Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > مباحث > زبان کی مختلف سطحیں(معنویات)

مباحث |
حسنِ ادب
مباحث

زبان کی مختلف سطحیں(معنویات)
ARI Id

1689956600868_56117432

Access

Open/Free Access

Pages

۸۹

موضوع6: زبان کی مختلف سطحیں(معنویات)
معنویات:
وہ علم ہے جو معنی اور اس کے متعلقات سے بحث کرتا ہے اور معنی وہ ذہنی شبیہ ہے جو ہر لفظ کی صوتی شبہ کے پیچھے چھپی ہوتی ہے۔چنانچہ لفظ اور معنی کا رشتہ اٹوٹ ہوتا ہے۔ لفظ سے معنی اور معنی سے لفظ جدا نہیں ہو سکتا۔ جس طرح الفاظ کی آوازوں کا مطالعہ صوتیات کہلاتا ہے اسی طرح معنی کا مطالعہ معنویات کہلاتا ہے اور یہ دونوں لسانیات کے اہم حصے ہیں۔ یعنی لفظ وہ اشارہ ہے جس کی طرف معنی اشارہ کرتا ہے اور زبان دونوں کے ربط کا دوسرا نام ہے۔ پروفیسر جوز شور کہتے ہیں :
‘‘انسانی معاشرے میں لفظ کی جو قدروقیمت ہے وہ صرف اس کے معنی کی بدولت ہے جو اس میں چھپا ہوتا ہے ناکہ ان مفرد آوازوں کی جن سے لفظ مرکب ہوتا ہے"
آوازوں کے بے مقصد مرکب کے لحاظ سے لفظ کو بھی لسانیات میں کوئی منزلت حاصل نہیں ہو سکتی۔جس سے یہ نتیجہ نکالا جاتا ہے کہ فطرت انسانی کے نقطہ نظر سے معنی کو لفظ پر ترجیح حاصل ہے۔ بعض اوقات لوگ زبان کی طرح معنی میں بھی تعریفیت کا سراغ لگاتے ہیں۔ڈاکٹر سہیل بخاری کہتے ہیں:
"اس غلط سوچ نے علم بیان کے محققوں کو بہت بھٹکایا ہے معنویات مطالعہ معنی ہے اور مطالعہ معنی گرامر کا مطالعہ ہے۔"
یہ خیال بھی پچھلے خیال کی طرح بے بنیاد ہیں معنویات مطالعہ معنی ضرور ہے لیکن گرامر کا معنی یا مطالعہ معنی سے کوئی تعلق نہیں رکھتا گرامر کلام کے ظاہر یا ہیت کا مطالعہ کرتی ہے اور اس کے اجزا اور ارکان کے درمیان باہمی روابط کو توجہ کا مرکز بناتی ہے اس طرح گرامر اور معنویات کا دائرہ ایک دوسرے سے الگ ہیں۔
لفظ اور معنی کا تعلق:
زندگی ایک با مقصد حقیقت ہے جس کی ہر حرکت اور ہر کیفیت کی کوئی نہ کوئی غا یت ہوتی ہے۔سانپ حملہ کرنے کے لیے پھن اٹھاتا ہے اور بگلا مچھلی پکڑنے کے لئے چپ سادھ لیتا ہے یہ تمام اشارے ہیں اور ان کا کوئی نہ کوئی مقصد ہے۔آنکھ مارنا شرارتوں سازش کا مظہر ہے ہاتھ پھیلانا ذلت کی علامت ہے۔یہ پوری کائنات جو ہمارے حواس کے سامنے پھیلی ہوئی ہے فکر کا ایک جہان آباد ہے اس میں ہر جز کو ایک انفرادی حیثیت حاصل ہے۔ انسانی فطرت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنے جہاں فکر کو دوسرے سے متعارف کرائے۔ انسان اس غرض کے لئے قوت گویائی استعمال کرتا ہے اور دوسروں کے مابین ایک ذریعہ مواصلات بناتا ہے گویائی کا مقصد معنی کی ترسیل ہے۔
معنی اس ذہنی شبیہ کو کہتے ہیں جو ہر لفظ کی صوتی شبی کے پیچھے چھپی ہوتی ہے۔ مثلاً دن سے مراد ہم دن کا وہ حصہ لیتے ہیں جو سورج کی شعاعوں سے روشن ہوتا ہے۔اور اس میں زندگی اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ رواں دواں ہوتی ہے۔انسانی ذہن ہرنئی صوتی شبیہ کو اپنی سابقہ معلومات کی مدد سے معنی عطا کرتا ہے۔
معنویا ت کا اہم ترین موضوع لفظ اور معنی ہیں جس کی نوعیت مادی نہیں ہوتی۔یعنی دونوں کے درمیان ہمارے حواس خمسہ کا عمل دخل بالکل نہیں ہے نہ دونوں کی شکلیں ملتی ہیں نہ آوازیں مثلا لفظ باگھ شیر کی تحریری شکل اس درندے کی تصویر سے نہیں ملتی ہے وہی اس جانور کی دھاڑ سے ملتی ہے۔اگر لفظ اور معنی میں کوئی مادی رشتہ ہو تو دنیا میں تمام زبانوں میں اس لفظ کے معنی ایک ہی ہوتے ہیں۔
وجہ تسمیہ :
لفظ اور معنی میں ذہنی رشتہ ثابت ہونے کے بعد یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کسی شخص کے لیے کوئی لفظ کس طرح وضع کیا گیا ہے یعنی تسمیہ کیوں کر عمل میں آیا اس طریقہ کار کو سمجھنے کے لئے لفظ "چال "جو رفتار کے لیے وضع ہوا ہے ایک مقام سے دوسرے مقام تک حرکت کرنے کے عمل کو اس لفظ سے ظاہر کیا گیا ہے اور پھر اس عمل کو دوسری اقسام کیفیات متعلقات اور پہلوؤں کے لیے بھی استعمال کیا گیا۔ جیسے چلنا ،چلاؤ، چالان، چلنے والا، چلا،چلن وغیرہ بہت سے الفاظ وضع کر لیے گئے۔ لیکن ان سب میں ایک چیز مشترک ہے وہ ہے چال۔کیونکہ چال رفتار کی مختلف صورتیں ہیں لیکن غور طلب وہ ابتدائی لفظ ہے جسے رفتار سے متعلق کیا گیا ہے۔رفتار کا مطلب عمل کرنا اور چال لفظ ہے دونوں کے درمیان مشابہت کا رشتہ نہیں ہے تو کوئی دوسرا لفظ جاگ، جام، توڑ وغیرہ مقرر کیے جا سکتے تھے۔ ابتدا میں واضح زبان نے اس عمل سے یہی لفظ وابستہ کردیا تو بس نہ کوئی منطقی وجہ بیان کی نہ دلیل دی۔ جب ایک بار یہ نام استعمال ہونے لگا تو سب نیاسے تسلیم کرلیا۔ یعنی نام دوہرائی تسمیہ کی غرض اشیائ￿ کی پہچان ہے اور ان کے مختلف نام رکھنے کا سبب ان کیباہمی اختلافات ہیں۔ انسان نے پہلے اشیائ￿ کی خصوصیات پر غور کیا ان کے خواص دیکھے ،ان کی بنا پر ان کے نام رکھے۔ گرائمر نے ان کو صفات کہا اور یہی ان کے لئے تسمیہ کی بنیاد بن گئیں۔
گرائمرکی رو سے بھی اسم اور صفت ایک ہی چیز ہیں یعنی ایک ہی لفظ دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے مثلا لفظ اجلا بطور صفت یعنی صاف استعمال : پلنگ پر اجلی چادر لگا دو و معنی بطور اسم اجلا بو لنے سے ذہن میں آ جائے تو یہی معنویات ہے۔
معنی کی اہمیت:
انسان اپنا ما فی الضمیر بیان کرتا ہے اس کے پیش نظر وہ لفظ نہیں خیال ہوتا ہے جو وہ بتانا چاہتا ہے اور سننے والا اس کی بات کو سمجھ جاتا ہے۔ اس کے معنی و مفہوم تک رسائی ہو جاتی ہے۔ لفظ کی اہمیت نہیں ہوتی۔ خیال اور پس منظر کی اہمیت ہوتی ہے کیونکہ معنی کے لیے لفظ استعمال کرتے ہیں لفظ کے لیے معنی پیدا نہیں کرتے۔ معنی ہمیں فطرت عطا کرتی ہیں لفظ کا جامہ اسے ہم خود پہناتے ہیں لفظ کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔
"معنی روح ہے اور لفظ بدن یا معنی جسم ہے اور لفظ لباس یا معنی مغز ہے اور لفظ پوست معنی کو لفظ پر فوقیت حاصل ہے لفظ اور معنی لازم و ملزوم ہیں"
اگر لفظ نہ ہو تو ہم دوسروں تک اپنا عندیہ اور منشا کیسے پہنچائیں گے۔بولتے وقت جب ہمیں موضوع لفظ یاد نہیں آتا یافوری طور پر دستیاب نہیں ہوتا تو ہم ایک دم کوئی دوسرا قریب المعنی لفظ بول جاتے ہیں۔ کبھی اردو بولتے بولتے یکایک عربی یا انگریزی یعنی غیر زبان کا لفظ بول جاتے ہیں۔لفظ کا انتخاب اس لحاظ سے کرتے ہیں جو اسے ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے۔بعض اوقات دوسری زبانوں کا سہارا لیتے ہیں۔ اس کے پیش نظر اہمیت معنی کی ہوتی ہے جس کے لئے وہ لفظ تلاش کرتے ہیں۔ معنی سے انسان کا تعلق جذباتی ہے۔ بعض اوقات معنی کے معاملے میں اس قدر حساس اور جانب دار بن جاتا ہے کہ اس کے ذکر سے ہی اس میں خوف نفرت وغیرہ پیدا ہوجاتی ہے۔ مردوں کے مقابلے میں عورتیں زیادہ جذباتی ہوتی ہیں۔ رات کے وقت سانپ کا لفظ استعمال کرنے کے بجائے رسی کے نام سے ذکر کرتی ہیں بعض اوقات غصے کی وجہ سے لوگوں کو گدھا بولنا ،الو کا لفظ استعمال کرنا اس کی حیثیت کو اس کے ساتھ منسوب کرتے ہیں۔
معنی کی تقسیم:
• حسی یا تاثراتی
• فکری یا تصوراتی
• موضوعاتی جامد نامیاتی
حسی یا تاثراتی تقسیم:
اس میں وہ تمام مادی اشیاء جو ہمارے حواس کو متاثر کرتی ہیں شامل ہیں جن کا علم ہم اپنے حواس خمسہ سے حاصل کرتے ہیں۔بناوٹ ،ذائقے وغیرہ عناصر فطرت ہوا ،پانی، آگ مظاہر قدرت سورج ،چاند، زمین ،آسمان وغیرہ رنگ بو ، خاص فرد احمد، عارف وغیرہ شامل ہیں۔
فکری یا تصوراتی تقسیم:
اس قسم میں ہمارے مجرد تصورات شامل ہیں جس کی بظاہر کوئی شکل نہیں ہوتی مثلا اداسی ،سچائی، گھبراہٹ ،خوشی، چاؤ، بھولا پن ،امید وغیرہ ان معنی کو ہم حواس سے نہیں جان سکتے بلکہ صرف سمجھ سکتے ہیں۔معنی کی دوسری بڑی قسم اسمی ہے اس کی تقسیم نام کے لحاظ تین ہیں:
واحدالاسم :
اس میں معنی کے لئے صرف ایک لفظ استعمال ہوتا ہے جیسے کاغذ
کثیر الاسم:
معنی کی نشاندہی کے لیے ایک سے زیادہ مترادف الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں ہیں جیسے اجلا، چمکیلا ،چٹا وغیرہ
شریک الاسم:
جس کا نام دوسرے معنی کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے قحط سے ہم موت کے معنی لے سکتے ہیں جوڑا لفظ سے ہم کپڑوں کا جوڑا لوگوں کا جوڑا جوتوں کا جوڑا سمجھ سکتے ہیں۔
موضوعاتی تقسیم:
جامدتقسیم: یہ معنی اپنے تصور میں محدود اور خاص ہوتے ہیں کراچی لاہور علی داود وغیرہ یعنی اگرکراچی کہتے ہیں تو آج بھی کل بھی اس کا معنی کراچی ہی ہوگا۔
نامیاتی تقسیم:
یہ معنی نہایت عام غیر محدود قابل تغیر ہوتے ہیں۔جیسے انسانوں کی بہت سی بستیوں کو شہر کہا جاتا ہے حالانکہ وہ ایک دوسرے سے چھوٹے بڑے ہوتے ہیں۔آب و ہوا کا فرق ہوتا ہے رقبے کے لحاظ سے فرق ہوتا ہے۔ اسی طرح ہر انسان اپنے کم عمر بیٹے کو لڑکا کہتا ہے۔ ان کی عمروں میں فرق ہوتا ہے، اسی طرح محاوروں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
کان مروڑنا سزا کے معنی میں
جتانا اپنی نزاکت تمہیں ہے گلشن میں
تم اس خطا پہ ذرا گل کے کان تو پکڑو
نفسیاتی تقسیم:
1۔حقیقی معنی
حقیقی معنی وہ ہیں جن کے لیے واضعین زبان نے کوئی ایک لفظ وضع کر دیا۔مثلا چا ند زمین کے گردگھومتا ہے، یہ چمکیلا کرہ انسانی جسم کا وہ حصہ جس سے کام لیا جائے وہ ہاتھ کہلاتا ہے۔
2۔مجازی معنی
مجازی معنی کسی وجہ سے ایک بار وضع ہونے والے لفظ جب کسی خصوصیت کے پیش نظر ان الفاظ چاند ہاتھ کو بالترتیب بیٹے اور قابو کرنے کے لیے استعمال کیا گیا تو یہ ان کے مجازی معنی قرار پائے۔ الو ایک پرندہ ہے جسے ہمارے یہاں منحوس سمجھا جاتا ہے لیکن مجازاً اس سے احمق آدمی بھی مراد لیتے ہیں حقیقی اور مجازی معنی میں تعلق ہوتا ہے جسے قرینہ کہتے ہیں۔
معنوی تبدیلی کی اقسام:
ایک ہی لفظ کوجب سب مختلف سیاق و سباق میں استعمال کرتے ہیں تو اس کے معنی میں کچھ تبدیلیاں آ جاتی ہیں۔ لفظ کے محض ایک آواز بدل جانے یا گھٹ بڑھ جانیسے معنی بدل جاتے ہیں۔مثلا اندھی نابینا عورت اور آندھی تیز ہوا ایک موقع وہ ہوتا ہے جب بولنے والا ارادے کے طور پر معنی بدل لیتا ہے۔ یہ صورت لہجے کی تبدیلی آواز کے اتار چڑھاؤ سے پیدا ہوتی ہے۔مثال کے طور پر لفظ اچھا اس کے چار معنی نکلیں گے۔
• آپ کا حکم ہے تو اچھا • اچھا تاکید کے معنی میں
• اچھا اس نے یہ کہا تھا سوالیہ انداز • اچھا یہ سازش طنز کے طور پر
لہجے میں تبدیلی کیفیت اور معنی بدل دیتی ہے ماحول کے بدل جانے سے بھی لفظ کے معنی بدل جاتے ہیں۔
معنیات کی تاریخ یا ارتقاء :
معنیات سے مراد معنی کا مطالعہ ہے معنی کے مطالعے سے عالموں کو بہت پرانے زمانے سے ہی دلچسپی رہی ہے۔ یہی فلسفیوں اور منطقیوں کو بطورِ خاص اس شغف رہا ہے۔اس کی وجہ سے بے شمار لغات اب تک مرتب ہو چکی ہیں۔لان جائنس کے مطابق:
‘‘معنیات کی اصطلاح انیسویں صدی کے اواخر میں یونانی فعل سے وضع کی گئی ہے جس کے معنی ہیں اِشارہ کرنا۔"
شیوزن اوہم کے مطابق:
"ریزنگ نے انیسویں صدی کی چوتھی دہائی میں معنیات کو لسانیات کی ایک جداگانہ شاخ کی حیثیت دی۔"
ہوکٹ اور گلین کی کتابیں امریکہ میں اہم درسی کتابیں سمجھی جاتی رہی ہیں۔ مگر ان میں معدنیات کا ذکر نہیں۔اس سے ہم یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ انہوں نے اس موضوع کو لسانیات میں شامل ہی نہیں کیا۔ آج بھی بہت سے ماہرین معنی کے مطالعے کی اہمیت کے قائل نہیں۔اسٹیفن کے مطابق اس منفی رویے کا سرا بلوم فیلڈ کی تعلیمات سے جا ملتا ہے۔چومسکی نے معنیات کواپنی قواعد کے تین عناصرمیں شامل کیا اس کے بعد سے معنیات کو باقاعدہ طور پر لسانیات کی ایک اہم شاخ تصور کیا جانے لگا۔
معنیات پر ماہر لسانیات کے علاوہ ماہربشریات نے بھی کام کیا ہے انہیں اپنے زیر تحقیق حق موضوعات پر جہاں مشکل پیش آئی ان کی بنا پر معنی کے بعض نظریات وجود میں آئے متعدد کتابیں لکھی گئیں ابھی اس کے باوجود لان جائنس کہتا ہے :
"اب تک کسی جامع اور اطمینان بخش نظریہ پیش کرنا شاید ممکن نہیں ہم کہہ سکتے ہیں زبان کا ہر لفظ معنی رکھتا ہے"
روایتی قواعد میں لفظ کو نحو اور معنیات کو بنیادی اکائی سمجھا جاتا ہے۔ لفظ ایک علامت ہے اور اس کے دو پہلو ہیں جنہیں بقول لان جائنس لفظ کی ہیت اور اس کے معنی کہنا چاہیے۔ یونان کے قدیم عہد میں فلسفیوں نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ الفاظ کا ان اشیاء سے کیا تعلق ہے جس کی طرف وہ اشارہ کرتے ہیں۔ان کے نزدیک معنی کا یہ رشتہ اشیائ￿ کو نام دینے کا تھا۔رفتہ رفتہ از منہ وسطی میں یہ فارمولا بن گیا کہ کسی زبان کے بولنے والوں کے ذہنوں میں کسی شے کے بارے میں جو تعقل تصور ہوتا ہے۔ اس بنا پر لفظ کی ہیت اس شے کی جانب اشارہ کرتی ہے اس نقطہ نظر کی رو سے گویا تعقل کو معنی قرار دیا گیا ہے۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...