Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > مباحث > تنقید کا یونانی اور لاطینی دور

مباحث |
حسنِ ادب
مباحث

تنقید کا یونانی اور لاطینی دور
ARI Id

1689956600868_56117446

Access

Open/Free Access

Pages

۱۳۳

تنقید:
تنقید عربی زبان کا لفظ ہے۔جس کے معنی جانچنا، پرکھنا ، کھرے اور کھوٹے کو الگ کرنا ہیں۔
تنقیدکی ضرورت و اہمیت:
تنقید کا سلسلہ تخلیق آدم سے شروع ہوا۔ جب اللہ تعالی نے حضرت آدم ؑ کو پید اکیا تو فرشتوں نے اللہ سے گزارش کہ کہ یہ انسان دنیا میں جاکر فساد اور لڑائی جھگڑے کرے گا۔ اس کی تخلیق کی ضرورت کیوں پیش آئی؟عبادت کے لیے تو ہم کافی ہیں۔ اس کی تخلیق پر نظر ثانی کی جائے۔اللہ نے فرشتوں کوغرض تخلیق آدم? سے آگاہ کیا۔سب سے پہلے آدمؑ پر تنقید کی گئی یعنی تخلیق پر تنقید ہوئی۔
نقاد بھی اسی دن پیدا ہوگیا تھا جس دن پہلی تخلیق ہوئی تھی۔اس حوالے سے پہلا شخص سقراط تھا۔ اس سے فلسفے کی بنیاد پڑی۔اس نے اپنے ہاتھ سے کچھ نہیں لکھا لیکن اس کی باتوں کو اس کے شاگرد افلاطون نے مکالمے کی شکل میں لکھا اور اس کتاب کا نام" مکالمات افلاطون"ہے۔اس کتاب میں زندگی کے تمام موضوعات پر بات کی گئی ہے۔ اس میں ایک مثالی ریاست کے موضوع پر بھی بات کی گئی ہے۔یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ تنقید کی ابتداء یونان سے ہوئی۔
بوطیقا ارسطو کی کتاب ہے۔ بوطیقا میں ارسطو نے نقل، فطرت، شاعری کی اصل، شاعری کی اقسام، المیہ کے اصول وغیرہ پر بحث کی ہے اور شاعری کا ایک آفاقی نظریہ پیش کیا ہے۔ ’’نقل‘‘ جمالیات کی ایک بنیادی اصطلاح ہے۔ ارسطو اس لفظ کا اطلاق شاعری پر کرتا ہے۔ پروفیسر بوچر کے الفاظ میں ارسطو کے ہاں نقل کا مطلب ہے حقیقی خیال کے مطابق تخلیق کرنا اور خیال کے معنی ہیں اشیا کی اصل جو عالم مثال میں موجود ہے، جس کی ناقص نقلیں اس دنیا میں نظرآتی ہیں۔ عالم حواس کی ہر شے عالم مثال کی نقل ہے۔
دنیا کا پہلا معلوم شاعر "ہومر"تھا اور وہ بھی یونانی تھا۔ جن کا دور 8 صدی قبل مسیح کا ہے۔ اس نے ایلیاڈ اور اوڈیسی جیسی شاہکار رزمیہ نظمیں لکھیں تھیں۔ اْس کا اصل زمانہ معلوم نہیں ہے مگر ??رودوت کا کہنا ہے کہ وہ ہومر کا زمانہ اْس سے تقریباً 400 سال پہلے کا ہے جبکہ کچھ قدیم تخمینہ ٹرائے کی جنگ جو 12 صدی قبل مسیح بنتا ہے۔ وہ ایک نابینا کہانی گو کے حوالے سے بھی پہچانا جاتا تھا۔ اہل یونان کے لیے اس کی نظمیں بائبل کا درجہ اور شکل رکھتی ہیں۔
ڈاکٹر جمیل جالبی کے مطابق:
"ہومر کے ہاں جو دنیا کا پہلا معلوم شاعر ہے۔عظیم شاعرانہ قوتوں کے ساتھ ساتھ گہرے تنقیدی شعور کا احساس ہوتا ہے۔"
پہلا خالق ہی پہلا ناقد ہوتا ہے۔ اس حوالے سے پہلی مثال ورجل (Virgil)ہے۔اس نے ایک نظم (Aeneid) لکھی اور اس کی تزئین و آرائش میں ساری عمر گزار دی۔ اس نظم میں مذکورہ علاقوں کے سفر کے لیے اس نے ان تمام علاقوں کا سفر کیا۔ اس نے لکھا کہ میرے مرنے کے بعد میری نظم کو جلا دیا جائے۔ اس نظم پر کسی نے بھی تنقید نہیں کی یعنی پہلا تخلیق کار ہی اپنی تخلیق سے مطمئن نا تھا۔
ورجل 15 اکتوبر 70 قبل مسیح کو پیدا ہوا۔ وہ روم سب سے عظیم شاعر مانا جاتا ہے۔ اس کی لکھی ہوئی نظم اینیڈ (aeneid) قدیم روم کے زمانے سے لے کر آج تک ایک قومی رزمیہ (national epic) کا درجہ رکھتی ہے۔ اس نے یہ 29 قبل مسیح سے 19 قبل مسیح کے درمیان میں لکھی تھی۔ یہ اس کا بہترین کام اور مغربی ادب کی تاریخ کی سب سے اہم نظم ہے۔ رواج کے مطابق ورجل نے 19 قبل مسیح کو یونان کا سفر کیا تا کہ اینیڈ پر نظر ثانی کر سکے۔ یونان کے شہر میگارا کے پاس سے گزرتے ہوئے اسے بخار ہو گیا۔ بحری جہاز سے اٹلی جاتے ہوئے وہ مزید بیماری سے مزید کمزور ہو گیا۔ اور اطالیہ میں برینڈیسی کی بندرگا پر 21 ستمبر 19 قبل مسیح کو اس کا انتقال ہو گیا۔
افلاطون نے مثالی ریاست کا جو تصور پیش کیا اس نے اس میں شاعری کی اجازت دینے کی بات کی لیکن یہ شاعری نیکی، انصاف اور بہادری کے نمونوں پر مبنی شاعری ہونی چاہیئے۔ نوجوانوں کے جذبات میں وجدانی یا ہیجانی کیفیت پیدا کرنے والی شاعری کی اجازت نہیں ہوگی۔ارسطو نے افلاطون کے نظریات پڑھ پر اپنے نظریات تشکیل دیئے اور ان میں وہ کہیں حمایت میں اور کہیں مخالفت میں نظرآتاہے۔ بوطیقا میں شعر و ادب سے متعلق تین باتیں کی ہیں۔
• فن میں نقل کا مقصد
• شاعری کا مقصد اور اہمیت
• شاعری کی افادیت
ارسطو کے مطابق بڑی شاعری ہمہ گیری اورکائناتی صداقتوں کی حامل ہوتی ہے اور زمان و مکان کی اسیر نہیں ہوتی جیسے اقبال کا مطالعہ آج بھی دنیا بھر میں ہورہا ہے۔ ارسطو کے نزدیک شاعری سے چار کام لیے جا سکتے ہیں؛
• لذت • اخلاقی تربیت
• تفریح • تزکیہ نفس
ارسطو کے مطابق شاعری میں المیہ(دکھ) کے علاوہ رزمیہ(بہادری)، طربیہ(خوشی) اور غنائیہ (موسیقی)بھی ہونا چاہیئے۔اپنی کتاب بوطیقا کے شروع میں ارسطو نے المیہ کا ذکر تفصیل سے کیا ہے جبکہ رزمیہ پر مختصر گفتگو کی ہیلیکن اس کے برعکس طربیہ اورغنائیہ کا ذکر کرنا بھول گیا ہے۔
پہلی صدی عیسوی میں لانجائنس پہلے رومانوی نقاد کے طور پر سامنے آیا۔اس نے ترفع (Sublime)کا نظریہ پیش کیا۔اس سے عام مراد جمالیات اور خوبصورتی ہے۔ترفع زبان کی عظمت و شوکت ہے اور اس کا مقصد شعر و نثر دونوں میں انسانوں کو وجدانی کیفییات کا حامل بنانا ہے اور یہ کام ایک موثر اور بروقت ضرب سے لیا جا سکتا ہے۔رومانویت کی ابتدا لان جائنس نے کی۔ لان جائنس اپنے مخصوص نظریہ ترفع کے پانچ ماخذات کا ذکر کرتا ہے۔ اور ان میں دو کو فطری اور تین کو اکتسابی قرار دیتا ہے
• عظمت خیال • شدت جذبات
• صنائع و بدائع کا مناسب استعمال • اعلی الفاظ کا انتخاب
• اعلی ترتیب الفاظ
مغربی ادب میں ’’ لانجائنس ‘‘ پہلا باقاعدہ رومانو ی نقاد جانا جاتا ہے۔ جس کے ہاں ’’ نظریہ ترفع‘‘ اور ’’عالم وجد ‘‘ ملتے ہیں۔ نظریہ ترفع میں لانجائنس اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کہ خالق عمل تخلیق میں ایک عالم وجد میں پہنچ جاتا ہے۔ اور اس سطح سے جب وہ کوئی تخلیق قاری کے سامنے پیش کرتا ہے تو لازم ہے قاری بھی اس عالم وجد میں پہنچ جائے۔ اس کی کیفیت خالق سے ہم آہنگ ہو جائے وہ اپنی سطح سے اْٹھ کر خالق کی سطح پر جا پہنچے اور ایک وجدانی کیفیت سے دوچار ہو۔
مندرجہ بالا ماخذات میں سے عظمت خیال اور شد ت جذبات عطیہ خداوندی(فطری) ہے۔ مولانا الطاف حسین حالی نے بھی کہا ہے کہ بلند پروازی شاعری کے لیے ضروری ہے۔یونان کے اس عہد میں ادب کے آفاقی نظریے کلاسیکیت، رومانویت دونوں سامنے آتے ہیں۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...