Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > مباحث > مغربی تنقید کے اہم نام

مباحث |
حسنِ ادب
مباحث

مغربی تنقید کے اہم نام
ARI Id

1689956600868_56117447

Access

Open/Free Access

Pages

۱۳۶

موضوع 9:مغربی تنقید کے اہم نام
پس منظر:
لان جائنس کے بعد۱۳۰۰ سال تک خاموشی رہتی ہے اور پھر "دانتے" کے آنے سے یہ خاموشی ٹوٹتی ہے۔انگلستان میں "فلپ سڈنی" ، فرانس کے "بولو"ڈرائیڈن ، پوپ، جانس، گوئٹے، ورڈز ورتھ، کولرج وغیرہ جیسے قابل ذکر نام ہمارے سامنے آتے ہیں۔
ورڈزورتھ:
ورڈز ورتھ کا تعلق انگلینڈ سے تھا۔ اس کی ملاقات کولرج سے ہوئی اور مل کر سوچا جو شاعری ہو رہی ہے اس میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔لہذا وقت کی ضرورت ہے کہ انگریزی ادب میں تبدیلی لائیں تاکہ مقصدیت کو بھی ہو۔ لوگوں کو فائدہ بھی ہوگا اس کے لیے ماحول تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ورڈزورتھ نے اپنی کتاب"کلیریکل بلیڈز " کے دوسرے ایڈیشن میں ایک مقدمہ یعنی تمہید لکھی۔جیسے مقدمہ شعر و شاعری میں حالی نے شروع میں جو صفحات لکھے اردو ادب میں ان کو بنیادی اہمیت حاصلہے۔ اسی طریقے سے جو تمہید ورڈزورتھ نے لکھی وہ تنقید کا پورا راستہ متعین کرتی ہے۔اس میں انہوں نے اپنا نکتہ نظر اور ماہیت بیان کی۔ انہوں نے بتایا کہ نئی شاعری کس طرح کی ہونی چاہیئے۔اس کے قواعد و ضوابط کیا ہوں۔ورڈز ورتھ کی تمہید اس اعلان سے شروع ہوتی ہے :
"شاعری بادشاہوں، امیروں اور نوابوں کے لیے نہیں ہے۔اب وہ دور ختم ہوگیا جب اس بات کا خیال رکھا جاتا تھا کہ بادشاہوں کو جو پسند ہے وہ لکھا جائے۔ اب جو موضوعات اور زبان کا معیار ہے وہ لکھا جائے۔اس کے لیے کچھ اصول متعین کیے جانے ہیں۔انہی پر عمل کیا جائے گا۔ اب زبان اور موضوع شاہی دربار سے نکل کر عوام میں واپس آجائے گا۔"
ورڈزورتھ نے جو تھیوری پیش کی اس کا مطلب یہ ہے کہ اب عوام کے لیے لکھیں۔ ورڈزورتھ نے لکھا کہ:
"شاعری اور ادب کا مقصد عام زندگی سے موضوعات حاصل کرکے انہیں شاعری میں ڈھالنا ہے۔"
جیسے نظیر اکبرآبادی کو عوامی شاعر کہا جاتا ہے کیونکہ ان کے موضوعات عوام سے متعلقہ ہیں تو انہوں نے یہ کہا کہ وہ دیہاتیوں کو معیار بناتا ہے۔ ان کی تعریف و توصیف کرتا ہے۔ ان کی زبان کو شاعری کی زبان بناناچاہتا ہے۔ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ کلاسیکی لوگوں نے شاعری پر بناوٹی اور مصنوعی رنگ مسلط کیا ہوا ہے۔وہ اس طرز کے خلاف اعلان بغاوت کرتا ہے اور روزمرہ کی عا م زبان کوشاعری میں برتنے کا دعوی کرتا ہے۔ مثلا ہمارے ہاں غالب اور میر بہت بڑے نام ہیں لیکن جب میراجی، ن۔م۔راشد اور مجید امجد جیسے لوگ آئے تو انہوں نے کہا کہ غزل اپنی جگہ ہے لیکن نظم کی صورت میں جدید شاعری کی شکل میں لوگوں کے جذبات کی ترجمانی ہونی چاہیے۔انہوں نے جدید نظم ، جدید شاعری کی بنیاد رکھی۔ اس طرح ورڈزورتھ نے شاعری کو عام آدمی کا موضوع بنانے کی بات کی ہے۔
ورڈزورتھ شاعری کو دل کی آواز اور بیسا ختہ استعمال کہتا ہے۔اسے شہری زندگی سے بالکل دلچسپی نہیں تھی۔ اس کا زاویہ نگاہ نیچر کے ساتھ رہنے والے لوگ وہ ہیں اورنیچر کے ساتھ رہنے والے انسان دیہات میں رہتے ہیں۔دیہات کے مناظر فطری شاعری کے موضوعات ہیں۔
ورڈزورتھ دیہاتیوں کی زبان کو زیادہ موزوں سمجھتا ہے کیونکہ جو لوگ نیچر کے ساتھ رہتے ہیں ان کا تعلق اسی زبان سے ہوتا ہے۔مثلا ماہرین لسانیات کے مطابق خالص زبان اور معیاری لہجے دریاؤں کے اردگرد لوگوں سے ملیں گے۔کیونکہ قدیم تہذیبیں قدیم لوگ ، قدیم آبادیاں وہیں ہیں اور جو قدیم آبادیاں ہیں وہاں یہ اصل زبان موجود ہے۔جو آبادیاں بعد میں بنیں وہاں پہ آکے زبان کا وہ خالص پن نہیں رہا۔ ورڈزورتھ کے مطابق جذبات ہی اصل چیز ہے اور شاعر کا کام یہ ہے کہ دوسروں تک یہ جذبات اس طور پہنچائے کہ جیسے پڑھنے والے کو یوں معلوم ہوں جیسے یہ شاعری میرے لیے کی گئی ہے اورلوگوں کو لگے کہ ادب ان کے لیے تخلیق کیا گیا ہے۔
کہانی اپنی رودادِ جہاں معلوم ہوتی ہے
جو سنتا ہے اسی کی داستاں معلوم ہوتی ہے
ورڈزورتھ یہ کہتا ہے کہ:
" شاعری ایک قسم کے پراسرار رشتے کو جنم دیتی ہے جو دوانسانوں میں قائم ہوجاتا ہے۔"
اس ساری تمہید سے یہاں مراد یہ ہے کہ جو اس کی کتاب ہے وہ بھی ایک نظم ہے جو ایک خاص قسم کی شاعری کا ذوق پیدا کرنے کے لیے لکھی گئی۔ اس کتاب میں جہاں کہیں ورڈزورتھ شاعری پر اظہار خیال کرتا ہے وہیں وہ الجھ جاتا ہے(یہ منفی پہلو ہے)، مثلا جب وہ کہتا ہے کہ نظم اور نثر میں کوئی فرق نہیں اور پھر یہ بھی پوچھتا ہے کہ آخر اس زبان نے بحروں کا استعمال کیوں کیا تو وہ خود بھی الجھ کر رہ جاتا ہے۔جیسے مسدس حالی،مقدمہ شعر وشاعری کا پہلا حصہ تنقید پر مشتمل ہے۔اس سے آگے پڑھیں تو پتہ چلتا ہے کہ حالی نے جو زاویے مقررکیے ان پر آگے چل کر عمل کیا۔ورڈزورتھ کے مطابق نثر اور نظم کی ایک زبان ہے۔
ورڈزورتھ کی فطرت شاعرکی فطرت ہے۔جو نظم میں اپنا اظہار کرسکتی ہے۔ وہ نقاد نہیں ہے کہ اسباب پر روشنی ڈالے۔ان سوالوں کی تشنگی کولرج دور کرتا ہے۔وہ ان سوالوں کا ایسا تسلی بخش جواب دیتا ہے کہ یورپ کی تنقید آج بھی اس(کولرج) کے بغیر نامکمل ہے۔ یہاں ورڈزورتھ پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ نثر اور نظم کی ایک زبان ہوتی ہے۔ جبکہ ایسا نہیں ہے نثر کی اپنی مخصوص زبان ہوتی ہے اور نظم کی اپنی مخصوص زبان ہوتی ہے۔ اگر آگے چل کر دیکھیں تو ہر صنف یعنی غزل، نظم، افسانے وغیرہ کی اپنی اپنی مخصوص زبان ہوتی ہے۔
کولرج:
ورڈزورتھ کی تمہید کے سترہ سال بعد کولرج نے "بائیو گرافیا لیٹریریا" کتاب لکھی۔ اس کتاب میں کولرج نے ورڈزورتھ کیعام خیالات سے اتفاق کیا لیکن مختلف جگہ پر اختلاف کیا۔ اس نے بتایا کہ کون کون سی باتیں اس کی ٹھیک ہیں اور کون سی غلط ہیں۔خاص طور پردیہاتیوں کی زبان پر بھی اختلاف کیا۔کولرج کے مطابق دیہاتیوں کی زبان اپنی جگہ برقرار رہتی ہے لیکن شہری زبان میں جدت آجاتی ہے۔نئے الفاظ لے آتے ہیں، نئے محاورات آجاتے ہیں لہذا شہریوں کی زبان زیادہ اچھی ہے۔
کولرج کے نزدیک بہترین زبان مفکروں کی زبان ہے لیکن ضروری ہے کہ ان کی زبان کو روایتی نارہنے دیا جائے۔ اپنی اس تصنیف میں کولرج منطق، فلسفہ اور مابعد الطبیعات کی طویل بحث اٹھاتا ہے۔اور یہ واضع کرتا ہے کہ شاعری کی زبان دیہات کی زبان نہیں بلکہ معیاری زبان ہونی چاہیئے جو روزمرہ کی معیاری زبان کے قریب ہو اور جس میں شاعر حسب ضرورت اضافہ اور تبدیلی کرسکے۔زبان کے سلسلے میں یہی تخلیقی آزادی ہے۔
ورڈزورتھ نے کہا تھا کہ نظم اور نثر کی زبان میں فرق نہیں ہوتا تو کولرج اس بحث پر تفصیل سے بات کرتا ہے کہ وزن کیا ہے، بحر کیا ہے، بحر کی ضرورت کیوں پڑتی ہے۔وہ بتاتا ہے کہ نظم و نثر کے لیے علیحدہ علیحدہ زبان ہونا ضروری ہے۔کولرج یہ سوال بھی اٹھاتا ہے کہ جب وہ اصول رد کیے گئے جو قدماء نے وضع کیے تھے تو ادب کو پرکھنے کے لیے پھر کون سے اصولوں سے کام لیا جائے۔ یہ سوال اٹھا کہ شاعری کی الہامی قوت پر زور دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جو الہامی قوت ہوتی ہے وہ ایک پراسرار قوت ہوتی ہے۔الہامی قوت کبھی دھوکہ نہیں دیتی۔شاعری اس سے متضاد اور الگ چیز ہے۔اس کے الگ الگ ٹکڑوں سے وہ اثر پیدا نہیں ہوتا جو ایک پوری نظم پڑھنے سے ہوتا ہے۔ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ شاعر پیدائشی ہوتا ہے اور عروض بھی اندر سے اٹھتا ہے۔جس کے مطابق وہ شاعری تخلیق کرتا ہے۔
رو مانوی ادب نے مزاح کے سخن کو آزادی دلا کر اور شاعر کی ذات کو اہمیت دے کر عام آدمی کے ہاتھ سے ذاتی رائے اور بے اصولی کا ایک ایسا اصول دے دیا کہ آئندہ دور میں وہ توازن قائم نہ رکھ سکا جو اچھے ادب میں بنیادی شرط تھی۔کولرج کے بنیادی فلسفے کو یہ نقصان ہوا۔
میتھیوآرنلڈ:
میتھیوآرنلڈ۱۸۲۲ء میں پیدا ہوا اور ۱۸۸۸ئمیں فوت ہوا۔ ابتداء میں اس نے شاعری کی۔ اپنی نظموں پر دیباچے لکھے۔ انتہا پسندانہ رویوں پر تنقید کی۔ ہر تخلیق کار کے اندر ایک نقاد موجود ہوتا ہے۔یہ شاعر تو تھا لیکن اس کے اندر تنقید کی حس بھی موجود تھی۔بعد میں اس نے شاعری چھوڑ دی اور پوری توجہ تنقید کی طرف دی۔
اس نے نقاد کے منصب کے بارے میں کہا کہ نقاد کو لکیر کا فقیر نہیں ہونا چایئے اور ناہی رومانویوں کی طرح اصولوں سے بالاتر ہونا چاہیے بلکہ اس زمانے کے تقاضوں کے مطابق خود اصول وضع کرنے چاہییں یعنی نقاد کو نا کلاسیکی اور نا رومانوی ہونا چاہیے۔ان اصولوں کو حرف آخر نہیں ہونا چاہیئے اور وقت کے ساتھ ان میں تبدیلی ہونی چاہیے۔شاعری کا معیار بلند ہونا چاہیے۔آرنلڈ ادب کو سمندر سمجھتا ہے اور ادب سے ہر کوئی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔آرنلڈ تمام یورپ کے ادب کو ایک ارتقاء کے سلسلے سے دیکھتا ہے۔یہ وہی نقطہ نظر ہے جس نے اسے مقبولیت دی اور آج تک ادب کو اسی زاویے سے دیکھا جاتا ہے۔ آرنلڈ کے نزدیک ادب کی تاریخ میں دو طرح کے دور آتے ہیں؛تنقیدی عمل اور مواد جمع کرنااور جب مواد جمع ہو جاتا تو تخلیق اپنے کمال کو پہنچتی ہے۔پہلے سب کچھ اکٹھا ہوتا ہے تو اچھی تخلیق کی جانب جاتے ہیں تب فائدہ اٹھاتے ہیں۔
ٹی ایس ایلیٹ:
ٹی ایس ایلیٹ ۸۸۸اء میں پیدا ہوا اور ۱۹۶۵ئمیں فوت ہوگیا۔اس نے ایک دفعہ کہا کہ:
"ادب میں اس کی سوچ کلاسیک ہے،سیاست میں شاہ پسند ہے اور مذہب میں اینگلو کیتھولک ہے۔"
اس کے اعلان سے اس کی شخصیت سمٹ کر سامنے آتی ہے۔ ایلیٹ رومانوی رجحانات کی نفی کرتا ہے۔ وہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ شاعری میں شخصیت اہم نہیں ہے بلکہ کلام کی اہمیت زیادہ ہے۔شاعرکی شاعری کے وہ حصے زیادہ پسند ہوتے ہیں۔بنیادی فرق یہ ہے کہ رومانویت والے کہتے ہیں کہ شاعر کو اہمیت دو جبکہ کلاسیکیت والے کہتے ہیں کہ کلام کی اہمیت زیادہ ہے نا کہ فنکار کی۔ایلیٹ کے بقول کسی شاعری کی شاعری کے وہ حصے زیادہ اہم ہوتے ہیں جو شاعر کوبھول کر روایت میں گم گم کر دیں۔اس کامطلب یہ نہیں کہ روایت ہی اہم ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ زمانے کی تبدیلی بھی ضروری ہے۔ شاعری میں تاریخی شعور ہونا چاہیے۔یعنی وقت کے ساتھ ساتھ جو تبدیلیاں ہوتیں ہیں اس سے بھی فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ایلیٹ کے نزدیک نقاد کا منصب یہ ہے کہ وہ غیر جانبدار ہو۔تب ہی وہ صحیح فیصلے کرسکتا ہے۔جب وہ غیر جانبدار ہوگا اس کی مدد سے ہمیں صحیح فیصلوں تک پہنچنے کا معیار مل جاتا ہے۔ ایلیٹ بھی آرنلڈ کی طرح ادب کو کلچر کی ایک شاخ سمجھتا ہے۔مذہب اور کلچر ایک دوسرے سے وابستہ ہیں۔مذہب کلچر کو ایک نیا توازن دیتا ہے۔اس لیے وہ شاعری کا مذہبی رسوم اور عبادات سے مقابلہ کرتا ہے۔اس کے آخری دور کی نظمیں وہی اثر رکھتی ہیں جوکسی بھی مذہبی رسم کا ہوتا ہے۔ یعنی آخر میں وہ مکمل طور پر مذہب کے اندر مذہب آجائے گا تو وہ زیادہ جاندار بن جائے گی۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...