Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > مباحث > مخطوطہ شناسی اصول و ضوابط

مباحث |
حسنِ ادب
مباحث

مخطوطہ شناسی اصول و ضوابط
ARI Id

1689956600868_56117458

Access

Open/Free Access

Pages

۱۶۷

مخطوطہ معنی و مفہوم:
مخطوطہ عربی زبان کا لفظ ہے اس کے معنی ہاتھ سے لکھی ہوئی تحریری، قلمی نسخہ ، دستاویز یا غیر مطبوعہ قلمی کتاب کیہیں۔ اس میں نثری اور شعری دونوں طرح کا مواد شامل ہے۔مخطوطہ عربی زبان کا لفظ ہے اس کے معنی ہیں ہاتھ سے لکھی ہوئی تحریر اس کے لئے انگریزی میں Manuscript کی اصطلاح رائج ہے یہ لفظ لاطینی لفظ Manuscriptus سے بنا ہے.یہ دراصل دو الفاظ Manu اور Script کا مرکب ہے جس کے معنی با لترتیب ہاتھ اور لکھا ہوا کے ہیں۔ تاریخی طور پر یہ لفظ طباعت printing کی ایجاد کے بعد قلمی کتابوں کے لئے استعمال کیا جانے لگا۔ لاطینی ادب میں اس کا وجود پندرہویں صدی عیسوی میں ملتا ہے۔ڈاکٹر انجم رحمانی کے نزدیک :
" ابتدائے اسلام میں مخطوطہ کے لیے مسودہ کی اصطلاح بھی منظر عام پر آئی جس کا مادہ اسود یعنی سیاہ ہے۔چونکہ یہ کتابیں سیاہ روشنائی سے لکھی جاتی تھیں،اس لیے یہ مسودہ کہلائیں اور اس کے لکھنے والے کو مسود کہا گیا۔عالم اسلام میں قلمی کتابوں کے لئے مخطوطہ کی اصطلاح بالکل جدید ہے مخطوطہ کے لکھنے والے کو خطاط اور اس کی تحریر کو خطاطی کہتے ہیں۔ مخطوطہ کی اصطلاح اس وقت دنیا عرب ،افریقیائی ممالک،ترکی اور جنوبی ایشیامیں مروّج ہے۔ ایران افغانستان اور وسطی ایشیائی ممالک میں اس کے بجائے نسخہ خطی کی اصطلاح رائج ہے۔ ایران میں اس سے پہلے دست نویس کی اصطلاح رائج تھی۔ جنوبی ایشیا میں اس کے لئے خطی یا قلمی کتاب،قلمی نسخہ وغیرہ خصوصی الفاظ میں بھی مستعمل رہے ہیں۔"
ڈاکٹر گیان چند جین مخطوطہ کی تعریف یوں کرتے ہیں:
"ہاتھ سے لکھی ہوئی تحریر مخطوطہ کہلاتی ہے۔"
امجد علی شاکر تحقیق و تدوین میں لکھتے ہیں:
"مخطوطہ سے مراد کاغذ یا کسی بھی دوسری مادی شے پر لکھی ہوئی تحریر ہے۔"
مخطوطات کی اہمیت:
کتابیں علم کا سرچشمہ ہیں اور انسانی تہذیب کی ترقی کا کوئی تصور ان کے بغیر ممکن نہیں۔ کتابیں وہ صحیفے ہیں جن میں علوم و فنون اور ان کے مختلف شعبوں کے ارتقاء کی داستانیں رقم ہیں۔ دنیا بھر کی لائبریریوں میں قیمتی مخطوطے موجود ہں۔برصغیر پاک و ہند کے سرکاری اور نجی کتب خانوں میں بے شمار قیمتی مخطوطے محفوظ ہیں جن میں غیاث الدین بلبن اور اورنگ زیب عالمگیر کے لکھے ہوئے قرآن مجید کے نسخے بھی شامل ہیں۔
مصنف کے اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا مخطوطہ محفوظ ہو تو اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس میں حذف یا اضافہ و ترمیم ممکن نہیں ہوتی۔مصنف کی عدم موجودگی کے باوجود اس بات کی تصدیق ہو سکتی ہے کہ کون سا ایڈیشن مستند ہے اور کس ایڈیشن میں مصنف کے علم و اجازت کے بغیر ردو بدل کیا گیا ہے۔بصورت دیگر مدون کے پاس ایسی کوئی دلیل نہیں ہوگی جس کی بنا پر وہ کہ سکے کہ فلاں عبارت حتمی طور پر مصنف کی ہے اور فلا ں عبارت تحریف شدہ ہے۔مثلا سید علی ہجویری کی کتاب "کشف المحجوب" کے تین نسخوں نسخہ لاہور، نسخہ تہران اور نسخہ ماسکوکو مستند مانا گیا ہے لیکن ان تینوں میں متعدد مقامات پر فرق ہے۔
ایک دوسرا فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ جن مسودات کو کوئی دوسرا صاحب علم نظرثانی کرتا ہے ، عبارت اور مضمون کی اصلاح کرتا ہے وہ بسا اوقات انتہائی اہم ہوتی ہے۔اگر مخطوطہ محفوظ ہوگا تو براہ راست معلوم ہو سکے گا کہ مصنف کا اپنا کام کتنا اور کس معیار کا ہے۔نظرثانی کرنے والے کی محنت کتنی ہے۔ مثلا ملک کے معروف شاعر،ادیب اور صحافی آغا شورش کاشمیری (مرحوم) نے اپنا مجموعہ کلام "گفتنی ناگفتنی" اشاعت سے قبل اصلاح کے لیے اپنے استاد محترم احسان دانش کو پیش کیا۔انھوں نے بعض نظموں اور غزلوں میں اپنے اشعار شامل کر دیے۔
اصل مخطوطے کے محفوظ ہونے سے تاریخ تالیف اور عرصہ کا تعین ہے۔ کیونکہ مصنف بالعموم مخطوطے کی تکمیل پر اس کے آخر میں اس کی تاریخ تکمیل لکھتا ہے۔
مخطوطات کی تاریخ:
اگر دنیا بھر میں مخطوطات کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہ اندازہ لگانا ہرگز مشکل نہیں ہو گا کہ یہ کام اتنا ہی پرانا ہے جتنا کے فن کتابت۔ انسان نے جب سے لکھنا پڑھنا سیکھا تب سے مخطوطات کا آغاز ہو گیا تھا۔لیکن یہ مخطوطات کاغذ پر نہیں لکھے گئے تھے۔
انسان نے اول اپنے خیالات کے اظہار و ابلاغ کے لیے پتھروں پر ان کی ترجمانی لکھنے کی صورت کی جس کا پہلا روپ عجیب و غریب اشکال کی صورت میں تھا۔بعد میں یہی اشکال علامات اور پھر الفاظ کی صورت میں ڈھلنیلگیں۔ پھر یہ فن مذہبی عبارات و آیات کو دیواروں پر کندہ کاری کرنے کی طرف مائل ہوا۔وہاں سے مخطوطات کی حفاظت کے لئے چمڑے اور پتوں کا استعمال کیا جانے لگا جنہیں انسان نے لکھنے کے لیے استعمال کیا۔ بہت ساری جگہوں پر کپڑا بھی اس مقصد کے لئے استعمال ہوا۔اس کے بعد چین کے ایک موجد تسائی لون نے کاغذ کی ایجاد کے ساتھ ہی یہ سہرا اپنے سر باندھ لیا اور دنیا بھر میں فن کتابت تیزی سے پروان چڑھنے لگا۔
مخطوطہ شناسی اور اس کی روایت:
"کسی مخطوطے پر زمانی اور مکانی تحقیق کے بعد متعارف کروانے کو مخطوطہ شناسی کہتے ہیں"
مخطوطہ شناسی میں مخطوطے کی اصلیت اور نقلیت کا تعین کیا جاتا ہے۔اس کے بعد اس کے زماں اور پھر مکان کا تعین کیا جاتا ہے۔ یہ دیدہ ریزی اور اور نیارئیے جیسا کام ہے۔اصلیت جاننا اس لیے ضروری ہے کہ اس کی اصلیت سے زبان کا ارتقا جڑا ہوتاہے اس سے لسانی اور املائی ساختوں کا پتہ لگایا جاتا ہے مخطوطہ شناس سب سے پہلے کاغذ کی عمر کا تعین کرے گا۔ اس کے لئے ریڈیو گرافی سے مدد لے سکتا ہے اور اس کی روشنائی کی عمر کا تعین کرے گا اسلوب بیان کو پرکھے گا۔جس میں نسخے کی ہیت اس کی تقطیع ،مسطر، تعداداوراق ،خالی اوراق یا صفحے، کاغذ ،قلم ،روشنائی ،رسم کتابت ،تزیئن ، مہریں دستخط ،دریافت کی کہانی ،عہد بہ عہد موجودگی اور لمحہ موجود میں اس کا مکمل پتا لکھیگا۔
سرزمین دکن سے وابستہ افراد نے سب سے پہلے اردو زبان میں مخطوطہ شناسی کی طرف توجہ دی۔جن میں حکیم شمس اللہ قادری، نصیرالدین ہاشمی،پروفیسر عبدالقادر سروری، ڈاکٹر محی الدین قادری زور کے نام شامل ہیں۔ اور انہیں اردو کے ابتدائی مخطوطہ شناسوں میں شمار کیا جاتا ہے۔اس کی اہمیت کو سب سے پہلے حکیم شمس اللہ قادری نے محسوس کیا۔ اور مخطوطہ شناسی کی پہلی جلد" اردو مخطوطات انڈیا آفس لائبریری لندن‘‘۱۹۲۹ء میں انجمن پریس اورنگ آباد سے شائع ہوئی۔تحقیق و تدوین اور مخطوطہ شناسی میں اہم نام ڈاکٹر جمیل جالبی کا بھی ہے۔پروفیسر حافظ محمود شیرانی سکہ شناسی،مہر شناسی کاغذ ،روشنائی، رسم الخط کے علوم میں ماہر تھے۔ انہوں نے بہت سے تاریخی مغالطوں کو دور کیا۔
مخطوطہ شناسی کی شرائط:
۱۔مخطوطہ شناس کے لئے کاغذ بنانے کا فن سے واقفیت ضروری ہے تاکہ اندازہ لگایا جا سکے کس عہد کا کاغذ ہے.
۲۔ جلد سازی کے بارے میں معلومات کی جلد چرمی ہے یا کپڑے کی گتہ کی ہے یا کسی جانور کی کھال کی۔
۳۔ روشنائی اور قلم کے بارے میں معلومات کس عہد میں کون سڈی روشنائی اور قم استعمال ہوتے تھے۔
۳۔کاتب نے خطاطی کا کونسا اسلوب اپنایا اسے سمجھنے کے لئے رسم الخط کی جملہ اقسام اور ان کی خصوصیات کا علم مزید یہ کہ کون سے عہد میں کونسا رسم الخط مروج اور مقبول تھا۔
۴۔ مخطوطات کے مطالعہ کے لیے مصوری کے اسالیب سے واقفیت۔
۵۔املا کے بارے میں آگاہی اندازہ لگایا جا سکے کہ کس عہد میں املا کا کون سا انداز مروج تھا۔
مخطوطات کو جانچنے کے اصول و ضوابط:
مخطوطات کو پڑھنے اس کے مستند متن تک رسائی حاصل کرنے اس کے مصنف اور اس کے عہد سے شناسائی کے لئے بہت سے کٹھن مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے۔ مخطوطے کی اصلیت کی پہچان اس کے درست انتساب اور اس کے درست متن تک رسائی بہت مشکل کام ہے اور یہ بہت گہرے علم و فن کا متقاضی ہے۔اہل علم و فن نے اس سلسلے میں بے پناہ کوششیں کی ہیں اس سلسلے میں بہت سے اصول دریافت کیے ہیں۔جن کی مدد سے کوئی صاحب علم مخطوطات کی اصلیت سے آگاہ ہوسکتا ہے۔ علمی طور پر اس کے لیے کچھ اصول و ضوابط سے مدد لینا پڑتی ہے۔
زبان و بیان اور عہد شناسی:
مخطوطہ شناس کے لئے تاریخ کا مطالعہ بھی از بس ضروری ہے تاکہ وہ جان سکے کہ مخطوطہ کس عہد کا ہے۔اور اس کے ساتھ اس کو متروک الفاظ کا بھی علم ہو کہ کون سے الفاظ کون سے عہد میں مروج تھے اور کون سے عہد میں ترک کر دیئے گئے اگر کسی مخطوطے میں تاریخ معلوم نہ ہوسکے تو مصنف کے کسی دیئے ہوئے اشارے سے زمانے کا تعین کرنا پڑتا ہے۔ یا خارجی شواہد سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔مصنف کی شخصیت متعین ہونے کے بعد اس کی تصنیف کا عہد اور ماحول یا زمان و مکاں کے تعین کا مرحلہ آتا ہے اور یہ جاننے کی کوشش کی جاتی ہے کہ مخطوطہ کب اور کن حالات میں وجود میں آیا۔کس کا تحریر کردہ ہے اس کے عہد کا ہونا یا قریب عہد کا ہونا اس کی قدر و قیمت بڑھا دیتا ہے۔اس لیے مخطوطے کو جانتے وقت سال تصنیف اور سال کتابت کا تعین ضروری ہے۔
کتبہ شناسی:
بعض اوقات کتبے بھی کسی مخطوطے کو جانچنے میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں۔ اس پر لکھی تحریر ہمیں مختلف زمانوں کے رسم الخط سے روشناس کرواتی ہے۔کتابت کا فن اتنا ہی قدیم ہے جتنا خود انسان۔ شروع میں اس نے اپنے خیالات کو تصویروں کے ذریعے اداکیا آج بھی دنیا میں بعض ملکوں میں ان زبانوں کے کتبے پتھر کی چٹان و غار اور قدیم عمارتوں کی دیواروں پر سنگ تراشی کے نمونوں سے ملتے ہیں۔
رسم الخط سے واقفیت:
رسم الخط سے مراد کسی بھی زبان کا تحریری اظہار ہے۔ مختلف ممالک میں مختلف رسم الخط رائج ہیں۔رسم الخط بھی مخطوطے کو جانچنے میں مدد دیتاہے اگر ہم مختلف خطوں سے واقف ہوں تو مصنف اور اس کے عہد کے بارے میں جان سکتے ہیں۔
کاغذ شناسی:
ایک زمانہ تھا کہ کاغذ آج کی طرح سہل الحصول نہ تھا۔پھر مختلف خطوں میں مختلف نوعیت کا کاغذ استعمال ہوتا رہا کاغذ مخطوطات کے تعین زمان و مکاں میں ہماری مدد کرتا ہے۔پرانے مخطوطہ شناس کاغذ کو دیکھ کر ہی بتا دیتے تھے کہ یہ فلاں ملک اور فلاں عہد کا کاغذ ہے۔ہمارے عہد میں یہ کام مشینوں سے لیا جاتا ہے۔اگر ہم مختلف ملکوں اور زمانوں میں کاغذ کی مروجہ قسموں سے واقف ہیں تو کسی مخطوطے کو دیکھ کر اس کی کتابت کا زمانہ متعین کر سکتے ہیں اور یہ بتا سکتے ہیں کہ یہ کس ملک میں لکھا گیا ہے۔
روشنائی کا علم:
روشنائی فارسی زبان کا لفظ ہے اس کا منبع لفظ روشن ہے۔قدیم دور میں پتھر کو پیس کر پانی میں گھول کر استعمال کیا جاتا تھا۔ اردو ادب میں اس کا استعمال۱۹۶۴ء میں ہوا۔ حافظ محمود شیرانی کو سیاہی کے بارے میں بہت اچھی جانکاری تھی۔سیاہی کا علم اس بات کے تعین میں معاون ہوگا کہ کاغذ کتنا پرانا ہے اور سیاہی کس دور کی ہے۔
طرز املا :
طرز املااب بھی کسی مخطوطے کے زمانے کے تعین میں ہمارے لیے مددگار ثابت ہوتا ہے۔ ہر دور میں اردو کا طرزاملا ترقی کرتا رہا اس کے طرز املا سے آگاہ ہونا چاہئے یہ آگاہی قدم قدم پر رہنما ثابت ہوتی ہے۔
قلم کی پہچان:
ہر عہد کا کاغذ الگ سے پہچانا جاتا ہے۔ سیاہی الگ سے شناخت رکھتی ہے۔اسی طرح ہر عہد کے قلم بھی مختلف ہوتے تھے انگریزی عہد سے پہلے ہمارے یہاں کلک قلم استعمال ہوتا تھا۔
خطاطی کا علم:
خطاطی کے مروجہ طریقوں کو جان کر اور خطاطی کے اصولوں کو سمجھ کر ہم مخطوطے کے عہد کا اور مصنف کا باآسانی پتہ چلا سکتے ہیں۔
اسلوب شناسی:
خطی نسخہ کے متن کا اسلوب اس کا زمانہ تصنیف متعین کرنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔اسلوب شناسی کے ذریعے ہی اصل متن اور الحاقی متن کا سراغ لگایا جاسکتا ہے نیز مختلف بیاضوں،تذکروں اور رسائل میں موجود کلام کو کسی مصنف سے منسوب کرنے کی اہلیت حاصل کر سکتا ہے۔
الغرض مخطوطہ شناسی کا فن بہت توجہ اور احتیاط کا متقاضی ہے اور اس کے لیے مختلف علوم پر دسترس ہونا لازمی ہے اور نہ صرف علوم پر بلکہ فنون پر بھی گہری نظر ہونی چاہیے۔مخطوطہ شناسی کے فن نے اردو ادب کو مزید ثروت مند کیا ہے۔ اس فن میں روشنائی، کاغذ ،خطاطی،رسم الخط، املا، تاریخ،کتابت کے جدید طریقوں،مصوری اور زبان و بیان کی معلومات حاصل کرنا ضروری ہے۔
آرائش و زیبائش:
مخطوطات کی آرائش و زیبائش بھی اپنی ایک تاریخ رکھتی ہے۔ اس سے بھی مخطوطہ کی زمانی و مکانی تاریخ میں مدد ملتی ہے۔خطاط بالعموم پہلے صفحے کو مختلف طریقوں سے دیدہ زیب بناتے تھے جن میں مختلف رنگوں کے سونے کے پانی یا گلکاریاں
صحاف:
جلد ساز کو صحاف کہتے ہیں۔بعض اوقات صحاف کی بے توجی مخطوطہ کی اوراق کی ترتیب میں بگاڑ کا باعث بنتی ہے۔مدون کو تدوین نو کے مرحلے میں صحاف کے کام پر بھی بغور نظر ڈالنی چاہیے۔
ترقیمہ:
مصنفین متن کے آخر میں اور کاتب کتاب کے آخر میں تصنیف و کتابت کے بارے میں بعض معلومات درج کر دیتے ہیں۔ان عبارات سے مخطوطہ کے زمانی تعین میں بڑی مدد ملتی ہے۔
مہریں:
مہریں کسی مخطوطے کے بارے میں بہت اہم معلومات فراہم کرتی ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...