Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > مباحث > زبان کی مختلف سطحیں(صوتیات، لفظیات، نحویات)

مباحث |
حسنِ ادب
مباحث

زبان کی مختلف سطحیں(صوتیات، لفظیات، نحویات)
ARI Id

1689956600868_56117433

Access

Open/Free Access

Pages

۹۵

موضوع 7:زبان کی مختلف سطحیں(صوتیات، لفظیات، نحویات)
صوتیات:
صوتیات لسانیات کی ایک شاخ ہے ،اس میں آوازوں کی ادائیگی کا مطالعہ کیا جاتا ہے؛ آوازیں کیسے پیدا ہوتی ہیں، آوازوں کی درجہ بندی کیسے کی جاتی ہے۔لسانیات کے اس شعبے میں انسانی اعضائے تکلم سے پیدا ہونے والی آوازوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔صوتیات تکلمی آوازوں یا اصوات کے سائنسی مطالعے کا نام ہے۔ اس میں اصوات کے اجزائ، ماہیت، نوعیت اور کیفیات سے بحث کی جاتی ہے۔ڈیوڈ کرسٹل کے بقول:
"اعضائے صوت کا مطالعہ جن کی مدد سے ہم تکلم یا کلام کی بنیادی آوازوں کو ادا کرتے ہیں۔آوازکی لہروں کا مطالعہ یعنی ہوا کا وہ عمل جس کے ذریعے سیایک شخص کے بولے ہوئے الفاظ دوسروں تک پہنچتے ہیں نیز وہ طریقہ جس سے انسان آوازوں کا ادراک کرتا ہے۔یہ تینوں چیزیں لسانیات کی اس اہم شاخ کے تین باہم مربوط پہلو ہیں جنہیں صوتیات کا نام دیا جاتا ہے۔"
• اعضائے صوت کا مطالعہ • آواز کی لہروں کا مطالعہ
• آوازوں کا ادراک • صوتیات کا آغاز
قدیم ہند کی روایت :
پہلی روایت یہ ہے کہ اس کا تعلق ویدک اورسنسکرت سے ہے۔ قدیم ہند میں سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے رہنے والے الفاظ،حمدیہ مصرعے ،اشلوک جس زبان میں تھے وہ زبان مروجہ نہیں رہی۔ مقدس منتروں کی ادائیگی کی اغلاط سے بچنے کے لئے انہوں نے گرائمر اور صوتیات کو فروغ دیا۔اگر ہم گرائمر کی بات کریں تو صوتیات کی پہلی گرامر سولہویں صدی میں بنائی گئی اس کا نام اشت ادھائے رکھا بعض لوگ اسے ویدک اور بعض سنسکرت زبان کی گرائمر کہتے ہیں۔
قدیم لاطینی اور یونانی روایت:
یہ روایت برائے نام ہے اس میں افلاطون نے باصدا اور بے صدا آوازوں میں تفریق توضرور کی ہیمگر زبان کا صوتیاتی تجزیہ نہیں کیاہے۔
مشرق وسطی کی عربی صوتیات کی روایت:
مشرق وسطی کی عربی صوتیات کی روایت جدید مغربی صوتیات کی روایت سے سینکڑوں سال قبل قائم ہو چکی تھی۔ لیکن اہل مغرب کو اس کا علم نہیں تھا۔چونکہ عربی کا تعلق سامی خاندان سے ہے اس لیے ہند یورپی لسانیات نے اس سے خاص استفادہ نہیں اٹھایا۔انیسویں صدی میں "گرم"(Grim)نے صوتیاتی تبادل کا تذکرہ نظریہ حروف کے طور پر کیا۔ مولوی عبدالحق کے قابل قدرکتاب اردو قواعد کا آغاز" ہجہ" کی بحث سے ہوتا ہے۔ ابھی تک ترقی پذیر اقوام کی کتابوں کا پہلا باب ہجہ یا حروف تہجی سے شروع کرتے ہیں۔
صوتیات کے مطالعہ کے زاویے:
صوتیات کا مطالعہ تین زاویوں سے کیا جاتا ہے۔
توضیحی /تکلمی صوتیات:Articulatory Phonetics
اس میں اجزائے صوت کے میکانی عمل ،اجزائے صوت، مخارج ادا اور طریقہ ادا کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔یعنی کون کون سے عضلات حرکت میں آتے ہیں جو ہمیں تکلم میں مدد دیتے ہیں جیسا کہ زبان اور جسمانی عضلات وغیرہ
کیفیاتی/طبیعاتی صوتیات: Acoustics Phonetics
اس میں صوتی لہروں ، اسں کی ترسیل، خصوصیات ،نوعیت اور کیفیات کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔اس میں آواز کی رفتار ، لینگتھ، پچ وغیرہ میں گفتگو کرتے ہیں۔اس کے علاوہ مختلف آلات استعمال کیے جاتے ہیں جن سے آوازوں کو ناپا جا سکتا ہے۔
سمعی صوتیاتAuditory Phonetics:
یعنی سننے کا عمل کیسے شروع ہوا۔آواز کان تک کیسے پہنچتی ہے، دماغ کیسے عمل کرتا ہے۔ ایک کے مقابلے میں دوسری آوازوں کو کیسے پہچانا جاتا ہے اس کو سمعی صوتیات میں موضوع بحث لایا جاتا ہے۔
لفظیاتMorphology:
لسانیات میں لفظ کی تعریف کچھ یوں کی جاتی ہے:
"یہ ایسی آزاد شکل اور لسانی روپ ہے جو پورے طور پر دو یا دو سے زیادہ آزاد مارفیموں میں تقسیم نا کیا جا سکے۔ عموما لفظ کو لکھتے وقت اس کے آس پاس خالی جگہ چھوڑ دی جاتی ہے یا بولتے وقت یہ کہا جاتا ہے کہ لفظ وہ جس سے پہلے اور بعد میں وقفہ ممکن ہے۔ لفظ کی پہچان یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ یہ اکیلا پورے جملے کے مفہوم کو ادا کرنے کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔"
گیان چند جین لفظ کی تعریف یوں کرتے ہیں:
"لفظ کوئی سنجیدہ لسانیاتی اصطلاح نہیں۔ یہ قواعد کی اصطلاح ہے۔ عام خیال یہ ہے کہ یہ وہ عنصر ہے جس کو لکھتے وقت دونوں طرف کچھ جگہیں چھوڑی جاتی ہے۔"
لفظیات کئی کئی آوازیں ملنے سے ایک لفظ بنتا ہے ،لفظ ہی زبان ہے کیونکہ معنویت جو زبان کی جان اور پہچان ہے، لفظ سے شروع اور لفظ پر ہی ختم ی ہوجاتی ہے۔ڈاکٹر سہیل بخاری لفظیات کی تعریف یوں کرتے ہیں:
"جس طرح کئی کئی آوازوں سے ایک لفظ بنتا ہے ،اسی طرح کئی کئی لفظوں سے ایسی اور کوئی لسانی اکائی نہیں بنتی جسے لفظوں کے مقابلے میں وہی حیثیت حاصل ہے جو آوازوں کے مقابلے میں لفظ کو حاصل ہے۔البتہ ایک لفظ سے دوسرا لفظ بن ہی جاتا ہے ، چنانچہ آوازوں سے لفظ کا بننا زبان کی تخلیق یا اس کا وجود میں آنا ہے اور لفظ سے جو لفظ بنتا ہے وہ اس کی توسیع اور ارتقاء ہے۔ زبان کی تخلیق اور توسیع میں بنیادی فرق ہوتا ہے۔"
رکن:
لفظ چاہے آوازوں سے براہ راست بنایا گیا ہو چاہے کسی دوسرے لفظ سے تراشا گیا ہو، دونوں حال میں اس کی مقدار کا تعین ضرورکیا گیا ہے جس کا پیمانہ رکن کہلاتا ہے۔یہی کلام کی مختصر ترین اکائی ہے اس کو انگریزی میں (Syllable) کہتے ہیں۔
لہجہ :
لہجہ اردو کا ہر لفظ کم از کم ایک رکن یا زیادہ سے زیادہ تین ارکان پر مشتمل ہوتا ہے۔ یعنی ہماری زبان میں تین ارکان سے زیادہ کا لفظ نہیں بولا جاتا۔اگر لفظ سازی میں کسی لفظ کے رکن تین سے زیادہ ہو جائیں تو انہیں مختصر کر کے تین ارکان تک لے جاتے ہیں۔ اردو کا لہجہ اختصارکی طرف مائل ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ تین تو تین دو ارکان سے بننے والے الفاظ بھی چھوٹے کرلئے جاتے ہیں۔
بناوٹ کے لحاظ سے لفظ کی اقسام:
بناوٹ کے لحاظ سے الفاظ کی درج ذیل قسمیں ہیں۔وہ الفاظ دوسرے لفظوں سے نہیں بنتے۔یہ ابتدائی الفاظ ہیں جو براہ راست آوازوں سے بنتے ہیں۔ ان کی بھی دو قسمیں ہیں۔
مصدر :
یہ وہ ابتدائی الفاظ ہیں جن سے دوسرے الفاظ بنتے ہیں ان کو مادہ کہتے ہیں۔مثلا آنا مصدر سے آؤ، آئی، آئیں، آئے وغیرہ بنتے ہیں۔
جامد:
وہ ابتدائی لفظ ہے جن سے دوسرے لفظ نہیں بنتے جیسے میں، نے کو، اور ،وغیرہ ان کی الگ حیثیت ہے۔
نحویات:Syntax
اس میں فقروں اورجملوںمیں الفاظ کی ترتیب کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔اس میں مرکب جملوں اور عبارتوں سے متعلق تفصیل سے بحث کی جاتی ہے۔ غرضیکہ اجزائے کلام کو ترتیب دینے اور جدا جدا کلمات کے باہمی ربط، الفاظ کی ترتیب ان میں ربط و تعلق کا حال معلوم کرنے کے علم کو نحویات کہتے ہیں۔ یہ کلام کو اس غلطی سے بچاتا ہے جس سے اس کا مطلب ادھورا رہ جاتا ہے۔ اس سے کلمات کے باہمی ربط اور تعلق کا پتہ چلتا ہے۔ڈاکٹر اقتدار حسین کے بقول:
"لفظ کے اوپر جملوں تک پہنچنے میں کئی سطحیں ہو سکتی ہیں۔ لفظ سے اوپر کی تمام سطحوں کے مطالعے کو نحو کہتے ہیں۔"
ماہرین کا خیال ہے کہ جملہ قواعد کی تشریح کی سب سے بڑی اکائی ہے۔نحویات میں ان اصولوں کو دیکھا جاتا ہے۔ماہرین لسانیات کی رو سے اس بات کی کوئی اہمیت نہیں کہ زبان میں جملوں کو کس طرح توڑا جاتا ہے بلکہ اہمیت اس بات کی ہے کہ جملے کس طرح بنتے ہیں۔ڈیوڈ کرسٹل کے مطابق:
"ماہر نحویات کا یہ کام ہے کہ وہ زبان کے ان اصولوں کو دریافت کرے جس کے ذریعے ہم پتہ لگا سکتے ہیں کہ زبان کے کون سے جملے قواعد کے مطابق ہیں اور قابل قبول ہیں اور کون سے نہیں۔ اس سے یہ بھی واضح کرنا چاہیے کہ جملوں کے اجزاء کیا ہیں اور ان کا ایک دوسرے سے کیا تعلق ہے۔"
بچہ الفاظ کو ربط دینے کی جہاں غلطی کرتا ہے وہاں ان پڑھ انسان بھی ان نحویات کی نشاندہی کر دیتا ہے۔اگر قواعد کے اصولوں کی نفی کرتے ہیں تو اہل زبان اس جملے کو تسلیم نہیں کرتے اسے غیر جملہ کہتے ہیں اردو جملے میں اجزائے کلام کے مقام مقرر ہیں لیکن کسی حد تک وہ اختیاری بھی ہوجاتے ہیں جیسے ؛آج تم میرے گھر آنا۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...