Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > مباحث > لسانیاتی طریقہ مطالعہ

مباحث |
حسنِ ادب
مباحث

لسانیاتی طریقہ مطالعہ
ARI Id

1689956600868_56117435

Access

Open/Free Access

Pages

۱۰۳

موضوع 9:لسانیاتی طریقہ مطالعہ
لسانیات کا تعلق زبان سے ہے اور زبان معاشرے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ زبان معاشرے پر انمٹ نقوش چھوڑتی ہے اورمعاشرہ زبان پر اثر انداز ہوتا ہے۔جب ہم زبان کا تقابل کرتے ہیں اور جائزہ لیتے ہیں تو مزید صورتحال واضح ہو جاتی ہے۔ زبان دنیا کے ہر حطے ہر کونے میں پائی جاتی ہے اور تغیر سے گزر رہی ہوتی ہے۔زبان کے کام اور ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے بہت سے ماہرین نے کانٹ چھانٹ کر کے زبان کے اصول و ضوابط کے مطابق رکھا اور تبدیلیاں منظر عام پر لائے۔
زبان کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی کے انسانی تاریخ۔ اردو میں ابتدائی لسانیات کے حوالے سے جنہوں نے کام کیا ان میں کچھ فرانسیسی ،اطالوی اور کچھ فرنگی تھے جوکہ زبان میں تبدیلیاں لے کر آئے۔ان میں زبان کی محبت، جستجو اور جذبہ تھا۔کسی بھی زبان کو سمجھنے کے لئے مقامی لوگوں سے رابطہ کرنا پڑتا ہے۔ جبکہ مقامی لوگ ان لوگوں کے کام کو وقت کا زیاں سمجھتے ہیں۔
لسانیات پر مشتمل کتابیں منظر عام پر آئیں اوران میں ادب کے حوالے سے اپنے خیالات نظریات کا اظہار کیا۔ اس میں سرسیداحمدخان کی قواعداردو شامل تھی۔ اس رسالے میں گرائمر کے مختلف قاعدے درج ہیں اس کا سن اشاعت 1840 ہے۔ اس رسالے کے متعلق مولوی عبدالحق لکھتے ہیں:
"اگرچہ یہ کتاب کچھ ایسی قابل لحاظ نہیں لیکن اس سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ مرحوم کو اردو زبان سے کس قدر دلچسپی تھی۔"
سر سید احمد خان نے زبان کے لیے جامع قسم کی لغت کی ضرورت کو محسوس کیاانہوں نیاپنے عہدمیں اردو لغت مرتب کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ انہوں نے اس لغت میں لفظ کی تعریف اور تشکیل کو بھی شامل کیا تھا۔ انہوں نے لفظ کی تعریف کی ،لفظ پہ بات کی اور مترادفات سے کام نہیں لیا۔ قواعد کی صورت میں زیادہ کام ہوا ہے۔زبان کے حوالے سے جو گفتگو ہوتی رہی لسانی تحقیق کا آغاز بھی اسی حوالے سے ہوا۔ ولیم شیکسپیئر ،گلکرسٹ نیاس حوالے سے کافی کام کیا مگر ان کا مقصد سیاسی تھا۔ ان ماہرین نے لسانیات کی بات کرتے ہوئے کام کیا انہوں نے اس لسانی فریضہ کو انجام دینے کے لیے یورپی زبانوں سے استفادہ کیا۔ فارسی زبان کو بھی استعمال کیا اسی دور میں جو کام ہوا وہ دوسری زبانوں میں زیادہ ہوا۔جس سے نئے آنے والوں کے لئے راہیں کھل گئیں۔ لسا نی خد و خال، قواعد و ضوابط لغات متعین کئے گئے۔ شہاب الدین ثاقب لکھتے ہیں:
"انجمن ترقی اردو کی علمی و ادبی خدمات کے لئے غیر اہل زبان کے لیے زبان کا سیکھنا قواعد کے بغیر مشکل ہے۔اس خیال کے پیش نظر ہندوستانی اردو زبان کے قواعد پر سب سے پہلے یورپی علمائ￿ نے توجہ کیوں کی کہ وہ اس زبان کو سیکھنا اور سکھانا چاہتے تھے۔ ان میں سے بیشتر ایسے تھے جنہوں نے اردو زبان کے مزاج اور ساخت کو بھی پیش نظر رکھا۔ اس کے برعکس ہندوستانی مصنفین نے اردو قواعد کی جو کتابیں لکھیں ان میں فارسی قواعد کی تقلید ملتی ہے۔"
یہ سب وہ لوگ ہیں جنہوں نے اردو قوائد اصول خدوحال لغات پر کام کیا مولوی فتح محمد خان جالندھری کی "مصباح القواعد"(1904ئ)بھی ان اثرات سے خالی نہیں۔اسی طرح انشاء اللہ خاں انشا کی "دریائے لطافت" اردو صرف و نحو کے اصولوں پر مبنی ہے۔ یہ فارسی میں لکھی گئی تھی۔ اردو زبان اورلسانی تحقیق کو اپنی ارتقائی تشکیل میں جو ملکی اور غیر ملکی ماہرین قواعد ولغات میسر آئے ان میں نہایت مخلصانہ طور پر اردو زبان کو صحیح لسانی سہاراا دینے کے لئے قابل قدر کوششیں کیں۔ ان کوششوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اردو لسانیات کے جدید رویے اور نظریے اسی بنیاد کے سہارے قائم ہیں۔ان اصحاب لسانیات نے آنے والے محققین کے لیے ایک واضح لائحہ عمل مرتب کرکے تحقیقی موشگافیوں کو حل کر دیا۔ اس کے حوالے سے مرزا خلیل احمد بیگ لکھتے ہیں:
"یہ امر واضع ہے کہ اردو کے اولین قوائد یورپی عالموں کی ہی دین ہیں۔اردو میں لسانی مطالعہ اور تحقیق کا جدید دور بیسویں صدی سے تعلق رکھتا ہے۔بیسویں صدی میں لسانیتحقیق اپنے ابتدائی ارتقائی مرحلے سے گزر کر ایک باقاعدہ علم کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ اس دور میں زبان کا مطالعہ مشاہداتی، تجزیاتی اور طرزیاتی بنیادوں پر کیا گیاجبکہ انیسویں صدی کے اس لسانی مطالعے میں یہ خصوصیات نہ ہونے کے برابر تھیں۔اس سے پہلے انیسویں صدی میں زبانوں کا مطالعہ روایتی اور فرسودہ انداز میں کیا جاتا تھا، تاثراتی اور بیانیہ طریقہ تحقیق کو بروئے کار لایا جاتا تھا۔محققین کی نظر صرف مختلف علاقوں میں بولی جانے والی زبانوں اور لسانی تبدیلیوں پر رہتی تھی اور مستند تحریر زبان ہی کو قرار دیا جاتا تھا جو اس وقت زبان رائج تھی۔"
زبان کے ارتقاء اور زبان میں جو تبدیلیاں آتی رہی اسے لسانیات کہتے ہیں۔ جدید لسانیات کی منزلیں کیسے طے ہوئیں ،کوئی لسانی عنصر کس طرح مختلف زبانوں کی تبدیلی کے مراحل سے گزرتا ہے۔ان تمام باتوں کی نشاندہی لسانی طریقہ مطالعہ میں شامل ہے۔
زبان کن مراحل سے گزرتی ہے ،کن مراحل سے گزر کر یہاں تک پہنچتی ہے۔لسانیات کے محقق کو زبان میں وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں اور زبان سے تعلق رکھنے والی بولیوں اور لہجوں پر نظر رکھنی پڑتی ہے۔ اس کے علاوہ اس زبان پر دوسری زبانوں کے اثرات کا جائزہ بھی لسانی تحقیق کا اہم جزو ہے۔ اس کے لیے لسانیات کے محقق کو ایک سے زیادہ زبانوں پر عبور ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ صوتیات، معنیات ،نحویات اور تکلمی آوازوں کامحققانہ مشاہدہ کیا جاتا ہے۔لسانی طریقہ کار میں ماہرین لسانیات نا صرف زبان بلکہ وہ مقام یا ملک جس جگہ کا ماہر ہونا ضروری ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ جس علاقے میں زبان بولی جاتی ہے وہاں کی آب و ہوا ،تہذیب و ثقافت اور رسم و رواج کا بھی گہرا مطالعہ کرنا چاہئے کیونکہ یہ تمام چیزیں اس علاقے کی زبان و ادب پر اثر انداز ہوکر تہذیبی اور ثقافتی روایات میں تعمیر کا فریضہ سرانجام دیتی ہیں۔ رشید حسن خان" ادبی تحقیق مسائل و تجزیہ" میں لکھتے ہیں :
"تحقیق میں ہر واقعہ بجائے خود ایک حیثیت رکھتا ہے اور اس کے متعلق ضروری معلومات حاصل کی جانی چاہیں۔ ان معلومات سے کہا ں، کس طرح اور کس قدر کام لیا جائے یہدوسری بات ہے اور اس کا تعلق ترتیب و واقعات کے تقاضوں سے ہوگا۔"
لسانی طریقہ مطالعہ میں محقق کو ایسے اطلاع کار کی ضرورت ہوتی ہے جو مقامی باشندہ ہو جو محقق کو مزید معلومات فراہم کرسکے۔ محقق لسانی حالات کا جائزہ لے کر ہی لسانی تحقیق کے لیے لسانی مواد حاصل کرے گا اورمقامی سطح پر جائزہ لینے میں مقامی باشندہ مدد کرے گا۔اس کے لیے رسم الخط سے واقف ہونا بھی ضروری ہے۔ مقامی لوگوں کی یادداشت سے کافی معلومات اکٹھی ہو جاتی ہیں۔ یہ بات انتہائی اہم ہیکہ وہ بیک وقت کئی اطلاع کاروں سے رابطہ رکھے۔ صرف ایک پر ہی اکتفا نہ کرے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ ایک شخص کی معلومات میں صداقت نہ ہو تاکہ جہاں کم وقت میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل ہوں وہیں ایک ہی مطالعے کی مختلف حوالوں سے تصدیق بھی ہو سکے۔
لسانی تحقیق میں ذخیرہ الفاظ اورمختلف فقروں اور جملوں کا جائزہ لیا جاتا ہے۔مختلف لوگوں کی آراء کو جمع کرکے ان کا موازنہ کرنا اور ان سے نتائج اخذ کرنا لسانی تحقیق میں کافی مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ سوالنامہ اور انٹرویوکو بھی اس تحقیق کا ذریعہ بنایا جا سکتا ہے۔ لسانیاتی طریقہ مطالعہ میں محقق کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ ایک سے زیادہ علوم میں مہارت رکھتا ہو کیونکہ تقابلی لسانیات میں اس کی اہمیت کلیدی ہے۔ڈاکٹرعبدالستار صدیقی لکھتے ہیں:
"ہماری لسانی تحقیق کو زمان و مکان دونوں کے لحاظ سے صحیح ہونا چاہیے اور انسانی علوم کے مسلمات سیخلاف نا ہونا چاہیے۔الغرض لسانیات انسانی علم کی ہر شاخ سیخوراک حاصل کرتی ہے اور اس کے معاوضے میں ہر علم کو قوت پہنچاتی ہے۔ لسانیات ہی کے میدان میں پہنچ کر یہ حقیقت ہم پر پوری وضاحت اور درخشانی کے ساتھ منکشف ہوتی ہے کہ سب انسانی علوم آپس میں متداخل (انٹر لنکڈ) ہیں۔"
لسانیات میں صرف اسی زبان کا علم ہونا ہی ماہرلسانیات نہیں کہلائے گا جب تک وہ عربی فارسی کا ماہر نا ہو۔ لاطینی ،اطالوی اور ہندی کا بھی پتا ہونا چاہیئے۔اورلسانیاتی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کافی نہ ہوگا بلکہ اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ دوسری کئی زبانوں جن کا تعلق مذکورہ زبان سے بلاواسطہ یا بالواسطہ ہے ان کو سمجھنا اور اس کا علم حاصل کرنا انتہائی ضروری ہے۔ایک لسانی محقق کے لئے قدیم اور جدید دونوں زبانوں کے علم کا حصول ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر وہ اپنا تحقیقی مواد منطقی ربط کے ساتھ پیش کرنے سے قاصر رہے گا۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...