Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > مباحث > تازہ گوئی کا رجحان(میر و سودا کا عہد)

مباحث |
حسنِ ادب
مباحث

تازہ گوئی کا رجحان(میر و سودا کا عہد)
ARI Id

1689956600868_56117460

Access

Open/Free Access

Pages

۱۷۵

موضوع1:تازہ گوئی کا رجحان ( میر وسودا کا عہد)
میر تقی میر:
میر تقی میر اردو غزل کا نمائندہ شاعر ہے۔آج تک اس سطح کا کوئی شاعر ہمیں نہیں مل سکا۔ ان کی شاعری کے چھے دیوان چھپے۔ حال ہی میں ان کا ساتواں دیوان دریافت ہوا ہے۔ ڈاکٹر معین الدین عقیل صاحب نے مرتب کرکے یہ دیوان شائع کیا ہے۔
میر کا دور:
میر کا دور 1722ء سے 1810ء تک ہے اس میں کچھ اختلافات پائے جاتے ہیں۔ 1810ء میں ان کی وفات ہوئی میر کا زمانہ ایسا دور تھا جس میں ہر طرف بے چینی تھی۔دلی جو اس وقت مرکز تھا دارالحکومت تھا وہاں بہت سارے بیرونی حملہ آوروں نے بہت دفعہ حملہ کیا اس کی اینٹ سے اینٹ بجائی۔وہاں کے لوگ برباد ہو گئے ،قتل و غارت ہوئی ،خون بہا ،گھر اجڑ گئے ،اپنے بچھڑ گئے۔ان حالات کے اثرات اس وقت کے شعرا ء پر بہت گہرے پڑے۔ ان میں میر کا نام نمایاں ہے۔ میرکے والد کی وفات کے بعد ان کے چچا امان اللہ نے ان کی دیکھ بھال کی۔ ان کے چچا کی وفات کے بعد چچازاد بھائیوں نے گھر سے نکال دیا۔معاشی حالات بھی خراب تھے الغرض ایسے حالات میں میر بھٹکتے رہے۔مشکل حالات کا سامنا کرتے رہے۔ اس کے اثرات ان کی شاعری میں ہمیں نمایاں طور پر نظر آتے ہیں میر جیسا حساس شخص ان تکلیفوں میں مبتلا ہونے کے باوجود ان میں قنوطیت نظر نہیں آتی۔ ان کے دور میں مایوسی کا پہلو نظر نہیں آتا درد تو یقیناً ہے لیکن اس میں مایوسی نہیں۔ انہوں نے تہذیب کا بہت خوبصورتی سے مشاہدہ کیا اور اس کا عکس ان کی شاعری میں نظر آتا ہے۔ البتہ ان کی شاعری میں موت فنا کا ذکر زیادہ آتا ہے لیکن امید کی رمک ان کی شاعری میں جا بجا نظر آتی ہے۔ میر کا شعر ہے جو دنیا کے حوالے سے خاص نظریے کو پیش کرتا ہے:
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کار گہ شیشہ گری کا
اس دنیا میں آپ آئے ہیں تو قدم احتیاط سے رکھیں کیونکہ بہت مشکل کام ہے جیسے ہر طرف شیشے کا گھر ہو محتاط زندگی گزاریں کہیں شیشہ ٹوٹ ہی نہ جائے۔
روشن ہے اس طرح دل ِویراں میں داغ ایک
اجڑے نگر میں جیسے جلے ہے چراغ ایک
یعنی اجڑے دیار کا ذکر کرنے کے ساتھ ان کے ہاں امید کا چراغ بھی نظر آتا ہے۔ ہر طرف مایوسی ہے ویرانی ہے قتل و غارت ہے لیکن امید کا چراغ اس اجڑیدیار میں موجود ہے۔ ان کی شاعری زندگی کے مشاہدات اور تجربات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ڈاکٹر عبادت بریلوی ان کے بارے میں کہتے ہیں:
"میر کی شاعری تو یہ سکھاتی ہے کہ آزمائش کے موقع پر انسان کو زیادہ سخت یا سخت جان ہونا چاہیے کہ یہی اس کی زندگی کا حاصل ہے اسی سے وہ پہچانا جاتا ہے۔"
یہی وجہ ہے کہ آج بھی ان کی شاعری مقبول عام ہے جو ان کے زمانے میں تھا جس طرح آج ہم غالب یا اقبال کو بڑا شاعر مانتے ہیں۔ اسی طرح میر کو بھی وہی درجہ دیتے ہیں وہ بھی اپنے زمانے کے بڑے شاعر تھے اور آج بھی ان کو اسی ذوق و شوق سے پڑھا جاتا ہے۔ میر کے ہاں کہا جاتا ہے کہ ہمیں تین قسم کے غم نظر آتے ہیں۔
پہلا غم ( اپنی ذات کے دکھوں کا غم):
ایک ان کی ذات کا غم اپنوں سے بچھڑنے کا غم اپنی ذات کے دکھوں کا غم۔
دوسراغم( تہذیب کا غم):
تہذیب کے خراب ہونے کا غم یہ دور مسلمانوں کی غلامی کا دور تھا۔انگریزوں کی آمد سے ہماری تہذیب ختم ہو رہی تھی مغربی تہذیب اس کی جگہ لے رہی تھی۔ اپنی اقدار ،اپنی پہچان،اپنی تہذیب سے دوری کا دکھ تھا۔
تیسرا غم (مابعد الطبعیاتی غم):
ایک روح کا اپنی اصل سے جدا ہونے کا غم مراد خدا سے جدا ہونے کا غم یعنی جیسے ہم اس دنیا میں آئے تھوڑی مدت کے لیے اللہ نے انسان کو بھیجا اور پھر ہم کے ساتھ جاکر مل جائیں گے تو جب تک اصل سے دور ہیں تو وہ بھی ایک دکھ ہے ایک غم ہے۔جو میر جیسے صوفی شاعر کے ہاں ہمیں نظر آتا ہے مجنوں گورکھپوری نے کہا:
"میر کا غم مایوسی کی طرف نہیں لے جاتا بلکہ آپ کے اندر خودداری اور جوش پیدا کرتا ہے۔"
تو یوں سمجھ لیں میر کی شاعری میں دکھ درد رنج و الم کا اظہار نظر آتا ہے۔ اس میں قنوطیت کے بجائے ایک رجائیت کا پہلو نظر آتاہے۔ لیکن اس میں صدا ایک جیسا وقت نہیں رہتا۔وقت بدل جاتا ہے انسان کو انسان بنانے کے حوالے سے میر کا ایک شعر ہے جیسے اقبال نے عرفان ذات کا درس دیا اسی طرح میر نے بھی اپنے آپ کو انسان بنانے کا درس دیا۔
خدا ساز تھا آزر بت تراش
ہم اپنے تئیں آدمی تو بنائیں
آزر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد تھے جو بت بناتے تھے بتوں کو خدا سمجھتے تھے۔ وہ کہتے ہیں ہم خدا تو بنا لیتے ہیں لیکن اپنے آپ کو ایک آدمی نہیں بنا سکتے تو یہ المیہ ہے کہ ہمیں آدمیت کے اس درجے پر لے جانا چاہیے۔ جس پر اللہ نے انسان کو تخلیق کیا ہے میر کے ہاں جو درد نظر آتا ہے۔ان میں اجڑی بستیوں کا درد ،لٹے ہوئے شہروں کا درد،گرد اڑاتے ہوئے لشکروں کا ذکر بجھتے ہوئے چراغوں کا ذکر ملتا ہے۔ میر اپنیذاتی درد کے ساتھ اجتماعی درد و الم اور دکھ کا اظہار کرتے ہیں ان کی شاعری میں ایک خودداری نظر آتی ہے لکھتے ہیں:
آگے کسو کے کیا کریں دست طمع دراز
وہ ہاتھ سو گیا ہے سرانے دھرے دھرے
بارے دنیا میں رہو غم زدہ یا شاد رہو
ایسا کچھ کر کے چلو یاں کہ بہت یاد رہو
یعنی دنیا میں انسان ایک خاص مقصد کو لے کر آیا ہے۔میر کی شاعری میں ہمیں اچھے انسان بننے کا درس ملتا ہے۔دنیا میں تکلیف ہر انسان کی زندگی کا حصہ ہے چاہے دور ہو چاہے غم کا دور ہو ایسے کچھ کام کرو کہ دنیا آپ کو یاد رکھے۔ تاریخ آپ کو یاد رکھے دنیا انہی لوگوں کو یاد رکھتی ہے جو بڑے کام کر کے جاتے ہیں۔ تو میر کی شاعری میں ہمیں دکھ درد کے علاوہ عمل کا پیغام بھی ملتا ہے کچھ کر گزرنے کا درس ملتا ہے۔ یہ ایسا رجحان ہے جو دکھ میں بھی جینا سکھا تا ہے ان کے والد نے میر کو نصیحت کی :
" اے بیٹے عشق اختیار کر کہ دنیا کے اس کارخانے میں اسی کا تصرف ہے اگر عشق نہ ہو تو نظم کل کی صورت نہیں پیدا ہوسکتی عشق کے بغیر زندگی وبال ہے۔"
یہی وہ مرکزی نکتہ ہے جس سے میر کی شاعری کا دائرہ بنتا ہے۔ محبت کے بغیر زندگی بیکار ہے۔ عشق اور محبت کے بغیر زندگی کا وجود ممکن نہیں جس شخص میں یہ جذبات نہیں وہ مٹی کا ڈھیر ہے زندگی کا مرکزی نکتہ محبت ہے۔
محبت نے ظلمت سے کاڑھا ہے نور
نہ ہوتی محبت نہ ہوتا ظہور
محبت سے ہی اس دنیا کی تخلیق ہوئی اگر محبت نہ ہوتی تو اس دنیا کی تخلیق کیسے ہوتی۔ان باتوں کا ذکر میر نے اپنی آپ بیتی "ذکر میر "میں کیا جو میر نے خود لکھی میر نے مجازی عشق بھی کیا۔میر نے مجازی عشق بھی کیا اس کا غم بھی ان کے کلام میں نظر آتا ہے جذبات کا اظہار بہت توازن کے ساتھ ہمیں ملتا ہے .یعنی کہیں بھی وہ منفی سوچ کی طرف نہیں جھکتے ان کے ہاں امن کا پیغام ملتا ہے۔ان میں قنوطیت کا پہلو کہیں نظر نہیں آتا میر کے ہاں عشق کے دو دائرے ہیں ایک بڑا اور دوسرا اس کے اندر ایک چھوٹا سا دائرہ ہے۔یعنی عشق مجازی اور عشق حقیقی۔عشق حقیقی کا دائرہ بہت وسیع ہے۔عشق مجازی کا دائرہ چھوٹا ہے انسانوں سے عشق ہی وہ سیڑھی ہے جو ہمیں عشق حقیقی کی طرف لے جاتی ہے۔ میر ایک صوفی شاعر بھی ہیں تصوف کی جھلک محبت اور جنون کا اظہار ان کی شاعری میں نظر آتا ہے بے خودی کا اظہار نظر آتا ہے۔
بے خودی لے گئی کہاں ہم کو
دیر سے انتظار ہے اپنا
اب کے جنوں میں فاصلہ شاید نہ کچھ رہے
دامن کے چاک اور گریباں کے چاک میں
ڈاکٹر جمیل جالبی لکھتے ہیں:
"میر کا غم مثبت اور حیات افروز ہیں وہ یاسیت کے شاعر نہیں ہیں ان کی شاعری زندگی کے غموں میں ایسا ساتھی ہے جو ہم میں نیا اعتماد بحالکر کے ایک ایسا حوصلہ دیتا ہے کہ ہم زندگی سے پیار کرنے لگتے ہیں۔"
میر کی شاعری دل اور دلی کے واقعات اور جذبات کو بیان کرتی ہے۔ دل سے مراد انسان کی قلبی کیفیات اور دلی اس وقت مرکز تھا۔انہوں نے مختلف حالات کو شاعری میں میں قلم بند کیا۔ موت کے حوالے سے ان کا ایک شعر ہے:
موت اِک ماندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے چلیں گے دم لے کر
یعنی موت تو انسان کو زندگی سے الگ کرنے کا نام ہے اس تھکاوٹ کو تھوڑی دیر کے لئے ختم کرنے کا نام ہے۔اصل سفر اس کے بعد شروع ہوتا ہے دلی کے حالات کے حوالے سیان کا ایک شعر ہے :
دلی کے نہ تھے کوچے اوراق مصور تھے
جو شکل نظر آئی تصویر نظر آئی۔
دلی کے حالات تھے دیکھنے والے کو لگتا تھا جیسے کسی مصور نے اس کو تخلیق کیا ہے۔ یہ وہی دلی ہے جو کبھی بہت خوبصورت تھی۔ جس کی مثالیں دنیا میں دی جاتی تھی جب وہ اجڑی تو اس کا رنگ الگ ہوگیا۔عبدالباری اسی میر کے بارے میں لکھتے ہیں :
"ان کی فطرت حسن پرست اور تجربات ان کی نامرادانہ زندگی جن کی وجہ سے یہی درد و اثر ان کی شاعری کا ایک جوہر بن کر سامنے آتا ہے آج دیکھنے والوں کی سب سے پہلی نظر اسی خوبی پر پڑتی ہے۔"
تصور عشق:
میر کے ہاں عشق کا تصور عشق حقیقی کا عکس نظر آتا ہے۔ عشق مجازی کا عکس بھی ہے عشق حقیقی کا غالب پہلو نظر آتا ہے۔اس کے بارے میں وہ ایک وسیع نظریہ رکھتے ہیں۔
عشق ہی عشق ہے جہاں دیکھو
سارے عالم میں بھر رہا ہے عشق
ان کی غزلوں میں ان کی شاعری میں ہمیں عشق کا جذبہ جا بجا نظر آتا ہے
زندگی کی کشمکش :
ان کے ہاں زندگی کی کشمکش نظر آتی ہے حسن عسکری لکھتے ہیں:
"میر کے ہاں ایک زندگی کی کشمکش نظر آتی ہے اور یہ ایک اعلی ترین زندگی سے ہم آہنگ کرتی ہے اسی کا نام ان کے ہاں عشق ہے عشق کو دنیا کے معمولات سے الگ نہیں رکھنا چاہیے اس کے بغیر زندگی ادھوری ہے۔"
میر اپنے اعلی مقاصد کی خاطر جان قربان کرنے کو بھی تیار ہیں میر کے ہاں عشق میں ادب و احترام کا بہت خیال رکھا گیا ہے۔
دور بیٹھا غبار ِمیراس سے
عشق بن یہ ادب نہیں آتا
میر کی شاعری میں غالب رجحانات درد و الم رنج کیہیں ان تمام رنج و الم میں مایوسی قنوطیت نظر نہیں آتی بلکہ رجائیت کا رجحان نمایاں نظر آتا ہے۔ عشق کا رجحان تصوف کی طرف لے جاتا ہے۔ بعدالطبیعات کی طرف لے کر جاتا ہے۔جمیل جالبی لکھتے ہیں:
"میر کے عشق میں انسانی رشتوں کا احساس بہت واضع رہتا ہے میر انسان اور انسانی رشتوں کے شاعر ہیں۔"
رشتوں کو نبھانا اصل پیغام ان کی شاعری میں ملتا ہے انہوں نے خود پر بھی طنز کیا انہوں نے لکھا:
جو اس زور سے میر روتا رہے گا
تو ہمسایہ کاہے کو سوتا رہے گا
محبت میں پاسداری, احترام، ادب لازمی ہے ان کے عشق میں گل و بدن کی ہوس نظر نہیں آتی روحانیت کا پہلو غالب ہے۔کچھ لوگ میر کو قنوطی شاعر تصور کرتے ہیں ایسا نہیں ہے۔
میر کے غم کے ادوار:
1 :جوانی کے دور میں جو غم نظر آتا ہے اس میں سوز دل نمایاں مثبت پہلو ہے تڑپ نظر آتی ہے۔
2:گوشہ نشینی کا دور:
جب ان کی دماغی حالت بہتر نہیں تھی اس دور میں بے قدری کا احساس بہت تھا۔ان کے دور میں لوگوں نے ان کو وہ مقام نہیں دیا۔جس کے وہ حقدار تھے اس دور کی شاعری میں ہمیں بے چینی بے اطمینانی کا اظہار نظر آتا ہے۔1797 ء کے بعد لکھنؤ میں موت کا مضمون نمایاں نظر آتا ہے موت زندگی کی ایک بہت بڑی حقیقت ہے کہ ہم موت سے فرار حاصل نہیں کر سکتے۔ یہ زندگی کے تلخ حقائق ہیں جو شاعری میں ملتے ہیں۔عشق کا پہلو ،موت کا پہلو ،درد و الم کا پہلو ،اپنوں سے بچھڑنے کا درد،عشق میں محبوب سے دوری کا غم، بھی مابعدالطبیعیاتی غم بھی ہے یہ مسائل غم کی صورت میں ان کی شاعری میں نظر آتے ہیں۔یہ ان کی زندگی کے تلخ تجربات تھے حقائق تھے جن کو انہوں نے شاعری کا رنگ دیا۔
میر کا فن
سادگی:
ایسی خوبصورت سادگی جس کو میر کے سوا کوئی بیان نہیں کر سکتا ایسا سادہ پرکشش اور دلآویز انداز کہ جو صرف میر کا خاصا ہے۔
فارسی کا اثر:
کچھ بحریں جو انہوں نے خوبصورتی سے استعمال کی اس میں چھوٹی بحریں بھی ہیں اور طویل بحریں بھی۔
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
موسیقیت:
میر کی شاعری میں موسیقیت کا پہلو ملتا ہے الفاظ کی تکرار سے ایک موسیقیت کا پہلو نظر آتا ہے:
فقیرانہ آئے صدا کرچلے
میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے
ان کی غزلوں میں خاص ترنم نظر آتا ہے میر کے ہاں ایک غزل کے ساتھ گیت کی خوبصورتی کی جھلک ہے۔ہندی سے ان کے ہاں نمایاں نظر آتی ہے۔ یہ ان کا خاصہ ہے تشبیہات اور استعارات وہ بھی بڑے فن کارانہ استعمال کیے ہیں۔ محمد حسن عسکری لکھتے ہیں:
"میر زندگی سے مایوسی یا بیزاری نہیں دکھاتے بلکہ وہ تسلیم و رضا ،صبر و قرار کی تلقین کرتے نظر آتے ہیں۔"
ڈاکٹر سید عبداللہ لکھتے ہیں:
"میر ایک لحاظ سے پر معنی اور موسیقی جملوں کے بادشاہ تھے میر نے معنوی لحاظ سے جملوں کو اس طرح پیش کیا ہے کہ انہیں سن کرقاری اور سامع ان کی شعری تجربے تک فورا پہنچ جاتا ہے۔"
خواجہ میر درد:
ان کے دور کے ایک اور بڑے شاعر خواجہ میر درد تھے ان کا دور 1720 سے شروع ہوتا ہے۔ 1785 تک چلا جاتا ہے۔ان کے ہاں تصوف کا پہلو ہمیں نظر آتا ہے یہ ایک صوفی شاعر تھے۔
جگ میں آکر ادھر ادھر دیکھا
تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا
ارض و سما کہاں تیری وسعت کو پا سکے
میرا ہی دل ہے وہ کہ جہاں تو سما سکے
ساقیا یاں لگ رہا ہے چل چلاؤ
جب تلک بس چل سکے ساغر چلے
درد نے وحدت الوجود اور وحدت الشہود پر بات کرتے ہوئے واضح کیا کہ دونوں کا مقصد اور منزل ایک ہی ہے۔اس مقصد کے حصول کے لیے طریقہ محمدی ایک ہی ہونا چاہیے توحید تک پہنچنے کے لیے راستہ اگر مختلف ہے تو منزل ایک ہونی چاہیے اس میں فرق نہیں آنا چاہیے۔درد کے بارے میں کہا جاتا ہے ناصر کاظمی لکھتے ہیں:
"درد کے بباغ شعر میں تو صرف دو طرح کے آ م ہیں اور وہ بھی قلمی صوفیانہ آ م دیسی رنگارنگ آ موں کی ڈھیریاں تو سخن میر کے باغوں میں ملیں گی اردو کے بڑے بڑے شاعر کی شاعری میں جو تصوف کی چاشنی نظر آتی ہے اس میں درد کا نام نمایاں ہے۔"
ڈاکٹر جمیل جالبی" تاریخ اردو ادب" میں لکھتے ہیں:
"میر درد نے اپنے صوفیانہ طرز عمل اور طرز فکر سے اس معاشرے میں وجود باطنی میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔"
آزاد نے "آب حیات" میں جہاں دیگر شعرا کا ذکر کیا ہے وہاں ان کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا:
"تصوف میں جیسا انہوں نے لکھا آج تک کسی سے سے نہیں ہوا."
مجازی عشق ان کے ہاں نظر آتا ہے لیکن زیادہ تر عشق حقیقی کی جھلک نظر آتی ہے۔ان کی شاعری میں نشے کا ذکر ملتا ہے مے کا ذکر بھی ملتا ہے۔ یہ وہی مے ہے جو عرفان کی مے ہے۔ تشبیہات انہوں نے استعمال کی ضرب الامثال استعمال کی وہ سادہ انداز اور موسیقیت سے بھری ہوئی ہے۔
تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کر و بیاں
ڈاکٹر عبادت بریلوی ان کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"خواجہ میر درد کی غزل میں زبان و بیان ,لب و لہجہ اور وزن و آہنگ میں جمالیاتی اعتبار سے بھی نمایاں کام کیا ہے ان کی زبان سادہ اور شیشے کی طرح صاف شفاف ہے انکا بیان شستہ اور منجھا ہوا ہے۔"
درد کی شاعری میں بھی تصوف کا رجحان ہمیں نمایاں نظر آتا ہے۔یہ بھی غزل کے ایک بہت بڑے شاعر تھے جنہوں نے خوبصورت شاعری کی اس دور میں کچھ اور بھی لوگ ہیں جنہوں نے شاعری میں اپنا نام پیدا کیا ہے۔ انہوں نے خوبصورت شاعری کی۔ان میں مرزا رفیع سودا کا نام نمایاں ہے۔قصیدہ نگاری میں ان کا نمایاں مقام ہے ہے انہوں نے خوبصورت قصیدے لکھے۔ جس طرز اور مقام و مرتبہ اور اعلی پائے کے قصیدے لکھے آج تک ویسے کوئی نہ لکھ سکا۔ فارسی زبان سے متاثر تھے۔ فارسی اور اردو زبان دونوں کو ملا کر انہوں نے اپنے قصائد لکھے۔ یہ وہ دور تھا جب فارسی کو بہت اہم سمجھا جاتا تھا۔ اور درباروں میں بھی فارسی کا بہت چلن تھا۔ سو دا نے بھی فارسی کے اثر میں اردو کے قصائد لکھے۔ میر تقی میر نے بھی قصائد لکھے مگر ان کا وہ معیار نہیں جو سودا کے قصائد کو نصیب ہوا۔
میر سوز:
میر سوز اگر دیکھیں تو وہ بھی اس دور کے ایک بہت بڑے شاعر تھے۔ ان کا کلام کافی عرصہ تک غیرمطبوعہ رہا۔ لیکن کچھ عرصہ پہلے دلی یونیورسٹی کے استاد احمد فاروقی صاحب نے اسے مرتب کیا ان کے کلیات کو شائع کیا کہا جاتا ہے۔ کہ سوز کا پڑھنے کا انداز بہت دلکش تھا۔وہ باقاعدہ اداکاری کرکے اپنا کلام سنایا کرتے تھے اس لحاظ سے وہ اپنے دور میں بہت مقبول تھے۔
قائم چاندپوری:
جان پوری کا کلام آج سے بیس سال پہلے چھپنا شروع ہوا۔ ان کے کلام میں زیادہ تر غزلیات ہیں ان کے علاوہ قصائد بھی لکھے۔ رباعیات، قطعات اور مخمس بھی ان کے ہاں ملتے ہیں۔
میرا ثر:
میر درد کے چھوٹے بھائی میر اثر کا تعلق بھی اسی دور سے ہے ان کا ایک دیوان ہے جو غزلیات پر مشتمل ہے ایک مثنوی" خواب و خیال "کے نام سے مشہور ہے جو اب چھپ چکی ہے۔ان کا دیوان درد کے دیوان سے بھی مختصر ہے۔
انعام اللہ خان یقین:
ان کا ایک دیوان چھپا ہے فرحت اللہ بیگ نے مرتب کیا ہے اس میں بھی غزلیات ہیں۔
اشرف علی فغاں:
انہوں نے بھی قصائد لکھے کچھ غزلیات لکھیں۔
میر عبدالحئی تاباں:
ان کا دیوان چھپ چکا ہے میر نے "نکات الشعرائ￿ "میں بھی ان کا ذکر کیا ہے۔
میر محمدی بیدار :
ان کا بھی ایک دیوان ہے جو چھپ چکا ہے۔
بقا اللہ بقا:
بقا اللہ بقا بھی صاحب دیوان شاعر ہیں۔الغرض اس دور میں بہت سی اصناف پر بھی کام کیا گیا
غزل:
غزل کے حوالے سے میر اور درد نمایاں ہیں۔شعرا تھے ان کے ہاں جو غزل لکھی گئیں ان میں درد کا پہلو, انتشار ,بے چینی, دلی کیفیات, واردات قلبی کا اظہار بہت خوبصورتی سے ملتاہے سادہ انداز بیان ہیں اور تصوف کے مضامین بھی ان کے ہاں نظر آتے ہیں تصوف کے نظریات بھی ملتے ہیں۔انہوں نے زندگی کے حقائق کو موضوع بنایا۔صرف گل و بلبل کے قصے بیان نہیں کیے بلکہ زندگی کے حقائق کو بیان کیا۔ زندگی کی حقیقتوں کو بتایا۔ رجائیت کا پیغام دیا اپنے رب کو پہچاننے کا راستہ دکھایا ۔یہ تمام پہلو اس دور کی شاعری میں ملتے ہیں۔
قصیدہ نگاری:
قصیدہ میں بھی بہت خوبصورت اور منفرد انداز اپنایا۔جس میں سودا ہی نہیں میر نے بھی قصائد لکھے اور دیگر شعرا نے بھی کام کیا جانپوری ،میر اثر،درد نے بھی قصائد لکھے۔
مثنوی:
مثنوی بھی اس دور کی بہت بڑی صنف ہے۔جس میں میر نے 37 چھوٹی بڑی مثنویاں لکھیں۔بعض واقعاتی ہیں اور کچھ عشقیہ عشق و محبت کے واقعات پر مبنی ہیں۔میر تنہا ایسے مثنوی نگار ہیں ان کی مثنویوں کا انجام المیہ نظر آتا ہے۔ ان کی کہانیوں کا انجام دکھ پر مبنی ہوتا ہے۔میراثر نے بھی ایک مثنوی لکھی۔"خواب و خیال "کے نام سے جو بہت مشہور ہے۔
شہر آشوب:
شہر آشوب بھی ایک صنف شاعری ہے۔جس میں کسی شہر کی تباہی و بربادی خراب حالات کا ذکر کیا جاتا ہے۔سودا کی شہر آشوب کی صنف میں دو نظمیں آتی ہیں ایک قصیدہ شہر آشوب میں ہے قائم جان پوری نے بھی اس صنف میں طبع آزمائی کی۔اس دور میں میر اور سودا کا اہم کردار ہے۔
غزلیات ہجویات:
اس میں سودا نے کچھ غزلیات ہجویات لکھیں۔
رباعی:
رباعی لکھنے میں درد کو خاص اہمیت حاصل ہے۔میر اور سودا نے بھی تھوڑی تعداد میں رباعیات لکھیں۔الغرض اس دور میں جو ادب تخلیق ہوا وہ اعلی پائے کا ادب تھا۔اس کو ہماری کلاسیکی شاعری میں اہم مقام حاصل ہے۔ ان شعرا کی تخلیقات کو آج ہم مشعل راہ سمجھتے ہیں لکھنے والوں کے لیے ایک بہترین نمونہ ہے۔ان کی شاعری میں اس دور کی تاریخ کی جھلک نظر آتی ہے ان کی شاعری میں اس دور کے سیاسی حالات، معاشی حالات ،سماجی حالات، انفرادی طور پر لوگوں کے حالات ،زندگی کیسی تھی سب نظر آتا ہے۔دبستان دہلی کے حوالے سے کہا جا سکتا ہے کہ شعرائ￿ نے اس دور میں مشکل حالات میں جینا سیکھا اور حالات کو قلم بند کیا میر و سودا کا دور مختلف اصناف کی ترقی کے حوالے سے خاص طور پر قصیدہ اور غزل کے حوالے سے بہت نمایاں ہے۔ بڑے شعرائ￿ کی تخلیقات نظر آتی ہیں شاعری کے حوالے سے یہ ایک سنہری دور تھا۔
موضوع2: خواجہ حیدر علی آتش
خواجہ حیدر علی آتش فیض آباد میں ۸۷۷۱ ء میں پیدا ہوئے انہوں نے نہایت سادہ زندگی بسر کی طبیعت میں قناعت کا مادہ تھا کسی بادشاہ کے دربار سے کوئی تعلق پیدا نہیں کیا نہ کسی کی تعریف میں قصیدہ لکھا دلی کے استاد شاعر مصحفی کے زیر سایہ انہوں نے شاعری کی جس کی وجہ سے ان پر دبستان دلی اور لکھنؤ دونوں کی خصوصیات کا گہرا عکس نظر آتا ہے آتش کے دور میں ایک اور شاعر ناسخ کا نام بھی نمایاں ہے ان کو وہ مقام حاصل نہ ہوسکا جو آتش کو حاصل ہوا اسی لیے ناقدین آتش کو ناسخ پر برتری دیتے ہیں اور دبستان لکھنو کا نمائندہ شاعر قرار دیتے ہیں۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...