Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > مباحث > اردو زبان کا آغاز و ارتقا

مباحث |
حسنِ ادب
مباحث

اردو زبان کا آغاز و ارتقا
ARI Id

1689956600868_56117436

Access

Open/Free Access

Pages

۱۰۷

موضوع 10:اردو زبان کا آغاز و ارتقا
کسی زبان کے آغاز اور ارتقاء کی داستان کچھ مخصوص تہذیبی اور معاشرتی حالات سے جڑی ہوتی ہے۔ زبان اپنی ترقی یافتہ شکل اختیار کرنے سے پہلے مختلف مراحل سے گزرتی ہے۔ اسے رنگ و روپ دینے اور نکھارنے میں مختلف عوامل کار فرما ہوتے ہیں۔ اردو زبان جو آج کی چند ترقی یافتہ اور کثرت سے بولی جانے والی زبانوں میں سے ایک ہے اسے بھی معرض وجود میں آنے سے قبل مختلف مراحل سے گزرنا پڑا۔ ان مختلف مراحل اور تہذیبی اور معاشرتی عوامل کو سمجھنے کے لئے ہمیں ماضی کی طرف پلٹنا ضروری ہے۔
جیسا کہ تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان کے قدیم باشندے دراوڑ تھے۔آریا قوم باہر سے آئی اور مقامی باشندوں کو پیچھے دھکیل کر ملک پر قابض ہو گئی۔آریا قوم ملک پر ایک نئی تہذیبی طاقت بن کر ابھری۔ ان کی زبان کو مرکزی حیثیت حاصل ہوئی۔ مقامی باشندوں سے میل جول کی وجہ سے آریاؤں کی زبان متاثر ہونے لگی اور بہت سے الفاظ کا تلفظ کچھ سے کچھ ہو گیا۔ آریاؤں نے اپنی زبان کو محفوظ رکھنے کے خیال سے اسے قواعدی اصولوں سے جکڑ دیا اور اپنی زبان میں صرف ٹکسالی الفاظ باقی رکھے۔مقامی اثرات اس سے پاک و صاف ہو کر ان کی زبان نے اپنا ایک معیار برقرار رکھا اور اسی معیاری زبان کو سنسکرت کا نام دیا گیا۔
اس زبان کو کافی فروغ حاصل ہوا لیکن اس کا رشتہ عوام سے کٹ گیا گیا اور ایک مخصوص دائرے تک سمٹ کر رہ گئی۔ عوام کی زبان مختلف علاقوں میں تھوڑے سے فرق کے ساتھ ایک رسم الخط میں موجود رہیں اس زبان کو پراکرت کا نام دیا گیا۔ پراکرت زبان برابر ترقی کرتی رہی اور مختلف علاقوں میں مختلف روپ اختیار کرتی رہی۔ آگے چل کر ان پراکرتوں نے ادبی حیثیت اختیار کرلی اور عوام سے ان کا تعلق منقطع ہوگیا۔ عوام عام بول چال کی زبان بولتے رہے جن میں مختلف بولیوں کی آمیزش شامل رہی۔ اہل علم حقارت سے اس زبان کو ابرنش یعنی گری ہوئی زبان کہتے رہے لیکن عوام میں اس کی مقبولیت بڑھتی گئی۔ اہل علم بھی اس زبان کی طرف متوجہ ہوئے اور مقامی بولیاں بھی اس سے متاثر ہوئیں۔ان ابرنشوں کی نشوونما شمالی ہند میں 600ء سے 1000ء تک ہوتی رہی۔ پھر اس کے ارتقاء کی رفتار رک گئی۔ابرنشوں سے جدید ہند آریائی زبانوں کی تشکیل کی راہ ہموار ہوئی۔
اردو زبان کی تشکیل کا بھی یہی زمانہ ہے۔ اگرچہ اس کا باقاعدہ ارتقا مسلمانوں کے ہاتھوں دہلی کی فتح کے بعد ہوا۔ دوآبہ شورسینی پراکرت کا علاقہ تھا۔جلد ہی پراکرت شورسینی ابرنش کے علاقے میں عام ہوگئی۔اس زبان کو کھڑی بولی اور ہندوستانی بھی کہا جاسکتاہے۔ اسی زمانے میں میں مسلمان عربی اور فارسی زبان کے ساتھ آئے۔ عربی اور فارسی زبانوں کے الفاظ بھی کھڑی بولی میں داخل ہونے لگے جس سے نئی زبان اردو کے لیے راہ ہموار ہوئی۔مسلمانوں کی آمد سے اردو زبان میں تیزی سے ترقی آئی لیکن اردو زبان کی ابتدائ￿ کو مسلمانوں کی آمد سے منسوب کرنا کسی طرح سے مناسب نہیں ہوگا۔ یہ ایک لسانی مظہر تھا جو بہرحال وجود میں آیا اگرچہ اس کے وجود میں آنے میں کافی تاخیر ہوئی۔بقول ڈاکٹر سینتی کمار چیٹرجی:
"اگر مسلمان شمالی ہند میں داخل نہ ہوئے ہوتے تو جدید ہند آریائی زبان میں کافی تاخیر ہوتی۔ اسی طرح شورسینی ابرنش عربی اور فارسی زبانوں کی آمیزش سے اردو زبان کے خدوخال نمایاں ہونے لگے اور شمالی ہند میں دو سو سال تک تشکیلی دور سے گزرنے کے بعد تیرہویں صدی میں اس نے اپنے آغازو ارتقاکا باقاعدہ سفر شروع کیا۔ اس طرح اس اردو زبان کی وہی تاریخ ہے جو فتح دہلی کی تاریخ ہے۔ فتح دہلی کے بعد مختلف علاقوں سے سے لوگ دہلی میں آنے لگے۔ یہاں پر آنے والے لوگوں میں زیادہ تر ترکی زبان کے لوگ اور پنجابی تھے اور نواح دہلی میں ہریانی،کھڑی بولی، برج بھاشا اور میواتی زبانیں بولی جاتی تھیں۔ ان زبانوں کے لسانی امتزاج سے ایک نئی زبان وجود میں آئی جس سے پہلے ریختہ ، ہندی، ہندوی اور بعد میں اردو کا نام دیا گیا۔اس طرح شمالی ہند میں مسلمانوں اور دوسری زبانیں بولنے والوں کے میل جول سے اردو زبان کے لئے راہ ہموار ہوئی۔ یہ زبان عوام تک ہی محدود نہ رہی بلکہ اس زمانے کے فارسی اور ترکی شعرا نے بھی اس زبان کی طرف توجہ دیں چنانچہ اس زمانے کے شاعر خواجہ سید سلیمان نے اس نئی زبان میں اشعار کہے۔ پرتھوی راج نے بھی اپنے راسوں میں اس کے الفاظ استعمال کیے۔ دو سال بعد خسرو نے اپنی پہیلیوں میں کھڑی بولی میں اشعار کہے۔"
پرتھوی راج نے اپنی راسوں کے لیے اردو کے الفاظ استعمال کیے۔ زبان کا علاقہ وسعت اختیار کرگیا اس میں فوجیوں کا بڑا ہاتھ رہا جو مختلف جگہوں پر آکر آباد ہوئے۔ اس زبان کو پھیلانے میں صوفیائ￿ کرام اور بزرگان دین کی خدمات سب سے زیادہ ہیں شیخ فرید الدین گنج شکر ،خواجہ نظام الدین، شیخ بو علی قلندر کے علاوہ کبیر داس اور بابا گرو نانک کا نام بھی قابل ذکر ہے ڈاکٹر مسعود حسین خان اردو زبان زبان کے لئے ان صوفیوں فوجیوں بزرگوں کی کوشش کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"زبان دہلی کھڑی بولی کا ارتقا ایک طرف اردو کی شکل میں خسرو اور صوفیہ کرام کے ہاں ہو رہا تھا تو دوسری طرف فوجیوںاور سادھوؤں کی شکل میں پنجاب دکن کے علاقوں میں رواج پا چکی تھی۔ اس کی شہادت ہمیں بابا گرونانک اور کبیر داس کے نام سے ملتی ہے۔ شمالی ہند میں نشوونما پانے والی زبان دکن میں چودھویں صدی کے اواخر میں پہنچی علاؤالدین خلیجی اور ملک کافور کے حملوں اور صوفیاء کرام کی کوششوں سے دکن میں اردو کے لئے راہ ہموار ہوئی۔لیکن اردو کی ترقی اور فروغ کے امکانات اس وقت روشن ہوئے جب محمد بن تغلق نے دولت آباد کو اپنا پایہ تخت بنایا۔ محمد بن تغلق کے ساتھ ایک بہت بڑی آبادی بشمول علماء ، فضلاء ،اولیاء کرام دہلی سیدکن منتقل ہوئے۔اتنی بڑی آبادی دکن میں پہنچی جانے سے نئی زبان کو پھلنے پھولنے کا موقع نصیب ہوا۔ آگے چل کر بہمنی سلطنت عادل شاہی اور قطب شاہی سلاطین کے زیر سایہ اس زبان کو فروغ حاصل ہوا۔.معراج العاشقین خواجہ بندہ نواز گیسو دراز،شہادت الحقیقت شمس العشاق، ارشاد نامہ شاہ برہان الدین جانم،"کلیات محمد قلی" قطب شاہ،علی عادل شاہ ثانی" پھول بند" "کلیات ولی" ولی دکنی ان کے شاندار کارنامے ہیں۔"
اردو زبان کے فروغ اور ارتقا کی روشن دلیل ہمارے پاس موجود ان کتابوں کی شکل میں موجود ہے۔ یہ تعجب کی بات ہے کہ اردو زبان شمالی ہند کے مقابلے میں دکن میں دیر سے پہنچی لیکن بہت جلد وہاں ایک ادبی سرمایہ وجود میں آگیا۔ شمالی ہند میں ہمیں کوئی خاص ادبی سرمایہ نظر نہیں آتا۔ یہ زبان صرف بول چال کی زبان رہی اور فارسی زبان کو ادبی حیثیت حاصل رہی۔ ہمیں ادبی سرمایے کے طور پر بزرگوں کے مواعظ اور ملفوظات میں ادبی زبان کا عکس واضح طور پر ملتا ہے ۔ان بزرگوں میں شیخ فرید الدین گنج شکر،خواجہ نظام الدین شیخ بو علی قلندر خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔اس کے بعد میر اور سودا نے اس زبان کو زمین سے آسمان تک پہنچا دیا۔ غالب، مومن، ذوق، مصحفی ان سب نے اس زبان کو ایسی روشنی بخشی جو آج بھی پوری طرح روشن اور درخشاں ہے۔ ہمارے شعرا اور ادیب کی وجہ سے اس زبان کو فروغ ملا یہ ہے اردو زبان کے آغاز و ارتقا کہانی جس سے ظاہر ہوتا ہے یہ ہندو مسلم اتحاد اور مشترکہ تہذیبی اور قومی یکجہتی کے چراغ کو روشن کیے ہوئے ہیں۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...