Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > مباحث > زبان کیا ہے، زبان کے معنی و مفہوم، تاریخ و اہمیت

مباحث |
حسنِ ادب
مباحث

زبان کیا ہے، زبان کے معنی و مفہوم، تاریخ و اہمیت
ARI Id

1689956600868_56117429

Access

Open/Free Access

Pages

۷۳

موضوع3:زبان کیا ہے؟ زبان کے معنی ومفہوم، تاریخ و اہمیت
انسان اور انسانی خیالات میں اگر اس کا مطالعہ کیا جائے تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ انسان بچپن سے لے کر لڑکپن جوانی بڑھاپے اور اور اپنی عمر کے آخری لمحے تک زبان کا استعمال کسی نہ کسی صورت کرتا ہے۔ مثلا۔جب بچے کو کھانے پینے کی حاجت ہوتی ہے تو وہ بچہ جو بول کر اپنا مدعا بیان نہیں کرسکتاجیسے کہ بڑے کرسکتے ہیں مگر اس کے باوجود و ہ ہاتھوں کے اشاروں سے یا ٹانگوں کے اشاروں کی مدد سے مختلف حرکات سے مدد لیتا ہے۔
بچہ اشاروں اور حرکات کے ذریعے سے دوسروں کو متوجہ کرتا ہے۔ما ںاس کے اشاروں کو سمجھتی ہے۔ماں تھپکی یا لوری دے کر سلا دیتی ہے۔بڑا ہونے کے بعد وہ چیزوں کو مختلف نام دینا شروع کردیتا ہے اور پھر وہ وہی نام قبول کر لیتا ہے جو معاشرے میں رائج ہوتا ہے۔وہ معاشرے میں اپنے آس پاس کی زبان سن لیتا ہے۔اگروہ عام لوگوں سے متعلقہ ہے تو اس کی زبان بھی عام لوگوں جیسی ہوگی اگر خاص ہوتو اس کا اثر زبان پر پڑے گا۔زبان انسان کی ذہنی و جسمانی نشوونما اور فکری ارتقاء اورجسمانی بالیدگی کے ساتھ ابتدائی مراحل طے کرتی ہے۔
بچہ وہی زبان سیکھتا ہے جو اس کے اردگرد بولی جاتی ہے۔ معاشرے کا ہرفرد زبان کو اپنے دائرے اور وسعت عملی کے مطابق استعمال کرتا ہے۔اگر اس کاواسطہ عام لوگوں سے ہے تو اس کی زبان الفاظ بھی ویسے ہی ہوں گے۔اگر وہ کسی مخصوص شعبے سے تعلق رکھتا ہے تو اس کی زبان بھی ویسی ہی ہوگی۔یہ آس پاس کے ماحول پرمنحصر ہوتاہے۔
ادب اور سائنس کے لوگ ہیں ان کی زبان میں فرق ہوگا۔ادبیات سے تعلق رکھنے والے شخص کی زبان مختلف ہوگی۔سائنس کے شعبے سے تعلق رکھنے والے شخص کی زبان مختلف ہوگی۔اسی طرح کوئی شخص اان پڑھ ہوگا تو وہ زبان کو پڑھے لکھے لوگوں سے مختلف اندازمیں استعمال کرے گا۔ اسی طرح زبان ہر شعبے کے لوگوں کی مختلف ہوگی۔ہر شخص اپنی اہلیت کے اظہار کے لیے زبان استعمال کرتا ہے زبان انسان اور حیوان میں فرق ہے۔ حصی زبان وہ زبان جو بڑے ادیب ماضی میں استعمال کرتے تھے۔زبان کا آغاز کب اور کہاں سے ہوا کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ زبان کے ذریعے سے اپنے نظریات اور خیالات کا اظہار کیا جا سکتا ہے۔
فصیح زبان:
فصیح زبان وہ ہے جو ماضی میں بڑے بڑے ادیب استعمال کرتے تھے۔ زبان کی تاریخ انسانی تاریخ کی طرح قدیم ہے۔زبان کا آغاز کب ہوا اور کہاں سے ہوا اس کے باریوثوق سے نہیں کہا جا سکتا۔البتہ زبان کازندگی اور معاشرے سے گہرا تعلق ہے تما م تر سائنسی اور معاشرتی ترقی کا دارومدار زبان پر ہے۔زبان ہی وہ ذریعہ ہے جس کی مدد سے ہم نا صرف اپنے خیالات کا اظہار کرسکتے ہیں۔ بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ہم سوچتے ، سمجھتے اورغوروفکر کرتے ہیں اور اپنے خیالات و نظریات تحریری زبان کی صورت میں محفوط کرلیتے ہیں۔
زبان کے لغوی معنی:
لغت نگاروں اور ماہرین لسانیات نے مختلف تعریفیں پیش کیں ہیں:
" زبان 32 دانتوں کے درمیان گوشت کا لوتھڑا فارسی میں زبان، عربی میں لسان، انگریزی میں Tongue اور اردو میں جیب کہتے ہیں۔"
نور اللغات:
"لسان، زبان، جیب،بول چال اور روزمرہ زبان وہ بولی ہے جس کے ذریعے جذبات کااظہار کیا جا سکے۔"
زبان کے اصطلاحی معنی:
" وہ صلاحیت جس کی مدد سے انسان ذاتی اور اجتماعی معاملات کے لیے ماحول اور معاشرتی حالات کے تقاضوں کے مطابق لکھ کر یا بول کر اظہار کر سکے۔"
فیروز اللغات:
• جیب، لسان
• بول چال، محاورہ، بولی، بات ،گفتگو
• قول، اقرار، وعدہ
• بیان
ڈاکٹر محی الدین قادری زور:
"زبان خیالات کا مجموعہ ہے اس کا کام یہ ہے کہ لفظوں اور فقروں کے توسط سے انسانوں کے ذہنی مفہوم اور دلائلاور ان کے عام خیالات کی ترجمانی کرے۔اس ترجمانی میں حرکات جسمانی بھی شامل ہیں جو کسی مفہوم کے سمجھانے کے لیے خاص خاص زبان بولنے والوں کے درمیان مشترک ہوتی ہیں۔"
پس زبان کی واضع تعریف ان الفاظ میں کی جاتی ہے:"زبان، انسانی خیالات اور احساسات کی پیدا کی گئی ہے اور ان تمام اشاروں اور حرکتوں کا نام ہے۔
اظہار کی دو صورتیں ہیں:تقریری اور تحریری۔قوت گویائی دراصل ہماری زبان کی حقیقی شکل ہے۔
برجموہن:
" زبان تخیل اور خیال کے ظاہر کرنے یا اپنا مطلب ادا کرنے کا ذریعہ ہے۔ہمارا مقصد ناقطہ کے ذریعے اظہار خیال سے ہے جس کا تعلق آواز سے ہے۔
ڈاکٹر اقتدار حسین:
ڈاکٹر اقتدار حسین اپنی کتاب لسانیات کے بنیادی اصول میں لکھتے ہیں کہ:
" لسانیات کی رو سے زبان ایک ایسی خود اختیاری اور روایتی صوتی علامتوں کے نظام کہتے ہیں جو کہ انسان اپنے سماج میں اظہار خیال کے لیے استعمال کرتا ہے"
زبان دراصل آوازوں کا مجموعہ ہے۔بول چال اس کاپہلا روپ جبکہ تحریر اس کا ثانوی روپ ہے۔ زبان ایک تغیر پذیر شے ہے جو اپنا الگ نظام رکھتی ہے۔جن زبانوں کو بولنے والے زیادہ ہیں وہ زندہ زبانیں ہیں اور جن کو بولنے والے کم وہ گئے ہیں وہ مردہ زبانیں کہلاتی ہیں۔
زبا ن کے دو پہلو ہیں۔
• اشارتی پہلو(ہمہ گیر پہلو اختیار نہیں کرسکا)
• صوتی پہلو
اشارتی پہلو زیادہ دیرپا ثابت نا ہوسکا اس کا وجود مٹ جانا تھاجبکہ تحریری چیز صدیوں چلتی ہیں۔
ڈارون کا نظریہ:
اشارتی زبان کے لیے ہاتھوں کا ہونا ضروری ہے نیزاس کے لیے روشنی کا ہونا بھی ضروری ہے۔جبکہ معذور لوگ ہاتھوں کے بغیر بھی زبان کا اظہار کرتے ہیں۔زبان کا صوتی پہلو زندہ جاوید ہے۔
جان ڈیوی :
جان ڈیوی نے زبان کے صوتی پہلو کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ:
"زبان کے وجود کا دارومدار کسی بولنے والے پر ہی نہیں بلکہ سننے والے پر بھی منھصر ہے۔"
گلیسن کے مطابق:
زبان کے تین عناصرہیں:
• اظہار کی ساختStructure of Expression
• مواد کی ساخت Structure of Content
• ذخیرہ الفاظ Vocabulary
کچھ الفاظ ایک ہزار سال میں ÷20 بدلے جا سکتے ہیں۔
قدیم ترین زبان:
سامی یا سمیری زبان کو دنیا کی قدیم ترین زبان مانا جاتا ہے۔ یہ نوح? کے عہد کی زبان ہے۔اس کا تذکرہ عہد نامہ عتیق میں ملتا ہے۔بابل میں مینار کی تعمیر پر زبان کا اختلاف پیدا ہوا۔یہ لوگ جدا ہو کر الگ ہو کر رہنے لگیجس سے ان کی زبانیں ایک دوسرے سے مختلف ہو گئیں اور تلفظ کا اختلاف بھی پیدا ہوا۔یوں ان کا اصل زبان سے کوئی تعلق نا رہا۔
"سام" نوح کے بیٹے تھے۔اور سامی زبان کا آغاز آپ سے ہوا۔سام کے 3 بیٹے تھے۔ان کے ناموں پر زبانیں بنیں۔
• آرام(آپ کی نسل حجاز سے یمن تک آباد ہوئے اور آپ کی زبان آرامی کہلائی)
• عابر (عبرانی/عبری زبان )
• عاشور(شام /سوریہ میں آباد ہوئے)اس کو سریانی زبان بھی کہتے ہیں۔
قدیم بابل میں سمیری زبان بولی جاتی تھی۔یہ زبانیں تاریخی تغیرات کے باوجود ایک دوسرے پر اثر انداز ہوئیں۔اورتقریبا2000 قبل مسیح تک بولی جاتی رہیں۔
اگرچہ اب یہ زبانیں ختم ہو چکی ہیں اور ان کے بولنے والے معدوم ہو چکے ہیں۔البتہ تورات سریانی زبان میں محفوظ ہے اور عہدحاضر میں اسرائیل میں عبرانی زبان کو زندہ کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔
حضرت نوح ؑ کے تین بیٹے تھے۔
سام
آریائی زبانوں کا آغازسام کی نسل سے ہوا۔ یورپی اقوام کا تعلق سام کی نسل سے ہے۔ان کو سفید فام کہا جاتا ہے۔
عام
یہ افریقہ کے سیاہ فام حبشی اور قدیم ہندوستانی باشندے ہیں۔ ان کو سیاہ فام کہا جاتا ہے۔
یاس/ یافث
ان کا تعلق منگول نسل سے تھا۔ ان کو زرد فام کہا جاتا ہے۔
قدیم ترین زبانوں کا سراغ لگانے میں دقت پیش آتی ہے۔یعنی جو زبانیں معدوم ہو چکی ہیں ان کا صرف کھنڈرات میں ہی سراغ ملتا ہے۔آدم? کو پہلے عبرانی زبان اور پھرمعافی کے لیے عربی زبان سکھائی گئی۔ فرہنگ آصفیہ میں آدم کے معنی گندم اور رہنما کے ہیں نیز سریانی زبان میں اس کا معنی "مایوس" کے ہیں۔جبکہ حوا کے معنی جز کے ہیں ہیں عربی میں یہ مونث ہے سانولے یا سیاہ ہونٹوں والی کو کہتے ہیں۔
جان شیکسپیئر:
جان شیکسپئیر کہتے ہیں کہ وہ تمام زندوں کی ماں ہے
عہد نامہ عتیق:
عہد نامہ عتیق میں میں ابوالبشر ابو اللسان آدم علیہ السلام کو کہا جاتا ہے۔
فرہنگ آصفیہ:
فرنگ آصفیہ کے مطابق سریانی زبان آدم علیہ السلام کی تھی۔
حضرت شاہ عبدالطیف:
حضرت شاہ عبدالطیف کے مطابق حضرت آدم جب بہشت میں تھے تو عربی بولتے تھے۔ جب ان کو سزا کے طور پر زمین میں بھیجا گیا اور حضرت جبرائیل و میکائیل نے ان کے سر سے تاج اتار لیا تو عربی زبان کو ختم کردیا گیا تھا اور ان کے منہ پر سریانی زبان چڑھا دی گئی تھی۔اور جب ان کی توبہ قبول ہوئی تھی تو ان کو دوبارہ سے عربی زبان دے دی گئی تھی۔
مصنف تاریخ خامیس:
آدمؑ کو اللہ نے تمام زبانیں سکھائیں اور انہوں نے اپنے ہر بچے سے الگ زبان میں گفتگو کی اور وہ زبان یوں پھیلی۔غور و فکر کی صلاحیت اللہ نے انسان کو دی ہے اور اظہار کے لیے مختلف طریقے استعمال کرتا ہے یا نشانی استعمال کرتا ہے۔
• زبان • نشان/نشانی
• کپڑے پر گرہ • ماضی میں ڈوپٹے کو گرہ لگاکر چیزیں یاد رکھا جاتا تھا۔
زبان کی ماہیت:
زبان اپنی ساخت اور ماہیت کے اعتبار سے مختلف علامات اورتشریحات پر مبنی ہے اس کے علاوہ زبان کے ارتقاء اورنشوونما میں تصویریں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ الفاظ اور حروف کی ایجاد سے پہلے انسان علامات، اشارات اور تصویروں کی مدد سے اپنا مدعا دوسروں کے آگے بیان کرتا تھا۔زبان اظہار کا ذریعہ ہے وقت گزرنے کے ساتھ جوں جوں انسان ترقی کرتا ہے زبان میں بھی مختلف اصطلاحات ،محاورے وغیرہ کا اضافہ ہوتا چلاجاتا ہے۔زبان ایسی نعمت ہے جو صرف انسان کو ودیعت کی گئی ہے۔چاہے انسان پڑھا لکھا ہو یا ان پڑھ ،روزمرہ زندگی کے معاملات زبان کی بدولت ہی ممکن ہے۔زبان دوسرے انسانوںسے تعلقات استوار کرتی ہے۔
گیان چند جین:
"زبان بامقصد من مانی قابل تجزیہ صوتی علامات کا وہ نظام ہے جس کے ذریعے سے ایک انسانی گروہ کے افراد اپنے خیالات کی ترسیل و ترجمانی باہمی کرتے ہیں۔"
زبان ایک مسلسل عمل ہے۔جو انسان اپنی پیدائش سے لے کر سیکھتا ہے اور سیکھتا ہی چلاجاتا ہے۔ معاشرے میں ہر فرد دوسرے سے زبان اور حروف کے ذریعہ سے تبادلہ کرتا ہے اسی سے زبان پنپتی ہے اور ترقی کرتی ہے زبان دراصل سماجی ورثہ ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ سماجی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں اور یہ سماج کے لوگوں کی وجہ سے ہوتی ہے زبان کسی سوچے سمجھے طریقے سے وجود میں نہین آئی تھی بلکہ یہ خودبخود معرض وجود میں آئی۔
محی الدین قادری زور:
" زبان کی تشکیل اور ارتقا براہ راست انسانی خیالات کی تشکیل پر منحصر ہے زبان کی تفہیم آوازوں کے علاوہ انسانی احساسات و خیالات پر مبنی ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ فہم انسانی کے نفسیاتی قوانین بھی ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہوتے ہیں"
الفاظ حروف کا مجموعہ ہوتے ہیں اور یہ حروف اکائیوں کی حیثیت رکھتے ہیں جب یہ اکائیاں مختلف الفاظ کی صورت میں وقوع پذیر ہوتی ہیں اور اجتماعی طور پر اشتراکی عمل سے گزرتی ہیں تو یہی بے معنی حروف مختلف زاویوں سے وقع پذیر ہو کر ایک جہاں معنی کی صورت اختیار کرلیتے ہیں۔
جیسا کہ( ق۔ا۔ل۔ب) الگ سے کوئی حیثیت نہیں رکھتا لیکن جب ہم اس کو اکٹھا کرلیتے ہیں توایک جہان معنی کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔الفاظ اور معنی باہم گہرا ربط رکھتے ہیں اور بعض اوقات ایسا ہوتا ہیکہ الفاظ وہی رہتے ہیں لیکن معنی اپنی حیثیت بدل لیتے ہیں۔معنی کی تبدیلی حالات و واقعات کے ساتھ ہوتی ہے۔ زبان کو شروع ہی سے ہر شعبہ حیات میں اہم مقام رہا ہے۔جب زبان کسی سانچے میں ڈھلتی ہے تو تب ہی انسان اپنا مدعا بیان کرتا ہے۔دراصل یہ جتنی بھی ترقی ہے یہ ترقی زبان کی ترقی سے مشروط ہوتی ہے وہ معاشرہ جو ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا ہے وہ اپنی زبان کی تراش خراش پر توجہ دیتے ہیں۔ترقی کے مختلف مدارج یعنی سماجی ترقی،معاشی ترقی ،معاشرتی ترقی وغیرہ سب کے لیے زبان کی ترقی ضروری ہے۔اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی زبان زیادہ دیر تک چلے تو اس کے بولنے والے زیادہ ہوں۔اس طرح سے زبان ترقی کے مختلف مدارج طے کرتی ہے۔
اختر حسین رائے پوری:
" انسان کی سب سے بڑی ایجاد زبان ہے اور ادب اس کے تخلیقی اظہار سے عبارت ہے زبان کی ترقی معاشرے کی ترقی سے وابستہ ہے۔"
سائنس و ٹیکنالوجی ہی نہیں بلکہ شعر وادب کے میدان میں بھی زبان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ زبان اور ذخیرہ الفاظ شعرو ادب کی وجہ سے محفوظ ہیں۔اور جب تحریری شکل میں محفوظ ہوں تو زبان زیادہ دیر تک قائم رہ سکتی ہے اور ترقی کر سکتی ہے۔
مرزا خلیل احمد بیگ:
"زبان کی لسانیاتی سطح سے قطع نظر اس کی ایک سطح اور ہوتی ہے جو اس کی ادبی سطح کہلاتی ہے۔ ادبی سطح پر بھی زبان کی جڑیں سماج اور تہذیب کی ہر کروٹ زبان کے وسیلے سے ادب میں منعکس ہوتی ہیں۔گویا زبان وادب سماج اور تہذیب کی آئینہ دار ہوتی ہے۔"
زبان اگر فصیح ہو گی تو آپ کا معاشرہ بھی ترقی کرے گا۔ماہرین لسانیات کے مطابق انسان کی سب سے بڑی کامیابی اس کی زبان اور دوسری کامیابی اس کی تحریر ہے۔ سب سے پہلے انسان سنتا ہے ،سمجھتا ہے، اظہار کرتا ہے اور تحریر کرتا ہے۔زبان انہیں متاثر کرتی ہے۔چاہے کوئی ا ن پڑھ ہے کوئی مہذب ہوے وہ خیالات کے اظہار کے لیے زبان کا ہی سہارا لیتا ہے۔بہتر طریقے سے اپنے مقاصد کو بیان کر سکت اہے۔ زبان جتنی فصیح و بلیغ ہوگی آپ کا ادب بھی اتنا فصیح و بلیغ ہوگا۔
محمد ساجد خاکوانی :
"انسانی معاشرے میں ادب کی اہمیت نونہال کے لئے پانی کی مانند ہے۔ قبیلہ بنونوح انسان ان کے بہترین اذہان ادب تخلیق کرتے ہیں اور ادب کی ترویج اوراشاعت کی واحد بہترین بیساکھی زبان ہی ہے۔ حتیٰ کے بہترین ادب کی تخلیق کے لئے بعض اوقات تعلیم کی شرط ناکافی ہو جاتی ہے۔"
زبان میں جو بھی تبدیلی آتی ہے وہ انسانی زندگی پر بھی اثرا نداز ہوتی ہے۔زبان کی انفرادی کوئی حیثیت نہیں۔ ریاست کی وجہ سے ہی زبان پھلتی پھولتی اور پنپتی ہے۔ زبان انسانوں میں رابطے کا بہترین ذریعہ ہے۔ زبان انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔زبان کو انسان سے جد ا نہیں کیا جا سکتا۔زبان و علم کی ترقی زبان ہی کی بدولت ممکن ہے۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...