Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > مباحث > لسانیات کے انسانی زندگی پر اثرات

مباحث |
حسنِ ادب
مباحث

لسانیات کے انسانی زندگی پر اثرات
ARI Id

1689956600868_56117428

Access

Open/Free Access

Pages

۶۹

موضوع2:لسانیات کے انسانی زندگی پر اثرات
لسانیات کا انسانی زندگی پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ زبان اور ادب کے ساتھ اس کا گہرا تعلق ہے۔لسانیات کی مدد سے ہم قدیم سے قدیم اور جدید سے جدید ادب کی تشکیل اور تفہیم میں آسانی ہوتی ہے۔لسانیات کی مدد سے کس بھی زبان کے قواعد اور تراکیب کو باآسانی سمجھا جا سکتا ہے۔یہ کام ماہر لسانیات ہی کر سکتے ہیں۔لسانیات تاریخ کے ان گوشوں کو بھی بے نقاب کرتی ہیجو وقت کی دھند میں کہیں گم ہو چکے ہوتے ہیں۔ماہر لسانیات کا صرف اپنی زبان میں ماہر ہونا ضروری نہیں ہے۔بلکہ دوسری زبانوں کا ماہر ہونا ضروری ہے۔اگر اردو کا ماہر ہے تو فارسی اور عربی زبان کا ماہر ہونا بھی ضروری ہے۔نہ صرف آگہی بلکہ جانچ پڑتال ضروری ہے۔جو الفاظ متروک ہو چکے ہیںوہ کیوں متروک ہیں۔میرکا دیوان ولی کا کلام دیکھیں نہ وہ الفاظ استعمال ہیں جو اب متروک ہو چکے ہیں۔ لسانیات کے علم سے شاعر کے اسلوب سے بھی آگاہی ہوتی ہے اور اس دور کے متعلق معلومات ملتی ہیں۔
لسانیات میں مختلف زبانوں کے انسانی معاشروں کے درمیان پائے جانے والے تعلق اور رشتوں کی بازیافت کا کام بھی ہوتا ہے۔لسانیات کا کام سماجیات اور اس کے کئی پہلووں کو جانچنا اورپرکھنا اور اسے اجاگر کرنا ہوتا ہے۔ لسانیات تعصبات،قومیت اور وطنیت سے قطع نظر خطوں، ملکوں اور شہروں میں بنے ہوئے لوگوں کو لسانی خصوصیات کے مطابق نزدیک لانے کے اسباب پیدا کرتی ہے۔
زبان کے مختلف نام:
اب لسانیات کے مختلف نام مروج ہیں۔اس سے پہلے کیا تھا؟فرانس میں کارڈینل ریستلو نے 1635ء میں Richelienفروغ اکیڈمی قائم کی اس کا مقصد یہ تھا کہ یہ فرنچ زبان کی تمام جزئیات کو ضابطے اور سلیقے کے سانچے میں ڈھالے۔فرانس میں سترھویں صدی عیسوی میں بالائی متوسط طبقے کے چند افراد نے اپنی زبان کے ماہرین کی خدمات حاصل کیں۔ان کا مقصد یہ تھا کہ زبان کی تمام جزئیات کو پیش کرنا۔
ڈیوس:
ڈیوس نے 1716ء میں علم زبان کو گلاسولوجی Glossology کا نام دیا۔قدیم زمانے میں لسانیات کو قواعد کے مماثل سمجھا جاتا تھا۔ اس لیے اس کو کوئی الگ نام نہیں دیا جاتا تھا۔ مگر جب ہند یورپی زبانوں کا آپس میں تقابلی موازنہ اور تجزیہ کیا گیا تو اس موضوع پر لکھی گئی کتابوں کا نام " تقابلی قواعد" رکھا گیا۔مگر جب یہ معلوم ہوا کہ علم زبان صرف قواعد یا صرف و نحو تک محدود نہیں بلکہ اس میں مختلف آوازیں ،صوتیات اور معنویات کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے تو انیسویں صدی میں اس کا نام تقابلی فیلالوجی رکھا گیا۔
فیلالوجی:
فائلو معنی محبت اور لوجی معنی علم۔یوںفیلالوجی کا مطلب زبان کی محبت۔فیلالوجی یونانی زبان کا لفظ ہے جس کامطلب وہ علم ہے جس میں زبان کے حوالے سے کام کیا جائے۔اس کے بعد بعض لوگوں نے اعتراض کیا کہ تقابل کیا جائے تو تقابل تو سائنس میں بھی ہوتاہے۔اس لیے یہ لفظ مناسب نہیں صرف فیلالوجی رکھا جائے۔اس طرح انیسویں صدی میں فرانس میں علم زبان کا نام Linguisticsرائج ہو گیا۔لینگو لاطینی زبان کا لفظ ہے۔ Linguistics زبان کے علم کو کہا جاتا ہے۔انگریزی میں انیسویں صدی کے دوران علم زبان کے لیے Linguist کا لفظ استعمال ہونے لگا۔جو چند سالوں کے بعد Linguist کے نام سے مقبول ہوا۔اب لسانیات کے لیے Linguistics کا لفظ رائج ہو چکا ہے۔ اردو میں اس کو علم زبان یا لسانیات کہتے ہیں۔
لسانیات کی ابتدا:
زبان کے بارے میں مختلف ادوار میں مختلف آراء کا اظہار کیا گیا ہے۔بعض نے اسے عطیہ خداوندی کہا ہے۔بعض نے اسے مافوق الفطرت عناصر سے منسوب کیا ہے۔بعض نے دیوتاؤں کی دین سمجھا۔البتہ یہ ایک دلچسپی کا مسئلہ ہے کہ اس کی ابتدا کہاں سے ہوئی؟رگ،رگ،وید،وید ،ہندوؤ ں کی چار مذہبی کتابیں ہیں۔ان کتابوں میں سے رگ وید سب سے پہلی کتاب ہے۔یہ کتاب مناجات پر مشتمل ہے۔ زبان کے حوالے سے عین الحق فرید کوٹی لکھتے ہیں۔
"کہیں اس سے سرسوتی اور ثوث کو اس کا خالق قراردیا۔لیکن جب ہم دنیا کی قدیم ترین کتاب "رگ وید" میں واک بمعنی لفظ کے عنوانسے دیئے ہوئے ایک نغمہ حمد کا مطالعہ کرتے ہیں تو اسے موجودہ لسانیات کے نظریوں سے کافی حد تک مماثلت پا کر حیران رہ جاتے ہیں۔"
اس نغمے میں ایک دیوی ہے جس نے اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے۔اس کے منہ سے جو کلمات نکلے وہ پاکیزہ الفاظ تھے جسے عرصہ دراز سے انسان دل کی گہرائیوں میں چھپائے ہوا تھا۔پیار میں اس نے الفاظ کی چھان پھٹک کی اور نامناسب الفاظ نکال دیئے۔اچھے الفاظ رہنے دیئے۔الفاظ کی تلاش میں دور دراو علاقوں کا سفر طے کیا اور محنت کی۔مقامی لوگوں سے رابطے کیے اور خوبصورت آوازوں میں ان الفاظ کو گیتوں کی صورت میں ڈھالا گیا۔
عین الحق فرید کوٹی نے منظر کشی کی ہے:
"ایک آدمی تو بیٹھا ہوا شعر وں کے حسین پھول بکھیر رہا ہے۔دوسراہے کہ میٹھی دھنوں میں ایک نغمہ آلاپ رہاہے۔تیسرا بطور ایک برہمن کے اس عالم میں موجودات کے قانون بیان کر رہا ہے اورچوتھا مقدس قربانی کے حصوں کے لیے پیمانے مقرر کر رہا ہے۔"
سرسوتی دیوی کو زبان اور علم و ہنر کی دیوی کہا جاتا ہے۔لسانیات کی قدیم ترین تاریخ کے حوالیسے عین الحق فرید کوٹی کی کتاب "اردو زبان کی قدیم تاریخ" ہے۔
عہد نامہ عتیق میں زبان کی ابتدا سے متعلق لکھا ہے:
"اورخداوند فدا نے کل دشتی جانور اور ہوا کے کل پرندے مٹی سے بنائے ہیں اور ان کو آدم کے پاس لایا کہ دیکھیے وہ ان کے کیا نام رکھتا ہے۔اور آدم نے جس جانور کو جو کہا وہی اس کا نام ٹھہرا"
مشہور یونانی فلسفی اور مفکر افلاطون زبان کے مافوق الفطرت ماخذکا حامی نظر آتا ہے۔اگر چہ وہ اس معاملہ میں زیادہ ماہر نہیں اور تذبذب کا شکار ہے۔
اردو زبان اور اس کے لسانیاتی پہلوؤ ںسے دلچسپی:
اردو زبان اور اس کے لسانیاتی پہلوؤں سے سب سے پہلے دلچسپی انگریزوں کو ہوئی۔ پرتگالی،فرانسیسی، جرمن،اطالوی اور انگریز علما ء شامل تھے۔ انہوں نے نہایت شوق کے ساتھ اردو کے قواعد مرتب کیے۔لغات ترتیب دیئے اور اصول زبان سے متعلق کتابچے لکھے۔اس ضمن میں گلکرسٹ، شیکسپیئر، گارساں دتاسی، جان ڈوسن ، جان ٹی پلیٹیس، ایس ڈبلیو فلن کی خدمات قابل ذکر ہیں۔اردو لغت کی بات کرتے ہیں تو اس میں ہندوستان نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ اور بہت سی کتابیں لکھی ہیں۔ جو بہت زیادہ مقبول بھی ہوئیں ہیں۔
اردو زبان کی سب سے پہلی گرائمر ایک ڈچ شاعر نے تحریر کی جس کا نام کیٹلر تھا۔اور یہ ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی کا ڈائریکٹر تھا۔یہ ہندوستان میں ڈچ سفیر کی حیثیت سے آیا تھا۔ "صرف و نحو" کتاب 1701ء میں لکھی گئی۔اردو زبان کی پہلی لغت پر بات کرتے ہوئے S.K Husainلکھتے ہیں:
"جارج ہیڈلے نے اردو صرف ونحو پر ایک کتاب 1873ء میں تالیف کی۔جس میں ہندوستانی لغت بھی شامل ہے۔یہ انگریزی لغت نویسی کا پہلا خاکہ ہے۔یہ کتاب کافی مقبول ہوئی۔اس کے بعد جے فرگوسن نے ایک لغت ترتیب دی جس میں سے صرف و نحو کے لیے ایک حصہ مختص کیا۔"
فرگوسن کے بارے میں مولوی عبدالحق کا خیال ہے کہ:
"ڈاکٹر گلرائسٹ سے اول بھی ایک شخص(فرگوسن) نے اردو کی ایک لغت لکھی جو لندن میں 1773ء میں طبع ہوئی مگر بالکل ناکافی تھی۔جنرل ولیم کرک پیاٹرک نے ایک ڈکشنری لکھنے کا ارداہ کیا جس کے انھوں نے تین حصے کیے۔مگر اس کا ایک ہی حصہ طبع ہونے پایا۔اس حصے میں انہوں نے وہ الفاظ لیے جو عربی،فارسی اور ہندی میں آ گئے ہیں۔یہ ایک حصہ لندن میں 1985ء میں طبع ہوا۔"
انگریز ماہر لسانیات کی خدمات کا یہ نتیجہ نکلا کہ اردو زبان میں قواعد اور لغت کے حوالے سے اتنا وسیع ذخیرہ نکلا کہ غیر ملکیوں کے لیے اردو زبان سیکھنا کوئی مسئلہ نا رہا۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...