Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > مباحث > خواجہ حیدر علی آتشؔ

مباحث |
حسنِ ادب
مباحث

خواجہ حیدر علی آتشؔ
ARI Id

1689956600868_56117461

Access

Open/Free Access

Pages

۱۸۶

آتش کی شاعری کی نمایاں خصوصیات
روانی اور موسیقیت:
آتش کی شاعری میں ہمیں ایک خاص روانی اور موسیقیت نظر آتی ہے جو پڑھنے والے پر ایک خاص اثر چھوڑتی ہے۔
بندش الفاظ جڑنے میں نگوں سے کم نہیں
شاعری بھی کام ہے آتش مرصع ساز
اس شعر کی وجہ سے آتش کو محض مرصع ساز کہنا زیادتی ہوگی ان کے اشعار میں الفاظ کی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ رنگین فکر بھی نظر آتی ہے۔
موضوعات کا تنوع:
آتش کے کلام میں ہمیں مختلف موضوعات نظر آتے ہیں ان کے ہاں عشق و عاشقی کے موضوعات کے علاوہ تصوف کی جھلک بھی نظر آتی ہے زندگی کے مسائل بھی نمایاں نظر آتے ہیں لوگوں کے رویے بھی جو شخصیت پر اثرات پیدا کرتے ہیں اس کا اظہار بھی ان کی شاعری میں نظر آتا ہے اخلاق کا پہلو کہیں کہیں جھلکتا ہے۔
خارجیت اور داخلیت کا رنگ:
آتش کے اکثر کلام پر خار جیت کا رنگ بہت گہرا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ داخلیت کا بھی اثر نظر آتا ہے آتش کی خارجیت وہ خارجیت نہیں ہے جس کی وجہ سے دبستان لکھنو بد نام ہے آتش کی شاعری میں زندگی کے جذبات و احساسات بھی نظر آتے ہیں کچھ ایسے معاملات کا ذکر بھی کرتے ہیں جس کا تعلق خارجیت سے ہے بقول ڈاکٹر سید عبداللہ:
" زندگی کے متعلق لکھنؤ کا نظریہ پر امید تھا مسرت و راحت لکھنؤ کے دو عزیز مقاصد تھے آتش نے بھی ان عزیز مقاصد کی ترجمانی کی ہے۔"
دبستان لکھنو اور دبستان دہلی کا امتزاج:
آتش کی شاعری میں دبستان دہلی کی روایت، جذبات اور داخلی خصوصیات نظر آتی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں دبستان لکھنو کی چھاپ بھی نظر آتی ہے آتش ے ہاں کہیں کہیں خارجی تشبیہات اور استعارات ،قافیہ پیمائی کے اثرات بھی نظر آتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ جب دبستان دلی کی داخلیت ،اندرونی جذبات اپنوں کا غم نظر آتا ہے۔بقول خلیل الرحمٰن اعظمی:
"آتش کی آواز ایک نیک شگون رکھتی ہے اور ہمارے تمام غزل گووں کی اس ماتمی لسے سے زیادہ توجہ کی مستحق ہے جس کی یکسانی اور تکرار زندگی کے رنگارنگ مظاہر سے لطف اندوز ہونے کے قابل نہیں رکھتی آتش نے ہمارے ان حواس کی تسکین کا سامان فراہم کیا جو ابھی تک تشنہ تھے اور جن کی تشنگی ہم سے سے قوت حیات چھین لیتی ہے."
عشقیہ شاعری:
آتش کی ہاں حسن و عشق کا خوبصورت امتزاج نظر آتا ہے جو ان کے اشعار کو ہماری عشقیہ شاعری کا ایک قابل فخر سرمایہ بنا دیتا ہے آتش چونکہ مصحفی کے شاگرد تھے اس لئے ان کے اثرات ان پر نمایاں ہیں۔
حسن کی مصوری:
یہ حقیقت ہے کہ آتش کے یہاں حسن کی خوبصورت مصوری نظر آتی ہے وہ جب حسن کی تصویر کھینچتے ہیں تو اس کے نقش میں انکا تخیل اور احساس ایک نئی زندگی بھر دیتا ہے ان کے چند بہترین اشعار میں سے چند مثالیں درج ذیل ہیں:
نظر آتی ہیں ہر سو صورتیں ہی صورتیں مجھ کو
کوئی آئینہ خانہ کارحانہ ہے خدائی کا
چمن میں شب کو جو وہ شوخ بے نقاب آیا
یقین ہو گیا شبنم کو آفتاب آیا
مصحفی نے آتش کے ابتدائی کو کلام کو دیکھ کر انہیں بے نظیر شاعر ہونے کی خوشخبری دی۔محمد حسین آزاد نے بھی" آب حیات" پا نچویں دور کے بیان میں ناسخ کے ساتھ آتش کو بھی دبستان لکھنؤ کا ایک نمائندہ شاعر قرار دیا ان پر بھی مصحفی کے اثرات تھے اس حوالے سے محمد حسین آزاد لکھتے ہیں:
"آتش کی آتش بیانی نے استاد کے نام کو روشن کیا بلکہ کلام کی گرمی اور چمک دمک نے استاد شاگرد کے کلام میں اندھیرے اجالے کا امتیاز کیا۔"
آتش کا مردانہ لب و لہجہ:
آتش کے کلام میں مردانہ لب و لہجے کا ایک خاص رجحان نظر آتا ہے۔ فقیرانہ شان نے ان کے کلام میں مردانگی کے جوہر پیدا کیے جس کا اظہار غلام بابو سکسینہ ( تاریخ اردو ادب) نے ناسخ کے مقابلے میں آتش کو صاف طور پر ترجیح دی انہوں نے کہا کہ اردو غزل میں میر و غالب کے بعد آتش کا مرتبہ ہے خواجہ عبدالرؤف عشرت نے تذکرہ "آب بقا " میں آتش کے بانکپن اور جواں مردی پر بہت زور دیا ہے فراق گورکھپوری لکھتے ہیں:
"آتش کی حالات وطن طرح کے اشعار ہیں ایک وہ جن میں آتش کی انفرادی گرما گرمی اور کڑک ہے اور دوسرے وہ جس میں آتش نے مصحفی کے رنگ کو چمکایا ہے جن کے لہجے اور انداز میں مصحفی کا ہی اعتدال اور مصحفی ہی کی نرمی پائی جاتی ہے۔"
سرکشی کا انداز:
سرکشی کا انداز سب سے پہلے اردو شعرا میں آتش کی ہاں نظر آتا ہے یہ آن بان ،شجاعت اور مردانگی ان کی شاعری میں جھلکتی ہے صاحب طرز شاعر بننا اور ایک مخصوص لب و لہجہ رکھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں اس میں تخلیقی قوت کی ضرورت ہوتی ہے اور تجربات زندگی کی باریک بینی بھی۔
تھکیں جو پاؤں تو چل سر کے بل نہ ٹھہر آتش
گل مراد ہے منزل میں خار راہ میں ہیں
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزار ہا شجر سایہ دار راہ میں ہیں
صوفیانہ شاعری کی جھلک:
آتش کے ہاں ہمیں مصحفی کے زیر اثر صوفیانہ شاعری کی جھلک بھی نظر آتی ہے اس حصے میں زیادہ گہرائی تو نہیں ہے لیکن پھر بھی کسی حد تک سوزو گداز سپردگی کا احساس ہوتا ہے جو شاعری نظر آتی ہے اس میں تحرک اور دلی کیفیات کا ذکر بھی ملتا ہے انہوں نے مذہبی منافییت پیدا کرنے والوں کو انسانیت کا دشمن قرار دیا خود کو ان سے الگ رکھا ان کو تصوف اور قلندری نے مذہب کے تنگ دائرے سے نکال کر وسعت عطا کی اور عام انسانی اقدار سے وابستہ کیا۔
قید مذہب کی نہیں حسن پرستوں کے لیے
کافر عشق ہوں میں کوئی میرا کیش نہیں
دور گردوں ہے خداوندا کہ یہ دور شراب
دیکھتا ہوں جس کو میں اس انجمن میں مست ہے
مختلف موضوعات کا جوتنوع ہے اس میں ان کے ہاں ایک رنگارنگی کی کیفیت نظر آتی ہے۔
جسمِ خاکی کے تلے جسمِ مثالی بھی ہے
اک قبا اور بھی ہم زیرِ قبا رکھتے ہیں
شیخ امام بخش ناسخ:
ناسخ کا دور 1772 ء سے 1838 تک ہے ۔دبستان لکھنو کے ایک نمائندہ شاعر ناسخ ہیں ان کے ہاں خارجی پہلو نمایاں ہیں ان کی شاعری میں جذبات و احساسات کی کمی محسوس ہوتی ہے انہوں نے مشکل زمینوں، بے جوڑ قوافی اور طویل ردیفوں کے بہترین نمونے پیش کئے انہیں ان چیزوں کا استاد مانا جاتا ہے۔
ناسخ کا ایک خاص رجحان:
اردو ادب میں ناسخ نے ابہام کی صفائی اور متروکات کی باقاعدہ مہم چلائی انہوں نے زبان وبیان کے قوانین کی نہ صرف خود پیروی کی بلکہ اپنے شاگردوں کو بھی اس کا پابند کیا ناسخ کا ایک کمال یہ ہے کہ انہوں نے اردو غزل کی زبان کو وقت کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی بہت سی بیکار چیزوں کو غزل سے نکالا اور اس کی زبان کو وقت کے مطابق نئے سانچوں میں ڈالنے کی کوشش کی. ناسخ نے زبان کی سطح پر تو اچھے کام کئے لیکن جو آتش کا ایک خوبصورت انداز تھا وہ ان کے ہاں نہیں ملتا مولوی عبدالحق ان کے کلام کے بارے میں لکھتے ہیں:
"ناسخ ایک بھونڈے طرز کے موجد ہیں ان کے کلام میں نہ نمکینی ہے نہ شیرینی۔"
ہو گئے دفن ہزاروں ہی گل اندام اس میں
اس لیے خاک سے ہوتے ہیں گلستان پیدا
رشک سے نام نہیں لیتے کہ سن لے کوئی
دل ہی دل میں ہم اسے یاد کیا کرتے ہیں
حق یہ ہے کہ بندش کی چستی الفاظ ،حلاوت اور مضمون کی بلندی میں آتش کو ناسخ پر یقینا فوقیت حاصل ہے آتش کے یہ الفاظ نہایت شیریں اور مزے دار ہوتے ہیں جبکہ ناسخ کو موٹے موٹے الفاظ کا شوق ہے آتش کے اکثر اشعار نیچرل ہوتے ہیں ان میں بے تکلفی اور تڑپ ناسخ کی نسبتاً زیادہ ہوتی ہے۔"
ناسخ کے ہاں حسن و عشق کے جو موضوعات پیش کئے گئے ہیں اس میں داخلیت کے بجائے خار جیت کا پہلو نمایاں ہے جبکہ آتش کے یہاں ایسا نہیں تھا اگر نظر آتا بھی ہے تو اس میں خاص رکھ رکھاؤ ہے ان کو اگر اردو ادب کی تاریخ میں یاد کیا جائے گا تو وہ ان کی زبان سے متعلق خدمات ہو سکتی ہیں مختلف ناقدین نے آتش اور ناسخ کے دور پر اپنی آراء پیش کیں ہیں۔ان میں سے اکثریت نے آتش کو ناسخ پر ترجیح دی ہے۔آتش کے ہاں ایک تخلیقی عنصر نمایاں ہے آتش نے اپنے استاد کا نام روشن کیا فراق گورکھپوری آتش کی انفرادی اسلوب اور لب و لہجے کا اعتراف ان الفاظ میں کرتے ہیں:
"آتش نے صرف مصحفی کے بعد کی آبیاری نہیں کی بلکہ اس نے اپنا آتشکدہ الگ تعمیر کیا۔"
مجموعی جائزہ:
الغرض آتش اور ناسخ کے کلام کا ہم موازنہ کریں تو اس میں واضح فرق نظر آئے گا۔ آتش صاحب اسلوب شاعر تھے۔ انہوں نے لکھنوی معاشرے کو نمایاں کیا وہاں کا خشک مزاج معاشرہ اور خوشحال زندگی کی جھلک ان کے کلام میں نظر آتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کے ہاں داخلیت بھی کہیں کہیں جھلکتی ہے۔ طویل غزلیں بھی تحریر کیں۔ نئے قافیہ اور ردیف کا رواج بھی شروع کیا آتش نے کبھی تہذیب سے گری ہوئی بات نہ کی اگر حسن و عشق کا ذکر بھی کیا تو اس میں ایک ادب اور پاکدامنی کا پہلو نمایاں ہے۔ ان کے ہاں سوز و گداز بھی ملتا ہے۔جب کہ ناسخ کے حوالے سے اگر جائزہ لیا جائے تو اس میں زبان دانی کی کچھ مثالیں تو ملے گیں۔ مگر ان میں گہرائی کا عنصر نظر نہیں آئے گا نہ سخت زبان دانی کے اساتذہ میں شمار ہوتے ہیں۔ خوبصورت تراکیب کا استعمال ان کی تحریروں کا خاصہ ہے۔
آتش کے معاملات عشق میں ایسے کردار نظر آتے ہیں جو پاکیزہ دامن ہوتے ہیں۔ ان کے ہاں حسن کاری کے اعلی نمونے ملتے ہیں اور مصحفی کے اثرات بھی جھلکتے ہیں۔ تصوف کا رنگ کہیں نظر آتا ہے نہ اصلاح زبان کی تحریک کا استاد تو کہا جا سکتا ہے۔ لیکن ان کے کلام میں گہرائی نظر نہیں آتی۔ ناسخ کے اصلاح زبان کی تحریک کا فائدہ صحیح معنوں میں آتش نے اٹھایا۔ان کے شاعرانہ تغزل اور شاعرانہ احساسات کی فنی تکمیل ناسخ کے زیر اثر رہی۔ آتش نے اگر کسی سے کچھ لیا تو اس نے آنکھیں بند کرکے پیروی نہیں کی بلکہ اس میں ایک اپنا رنگ شامل کرکے پیش کیا۔ شاعری میں جذبات اس کی چاشنی کی کمی ان کی شاعری میں الفاظ کا جادو نظر آتا ہے۔ انہوں نے فارسی اور سنسکرت کی کچھ تراکیب کو مسترد کیا ناسخ کے فن میں رعایت لفظی ،مشکل الفاظ کا استعمال تشبیہات و استعارات ، بناوٹ اور تکلف کو گرجدار لہجے میں پیش کیا۔
آتش اور ناسخ کی شاعری میں واضح تضاد ملتا ہے۔ ناسخ کی شاعری کے اس منصب سے کوسوں دور ہیں جہاں آتش نظر آتے ہیں۔ اس لحاظ سے دیکھیں تو آتش ہر لحاظ سے ناسخ پر برتری رکھتے ہیں۔ اس دور میں زبان دانی کے حوالے سے جو رجحان پیدا ہوا اس نے اردو ادب کو متاثر کیا۔ آتش دبستان دہلی اور دبستان لکھنو کا ایک نمائندہ شاعر ہے جس کی شاعری کے اردو ادب پر گہرے اثرات ہیں۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...