
ایک نقاد کو اپنے مضمون پر بھرپور عبور ہونا چاہییمثلا نظم پر تنقید کرتے ہوئے نظم کی بنیادی چیزیں مثلا وزن، بحر، ردیف، قافیہ، مطلع، مقطع و?غیرہ کا پتہ ہونا چاہیئے۔ اسی طرح ناول پر تنقید کرنے کے لیے اس کے پلاٹ، موضوع، کردار نگاری،مکالمہ نگاری وغیرہ یعنی اس موضوع کی بنیادیں چیزوں سے آگاہ ہو۔
جرات اظہار:
ایک اچھے نقاد کے اندر جرات اظہارکا ہون ازحد ضروری ہے یعنی مصنف کے قد کاٹھ کو دیکھنے کی بجائے اس کے کام میں جہاں غلطی ہو اسے ببانگ دہل بیان کرسکے۔
شخصیت پرستی سے پرہیز:
نقاد کے لیے لازم ہے کہ وہ شخصیت پرستی سے مکمل پرہیز کرے اور مصنف کی غیر ضروری تعریفیں کرنے سے اس کیمقام کو بلند کرنے کے لیے اس کے ہم پلہ ادیبوں کے کام کے اوپر غیر ضروری اور بے جا تنقید کی جائے گی اوریہ تنقید کے لیے زہر قاتل ثابت ہوگی۔
خوبیوں اور خامیوں کا واضع اظہار:
ایک نقاد کی جانب سے گول مول جواب دینے سے قاری کو سمجھ نہیں آسکے گی اس لیے نقاد کو رائے کا بالکل واضع اظہار کرنا چاہیئے۔یہ نا ہو کہ ایک جگہ تعریف کی جائے اور دوسر ی جگہ اس کے اسی تعریف شدہ پہلو کو ہدف تنقید کا نشانہ بنایا جائے۔

موضوع5:تنقیدکی ضرورت و اہمیت
تنقید:
تنقید عربی زبان کا لفظ ہے۔جس کے معنی جانچنا، پرکھنا ، کھرے اور کھوٹے کو الگ کرنا ہیں۔
تنقیدکی ضرورت و اہمیت:
تنقید کا سلسلہ تخلیق آدم سے شروع ہوا۔ جب اللہ تعالی نے حضرت آدم ؑکو پید اکیا تو فرشتوں نے اللہ سے گزارش کہ کہ یہ انسان دنیا میں جاکر فساد اور لڑائی جھگڑے کرے گا۔ اس کی تخلیق کی ضرورت کیوں پیش آئی؟عبادت کے لیے تو ہم کافی ہیں۔ اس کی تخلیق پر نظر ثانی کی جائے۔اللہ نے فرشتوں کوغرض تخلیق آدم? سے آگاہ کیا۔سب سے پہلے آدم? پر تنقید کی گئی یعنی تخلیق پر تنقید ہوئی۔اس سے یہ بھی واضع ہوا کہ تنقید کے لیے تخلیق کا ہونا ضروری ہے۔
تنقید تخلیقی ذہن کو جلا بخشتی ہے جس کی وجہ سے صحت مند تخلیق وجود میں آتی ہے۔تنقید تخلیق کے فن کے لیے سازگار ماحول مہیا کرتی ہے۔مثلا ایک شاعر نظم میں بے ہودہ الفاظ استعمال کرتا ہے تونقاد اس کو دھوڈالتا ہے۔اس لیے آئندہ لکھنے والے اس تنقید کو مدنظر رکھیں گے تنقید کا دوسرا کام فن پاروں کی تشریح و توضیع کرنا ہے مثلا نقادکیا کہنا چاہ رہا ہے۔تخلیق کار تخلیق کردیتا ہے اور نقاد کا کام یہ ہے کہ وہ وضاحت کرکے بتاتا ہے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط ہے۔ایک انگریز مفکر "ڈیوڈ ڈیشن "کہتے ہیں:
" نقاد ادب کے بارے میں کئی قسم کے سوالات اٹھاتا ہے۔تاہم اگر وہ کوئی سوال نہ بھی اٹھائے تووہ فن پارے کے مختلف طریقوں سے شرح کرکے وضاحت کرکے قاری کے حسن فن میں اضافہ کرتا ہے۔نقاد ادب کے بارے میں کئی سوالات اٹھا تا ہے۔"
تنقید کی ضرورت:
• تنقید سے کسی فن پارے کے محاسن و معائب سامنے آئیں گے یعنی خوبیاں اور خامیاں وغیرہ۔
• شاعروں اور ادیبوں کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے تنقید کا ہونا ضروری ہے۔مثلا تنقید ان شاعروں کو دوبارہ زندہ کرتی ہے جو عرصہ دراز سے شاعری تو کر رہے ہیں لیکن گمنامی میں ہیں۔ان کے کام کو نقاد اجاگر کرتا ہے۔
• تنقید روح عصر کی عکاس ہوتی ہے۔
شیگل کہتے ہیں:
"شاعرماحول اور زمانہ کی پیداوار ہے۔اس کے مزاج میں ماحول اور اس وقت کے حالات و واقعات جو کسی فن پارے پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔اس لحاظ سے تنقید کی زیادہ ضرورت و اہمیت بڑھ جاتی ہے۔جب کوئی نقاد تنقید کرے گا تو فن پارے کے محاسن و معائب بیان کرے گا تو بہتر تخلیق سامنے آئے گی۔"
عام قاری اور نقاد میں فرق ہوگا۔نقاد اس وقت کے حالات و واقعات اور ماحول کو ذہن میں رکھ کر تنقید کرے گا۔
موضوع6:تخلیق، تحقیق اور تنقید کا باہمی تعلق
ادب:
• ادب ایک علمی اصطلاح ہے جو نظمیہ اور نثری ادب کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔
• جذبات کی دلکش موسیقی کا نام ہے۔
• محسوسات و تخیل کا دل نشین رقص ادب ہے۔
ڈاکٹر طہ حسین کے مطابق:
"ادب عربی زبان سے آیا ہے۔ اس کے معنی دعوت کا بلاوا ہے۔ یہ عربی کا ایک لفظ داب ہے جس کی جمع اداب ہے۔اداب بعد میں آداب بن گیا جس کے معانی عادت، ورثہ اور عمل کا طریقہ کے ہیں۔قدیم عربی کے قریشی لہجے میں ادب کا لفظ شامل نہیں تھا۔یہ لفظ پہلی صدی ہجری کے بعد عربی لغت میں شامل ہوا۔بنو امیہ کے دور میں یہ لفظ تعلیم کے معنوں میں استعمال کیا گیا۔اس زمانے میں ادب سے مراد روایت کے ذریعے پڑھانا تھا۔بنو عباس کے دور میں ادب کے مفہوم میں تنگی پیدا ہوئی اوراس سے کم و بیش وہ معنی لئے گئے جو انگریزی میں لٹریچر سے لئے جاتے ہیں۔"
عقل و شعور کے تحرک اور حسن وجمال کے دل پھینک لطیف عمل کا نام ادب ہے۔ادب انسانی محسوسات کا دانشمندانہ اور فنکارانہ اظہار ہے۔یہ اظہار ان لوگوں کے قلم سے ہوتا ہے جو زندگی کے دو پہلو دکھوں ومصیبتوں اور خوشیوں ومسرتوںکا اجتماعی حالات میں انفرادی تجزیہ کرتے ہیں۔قلم سے وہ لوگ جو زندگی کے دکھ سکھ، خوشیاں غمیوں میں زندگی کے اجتماعی حالات کاانفرادی تجزیہ کرتے ہیں انہیں ادیب کہتے ہیں۔ادبی تخلیق، تحقیق اور تنقید ایک بے حد مضبوط اور مستحکم مثلٹ ہے۔آپس میں ان کے ربط میں ہی سماج کی بقاء ہے۔
تحقیق:
• سچائی یا حقیقت کی تلاش کا نام تحقیق ہے۔
• تحقیق یقین یا تصدیق کرنے کو کہتے ہیں۔
• تحقیق کے ذریعے کسی امر کو اس کی اصل شکل میں دیکھنا مقصود ہوتا ہے۔
• ادبی تخلیق سماج کا آئینہ ہوتا ہے۔ شاعراورادیب سماج یا معاشرے کے اندر جو کچھ دیکھتا ہے اسے اپنی تحریر میں لے آتا ہے۔یہ علیحدہ بات ہے کہ ان ادیبوں کے باہمی راستے الگ ہو سکتے ہیں۔ان کے نظریوں اور سوچ میں فرق ہو سکتا ہے۔میر ہو یا غالب ، جوش ہو یا اقبال،پریم چند ہو یا منٹو ، سب نے انسانیت کے لیے لکھا ہے۔ادب کسی قوم کو ذہنی، فکری، تہذیبی اور نظریاتی طور پر مضبوط کرسکتا ہے۔
تخلیق، تحقیق اور تنقید کا تعلق:
فنکار اپنے تجربات یا جذبات پر خود ایک نظر ڈالتا ہے اور اس کا تجزیہ کرتا ہے پھر معاشرے میں لوگوں کے سامنے لے آتا ہے۔تخلیق کے بعد اس کی اصلیت اور صداقت جانچنے کے لیے تحقیق ہوتی ہے۔ تحقیق کے بعدآخری مرحلہ تنقید کا ہوتا ہے۔تخلیق کار پہلا نقا دخود ہوتا ہے۔محقق اور نقاد میں معمولی فرق ہوتا ہے۔ادب جب لکھا جاتا ہے تو اسے تخلیق کہتے ہیں۔پھر اسے محقق دیکھتا ہے اور آخر میں نقاد دیکھتا ہے۔تحقیق اور تنقیدکی بدولت ادبی تخلیق سماج میں نئے رجحانات ، نئی سوچوں اور نئے خیالات کو پروان چڑھاتی ہے۔ مثلا ترقی پسند تحریک نے ادب برائے زندگی کا اصول دیا۔ اس کے بعد تخلیق ہونے والے ادب میں لوگوں کے مسائل کا ذکر کیا گیا۔ تحقیق اور تنقید ایک تخلیق کار کو مجبور کرتی ہیں کہ معاشرے کے مسائل کو اجاگر کیا جائے۔
مقصد:
معیاری فن پارے سامنے لانا
منزل:
معیاری ادب کے لیے لوگوں کو ذہنی طور پر تیار کرنا۔یہ دونوں صلاحیتیں باہمی ربط کی بدولت تخلیق کے معیار کو جانچنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔ تخلیق کو پرکھنے کے لیے استعمال ہونے والے اوزار تحقیق اور تنقید ہیں۔
موضوع 7:تنقید کی اقسام
تنقید کی بہت زیادہ اقسام ہیں اور یہ اقسام با ہم بہت قریب ہیں۔اسی وجہ سے انسان اکثر مغالطے کا شکار ہو جاتا ہے اور ان کو باہم گڈ مڈ کردیتاہے۔تنقید کی درج ذیل اقسام زیادہ اہم ہیں۔
• مارکسی تنقید • استقرائی تنقید
• تجزیاتی تنقید • رومانی تنقید
• سائنسی تنقید • عمرانی تنقید
• نظریاتی تنقید • ہیئتی تنقید
• جمالیاتی تنقید • نفسیاتی تنقید
1۔مارکسی تنقید:
جب کارل مارکس کے اشتراکی نظریات عام ہوئے تو ادبی دنیا میں بھی ان نظریات کی صدائے بازگشت سنائی دینے لگی۔اس طرح تنقید کا ایک نظریہ اور دبستان وجود میں آگیا۔یہ دراصل کارل مارکس اور اس کے مقلدین کے اشتراکی افکار تھے۔اسے اشتراکی تنقید یا مارکسی تنقید کہا جاتا ہے۔مارکسی نقاد 'ادب برائے زندگی' کے قائل ہیں۔مارکسی تنقید کے حوالے سے پروفیسر احتشام حسین کہتے ہیں:
"ادب کی یہ حیثیت کہ اس میں سماجی حقائق اپنی طبقاتی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں اور ادیب کے سماجی رجحان کا پتہ اس کے خیالات سے چلتا ہے۔ادیب زندگی کی کشمکش میں شریک ہو کراسے بہتر بنانے کی راہ بتا سکتا ہے۔اشتراکی حقیقت نگاری اور مارکسی تنقید میں سب سے نمایاں شکل میں یہی نظر آتا ہے۔جو نقاد اس نظریہ تنقید کو اپناتے ہیں وہ روح عصر ، سماجی نفسیات،عمرانیات یعنی ان تمام باتوں پر نگاہ رکھتے ہیں جو طبقاتی سماج میں پیداوار کیمعاشی بنیادوں کے اوپر فکری اور فلسفیانہ حیثیت سے وجود میں آتی ہیں۔"
پروفیسر احتشام حسین کی رائے سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ مارکسی یا اشتراکی تنقید میں ادیب یہ دیکھتا ہے کہ سماجی رجحان کس طرف تھا، اس کے خیالات کیسے تھے، وہ کیسے ماحول میں رہتا تھا،زندگی کے کون سے مسائل سے گزر رہا تھا۔یہ ساری باتیں سامنے رکھتے ہیں۔پاکستان میں مارکسی تنقید کے حوالے سے نمایاں نقاد جنہوں نے شہرت حاصل کی ان میں احتشام حسین، مجنوں گورکھپوری،ممتاز حسین اور فیض احمد فیض شامل ہیں۔ان نقادوں نے اردوتنقیدمیں مارکسی دبستان کی نمائندگی کی۔
2۔استقرائی تنقید:
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ تنقید ادب کا ایک شعبہ ہے۔لیکن بعض نقاد تنقید کو ادب کی بجائے سائنس کی شاخ سمجھتے ہیں۔اس حوالے سے پروفیسر مولٹن اس نظریے کی بنیاد رکھنے والے ہیں۔ان کے استقرائی تنقید کے نظریے کو سائینٹفک تنقید کا نام دیا گیا۔پروفیسر مولٹن کے مطابق اصول انتقاد ہر ادب پارے کے اندر موجودہوتے ہیں۔جن کی روشنی میں اسے جانچا جا سکتا ہے۔یعنی جو ادب پارہ آپ دیکھ رہے ہیں اس کے اندر ہی اس پر تنقید کے اصول بھی ہیں۔کہیں باہر سے کوئی اصول لاکر اس پر تنقید نہیں کی جا سکتی۔مثلا شیکسپیئر کے ڈراموں میں ٹریجڈی اور کامیڈی کے جو اصول ہیں ان کو انہی کے مطابق جانچا جانا چاہیئے۔ارسطو نے اپنے عہد کے بعض یونانی ڈراموں کو سامنے رکھ کرجو وضع کیے تھے وہ اصول یہاں پر قابل قبول نہیں ہوں گے۔دوسرے لفظوں میں شیکسپیئر کے ڈراموں پر تنقید کے لیے اس دور کے ماحول اور اس دور کے ڈراموں کو دیکھا جائے گا۔جب یونانی ڈراموں کی بات کی جائے گی تو ارسطو کے اصولوں کو دیکھا جائے گا۔ایسا نہیں ہو سکتا کہ ارسطو کے اصولوں کی بنیاد پر شیکسپیئر کے ڈراموں پر تنقید کی جائے۔
اس حوالے سے ڈاکٹر سید عبداللہ نے بھی کسی حد تک اس اصول سے اتفاق کیا ہے۔وہ بعض صورتوں میں اس نظریے کو مثبت اور مفید سمجھتے ہیں۔ڈاکٹر سید عبداللہ کہتے ہیں:
"اس میں کچھ شک نہیں کہ ایک حصہ سائنسی طرز اختیار کر سکتا ہے، مثلا مصنف کے حالات، اس کے محرکات تصنیفی،اس کا ماحول، اس کے معاصرین کی بحث وغیرہ۔"
اس میں سائنس یا تاریخ کا طریقہ استعمال ہو سکتا ہے۔عام طور پر ہمارے نقاد کہتے ہیں کہ سائنسی تنقید ادب میں موثر نہیں ہے۔لیکن ڈاکٹر سید عبداللہ کے مطابق بعض صورتوں میں یہ کارآمد ثابت ہوسکتی ہے۔
3۔ تجزیاتی تنقید:
تنقید کا ہر وہ انداز جس میں ادب پارے کے اجزائے ترکیبی کاتجزیہ کرکے اس کا معروضی مطالعہ کیا جائے اور سائنس دان کسی بے لاگ غیر جانبداری اور معروضیت کے ساتھ نتائج اخذ کیے جائیں اسے تجزیاتی تنقید کہا جائے گا۔چونکہ تجزیاتی تنقید میں ادب پارے کے الفاظ بنیاد اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اس لیے نقاد انتخاب الفاظ، بندش الفاظ،تناسب الفاظ، حسن تراکیب، صفحہ بیان، صدق محاورہ،ندرت تشبیہ، جدت ، استعارہ جیسے امور پر بحث کرتا ہے۔ڈاکٹر سلیم اختر کے بقول:
"دبستان ہونے کی حیثیت سے تجزیاتی تنقید کا جائزہ لیں تو بلاشبہ ولیم ایمپسن کواس کا سب سے اہم پیش رو قرار دیا جا سکتا ہے۔یہ آئی۔اے۔رچرڈ کا شاگرد تھا۔رچرڈ کو الفاظ سے جو گہری دلچسپی رہی ہے وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔چنانچہ ایمپسن نے بھی اپنی تنقید کی اساس اس پر استوار کرتے ہوئے الفاظ میں معانی کی مختلف جہات سے پیدا ہونیوالے ابلاغی تنوع کے مخصوص مطالعہ کو ہی مقصود قرار دیا ہے۔"
آسان لفظوں میں تجزیاتی تنقید میں لفظوں ،جملوں پر غور کیا جاتا ہے اور ان کو مدنظر رکھ کر تنقید کی جاتی ہے۔
4۔رومانوی /رومانی تنقید:
رومانوی تنقید رومانوی تحریک کا نظریاتی پہلو ہے۔اسکاٹ جیمز نے لان جائنس کو اولین رومانوی نقاد قراردیا ہے۔رومانویت کی تحریک سے وابستہ شعرائ￿ میں سے ورڈز ورتھ،کولرج اور شیلینقادوں کی حیثیت سے مشہور تھے۔انہی کے افکار سے رومانوی تحریک کے خدوخال روشن ہوئے۔رومانوی تنقید میں فنکار کی عظمت کو جانچنے کے لییروایتی سانچوں اور عروض بیاں کی جکڑ بندیوں کی بجائے فنکار کے جوش تخیل ، الہام، حسن آفرینی،ترسیل مسرت اورجذبات کو اہمیت دی گئی ہے تاکہ قاری کو الہام کے ان چشموں تک پہنچایا جا سکیجو تخلیق کے باوجود اس کے حسن اور مسرت بخشی کا باعث بنے۔یعنی سادہ الفاظ میں رومانوی تنقید الفاظ اور فقروں کی بجائے جذبات کی طرف جاتی ہے۔وہ اس بات کی طرف جاتی ہے جس کو تخلیق کار نے تخلیق میں بیان کیا ہے۔اس سوچ کو دیکھا اور پرکھا جاتا ہے، ان خیالات کوموضوع بنایا جاتا ہے۔
5۔ سائنسی تنقید:
ایسی تنقید جو سائنسدان کی سی کامل معروضیت، غیر جانبداری، سائنسی طرز فکر اور طریق کار سے کام لینے کی مدعی ہو اور تعین ، قدراور فیصلے کو اپنے دائرہ کار سے خارج سمجھے، سائنسی تنقید کہلاتی ہے۔لیکن یہ اصطلاح خاصی مبالغہ آمیز اور مغالطہ انگیز ہے کیونکہ تنقید سائنس نہیں ہو سکتی۔پسند، ذوق، روایت، مقصد، تاثر ، معیار، اخلاق ان ساری چیزیں کے مباحث کو تنقید سے خارج نہیں کیا جا سکتا۔کامل معروضیت اور غیر جانبداری نا ادب میں ممکن ہے نا تنقید میں۔استقرائی تنقید سائنسی ہونے کی مدعی ہے۔تجزیاتی تنقید کو بھی سائنسی تنقیدمیں شمار کیا جاتا ہے۔ ہمارے نقاد سائنسی تنقید، استقرائی تنقید اور تجزیاتی تنقید کو ادب کی تنقید کے لیے موزوں خیال نہیں کرتے ہیں۔
6۔ عمرانی تنقید:
عمرانی تنقید سے مراد وہ تنقید ہے جو ادیبوں اور ان کیادب پاروں کو ان کی معاشرت کے پس منظر میں رکھ کر کی جاتی ہے۔ادیب یا اس کے ادب کو سمجھنے کے لییضروری ٹھہرا کہ اس کے معاشرتی ماحول کو سمجھا جائے۔فرانسیسی نقاد "تین "کے مطابق ادیب کاذہن اور اس کا ادب نسلی معاشرتی ماحول اور وقت کے امتزاج و اشتراک کا نتیجہ ہے ۔چنانچہ کسی ادیب اور ادب کو سمجھنے کے لییانہی اجزائے ترکیبی کو سمجھنا چاہیئے۔کیونکہ متقدمین کے اثراور معاشرتی ماحول تک براہ راست ہماری رسائی نہیں ہے۔معاصرین کے نسلی اور سماجی محرکات کی جڑیں بھی ماضی میں پیوست ہوتی ہیں اور تاریخی حالات و حوادث کواس عہد کے معاشرتی ماحول سیمنقطع کرکے نہیں دیکھا جا سکتا۔ اس لیے عمرانی تنقید تاریخ کی اس حد تک محتاج ہیکہ اسے تاریخی تنقید،اجتماعی تنقید یا عمرانی تنقیدی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔مثلا غالب کی شاعری کے مطالعے کے دوران ہم دیکھیں گے کہ اس وقت ملک کے حالات کیسے تھے، راجے مہاراجے کیسے تھے۔شاعروں کا گزر بسر کیسے ہور ہا تھا۔ملک میں دھنگا فساد ، لڑائی جھگڑا، انگریز مغل کی باہمی صورت حال کو مدنظر رکھ کر ہی غالب کے خطوط اور کلام پر تنقید کر سکتے ہیں۔اس حوالے سے عمرانی تنقید زیادہ اہم ہے کیونکہ اس میں حالات و واقعات دیکھے جاتے ہیں۔
7۔نظری/ نظریاتی تنقید:
نظریاتی تنقید اس قسم کے سوالات سے بحث کرتی ہے کہ:
• ادب کیا ہے؟
• اس کے اجزائے ترکیبی کیا ہیں؟
• ادب میں روایت کا کیا مقام ہے؟
• ادب شخصیت کا اظہار ہے یا روح عصر کی عکاسی کرتا ہے؟
• ادب پارہ لاشعوری کیفیات و رجحانات کا آئینہ ہے یا فن کار کی شعوری کاوشوں کا حاصل/
• ادب کا زندگی کے ساتھ کیا رشتہ ہے؟
• تخلیقی عمل کی منازل ومراحل کیا ہیں؟
• تنقید کی کیا اہمیت ہے؟
• نقاد کے فرائض کیا ہیں؟
• تخلیق اور تنقید کا رشتہ کیا ہے؟
• مختلف اصناف کے صنفی تقاضے کیا ہیں؟
گویا نظریاتی تنقیدکا کام ایسے اصول اور نظریات وضع کرنا ہے جن کی روشنی میں ہم کسی ادیب کو جانچنے کے لیینقاد کے پاس کچھ ایسی بنیادیں ، پیمانے، معیار، نظریات اور مفروضات دیکھتے ہیں تو تب کسی ادیب یا کسی ادب پارے پر تنقید کی جا سکتی ہے۔نظریاتی تنقید نقادکو یہی نظریاتی بنیاد فراہم کرتی ہیاور نقادوں میں یہ نظریاتی بنیادیں دوسرے علوم، مذہب ، فلسفہ، نفسیات، عمرانیات، تاریخ ، معاشیات اور سیاسیات کی مدد سے تیار کیں ہیں۔
8۔ہیئتی تنقید:
یہ تنقید کا ایک انتہا پسندانہ نظریہ ہے۔جس کی رو سے کسی ادب پارے کوصرف ہیئت کے اصولوں کی روشنی میں جانا جاتا ہے۔یہ درست ہے کہ ہر ادب پارہ کسی نا کسی ہیئت کا محتاج ہیاور ہیئت کے کچھ فنی لوازم ہوتے ہیں۔چنانچہ نقاد اگر ان فنی لوازم کو اپنے دائرہ بحث میں شامل کرتا ہے تواس پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک حد تک ضروری ہے۔لیکن جب کوئی نقاد اپنے احاطہ کار کوہیئتی تانے بانے تک محدود کر لیتا ہے توصرف ہیئت کے اصولوں کو معیار بنا کرکسی ادب پارے کو جانچنے کا معیار بنا کرفیصلہ کرتا ہے اور اس کے مقام و مرتبے کا تعین کرتا ہیتو وہ اپنے منصب سے ناانصافی کا مرتکب ہوتا ہے کیونکہ ادب صرف ہیئت کا کام نہیں ہے۔مواد ہیئت کے مقابلے میں اہم تر ہے۔اب دونوں کی ہم آہنگی سے اچھا ادب پیدا ہوتا ہے۔فنی لوازم ہی پرکھ کافی نہیں۔
مواد کی پرکھ، فنکار کے عقائد ونظریات کا تجزیہ اور اس کے فلسفیانہ حیات پر تنقید کرنابھی نقاد کے فرائض میں شامل ہے۔اس کی مثا ل یہ ہے کہ کلیم الدین احمد کے مطابق "غزل ایک نیم وحشی صنف شاعری ہے۔"جبکہ بعض لوگوں کے مطابق غزل کے ذریعے دو مصرعوں میں اپنی بات بیان کرنا زیادتی ہے۔جبکہ دوسری جانب غزل گو شعرائ￿ کے بقول دو مصرعوں میں اتنی بڑی بات بیان کرنا ان کا کمال ہے۔وہ لوگ جنہوں نے ہیئت پسندی کو اہمیت دی اور الفاظ کے گورکھ دھندے سے باہر نکلیانہوں نے اس تنقید کی جانب زیادہ توجہ دی۔
9۔جمالیاتی تنقید:
ڈاکٹر عبادت بریلوی کے مطابق:
"جب تنقید کا رجحان فنی پہلو ؤںکی جانب ہوتا ہے تووہ جمالیاتی تنقید کہلاتی ہے۔"
جمالیاتی تنقید کے کچھ ادبی معیار قائم کردیئے گئے ہیں جن سے کسی تحریر کو جانچا جا سکتا ہے اور اس بات کافیصلہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ ادب ہے یا نہیں۔اگر وہ ادب ہے تو فلاں ادب پارے کے مقابلے میں اس کی حیثیت کیا ہے۔کیونکہ تاثرات ذاتی پسندیدگی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس لیے جمالیاتی تنقید میں نقاد تاثرات اور ان کے نتیجے میں حاصل ہونے والی مسرت کے سرچشمے معلوم کرنیکے لیے ادب پاروں میں حسن کاری کے طریقوں کا مطالعہ کرتا ہے۔ڈاکٹر سلیم اختر کے خیال میں نیاز فتح پوری کی تنقید کو اردو میں جمالیاتی تنقید کا سب سیا چھا اور اہم نمونہ قرار دیا جا سکتا ہے۔نیاز فتح پوری نے انتقادیات جلداول میں اپنا تنقید مسئلہ ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
"جب میں کسی شاعر کے کلام پر انتقادی نگاہ ڈالتا ہوں تو اس سے بحث نہیں کرتا کہ اس کے جذبات کیسے ہوں گیبلکہ صرف یہ کہ اس نے ان کو ظاہر کرنے میں کیا اسلوب اختیار کیا ہے۔وہ ذہن سامع تک اس کو پہنچانے میں کامیاب ہوا ہے کہ نہیں۔خواہ بیان حسن و عشق کا ہویا نحو کی پن چکی کا، اس سے غرض نہیں۔دیکھنے کی چیز صرف یہ ہے کہ شاعر جو کچھ کہنا چاہتا ہے وہ واقعی الفاظ سے ادا ہوتے بھی ہیں کہ نہیں۔"
10۔نفسیاتی تنقید:
یہ علم کسی ادیب یا شاعر کے ذہنی میلانات، نفسی کیفیات، جذباتی واردات،طرز فکر واحساس،رنگ، طبیعت اور عناصر شخصیت کو روشنی میں لا کر اس کی تخلیقات کو سمجھنے میں ہماری اعانت کرتا ہے۔نفسیاتی تنقید کا بانی "فرائیڈ"کو تصور کیا جاتا ہے۔فرائیڈ نے ایک مثلث بنائی اور اس کے مطابق تنقید کے لیے ضروری ہے کہ شعور، لاشعور اور تحت الشعور کو دیکھا جائے۔شعور تو وہ ہے جسے ہم جانتے ہیں مثلا میں شعوری طور پر جانتا ہوں کہ ایم فل اردو کی کلاس میں ۹۷ طالب علم ہیں یا ڈاکٹر مشتاق عادل صاحب ہمیں تنقید پڑھاتے ہیں۔
شعور کے بعد دوسری اہم چیز "تحت الشعور" ہے جو شعور میں ہوتی تو ہے لیکن تھوڑی دھندلی ہو جاتی ہے مثلا میرے پاس فرہنگ آصفیہ اور نوراللغات کے علاوہ ایک اور لغت بھی تھی لیکن کون سی تھی یہ یاد نہیں۔لیکن دماغ پر تھوڑ ازور دینے سے مجھے یاد آجاتا ہے کہ میرے فیروزاللغات بھی تھی۔لاشعور سے مراد وہ بات جو بہت دور کہیں ہمارے دماغ میں چھپی ہوتی ہے اور شاید ہمیں بھی معلوم نہیں ہوتی مثلاایک بندے کو سزائے موت ہو جاتی ہے اور اسے کہا جاتا ہے کہ آپ کو پھانسی پر لٹکا دیا جانا ہے۔اس کے ساتھ اسے یہ کہا جاتا ہے کہ پھانسی تو بڑی دردناک ہے۔وہاں تمہاری لاش دو تین منٹ لٹکتی رہے گی اور تمہیں بڑی تکلیف ہوگی اس لیے کیوں نا ہم تمہیں زہر کا ٹیکہ لگا دیں تاکہ تو جلدی مرجائے اور تمہیں اذیت کم ہو۔وہ فوری طور پر تیار ہوجاتا ہے۔وہ سامنے دیکھتا ہے کہ زہر کا ٹیکہ تیار کرلیا جاتا ہے اور اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی جاتی ہے اور نفسیاتی تجربے کے طور پر اس کے جسم پر ٹیکے کی بجائے ایک عام سوئی چبھوئی جاتی ہے۔دیکھنے میں آتا ہے کہ کچھ ہی دیر میں وہ بندہ مرجاتا ہے۔پوسٹ مارٹم کے بعد یہ انکشاف ہوتا ہے کہ اس کے جسم کے اندر سے ٹیکے والا زہر برآمدہوتا ہے یعنی اس کے جسم کے اندر وہ زہر بن جاتا ہے۔یہ کیسے ہوا؟اس کے شعور میں یہ بات آچکی تھی کہ اب مجھے انجیکشن لگنا ہے اور میں نے مرجانا ہے تو اس کے جسم نے زہر بنانا شروع کردیا۔اسے لاشعور کہتے ہیں۔
فرائید نے نفسیاتی تنقید کی بنیاد شعور، تحت الشعور اور لاشعور کے اوپر رکھی ہے۔فرائیڈ کے مطابق اس وقت تک کسی فنکارکی تخلیقی صلاحیتیں اور اس کے فن پاروں کو نہیں سمجھا جا سکتا جب تک اس کے تحت الشعور میں چھپی ہوئی خواہشات کو نا سمجھا جائے کیونکہ وہی فنی تخلیق کا باعث بنتی ہیں۔شاعر کی شاعری کو سمجھنے کے لیے اس کے تحت الشعور میں جانا لازم ہے۔
اردو تنقید میں میراجی کو پہلا نفسیاتی نقاد کہا جاتا ہے لیکن ڈاکٹر سلیم اختر نے اس رائے سے اختلاف کرتے ہوئے مرزا محمد ہادی رسوا کو اردو کا پہلا نفسیاتی نقاد قرار دیا ہے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر وزیر آغا، حسن عسکری اور ریاض احمد بھی نفسیاتی طریقہ تنقید سے دلچسپی لیتے رہے۔
موضوع8:تنقیدکایونانی اور لاطینی دور
تنقید:
تنقید عربی زبان کا لفظ ہے۔جس کے معنی جانچنا، پرکھنا ، کھرے اور کھوٹے کو الگ کرنا ہیں۔
تنقیدکی ضرورت و اہمیت:
تنقید کا سلسلہ تخلیق آدم سے شروع ہوا۔ جب اللہ تعالی نے حضرت آدم ؑ کو پید اکیا تو فرشتوں نے اللہ سے گزارش کہ کہ یہ انسان دنیا میں جاکر فساد اور لڑائی جھگڑے کرے گا۔ اس کی تخلیق کی ضرورت کیوں پیش آئی؟عبادت کے لیے تو ہم کافی ہیں۔ اس کی تخلیق پر نظر ثانی کی جائے۔اللہ نے فرشتوں کوغرض تخلیق آدم? سے آگاہ کیا۔سب سے پہلے آدمؑ پر تنقید کی گئی یعنی تخلیق پر تنقید ہوئی۔
نقاد بھی اسی دن پیدا ہوگیا تھا جس دن پہلی تخلیق ہوئی تھی۔اس حوالے سے پہلا شخص سقراط تھا۔ اس سے فلسفے کی بنیاد پڑی۔اس نے اپنے ہاتھ سے کچھ نہیں لکھا لیکن اس کی باتوں کو اس کے شاگرد افلاطون نے مکالمے کی شکل میں لکھا اور اس کتاب کا نام" مکالمات افلاطون"ہے۔اس کتاب میں زندگی کے تمام موضوعات پر بات کی گئی ہے۔ اس میں ایک مثالی ریاست کے موضوع پر بھی بات کی گئی ہے۔یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ تنقید کی ابتداء یونان سے ہوئی۔
بوطیقا ارسطو کی کتاب ہے۔ بوطیقا میں ارسطو نے نقل، فطرت، شاعری کی اصل، شاعری کی اقسام، المیہ کے اصول وغیرہ پر بحث کی ہے اور شاعری کا ایک آفاقی نظریہ پیش کیا ہے۔ ’’نقل‘‘ جمالیات کی ایک بنیادی اصطلاح ہے۔ ارسطو اس لفظ کا اطلاق شاعری پر کرتا ہے۔ پروفیسر بوچر کے الفاظ میں ارسطو کے ہاں نقل کا مطلب ہے حقیقی خیال کے مطابق تخلیق کرنا اور خیال کے معنی ہیں اشیا کی اصل جو عالم مثال میں موجود ہے، جس کی ناقص نقلیں اس دنیا میں نظرآتی ہیں۔ عالم حواس کی ہر شے عالم مثال کی نقل ہے۔
دنیا کا پہلا معلوم شاعر "ہومر"تھا اور وہ بھی یونانی تھا۔ جن کا دور 8 صدی قبل مسیح کا ہے۔ اس نے ایلیاڈ اور اوڈیسی جیسی شاہکار رزمیہ نظمیں لکھیں تھیں۔ اْس کا اصل زمانہ معلوم نہیں ہے مگر ??رودوت کا کہنا ہے کہ وہ ہومر کا زمانہ اْس سے تقریباً 400 سال پہلے کا ہے جبکہ کچھ قدیم تخمینہ ٹرائے کی جنگ جو 12 صدی قبل مسیح بنتا ہے۔ وہ ایک نابینا کہانی گو کے حوالے سے بھی پہچانا جاتا تھا۔ اہل یونان کے لیے اس کی نظمیں بائبل کا درجہ اور شکل رکھتی ہیں۔
ڈاکٹر جمیل جالبی کے مطابق:
"ہومر کے ہاں جو دنیا کا پہلا معلوم شاعر ہے۔عظیم شاعرانہ قوتوں کے ساتھ ساتھ گہرے تنقیدی شعور کا احساس ہوتا ہے۔"
پہلا خالق ہی پہلا ناقد ہوتا ہے۔ اس حوالے سے پہلی مثال ورجل (Virgil)ہے۔اس نے ایک نظم (Aeneid) لکھی اور اس کی تزئین و آرائش میں ساری عمر گزار دی۔ اس نظم میں مذکورہ علاقوں کے سفر کے لیے اس نے ان تمام علاقوں کا سفر کیا۔ اس نے لکھا کہ میرے مرنے کے بعد میری نظم کو جلا دیا جائے۔ اس نظم پر کسی نے بھی تنقید نہیں کی یعنی پہلا تخلیق کار ہی اپنی تخلیق سے مطمئن نا تھا۔
ورجل 15 اکتوبر 70 قبل مسیح کو پیدا ہوا۔ وہ روم سب سے عظیم شاعر مانا جاتا ہے۔ اس کی لکھی ہوئی نظم اینیڈ (aeneid) قدیم روم کے زمانے سے لے کر آج تک ایک قومی رزمیہ (national epic) کا درجہ رکھتی ہے۔ اس نے یہ 29 قبل مسیح سے 19 قبل مسیح کے درمیان میں لکھی تھی۔ یہ اس کا بہترین کام اور مغربی ادب کی تاریخ کی سب سے اہم نظم ہے۔ رواج کے مطابق ورجل نے 19 قبل مسیح کو یونان کا سفر کیا تا کہ اینیڈ پر نظر ثانی کر سکے۔ یونان کے شہر میگارا کے پاس سے گزرتے ہوئے اسے بخار ہو گیا۔ بحری جہاز سے اٹلی جاتے ہوئے وہ مزید بیماری سے مزید کمزور ہو گیا۔ اور اطالیہ میں برینڈیسی کی بندرگا پر 21 ستمبر 19 قبل مسیح کو اس کا انتقال ہو گیا۔
افلاطون نے مثالی ریاست کا جو تصور پیش کیا اس نے اس میں شاعری کی اجازت دینے کی بات کی لیکن یہ شاعری نیکی، انصاف اور بہادری کے نمونوں پر مبنی شاعری ہونی چاہیئے۔ نوجوانوں کے جذبات میں وجدانی یا ہیجانی کیفیت پیدا کرنے والی شاعری کی اجازت نہیں ہوگی۔ارسطو نے افلاطون کے نظریات پڑھ پر اپنے نظریات تشکیل دیئے اور ان میں وہ کہیں حمایت میں اور کہیں مخالفت میں نظرآتاہے۔ بوطیقا میں شعر و ادب سے متعلق تین باتیں کی ہیں۔
• فن میں نقل کا مقصد
• شاعری کا مقصد اور اہمیت
• شاعری کی افادیت
ارسطو کے مطابق بڑی شاعری ہمہ گیری اورکائناتی صداقتوں کی حامل ہوتی ہے اور زمان و مکان کی اسیر نہیں ہوتی جیسے اقبال کا مطالعہ آج بھی دنیا بھر میں ہورہا ہے۔ ارسطو کے نزدیک شاعری سے چار کام لیے جا سکتے ہیں؛
• لذت • اخلاقی تربیت
• تفریح • تزکیہ نفس
ارسطو کے مطابق شاعری میں المیہ(دکھ) کے علاوہ رزمیہ(بہادری)، طربیہ(خوشی) اور غنائیہ (موسیقی)بھی ہونا چاہیئے۔اپنی کتاب بوطیقا کے شروع میں ارسطو نے المیہ کا ذکر تفصیل سے کیا ہے جبکہ رزمیہ پر مختصر گفتگو کی ہیلیکن اس کے برعکس طربیہ اورغنائیہ کا ذکر کرنا بھول گیا ہے۔
پہلی صدی عیسوی میں لانجائنس پہلے رومانوی نقاد کے طور پر سامنے آیا۔اس نے ترفع (Sublime)کا نظریہ پیش کیا۔اس سے عام مراد جمالیات اور خوبصورتی ہے۔ترفع زبان کی عظمت و شوکت ہے اور اس کا مقصد شعر و نثر دونوں میں انسانوں کو وجدانی کیفییات کا حامل بنانا ہے اور یہ کام ایک موثر اور بروقت ضرب سے لیا جا سکتا ہے۔رومانویت کی ابتدا لان جائنس نے کی۔ لان جائنس اپنے مخصوص نظریہ ترفع کے پانچ ماخذات کا ذکر کرتا ہے۔ اور ان میں دو کو فطری اور تین کو اکتسابی قرار دیتا ہے
• عظمت خیال • شدت جذبات
• صنائع و بدائع کا مناسب استعمال • اعلی الفاظ کا انتخاب
• اعلی ترتیب الفاظ
مغربی ادب میں ’’ لانجائنس ‘‘ پہلا باقاعدہ رومانو ی نقاد جانا جاتا ہے۔ جس کے ہاں ’’ نظریہ ترفع‘‘ اور ’’عالم وجد ‘‘ ملتے ہیں۔ نظریہ ترفع میں لانجائنس اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کہ خالق عمل تخلیق میں ایک عالم وجد میں پہنچ جاتا ہے۔ اور اس سطح سے جب وہ کوئی تخلیق قاری کے سامنے پیش کرتا ہے تو لازم ہے قاری بھی اس عالم وجد میں پہنچ جائے۔ اس کی کیفیت خالق سے ہم آہنگ ہو جائے وہ اپنی سطح سے اْٹھ کر خالق کی سطح پر جا پہنچے اور ایک وجدانی کیفیت سے دوچار ہو۔
مندرجہ بالا ماخذات میں سے عظمت خیال اور شد ت جذبات عطیہ خداوندی(فطری) ہے۔ مولانا الطاف حسین حالی نے بھی کہا ہے کہ بلند پروازی شاعری کے لیے ضروری ہے۔یونان کے اس عہد میں ادب کے آفاقی نظریے کلاسیکیت، رومانویت دونوں سامنے آتے ہیں۔
موضوع 9:مغربی تنقید کے اہم نام
پس منظر:
لان جائنس کے بعد۱۳۰۰ سال تک خاموشی رہتی ہے اور پھر "دانتے" کے آنے سے یہ خاموشی ٹوٹتی ہے۔انگلستان میں "فلپ سڈنی" ، فرانس کے "بولو"ڈرائیڈن ، پوپ، جانس، گوئٹے، ورڈز ورتھ، کولرج وغیرہ جیسے قابل ذکر نام ہمارے سامنے آتے ہیں۔
ورڈزورتھ:
ورڈز ورتھ کا تعلق انگلینڈ سے تھا۔ اس کی ملاقات کولرج سے ہوئی اور مل کر سوچا جو شاعری ہو رہی ہے اس میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔لہذا وقت کی ضرورت ہے کہ انگریزی ادب میں تبدیلی لائیں تاکہ مقصدیت کو بھی ہو۔ لوگوں کو فائدہ بھی ہوگا اس کے لیے ماحول تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ورڈزورتھ نے اپنی کتاب"کلیریکل بلیڈز " کے دوسرے ایڈیشن میں ایک مقدمہ یعنی تمہید لکھی۔جیسے مقدمہ شعر و شاعری میں حالی نے شروع میں جو صفحات لکھے اردو ادب میں ان کو بنیادی اہمیت حاصلہے۔ اسی طریقے سے جو تمہید ورڈزورتھ نے لکھی وہ تنقید کا پورا راستہ متعین کرتی ہے۔اس میں انہوں نے اپنا نکتہ نظر اور ماہیت بیان کی۔ انہوں نے بتایا کہ نئی شاعری کس طرح کی ہونی چاہیئے۔اس کے قواعد و ضوابط کیا ہوں۔ورڈز ورتھ کی تمہید اس اعلان سے شروع ہوتی ہے :
"شاعری بادشاہوں، امیروں اور نوابوں کے لیے نہیں ہے۔اب وہ دور ختم ہوگیا جب اس بات کا خیال رکھا جاتا تھا کہ بادشاہوں کو جو پسند ہے وہ لکھا جائے۔ اب جو موضوعات اور زبان کا معیار ہے وہ لکھا جائے۔اس کے لیے کچھ اصول متعین کیے جانے ہیں۔انہی پر عمل کیا جائے گا۔ اب زبان اور موضوع شاہی دربار سے نکل کر عوام میں واپس آجائے گا۔"
ورڈزورتھ نے جو تھیوری پیش کی اس کا مطلب یہ ہے کہ اب عوام کے لیے لکھیں۔ ورڈزورتھ نے لکھا کہ:
"شاعری اور ادب کا مقصد عام زندگی سے موضوعات حاصل کرکے انہیں شاعری میں ڈھالنا ہے۔"
جیسے نظیر اکبرآبادی کو عوامی شاعر کہا جاتا ہے کیونکہ ان کے موضوعات عوام سے متعلقہ ہیں تو انہوں نے یہ کہا کہ وہ دیہاتیوں کو معیار بناتا ہے۔ ان کی تعریف و توصیف کرتا ہے۔ ان کی زبان کو شاعری کی زبان بناناچاہتا ہے۔ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ کلاسیکی لوگوں نے شاعری پر بناوٹی اور مصنوعی رنگ مسلط کیا ہوا ہے۔وہ اس طرز کے خلاف اعلان بغاوت کرتا ہے اور روزمرہ کی عا م زبان کوشاعری میں برتنے کا دعوی کرتا ہے۔ مثلا ہمارے ہاں غالب اور میر بہت بڑے نام ہیں لیکن جب میراجی، ن۔م۔راشد اور مجید امجد جیسے لوگ آئے تو انہوں نے کہا کہ غزل اپنی جگہ ہے لیکن نظم کی صورت میں جدید شاعری کی شکل میں لوگوں کے جذبات کی ترجمانی ہونی چاہیے۔انہوں نے جدید نظم ، جدید شاعری کی بنیاد رکھی۔ اس طرح ورڈزورتھ نے شاعری کو عام آدمی کا موضوع بنانے کی بات کی ہے۔
ورڈزورتھ شاعری کو دل کی آواز اور بیسا ختہ استعمال کہتا ہے۔اسے شہری زندگی سے بالکل دلچسپی نہیں تھی۔ اس کا زاویہ نگاہ نیچر کے ساتھ رہنے والے لوگ وہ ہیں اورنیچر کے ساتھ رہنے والے انسان دیہات میں رہتے ہیں۔دیہات کے مناظر فطری شاعری کے موضوعات ہیں۔
ورڈزورتھ دیہاتیوں کی زبان کو زیادہ موزوں سمجھتا ہے کیونکہ جو لوگ نیچر کے ساتھ رہتے ہیں ان کا تعلق اسی زبان سے ہوتا ہے۔مثلا ماہرین لسانیات کے مطابق خالص زبان اور معیاری لہجے دریاؤں کے اردگرد لوگوں سے ملیں گے۔کیونکہ قدیم تہذیبیں قدیم لوگ ، قدیم آبادیاں وہیں ہیں اور جو قدیم آبادیاں ہیں وہاں یہ اصل زبان موجود ہے۔جو آبادیاں بعد میں بنیں وہاں پہ آکے زبان کا وہ خالص پن نہیں رہا۔ ورڈزورتھ کے مطابق جذبات ہی اصل چیز ہے اور شاعر کا کام یہ ہے کہ دوسروں تک یہ جذبات اس طور پہنچائے کہ جیسے پڑھنے والے کو یوں معلوم ہوں جیسے یہ شاعری میرے لیے کی گئی ہے اورلوگوں کو لگے کہ ادب ان کے لیے تخلیق کیا گیا ہے۔
کہانی اپنی رودادِ جہاں معلوم ہوتی ہے
جو سنتا ہے اسی کی داستاں معلوم ہوتی ہے
ورڈزورتھ یہ کہتا ہے کہ:
" شاعری ایک قسم کے پراسرار رشتے کو جنم دیتی ہے جو دوانسانوں میں قائم ہوجاتا ہے۔"
اس ساری تمہید سے یہاں مراد یہ ہے کہ جو اس کی کتاب ہے وہ بھی ایک نظم ہے جو ایک خاص قسم کی شاعری کا ذوق پیدا کرنے کے لیے لکھی گئی۔ اس کتاب میں جہاں کہیں ورڈزورتھ شاعری پر اظہار خیال کرتا ہے وہیں وہ الجھ جاتا ہے(یہ منفی پہلو ہے)، مثلا جب وہ کہتا ہے کہ نظم اور نثر میں کوئی فرق نہیں اور پھر یہ بھی پوچھتا ہے کہ آخر اس زبان نے بحروں کا استعمال کیوں کیا تو وہ خود بھی الجھ کر رہ جاتا ہے۔جیسے مسدس حالی،مقدمہ شعر وشاعری کا پہلا حصہ تنقید پر مشتمل ہے۔اس سے آگے پڑھیں تو پتہ چلتا ہے کہ حالی نے جو زاویے مقررکیے ان پر آگے چل کر عمل کیا۔ورڈزورتھ کے مطابق نثر اور نظم کی ایک زبان ہے۔
ورڈزورتھ کی فطرت شاعرکی فطرت ہے۔جو نظم میں اپنا اظہار کرسکتی ہے۔ وہ نقاد نہیں ہے کہ اسباب پر روشنی ڈالے۔ان سوالوں کی تشنگی کولرج دور کرتا ہے۔وہ ان سوالوں کا ایسا تسلی بخش جواب دیتا ہے کہ یورپ کی تنقید آج بھی اس(کولرج) کے بغیر نامکمل ہے۔ یہاں ورڈزورتھ پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ نثر اور نظم کی ایک زبان ہوتی ہے۔ جبکہ ایسا نہیں ہے نثر کی اپنی مخصوص زبان ہوتی ہے اور نظم کی اپنی مخصوص زبان ہوتی ہے۔ اگر آگے چل کر دیکھیں تو ہر صنف یعنی غزل، نظم، افسانے وغیرہ کی اپنی اپنی مخصوص زبان ہوتی ہے۔
کولرج:
ورڈزورتھ کی تمہید کے سترہ سال بعد کولرج نے "بائیو گرافیا لیٹریریا" کتاب لکھی۔ اس کتاب میں کولرج نے ورڈزورتھ کیعام خیالات سے اتفاق کیا لیکن مختلف جگہ پر اختلاف کیا۔ اس نے بتایا کہ کون کون سی باتیں اس کی ٹھیک ہیں اور کون سی غلط ہیں۔خاص طور پردیہاتیوں کی زبان پر بھی اختلاف کیا۔کولرج کے مطابق دیہاتیوں کی زبان اپنی جگہ برقرار رہتی ہے لیکن شہری زبان میں جدت آجاتی ہے۔نئے الفاظ لے آتے ہیں، نئے محاورات آجاتے ہیں لہذا شہریوں کی زبان زیادہ اچھی ہے۔
کولرج کے نزدیک بہترین زبان مفکروں کی زبان ہے لیکن ضروری ہے کہ ان کی زبان کو روایتی نارہنے دیا جائے۔ اپنی اس تصنیف میں کولرج منطق، فلسفہ اور مابعد الطبیعات کی طویل بحث اٹھاتا ہے۔اور یہ واضع کرتا ہے کہ شاعری کی زبان دیہات کی زبان نہیں بلکہ معیاری زبان ہونی چاہیئے جو روزمرہ کی معیاری زبان کے قریب ہو اور جس میں شاعر حسب ضرورت اضافہ اور تبدیلی کرسکے۔زبان کے سلسلے میں یہی تخلیقی آزادی ہے۔
ورڈزورتھ نے کہا تھا کہ نظم اور نثر کی زبان میں فرق نہیں ہوتا تو کولرج اس بحث پر تفصیل سے بات کرتا ہے کہ وزن کیا ہے، بحر کیا ہے، بحر کی ضرورت کیوں پڑتی ہے۔وہ بتاتا ہے کہ نظم و نثر کے لیے علیحدہ علیحدہ زبان ہونا ضروری ہے۔کولرج یہ سوال بھی اٹھاتا ہے کہ جب وہ اصول رد کیے گئے جو قدماء نے وضع کیے تھے تو ادب کو پرکھنے کے لیے پھر کون سے اصولوں سے کام لیا جائے۔ یہ سوال اٹھا کہ شاعری کی الہامی قوت پر زور دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جو الہامی قوت ہوتی ہے وہ ایک پراسرار قوت ہوتی ہے۔الہامی قوت کبھی دھوکہ نہیں دیتی۔شاعری اس سے متضاد اور الگ چیز ہے۔اس کے الگ الگ ٹکڑوں سے وہ اثر پیدا نہیں ہوتا جو ایک پوری نظم پڑھنے سے ہوتا ہے۔ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ شاعر پیدائشی ہوتا ہے اور عروض بھی اندر سے اٹھتا ہے۔جس کے مطابق وہ شاعری تخلیق کرتا ہے۔
رو مانوی ادب نے مزاح کے سخن کو آزادی دلا کر اور شاعر کی ذات کو اہمیت دے کر عام آدمی کے ہاتھ سے ذاتی رائے اور بے اصولی کا ایک ایسا اصول دے دیا کہ آئندہ دور میں وہ توازن قائم نہ رکھ سکا جو اچھے ادب میں بنیادی شرط تھی۔کولرج کے بنیادی فلسفے کو یہ نقصان ہوا۔
میتھیوآرنلڈ:
میتھیوآرنلڈ۱۸۲۲ء میں پیدا ہوا اور ۱۸۸۸ئمیں فوت ہوا۔ ابتداء میں اس نے شاعری کی۔ اپنی نظموں پر دیباچے لکھے۔ انتہا پسندانہ رویوں پر تنقید کی۔ ہر تخلیق کار کے اندر ایک نقاد موجود ہوتا ہے۔یہ شاعر تو تھا لیکن اس کے اندر تنقید کی حس بھی موجود تھی۔بعد میں اس نے شاعری چھوڑ دی اور پوری توجہ تنقید کی طرف دی۔
اس نے نقاد کے منصب کے بارے میں کہا کہ نقاد کو لکیر کا فقیر نہیں ہونا چایئے اور ناہی رومانویوں کی طرح اصولوں سے بالاتر ہونا چاہیے بلکہ اس زمانے کے تقاضوں کے مطابق خود اصول وضع کرنے چاہییں یعنی نقاد کو نا کلاسیکی اور نا رومانوی ہونا چاہیے۔ان اصولوں کو حرف آخر نہیں ہونا چاہیئے اور وقت کے ساتھ ان میں تبدیلی ہونی چاہیے۔شاعری کا معیار بلند ہونا چاہیے۔آرنلڈ ادب کو سمندر سمجھتا ہے اور ادب سے ہر کوئی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔آرنلڈ تمام یورپ کے ادب کو ایک ارتقاء کے سلسلے سے دیکھتا ہے۔یہ وہی نقطہ نظر ہے جس نے اسے مقبولیت دی اور آج تک ادب کو اسی زاویے سے دیکھا جاتا ہے۔ آرنلڈ کے نزدیک ادب کی تاریخ میں دو طرح کے دور آتے ہیں؛تنقیدی عمل اور مواد جمع کرنااور جب مواد جمع ہو جاتا تو تخلیق اپنے کمال کو پہنچتی ہے۔پہلے سب کچھ اکٹھا ہوتا ہے تو اچھی تخلیق کی جانب جاتے ہیں تب فائدہ اٹھاتے ہیں۔
ٹی ایس ایلیٹ:
ٹی ایس ایلیٹ ۸۸۸اء میں پیدا ہوا اور ۱۹۶۵ئمیں فوت ہوگیا۔اس نے ایک دفعہ کہا کہ:
"ادب میں اس کی سوچ کلاسیک ہے،سیاست میں شاہ پسند ہے اور مذہب میں اینگلو کیتھولک ہے۔"
اس کے اعلان سے اس کی شخصیت سمٹ کر سامنے آتی ہے۔ ایلیٹ رومانوی رجحانات کی نفی کرتا ہے۔ وہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ شاعری میں شخصیت اہم نہیں ہے بلکہ کلام کی اہمیت زیادہ ہے۔شاعرکی شاعری کے وہ حصے زیادہ پسند ہوتے ہیں۔بنیادی فرق یہ ہے کہ رومانویت والے کہتے ہیں کہ شاعر کو اہمیت دو جبکہ کلاسیکیت والے کہتے ہیں کہ کلام کی اہمیت زیادہ ہے نا کہ فنکار کی۔ایلیٹ کے بقول کسی شاعری کی شاعری کے وہ حصے زیادہ اہم ہوتے ہیں جو شاعر کوبھول کر روایت میں گم گم کر دیں۔اس کامطلب یہ نہیں کہ روایت ہی اہم ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ زمانے کی تبدیلی بھی ضروری ہے۔ شاعری میں تاریخی شعور ہونا چاہیے۔یعنی وقت کے ساتھ ساتھ جو تبدیلیاں ہوتیں ہیں اس سے بھی فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ایلیٹ کے نزدیک نقاد کا منصب یہ ہے کہ وہ غیر جانبدار ہو۔تب ہی وہ صحیح فیصلے کرسکتا ہے۔جب وہ غیر جانبدار ہوگا اس کی مدد سے ہمیں صحیح فیصلوں تک پہنچنے کا معیار مل جاتا ہے۔ ایلیٹ بھی آرنلڈ کی طرح ادب کو کلچر کی ایک شاخ سمجھتا ہے۔مذہب اور کلچر ایک دوسرے سے وابستہ ہیں۔مذہب کلچر کو ایک نیا توازن دیتا ہے۔اس لیے وہ شاعری کا مذہبی رسوم اور عبادات سے مقابلہ کرتا ہے۔اس کے آخری دور کی نظمیں وہی اثر رکھتی ہیں جوکسی بھی مذہبی رسم کا ہوتا ہے۔ یعنی آخر میں وہ مکمل طور پر مذہب کے اندر مذہب آجائے گا تو وہ زیادہ جاندار بن جائے گی۔
موضوع 10:اردو تنقیدکا ارتقا
تنقید کے پس منظرکاپہلانظریہ :
بعض لوگوں کے مطابق اردو تنقید کا آغاز تذکروں سے ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں فارسی زبان میں۱۷۶۷ء یں فارسی زبان میں چھپنے والے میر تقی میر کے تذکرے "نکات الشعراء " کو سب سے پہلا تذکرہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس میں اردو شاعروں کے حوالے سے لکھا گیا تھا۔اردو زبان میں پہلا تذکرہ ۱۸۰۸ء میں 'مرزا علی لطف 'نے" گلشن ہند "کے نام سے لکھا۔
تنقید کے پس منظرکادوسرانظریہ :
تمام ناقدین متفقہ طور پر۱۸۹۲ئمیں مولانا الطاف حسین حالی کے لکھے گئے "مقدمہ شعر و شاعری "کو تنقید کا نقطہ آغاز سمجھتے ہیں۔ ادب کی روایات پروان چڑھتے ہوئے۱۳۰سال میں ہماری تنقید نے جس رفتار سے ترقی کی ہے وہ بے مثال ہے اور اردو تنقید کی قابل رشک ترقی کا کسی بھی دوسری زبان سے موازنہ کیا جا سکتا ہے۔۱۸۹۲ئسے پہلے ایک مورخ اور بھی ہیں جن کا نام محمد حسین آزاد ہے۔ان کے لیکچر ز جو انہوں نے انجمن پنجاب کے پلیٹ فارم سے دیئے۔ان کو کتابی صورت میں 'آب حیات' میں اکٹھا کیا گیا۔بعض ناقدین کے مطابق مولانا حالی سے قبل ہی محمد حسین آزاد نے اردو تنقید کی بنیاد رکھ دی تھی۔
تنقید کے پس منظرکاتیسرانظریہ :
اردو تنقید کا آغاز استادی شاگردی کے اداروں اور مشاعروں اور مجلسی تنقید سے ہوا۔اس نظریے کے مطابق اردو شاعری اور تنقید کا آغاز ایک ساتھ ہوا۔ نئے تخلیق کار مشاعروں میں اپنی تخلیق پیش کرتے اور سامعین اس کی خوبیاں و خامیاں بیان کرتے ہیں۔اسے مجلسی تنقید کہتے ہیں۔اس لیے جب سے اردو شاعری شروع ہوئی ہے تب سے اردو تنقید کا آغاز ہوا ہے۔کلیم الدین احمد سمیت متعدد نقاد تذکرہ نگاری کو تنقید نہیں مانتے اس اعتبار سے آب حیات تک ہونے والی تنقید کو تنقید کا پس منظر توکہا جاتا ہے لیکن تنقید نہیں۔اس لحاظ سے تنقید کی پہلی کتاب مولانا محمد حسین آزاد کے لیکچرز جو بعد میں ان کی کتاب کا دیباچہ بنا یا پھرمولانا حالی کا مقدمہ شعر وشاعری جو وہ اپنے دیوان کے ساتھ لگانا چاہ رہے تھیلیکن انتہائی مفصل ہو جانے کی وجہ سے علیحدہ کتابی شکل میں چھپا۔
تقابلی تنقید کا آغاز:
تقابلی تنقید کا آغاز مولانا شبلی نعمانی سے ہوا۔آپ سوانح نگار اور مورخ بھی تھے لیکن 'موازنہ انیس و دبیر لکھ کر آپ نے تقابلی تنقید کا آغاز کیا۔مرزا ہادی رسوا کے تنقید ی مضامین نے نفسیاتی تنقید کی بنیاد رکھی۔یہ تنقید کا پہلا دور تھا۔
تنقید کا دوسرا دور(رومانوی تحریک):
اس دور میں لکھی جانے والی تنقید رومانوی تنقید کی بجائے تاثراتی تنقید تھی۔ لیکن اس دور کے نقاداسے تخلیقی تنقید سمجھتے تھے۔ تمام رومانوی نقاد ترقی پسندوں کے نظریات سے قربت کی وجہ سے ان کے ساتھ مل گئے۔یوں رومانوی نقاد بطور ترقی پسند معروف ہوئے۔
ترقی پسند تحریک:
ترقی پسند تحریک میں پہلا بڑا نام اختر حسین رائے پوری کا ہے۔انہوں نے ترقی پسند تنقید کا آغاز اس وقت کیا جب سید سجاد ظہیر انجمن ترقی پسند مصنفین کا پروگرام لے کر ابھی ہندوستان میں پہنچے ہی نہیں تھے۔ اختر حسین رائے پوری کی ترقی پسند تنقید کا آغاز جولائی ۱۹۳۵ ء میں رسالہ اردو میں چھپنے والے مضمون ادب اور زندگی سے ہوا جب کہ ترقی پسند تحریک کا باقاعدہ آغاز ۱۹۳۶ ء میں ہوا ۔ ابتدا میں ان ترقی پسند دانش وروں میں شدت پسندی بہت زیادہ تھی۔ ابتدائی ناموں میں زاہد انصاری ، احمد علی، عبدالعلیم اورعلی سردار جعفری ہیں۔
شدت پسندی کے نقصانات کی وجہ سے ان کا اندازہ سجاد ظہیر کو بہت جلد ہوگیا پھر انہوں نیاس کے تدارک کے لیے ترقی پسند نقطہ نظر میں توازن و اعتدال پیدا کرنے کے لیے اپنی کتاب "روشنائی" لکھی۔بعد میں عزیز احمد، مجنوں گورکھپوری، احتشام حسین اورممتاز حسین جیسے لوگوں نے ترقی پسند دبستان کو تشکیل دینے میں کردار اد اکیااور تحریکی نقطہ نظر کو ادبی اصولوں سے ہم آہنگ کیا۔
۱۹۵۳ء میں انجمن ترقی پسند مصنفین پر پابندی لگ گئی جب کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پرپابندی لگائی گئی تھی۔اس کے بعد ترقی پسند لوگ یا تو خاموش ہو گئے یا دوسرے ناموں سے کام کرنے لگے۔۲۰۰۱ء میں لاہور میں ترقی پسند تحریک دوبارہ شروع ہوئی اورانجمن کی سرگرمیاں بحال ہوئیں۔یہ نئے ترقی پسند پیپلز پارٹی کے جیالے تھے۔ان میں کوئی پائے کا نقاد نہیں ملا۔بلاشبہ ترقی پسند تحریک اردو کی سب سے بڑی ادبی تحریک تھی۔ادب پر جتنے اثرات اس تحریک نے مرتب کیے کوئی دوسری تحریک اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔
حلقہ ارباب ذوق:
پاکستانی تنقید میں حلقہ ارباب ذوق کا کردار بڑا اہم ہے۔حلقہ اربا ب ذوق کا آغاز ۱۹۳۹ء میں ہوا۔یہ چند ادیبوں کی نجی مجلس تھی جو بعد میں ترقی کرکے انجمن کی شکل اختیار کر گئی اسی لیے بعد میں اس کا باقاعدہ آئین اور منشور بنایا گیا۔حلقے کی تنقید کا مرکز 'میر اجی ' تھے۔میرا جی کو قیوم نظر حلقے کے اجلاس میں لے گئیبعد میں حلقے کے مزاج اور روایت کا آغاز میرا جی کی وجہ سے ہوا۔میرا جی سے پہلے اس حلقے میں تنقید کا معیار بڑا پست تھا۔ میرا جی نے حلقے میں نظم کے تجزیاتی مطالعے کا آغاز کیا جس نے ادب کی تفہیم کے نئے دور کا آغاز کیا۔اس کے بعد غزل، نظم، افسانے وغیرہ کا تجزیاتی مطالعہ شروع ہوا۔
حلقے سے تعلق رکھنے والے دوسرے اہم نقادوں میں مظفر علی سید ،جیلانی کامران ، انیس ناگی، سجاد باقر رضوی، سہیل خان، سعادت سعید ، سراج منیرشامل تھے جبکہ موجودہ دورمیں حلقہ ارباب ذوق کی سوچ رکھنے والوں میں ابرار احمد، غلام حسین ساجد، امجد طفیل اور پروفیسر ڈاکٹر ضیاء الحسن شامل ہیں۔حلقے کے مرکز سے ہی افتخار جالب کی لسانی تشکیلات کی تحریک اور جیلانی کامران کی نئی نظم کی تحریک بھی پھوٹی۔قیام پاکستان کے ساتھ ہی محمد حسن عسکری نے پاکستانی ادب کی مباحث شروع کیے۔محمد حسن عسکری کا ساتھ دینے والوں میں ایم ڈی تاثیر تھے۔ایم ڈی تاثیر بہت بڑے محب پاکستان اور سلمان تاثیر کے والد تھے۔صمد شاہین اور انتظار حسین وغیرہ۔انہوں نے مختلف رسائل میں مضامین لکھے اور کالم لکھیاور اپنے تنقیدی نظریات کے حوالیسے لوگوں کو آگاہی دی۔حلقے کا مزاج ۱۹۵۳ئمیں انجمن ترقی پسند مصنفین پر پابندی کے بعد بدلنے لگا۔پابندی کے بعد انجمن ترقی پسند مصنفین کے لوگ حلقہ ارباب ذوق میں شامل ہوگئے ان کے نظریات بائیں بازو کے تھے۔اس وجہ سے سوچ اور خیال بدلنا شروع ہو گیا۔چنانچہ۱۹۵۳ء سے ۱۹۷۰ء تک آتے آتے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ادیبوں اور دانشوروں کو غلبہ حاصل ہو گیایعنی انجمن ترقی پسند مصنفین کی اکثریت ادھر آگئی۔یوں دونوں تحریکیں ایک دوسر ے میں مدغم ہوگئیں اور بہتر طور پر ادب کی تفہیم و ترویج کا سلسلہ شروع ہوا۔
جدید تنقید:
۱۹۶۰ء کی دہائی میں مغرب میں چلنے والی جدیدیت کے اثرات اردو پر نظر آنے لگے اور ہمارے پاس جدید تنقید آگئی۔سرمایہ دارانہ نظام نے جس نئی سماجی زندگی کو پیدا کیااس نے معاشرے کیاندر انسان کو جیسا بنایا اسے ادب میں جدیدیت کی تحریک کہتے ہیں۔یہاں یہ بتانا قابل ذکر ہے کہ ہمارا معاشرا ابھی جدید ہوا نہیں تھا کہ ہمارے ہاں جدید تحریک آگئی۔اسی وجہ سے زندگی کے ابہام نے ادب کو بھی مبہم کردیا۔ادب کو علامتی اظہار کیوجہ سے جو پہلے ہی ذہنی سرگرمی تھی اس کا دائرہ مزید محدود کردیا گیا۔ ۰۶، ۰۷ کی دہائیوں تک بھارت اور پاکستان کی معاشرت جدید نہیں ہوئی تھی اس لیے ادب کا اظہار بھی مصنوعی طور پر مغر ب سیمرعوب ہو کرشروع کیا گیا۔مغرب سے ان مرعوب اور متاثر ہونے لوگوں نے جدید یت کی یہاں بنیاد رکھی۔
تقسیم ہند کے بعد دونوں ممالک نوآبادیاتی نظام کے تسلط میں چلے گئے تھے چنانچہ مغرب سے متاثر ہونے کا رویہ پیدا ہونا ناگزیر تھا۔۱۹۴۷ء سے تاحال مغرب سے متاثر ہونے کا ہمارا رویہ بتدریج بڑھتا جا رہا ہے۔قارئین کی غالب اکثریت جو اس رویے سے باغی تھے انہوں نے ادب کو رد کردیا۔جدید تنقید کے حوالے سے انور سجاد، سرندر پرکاش،منشایاد، خالدہ حسین اور رشید امجد وغیرہ کو صرف ادیبوں کے ایک مخصوص طبقے نے پڑھااور ادب کا تعلق معاشرے سے کٹ گیا۔اس کا نقصان یہ ہوا کہ ان لوگوں سے متنفر قارئین نے غیر معیاری مصنفین کو پڑھنا شروع کردیا۔جدید یت کے علمبردار بھارت کے اردو نقادشمس الرحمان فاروقی اور پاکستان کے اردو نقادڈاکٹر وزیر آغا تھے۔ان کے زیر اثر متعدد نقاد یہی کام کررہے تھے۔لیکن ان کے متوازی نقادوں کا ایک طبقہ ایسا تھا جنہوں نے تخلیق،تہذیب اور روایت کو مدنظر رکھ کر کام کیا ان نقادوں میں سب سے اہم نام محمد حسن عسکری کا ہے۔ ان کے علاوہ سلیم احمد،سجاد باقر رضوی،جیلانی کامران اور بھارت میں وارث علوی نئے تصورات بشمول ترقی پسندی کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے والے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭

تدوین کے مباحث
موضوع1:تدوین کیا ہے؟
تدوین:
تدوین تحقیق کی شاخ ہے۔ جس میں مدون عہد گزشتہ اور ماضی میں دفن تحریروں کو اصل انداز میں سامنے لاتا ہے۔
تدوین متن:
تدوینِ متن ایک ترکیب ہے جو اضافت کے ذریعے تدوین اور متن کوجوڑے ہوئے ہے۔ لفظ تدوین ، عربی زبان کا لفظ ہے جو کہ ہیت میں مونث ہے اور ایک فن کی حیثیت رکھتا ہے جب کہ اس کا معنی تالیف کرنا، جمع کرنا یا مرتب کرناہے۔ جبکہ لغات کشوری میں تدوین کے معنی’’ جمع کرنااور تالیف کرنا‘‘کے ہیں۔تدوین متن میں محقق و مدون کا اصل مقصد و مدعا مصنف کے تصنیفی کام کی روح تک پہنچنا ہوتا ہے۔
تدوین متن کا آغاز:
جب ان مخطوطات کی جانچ پرکھ کا کام شروع ہوا اور انھیں سمجھنے اور جدید عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کا کام شروع ہوا تو تدوینِ متن کا آغاز ہوگیا۔ یو ں عرفِ عام میں کہا جا سکتا ہے :
"تدوینِ متن کی اصطلاح سے مراد ہے کہ مصنف کی اصل عبارت کو احسن انداز میں جمع کرنا اور ترتیب دینا۔یہ ترتیب اس طرح کی ہو کہ اصل اورنقل عبارت میں فرق واضح کر سکے اور یہ بیان کر سکے کہ اصل عبارت میں کہاں کہاں اور کیا کیا تبدیلیاں واقع ہوئیں ہیں۔"
متن:
متن کے معنی کتاب کی اصل عبارت،کتاب،کپڑے یا سڑک کے بیچ کا حصہ، درمیان، وسط، درمیانی اور پشت کے ہیں۔ متن انگریزی لفظ Textکا ہم معنی ہے جو کہ عبارت یا عکس، نقشِ عبارت کے زمرے میں آتا ہے۔ اسٹینڈرڈ اردو ڈکشنری میں اس کی تعریف یوں نقل کی ہے:
• مصنف کے اصل الفاظ یا کتاب کی اصل عبارت
• الہامی کتب کی آیت یا آیات
• خطوط،نصابی یا درسی کتب
متن کی تحریر کے اوصاف:
• ایسی تحریر جو کاغذ، لکڑی ، پتھر، دھات یا چمڑے پر لکھی گئی ہو
• مخطوطات، ملفوظات، بیاض، خطوط اور تذکرے متن کے ذیل میں آتے ہیں۔
• قدیم اور جدید دونوں طرح کی تحریریں متن ہی کہلاتی ہیں۔
• متن کے لیے تحریری شکل میں ہونا لازمی ہے۔زبانی اقوال، تقاریر اور فرمودات متن کے ذیل میں نہیں آتے۔
• حواشی وغیر ہ متن کے ذیل میں نہیں آتے۔
مدونین کے نزدیک تدوین کی تعریف:
ڈاکٹر نورالسلام کے مطابق:
"متن کو منشائے مصنف کے مطابق ترتیب دینا ہوتاہے۔"
ڈاکٹر گیان چند کے مطابق:
"تدوین کے معنی متفرق اجزا ء کو اکٹھا کرکے ان کی شیرازہ بندی کرنی ہے۔"
رشید حسن خان کے بقول:
"تدوین کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کسی متن کو ممکن حد تک منشائے مصنف کے مطابق پیش کرنے کی کوشش کی جائے۔"
تدوینی نسخہ کے اوصاف:
تدوین کے لیے کسی مصنف کی کسی تصنیف کے مختلف نسخوں کا باہمی تقابل کرکے درست کیا گیا ہویا تخلیقات کے منتشر اجزاء کی بازیافت کرنے کے بعد جمع کیا گیا ہو۔مثال:
• مولوی عبدالحق نے سب رس کو دریافت کیا اور پھر اسے مرتب کیا۔
• ڈاکٹر صابر حسین کلووری نے اقبال کے کلام کو دریافت کیا اور پھر" باقیات اقبال "کے نام سے مرتب کیا۔
متن کی اقسام:
اصل متن/بنیادی متن/اساسی متن:
ایسا متن جو مصنف کا اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا ہو، نیز اس متن کی داخلی اور خارجی شہادتیں اس بات کی تصدیق کریں کہ یہ صاحب تصنیف کا دست خطی نسخہ ہے۔
اضافی متن:
ایسا متن جو کہ تشریحی اور توضیحی انداز کی عبارتوں پر مشتمل ہوتاہے جو کہ بعض اوقات مصنف کی اپنی تحریر ہوتا ہے اور بعض اوقات بعد کی اضافی نگارشات کا درجہ رکھتا ہے۔
املائی متن:
ایسا متن جو مصنف بولتا گیا ہو اور کوئی دوسرا شخص لکھتا رہا ہو۔
سماعی متن:
وہ متن جو صدیوں تک زبانی اور سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے رہے ہوں اور اسے سن کر کاغذ پر منتقل کردیا گیا ہو۔
تقلیدی متن:
اگر لکھنے والے نے بولنے والے کی مکمل پیروی کی ہے تو اسے تقلیدی متن کہا جائے گا۔
نیم تقلیدی متن:
اگر لکھنے والے نے مصنف کے خیالات کواپنے الفاظ میں یا کسی دوسری زبان میں قلمبند کیا ہو تو اسے نیم تقلیدی متن کہا جائے گا۔
استنادی متن:
مصنف کی ایما پر تیار کیے گئے وہ نسخے جو مصنف کی نظر سے گزرے ہوں۔یہ نسخے عموما مصنف کے شاگردوں کے ہاتھ کے لکھے ہوئے نسخے ہوتے ہیں۔
متن کے مدون کی اہلیت و صلاحیت کا معیار:
• طرز املا اور تاریخ خط سے واقفیت رکھتا ہو۔اگر مخطوطے پر تاریخ کا اندراج نا ہو تو طرز املاء سے ناشناسی کی بنا پر ماہ و سال کے تعین کا دھوکا ہوسکتا ہے۔
• شاعری کے فن و عروض پر دسترس رکھتا ہو۔
• متن سے متعلقہ علوم پر دسترس رکھتا ہو۔
• کاغذ اور سیاہی کا علم رکھتاہو۔
• معروف خطاطوں کے بارے میں آگاہی رکھتا ہو۔
• اگر محقق یا مدون خطاطوں کے طرز خط سے آشنا ہوگا تو اصل متن کی شناخت میں آسانی رہے گی۔
مدون کے اوصاف:
• وسعت مطالعہ رکھتا ہو۔
• حق گوئی اور دیانت داری کی صفت سے متصف ہو۔
• ذاتی دل چسپی رکھتا ہو۔ • سخت محنتی ہو۔
• وقت اور سرمایہ دستیاب ہو۔ • متجسس مزاج ہو۔
• با ذوق ہو۔
• قوت استدلال کا مالک ہو۔
• تحقیقی و تنقیدی شعور کا مالک ہو۔
• غیرمتعصب وغیر جانب دارانہ طرزعمل کا مالک ہو۔
• لچکدار رویہ کا مالک ہو۔
• راہ اعتدال کا راہی ہو۔
• دنیاوی اغراض و مقاصد سے بالاتر ہو۔
• مستقل مزاج محنتی اور صابر ہو۔
• اخلاقی جرات کاحامل ہو۔
• دلچسپی اور محنت کی صفت سے مزین ہو۔

موضوع2:تدوین کی اہمیت
تدوین کی اہمیت:
ماضی کے افکار وخیالات سے آگاہی کا اہم ترین ذریعہ اسلاف کی تحریریں ہیں۔جس طرح ان کے نظریات سے آگاہی ہمیں ماضی، حال اور مستقبل کے رشتوں سے جوڑتی ہے۔اسی طرح ان کے نظریات سے درست آگاہی بھی ہمارے فکری زاویوں کو متوازن اور مربوط رکھنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ہم ماضی کے حالات و واقعات سے سبق حاصل کرتے ہیں۔حال میں ان سے کام لیتے ہیں اور مستقبل کے لیے لائحہ عمل وضع کرتے ہیں۔
متن کے حقیقی متن ہونے کا یقین:
جب تک ہمیں یقین نا ہوکہ ہمارے پیش نطر یا زیر مطالعہ کتاب یا تحریر من و عن ہمارے مصنف کے الفاظ اور جملوں پر مشتمل ہے ہم وثوق سے نہیں کہہ سکتے کہ مذکورہ مصنف کے خیالات یا رائے مسئلہ زیربحث کے بارے میں کیا تھی۔
تسکین ذوق:
ہم بسا اوقات ماضی کے طرز املاء کو جانچنا چاہ رہے ہوتے ہیں لیکن جب تک ہمیں پوری طرح یقین نا ہوجائے کہ یہی طرز املا ہے جو اس زمانے میں مروج تھی ہمارے ذوق کو تسکین نہیں ہوتی۔گویا تدوینی کام ذوق تسکین کا بھی باعث ہے۔
اصول تدوین کی پاسداری:
اگر تدوین میں اصول تدوین سے کام نا لیا جائے تو مختلف نسخوں میں سے جو نسخہ ہاتھ لگ جائے وہ اس کے مندرجات کو نقل کرتا رہے گا۔ اس بات کو مدنظر نہیں رکھا گا کہ مندرجات کا تعلق مصنف سے ہے یا کاتب سے ہے۔یوں منشائے مصنف ہم سے اوجھل ہو جائے گا۔
اقتباس کا مستند ہونا:
مستند نسخے کو ماخذ بنائے بغیر کسی اقتباس کواعتماد کے ساتھ پیش نہیں کیا جا سکتا۔اگر اقتباس کا تعلق مستند نسخے سے نا ہو گا تو غیر مستند اقتباس سے مستند نتائج اخذ کرنا محال ہوگا۔
مادی فوائد:
مادیت کے اس دور میں تحقیق وتدوین جیسے خالصتا علمی اور ادبی کام بھی متاثر ہوا ہے۔سرکاری اور نیم سرکاری اداروں میں ابوالہوس افراد نے مالی فائدے کے حصول کے لیے تدوینی کام کو مشق سخن بنایا ہے۔اس سے آسان پسندی اور بددیانتی نے جنم لیا ہے۔کام کرنے کی سچی لگن اور ریاضت کے معنی بدل گئے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ درویش منش اہل علم صحت متون کی ح?فاظت کے لیے جہادی جذبہ کے ساتھ اپنی خدمات اس خالص علمی کام کے لیے وقف کردیں۔
لسانیات اور صوتیات کا فروغ:
صحیح لسانی جائزوں کے لیے صحیح متون کا ہونا ضروری ہے۔تدوین لسانیات اور صوتیات کے فروغ میں بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ تاریخی امور کے برعکس ادبی معاملات میں مصنف کے انداز بیاں اور طرز املاء کو بھی اہمیت حاصل ہے۔گویا معیاری تدوین کے بغیر ادب کا تح?فط ممکن نہیں۔
زبان و بیان اور ثقافت:
بلحاظ زمانہ زبان و بیان اور طرز املا اپنی ثقافت سے جڑی ہوتی ہے۔ماضی سے مربوط رہنے کے لیے ضروری ہے کہ معیار تدوین پر کوئی سمجھوتہ نا کیا جائے۔
تدوین متن کی بازیابی اصل مفہوم کی بازیابی:
الفاظ جو مصنف کے قلم سے تحریر ہوئے ہوں ان کی بازیابی تدوین متن کہلاتی ہے۔ ڈاکٹر تبسم کاشمیری کے مطابق مولوی عبدالاسلام خان رام پوری نے سٹیٹ لائبریری رام پور میں مصحفی کے مخطوطات کی اصلاح کے دوران مرتبین نے مصحفی کے کلام کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا۔مثلا مصحفی کا شعر ہے:
دل کو ہے رفتگی اس ابروئے خم دار کے ساتھ
جوں سپاہی کے تئیں ربط ہو تلوار کے ساتھ
مرتب کا مرتبہ شعر یہ ہے:
دل کو یوں ربط ہیاس ابروئے خم دار کے ساتھ
جس طرح سپاہی کو ہو تلوار کے ساتھ
تبدیلیوں اور ترمیمات کی نشاندہی:
تدوین کی اہمیت یہ ہے کہ مصنف یا شاعر کے اپنے الفاظ تک قاری کی رسائی ہو سکے اور ابتدائے زمانہ سے جو تبدیلیاں اور ترمیمات معرض وجود میں آچکی ہیں قاری سے ان کو آگا ہ کیا جائے۔
مختلف نسخوں میں اختلافات کی نشاندہی:
تدوین ایک مشکل کام ہے۔ مخطوطات کو صحیح پڑھنا مشکل ہوتا ہے ایک ہی متن کے مختلف نسخوں میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔مدون کا کام یہ ہے کہ ایک قابل اعتبار متن تیار کرے جو ابتدائی ڈائری میں درج ہوتا ہے۔
زبان ادب کا ارتقائ:
ڈاکٹر رشید حسن خان لکھتے ہیں :
"جب تک قدیم متنوں کو اصول تدوین کی مکمل پابندی کے ساتھ مرتب نہیں کیا جائے گا اس وقت تک نا تو تحقیق کی بہت سی گھتیاں سلجھیں گی اور نا زبان و ادب کا بالکل صحیح سلسلہ سامنے آسکے گا۔"
صحت نسخہ کی سند کا باعث ہونا:
تدوین کا اولین فریضہ یہ ہے کہ کسی دستاویز کے بارے میں یقین دلا سکے کہ اس کے تمام الفاظ حتی کہ رموزو اوقاف بھی وہی ہیں جو مصنف کے پیش نظر تھے تاکہ نسخے کو مصنف کے منشائ￿ کے مطابق قرار دیا جا سکے۔
گمراہی سے بچاؤ کا باعث:
بالعموم معروف شعراء کے کلام میں الحاقی کلام شامل ہو جاتا ہے۔بعض اوقات اس کا سبب کاتب کا کمپوزر اور بعض اوقات جان بوجھ کر کوئی شخص اضافے کردیتا ہے۔مثال کے طور پر عبدالباری آسی نے خود ساختہ کلام کو غالب کا کلام قرار دے کر۱۹۳۱ء میں مکمل شرح دیوان غالب شائع کردی اور اردو ادب کے قارئین کو گمراہی کے راستے پر ڈال دیا۔اس واقع کے اڑتیس سال بعد جلیل قدوائی نے آسی کے دریافت کردہ کلام کا پردہ فاش کیا۔
متنی لغزشوں پر مسلسل نظر:
ابتدا ء میں تدوین متن کا اہتمام نہیں کیا جاتا تھا۔قلمی نسخوں کی نقول تمام تر کاتبوں اور خطاطوں کی مرہون منت ہوتی تھی۔وہ نقل متن کو مروجہ اسلوب کے مطابق اور کچھ اپنی افتاد طبع کے مطابق نقل کردیتے تھے۔اس میں بہت سی لغزشیں بھی ہوجاتی تھیں اور تحریف والتباس کا دروازہ بھی کھل جاتا تھا۔آج کمپوزنگ کے زمانے میں بھی کمپوزر سے بہت سی غلطیاںسرزد ہو جاتی ہیں۔ کلیات اقبال اقبال اکادمی نے اس دعوے کے ساتھ شائع کی یہ اغلاط سے پاک نسخہ ہے۔بعد ازاں جب ماہرین نے باریک بینی سے جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ اس میں بھی کچھ اغلاط موجود ہیں تو اکادمی کو اپنا دعوی واپس لینا پڑا۔ گویا تدوین کے بعد مزید تدوین کی گنجائش سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
موضوع3:تدوین کی اسلامی روایت
اسلام سے قبل اہل عرب کی حالت:
اہل علم اس بات سے آگاہ ہیں کہ اسلام کے اعلان و ترویج سے قبل عرب کا خطہ لکھائی پڑھائی سے محروم تھا۔ ہزاروں کی آبادی میں گنتی کے چند افراد لکھ پڑھ سکتے تھے۔ اہل عرب اس دور میں کسی بھی مہذب معاشرے میں شمار نہ ہوتے تھے۔ ایسے حالات میں اللہ کے رسول حضرت محمد ? نے نزول وحی کے آغاز کے بعد اسلام کا اعلان فرمایا۔
اعلان نبوت :
ابتدائی 13 سال تک انتہائی شدید مخالفت کے عالم میں صرف زبانی تعلیم کا سلسلہ ہوتا تھا۔ صحابہ کرام جو کچھ سنتے وہ یاد کر لیتے۔ اپنے حافظے میں رقم کر لیتے۔عربوں کے حافظے نہایت قوی تھے۔ مگر ساتھ ہی جو صحابہ کرام لکھنا پڑھنا جانتے تھے وہ قرآنی آیات لکھتے بھی تھے۔مگر پڑھائی لکھائی کا باقاعدہ نظام نہیں تھا۔ 13 سن نبوی ? میں ہجرت کے بعد حالات معمول پر آئے۔ میثاق مدینہ اور مواخات مدینہ کے بعد مسجد نبوی ?کی تعمیر بھی ہو چکی تو مسلمان کچھ سکون میں آئے۔ ان حالات میں تعلیم کا انتظام شروع ہوا۔
تعلیم و تربیت کا باقاعدہ آغاز:
تقریبا سواسال گزرنے کے بعد غزوہ بدر وہ تاریخی واقعہ ہے جب مسلمانوں پر کفار نے حملہ آور ہونے کی کوشش کی۔ تو اللہ تعالی نے مسلمانوں کو فتح سے ہمکنار کیا۔یہ وہ موقع تھا جب نبی رحمت ? نے مسلمانوں کو مزید رغبت سے تعلیم پر مائل کرنے کے لئے کفار قیدیوں کو فدیے میں مسلمانوں کی تعلیم کاحکم دیا۔اس کے بعد مسجد نبوی ? میں ایک چبوترہ تھا جسے دنیا میں صفہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ نامساعد مالی حالات میں صحابہ کرام کی کثیر جماعت اس چبوترے پر تعلیم حاصل کرتی۔ کتب میں وارد روایات کے مطابق مختلف اوقات میں 1000 یا اس سے زائد صحابہ تک بھی طلب علم کے لئے بیک وقت جمع ہوتے۔
تدوین کی ضرورت کا احساس:
حضور اکرمﷺکا زمانہ اسلام کا سب سے پہلا زمانہ تھا۔ اس دور کے معروضی حالات میں جب ابھی وحی کا نزول ہو رہا تھا، اور بیک وقت دشمن سے صف آرائی بھی ہوتی تھی۔ مختلف علوم میں تدوین کی نہ ضرورت بھی نہ ہی ممکن تھا۔ لہذا معروضی حالات کے مطابق ہی تعلیم اسلام ہوئی۔بعد ازاں اسلام کو فروغ حاصل ہوا۔ اسلام کی سرحدیں شرق تا غرب پھیلنے لگیں۔ ہر شعبے میں ضرورت کے مطابق اصلاحات ہوئیں۔ نئے شعبے قائم ہوئے۔ منتشر چیزوں کو جمع کیا گیا۔
تدوین کی اسلامی روایت کا پہلا دور(صحابہ کرام کے تدریس کے مراکز کا قیام):
امن کے ادوار میں صحابہ کرام کے تدریس کے مراکز قائم ہوئے۔ نامور علماء صحابہ کرام مین حضرت عبداللہ بن مسعود ، حضرت علی المرتضی ، عبداللہ بن عمر ، عبداللہ بن عباس، حضرت انس بن مالک اور امہات المؤمنین میں سیدہ عائشہ سرفہرست ہیں۔ سیدہ عائشہ صرف گھر میں لوگوں کے پوچھنے پر مسائل بتاتی تھیں۔مذکورہ چند ناموں کے علاوہ بھی کثیر تعداد میں صحابہ کرام علیہم الرضوان دین کی تعلیم دیتے تھے۔ بعد ازاں صحابہ کرام سے انکے شاگردوں نے علم حاصل کیا۔ تابعیت کے مقام پر فائز ہوئے۔ ان تابعین میں کثیر تعداد نے اپنے ذوق کے مطابق علم کے مراکز قائم کئے۔ کسی کو احادیث رسول سے لگاؤ تھا۔ انہوں نے احادیث سیکھیں۔ کسی کو حفظ و تفسیر سے دلچسپی، تو کسی کو تزکیہ میں رغبت،۔ کوئی الفاظ و لغات میں ماہر ہوا تو کسی نے علم درایت/ یعنی تحقیق اور اخذ مسائل میں مہارت حاصل کی۔
تدوین کی اسلامی روایت کادوسرا دور (تابعین میں علوم کی جمع آوری):
تابعین کے ادوار میں علوم جمع ہونا شروع ہوئے۔ انکی تدوین شروع ہوئی۔ انمین بڑے معروف ناموں میں سعید بن مسیب ، حماد اور اخیر دور کے تابعین میں امام اعظم ابوحنیفہ رضوان اللہ شامل ہیں۔ تحقیق علم پر ابتدائی دور میں سب سے اہم کارنامہ امام اعطم نے انجام دیا۔ انہوں نے اپنے انتہائی قابل شاگردوں پر مشتمل ماہرین کا ایسا گروہ تشکیل دیا جو مختلف علوم پر مہارت رکھتے تھے۔ پیش آمدہ مسائل اس ماہرین کے پینل کے سامنے بیان ہوتے۔ ان مسائل پر قرآن و سنت کی روشنی میں ماہرین رائے پیش کرتے اس طرح مختلف مسائل جمع ہوتے اور جواب آتے۔تابعین میں ہی نہایت اہم افراد میں امام زین العابدین ، امام محمد باقر ، زید اور باقر کے صاحبزادے جعفر الصادق اورحسن بصری بھی تھے۔ ان ہستیوں نے امت کو قرآن و سنت کی روشنی میں زہد ، تزکیہ، احسان وتصوف کی تعلیم دی۔
تدوین کی اسلامی روایت کا چوتھا دور( تبع تابعین کا دور):
تابعین نے بھی اپنے بہت بڑے علمی مراکز یعنی دروس قائم کئے۔ وہان سے لوگ علم دین سیکھتے تھے۔ تابعین کے شاگرد تبع تابعین کہلاتے ہیں۔ امام مالک اور امام اعظم ہم زمانہ ہیں۔ مگر عمر میں امام اعظم امام مالک سے بڑے ہیں۔ شائد امام مالک تبع تابعین میں شامل ہیں۔اس دور میں بھی بڑے کثیر علماء موجود تھے۔ جنہوں نے اپنے اپنے شعبوں میں کارہائے نمایاں سر انجام دئے۔ علوم اسلامیہ میں فقہ کے دوسرے بڑے امام ، امام مالک بن انس ہیں۔ یہ امام محمد بن حسن اور امام شافعی کے استاد ہیں۔ جبکہ امام شافعی امام محمد بن حسن کے بھی شاگرد ہیں۔کہا جاتا ہے جس دن امام اعظم کا وصال ہوا اس دن امام شافعی پیدا ہوئے۔ آپ دیگر بہت لوگوں کے ساتھ فقہ کے چوتھے معروف امام احمد بن حنبل کے استاد بھی ہیں۔
کتب احادیث میں امام اعظم کے مسانید مذکور ہیں۔ جبکہ امام مالک کے مجموعہ احادیث و آثار کو مؤطا امام مالک اور دوسرے کانام مؤطا امام محمد ہے۔ در اصل یہ مجموعہ آپ کے شاگردوں نے روایت کیا۔ کئی نسخے تھے جن میں سے یہ 2 زیادہ معروف ہیں۔ امام شافعی نے الگ ذخیرہ حدیث جمع نہیں فرمایا۔ جبکہ امام احمد بن حنبل نے بہت بڑاذخیرہ حدیث مسند احمد بن حنبل کے نام سے جمع فرمایا جو 18 سے 40 جلدوں تک میں شائع ہورہا ہے۔
علمی گروہ:
اس دور میں 2 بڑے علمی گروہ مشہور تھے۔ ایک کو اصحاب الرائے کہتے تھے۔ ایک کو اصحاب الحدیث۔اصحاب الرائے دراصل درایت سے احکام اخذ کرتے تھے۔ جبکہ اصحاب الحدیث ظاہر الفاط سے حکم اخذ کرتے تھے۔یہ وہ دور تھا جس میں احادیث کے کئی ذخیرے جمع ہوئے۔ ان میں سے 2 کا ذکر کر چکا۔ جبکہ امام عبدالرزاق جو امام اعظم کے ہی شاگرد تھے کا بہت بڑا ذخیرہ مصنف عبد الرزاق کے نام سے معروف ہے۔یہ تقریبا6 سے 10 جلدوں پر مشتمل ہے۔ جبکہ امام بخاری کے استاد امام ابن ابو شیبہ کا مجموعہ مصنف بھی معروف ہے۔
تدوین کی اسلامی روایت کا چوتھا دور:
یہاں تک مذکور کتب حدیث صرف پہلے 3 ادوار میں یعنی صحابہ تا تابعین مذکور ہیں۔ اگرچہ اختلافات اور فرقہ واریت اس دور میں بھی تھی مگر پہلے ادوار میں پہچان ذرا آسان تھی۔ پہلے دور کے اختتام پر تقریبا 200 سال گزر گئے۔ اس کے اختتام پر امام احمد اور ابن ابو شیبہ کے شاگرد امام بخاری نے بھی دیگر لوگوں کی طرح احادیث جمع کیں۔ انکے علاوہ بھی کئی علماء نے علم حدیث میں خدمات سرانجام دیں مگر امام بخاری و مسلم کو تدوین حدیث میں نمایان نام ملا۔ پھر یہ سلسلہ مزید وسیع ہوا۔
موضوع4:اردو تدوین کی روایت
تدوین کیا ہے؟
تدوین تحقیق کی شاخ ہے۔ جس میں مدون عہد گزشتہ اور ماضی میں دفن تحریروں کو اصل انداز میں سامنے لاتا ہے۔ تدوین متن میں محقق و مدون کا اصل مقصد و مدعا مصنف کے تصنیفی کام کی روح تک پہنچنا ہوتا ہے۔ اس مقصد کی تکمیل کے لیے وہ حاصل کردہ متن کو مختلف تنقیدی و تحقیقی زاویوں سے پرکھتا ہے۔ وہ ہربات کو ایک پیمانے پر ماپ کر چھلنی سے گزارتا ہے ،تاکہ امکانی حد تک وہ مصنف کے متن تک پہنچ سکے۔
اردو تدوین کی روایت:
اردو تدوین کی روایت کچھ زیادہ قدیم نہیں ہے۔مدونین کی بدولت بہت سے قدیم و نایاب کتب منظر عام پر آئی ہیں۔ اگر مدونین و محققین تدوین متن کی طرف توجہ نہ دیتے تو آج ہم اردو ادب کے ابتدائی سرمایہ سے ناواقف ہوتے اور نہ ہی اردو زبان کا ابتدائی لسانی ڈھانچہ ہمارے سامنے ہوتا۔ہم آج جس معاشرے میں سانس لے رہے ہیں وہ ایک مہذب اور متمدن معاشرہ ہے۔ اپنے معاشرے کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک ہم اپنے اسلاف کی تحریروں اور ان کے افکار و خیالات سے آگاہ نہ ہوں۔
اردو تدوین کی روایت میں بہت سے مدونین ایسے ہیں جنہوں نے بہت سے شعرااور ان کی تصانیف سے روشناس کرایا ہے۔ ان کتب میں تذکرے، مثنویات ، کلیات، دواوین اور نثری کتب شامل ہیں۔یہ سب کتب اردو ادب میں گراں قدر اضافے کا باعث بنی ہیں۔
سر سید احمد خان:
اردو تدوین کی روایت کے حوالے سے دیکھا جائے تو سر سید احمد خان نے قدیم ادب کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے ابوالفضل کی تصنیف "آئین اکبری" کو ?۶-?۸?? ئ￿ میں مدون کیا۔انہوں نے اس نسخے کی تدوین کے لیے کئی نسخوں کو تلاش کرکے تقابل کیاہے۔
حبیب الرحمن خان شروانی:
حبیب الرحمن خان شروانی نے بیسوی صدی کے درجہ اول میں تذکرات کی تدوین سے اردو تدوین کا آغاز کیا۔ انہوں نے ۱۹۲۲ء میں تذکرہ شعرائے اردو اور۱۹۲۶ء میں نکات الشعراء کو اور خواجہ میر درد کے دیوان کو مرتب کیا۔
مولوی عبدالحق:
اردو تدوین کی روایت میں مولوی عبدالحق ستون کی حیثیت رکھتے ہیں۔دکنی ادب کی بازیافت اور تفہیم کے حوالے سے ان کا ممتاز مقام ہے۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ اردو ادب کے شعراء ومصنفین کو زندگی عطا کرنا ہے جو وقت کی گرد کے نیچے دب گئے تھے۔مولوی عبدالحق کی مدون کردہ کتب کی طویل فہرست میں ۹تذکرات،۴مثنویات، ۴دیوان اور قواعد کے حوالے سے "دریائے لطافت "کی تدوین ان کا اہم ادبی کارنامہ ہے۔ڈاکٹر خلیق انجم لکھتے ہیں:
"اس دور کا سب سے اہم نام مولوی عبدالحق کا ہے۔ جنہوں نے خود بھی تحقیق کی ،دوسروں کو بھی راستہ دکھایا۔ وہ پہلے محقق ہیں جنہوں نے دکنی ادب پر توجہ کی۔"
حافظ محمود خان شیرانی:
حافظ محمود خان شیرانی نے "مجموعہ نفز"۱۹۰۸ء میں مرتب کیا۔انہوں نے اس نسخے کو مدون کرنے کے لیے پنجاب یونیورسٹی کے کتب خانہ میں موجود نسخے کے علاوہ انڈیا آفس لائبریری میں موجود قلمی نسخہ سے تقابل کیاہے۔
سید مسعود حسین رضوی ادیب:
ان کی مدون کردہ کتب فیض میر(۱۹۲۹ئ)، مجالس رنگین(۱۹۲۹)،روح انیس(۱۹۳۱ئ)،دیوان فائز(۱۹۴۲ئ)،شاہکار انیس(۱۹۴۳ئ) اور "متفرقات غالب" کے نام سے غالب کا غیر مطبوعہ کلام اور خطوط شامل ہیں۔
قاضی عبدالودو:
قاضی عبدالودود اردو زبان و ادب کے بڑے مدون ہیں۔ انہوں نے تذکرہ ابن امین اللہ طوفان، مسرت افزا، دیوان جوسش، قطعات دلدار اور دیوان رضا کو مدون کیا۔
مولانا امتیاز علی خان عرشی:
آپ کا نام اردو تدوین کی روایت میں غالب شناس کے طور پر سامنے آتا ہے۔ان کی بدولت "دیوان غالب" کا مستند نسخہ سامنے آیا ہے۔ علاوہ ازیں "مکاتب غالب" کی اشاعت بھی ان کا اہم کارنامہ ہے۔ان کی مدون کردہ کتب میں انتخاب غالب، دیوان غالب(نسخہ عرشی)، دستورالفصاحت ، رانی کیتکی کی کہانی شامل ہیں۔صغیر صدف عرشی صاحب کے بارے میں لکھتی ہیں:
"مولانا عرشی کے تحقیقی و تدوینی کتابوں نے اردو میں تدوین و تحقیق کی روایت تشکیل کی، اسے نشوونما اور قدیم متون کی تصحیح و ترتیب کے جو طریقہ کار ہوسکتے ہیں ان کو روشناس کرایا ہے۔ مولانا امتیاز علی عرشی کا نام اردو تحقیقی روایت میں مثالی حیثیت رکھتا ہے۔"
محی الدین قادری زور:
ڈاکٹر محی الدین قادری زور نے کئی دکنی کتب کی بازیافت و تدوین کرکے دکنی عہد کی نشاندہی کی ہے۔ انہوں نے محمد قلی قطب شاہ، ملک خوشنود، ملا وجہی، ملک الشعرا غواصی ، ابن نشاطی اور احمد گجراتی کی تصانیف کو اندھیروں سے نکال کر اہل ادب سے روشناس کرایا۔پروفیسر سلیمان اطہر جاوید ان کے بارے میں لکھتے ہیں:
"رشید احمد صدیقی نے لکھا ہے کہ مغل سلطنت نے ہندوستان کو تین چیزیں د ی ہیں''تاج محل، اردو اور غالب!"میرا خیال ہے آصف جاہی سلطنتنے حیدرآباد کو دو چیزیں دی ہیں۔ جامع عثمانیہ اور ڈاکٹر زور۔۔۔"
اردو تدوین کی روایت میر سعادت علی رضوی، عبدالقادر سروری، سید محمد، مجنوں گورکھپوری، احسن مارہروی، حیدر ابراہیم سایانی، تقی الدین احمد،مشفق خواجہ،ڈاکٹر وحید قریشی، رشید حسن خان، ڈاکٹر عبادت بریلوی، ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی، پروفیسر حمید احمد خان، محمد اکرم چغتائی، سخاوت مرزا، افسر صدیقی امروہی، ڈاکٹر تحسین فراقی، ڈاکٹر محمد ایوب قادری، خلیل الرحمن داؤدی، عشرت رحمانی، ممتاز منگلوری، ڈاکٹر اقتدا حسن، مرتضی حسین فاضل اور ڈاکٹر جمیل جالبی کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔
موضوع5:تدوین کے اصول و ضوابط
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ قدیم کتابوں کے مدونہ مطبوعہ نسخوں کا جب تجزیہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان کتابوں کو صحیح اور مستند انداز میں مدونہ انداز سے نہ پرکھا گیا یعنی مدون حضرات نے اصول تدوین کو پیش نظر نہیں رکھا۔تساہلی اور سستی سے کام لے کر کتاب مرتب کروا کے چھپوا دینے میں عافیت محسوس کی جاتی رہی۔ یہی وجہ ہے کہ ایسی کتابوں نے مغالطے پیدا کرنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔دوسری طرف تنقید کے میدان کے شہسوار بھی اس کا شکار ہو گئے اور یوں تنقیدی مضامین میں غلطیاں وافر در آئیں، ان سے غلط نتائج اخذ کئے گئے لہذا کتاب کا صحیح اور مناسب طور پر مدون ہونا ضروری ہے تاکہ نہ مغالطے پیدا ہوں اور نہ ہی غلطیاں جنم لے سکیں۔
کتابوں کی تدوین جہاں انتہائی جا ں گسل کام ہے، وہاں نہایت ادق اور کٹھن مرحلہ ہے جس کو عبور کرنا ہر نقاد کے بس میں نہیں۔کسی کتاب یا مخطوطے کی تدوین و ترتیب کے لیے کچھ اصول و ضوابط کا لحاض رکھنا بہت ضروری ہے۔ان میں سے کچھ کا تعلق براہ راست مرتب و مدون کی ذات سے اور کچھ کا تعلق مصنف، کاتب اور کتاب کے متن سے ہے۔ امور ذیل کا ذہن میں رکھنا انتہائی ناگزیر ہے:
• کسی مخطوطے کی ترتیب و تدوین میں سب سے پہلی بات مخطوطے کی کیفییت و حالت بتائی جاتی ہے یعنی مخطوطہ مکمل ہے یا ناقص، اگر ناقص ہے تو نقص کہاں ہے ابتداء یا درمیان میں یا آخر میں۔
• کیا مخطوطہ کردہ خوردہ ہے تو اس کا متن کی صحت پر کیا اثر پڑے گا۔
• اگر آبزدہ ہے تو آبزدگی سے متن کہاں تک متاثر ہوسکتا ہے۔
• مخطوطے کا کاغذ کیسا ہے،کتنا خستہ ہے، خستگی یا متن کی صحت پر کیا اثر پڑا ہے۔
• کیا مخطوطہ حال شکستہ کا شکار ہے؟ کتنے اوراق شکستہ حالت میں ہیں؟
• مخطوطییا کتاب کا سائز کیا ہے اور متن کی پیمائش کیا ہے؟
• صفحہ کی سطریں کتنی ہیں؟پورے مخطوطے کا ایک ہی مسطر ہے یا مختلف شکل رکھتا ہے؟
• مخطوطہ کے کل کتنے اوراق ہیں؟ کیا کتاب کی ورق شماری ہوئی ہے؟
• ورق کی جفت صفحہ کی رکاب میں صفحہ آئندہ کے لیے ترک ہے یا نہیں؟
• کیا مخطوطہ میں جدول، حاشیہ ، لوح اور اس کی گلکاری کی گئی ہے جو کچھ حاشیے میں لکھا ہوا ہے اس کی بھی وضاحت ہونی چاہیئے
• آبزدگی، کرم خوردگی، شکستگی اور خستگی میں آنے والے لفظوں، جملوں ، مصرعوں ، شعروں کی نشاندہی بھی لازمی امر ہے۔
• کتاب یا مخطوطے کی تدوین کے وقت یہ بھی بتا دیا جائے کہ کاتب پڑھا لکھا ہے یا کم مواد ہے یعنی خوشخط ہے یا بدخط ہے۔خط نسخ ہے یا نستعلیق یا شکستہ ؟اگر غلط نویس ہے تو املائ￿ میں کسی قسم کی غلطی کرنیکا احتمال رہتا ہے۔
• جو نسخہ زیر تدوین ہے اس کی نوعیت کیا ہے؟اگر مخطوطہ مصنف کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے تو یہ سب سے بہتر ہے۔
• مصنف کے بارے میں بتایا جائے کہ وہ کس کینڈے کا آدمی ہے۔اگر ہو سکے تو اس کے مفصل حالات زندگی کو بیان کردیا جائے۔
• کتاب کے متن سے متعلق مدون و مرتب کو حسب ذیل امور سرانجام دینے چاہئیں۔
• اگر کتاب کا متن صحیح نہ پڑھا جا رہا ہو تو متن کو درست کیا جائے۔
• کتاب اگر ابواب میں تقسیم نہیں تو اسے مختلف ابواب میں تقسیم کیا جائے۔
• عنوانات نہ ہونے کی صورت میں عنوانات دیئے جائیں۔
• مخطوطے کی خواندگی کے لیے کاتب کے روشن قلم و املاء کا ایک نقشہ تیار کرے تاکہ مخطوطے کی قرات میں آسانی رہے۔
• بعض اوقات کاتب اپنی صوابدید سے لفظوں یا جملوں کا اضافہ کردیتا ہے۔یہ اضافہ مخطوطوں کے متعدد نسخوں کے تقابلی جائزے سے عبارت کے ربط اور نفس مضمون کے لیے ضروری سمجھتا ہے ورنہ مضمون عدم مطابقت کا شکار ہوجاتا ہے۔
• قدیم مخطوط میں نقاط لگانے کی روش سے مرتب کا آگاہ ہونا لازمی ہے۔
• ہائے ہوز اور ہائے مخطوط التلفظ یعنی دوچشمی ہا (ھ) میں تمیز کی جانی چاہیئے۔
• مرتب و مدون کو کتاب یا مخطوطہ میں اختیار کردہ زبان پر مکمل عبور ہونا چاہیئے۔
• کتاب کے مضامین میں ربط و تسلسل قائم رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
• کتاب میں الحاقی عناصر کو داخل متن نہ ہونے دے۔
• زیر تدوین کتاب کے ہم موضوع دوسرے مصنفوں کی کتابوں سے مقابلہ وموازنہ کرکے صحیح نتائج اخذ کرنے کی کوشش کی جائے۔
• علم العروض سے واقفیت رکھتا ہو۔
• شعر کو شعر کے انداز میں لکھا جائے۔
• باذوق اور شاعری کی مختلف اصناف سے بھی واقف ہو۔
• قدیم کتابوں میں درج عوامی تلفظ کو مروجہ عوامی تلفظ کا لباس پہنایا جائے تاکہ شعر الوزن نہ ہو جائے۔
• متن میں جو لفظ یا جملے اگر کسی دوسرے مخطوطے سے لئے گئے ہوں تو ان کا بھی حوالہ دیا جائے۔
• مشکل، نامانوس، غیر مروج الفاظ کی فرہنگ دی جائے۔
• اگر متن میں تلمیحات، مترادفات، تشبیہات و استعارات کا استعمال ہو تو اس کو سادہ لکھنے کے ساتھ ساتھ ان کی وضاحت کی جائے۔
• اگر متن میں دوسری زبانوں کے اقوال ، اشعار، ضرب الامثال درج ہوں تو ان کا ترجمہ اور تشریح کی جائے۔
• رموز اوقاف اور پیرابندی کا التزام رکھا جائے۔
موضوع6:تدوین متن کے مدارج
فراہمی متن:
کسی کتاب کی تدوین کے لیے اس کے جملہ قلمی اور مطبوعہ نسخے فراہم کرنے چاہییں۔چونکہ عملا ایسا مشکل ہے اس لیے اہم نسخوں سے مدد لینا کافی ہے۔
ترتیب متن:
ماخذات کو زبانی،فکری اور موضوعاتی ترتیب دینا
تصحیح متن:
متن جب مصنف کی منشاء کے قریب نہ ہو تو محقق اسے منشائے مصنف تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔اس کوشش کو تصحیح متن کہا جاتا ہے۔متن کی تصحیح کا کام چونکہ بہت ذمہ داری کا ہوتا ہے اس لیے یہاں تساہل نہیں برتا جا سکتا۔
تحقیق متن:
تحقیق کے اصولوں کو عمل میں لائیں جو ماخذ ہم تک پہنچا ہے یہ کتنا مستند ہے۔مخطوطے کی پوری طرح چھان بین کریں۔اس کے عہد کے پیرامیٹر ز سے اس کی جانچ کریں۔اگر دو نسخوں میں ایک ہی مقام پر دو مختلف قراتیں ہوں تو کس کو ترجیح دی جائے ؟ متنی نقاد کو ہر قرات کے بارے میں مثبت یا منفی رائے دیتے ہوئے بہت سوجھ بوجھ سے کام لینا چاہیے۔ دونوں صورتوں میں اس پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے :
۱۔ اگر ایک نسخے میں قرآت میں ایسا لفظ استعمال ہوا ہے جو مصنف کے عہد میں رائج نہیں تھا یا کم رائج تھا یا اس کا تلفظ مختلف تھا اور دوسرے نسخے کی قرآت اس عہد سے زیادہ قریب ہے تو دوسری قرآت کو ترجیح دی جائے گی۔
۲۔ ایک بامعنی قرآت کو بے معنی قرآت پر ترجیح دی جائے گی۔
۳۔ اگر کسی قرآت میں ایک یا ایک سے زیادہ الفاظ زائد ہیں تودوسری قرآت قابل ترجیح ہوگی۔
۴۔ اگر کسی قرآت میں ایک یا ایک سے زیادہ الفاظ حذف ہیں تو دوسری قرآت کو ترجیح دی جائے گی۔
۵۔ اگر ایک قرآت بامعنی ہے لیکن سیاق وسباق کے مطابق نہیں ہے تو دوسری کو ترجیح دی جائے گی۔
۶۔ اگر کوئی قرآت کاتب کی غلطی سے مکرر ہوگئی ہو تو دوسری قرآت کو ترجیح دی جائے گی۔
۷۔کبھی کوئی لفظ غلط پڑھنے سے نہ صرف متن غلط ہوجاتا ہے بلکہ ادبی تاریخ پر بھی اس کا اثر پڑتا ہے۔
تنقید متن:
یہ بھی تحقیق سے متعلقہ ہے۔اس کے محاسن اور معائب تلاش کریں پھر اپنی رائے دیں یہی تحقیق کا حصہ بن جائے گا۔
توضیح متن:
جو تحقیق کی ہے، تصحیح کی ہے، اس کی وضاحت حواشی میں کریں۔
قیاسی تحقیق:
یہ تدوین کی ایک قسم ہے۔اس کا تعلق تحقیق سے نہیں بلکہ تدوین سے ہے۔جب ایک چیز نہیں ملتی تو پھر قیاس سے کام لیا جاتا ہے۔کتاب یا مخطوطے کا کوئی حصہ پھٹا ہوا یا جلا ہوا۔دیمک زدہ ہوا، مٹا ہوا ہو یا پڑحنے کے قابل نہ ہو تو اس صورت میں کتاب یا مخطوطے کے متاثرہ حصے کو کوئی مستند محقق یا مدون اپنے علمی قیاس کی بنیادپر مکمل کرے گا۔ اسے اصطلاح میں قیاسی تحقیق کہا جائے گا۔حاشیے میں اس کی وضاحت کی جائے گی۔تدوین عام طور پر قلمی نسخوں یا مخطوطہ جات کی کی جاتی ہے۔اس میں صحت الفاظ ہیصحت انکار نہیں جو زمانی اعتبار سے تبدیل ہوتا رہا ہے تو ایسی صورت میں جو نسخہ سب سے آخر میں نظر آئے اسے چن لیا جائے۔
اختلاف نسخ:
جب بہت سارے نسخے موجود ہوں تو فیصلہ نہیں ہوپاتا کہ ان میں سے مستند نسخہ کون سا ہے تو اسے اختلاف نسخ کہتے ہیں۔ سب سے قدیم نسخے کو پہلے دیکھیں گے پھر ایک ایک نسخے کو دیکھیں گے جہاں اختلاف دیکھیں اسے حاشیے میں بتائیں گے۔اس طرح آپ نسخے دیکھتے جائیں اور جس نسخے میں سب سے کم اختلاف ہوگا اسے ہم چن لیں گے۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...