Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > مباحث > اردو زبان کے نام

مباحث |
حسنِ ادب
مباحث

اردو زبان کے نام
ARI Id

1689956600868_56117434

Access

Open/Free Access

Pages

۱۰۰

موضوع 8: اردو زبان کے مختلف نام
اردو زبان کو مختلف ادوار میں مختلف ناموں سے پکارا گیا۔ مختلف ادوار میں اسے ہندی،ہندوی ، ہندوستانی کے ناموں سے پکارا جاتا رہا ہے۔ڈاکٹر سلیم اختر نے اپنی کتاب "اردو ادب کی مختصر تاریخ" میں کہا ہے:
"یہ نام بعض اوقات اس مخصوص عہد کے لیے ایک بلیغ استعارہ بھی بن جاتے ہیں۔"
اردو کا لفظ:
اردو کا لفظ وسط ایشیا یا بالائی یورپ سے برصغیر میں داخل ہوا۔وہاں ریوڑ کے معنی میں استعمال کیا گیا۔سندھی زبان میں ڈھیر اور ترکی زبان میں لشکر کے معنی میں ملتا ہے۔ مغل دور میں فوج اور چھتر شاہی کے معنی میں مستعمل رہا۔اسی لیے عساکر(عسکری) کی زبان کو زبان اردو کہا جاتا تھا۔
ہندی یا ہندوی:
اردو زبان کو ہندوستان کی مناسبت سے قدیم زمانے میں ہندی یا ہندوی کہا جاتا تھا۔بقول ڈاکٹر مرزا خلیل احمد بیگ :
"شروع شروع میں یہ زبان اپنی مقامی خصوصیات کی بنا پر ہندوی ، ہندوئی یا ہندی کہلائی۔"(اردو زبان کی لسانی تشکیل)
اس نام کی شہادت قدیم ادبی تصنیفات میں بھی ملتی ہیں۔ قاضی بدر سے لے کر میں سراج الدین خان آرزوتک قدیم لغت نویسوں نے اس زبان کو ہندی یا ہندوی لکھاہے۔ اس کے علاوہ صوفیا کرام کی تحریریں اور اقوال بھی کارآمد ہوتے ہیں۔میر تقی میر نے اپنا تذکرہ "نکات الشعراء میں بھی ہندی کا لفظ استعمال کیا تھا۔ڈاکٹر سہیل بخاری نے بھی اپنی کتاب " اردو کے روپ "میں ہندی یا ہندوی کی مثال دیتے ہوئے کہا :
" شاہ عبدالطیف نے بھی قرآن مجید کا جو ترجمہ کیا اسیزبان ہندی قرار دیا۔"
زبان دہلوی:
امیر خسرو نے اردو کے لیے زبان دہلوی کا نام استعمال کیا ہے۔ اپنی مثنوی "نئے سفر" میں انھوں نے ہندوستان میں تمام مروجہ زبانوں کا تذکرہ کیا ہے۔امیر خسرو کے300 سال بعد ابوالفضل نے ہندوستان میں موجود ( 13) زبانوں کا ذکر کیا جس میں پہلی زبان "زبان دہلوی " کا ذکر کیا۔
ہندوستانی /زبان ہندوستان:
ملا وجہی نے سب رس میں سب سے پہلے اردو کے لیے "ہندوستانی" کا لفظ استعمال کرتے ہوئے زبان ہندوستان لکھا تھا۔ اردو کے لیے "ہندوستانی" کا لفظ شاہ جہاں کے دور میں عام نہیں تھا۔ابوالفضل کی "آئین اکبری" میں بھی 'ہندوستان' کا لفظ استعمال ہوا تھا۔
مغربی مصنفین:
اس کے علاوہ مغربی مصنفین نے اردو کی زیادہ تر ہندوستان ہی کہا تھا۔جب انگریز برصغیر پاک و ہند مین آئے تو ان کو یہاں کی لسانیات بہت عجیب لگی۔انھوں نے اسے ہندوستان اور ہندوستانی کہنا شروع کردیا۔ اس طرح مغربی مصنفین میں "فیلن" کی گرائمر کا نام "ہندوستانی گرائمر"تھا۔ڈاکٹر گلکرائسٹ:
ڈاکٹر گلکرائسٹ نے بھی ۷۸۸اء میں ہندوستانی کا لفظ استعمال کیا تھا اور اسے اپنی کتاب کے دیباچے میں لکھا تھا:
"میں نے ہندوستانی کی تعریف /تاریخ یوں کی ہے کہ یہ ایسی زبان ہے جس میں ہندی، عربی اور فارسی کی آمیزش برابر تناسب سے ہو۔"
ڈاکٹر عطش درانی:ڈاکٹر عطش درانی "اردو جدید تقاضے، نئی جہتیں" میں کہتے ہیں:
"ہندوستانی زبان کے نام کی کچھ سیاسی وجوہات تھیں اور مہاتما گاندھی بھی اسی کا پرچار کرتے ہیں اور پریم چند بھی اسی کے حامی نظر آتے ہیں۔ آل انڈیا کانگریس نیبھی سیاسی چال چلتے ہوئے "ہندوستانی " کے لفظ پرزور دیا اور کہا کہ یہ زبان مسلمانون کی زبان نہیں ہے بلکہ ہندوستان کی زبان ہے۔"
کھڑی بولی:
اردو کے نام کے بارے میں یہ نظریہ بھی ہے کہ کھڑی بولی اردو کا قدیم ترین نام ہے۔ڈاکٹر شوکت سبز واری، ڈاکٹر سہیل بخاری اور گیان چند جین نے بھی کھڑی بولی کو 'اردو' کا نام دیا۔ کھڑی بولی اردو کا قدیم ترین نام ہے۔ہندو اہل علم بھی زبان کے لیے کھڑی بولی کا نام دیتے تھے اور "برج بھاشا" کو ہندی شاعری کی جان سمجھا جاتا تھا اور اس کو ہندی کہ کر پکارا۔للو جی لال پریم ساغر کے مقدمے میں لکھتے ہیں:
"عربی ،فارسی الفاظ کو چھوڑ کر میں نے یہ کہانی دہلی آگرے کی کھڑی بولی میں لکھی ہے۔"
کھڑی کے دومعنی ہیں:اکھڑا اور کھردری۔یعنی وہ بولی جس کے اسمائ￿ و افعال کے آخر میں الف ہو۔
ریختہ:
اردو کے لیے ریختہ کا لفظ بھی استعمال ہوتا رہا ہے۔ ریختہ کے دو معنی معروف ہیں؛ "آمیزہ" اور "گری پڑی"۔اگر ہم اصطلاحا اس کی بات کرتے ہیں تو آمیزش والی زبان طنزیہ تحریر گری پڑی زبان استعمال ہوتا ہے۔حافظ محمود شیرانی کی تحقیقات سے یہ احساس ہوتا ہے کہ بابر کے دور میں اردو ، فارسی اور ترکی زبان کی آمیزش یعنی ریختہ کا آغاز ہو چکا تھا۔ چنانچہ انھوں نے بابر کی ترکی زبان کا ایک شعر نقال کرنے کے بعد اس کے بارے میں ڈاکٹر گریسن کے مطابق :
"اس میں ہم اردو اور ترکی زبانوں کا ایک غیر معمولی اتحاد اور مشاہدہ کرتے ہیں۔فارسی اور اردو کے مخلوط استعمال ایک زمانے میں نہایت عام تھے۔"
مولانا محمد حسین آزاد کی "آب حیات"میں بھی ریختہ کا ذکر کیا گیا ہے۔ڈاکٹر سلیم اختر کے مطابق میر نے ریختہ کے جو انداز گنوائے ہیں میر نے غزل کو ریختہ قرار دیا ہے۔عادل شاہی عہد میں ریختہ کا مفہوم طے پاچکا تھا۔غالب نے بھی اپنی شاعری میں ریختہ کا ذکر کیا تھا۔
ریختے کے تمہیں استاد نہیں ہو غالبؔ
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میرؔبھی تھا
اردو معلی:
ترکی زبان میں اردو"لشکر"کو کہتے ہیں۔مغلوں کی آمد کے ساتھ اردو کا لفظ کسی نا کسی طرح اپنے اصل مفہوم میں مل جاتا ہے۔ بابر اپنی لشکری زبان کو بھی اردو کہتا تھا۔بابر جمیعت لے کر آیا تھا۔اس لییمحض اردوتھا۔اکبر کے دور میں سلطنت مضبوط ہوگئی۔لشکر وسیع ہو گیا۔اس نے لشکر کے لیے "اردوئے معلی "کا لفظ استعمال کیا۔
ریختہ جس کامعنی 'گری پڑی 'تھا۔زبان کی جگہ "اردوئے معلی " کا لفظ استعمال ہوا۔شاہی قلعہ اور درباری زبان ہونے کی وجہ سے اس کو برتری حاصل ہے۔ مصحفی نے"تذکرہ ہندی" میں "اردو" کا لفظ استعمال کیا تھا۔ڈاکٹر سید عبداللہ کے مطابق:" میر امن نے باغ و بہار کے دیباچے میں اردو کا لفظ استعمال کیا ہے۔"
ہر زبان کی تاریخی حیثیت ہوتی ہیاور ہر زبان کو اسی حوالے سے مختلف نام دئیے گئے تھے۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...