Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > مباحث > لسانیات کے معانی ، مفہوم اور ماہیت

مباحث |
حسنِ ادب
مباحث

لسانیات کے معانی ، مفہوم اور ماہیت
ARI Id

1689956600868_56117427

Access

Open/Free Access

Pages

۶۷

موضوع1:لسانیات کے معنی ،مفہوم اور ماہیت
لسانیات دو الفاظ کا مرکب ہے:لسان اور یات۔ لسان عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں زبان اور یات کے معنی علم کے ہیں یعنی زبان کے علم کو لسانیات کہتے ہیں۔بہت سے ماہرین زبان کے علم کو زبان کا سائنسی مطالعہ بھی کہتے ہیں کیونکہ جس طرح سائنسی علوم کے لیے تجربات، مشاہدات اور تجزیات کے بعد کسی نتیجے پر پہنچا جاتا ہے اس طرح لسانیات بھی ایک سائنسی مطالعہ ہے۔محی الدین قادری زور کے مطابق:
"لسانیات اس علم کو کہتے ہیں جس میں زبان کی ماہیت، تشکیل، ارتقا، زندگی اور موت سے متعلق آگاہی ہوتی ہے"
الفاظ کا وجود کیسے آتا ہے، زبان کا آغاز کیسے ہوا ؟ اردو میں ماہر لسانیات نسبتا کم ہیں۔ اس حوالے سے مغربی ماہرین کو الفاظ کے ماخذ تک زیادہ رسائی حاصل ہے۔ اگرچہ گلکرائسٹ نے سیاسی مقاصد کے لیے تراجم کروائے لیکن اس کا اردو ادب کو بہت زیادہ فائدہ پہنچا۔
لسانیات از مغربی مفکرین:
ایف سی باکٹ کے مطابق:
" زبان کے بارے میں منظم علوم کو لسانیات کہا جاتا ہے"
منظم علوم میں ساخت، بناوٹ ا،اجزائ،سمجھنا سمجھانا شامل ہیں۔ہر لفظ کو لسانیات میں شامل نہیں کیا جا سکتا جب تک اس پر مشاہدہ اور تحقیق نا کی جائے یا عملی طور پر اس کا تجزیہ نا کیا جائے۔لسانیات چونکہ سائنسی علم ہے لہذا بغیر تصدیق اورجانچ پرکھ کے کسی بات کو نہیں مانتی۔ایسا صرف تحقیقات کرکیممکن ہے۔ اسی طرح ہم زبان میں بھی ہر لفظ کو شامل نہیں کیا جا سکتا ہے۔
ہوکٹ Hocketکے مطابق:
" لسانیات سے مراد معلومات کا وہ ذخیرہ ہے جوکہ ماہر لسانیات کی تحقیقات کے نتیجے میں حاصل ہوتا ہے"۔
روٹیس کیمطابق:
"انسانی زندگی میں زبان کو جو مقام حاصل ہے اور زندگی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے زبان جو خدمات سرانجام دیتی ہیاور اپنے طریقہ کار کی جس طرح تنظیم کرتی ہے ماہر لسانیات اسے سائنسی انداز سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں"
لسانیات از مشرقی مفکرین :
اردو کے محققین نے بھی لسانیات پر نہایت عمدہ کام کیا ہے۔حامداللہ ندوی کے بقول:
"زبان کے مختلف پہلووں کا فنی مطالعہ لسانیات کہلاتا ہے۔زبان کا یہ فنی مطالعہ دو زمانی بھی ہوسکتا ہے اور ایک زمانی بھی۔دو زبانی مطالعے کی حیثیت تاریخی ہوتی ہیجس میں کسی زبان کی عہد بہ عہد ترقی اور مختلف ادوار میں اس کی نشوونما کا مطالعہ کیا جا تا ہے اورایک زمانی مطالعے کی حیثیت توضیحی ہوتی ہے جس میں ایک خاص وقت یا ایک خاص جگہ میں ایک زبان جس طرح بولی جاتی ہے اس کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔"
لسانیات کا کام الفاظ کی پرکھ کرنا ہے اس میں الفاظ کو مخصوص انداز میں سائنسی نقطہ نظر سے پرکھا جاتا ہے پھر لسانیات میں شامل کیا جاتا ہے۔اسے سائنسی مطالعے میں ڈھالنا ہے، اس کی صوتیات کو دیکھنا ہے کہ اس کی ادائیگی کس طرح ہوتی ہے۔لفظ کی بناوٹ کس طرح سے ہے۔الفاظ کو سائنسی مطالعے سے پرکھنے کے بعد لسانیات میں شامل کیا جاتا ہے۔ماہر لسانیات زبان کے مختلف حروف کا تجزیہ کرتے ہیں۔ سب سے پہلے الفاظ کے حوالے سے دیکھا جاتا ہے کہ یہ کس زبان سے تعلق رکھتے ہیں کیونکہ ماہر لسانیات کا کام مخصوص زبانوں تک محدود نہیں ہوتا ہے۔لسانیات کے حوالے سے دوسرے ماہرین کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے اسی وجہ سے ڈاکٹر سید عبداللہ وقار عظیم، ابواللیث صدیقی، ڈاکٹروحید قریشی نے زبان کے حوالے سے مختلف نظریات پیش کیے ہیں۔لیکن ایک نظریے پر اتفاق ہو تو وہ باقاعدہ صنف کا تعین کردیا جاتا ہے کہ یہ لفظ کس صنف سے تعلق رکھتا ہے۔
زبان کی ماہیت میں اصل پر غور کیا جاتا ہے۔ حقیقت پر بھی۔ماہرین لسانیات کا اردو ادب پر احسان ہیکہ جب زبان کی ماہیت پر غور کیا تو داستانوں کے فرضی ناموں اور قصوں سے جان چھڑا کر سائنسی بنادیاا ور اس کی اہمیت میں اضافہ کیا۔بقول شان الحق حقی:
"لفظ لسانیات انسانی بولیوں کے تحقیقء و تقابلء مطالعے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔"
فیروزاللغات کے مطابق:
" لسانیات زبان کی ابتدا ، ارتقائ￿ اور اس کی تشکیل کے قانون کا علم ہے۔ اس سے زبان کی تاریخ کا بھی پتہ چلتا ہے۔"
موضوع2:لسانیات کے انسانی زندگی پر اثرات
لسانیات کا انسانی زندگی پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ زبان اور ادب کے ساتھ اس کا گہرا تعلق ہے۔لسانیات کی مدد سے ہم قدیم سے قدیم اور جدید سے جدید ادب کی تشکیل اور تفہیم میں آسانی ہوتی ہے۔لسانیات کی مدد سے کس بھی زبان کے قواعد اور تراکیب کو باآسانی سمجھا جا سکتا ہے۔یہ کام ماہر لسانیات ہی کر سکتے ہیں۔لسانیات تاریخ کے ان گوشوں کو بھی بے نقاب کرتی ہیجو وقت کی دھند میں کہیں گم ہو چکے ہوتے ہیں۔ماہر لسانیات کا صرف اپنی زبان میں ماہر ہونا ضروری نہیں ہے۔بلکہ دوسری زبانوں کا ماہر ہونا ضروری ہے۔اگر اردو کا ماہر ہے تو فارسی اور عربی زبان کا ماہر ہونا بھی ضروری ہے۔نہ صرف آگہی بلکہ جانچ پڑتال ضروری ہے۔جو الفاظ متروک ہو چکے ہیںوہ کیوں متروک ہیں۔میرکا دیوان ولی کا کلام دیکھیں نہ وہ الفاظ استعمال ہیں جو اب متروک ہو چکے ہیں۔ لسانیات کے علم سے شاعر کے اسلوب سے بھی آگاہی ہوتی ہے اور اس دور کے متعلق معلومات ملتی ہیں۔
لسانیات میں مختلف زبانوں کے انسانی معاشروں کے درمیان پائے جانے والے تعلق اور رشتوں کی بازیافت کا کام بھی ہوتا ہے۔لسانیات کا کام سماجیات اور اس کے کئی پہلووں کو جانچنا اورپرکھنا اور اسے اجاگر کرنا ہوتا ہے۔ لسانیات تعصبات،قومیت اور وطنیت سے قطع نظر خطوں، ملکوں اور شہروں میں بنے ہوئے لوگوں کو لسانی خصوصیات کے مطابق نزدیک لانے کے اسباب پیدا کرتی ہے۔
زبان کے مختلف نام:
اب لسانیات کے مختلف نام مروج ہیں۔اس سے پہلے کیا تھا؟فرانس میں کارڈینل ریستلو نے 1635ء میں Richelienفروغ اکیڈمی قائم کی اس کا مقصد یہ تھا کہ یہ فرنچ زبان کی تمام جزئیات کو ضابطے اور سلیقے کے سانچے میں ڈھالے۔فرانس میں سترھویں صدی عیسوی میں بالائی متوسط طبقے کے چند افراد نے اپنی زبان کے ماہرین کی خدمات حاصل کیں۔ان کا مقصد یہ تھا کہ زبان کی تمام جزئیات کو پیش کرنا۔
ڈیوس:
ڈیوس نے 1716ء میں علم زبان کو گلاسولوجی Glossology کا نام دیا۔قدیم زمانے میں لسانیات کو قواعد کے مماثل سمجھا جاتا تھا۔ اس لیے اس کو کوئی الگ نام نہیں دیا جاتا تھا۔ مگر جب ہند یورپی زبانوں کا آپس میں تقابلی موازنہ اور تجزیہ کیا گیا تو اس موضوع پر لکھی گئی کتابوں کا نام " تقابلی قواعد" رکھا گیا۔مگر جب یہ معلوم ہوا کہ علم زبان صرف قواعد یا صرف و نحو تک محدود نہیں بلکہ اس میں مختلف آوازیں ،صوتیات اور معنویات کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے تو انیسویں صدی میں اس کا نام تقابلی فیلالوجی رکھا گیا۔
فیلالوجی:
فائلو معنی محبت اور لوجی معنی علم۔یوںفیلالوجی کا مطلب زبان کی محبت۔فیلالوجی یونانی زبان کا لفظ ہے جس کامطلب وہ علم ہے جس میں زبان کے حوالے سے کام کیا جائے۔اس کے بعد بعض لوگوں نے اعتراض کیا کہ تقابل کیا جائے تو تقابل تو سائنس میں بھی ہوتاہے۔اس لیے یہ لفظ مناسب نہیں صرف فیلالوجی رکھا جائے۔اس طرح انیسویں صدی میں فرانس میں علم زبان کا نام Linguisticsرائج ہو گیا۔لینگو لاطینی زبان کا لفظ ہے۔ Linguistics زبان کے علم کو کہا جاتا ہے۔انگریزی میں انیسویں صدی کے دوران علم زبان کے لیے Linguist کا لفظ استعمال ہونے لگا۔جو چند سالوں کے بعد Linguist کے نام سے مقبول ہوا۔اب لسانیات کے لیے Linguistics کا لفظ رائج ہو چکا ہے۔ اردو میں اس کو علم زبان یا لسانیات کہتے ہیں۔
لسانیات کی ابتدا:
زبان کے بارے میں مختلف ادوار میں مختلف آراء کا اظہار کیا گیا ہے۔بعض نے اسے عطیہ خداوندی کہا ہے۔بعض نے اسے مافوق الفطرت عناصر سے منسوب کیا ہے۔بعض نے دیوتاؤں کی دین سمجھا۔البتہ یہ ایک دلچسپی کا مسئلہ ہے کہ اس کی ابتدا کہاں سے ہوئی؟رگ،رگ،وید،وید ،ہندوؤ ں کی چار مذہبی کتابیں ہیں۔ان کتابوں میں سے رگ وید سب سے پہلی کتاب ہے۔یہ کتاب مناجات پر مشتمل ہے۔ زبان کے حوالے سے عین الحق فرید کوٹی لکھتے ہیں۔
"کہیں اس سے سرسوتی اور ثوث کو اس کا خالق قراردیا۔لیکن جب ہم دنیا کی قدیم ترین کتاب "رگ وید" میں واک بمعنی لفظ کے عنوانسے دیئے ہوئے ایک نغمہ حمد کا مطالعہ کرتے ہیں تو اسے موجودہ لسانیات کے نظریوں سے کافی حد تک مماثلت پا کر حیران رہ جاتے ہیں۔"
اس نغمے میں ایک دیوی ہے جس نے اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے۔اس کے منہ سے جو کلمات نکلے وہ پاکیزہ الفاظ تھے جسے عرصہ دراز سے انسان دل کی گہرائیوں میں چھپائے ہوا تھا۔پیار میں اس نے الفاظ کی چھان پھٹک کی اور نامناسب الفاظ نکال دیئے۔اچھے الفاظ رہنے دیئے۔الفاظ کی تلاش میں دور دراو علاقوں کا سفر طے کیا اور محنت کی۔مقامی لوگوں سے رابطے کیے اور خوبصورت آوازوں میں ان الفاظ کو گیتوں کی صورت میں ڈھالا گیا۔
عین الحق فرید کوٹی نے منظر کشی کی ہے:
"ایک آدمی تو بیٹھا ہوا شعر وں کے حسین پھول بکھیر رہا ہے۔دوسراہے کہ میٹھی دھنوں میں ایک نغمہ آلاپ رہاہے۔تیسرا بطور ایک برہمن کے اس عالم میں موجودات کے قانون بیان کر رہا ہے اورچوتھا مقدس قربانی کے حصوں کے لیے پیمانے مقرر کر رہا ہے۔"
سرسوتی دیوی کو زبان اور علم و ہنر کی دیوی کہا جاتا ہے۔لسانیات کی قدیم ترین تاریخ کے حوالیسے عین الحق فرید کوٹی کی کتاب "اردو زبان کی قدیم تاریخ" ہے۔
عہد نامہ عتیق میں زبان کی ابتدا سے متعلق لکھا ہے:
"اورخداوند فدا نے کل دشتی جانور اور ہوا کے کل پرندے مٹی سے بنائے ہیں اور ان کو آدم کے پاس لایا کہ دیکھیے وہ ان کے کیا نام رکھتا ہے۔اور آدم نے جس جانور کو جو کہا وہی اس کا نام ٹھہرا"
مشہور یونانی فلسفی اور مفکر افلاطون زبان کے مافوق الفطرت ماخذکا حامی نظر آتا ہے۔اگر چہ وہ اس معاملہ میں زیادہ ماہر نہیں اور تذبذب کا شکار ہے۔
اردو زبان اور اس کے لسانیاتی پہلوؤ ںسے دلچسپی:
اردو زبان اور اس کے لسانیاتی پہلوؤں سے سب سے پہلے دلچسپی انگریزوں کو ہوئی۔ پرتگالی،فرانسیسی، جرمن،اطالوی اور انگریز علما ء شامل تھے۔ انہوں نے نہایت شوق کے ساتھ اردو کے قواعد مرتب کیے۔لغات ترتیب دیئے اور اصول زبان سے متعلق کتابچے لکھے۔اس ضمن میں گلکرسٹ، شیکسپیئر، گارساں دتاسی، جان ڈوسن ، جان ٹی پلیٹیس، ایس ڈبلیو فلن کی خدمات قابل ذکر ہیں۔اردو لغت کی بات کرتے ہیں تو اس میں ہندوستان نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ اور بہت سی کتابیں لکھی ہیں۔ جو بہت زیادہ مقبول بھی ہوئیں ہیں۔
اردو زبان کی سب سے پہلی گرائمر ایک ڈچ شاعر نے تحریر کی جس کا نام کیٹلر تھا۔اور یہ ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی کا ڈائریکٹر تھا۔یہ ہندوستان میں ڈچ سفیر کی حیثیت سے آیا تھا۔ "صرف و نحو" کتاب 1701ء میں لکھی گئی۔اردو زبان کی پہلی لغت پر بات کرتے ہوئے S.K Husainلکھتے ہیں:
"جارج ہیڈلے نے اردو صرف ونحو پر ایک کتاب 1873ء میں تالیف کی۔جس میں ہندوستانی لغت بھی شامل ہے۔یہ انگریزی لغت نویسی کا پہلا خاکہ ہے۔یہ کتاب کافی مقبول ہوئی۔اس کے بعد جے فرگوسن نے ایک لغت ترتیب دی جس میں سے صرف و نحو کے لیے ایک حصہ مختص کیا۔"
فرگوسن کے بارے میں مولوی عبدالحق کا خیال ہے کہ:
"ڈاکٹر گلرائسٹ سے اول بھی ایک شخص(فرگوسن) نے اردو کی ایک لغت لکھی جو لندن میں 1773ء میں طبع ہوئی مگر بالکل ناکافی تھی۔جنرل ولیم کرک پیاٹرک نے ایک ڈکشنری لکھنے کا ارداہ کیا جس کے انھوں نے تین حصے کیے۔مگر اس کا ایک ہی حصہ طبع ہونے پایا۔اس حصے میں انہوں نے وہ الفاظ لیے جو عربی،فارسی اور ہندی میں آ گئے ہیں۔یہ ایک حصہ لندن میں 1985ء میں طبع ہوا۔"
انگریز ماہر لسانیات کی خدمات کا یہ نتیجہ نکلا کہ اردو زبان میں قواعد اور لغت کے حوالے سے اتنا وسیع ذخیرہ نکلا کہ غیر ملکیوں کے لیے اردو زبان سیکھنا کوئی مسئلہ نا رہا۔
موضوع3:زبان کیا ہے؟ زبان کے معنی ومفہوم، تاریخ و اہمیت
انسان اور انسانی خیالات میں اگر اس کا مطالعہ کیا جائے تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ انسان بچپن سے لے کر لڑکپن جوانی بڑھاپے اور اور اپنی عمر کے آخری لمحے تک زبان کا استعمال کسی نہ کسی صورت کرتا ہے۔ مثلا۔جب بچے کو کھانے پینے کی حاجت ہوتی ہے تو وہ بچہ جو بول کر اپنا مدعا بیان نہیں کرسکتاجیسے کہ بڑے کرسکتے ہیں مگر اس کے باوجود و ہ ہاتھوں کے اشاروں سے یا ٹانگوں کے اشاروں کی مدد سے مختلف حرکات سے مدد لیتا ہے۔
بچہ اشاروں اور حرکات کے ذریعے سے دوسروں کو متوجہ کرتا ہے۔ما ںاس کے اشاروں کو سمجھتی ہے۔ماں تھپکی یا لوری دے کر سلا دیتی ہے۔بڑا ہونے کے بعد وہ چیزوں کو مختلف نام دینا شروع کردیتا ہے اور پھر وہ وہی نام قبول کر لیتا ہے جو معاشرے میں رائج ہوتا ہے۔وہ معاشرے میں اپنے آس پاس کی زبان سن لیتا ہے۔اگروہ عام لوگوں سے متعلقہ ہے تو اس کی زبان بھی عام لوگوں جیسی ہوگی اگر خاص ہوتو اس کا اثر زبان پر پڑے گا۔زبان انسان کی ذہنی و جسمانی نشوونما اور فکری ارتقاء اورجسمانی بالیدگی کے ساتھ ابتدائی مراحل طے کرتی ہے۔
بچہ وہی زبان سیکھتا ہے جو اس کے اردگرد بولی جاتی ہے۔ معاشرے کا ہرفرد زبان کو اپنے دائرے اور وسعت عملی کے مطابق استعمال کرتا ہے۔اگر اس کاواسطہ عام لوگوں سے ہے تو اس کی زبان الفاظ بھی ویسے ہی ہوں گے۔اگر وہ کسی مخصوص شعبے سے تعلق رکھتا ہے تو اس کی زبان بھی ویسی ہی ہوگی۔یہ آس پاس کے ماحول پرمنحصر ہوتاہے۔
ادب اور سائنس کے لوگ ہیں ان کی زبان میں فرق ہوگا۔ادبیات سے تعلق رکھنے والے شخص کی زبان مختلف ہوگی۔سائنس کے شعبے سے تعلق رکھنے والے شخص کی زبان مختلف ہوگی۔اسی طرح کوئی شخص اان پڑھ ہوگا تو وہ زبان کو پڑھے لکھے لوگوں سے مختلف اندازمیں استعمال کرے گا۔ اسی طرح زبان ہر شعبے کے لوگوں کی مختلف ہوگی۔ہر شخص اپنی اہلیت کے اظہار کے لیے زبان استعمال کرتا ہے زبان انسان اور حیوان میں فرق ہے۔ حصی زبان وہ زبان جو بڑے ادیب ماضی میں استعمال کرتے تھے۔زبان کا آغاز کب اور کہاں سے ہوا کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ زبان کے ذریعے سے اپنے نظریات اور خیالات کا اظہار کیا جا سکتا ہے۔
فصیح زبان:
فصیح زبان وہ ہے جو ماضی میں بڑے بڑے ادیب استعمال کرتے تھے۔ زبان کی تاریخ انسانی تاریخ کی طرح قدیم ہے۔زبان کا آغاز کب ہوا اور کہاں سے ہوا اس کے باریوثوق سے نہیں کہا جا سکتا۔البتہ زبان کازندگی اور معاشرے سے گہرا تعلق ہے تما م تر سائنسی اور معاشرتی ترقی کا دارومدار زبان پر ہے۔زبان ہی وہ ذریعہ ہے جس کی مدد سے ہم نا صرف اپنے خیالات کا اظہار کرسکتے ہیں۔ بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ہم سوچتے ، سمجھتے اورغوروفکر کرتے ہیں اور اپنے خیالات و نظریات تحریری زبان کی صورت میں محفوط کرلیتے ہیں۔
زبان کے لغوی معنی:
لغت نگاروں اور ماہرین لسانیات نے مختلف تعریفیں پیش کیں ہیں:
" زبان 32 دانتوں کے درمیان گوشت کا لوتھڑا فارسی میں زبان، عربی میں لسان، انگریزی میں Tongue اور اردو میں جیب کہتے ہیں۔"
نور اللغات:
"لسان، زبان، جیب،بول چال اور روزمرہ زبان وہ بولی ہے جس کے ذریعے جذبات کااظہار کیا جا سکے۔"
زبان کے اصطلاحی معنی:
" وہ صلاحیت جس کی مدد سے انسان ذاتی اور اجتماعی معاملات کے لیے ماحول اور معاشرتی حالات کے تقاضوں کے مطابق لکھ کر یا بول کر اظہار کر سکے۔"
فیروز اللغات:
• جیب، لسان
• بول چال، محاورہ، بولی، بات ،گفتگو
• قول، اقرار، وعدہ
• بیان
ڈاکٹر محی الدین قادری زور:
"زبان خیالات کا مجموعہ ہے اس کا کام یہ ہے کہ لفظوں اور فقروں کے توسط سے انسانوں کے ذہنی مفہوم اور دلائلاور ان کے عام خیالات کی ترجمانی کرے۔اس ترجمانی میں حرکات جسمانی بھی شامل ہیں جو کسی مفہوم کے سمجھانے کے لیے خاص خاص زبان بولنے والوں کے درمیان مشترک ہوتی ہیں۔"
پس زبان کی واضع تعریف ان الفاظ میں کی جاتی ہے:"زبان، انسانی خیالات اور احساسات کی پیدا کی گئی ہے اور ان تمام اشاروں اور حرکتوں کا نام ہے۔
اظہار کی دو صورتیں ہیں:تقریری اور تحریری۔قوت گویائی دراصل ہماری زبان کی حقیقی شکل ہے۔
برجموہن:
" زبان تخیل اور خیال کے ظاہر کرنے یا اپنا مطلب ادا کرنے کا ذریعہ ہے۔ہمارا مقصد ناقطہ کے ذریعے اظہار خیال سے ہے جس کا تعلق آواز سے ہے۔
ڈاکٹر اقتدار حسین:
ڈاکٹر اقتدار حسین اپنی کتاب لسانیات کے بنیادی اصول میں لکھتے ہیں کہ:
" لسانیات کی رو سے زبان ایک ایسی خود اختیاری اور روایتی صوتی علامتوں کے نظام کہتے ہیں جو کہ انسان اپنے سماج میں اظہار خیال کے لیے استعمال کرتا ہے"
زبان دراصل آوازوں کا مجموعہ ہے۔بول چال اس کاپہلا روپ جبکہ تحریر اس کا ثانوی روپ ہے۔ زبان ایک تغیر پذیر شے ہے جو اپنا الگ نظام رکھتی ہے۔جن زبانوں کو بولنے والے زیادہ ہیں وہ زندہ زبانیں ہیں اور جن کو بولنے والے کم وہ گئے ہیں وہ مردہ زبانیں کہلاتی ہیں۔
زبا ن کے دو پہلو ہیں۔
• اشارتی پہلو(ہمہ گیر پہلو اختیار نہیں کرسکا)
• صوتی پہلو
اشارتی پہلو زیادہ دیرپا ثابت نا ہوسکا اس کا وجود مٹ جانا تھاجبکہ تحریری چیز صدیوں چلتی ہیں۔
ڈارون کا نظریہ:
اشارتی زبان کے لیے ہاتھوں کا ہونا ضروری ہے نیزاس کے لیے روشنی کا ہونا بھی ضروری ہے۔جبکہ معذور لوگ ہاتھوں کے بغیر بھی زبان کا اظہار کرتے ہیں۔زبان کا صوتی پہلو زندہ جاوید ہے۔
جان ڈیوی :
جان ڈیوی نے زبان کے صوتی پہلو کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ:
"زبان کے وجود کا دارومدار کسی بولنے والے پر ہی نہیں بلکہ سننے والے پر بھی منھصر ہے۔"
گلیسن کے مطابق:
زبان کے تین عناصرہیں:
• اظہار کی ساختStructure of Expression
• مواد کی ساخت Structure of Content
• ذخیرہ الفاظ Vocabulary
کچھ الفاظ ایک ہزار سال میں ÷20 بدلے جا سکتے ہیں۔
قدیم ترین زبان:
سامی یا سمیری زبان کو دنیا کی قدیم ترین زبان مانا جاتا ہے۔ یہ نوح? کے عہد کی زبان ہے۔اس کا تذکرہ عہد نامہ عتیق میں ملتا ہے۔بابل میں مینار کی تعمیر پر زبان کا اختلاف پیدا ہوا۔یہ لوگ جدا ہو کر الگ ہو کر رہنے لگیجس سے ان کی زبانیں ایک دوسرے سے مختلف ہو گئیں اور تلفظ کا اختلاف بھی پیدا ہوا۔یوں ان کا اصل زبان سے کوئی تعلق نا رہا۔
"سام" نوح کے بیٹے تھے۔اور سامی زبان کا آغاز آپ سے ہوا۔سام کے 3 بیٹے تھے۔ان کے ناموں پر زبانیں بنیں۔
• آرام(آپ کی نسل حجاز سے یمن تک آباد ہوئے اور آپ کی زبان آرامی کہلائی)
• عابر (عبرانی/عبری زبان )
• عاشور(شام /سوریہ میں آباد ہوئے)اس کو سریانی زبان بھی کہتے ہیں۔
قدیم بابل میں سمیری زبان بولی جاتی تھی۔یہ زبانیں تاریخی تغیرات کے باوجود ایک دوسرے پر اثر انداز ہوئیں۔اورتقریبا2000 قبل مسیح تک بولی جاتی رہیں۔
اگرچہ اب یہ زبانیں ختم ہو چکی ہیں اور ان کے بولنے والے معدوم ہو چکے ہیں۔البتہ تورات سریانی زبان میں محفوظ ہے اور عہدحاضر میں اسرائیل میں عبرانی زبان کو زندہ کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔
حضرت نوح ؑ کے تین بیٹے تھے۔
سام
آریائی زبانوں کا آغازسام کی نسل سے ہوا۔ یورپی اقوام کا تعلق سام کی نسل سے ہے۔ان کو سفید فام کہا جاتا ہے۔
عام
یہ افریقہ کے سیاہ فام حبشی اور قدیم ہندوستانی باشندے ہیں۔ ان کو سیاہ فام کہا جاتا ہے۔
یاس/ یافث
ان کا تعلق منگول نسل سے تھا۔ ان کو زرد فام کہا جاتا ہے۔
قدیم ترین زبانوں کا سراغ لگانے میں دقت پیش آتی ہے۔یعنی جو زبانیں معدوم ہو چکی ہیں ان کا صرف کھنڈرات میں ہی سراغ ملتا ہے۔آدم? کو پہلے عبرانی زبان اور پھرمعافی کے لیے عربی زبان سکھائی گئی۔ فرہنگ آصفیہ میں آدم کے معنی گندم اور رہنما کے ہیں نیز سریانی زبان میں اس کا معنی "مایوس" کے ہیں۔جبکہ حوا کے معنی جز کے ہیں ہیں عربی میں یہ مونث ہے سانولے یا سیاہ ہونٹوں والی کو کہتے ہیں۔
جان شیکسپیئر:
جان شیکسپئیر کہتے ہیں کہ وہ تمام زندوں کی ماں ہے
عہد نامہ عتیق:
عہد نامہ عتیق میں میں ابوالبشر ابو اللسان آدم علیہ السلام کو کہا جاتا ہے۔
فرہنگ آصفیہ:
فرنگ آصفیہ کے مطابق سریانی زبان آدم علیہ السلام کی تھی۔
حضرت شاہ عبدالطیف:
حضرت شاہ عبدالطیف کے مطابق حضرت آدم جب بہشت میں تھے تو عربی بولتے تھے۔ جب ان کو سزا کے طور پر زمین میں بھیجا گیا اور حضرت جبرائیل و میکائیل نے ان کے سر سے تاج اتار لیا تو عربی زبان کو ختم کردیا گیا تھا اور ان کے منہ پر سریانی زبان چڑھا دی گئی تھی۔اور جب ان کی توبہ قبول ہوئی تھی تو ان کو دوبارہ سے عربی زبان دے دی گئی تھی۔
مصنف تاریخ خامیس:
آدمؑ کو اللہ نے تمام زبانیں سکھائیں اور انہوں نے اپنے ہر بچے سے الگ زبان میں گفتگو کی اور وہ زبان یوں پھیلی۔غور و فکر کی صلاحیت اللہ نے انسان کو دی ہے اور اظہار کے لیے مختلف طریقے استعمال کرتا ہے یا نشانی استعمال کرتا ہے۔
• زبان • نشان/نشانی
• کپڑے پر گرہ • ماضی میں ڈوپٹے کو گرہ لگاکر چیزیں یاد رکھا جاتا تھا۔
زبان کی ماہیت:
زبان اپنی ساخت اور ماہیت کے اعتبار سے مختلف علامات اورتشریحات پر مبنی ہے اس کے علاوہ زبان کے ارتقاء اورنشوونما میں تصویریں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ الفاظ اور حروف کی ایجاد سے پہلے انسان علامات، اشارات اور تصویروں کی مدد سے اپنا مدعا دوسروں کے آگے بیان کرتا تھا۔زبان اظہار کا ذریعہ ہے وقت گزرنے کے ساتھ جوں جوں انسان ترقی کرتا ہے زبان میں بھی مختلف اصطلاحات ،محاورے وغیرہ کا اضافہ ہوتا چلاجاتا ہے۔زبان ایسی نعمت ہے جو صرف انسان کو ودیعت کی گئی ہے۔چاہے انسان پڑھا لکھا ہو یا ان پڑھ ،روزمرہ زندگی کے معاملات زبان کی بدولت ہی ممکن ہے۔زبان دوسرے انسانوںسے تعلقات استوار کرتی ہے۔
گیان چند جین:
"زبان بامقصد من مانی قابل تجزیہ صوتی علامات کا وہ نظام ہے جس کے ذریعے سے ایک انسانی گروہ کے افراد اپنے خیالات کی ترسیل و ترجمانی باہمی کرتے ہیں۔"
زبان ایک مسلسل عمل ہے۔جو انسان اپنی پیدائش سے لے کر سیکھتا ہے اور سیکھتا ہی چلاجاتا ہے۔ معاشرے میں ہر فرد دوسرے سے زبان اور حروف کے ذریعہ سے تبادلہ کرتا ہے اسی سے زبان پنپتی ہے اور ترقی کرتی ہے زبان دراصل سماجی ورثہ ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ سماجی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں اور یہ سماج کے لوگوں کی وجہ سے ہوتی ہے زبان کسی سوچے سمجھے طریقے سے وجود میں نہین آئی تھی بلکہ یہ خودبخود معرض وجود میں آئی۔
محی الدین قادری زور:
" زبان کی تشکیل اور ارتقا براہ راست انسانی خیالات کی تشکیل پر منحصر ہے زبان کی تفہیم آوازوں کے علاوہ انسانی احساسات و خیالات پر مبنی ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ فہم انسانی کے نفسیاتی قوانین بھی ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہوتے ہیں"
الفاظ حروف کا مجموعہ ہوتے ہیں اور یہ حروف اکائیوں کی حیثیت رکھتے ہیں جب یہ اکائیاں مختلف الفاظ کی صورت میں وقوع پذیر ہوتی ہیں اور اجتماعی طور پر اشتراکی عمل سے گزرتی ہیں تو یہی بے معنی حروف مختلف زاویوں سے وقع پذیر ہو کر ایک جہاں معنی کی صورت اختیار کرلیتے ہیں۔
جیسا کہ( ق۔ا۔ل۔ب) الگ سے کوئی حیثیت نہیں رکھتا لیکن جب ہم اس کو اکٹھا کرلیتے ہیں توایک جہان معنی کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔الفاظ اور معنی باہم گہرا ربط رکھتے ہیں اور بعض اوقات ایسا ہوتا ہیکہ الفاظ وہی رہتے ہیں لیکن معنی اپنی حیثیت بدل لیتے ہیں۔معنی کی تبدیلی حالات و واقعات کے ساتھ ہوتی ہے۔ زبان کو شروع ہی سے ہر شعبہ حیات میں اہم مقام رہا ہے۔جب زبان کسی سانچے میں ڈھلتی ہے تو تب ہی انسان اپنا مدعا بیان کرتا ہے۔دراصل یہ جتنی بھی ترقی ہے یہ ترقی زبان کی ترقی سے مشروط ہوتی ہے وہ معاشرہ جو ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا ہے وہ اپنی زبان کی تراش خراش پر توجہ دیتے ہیں۔ترقی کے مختلف مدارج یعنی سماجی ترقی،معاشی ترقی ،معاشرتی ترقی وغیرہ سب کے لیے زبان کی ترقی ضروری ہے۔اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی زبان زیادہ دیر تک چلے تو اس کے بولنے والے زیادہ ہوں۔اس طرح سے زبان ترقی کے مختلف مدارج طے کرتی ہے۔
اختر حسین رائے پوری:
" انسان کی سب سے بڑی ایجاد زبان ہے اور ادب اس کے تخلیقی اظہار سے عبارت ہے زبان کی ترقی معاشرے کی ترقی سے وابستہ ہے۔"
سائنس و ٹیکنالوجی ہی نہیں بلکہ شعر وادب کے میدان میں بھی زبان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ زبان اور ذخیرہ الفاظ شعرو ادب کی وجہ سے محفوظ ہیں۔اور جب تحریری شکل میں محفوظ ہوں تو زبان زیادہ دیر تک قائم رہ سکتی ہے اور ترقی کر سکتی ہے۔
مرزا خلیل احمد بیگ:
"زبان کی لسانیاتی سطح سے قطع نظر اس کی ایک سطح اور ہوتی ہے جو اس کی ادبی سطح کہلاتی ہے۔ ادبی سطح پر بھی زبان کی جڑیں سماج اور تہذیب کی ہر کروٹ زبان کے وسیلے سے ادب میں منعکس ہوتی ہیں۔گویا زبان وادب سماج اور تہذیب کی آئینہ دار ہوتی ہے۔"
زبان اگر فصیح ہو گی تو آپ کا معاشرہ بھی ترقی کرے گا۔ماہرین لسانیات کے مطابق انسان کی سب سے بڑی کامیابی اس کی زبان اور دوسری کامیابی اس کی تحریر ہے۔ سب سے پہلے انسان سنتا ہے ،سمجھتا ہے، اظہار کرتا ہے اور تحریر کرتا ہے۔زبان انہیں متاثر کرتی ہے۔چاہے کوئی ا ن پڑھ ہے کوئی مہذب ہوے وہ خیالات کے اظہار کے لیے زبان کا ہی سہارا لیتا ہے۔بہتر طریقے سے اپنے مقاصد کو بیان کر سکت اہے۔ زبان جتنی فصیح و بلیغ ہوگی آپ کا ادب بھی اتنا فصیح و بلیغ ہوگا۔
محمد ساجد خاکوانی :
"انسانی معاشرے میں ادب کی اہمیت نونہال کے لئے پانی کی مانند ہے۔ قبیلہ بنونوح انسان ان کے بہترین اذہان ادب تخلیق کرتے ہیں اور ادب کی ترویج اوراشاعت کی واحد بہترین بیساکھی زبان ہی ہے۔ حتیٰ کے بہترین ادب کی تخلیق کے لئے بعض اوقات تعلیم کی شرط ناکافی ہو جاتی ہے۔"
زبان میں جو بھی تبدیلی آتی ہے وہ انسانی زندگی پر بھی اثرا نداز ہوتی ہے۔زبان کی انفرادی کوئی حیثیت نہیں۔ ریاست کی وجہ سے ہی زبان پھلتی پھولتی اور پنپتی ہے۔ زبان انسانوں میں رابطے کا بہترین ذریعہ ہے۔ زبان انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔زبان کو انسان سے جد ا نہیں کیا جا سکتا۔زبان و علم کی ترقی زبان ہی کی بدولت ممکن ہے۔
موضوع4: زبان کے خاندان
زبانیں کیسے پیدا ہوئیں؟اس سوال کے جواب پر ماہرین متفق نہیں ہیں۔ کسی نے کہا ہے غیر ذی روح اشیاء مثلاً پانی، ہوا وغیرہ کے شور کی نقل سے الفاظ بنائے گئے۔ کسی نے دعوی کیا کہ حیوانات کی آوازوں سے الفاظ اخذ کئے گئے۔ کوئی انسان کی ضطراری یا نعروں کو زبان کی بنیاد قرار دیتا ہے۔ ان قیاس آرائیوںکی بنا پر بہت کم الفاظ کا پتا چلتا ہے۔
ایک بات قابل توجہ ہے، حیوانات اور انسان کو خواص خمسہ اور جبلتیں عطا ہوئی ہیں۔ انسان کو علم ،شعور ارادہ ،اختیار اور قوت گویائی سے بھی نوازا گیا۔ حواس خمسہ اور جبلتوں کے علاوہ ان مذکورہ اوصاف سے گویائی یا بیان کا گہرا تعلق ہے جس نے یہ صفات عطا کیں،اسی نے قوت گویائی بھی عطا کی۔گویائی یا بیان بھی اسی کی دین ہے۔ سورۃ رحمٰن کی تیسری اور چوتھی آیت میں بتایا گیا ہے کہ اللہ عزوجل نے انسان کو پیدا کیا اور اسے بولنا سکھایا( اسے زبان عطا کی)۔
فرنچ اکیڈمی کے نزدیک دنیا میں 2796 زبانیں ہیں۔شمالی امریکہ میں 351،میکسیکو اور وسطی امریکہ میں96 اور جنوبی امریکہ میں783۔ یہ امریکہ کے قدیم باشندوں ، امریکی ہندیوں(Red Indians) کی زبانیں ہیں۔ان کی صحیح گروہ بندی ابھی تک نہیں ہوئی۔بیشتر زبانوں کا مطالعہ کم ہوا ہے۔ جزائر بحرالکاہل کی زبانوں کا پورا مطالعہ بھی نہیں ہوا۔تقریبایہی حال افریقی زبانوں کا ہے جنہیں چار گروہوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔یہ گروہ حسب ذیل ہیں :(جہاں زبانوں کی تعداد لکھیں ہے وہاں زبانوں سے بیشتر بولیاں مراد ہیں)۔
1۔سوڈان گنی گروہ:
435 زبانیں۔یہ گروہ مشرقی افریقہ سے مغربی افریقہ تک، خط استوا کے اوپر پھیلا ہوا ہے۔
2۔بانتو خاندان:
83زبانیں۔۔۔۔یہ خاندان افریقہ کے وسطی اور جنوبی حصوں میں پھیلا ہوا ہے۔
3۔لش مین گروہ:
6 زبانیں۔
4۔حامی سامی خاندان:
46 زبانیں۔(حام اور سام حضرت نوح علیہ السلام کے دو بیٹے تھے) یہ زبانیں شمالی افریقہ میں بولی جاتی ہیں۔ حامیوں کو سامیوں نے بحیرہ روم کے ساحل سے نیچے کی طرف دھکیل دیا تھا۔غیر متعین زبانوں سے قطع نظر یورپ اور ایشیا میں زبانوں کے حسب ذیل خاندان ہیں:
سامی خاندان:
اس خاندان کی اہم زبان عربی ہے ہے۔حجازی ،عراقی، شامی اور مصری اس کی مختلف شکلیں ہیں۔ شمالی افریقہ میں طرابلسی ،تیونسی، الجزائری، مغربی اندلسی اور مالٹائی کا تعلق عربی سے ہے۔ دوسری اہم زبان عبرانی ہے جو بول چال کی حیثیت سے مردہ ہو چکی تھی۔ اب بھی کسی کی مادری زبان نہیں ہے تاہم یہ اسرائیل کی سرکاری زبان ہے۔
شمالی خطے کی زبانیں:
اس خاندان میں گرین لینڈ کی اسکیمو زبان اہم ہے۔ یہ خاندان الاسکا سیسائیبریا تک پھیلا ہوا ہے۔
یورال ور التائی خاندان:
یور الی 32 اور التائی 43 زبانوں پر مشتمل ہے۔یورال اور الطائی پہاڑوں کے نام ہیں۔ یورال کوہ قاف کے شمال اور الطائی منگولیا میں ہے۔
قافی خاندان:
قافی یا کاکیشیائی خاندان کی 26زبانیں ہیں۔اس خاندان کا تعلق کو و قاف کے علاقے سے ہے۔
تبت چینی خاندان:
اس میں115 زبانیں ہیں۔ یہ خاندان چین ، تبت، برما ،تری پورہ، ناگالینڈ ، میگھالے اور تھائی لینڈ میں پھیلا ہوا ہے۔
جاپانی کوریائی خاندان:
اس خاندان میں یہی دو زبانیں ہیں۔ جا پان نے تیسری صدی عیسوی میں چینی رسم الخط اختیار کیا۔
آسٹرو ایشیائی خاندان:
آسٹرو ایشیائی میں چام، کھاسی نکو ہار گروہ،مون کھمیر گروہ اور منڈا زبانیں شامل ہیں۔منڈا کوکول کہا جاتا تھا جس کا مفہوم سنسکرت میں سور ہے۔ گریرسن نے منڈا نام رکھ دیا جس کا مطلب منڈاری میں سردار ہے۔منڈا زبانوں میں منڈاری کے علاوہ سنتھالی،کرکو،کھڑیا اور کناوری وغیرہ شامل ہیں۔ان کا مرکز چھوٹا ناگپور ہے، اسے جھاڑکھنڈ کہتے ہیں۔ منڈا زبانوں میں سنتھالی اور منڈاری کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔
دراوڑ خاندان:
دراوڑی خاندان میں 26 زبانیں ہیں۔ ان میں بلوچستان کی براہوی شامل ہے۔ کرکھ زبان بہار، اڑیسہ اور مدھیہ پردیش سے گھرے ہوئے علاقے میں بولی جاتی ہے۔ دراوڑی خاندان کی زبانیں جنوبی ہند میں پھلی پھولیں۔ ان میں سب سے پرانی تامل ہے۔یہ زبان تامل ناڈو، شمالی لنکا اور ملائیشیا کے بعض حصوں میں بولی جاتی ہے۔ کنٹر کرناٹک کی زبان ہے۔ملیالم اور تیلگو بھی اہم زبانیں ہیں۔تیلگو بولنے والے سب سے زیادہ ہیں۔
ہند یورپی خاندان:
اس میں 132 زبانیں ہیں۔ یہ زبانوں کا اہم ترین خاندان ہے۔امریکہ،آسٹریلیا اور یورپ کے براعظموں کے علاوہ ایران، افغانستان، آرمینیہ اور برصغیر پر حاوی ہے۔اس کی دو شاخیں کینٹم اور ستم ہیں۔ ذیلی خاندان یہ ہیں:
1۔ کینٹم: حتی، طخاری، یونانی، اطالوی، ایرانی، ٹیوٹافی(جرمن)، کیٹلک
2۔ البانوی، بالتک، سلافی، آرمینیائی، ہند ایرانی
ٹیوٹافی یا جرمن خاندان کی انگریزی اہم ترین زبان ہے۔ اسے بین الاقوامی حیثیت حاصل ہے۔ یہ برطانیہ ،امریکہ، نیوزی لینڈ، آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ (کے گوروں کی) مادری زبان بھی ہے۔
ہند ایرانی یا آریانی کی تین شاخیں ہیں:
• ایرانی • دردستانی • ہند آریائی
ایرانی گھرانے کی سب سے اہم زبان فارسی ہے۔رضا شاہ پہلوی کے عہد میں اس سے عربی الفاظ نکالنے کی مہم چلی،ان کی جگہ آریائی الفاظ رکھے گئے۔فرانسیسی الفاظ کو بھی مفرس کرکے رواج دیا گیا۔ ایرانی گھرانے کی دوسری زبانوں میں کردی، مازندرانی، تالی، دری،اوسیتی، غلچہ (پامیر کی بولیاں)،پشتو،ا رمی اور بلوچی شامل ہیں۔
دری زبانیں کشمیر کے شمالی اور شمال مغربی اطراف میں بولی جاتی ہیں۔کشمیری،کشتواری، شنا، کوہستانی ، چترالی اور کلاشا زبانیں دری گروہ میں شامل ہیں۔ ڈاکٹر محمد یوسف بخاری کشمیری کی اصل بروشکی بتاتے ہیں جو ان کے نزدیک غیر آریائی( تورانی گروہ کی ) زبان ہے اور شورسینی پراکرت یا ا پ بھرنش (آریائی) کے سہارے زبان کے درجے پر فائز ہوئی۔شورسینی پراکرت اردو کے راست سلسلہ نسب میں آتی ہے۔شورسینی ادبی زبان تھی، اس کی ابتدائ￿ بول چال کی شکل اردو کی نانی قرار دی جاسکتی ہے۔
ہند آریائی زبانوں میں سندھی، سرائیکی، پنجابی، اردو(ہندی)، گجراتی ، راجستھانی، بہاری ،بنگالی، آسامی، اڑیا، مراٹھی، نیپالی اور دوسری پہاڑی زبانیں شامل ہیں۔اردو(ہندی) ہند آریائی کی اہم ترین زبان ہے۔اسے برصغیر میں لنگو افرنیکا کا درجہ حاصل ہے۔ یہ زبان دنیا کی چند ایک بڑی زبانوں میں شامل ہے۔
برصغیر میں نسل انسانی کا آغاز نہیں ہوا۔یہاں جو اقوام بھی آئیں، باہر سے آئیں۔ افریقہ کے حبشی نسل کے "نیگریٹو(Negrito)" غالبا سب سے پہلے یہاں آئے۔ ان کی نسل ختم ہوتی گئی۔ڈاکٹر سینتی کمار چیٹرجی نے اپنے ایک رسالے " لینگوجز اینڈ لنگوسٹک پرابلمز" میں لکھا ہے:
"1931ء میں "جزائر انڈیمان" میں ان کی تعداد 500 تھی۔ اس نسل کے لسانی اثرات کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔ نیگریٹو نسل کے بعد یہاں کول یا منڈا قبائل آئے۔انہیں پروٹو آسٹرالائڈ (Proto-Astealoide) بھی کہا جاتا ہے۔چیٹرجی نے انہیں " آسٹرک" کہا ہے۔"
پروفیسر گیان چند جین کی وضاحت کے مطابق :
"آسٹرک عالمی زبانوں کا ایک گروہ ہے جس میں جزائر بحر الکاہل کی زبانوں کے علاوہ ملایا، پولی نیشیائی خاندان(633 زبانیں) اور آسٹرو ایشیائی خاندان (52زبانیں) شامل ہیں۔آسٹرو ایشیائی خاندان میں برما اور تھائی لینڈ کا مون کھمیر گھرانہ اور ہندوستان کی منڈا زبانیں شامل ہیں۔ان زبانوں کا علاقہ جھاڑکنڈ ہے۔اس کے علاوہ یہ زبانیں آندرا پردیش اور ہماچل پردیش کے بعض حصوں میں بھی بولی جاتی ہیں۔"
چیٹرجی نے مذکورہ کتابچے میں خیال ظاہر کیا ہے کہ آسٹرک قبائل مغرب سے آئے اور مشرق کی طرف سیلون، برما، ہند چینی، ملایا اور انڈونیشیا میں آباد ہوتے ہوئے آسٹریلیا جا پہنچے۔ظاہر ہے کہ بحر الکاہل کے دوسرے جزائر بھی ان کی پہنچ سے باہر نہیں رہے۔
تیسرا گروہ دراوڑوں کا ہے جو 3500 ق-م میں سندھ میں وارد ہوا اور پنجاب کی طرف پیش قدمی کی۔دراوڑ بحیرہ روم کے علاقوں سے آئے تھے۔ انہوں نے سندھ اور جنوبی پنجاب میں عظیم شہری تہذیب کی بنیاد ڈالی۔بقول چیٹرجی وہ گنگا کی وادی میں بھی پہنچے جہاں ان کا ملاپ آسٹرک بولنے والوں سے ہوا۔چیٹرجی لکھتے ہیں کہ:
" ہندوستانی تمدن کی تشکیل کا سہرا ان کے سر نہیں بلکہ اس کی بنیادیں فراہم کرنے میں بڑا حصہ غیر آریائی لوگوں کا تھا۔ دراوڑ شہروں میں بستے تھے، ان کے سامنے آریا محض خانہ بدوش وحشی تھے۔آریا 1500ق-م میں برصغیر آئے۔ ان کا اصل وطن وسط ایشیا سے یورپ کی سرحدوں تک وسیع تھا۔یہ لوگ یورپ ،ایران اور برصغیر کے بڑے حصے پر پھیل گئے۔ "
پروفیسر گیان چند نے لکھا ہے:
"آریوں کے اصل وطن کے سلسلے میں پسندیدہ نظریئے دو ہیں۔پہلا یہ کہ ان کا اصلی وطن بحر اخضر اور والگا ندی کے دہانے کے بیچ کا علاقہ تھا۔ دوسرا یہ کہ یورال کا جنوبی علاقہ ان کا اصلی وطن تھا۔"
بقول مسعود حسین:
"وسطی ایشیا والے نظریئے کی تائید ان ریکارڈوں سے ہوتی ہے جو 1906ء میں ایشیائے کوچک میں دریافت ہوئے ہیں اور جن کا تعلق 1500 ق-م سے ہے۔ان ریکارڈوں میں بعض دیوی دیوتاؤں کے نام مثلا اندرا، ارونا وغیرہ سنسکرت کی مقدس کتابوں میں جوں کے توں پائے جاتے ہیں۔ بالخصوص اعداد سنسکرت کے اعداد سے بالکل مشابہ ہیں۔"
دو ہزار قبل مسیح آریا ایران میں داخل ہوئے۔ایران میں آریائی(ہند آریائی) کی تشکیل ہوئی۔ برصغیر میں آریوں کی آمد کا سلسلہ کئی صدیوں تک جاری رہا۔ یہاں ان کا سامنا دراوڑوں سے ہوا۔دراوڑوں نے سخت مزاحمت کی۔بقول چیٹرجی :
"شاید پنجاب میں بڑی خوفناک مدافعت ہوئی اور پنجاب ہی میں آریاؤں کی سب سے بڑی آبادیاں قائم ہوئیں۔رفتہ رفتہ آریا شمالی ہند(بشمول موجودہ پاکستان، بنگلہ دیش) اور شمالی دکن میں پھیل گئے۔"
مہذب دراوڑ عسکری اعتبار سے کمزور نکلے۔آریا دراز قد اور نیم وحشی تھی۔ انہوں نے دراوڑوں کو مار مارکر بھاگنے پر مجبور کردیا۔دوراڑوں نے وطن چھوڑا اور دکن چلے گئے۔ وہاں آریوں کا تسلط نہ ہوسکا۔دراوڑوں کی نسلیں اور زبانیں وہیں پھلی پھولیں۔جو دراوڑ دکن نہ جا سکے، انہیں آریوں کا خدمت گار بننا پرا۔وہ حقیر و ذلیل ہو کر رہ گئے اور شودروں میں شامل ہو گئے۔
یہ درست ہے کہ ہندوستانی تمدن کی تشکیل میں دراوڑوں کا بڑاحصہ ہے۔وہ ترقی یافتہ تمدن کے مالک تھے۔ آریوںمیں ان کی رسم و رواج پا گئیں، مذہبی خیالات نفوذ کر گئے اور ان کی اشیا کا استعمال آریوں میں عام ہوتا گیا۔ان اشیا کے نام بھی آریائی زبانوں میں شامل ہو گئے۔اسما کے دخیل ہونے سے زبانوں کی ساخت نہیں بدلتی۔آریائی آبادیوں میں آریائی بولیاں حاوی رہیں۔ آریوں نے دیہاتوں کی شکل میں بستیاں بسائیں۔وہ فاتح تھے، اکثریت میں تھے، انہیں کیا مجبوری تھی کہ اپنی زبانیں چھوڑ کر دراوڑی زبانیں اختیار کرے البتہ دراوڑوں نے رفتہ رفتہ آریائی بولیوں کو اختیار کرلیا ،دراوڑوں کی ایک بولی "براہوی" بلوچستان میں محفوظ رہ گئی۔
موضوع 5:زبان اور بولی میں فرق
زبان:
زبان خیالات و احساسات کا ذریعہ اظہار ہے۔جذبات و احساسات کی شکل زبان ہے اس کا کام لفظوں اور فقروں کے توسط سے ان کے ذہنی مفہوم و دلائل اور ان کے عام خیالات کی ترجمانی کرنا ہے۔زبان بولیوں کے مجموعے کا نام ہے۔
بولی :
بولی کسی زبان کی وہ ذیلی شاخ ہے جس کے بولنے والوں کو زبان کے کسی اختلاف کا احساس نہیں ہوتا البتہ کسی زبان کی ایک بولی بولنے والوں کو اسی زبان کی دوسری بولی کے تلفظ کے فرق کا احساس ہوتا ہے۔ہر زبان کا ہر بولی کا مخصوص انداز ہوتا ہے زبان چشمے کی حیثیت رکھتی ہے اور بولی اس سے پھوٹنے والی نہریں۔بولی ایک ایسی زبان ہے جو کسی علاقے میں رائج ہوتی ہے اس کی کوئی ادبی حیثیت نہیں ہوتی۔ زبان جس قدر وسیع ہو گی اس کی بولیاں بھی اسی قدر وسیع ہو گی۔ بولی عام فہم زبان ہے جو ہم مقامی لوگوں سے سیکھتے ہیں ایک بولی بولنے والے عام طور پر ایک زبان استعمال کرتے ہیں ہر علاقے کی بولی کا مخصوص انداز ہوتا ہے۔
تلفظ کا اختلاف:
بولی قواعد و ضوابط سے آزاد ہوتی ہے بولیوں میں لفظ کی ادائیگی میں اختلاف پایا جاتا ہے مختلف علاقوں میں مختلف بولیاں بولی جاتی ہیں۔بعض بولیاں ترقی کرکے زبان کا منصب حاصل کر لیتی ہے اور بعض جگہوں پر صرف بولی بن کر رہ جاتی ہے۔ ہمارے ملک میں قبائلی علاقے ہیں جو غیر متمدن ہیں وہاں نقل مکانی کے مواقع کم ہوتے ہیں ان کے تلفظ میں اختلاف پایا جاتا ہے۔
زبان کا نظام:
ہر زبان اپنا نظام رکھتی ہے۔ یہ مختلف عناصر پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس کے قواعد و ضوابط ہوتے ہیں مثلا صرف و نحو اس میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ ماہرین لسانیات کا کہنا ہے زبان استعمال کرنے والا اگر اس نظام سے واقف نہیں جس سے زبان کی تشکیل ہوئی تو وہ صحیح طور پر زبان استعمال نہیں کر سکتا مثلا انگریزی زبان کے ماہر دواشخاص آپس میں گفتگو کرتے ہیں تو وہ ایک دوسرے کی بات اس لئے سمجھ سکتے ہیں کیونکہ وہ انگریزی زبان کے نظام سے واقف ہیں۔ اسی لئے جس قدر کسی زبان کے قواعد و ضوابط اس کے نظام سے واقف ہوں گے اسی قدر زبان کا استعمال سہولت سے ہوگا۔ اس کے ساتھ آوازوں کے نظام کو سمجھ کر معنی و مفہوم کا ادراک زیادہ بہتر طور سے کر سکتے ہیں۔ بعض ماہرین کے مطابق غیر مادری زبان سیکھنے کے لئے زبان کے نظام سے واقفیت ضروری ہے لیکن مادری زبان سیکھنے کے لئے نہیں۔
زبان ایک سماجی عمل:
انسان اور معاشرہ لازم و ملزوم ہیں۔کسی معاشرے میں رہنے والے افراد جو مقامی بولی بولتے ہیں اس کے اثرات زبان میں آجاتے ہیں۔ بولی سے مراد زبان کا اپنی اصل شکل سے تبدیلی لانا ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں اسی لیے انسان کو سماجی حیوان کہتے ہیں کیونکہ وہ دوسروں کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ زبان بھی ایک سماجی عمل ہے اگر زبان اپنے مرکز سے دور ہو تو وہ اپنے ارتقائی مراحل طے کرتی ہے۔ مرکزی معیار سے رشتہ ٹوٹ جانے کی وجہ سے زبان کا علاقائی رخ سامنے آتا ہے وہ مقامی زبان کہلائے گی۔ ایک زبان ایک سے زیادہ لسانی ماحول میں بولی جارہی ہو تو قدرتی طور پر دوسری زبان کے اثرات مرتب ہوں گے اور یہ لسانی تغیرات زبان کی جس شکل کو پیش کریں گے۔وہ لسانی زبان کہلاتی ہے۔
زبان میں طبقاتی فرق کے اثرات :
ادب اور لسانیات کے ماہرین بخوبی جانتے ہیں کہ مختلف معروضی حالات اور ادوار میں ہر زبان میں دو طرح کا ادب تخلیق پاتا ہے ایک خو اس کے لئے اور دوسرا ادب عوام کے لئے اس تصادم کا زبان اور بولی پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے اس سکوت،جمود اور غاصبیت کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
پیشہ ورانہ بولیاں :
زبان کی ایک قسم اس کے بولنے والوں کے پیشوں سے تعلق رکھتی ہے۔جیسے تجارت پیشہ لوگوں کی زبان مختلف ہوگی، وکالت کا پیشہ اختیار کرنے والے افراد کی زبان اور ہوگی ،سکول کالج اور یونیورسٹی کے اساتذہ کی بولی ان کا لب و لہجہ الفاظ کی ادائیگی میں فرق ہوگا۔ زبان میں اس طرح کے واضح فرق سامنے آتے ہیں اسے پیشہ ورانہ زبان کہتے ہیں۔ہر زبان بولنے والا مرضی کے مطابق قواعد اور لغت استعمال کرتا ہے جو لاشعوری طور پر ہوتا ہے۔ بعض اوقات محاورات کا استعمال تشبیہات وغیرہ کا استعمال اس کے بولنیوالے کی ذہنی تربیت اور شخصیت کا مظہر خیال کیا جاتا ہے۔ اس طرح کی بولی کو فرد کی بولی کہا جاتا ہے۔بولی زبان کی فطری شکل ہے جو علاقائی، لسانی، سماجی، شخصی اور پیشے کے اثرات کا نتیجہ ہوتی ہے۔کسی زبان کی بولیاں جن تبدیلیوں کی وجہ سے وجود میں آتی ہیں ان کے سلسلوں کو مختلف سطحوں پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔بولیاں مختلف سماجی اور جغرافیائی حدود میں لسانی خطوط بناتی ہیں۔بولیوںکاتصور ہر زبان میں ناگزیر ہے۔
انشاء اللہ خاں انشا نے دریائے لطافت میں سب سے پہلے بولیوں کی پہچان اور نشاندہی کی۔ اس کے بعدمولوی عبدالحق نے بھی چند مضامین لکھے تھے۔ ان میں ایک مضمون اردو کی زبان اہم ہے اور ان کی تحریروں میں ان کا دھیان دکنی اردو پرگیا۔ محی الدین قادری اپنی کتاب"ہندوستانی لسانیات"میں دل کھول کر لکھتے ہیں عبدالقادر سروری نے دکنی بولی کے موضوع پر دل کھول کر لکھا۔اسی سلسلے میں عبدالغفار شکیل کی کتاب" دکنی اردو کی ابتدا اور ارتقا"، " زبان اور مسائل زبان" فہمیدہ بیگم نے " لسانی تحقیق" گوپی چند نارنگ نے ‘‘Language & Linguistics’’میں بولی کے صوتی، حرفی اور لفظی پہلووں کا جائزہ لیا۔"اردو کی بولیاں" اور" عمرانی لسانیات" میں اردو کے مختلف پہلوؤں پر عمرانی لسانیاتی نقطہ نظر سے روشنی ڈالی گئی ہے۔اس کے علاوہ سماجی لسانی اور علاقائی بولیوں کا ذکر بھی ملتا ہے۔جہاں جغرافیائی حالات بھی بولیوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔اردو کی ساخت پر ان زبانوں کے لسانی اثرات مرتب ہوئے۔جس کے نتیجے میں اردو کی بہت سی لسانی بولیاں سامنے آئیں۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...