Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > مباحث > متن اور تدوین متن

مباحث |
حسنِ ادب
مباحث

متن اور تدوین متن
ARI Id

1689956600868_56117423

Access

Open/Free Access

Pages

۵۰

متنی تنقید :
انسائیکلو پیڈیا ’ امریکانا ‘ نے متنی تنقید کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’ متن کے اصل الفاظ کے تعین، اسے مکمل کرنے اور واقفیت واصلیت تلاش کرنے کی غرض سے پرانی تحریروں کے سائینٹفک مطالعے کو متنی تنقید کہتے ہیں۔ ‘‘
متنی تنقید کا اصل مقصد حتیٰ الامکان متن کو اصل روپ میں دوبارہ حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اصل روپ سے مراد وہ شکل وصورت ہے جو متن کا مصنف اپنی تحریر کو دینا چاہتا تھا۔ یعنی اگر متنی نقاد کو مصنف کے ہاتھ کا لکھا ہوا نسخہ ملا ہے تو اسے متنی نقاد من وعن ہی شائع نہیں کرسکتا کیونکہ ممکن ہے مصنف سے کچھ الفاظ چھوٹ گئے ہوں یا کچھ الفاظ دوبارہ لکھ دئیے گئے ہوں یا اس قسم کی کوئی اور غلطی ہوئی ہو۔ ایسی صورت میں متنی نقاد کا فرض ہے کہ متن کو ان غلطیوں سے پاک کرے۔ متن کے لیے ضروری ہے کہ بامعنی ہو، اگر سینکڑوں برس کے عرصے میں نقل در نقل کی وجہ سے متن مسخ ہوگیا ہے تو اس کے اصل معنی کا تعین کیا جاسکے۔
متنی تنقید/تنقیدِ متن کے مدارج :
۱۔ تیاری ۲۔ مواد کی فراہمی
۳۔ متن کی تصحیح ۴۔ قیاسی تصحیح
۵۔ اعلیٰ تنقید
۱۔ تیاری :
الف۔مختلف عہد کے نسخے پڑھنا :
متنی نقاد کا فرض ہے کہ مختلف عہد کی تحریروں پر عبور حاصل کرنے کے لیے ان عہدوں کے نسخے پڑھے تاکہ تحریر کی شناخت کے ساتھ ساتھ اس عہد کے الفاظ وتحریر پر اسے عبور حاصل ہوسکے۔ متنی نقاد کو اس عہد سے قبل کے کچھ نسخے بھی پڑھنے چاہئیں۔ اس انتخاب کے باقاعدہ اصول تو نہیں ہیں لیکن اس عہد میں جولوگ ادب پر چھائے ہوں ان میں سے نمایاں لوگوں کو منتخب کرلیا جائے۔
ب۔مختلف عہد کی زبان پر عبور :
متنی نقاد کو جس تحریر پر کام کرنا ہو اس عہد کی زبان پر مکمل عبور حاصل ہونا چاہیے۔ جب وہ مختلف نسخے پڑھنے کی مشق کرے گا تو یقیناًایسے الفاظ ملیں گے جن کا مطلب نہیں جانتا تھا یا جواب متروک ہوگئے ہیں اور ایسے الفاظ بھی ملیں گے جو اْردو میں اب تک مستعمل ہیں لیکن جن کا مفہوم بدل گیا ہے۔ ایسے الفاظ کی بھی کمی نہ ہوگی جن کا تلفظ اس عہد میں کچھ اور تھا اور جدید اْردو عہد میں کچھ اور ہے۔ان تمام الفاظ کے لیے ہندی ، اْردو اور فارسی ، عربی کی لغتوں کا استعمال ضروری ہے۔
ج۔ادبی تاریخ پر عبور :
۱۔ اس عہد کی پوری ادبی تاریخ پر عبور حاصل ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ کہیں ایک شاعر یا مصنف کا کلام یا تحریر دوسرے میں شامل نہ ہوجائے۔
۲۔ نسخہ نقل کرتے ہوئے کاتب جو تحریف کرتا ہے اسے سمجھنے کے لیے اس عہد کی ادبی اور لسانی تحریکوں کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔
د۔سماجی ، سیاسی اور مذہبی تاریخ کا مطالعہ :
اس عہد کی سیاسی ، سماجی اور مذہبی تاریخ کا مطالعہ بھی ضروری ہے۔ ورنہ متنی نقاد ، صحیح تنقید کا حق ادا نہیں کرسکتا۔
ہ۔متن کے مصنف کے حالاتِ زندگی کا مطالعہ :
متنی نقاد کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اصل کام شروع کرنے سے پہلے متن کے مصنف کے حالاتِ زندگی پر پورا پورا عبور حاصل کرے۔ اس سلسلے میں اس عہد کی کتابوں ، مصنف کے معاصرین کے بیانوں کا مطالعہ ضروری ہے۔ یہ مطالعہ کئی مقامات پر متنی نقاد کو گمراہ ہونے سے بچائے گا۔
مواد کی فراہمی :
متن کے جتنے نسخے دنیا میں موجود ہیں اور جن کا متنی نقاد کو علم ہے وہ نسخے، ان کی مائیکر وفلم یا فوٹو سٹیٹ کاپی حاصل کرنا ضروری ہے۔ جب تک تمام ممکن نسخے فراہم نہ ہوجائیں متنی نقاد کو کام شروع کرنے کاحق نہیں کیونکہ ممکن ہے کہمتنی نقاد نے بغیر مطالعہ کیے جو نسخہ صرف اس لیے نظر انداز کیا ہے کہ اس کا حاصل کرنا مشکل ہے وہ سب سے بہتر ہو یا کم از کم وہ متن کی کئی قرآتوں میں تصحیح میں ہماری مدد کرسکتا ہو۔ جن لائبریریوں کا کیٹلاگ چھپا ہوا ہے۔ ان کے صرف کیٹلاگ کا مطالعہ کافی ہے۔
متن کی تصحیح :
اگر دو نسخوں میں ایک ہی مقام پر دو مختلف قراتیں ہوں تو کس کو ترجیح دی جائے ؟ متنی نقاد کو ہر قرات کے بارے میں مثبت یا منفی رائے دیتے ہوئے بہت سوجھ بوجھ سے کام لینا چاہیے۔ دونوں صورتوں میں اس پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔کبھی کوئی لفظ غلط پڑھنے سے نہ صرف متن غلط ہوجاتا ہے بلکہ ادبی تاریخ پر بھی اس کا اثر پڑتا ہے۔
قیاسی تصحیح :
متنی نقاد کا اصل مقصد اس متن کی بازیافت ہے جو مصنف لکھنا چاہتا تھا۔ مصنف کا جو دستخطی نسخہ ملتا ہے، یہ عام طور پر پہلا مسودہ نہیں ہوتا۔ مصنف اپنا اصل مسودہ جو غیر مرتب ، خام حالت میں ہوتا ہے اور جس میں ترمیم ، کاٹ چھانٹ اور حذف واضافے ہوتے ہیں ضائع کردیتا ہے۔ گویا متنی نقاد کو مصنف کا جودستخطی نسخہ ملتا ہے وہ بھی نقل در نقل ہوتاہے۔ اس لیے خود مصنف سے ان بیشتر غلطیوں کا احتمال ہوتا ہے جو کاتب سے سرزد ہوتیں۔
اعلی تنقید:
عام طور پر تنقیدی ایڈیشنوں کی مشکوک قر?ت کا مسئلہ انتخاب کے ذریعے حل کیا جاتا ہے لیکن اصل مشکل اس وقت ہوتی ہے جب ہم ایک ایسا متن مرتب کر رہے ہوں جس کا دنیا میں صرف ایک ہی نسخہ ملتا ہے۔ ایسے نسخے میں قیاسی تصحیح کی تعداد اچھی خاصی ہوجاتی ہے لیکن خیال رکھنا چاہیے کہ تنقیدی ایڈیشن میں کوئی قرآت ایسی نہ آنے پائے جو مصنف کے اصل مفہوم کو دل بدے یا جو عبارت کو بے معنی کردے۔
موضوع8:متن کی اقسام
متن:
جس مطبوعہ یا غیر مطبوعہ تحریر کو متنی نقاد مرتب کرنا چاہتا ہے، اسے متن کہتے ہیں۔ متن کے لیے ضروری ہے کہ وہ تحریر ہو۔ متن نظم بھی ہوسکتا ہے اور نثر بھی ، متن قدیم بھی ہوسکتا ہے اور عہد حاضر کے مصنف کی تصنیف بھی۔
’’ ہزاروں صفحوں پر پھیلی ہوئی ہو یا ایک صفحہ کی مختصر سی تحریر دونوں متن ہوسکتے ہیں جو متنی نقاد قلی قطب شاہ کا کلام مرتب کرنا چاہتا ہے، اس کے لیے پورا کلیاتِ قلی قطب شاہ متن ہوگا۔ اس کے برعکس غالب کا ایک خط مرتب کرنے والے کے لیے چند سطروں کا خط بھی متن ہوگا۔
متن کی اقسام:
متن کی اہم اقسام مندرجہ ذیل ہیں۔
وسائل تحفظ کے اعتبار سے اقسام:
الف۔ الوہی کتب یا سماوی کتب جیسے قرآن مجید، عہد نامہ قدیم و جدید وغیرہ
ب۔ منقوش کتب جو پتھر یا دھات پر نقش ہوں
ج۔ کم ویرپا وسائل کے حوالیسے عبارات محفوظ کی گئی ہوں ،جن پر آب و ہوا اور موسم کے اثرات مرتب ہوئے ہوں اور بعد والوں نے اس پر مختلف ادوار میں یہ تبدیلیاں کردی ہوں۔
رسم تحریر اور املا کے لحاظ سے اقسام:
ا۔ایک سے زیادہ زبانوں میں لکھئے گئے متن
ب۔ایک زبان میں لکھے گئے متون
ج۔ املا اور زمانہ تصنیف میں رشتہ ہوتا ہے۔اس لیے ایک زبان میں ہی، مگرکئی رسوم خط میں لکھا گیا متن
د۔ایک ہی متن کے متون مختلف املاؤں اور رسوم خط کے حامل ہوتے ہیں۔
موضوع کے اعتبار سے اقسام:
الف۔ایک موضوع کے حامل متون
ب۔ مختلف موضوعات کے حامل متون
ج۔ مختلف جہتوں کے حامل متون
تالیفی نوعیت کے لحاظ سے اقسام:
الف۔اصل متن جو کہ تصنیف کا بنیادی متن ہوتا ہے اور مصنف کی اپنی تخلیق یا تحقیق ہوتا ہے۔
ب۔ اضافی متن جو کہ تشریحی اور توضیحی انداز کی عبارتوں پر مشتمل ہوتا ہے۔
انداز تصانیف کے اعتبار سے متن کی اقسام:
الف۔خود تصنیف کیا ہوا متن
ب۔ املائی متن:
مصنف بولتا گیا اور کوئی دوسرا شخص لکھتا رہا
ج۔سماعی متن:
وہ متن جو صدیوں تک زبانی اور سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے رہے ہوں اور اسے سن کر کاغذ پر منتقل کردیا گیا ہو۔
۶۔مصادر کے اعتبار سے اقسام:
الف۔صرف قلمی نسخے دستیاب ہوں
ب۔ مطبوعہ اور قلمی نسخے دونوں دستیاب ہوں۔
ج۔ صرف ایک نسخہ دستیاب ہو
د۔متعدد نسخے ملتے ہوں
۷۔سند کے اعتبار سے اقسام:
الف۔ اساسی متن:
وہ متن جو مصنف کے اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا ہو۔
ب۔استنادی متن:
مصنف کے ایما پر تیار کیے گئے وہ نسخے جو مصنف کی نظر سے گزرے ہوں۔
ج۔ استشہادی متن:
دوسرے تمام قلمی نسخے جنھیں مستند قرار دیا گیا ہو۔
موضوع9:مخطوطہ شناسی -اصول و ضوابط
مخطوطہ معنی و مفہوم:
مخطوطہ عربی زبان کا لفظ ہے اس کے معنی ہاتھ سے لکھی ہوئی تحریری، قلمی نسخہ ، دستاویز یا غیر مطبوعہ قلمی کتاب کیہیں۔ اس میں نثری اور شعری دونوں طرح کا مواد شامل ہے۔مخطوطہ عربی زبان کا لفظ ہے اس کے معنی ہیں ہاتھ سے لکھی ہوئی تحریر اس کے لئے انگریزی میں Manuscript کی اصطلاح رائج ہے یہ لفظ لاطینی لفظ Manuscriptus سے بنا ہے.یہ دراصل دو الفاظ Manu اور Script کا مرکب ہے جس کے معنی با لترتیب ہاتھ اور لکھا ہوا کے ہیں۔ تاریخی طور پر یہ لفظ طباعت printing کی ایجاد کے بعد قلمی کتابوں کے لئے استعمال کیا جانے لگا۔ لاطینی ادب میں اس کا وجود پندرہویں صدی عیسوی میں ملتا ہے۔ڈاکٹر انجم رحمانی کے نزدیک :
" ابتدائے اسلام میں مخطوطہ کے لیے مسودہ کی اصطلاح بھی منظر عام پر آئی جس کا مادہ اسود یعنی سیاہ ہے۔چونکہ یہ کتابیں سیاہ روشنائی سے لکھی جاتی تھیں،اس لیے یہ مسودہ کہلائیں اور اس کے لکھنے والے کو مسود کہا گیا۔عالم اسلام میں قلمی کتابوں کے لئے مخطوطہ کی اصطلاح بالکل جدید ہے مخطوطہ کے لکھنے والے کو خطاط اور اس کی تحریر کو خطاطی کہتے ہیں۔ مخطوطہ کی اصطلاح اس وقت دنیا عرب ،افریقیائی ممالک،ترکی اور جنوبی ایشیامیں مروّج ہے۔ ایران افغانستان اور وسطی ایشیائی ممالک میں اس کے بجائے نسخہ خطی کی اصطلاح رائج ہے۔ ایران میں اس سے پہلے دست نویس کی اصطلاح رائج تھی۔ جنوبی ایشیا میں اس کے لئے خطی یا قلمی کتاب،قلمی نسخہ وغیرہ خصوصی الفاظ میں بھی مستعمل رہے ہیں۔"
ڈاکٹر گیان چند جین مخطوطہ کی تعریف یوں کرتے ہیں:
"ہاتھ سے لکھی ہوئی تحریر مخطوطہ کہلاتی ہے۔"
امجد علی شاکر تحقیق و تدوین میں لکھتے ہیں:
"مخطوطہ سے مراد کاغذ یا کسی بھی دوسری مادی شے پر لکھی ہوئی تحریر ہے۔"
مخطوطات کی اہمیت:
کتابیں علم کا سرچشمہ ہیں اور انسانی تہذیب کی ترقی کا کوئی تصور ان کے بغیر ممکن نہیں۔ کتابیں وہ صحیفے ہیں جن میں علوم و فنون اور ان کے مختلف شعبوں کے ارتقاء کی داستانیں رقم ہیں۔ دنیا بھر کی لائبریریوں میں قیمتی مخطوطے موجود ہں۔برصغیر پاک و ہند کے سرکاری اور نجی کتب خانوں میں بے شمار قیمتی مخطوطے محفوظ ہیں جن میں غیاث الدین بلبن اور اورنگ زیب عالمگیر کے لکھے ہوئے قرآن مجید کے نسخے بھی شامل ہیں۔
مصنف کے اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا مخطوطہ محفوظ ہو تو اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس میں حذف یا اضافہ و ترمیم ممکن نہیں ہوتی۔مصنف کی عدم موجودگی کے باوجود اس بات کی تصدیق ہو سکتی ہے کہ کون سا ایڈیشن مستند ہے اور کس ایڈیشن میں مصنف کے علم و اجازت کے بغیر ردو بدل کیا گیا ہے۔بصورت دیگر مدون کے پاس ایسی کوئی دلیل نہیں ہوگی جس کی بنا پر وہ کہ سکے کہ فلاں عبارت حتمی طور پر مصنف کی ہے اور فلا ں عبارت تحریف شدہ ہے۔مثلا سید علی ہجویری کی کتاب "کشف المحجوب" کے تین نسخوں نسخہ لاہور، نسخہ تہران اور نسخہ ماسکوکو مستند مانا گیا ہے لیکن ان تینوں میں متعدد مقامات پر فرق ہے۔
ایک دوسرا فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ جن مسودات کو کوئی دوسرا صاحب علم نظرثانی کرتا ہے ، عبارت اور مضمون کی اصلاح کرتا ہے وہ بسا اوقات انتہائی اہم ہوتی ہے۔اگر مخطوطہ محفوظ ہوگا تو براہ راست معلوم ہو سکے گا کہ مصنف کا اپنا کام کتنا اور کس معیار کا ہے۔نظرثانی کرنے والے کی محنت کتنی ہے۔ مثلا ملک کے معروف شاعر،ادیب اور صحافی آغا شورش کاشمیری (مرحوم) نے اپنا مجموعہ کلام "گفتنی ناگفتنی" اشاعت سے قبل اصلاح کے لیے اپنے استاد محترم احسان دانش کو پیش کیا۔انھوں نے بعض نظموں اور غزلوں میں اپنے اشعار شامل کر دیے۔
اصل مخطوطے کے محفوظ ہونے سے تاریخ تالیف اور عرصہ کا تعین ہے۔ کیونکہ مصنف بالعموم مخطوطے کی تکمیل پر اس کے آخر میں اس کی تاریخ تکمیل لکھتا ہے۔
مخطوطات کی تاریخ:
اگر دنیا بھر میں مخطوطات کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہ اندازہ لگانا ہرگز مشکل نہیں ہو گا کہ یہ کام اتنا ہی پرانا ہے جتنا کے فن کتابت۔ انسان نے جب سے لکھنا پڑھنا سیکھا تب سے مخطوطات کا آغاز ہو گیا تھا۔لیکن یہ مخطوطات کاغذ پر نہیں لکھے گئے تھے۔
انسان نے اول اپنے خیالات کے اظہار و ابلاغ کے لیے پتھروں پر ان کی ترجمانی لکھنے کی صورت کی جس کا پہلا روپ عجیب و غریب اشکال کی صورت میں تھا۔بعد میں یہی اشکال علامات اور پھر الفاظ کی صورت میں ڈھلنیلگیں۔ پھر یہ فن مذہبی عبارات و آیات کو دیواروں پر کندہ کاری کرنے کی طرف مائل ہوا۔وہاں سے مخطوطات کی حفاظت کے لئے چمڑے اور پتوں کا استعمال کیا جانے لگا جنہیں انسان نے لکھنے کے لیے استعمال کیا۔ بہت ساری جگہوں پر کپڑا بھی اس مقصد کے لئے استعمال ہوا۔اس کے بعد چین کے ایک موجد تسائی لون نے کاغذ کی ایجاد کے ساتھ ہی یہ سہرا اپنے سر باندھ لیا اور دنیا بھر میں فن کتابت تیزی سے پروان چڑھنے لگا۔
مخطوطہ شناسی اور اس کی روایت:
"کسی مخطوطے پر زمانی اور مکانی تحقیق کے بعد متعارف کروانے کو مخطوطہ شناسی کہتے ہیں"
مخطوطہ شناسی میں مخطوطے کی اصلیت اور نقلیت کا تعین کیا جاتا ہے۔اس کے بعد اس کے زماں اور پھر مکان کا تعین کیا جاتا ہے۔ یہ دیدہ ریزی اور اور نیارئیے جیسا کام ہے۔اصلیت جاننا اس لیے ضروری ہے کہ اس کی اصلیت سے زبان کا ارتقا جڑا ہوتاہے اس سے لسانی اور املائی ساختوں کا پتہ لگایا جاتا ہے مخطوطہ شناس سب سے پہلے کاغذ کی عمر کا تعین کرے گا۔ اس کے لئے ریڈیو گرافی سے مدد لے سکتا ہے اور اس کی روشنائی کی عمر کا تعین کرے گا اسلوب بیان کو پرکھے گا۔جس میں نسخے کی ہیت اس کی تقطیع ،مسطر، تعداداوراق ،خالی اوراق یا صفحے، کاغذ ،قلم ،روشنائی ،رسم کتابت ،تزیئن ، مہریں دستخط ،دریافت کی کہانی ،عہد بہ عہد موجودگی اور لمحہ موجود میں اس کا مکمل پتا لکھیگا۔
سرزمین دکن سے وابستہ افراد نے سب سے پہلے اردو زبان میں مخطوطہ شناسی کی طرف توجہ دی۔جن میں حکیم شمس اللہ قادری، نصیرالدین ہاشمی،پروفیسر عبدالقادر سروری، ڈاکٹر محی الدین قادری زور کے نام شامل ہیں۔ اور انہیں اردو کے ابتدائی مخطوطہ شناسوں میں شمار کیا جاتا ہے۔اس کی اہمیت کو سب سے پہلے حکیم شمس اللہ قادری نے محسوس کیا۔ اور مخطوطہ شناسی کی پہلی جلد" اردو مخطوطات انڈیا آفس لائبریری لندن‘‘۱۹۲۹ء میں انجمن پریس اورنگ آباد سے شائع ہوئی۔تحقیق و تدوین اور مخطوطہ شناسی میں اہم نام ڈاکٹر جمیل جالبی کا بھی ہے۔پروفیسر حافظ محمود شیرانی سکہ شناسی،مہر شناسی کاغذ ،روشنائی، رسم الخط کے علوم میں ماہر تھے۔ انہوں نے بہت سے تاریخی مغالطوں کو دور کیا۔
مخطوطہ شناسی کی شرائط:
۱۔مخطوطہ شناس کے لئے کاغذ بنانے کا فن سے واقفیت ضروری ہے تاکہ اندازہ لگایا جا سکے کس عہد کا کاغذ ہے.
۲۔ جلد سازی کے بارے میں معلومات کی جلد چرمی ہے یا کپڑے کی گتہ کی ہے یا کسی جانور کی کھال کی۔
۳۔ روشنائی اور قلم کے بارے میں معلومات کس عہد میں کون سڈی روشنائی اور قم استعمال ہوتے تھے۔
۳۔کاتب نے خطاطی کا کونسا اسلوب اپنایا اسے سمجھنے کے لئے رسم الخط کی جملہ اقسام اور ان کی خصوصیات کا علم مزید یہ کہ کون سے عہد میں کونسا رسم الخط مروج اور مقبول تھا۔
۴۔ مخطوطات کے مطالعہ کے لیے مصوری کے اسالیب سے واقفیت۔
۵۔املا کے بارے میں آگاہی اندازہ لگایا جا سکے کہ کس عہد میں املا کا کون سا انداز مروج تھا۔
مخطوطات کو جانچنے کے اصول و ضوابط:
مخطوطات کو پڑھنے اس کے مستند متن تک رسائی حاصل کرنے اس کے مصنف اور اس کے عہد سے شناسائی کے لئے بہت سے کٹھن مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے۔ مخطوطے کی اصلیت کی پہچان اس کے درست انتساب اور اس کے درست متن تک رسائی بہت مشکل کام ہے اور یہ بہت گہرے علم و فن کا متقاضی ہے۔اہل علم و فن نے اس سلسلے میں بے پناہ کوششیں کی ہیں اس سلسلے میں بہت سے اصول دریافت کیے ہیں۔جن کی مدد سے کوئی صاحب علم مخطوطات کی اصلیت سے آگاہ ہوسکتا ہے۔ علمی طور پر اس کے لیے کچھ اصول و ضوابط سے مدد لینا پڑتی ہے۔
زبان و بیان اور عہد شناسی:
مخطوطہ شناس کے لئے تاریخ کا مطالعہ بھی از بس ضروری ہے تاکہ وہ جان سکے کہ مخطوطہ کس عہد کا ہے۔اور اس کے ساتھ اس کو متروک الفاظ کا بھی علم ہو کہ کون سے الفاظ کون سے عہد میں مروج تھے اور کون سے عہد میں ترک کر دیئے گئے اگر کسی مخطوطے میں تاریخ معلوم نہ ہوسکے تو مصنف کے کسی دیئے ہوئے اشارے سے زمانے کا تعین کرنا پڑتا ہے۔ یا خارجی شواہد سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔مصنف کی شخصیت متعین ہونے کے بعد اس کی تصنیف کا عہد اور ماحول یا زمان و مکاں کے تعین کا مرحلہ آتا ہے اور یہ جاننے کی کوشش کی جاتی ہے کہ مخطوطہ کب اور کن حالات میں وجود میں آیا۔کس کا تحریر کردہ ہے اس کے عہد کا ہونا یا قریب عہد کا ہونا اس کی قدر و قیمت بڑھا دیتا ہے۔اس لیے مخطوطے کو جانتے وقت سال تصنیف اور سال کتابت کا تعین ضروری ہے۔
کتبہ شناسی:
بعض اوقات کتبے بھی کسی مخطوطے کو جانچنے میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں۔ اس پر لکھی تحریر ہمیں مختلف زمانوں کے رسم الخط سے روشناس کرواتی ہے۔کتابت کا فن اتنا ہی قدیم ہے جتنا خود انسان۔ شروع میں اس نے اپنے خیالات کو تصویروں کے ذریعے اداکیا آج بھی دنیا میں بعض ملکوں میں ان زبانوں کے کتبے پتھر کی چٹان و غار اور قدیم عمارتوں کی دیواروں پر سنگ تراشی کے نمونوں سے ملتے ہیں۔
رسم الخط سے واقفیت:
رسم الخط سے مراد کسی بھی زبان کا تحریری اظہار ہے۔ مختلف ممالک میں مختلف رسم الخط رائج ہیں۔رسم الخط بھی مخطوطے کو جانچنے میں مدد دیتاہے اگر ہم مختلف خطوں سے واقف ہوں تو مصنف اور اس کے عہد کے بارے میں جان سکتے ہیں۔
کاغذ شناسی:
ایک زمانہ تھا کہ کاغذ آج کی طرح سہل الحصول نہ تھا۔پھر مختلف خطوں میں مختلف نوعیت کا کاغذ استعمال ہوتا رہا کاغذ مخطوطات کے تعین زمان و مکاں میں ہماری مدد کرتا ہے۔پرانے مخطوطہ شناس کاغذ کو دیکھ کر ہی بتا دیتے تھے کہ یہ فلاں ملک اور فلاں عہد کا کاغذ ہے۔ہمارے عہد میں یہ کام مشینوں سے لیا جاتا ہے۔اگر ہم مختلف ملکوں اور زمانوں میں کاغذ کی مروجہ قسموں سے واقف ہیں تو کسی مخطوطے کو دیکھ کر اس کی کتابت کا زمانہ متعین کر سکتے ہیں اور یہ بتا سکتے ہیں کہ یہ کس ملک میں لکھا گیا ہے۔
روشنائی کا علم:
روشنائی فارسی زبان کا لفظ ہے اس کا منبع لفظ روشن ہے۔قدیم دور میں پتھر کو پیس کر پانی میں گھول کر استعمال کیا جاتا تھا۔ اردو ادب میں اس کا استعمال۱۹۶۴ء میں ہوا۔ حافظ محمود شیرانی کو سیاہی کے بارے میں بہت اچھی جانکاری تھی۔سیاہی کا علم اس بات کے تعین میں معاون ہوگا کہ کاغذ کتنا پرانا ہے اور سیاہی کس دور کی ہے۔
طرز املا :
طرز املااب بھی کسی مخطوطے کے زمانے کے تعین میں ہمارے لیے مددگار ثابت ہوتا ہے۔ ہر دور میں اردو کا طرزاملا ترقی کرتا رہا اس کے طرز املا سے آگاہ ہونا چاہئے یہ آگاہی قدم قدم پر رہنما ثابت ہوتی ہے۔
قلم کی پہچان:
ہر عہد کا کاغذ الگ سے پہچانا جاتا ہے۔ سیاہی الگ سے شناخت رکھتی ہے۔اسی طرح ہر عہد کے قلم بھی مختلف ہوتے تھے انگریزی عہد سے پہلے ہمارے یہاں کلک قلم استعمال ہوتا تھا۔
خطاطی کا علم:
خطاطی کے مروجہ طریقوں کو جان کر اور خطاطی کے اصولوں کو سمجھ کر ہم مخطوطے کے عہد کا اور مصنف کا باآسانی پتہ چلا سکتے ہیں۔
اسلوب شناسی:
خطی نسخہ کے متن کا اسلوب اس کا زمانہ تصنیف متعین کرنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔اسلوب شناسی کے ذریعے ہی اصل متن اور الحاقی متن کا سراغ لگایا جاسکتا ہے نیز مختلف بیاضوں،تذکروں اور رسائل میں موجود کلام کو کسی مصنف سے منسوب کرنے کی اہلیت حاصل کر سکتا ہے۔
الغرض مخطوطہ شناسی کا فن بہت توجہ اور احتیاط کا متقاضی ہے اور اس کے لیے مختلف علوم پر دسترس ہونا لازمی ہے اور نہ صرف علوم پر بلکہ فنون پر بھی گہری نظر ہونی چاہیے۔مخطوطہ شناسی کے فن نے اردو ادب کو مزید ثروت مند کیا ہے۔ اس فن میں روشنائی، کاغذ ،خطاطی،رسم الخط، املا، تاریخ،کتابت کے جدید طریقوں،مصوری اور زبان و بیان کی معلومات حاصل کرنا ضروری ہے۔
آرائش و زیبائش:
مخطوطات کی آرائش و زیبائش بھی اپنی ایک تاریخ رکھتی ہے۔ اس سے بھی مخطوطہ کی زمانی و مکانی تاریخ میں مدد ملتی ہے۔خطاط بالعموم پہلے صفحے کو مختلف طریقوں سے دیدہ زیب بناتے تھے جن میں مختلف رنگوں کے سونے کے پانی یا گلکاریاں
صحاف:
جلد ساز کو صحاف کہتے ہیں۔بعض اوقات صحاف کی بے توجی مخطوطہ کی اوراق کی ترتیب میں بگاڑ کا باعث بنتی ہے۔مدون کو تدوین نو کے مرحلے میں صحاف کے کام پر بھی بغور نظر ڈالنی چاہیے۔
ترقیمہ:
مصنفین متن کے آخر میں اور کاتب کتاب کے آخر میں تصنیف و کتابت کے بارے میں بعض معلومات درج کر دیتے ہیں۔ان عبارات سے مخطوطہ کے زمانی تعین میں بڑی مدد ملتی ہے۔
مہریں:
مہریں کسی مخطوطے کے بارے میں بہت اہم معلومات فراہم کرتی ہیں۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...