Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > مباحث > تنقید کی اقسام

مباحث |
حسنِ ادب
مباحث

تنقید کی اقسام
ARI Id

1689956600868_56117445

Access

Open/Free Access

Pages

۱۲۶

تنقید کی بہت زیادہ اقسام ہیں اور یہ اقسام با ہم بہت قریب ہیں۔اسی وجہ سے انسان اکثر مغالطے کا شکار ہو جاتا ہے اور ان کو باہم گڈ مڈ کردیتاہے۔تنقید کی درج ذیل اقسام زیادہ اہم ہیں۔
• مارکسی تنقید • استقرائی تنقید
• تجزیاتی تنقید • رومانی تنقید
• سائنسی تنقید • عمرانی تنقید
• نظریاتی تنقید • ہیئتی تنقید
• جمالیاتی تنقید • نفسیاتی تنقید
1۔مارکسی تنقید:
جب کارل مارکس کے اشتراکی نظریات عام ہوئے تو ادبی دنیا میں بھی ان نظریات کی صدائے بازگشت سنائی دینے لگی۔اس طرح تنقید کا ایک نظریہ اور دبستان وجود میں آگیا۔یہ دراصل کارل مارکس اور اس کے مقلدین کے اشتراکی افکار تھے۔اسے اشتراکی تنقید یا مارکسی تنقید کہا جاتا ہے۔مارکسی نقاد 'ادب برائے زندگی' کے قائل ہیں۔مارکسی تنقید کے حوالے سے پروفیسر احتشام حسین کہتے ہیں:
"ادب کی یہ حیثیت کہ اس میں سماجی حقائق اپنی طبقاتی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں اور ادیب کے سماجی رجحان کا پتہ اس کے خیالات سے چلتا ہے۔ادیب زندگی کی کشمکش میں شریک ہو کراسے بہتر بنانے کی راہ بتا سکتا ہے۔اشتراکی حقیقت نگاری اور مارکسی تنقید میں سب سے نمایاں شکل میں یہی نظر آتا ہے۔جو نقاد اس نظریہ تنقید کو اپناتے ہیں وہ روح عصر ، سماجی نفسیات،عمرانیات یعنی ان تمام باتوں پر نگاہ رکھتے ہیں جو طبقاتی سماج میں پیداوار کیمعاشی بنیادوں کے اوپر فکری اور فلسفیانہ حیثیت سے وجود میں آتی ہیں۔"
پروفیسر احتشام حسین کی رائے سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ مارکسی یا اشتراکی تنقید میں ادیب یہ دیکھتا ہے کہ سماجی رجحان کس طرف تھا، اس کے خیالات کیسے تھے، وہ کیسے ماحول میں رہتا تھا،زندگی کے کون سے مسائل سے گزر رہا تھا۔یہ ساری باتیں سامنے رکھتے ہیں۔پاکستان میں مارکسی تنقید کے حوالے سے نمایاں نقاد جنہوں نے شہرت حاصل کی ان میں احتشام حسین، مجنوں گورکھپوری،ممتاز حسین اور فیض احمد فیض شامل ہیں۔ان نقادوں نے اردوتنقیدمیں مارکسی دبستان کی نمائندگی کی۔
2۔استقرائی تنقید:
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ تنقید ادب کا ایک شعبہ ہے۔لیکن بعض نقاد تنقید کو ادب کی بجائے سائنس کی شاخ سمجھتے ہیں۔اس حوالے سے پروفیسر مولٹن اس نظریے کی بنیاد رکھنے والے ہیں۔ان کے استقرائی تنقید کے نظریے کو سائینٹفک تنقید کا نام دیا گیا۔پروفیسر مولٹن کے مطابق اصول انتقاد ہر ادب پارے کے اندر موجودہوتے ہیں۔جن کی روشنی میں اسے جانچا جا سکتا ہے۔یعنی جو ادب پارہ آپ دیکھ رہے ہیں اس کے اندر ہی اس پر تنقید کے اصول بھی ہیں۔کہیں باہر سے کوئی اصول لاکر اس پر تنقید نہیں کی جا سکتی۔مثلا شیکسپیئر کے ڈراموں میں ٹریجڈی اور کامیڈی کے جو اصول ہیں ان کو انہی کے مطابق جانچا جانا چاہیئے۔ارسطو نے اپنے عہد کے بعض یونانی ڈراموں کو سامنے رکھ کرجو وضع کیے تھے وہ اصول یہاں پر قابل قبول نہیں ہوں گے۔دوسرے لفظوں میں شیکسپیئر کے ڈراموں پر تنقید کے لیے اس دور کے ماحول اور اس دور کے ڈراموں کو دیکھا جائے گا۔جب یونانی ڈراموں کی بات کی جائے گی تو ارسطو کے اصولوں کو دیکھا جائے گا۔ایسا نہیں ہو سکتا کہ ارسطو کے اصولوں کی بنیاد پر شیکسپیئر کے ڈراموں پر تنقید کی جائے۔
اس حوالے سے ڈاکٹر سید عبداللہ نے بھی کسی حد تک اس اصول سے اتفاق کیا ہے۔وہ بعض صورتوں میں اس نظریے کو مثبت اور مفید سمجھتے ہیں۔ڈاکٹر سید عبداللہ کہتے ہیں:
"اس میں کچھ شک نہیں کہ ایک حصہ سائنسی طرز اختیار کر سکتا ہے، مثلا مصنف کے حالات، اس کے محرکات تصنیفی،اس کا ماحول، اس کے معاصرین کی بحث وغیرہ۔"
اس میں سائنس یا تاریخ کا طریقہ استعمال ہو سکتا ہے۔عام طور پر ہمارے نقاد کہتے ہیں کہ سائنسی تنقید ادب میں موثر نہیں ہے۔لیکن ڈاکٹر سید عبداللہ کے مطابق بعض صورتوں میں یہ کارآمد ثابت ہوسکتی ہے۔
3۔ تجزیاتی تنقید:
تنقید کا ہر وہ انداز جس میں ادب پارے کے اجزائے ترکیبی کاتجزیہ کرکے اس کا معروضی مطالعہ کیا جائے اور سائنس دان کسی بے لاگ غیر جانبداری اور معروضیت کے ساتھ نتائج اخذ کیے جائیں اسے تجزیاتی تنقید کہا جائے گا۔چونکہ تجزیاتی تنقید میں ادب پارے کے الفاظ بنیاد اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اس لیے نقاد انتخاب الفاظ، بندش الفاظ،تناسب الفاظ، حسن تراکیب، صفحہ بیان، صدق محاورہ،ندرت تشبیہ، جدت ، استعارہ جیسے امور پر بحث کرتا ہے۔ڈاکٹر سلیم اختر کے بقول:
"دبستان ہونے کی حیثیت سے تجزیاتی تنقید کا جائزہ لیں تو بلاشبہ ولیم ایمپسن کواس کا سب سے اہم پیش رو قرار دیا جا سکتا ہے۔یہ آئی۔اے۔رچرڈ کا شاگرد تھا۔رچرڈ کو الفاظ سے جو گہری دلچسپی رہی ہے وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔چنانچہ ایمپسن نے بھی اپنی تنقید کی اساس اس پر استوار کرتے ہوئے الفاظ میں معانی کی مختلف جہات سے پیدا ہونیوالے ابلاغی تنوع کے مخصوص مطالعہ کو ہی مقصود قرار دیا ہے۔"
آسان لفظوں میں تجزیاتی تنقید میں لفظوں ،جملوں پر غور کیا جاتا ہے اور ان کو مدنظر رکھ کر تنقید کی جاتی ہے۔
4۔رومانوی /رومانی تنقید:
رومانوی تنقید رومانوی تحریک کا نظریاتی پہلو ہے۔اسکاٹ جیمز نے لان جائنس کو اولین رومانوی نقاد قراردیا ہے۔رومانویت کی تحریک سے وابستہ شعرائ￿ میں سے ورڈز ورتھ،کولرج اور شیلینقادوں کی حیثیت سے مشہور تھے۔انہی کے افکار سے رومانوی تحریک کے خدوخال روشن ہوئے۔رومانوی تنقید میں فنکار کی عظمت کو جانچنے کے لییروایتی سانچوں اور عروض بیاں کی جکڑ بندیوں کی بجائے فنکار کے جوش تخیل ، الہام، حسن آفرینی،ترسیل مسرت اورجذبات کو اہمیت دی گئی ہے تاکہ قاری کو الہام کے ان چشموں تک پہنچایا جا سکیجو تخلیق کے باوجود اس کے حسن اور مسرت بخشی کا باعث بنے۔یعنی سادہ الفاظ میں رومانوی تنقید الفاظ اور فقروں کی بجائے جذبات کی طرف جاتی ہے۔وہ اس بات کی طرف جاتی ہے جس کو تخلیق کار نے تخلیق میں بیان کیا ہے۔اس سوچ کو دیکھا اور پرکھا جاتا ہے، ان خیالات کوموضوع بنایا جاتا ہے۔
5۔ سائنسی تنقید:
ایسی تنقید جو سائنسدان کی سی کامل معروضیت، غیر جانبداری، سائنسی طرز فکر اور طریق کار سے کام لینے کی مدعی ہو اور تعین ، قدراور فیصلے کو اپنے دائرہ کار سے خارج سمجھے، سائنسی تنقید کہلاتی ہے۔لیکن یہ اصطلاح خاصی مبالغہ آمیز اور مغالطہ انگیز ہے کیونکہ تنقید سائنس نہیں ہو سکتی۔پسند، ذوق، روایت، مقصد، تاثر ، معیار، اخلاق ان ساری چیزیں کے مباحث کو تنقید سے خارج نہیں کیا جا سکتا۔کامل معروضیت اور غیر جانبداری نا ادب میں ممکن ہے نا تنقید میں۔استقرائی تنقید سائنسی ہونے کی مدعی ہے۔تجزیاتی تنقید کو بھی سائنسی تنقیدمیں شمار کیا جاتا ہے۔ ہمارے نقاد سائنسی تنقید، استقرائی تنقید اور تجزیاتی تنقید کو ادب کی تنقید کے لیے موزوں خیال نہیں کرتے ہیں۔
6۔ عمرانی تنقید:
عمرانی تنقید سے مراد وہ تنقید ہے جو ادیبوں اور ان کیادب پاروں کو ان کی معاشرت کے پس منظر میں رکھ کر کی جاتی ہے۔ادیب یا اس کے ادب کو سمجھنے کے لییضروری ٹھہرا کہ اس کے معاشرتی ماحول کو سمجھا جائے۔فرانسیسی نقاد "تین "کے مطابق ادیب کاذہن اور اس کا ادب نسلی معاشرتی ماحول اور وقت کے امتزاج و اشتراک کا نتیجہ ہے ۔چنانچہ کسی ادیب اور ادب کو سمجھنے کے لییانہی اجزائے ترکیبی کو سمجھنا چاہیئے۔کیونکہ متقدمین کے اثراور معاشرتی ماحول تک براہ راست ہماری رسائی نہیں ہے۔معاصرین کے نسلی اور سماجی محرکات کی جڑیں بھی ماضی میں پیوست ہوتی ہیں اور تاریخی حالات و حوادث کواس عہد کے معاشرتی ماحول سیمنقطع کرکے نہیں دیکھا جا سکتا۔ اس لیے عمرانی تنقید تاریخ کی اس حد تک محتاج ہیکہ اسے تاریخی تنقید،اجتماعی تنقید یا عمرانی تنقیدی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔مثلا غالب کی شاعری کے مطالعے کے دوران ہم دیکھیں گے کہ اس وقت ملک کے حالات کیسے تھے، راجے مہاراجے کیسے تھے۔شاعروں کا گزر بسر کیسے ہور ہا تھا۔ملک میں دھنگا فساد ، لڑائی جھگڑا، انگریز مغل کی باہمی صورت حال کو مدنظر رکھ کر ہی غالب کے خطوط اور کلام پر تنقید کر سکتے ہیں۔اس حوالے سے عمرانی تنقید زیادہ اہم ہے کیونکہ اس میں حالات و واقعات دیکھے جاتے ہیں۔
7۔نظری/ نظریاتی تنقید:
نظریاتی تنقید اس قسم کے سوالات سے بحث کرتی ہے کہ:
• ادب کیا ہے؟
• اس کے اجزائے ترکیبی کیا ہیں؟
• ادب میں روایت کا کیا مقام ہے؟
• ادب شخصیت کا اظہار ہے یا روح عصر کی عکاسی کرتا ہے؟
• ادب پارہ لاشعوری کیفیات و رجحانات کا آئینہ ہے یا فن کار کی شعوری کاوشوں کا حاصل/
• ادب کا زندگی کے ساتھ کیا رشتہ ہے؟
• تخلیقی عمل کی منازل ومراحل کیا ہیں؟
• تنقید کی کیا اہمیت ہے؟
• نقاد کے فرائض کیا ہیں؟
• تخلیق اور تنقید کا رشتہ کیا ہے؟
• مختلف اصناف کے صنفی تقاضے کیا ہیں؟
گویا نظریاتی تنقیدکا کام ایسے اصول اور نظریات وضع کرنا ہے جن کی روشنی میں ہم کسی ادیب کو جانچنے کے لیینقاد کے پاس کچھ ایسی بنیادیں ، پیمانے، معیار، نظریات اور مفروضات دیکھتے ہیں تو تب کسی ادیب یا کسی ادب پارے پر تنقید کی جا سکتی ہے۔نظریاتی تنقید نقادکو یہی نظریاتی بنیاد فراہم کرتی ہیاور نقادوں میں یہ نظریاتی بنیادیں دوسرے علوم، مذہب ، فلسفہ، نفسیات، عمرانیات، تاریخ ، معاشیات اور سیاسیات کی مدد سے تیار کیں ہیں۔
8۔ہیئتی تنقید:
یہ تنقید کا ایک انتہا پسندانہ نظریہ ہے۔جس کی رو سے کسی ادب پارے کوصرف ہیئت کے اصولوں کی روشنی میں جانا جاتا ہے۔یہ درست ہے کہ ہر ادب پارہ کسی نا کسی ہیئت کا محتاج ہیاور ہیئت کے کچھ فنی لوازم ہوتے ہیں۔چنانچہ نقاد اگر ان فنی لوازم کو اپنے دائرہ بحث میں شامل کرتا ہے تواس پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک حد تک ضروری ہے۔لیکن جب کوئی نقاد اپنے احاطہ کار کوہیئتی تانے بانے تک محدود کر لیتا ہے توصرف ہیئت کے اصولوں کو معیار بنا کرکسی ادب پارے کو جانچنے کا معیار بنا کرفیصلہ کرتا ہے اور اس کے مقام و مرتبے کا تعین کرتا ہیتو وہ اپنے منصب سے ناانصافی کا مرتکب ہوتا ہے کیونکہ ادب صرف ہیئت کا کام نہیں ہے۔مواد ہیئت کے مقابلے میں اہم تر ہے۔اب دونوں کی ہم آہنگی سے اچھا ادب پیدا ہوتا ہے۔فنی لوازم ہی پرکھ کافی نہیں۔
مواد کی پرکھ، فنکار کے عقائد ونظریات کا تجزیہ اور اس کے فلسفیانہ حیات پر تنقید کرنابھی نقاد کے فرائض میں شامل ہے۔اس کی مثا ل یہ ہے کہ کلیم الدین احمد کے مطابق "غزل ایک نیم وحشی صنف شاعری ہے۔"جبکہ بعض لوگوں کے مطابق غزل کے ذریعے دو مصرعوں میں اپنی بات بیان کرنا زیادتی ہے۔جبکہ دوسری جانب غزل گو شعرائ￿ کے بقول دو مصرعوں میں اتنی بڑی بات بیان کرنا ان کا کمال ہے۔وہ لوگ جنہوں نے ہیئت پسندی کو اہمیت دی اور الفاظ کے گورکھ دھندے سے باہر نکلیانہوں نے اس تنقید کی جانب زیادہ توجہ دی۔
9۔جمالیاتی تنقید:
ڈاکٹر عبادت بریلوی کے مطابق:
"جب تنقید کا رجحان فنی پہلو ؤںکی جانب ہوتا ہے تووہ جمالیاتی تنقید کہلاتی ہے۔"
جمالیاتی تنقید کے کچھ ادبی معیار قائم کردیئے گئے ہیں جن سے کسی تحریر کو جانچا جا سکتا ہے اور اس بات کافیصلہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ ادب ہے یا نہیں۔اگر وہ ادب ہے تو فلاں ادب پارے کے مقابلے میں اس کی حیثیت کیا ہے۔کیونکہ تاثرات ذاتی پسندیدگی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس لیے جمالیاتی تنقید میں نقاد تاثرات اور ان کے نتیجے میں حاصل ہونے والی مسرت کے سرچشمے معلوم کرنیکے لیے ادب پاروں میں حسن کاری کے طریقوں کا مطالعہ کرتا ہے۔ڈاکٹر سلیم اختر کے خیال میں نیاز فتح پوری کی تنقید کو اردو میں جمالیاتی تنقید کا سب سیا چھا اور اہم نمونہ قرار دیا جا سکتا ہے۔نیاز فتح پوری نے انتقادیات جلداول میں اپنا تنقید مسئلہ ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
"جب میں کسی شاعر کے کلام پر انتقادی نگاہ ڈالتا ہوں تو اس سے بحث نہیں کرتا کہ اس کے جذبات کیسے ہوں گیبلکہ صرف یہ کہ اس نے ان کو ظاہر کرنے میں کیا اسلوب اختیار کیا ہے۔وہ ذہن سامع تک اس کو پہنچانے میں کامیاب ہوا ہے کہ نہیں۔خواہ بیان حسن و عشق کا ہویا نحو کی پن چکی کا، اس سے غرض نہیں۔دیکھنے کی چیز صرف یہ ہے کہ شاعر جو کچھ کہنا چاہتا ہے وہ واقعی الفاظ سے ادا ہوتے بھی ہیں کہ نہیں۔"
10۔نفسیاتی تنقید:
یہ علم کسی ادیب یا شاعر کے ذہنی میلانات، نفسی کیفیات، جذباتی واردات،طرز فکر واحساس،رنگ، طبیعت اور عناصر شخصیت کو روشنی میں لا کر اس کی تخلیقات کو سمجھنے میں ہماری اعانت کرتا ہے۔نفسیاتی تنقید کا بانی "فرائیڈ"کو تصور کیا جاتا ہے۔فرائیڈ نے ایک مثلث بنائی اور اس کے مطابق تنقید کے لیے ضروری ہے کہ شعور، لاشعور اور تحت الشعور کو دیکھا جائے۔شعور تو وہ ہے جسے ہم جانتے ہیں مثلا میں شعوری طور پر جانتا ہوں کہ ایم فل اردو کی کلاس میں ۹۷ طالب علم ہیں یا ڈاکٹر مشتاق عادل صاحب ہمیں تنقید پڑھاتے ہیں۔
شعور کے بعد دوسری اہم چیز "تحت الشعور" ہے جو شعور میں ہوتی تو ہے لیکن تھوڑی دھندلی ہو جاتی ہے مثلا میرے پاس فرہنگ آصفیہ اور نوراللغات کے علاوہ ایک اور لغت بھی تھی لیکن کون سی تھی یہ یاد نہیں۔لیکن دماغ پر تھوڑ ازور دینے سے مجھے یاد آجاتا ہے کہ میرے فیروزاللغات بھی تھی۔لاشعور سے مراد وہ بات جو بہت دور کہیں ہمارے دماغ میں چھپی ہوتی ہے اور شاید ہمیں بھی معلوم نہیں ہوتی مثلاایک بندے کو سزائے موت ہو جاتی ہے اور اسے کہا جاتا ہے کہ آپ کو پھانسی پر لٹکا دیا جانا ہے۔اس کے ساتھ اسے یہ کہا جاتا ہے کہ پھانسی تو بڑی دردناک ہے۔وہاں تمہاری لاش دو تین منٹ لٹکتی رہے گی اور تمہیں بڑی تکلیف ہوگی اس لیے کیوں نا ہم تمہیں زہر کا ٹیکہ لگا دیں تاکہ تو جلدی مرجائے اور تمہیں اذیت کم ہو۔وہ فوری طور پر تیار ہوجاتا ہے۔وہ سامنے دیکھتا ہے کہ زہر کا ٹیکہ تیار کرلیا جاتا ہے اور اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی جاتی ہے اور نفسیاتی تجربے کے طور پر اس کے جسم پر ٹیکے کی بجائے ایک عام سوئی چبھوئی جاتی ہے۔دیکھنے میں آتا ہے کہ کچھ ہی دیر میں وہ بندہ مرجاتا ہے۔پوسٹ مارٹم کے بعد یہ انکشاف ہوتا ہے کہ اس کے جسم کے اندر سے ٹیکے والا زہر برآمدہوتا ہے یعنی اس کے جسم کے اندر وہ زہر بن جاتا ہے۔یہ کیسے ہوا؟اس کے شعور میں یہ بات آچکی تھی کہ اب مجھے انجیکشن لگنا ہے اور میں نے مرجانا ہے تو اس کے جسم نے زہر بنانا شروع کردیا۔اسے لاشعور کہتے ہیں۔
فرائید نے نفسیاتی تنقید کی بنیاد شعور، تحت الشعور اور لاشعور کے اوپر رکھی ہے۔فرائیڈ کے مطابق اس وقت تک کسی فنکارکی تخلیقی صلاحیتیں اور اس کے فن پاروں کو نہیں سمجھا جا سکتا جب تک اس کے تحت الشعور میں چھپی ہوئی خواہشات کو نا سمجھا جائے کیونکہ وہی فنی تخلیق کا باعث بنتی ہیں۔شاعر کی شاعری کو سمجھنے کے لیے اس کے تحت الشعور میں جانا لازم ہے۔
اردو تنقید میں میراجی کو پہلا نفسیاتی نقاد کہا جاتا ہے لیکن ڈاکٹر سلیم اختر نے اس رائے سے اختلاف کرتے ہوئے مرزا محمد ہادی رسوا کو اردو کا پہلا نفسیاتی نقاد قرار دیا ہے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر وزیر آغا، حسن عسکری اور ریاض احمد بھی نفسیاتی طریقہ تنقید سے دلچسپی لیتے رہے۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...