Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > مباحث > تدوین کی اہمیت

مباحث |
حسنِ ادب
مباحث

تدوین کی اہمیت
ARI Id

1689956600868_56117451

Access

Open/Free Access

Pages

۱۴۹

موضوع2:تدوین کی اہمیت
تدوین کی اہمیت:
ماضی کے افکار وخیالات سے آگاہی کا اہم ترین ذریعہ اسلاف کی تحریریں ہیں۔جس طرح ان کے نظریات سے آگاہی ہمیں ماضی، حال اور مستقبل کے رشتوں سے جوڑتی ہے۔اسی طرح ان کے نظریات سے درست آگاہی بھی ہمارے فکری زاویوں کو متوازن اور مربوط رکھنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ہم ماضی کے حالات و واقعات سے سبق حاصل کرتے ہیں۔حال میں ان سے کام لیتے ہیں اور مستقبل کے لیے لائحہ عمل وضع کرتے ہیں۔
متن کے حقیقی متن ہونے کا یقین:
جب تک ہمیں یقین نا ہوکہ ہمارے پیش نطر یا زیر مطالعہ کتاب یا تحریر من و عن ہمارے مصنف کے الفاظ اور جملوں پر مشتمل ہے ہم وثوق سے نہیں کہہ سکتے کہ مذکورہ مصنف کے خیالات یا رائے مسئلہ زیربحث کے بارے میں کیا تھی۔
تسکین ذوق:
ہم بسا اوقات ماضی کے طرز املاء کو جانچنا چاہ رہے ہوتے ہیں لیکن جب تک ہمیں پوری طرح یقین نا ہوجائے کہ یہی طرز املا ہے جو اس زمانے میں مروج تھی ہمارے ذوق کو تسکین نہیں ہوتی۔گویا تدوینی کام ذوق تسکین کا بھی باعث ہے۔
اصول تدوین کی پاسداری:
اگر تدوین میں اصول تدوین سے کام نا لیا جائے تو مختلف نسخوں میں سے جو نسخہ ہاتھ لگ جائے وہ اس کے مندرجات کو نقل کرتا رہے گا۔ اس بات کو مدنظر نہیں رکھا گا کہ مندرجات کا تعلق مصنف سے ہے یا کاتب سے ہے۔یوں منشائے مصنف ہم سے اوجھل ہو جائے گا۔
اقتباس کا مستند ہونا:
مستند نسخے کو ماخذ بنائے بغیر کسی اقتباس کواعتماد کے ساتھ پیش نہیں کیا جا سکتا۔اگر اقتباس کا تعلق مستند نسخے سے نا ہو گا تو غیر مستند اقتباس سے مستند نتائج اخذ کرنا محال ہوگا۔
مادی فوائد:
مادیت کے اس دور میں تحقیق وتدوین جیسے خالصتا علمی اور ادبی کام بھی متاثر ہوا ہے۔سرکاری اور نیم سرکاری اداروں میں ابوالہوس افراد نے مالی فائدے کے حصول کے لیے تدوینی کام کو مشق سخن بنایا ہے۔اس سے آسان پسندی اور بددیانتی نے جنم لیا ہے۔کام کرنے کی سچی لگن اور ریاضت کے معنی بدل گئے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ درویش منش اہل علم صحت متون کی ح?فاظت کے لیے جہادی جذبہ کے ساتھ اپنی خدمات اس خالص علمی کام کے لیے وقف کردیں۔
لسانیات اور صوتیات کا فروغ:
صحیح لسانی جائزوں کے لیے صحیح متون کا ہونا ضروری ہے۔تدوین لسانیات اور صوتیات کے فروغ میں بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ تاریخی امور کے برعکس ادبی معاملات میں مصنف کے انداز بیاں اور طرز املاء کو بھی اہمیت حاصل ہے۔گویا معیاری تدوین کے بغیر ادب کا تح?فط ممکن نہیں۔
زبان و بیان اور ثقافت:
بلحاظ زمانہ زبان و بیان اور طرز املا اپنی ثقافت سے جڑی ہوتی ہے۔ماضی سے مربوط رہنے کے لیے ضروری ہے کہ معیار تدوین پر کوئی سمجھوتہ نا کیا جائے۔
تدوین متن کی بازیابی اصل مفہوم کی بازیابی:
الفاظ جو مصنف کے قلم سے تحریر ہوئے ہوں ان کی بازیابی تدوین متن کہلاتی ہے۔ ڈاکٹر تبسم کاشمیری کے مطابق مولوی عبدالاسلام خان رام پوری نے سٹیٹ لائبریری رام پور میں مصحفی کے مخطوطات کی اصلاح کے دوران مرتبین نے مصحفی کے کلام کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا۔مثلا مصحفی کا شعر ہے:
دل کو ہے رفتگی اس ابروئے خم دار کے ساتھ
جوں سپاہی کے تئیں ربط ہو تلوار کے ساتھ
مرتب کا مرتبہ شعر یہ ہے:
دل کو یوں ربط ہیاس ابروئے خم دار کے ساتھ
جس طرح سپاہی کو ہو تلوار کے ساتھ
تبدیلیوں اور ترمیمات کی نشاندہی:
تدوین کی اہمیت یہ ہے کہ مصنف یا شاعر کے اپنے الفاظ تک قاری کی رسائی ہو سکے اور ابتدائے زمانہ سے جو تبدیلیاں اور ترمیمات معرض وجود میں آچکی ہیں قاری سے ان کو آگا ہ کیا جائے۔
مختلف نسخوں میں اختلافات کی نشاندہی:
تدوین ایک مشکل کام ہے۔ مخطوطات کو صحیح پڑھنا مشکل ہوتا ہے ایک ہی متن کے مختلف نسخوں میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔مدون کا کام یہ ہے کہ ایک قابل اعتبار متن تیار کرے جو ابتدائی ڈائری میں درج ہوتا ہے۔
زبان ادب کا ارتقائ:
ڈاکٹر رشید حسن خان لکھتے ہیں :
"جب تک قدیم متنوں کو اصول تدوین کی مکمل پابندی کے ساتھ مرتب نہیں کیا جائے گا اس وقت تک نا تو تحقیق کی بہت سی گھتیاں سلجھیں گی اور نا زبان و ادب کا بالکل صحیح سلسلہ سامنے آسکے گا۔"
صحت نسخہ کی سند کا باعث ہونا:
تدوین کا اولین فریضہ یہ ہے کہ کسی دستاویز کے بارے میں یقین دلا سکے کہ اس کے تمام الفاظ حتی کہ رموزو اوقاف بھی وہی ہیں جو مصنف کے پیش نظر تھے تاکہ نسخے کو مصنف کے منشائ￿ کے مطابق قرار دیا جا سکے۔
گمراہی سے بچاؤ کا باعث:
بالعموم معروف شعراء کے کلام میں الحاقی کلام شامل ہو جاتا ہے۔بعض اوقات اس کا سبب کاتب کا کمپوزر اور بعض اوقات جان بوجھ کر کوئی شخص اضافے کردیتا ہے۔مثال کے طور پر عبدالباری آسی نے خود ساختہ کلام کو غالب کا کلام قرار دے کر۱۹۳۱ء میں مکمل شرح دیوان غالب شائع کردی اور اردو ادب کے قارئین کو گمراہی کے راستے پر ڈال دیا۔اس واقع کے اڑتیس سال بعد جلیل قدوائی نے آسی کے دریافت کردہ کلام کا پردہ فاش کیا۔
متنی لغزشوں پر مسلسل نظر:
ابتدا ء میں تدوین متن کا اہتمام نہیں کیا جاتا تھا۔قلمی نسخوں کی نقول تمام تر کاتبوں اور خطاطوں کی مرہون منت ہوتی تھی۔وہ نقل متن کو مروجہ اسلوب کے مطابق اور کچھ اپنی افتاد طبع کے مطابق نقل کردیتے تھے۔اس میں بہت سی لغزشیں بھی ہوجاتی تھیں اور تحریف والتباس کا دروازہ بھی کھل جاتا تھا۔آج کمپوزنگ کے زمانے میں بھی کمپوزر سے بہت سی غلطیاںسرزد ہو جاتی ہیں۔ کلیات اقبال اقبال اکادمی نے اس دعوے کے ساتھ شائع کی یہ اغلاط سے پاک نسخہ ہے۔بعد ازاں جب ماہرین نے باریک بینی سے جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ اس میں بھی کچھ اغلاط موجود ہیں تو اکادمی کو اپنا دعوی واپس لینا پڑا۔ گویا تدوین کے بعد مزید تدوین کی گنجائش سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...