Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > مباحث > اردو تنقید کا ارتقا

مباحث |
حسنِ ادب
مباحث

اردو تنقید کا ارتقا
ARI Id

1689956600868_56117448

Access

Open/Free Access

Pages

۱۴۱

موضوع 10:اردو تنقیدکا ارتقا
تنقید کے پس منظرکاپہلانظریہ :
بعض لوگوں کے مطابق اردو تنقید کا آغاز تذکروں سے ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں فارسی زبان میں۱۷۶۷ء یں فارسی زبان میں چھپنے والے میر تقی میر کے تذکرے "نکات الشعراء " کو سب سے پہلا تذکرہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس میں اردو شاعروں کے حوالے سے لکھا گیا تھا۔اردو زبان میں پہلا تذکرہ ۱۸۰۸ء میں 'مرزا علی لطف 'نے" گلشن ہند "کے نام سے لکھا۔
تنقید کے پس منظرکادوسرانظریہ :
تمام ناقدین متفقہ طور پر۱۸۹۲ئمیں مولانا الطاف حسین حالی کے لکھے گئے "مقدمہ شعر و شاعری "کو تنقید کا نقطہ آغاز سمجھتے ہیں۔ ادب کی روایات پروان چڑھتے ہوئے۱۳۰سال میں ہماری تنقید نے جس رفتار سے ترقی کی ہے وہ بے مثال ہے اور اردو تنقید کی قابل رشک ترقی کا کسی بھی دوسری زبان سے موازنہ کیا جا سکتا ہے۔۱۸۹۲ئسے پہلے ایک مورخ اور بھی ہیں جن کا نام محمد حسین آزاد ہے۔ان کے لیکچر ز جو انہوں نے انجمن پنجاب کے پلیٹ فارم سے دیئے۔ان کو کتابی صورت میں 'آب حیات' میں اکٹھا کیا گیا۔بعض ناقدین کے مطابق مولانا حالی سے قبل ہی محمد حسین آزاد نے اردو تنقید کی بنیاد رکھ دی تھی۔
تنقید کے پس منظرکاتیسرانظریہ :
اردو تنقید کا آغاز استادی شاگردی کے اداروں اور مشاعروں اور مجلسی تنقید سے ہوا۔اس نظریے کے مطابق اردو شاعری اور تنقید کا آغاز ایک ساتھ ہوا۔ نئے تخلیق کار مشاعروں میں اپنی تخلیق پیش کرتے اور سامعین اس کی خوبیاں و خامیاں بیان کرتے ہیں۔اسے مجلسی تنقید کہتے ہیں۔اس لیے جب سے اردو شاعری شروع ہوئی ہے تب سے اردو تنقید کا آغاز ہوا ہے۔کلیم الدین احمد سمیت متعدد نقاد تذکرہ نگاری کو تنقید نہیں مانتے اس اعتبار سے آب حیات تک ہونے والی تنقید کو تنقید کا پس منظر توکہا جاتا ہے لیکن تنقید نہیں۔اس لحاظ سے تنقید کی پہلی کتاب مولانا محمد حسین آزاد کے لیکچرز جو بعد میں ان کی کتاب کا دیباچہ بنا یا پھرمولانا حالی کا مقدمہ شعر وشاعری جو وہ اپنے دیوان کے ساتھ لگانا چاہ رہے تھیلیکن انتہائی مفصل ہو جانے کی وجہ سے علیحدہ کتابی شکل میں چھپا۔
تقابلی تنقید کا آغاز:
تقابلی تنقید کا آغاز مولانا شبلی نعمانی سے ہوا۔آپ سوانح نگار اور مورخ بھی تھے لیکن 'موازنہ انیس و دبیر لکھ کر آپ نے تقابلی تنقید کا آغاز کیا۔مرزا ہادی رسوا کے تنقید ی مضامین نے نفسیاتی تنقید کی بنیاد رکھی۔یہ تنقید کا پہلا دور تھا۔
تنقید کا دوسرا دور(رومانوی تحریک):
اس دور میں لکھی جانے والی تنقید رومانوی تنقید کی بجائے تاثراتی تنقید تھی۔ لیکن اس دور کے نقاداسے تخلیقی تنقید سمجھتے تھے۔ تمام رومانوی نقاد ترقی پسندوں کے نظریات سے قربت کی وجہ سے ان کے ساتھ مل گئے۔یوں رومانوی نقاد بطور ترقی پسند معروف ہوئے۔
ترقی پسند تحریک:
ترقی پسند تحریک میں پہلا بڑا نام اختر حسین رائے پوری کا ہے۔انہوں نے ترقی پسند تنقید کا آغاز اس وقت کیا جب سید سجاد ظہیر انجمن ترقی پسند مصنفین کا پروگرام لے کر ابھی ہندوستان میں پہنچے ہی نہیں تھے۔ اختر حسین رائے پوری کی ترقی پسند تنقید کا آغاز جولائی ۱۹۳۵ ء میں رسالہ اردو میں چھپنے والے مضمون ادب اور زندگی سے ہوا جب کہ ترقی پسند تحریک کا باقاعدہ آغاز ۱۹۳۶ ء میں ہوا ۔ ابتدا میں ان ترقی پسند دانش وروں میں شدت پسندی بہت زیادہ تھی۔ ابتدائی ناموں میں زاہد انصاری ، احمد علی، عبدالعلیم اورعلی سردار جعفری ہیں۔
شدت پسندی کے نقصانات کی وجہ سے ان کا اندازہ سجاد ظہیر کو بہت جلد ہوگیا پھر انہوں نیاس کے تدارک کے لیے ترقی پسند نقطہ نظر میں توازن و اعتدال پیدا کرنے کے لیے اپنی کتاب "روشنائی" لکھی۔بعد میں عزیز احمد، مجنوں گورکھپوری، احتشام حسین اورممتاز حسین جیسے لوگوں نے ترقی پسند دبستان کو تشکیل دینے میں کردار اد اکیااور تحریکی نقطہ نظر کو ادبی اصولوں سے ہم آہنگ کیا۔
۱۹۵۳ء میں انجمن ترقی پسند مصنفین پر پابندی لگ گئی جب کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پرپابندی لگائی گئی تھی۔اس کے بعد ترقی پسند لوگ یا تو خاموش ہو گئے یا دوسرے ناموں سے کام کرنے لگے۔۲۰۰۱ء میں لاہور میں ترقی پسند تحریک دوبارہ شروع ہوئی اورانجمن کی سرگرمیاں بحال ہوئیں۔یہ نئے ترقی پسند پیپلز پارٹی کے جیالے تھے۔ان میں کوئی پائے کا نقاد نہیں ملا۔بلاشبہ ترقی پسند تحریک اردو کی سب سے بڑی ادبی تحریک تھی۔ادب پر جتنے اثرات اس تحریک نے مرتب کیے کوئی دوسری تحریک اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔
حلقہ ارباب ذوق:
پاکستانی تنقید میں حلقہ ارباب ذوق کا کردار بڑا اہم ہے۔حلقہ اربا ب ذوق کا آغاز ۱۹۳۹ء میں ہوا۔یہ چند ادیبوں کی نجی مجلس تھی جو بعد میں ترقی کرکے انجمن کی شکل اختیار کر گئی اسی لیے بعد میں اس کا باقاعدہ آئین اور منشور بنایا گیا۔حلقے کی تنقید کا مرکز 'میر اجی ' تھے۔میرا جی کو قیوم نظر حلقے کے اجلاس میں لے گئیبعد میں حلقے کے مزاج اور روایت کا آغاز میرا جی کی وجہ سے ہوا۔میرا جی سے پہلے اس حلقے میں تنقید کا معیار بڑا پست تھا۔ میرا جی نے حلقے میں نظم کے تجزیاتی مطالعے کا آغاز کیا جس نے ادب کی تفہیم کے نئے دور کا آغاز کیا۔اس کے بعد غزل، نظم، افسانے وغیرہ کا تجزیاتی مطالعہ شروع ہوا۔
حلقے سے تعلق رکھنے والے دوسرے اہم نقادوں میں مظفر علی سید ،جیلانی کامران ، انیس ناگی، سجاد باقر رضوی، سہیل خان، سعادت سعید ، سراج منیرشامل تھے جبکہ موجودہ دورمیں حلقہ ارباب ذوق کی سوچ رکھنے والوں میں ابرار احمد، غلام حسین ساجد، امجد طفیل اور پروفیسر ڈاکٹر ضیاء الحسن شامل ہیں۔حلقے کے مرکز سے ہی افتخار جالب کی لسانی تشکیلات کی تحریک اور جیلانی کامران کی نئی نظم کی تحریک بھی پھوٹی۔قیام پاکستان کے ساتھ ہی محمد حسن عسکری نے پاکستانی ادب کی مباحث شروع کیے۔محمد حسن عسکری کا ساتھ دینے والوں میں ایم ڈی تاثیر تھے۔ایم ڈی تاثیر بہت بڑے محب پاکستان اور سلمان تاثیر کے والد تھے۔صمد شاہین اور انتظار حسین وغیرہ۔انہوں نے مختلف رسائل میں مضامین لکھے اور کالم لکھیاور اپنے تنقیدی نظریات کے حوالیسے لوگوں کو آگاہی دی۔حلقے کا مزاج ۱۹۵۳ئمیں انجمن ترقی پسند مصنفین پر پابندی کے بعد بدلنے لگا۔پابندی کے بعد انجمن ترقی پسند مصنفین کے لوگ حلقہ ارباب ذوق میں شامل ہوگئے ان کے نظریات بائیں بازو کے تھے۔اس وجہ سے سوچ اور خیال بدلنا شروع ہو گیا۔چنانچہ۱۹۵۳ء سے ۱۹۷۰ء تک آتے آتے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ادیبوں اور دانشوروں کو غلبہ حاصل ہو گیایعنی انجمن ترقی پسند مصنفین کی اکثریت ادھر آگئی۔یوں دونوں تحریکیں ایک دوسر ے میں مدغم ہوگئیں اور بہتر طور پر ادب کی تفہیم و ترویج کا سلسلہ شروع ہوا۔
جدید تنقید:
۱۹۶۰ء کی دہائی میں مغرب میں چلنے والی جدیدیت کے اثرات اردو پر نظر آنے لگے اور ہمارے پاس جدید تنقید آگئی۔سرمایہ دارانہ نظام نے جس نئی سماجی زندگی کو پیدا کیااس نے معاشرے کیاندر انسان کو جیسا بنایا اسے ادب میں جدیدیت کی تحریک کہتے ہیں۔یہاں یہ بتانا قابل ذکر ہے کہ ہمارا معاشرا ابھی جدید ہوا نہیں تھا کہ ہمارے ہاں جدید تحریک آگئی۔اسی وجہ سے زندگی کے ابہام نے ادب کو بھی مبہم کردیا۔ادب کو علامتی اظہار کیوجہ سے جو پہلے ہی ذہنی سرگرمی تھی اس کا دائرہ مزید محدود کردیا گیا۔ ۰۶، ۰۷ کی دہائیوں تک بھارت اور پاکستان کی معاشرت جدید نہیں ہوئی تھی اس لیے ادب کا اظہار بھی مصنوعی طور پر مغر ب سیمرعوب ہو کرشروع کیا گیا۔مغرب سے ان مرعوب اور متاثر ہونے لوگوں نے جدید یت کی یہاں بنیاد رکھی۔
تقسیم ہند کے بعد دونوں ممالک نوآبادیاتی نظام کے تسلط میں چلے گئے تھے چنانچہ مغرب سے متاثر ہونے کا رویہ پیدا ہونا ناگزیر تھا۔۱۹۴۷ء سے تاحال مغرب سے متاثر ہونے کا ہمارا رویہ بتدریج بڑھتا جا رہا ہے۔قارئین کی غالب اکثریت جو اس رویے سے باغی تھے انہوں نے ادب کو رد کردیا۔جدید تنقید کے حوالے سے انور سجاد، سرندر پرکاش،منشایاد، خالدہ حسین اور رشید امجد وغیرہ کو صرف ادیبوں کے ایک مخصوص طبقے نے پڑھااور ادب کا تعلق معاشرے سے کٹ گیا۔اس کا نقصان یہ ہوا کہ ان لوگوں سے متنفر قارئین نے غیر معیاری مصنفین کو پڑھنا شروع کردیا۔جدید یت کے علمبردار بھارت کے اردو نقادشمس الرحمان فاروقی اور پاکستان کے اردو نقادڈاکٹر وزیر آغا تھے۔ان کے زیر اثر متعدد نقاد یہی کام کررہے تھے۔لیکن ان کے متوازی نقادوں کا ایک طبقہ ایسا تھا جنہوں نے تخلیق،تہذیب اور روایت کو مدنظر رکھ کر کام کیا ان نقادوں میں سب سے اہم نام محمد حسن عسکری کا ہے۔ ان کے علاوہ سلیم احمد،سجاد باقر رضوی،جیلانی کامران اور بھارت میں وارث علوی نئے تصورات بشمول ترقی پسندی کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے والے ہیں

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...