Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > مباحث > زبان اور بولی میں فرق

مباحث |
حسنِ ادب
مباحث

زبان اور بولی میں فرق
ARI Id

1689956600868_56117431

Access

Open/Free Access

Pages

۸۶

موضوع 5:زبان اور بولی میں فرق
زبان:
زبان خیالات و احساسات کا ذریعہ اظہار ہے۔جذبات و احساسات کی شکل زبان ہے اس کا کام لفظوں اور فقروں کے توسط سے ان کے ذہنی مفہوم و دلائل اور ان کے عام خیالات کی ترجمانی کرنا ہے۔زبان بولیوں کے مجموعے کا نام ہے۔
بولی :
بولی کسی زبان کی وہ ذیلی شاخ ہے جس کے بولنے والوں کو زبان کے کسی اختلاف کا احساس نہیں ہوتا البتہ کسی زبان کی ایک بولی بولنے والوں کو اسی زبان کی دوسری بولی کے تلفظ کے فرق کا احساس ہوتا ہے۔ہر زبان کا ہر بولی کا مخصوص انداز ہوتا ہے زبان چشمے کی حیثیت رکھتی ہے اور بولی اس سے پھوٹنے والی نہریں۔بولی ایک ایسی زبان ہے جو کسی علاقے میں رائج ہوتی ہے اس کی کوئی ادبی حیثیت نہیں ہوتی۔ زبان جس قدر وسیع ہو گی اس کی بولیاں بھی اسی قدر وسیع ہو گی۔ بولی عام فہم زبان ہے جو ہم مقامی لوگوں سے سیکھتے ہیں ایک بولی بولنے والے عام طور پر ایک زبان استعمال کرتے ہیں ہر علاقے کی بولی کا مخصوص انداز ہوتا ہے۔
تلفظ کا اختلاف:
بولی قواعد و ضوابط سے آزاد ہوتی ہے بولیوں میں لفظ کی ادائیگی میں اختلاف پایا جاتا ہے مختلف علاقوں میں مختلف بولیاں بولی جاتی ہیں۔بعض بولیاں ترقی کرکے زبان کا منصب حاصل کر لیتی ہے اور بعض جگہوں پر صرف بولی بن کر رہ جاتی ہے۔ ہمارے ملک میں قبائلی علاقے ہیں جو غیر متمدن ہیں وہاں نقل مکانی کے مواقع کم ہوتے ہیں ان کے تلفظ میں اختلاف پایا جاتا ہے۔
زبان کا نظام:
ہر زبان اپنا نظام رکھتی ہے۔ یہ مختلف عناصر پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس کے قواعد و ضوابط ہوتے ہیں مثلا صرف و نحو اس میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ ماہرین لسانیات کا کہنا ہے زبان استعمال کرنے والا اگر اس نظام سے واقف نہیں جس سے زبان کی تشکیل ہوئی تو وہ صحیح طور پر زبان استعمال نہیں کر سکتا مثلا انگریزی زبان کے ماہر دواشخاص آپس میں گفتگو کرتے ہیں تو وہ ایک دوسرے کی بات اس لئے سمجھ سکتے ہیں کیونکہ وہ انگریزی زبان کے نظام سے واقف ہیں۔ اسی لئے جس قدر کسی زبان کے قواعد و ضوابط اس کے نظام سے واقف ہوں گے اسی قدر زبان کا استعمال سہولت سے ہوگا۔ اس کے ساتھ آوازوں کے نظام کو سمجھ کر معنی و مفہوم کا ادراک زیادہ بہتر طور سے کر سکتے ہیں۔ بعض ماہرین کے مطابق غیر مادری زبان سیکھنے کے لئے زبان کے نظام سے واقفیت ضروری ہے لیکن مادری زبان سیکھنے کے لئے نہیں۔
زبان ایک سماجی عمل:
انسان اور معاشرہ لازم و ملزوم ہیں۔کسی معاشرے میں رہنے والے افراد جو مقامی بولی بولتے ہیں اس کے اثرات زبان میں آجاتے ہیں۔ بولی سے مراد زبان کا اپنی اصل شکل سے تبدیلی لانا ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں اسی لیے انسان کو سماجی حیوان کہتے ہیں کیونکہ وہ دوسروں کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ زبان بھی ایک سماجی عمل ہے اگر زبان اپنے مرکز سے دور ہو تو وہ اپنے ارتقائی مراحل طے کرتی ہے۔ مرکزی معیار سے رشتہ ٹوٹ جانے کی وجہ سے زبان کا علاقائی رخ سامنے آتا ہے وہ مقامی زبان کہلائے گی۔ ایک زبان ایک سے زیادہ لسانی ماحول میں بولی جارہی ہو تو قدرتی طور پر دوسری زبان کے اثرات مرتب ہوں گے اور یہ لسانی تغیرات زبان کی جس شکل کو پیش کریں گے۔وہ لسانی زبان کہلاتی ہے۔
زبان میں طبقاتی فرق کے اثرات :
ادب اور لسانیات کے ماہرین بخوبی جانتے ہیں کہ مختلف معروضی حالات اور ادوار میں ہر زبان میں دو طرح کا ادب تخلیق پاتا ہے ایک خو اس کے لئے اور دوسرا ادب عوام کے لئے اس تصادم کا زبان اور بولی پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے اس سکوت،جمود اور غاصبیت کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
پیشہ ورانہ بولیاں :
زبان کی ایک قسم اس کے بولنے والوں کے پیشوں سے تعلق رکھتی ہے۔جیسے تجارت پیشہ لوگوں کی زبان مختلف ہوگی، وکالت کا پیشہ اختیار کرنے والے افراد کی زبان اور ہوگی ،سکول کالج اور یونیورسٹی کے اساتذہ کی بولی ان کا لب و لہجہ الفاظ کی ادائیگی میں فرق ہوگا۔ زبان میں اس طرح کے واضح فرق سامنے آتے ہیں اسے پیشہ ورانہ زبان کہتے ہیں۔ہر زبان بولنے والا مرضی کے مطابق قواعد اور لغت استعمال کرتا ہے جو لاشعوری طور پر ہوتا ہے۔ بعض اوقات محاورات کا استعمال تشبیہات وغیرہ کا استعمال اس کے بولنیوالے کی ذہنی تربیت اور شخصیت کا مظہر خیال کیا جاتا ہے۔ اس طرح کی بولی کو فرد کی بولی کہا جاتا ہے۔بولی زبان کی فطری شکل ہے جو علاقائی، لسانی، سماجی، شخصی اور پیشے کے اثرات کا نتیجہ ہوتی ہے۔کسی زبان کی بولیاں جن تبدیلیوں کی وجہ سے وجود میں آتی ہیں ان کے سلسلوں کو مختلف سطحوں پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔بولیاں مختلف سماجی اور جغرافیائی حدود میں لسانی خطوط بناتی ہیں۔بولیوںکاتصور ہر زبان میں ناگزیر ہے۔
انشاء اللہ خاں انشا نے دریائے لطافت میں سب سے پہلے بولیوں کی پہچان اور نشاندہی کی۔ اس کے بعدمولوی عبدالحق نے بھی چند مضامین لکھے تھے۔ ان میں ایک مضمون اردو کی زبان اہم ہے اور ان کی تحریروں میں ان کا دھیان دکنی اردو پرگیا۔ محی الدین قادری اپنی کتاب"ہندوستانی لسانیات"میں دل کھول کر لکھتے ہیں عبدالقادر سروری نے دکنی بولی کے موضوع پر دل کھول کر لکھا۔اسی سلسلے میں عبدالغفار شکیل کی کتاب" دکنی اردو کی ابتدا اور ارتقا"، " زبان اور مسائل زبان" فہمیدہ بیگم نے " لسانی تحقیق" گوپی چند نارنگ نے ‘‘Language & Linguistics’’میں بولی کے صوتی، حرفی اور لفظی پہلووں کا جائزہ لیا۔"اردو کی بولیاں" اور" عمرانی لسانیات" میں اردو کے مختلف پہلوؤں پر عمرانی لسانیاتی نقطہ نظر سے روشنی ڈالی گئی ہے۔اس کے علاوہ سماجی لسانی اور علاقائی بولیوں کا ذکر بھی ملتا ہے۔جہاں جغرافیائی حالات بھی بولیوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔اردو کی ساخت پر ان زبانوں کے لسانی اثرات مرتب ہوئے۔جس کے نتیجے میں اردو کی بہت سی لسانی بولیاں سامنے آئیں۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...