Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > مباحث > داستان گوئی

مباحث |
حسنِ ادب
مباحث

داستان گوئی
ARI Id

1689956600868_56117463

Access

Open/Free Access

Pages

۱۹۷

داستان کی تعریف:
داستان کو اردو نثر کی اولین صنف قرار دیا گیا ہے۔داستان جھوٹی کہانی یا من گھڑت قصہ ہوتا ہے داستان وہ طویل کہانی ہے جو حقیقی زندگی کے بجائے مافوق الفطرت عناصر اور مخیرالعقول واقعات سے تعلق رکھتی ہے۔ ایسی کہانی جادوئی واقعات کا ایک طویل سلسلہ ہوتا ہے۔ دنیا کے تقریبا ہر ادب کے آغاز میں داستان موجود ہے اس کی وجہ انسان کے شعور کی اولین سطح ہے۔ علم و آگہی کے فروغ اور سائنس اور ٹیکنالوجی کے باعث انسان داستان کی سحرزدہ طبع سے باہر نکلا تو ادب میں داستان کی ناول ،ناولٹ ،افسانہ اور مختصر افسانہ وغیرہ جیسی اصناف متعارف ہوئیں۔داستان افسانوی ادب کی قدیم ترین صنف ہے۔ ان کے کردار عام طور پر مثالی ہوتے ہیں۔ زبان میں تکلف زیادہ ہوتا ہے۔اکثر داستانوں کا ماخذ عربی فارسی یا سنسکرت قصے ہوتے ہیں بعض طبع زاد ہوتے ہیں۔
اردو ادب میں داستان:
اردو کی قدیم داستانوں میں قصہ مہر افروز و دلبر، نو طرز مرصع، عجائب القصص، فسانہ عجائب، بوستان خیال، داستان امیر حمزہ، طلسم ہوش ربا کو بہت زیادہ مقبولیت حاصل ہے۔ اس کے بعد فورٹ ولیم کالج میں لکھی گئی داستانوں میں باغ و بہار، آرائشِ محفل، مذہبِ عشق وغیرہ بہت مشہور ہوئیں۔
اردو داستان کی تاریخ
دکن میں اردو داستان:
اردو میں تقریباً تمام اصناف کی ابتدا دکن میں ہوئی ہے۔ اردو کی پہلی داستان "سب رس" مانی جاتی ہے۔ اس کا مصنف ملا وجہی ہے۔ "سب رس" اردو کی مقبول ترین تمثیلی داستان ہے۔ اس میں حسن و عشق کی کشمکش اور عشق اور دل کے معرکے کو قصے کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔" طوطی نامہ" یا طوطا کہانی دکنی نثر کا دوسرا اہم کارنامہ ہے یہ ایک ترجمہ ہے۔ لیکن اس کا مترجم نامعلوم ہے۔ "انوار سہیلی" کو عالمی ادب میں ایک اہم مقام حاصل ہے۔
شمالی ہند میں اردو داستان:
شمالی ہند میں اٹھارہویں صدی سے قبل کوئی داستان نہیں ملتی۔ اٹھارویں صدی کی داستانوں میں قصہ مہر افروز و دلبر، نو طرز مرصع، ملک محمد و گیتی افروز، عجائب القصص اور جذبِ عشق شامل ہیں۔ فورٹ ولیم کالج کے قیام کے بعد اردو میں بہترین اور سلیس داستانیں وجود میں آئیں۔ فورٹ ولیم کالج کی داستانوں میں باغ و بہار، داستان امیر حمزہ، نگارخانہ چین، آرائش محفل، سنگھاسن بتیسی، وغیرہ اہم ہیں۔
فورٹ ولیم کالج کے تحت ترجمہ ہونے والی داستانیں:
فورٹ ولیم کالج کے دور میں کالج کے باہر بھی داستانیں وجود میں آئیں۔ ان داستانوں میں انشا اللہ خان انشا کی "سلک گوہر"," رانی کیتکی کی کہانی" اور مرزا رجب علی بیگ سرور کی" فسانہ عجائب"، "شگوفہ محبت"،" گلزار سرور"، وغیرہ اہمیت کی حامل ہیں۔ شمالی ہند میں داستانوں کا دور تقریباً سو برس رہا۔ مغربی علوم کی آمد نے توہمات کو ختم کر دیااور رفتہ رفتہ داستانوں کا رواج ختم ہو گیا۔
داستان کی خصوصیات
۱ : کردار نگاری:
داستان میں مخصوص قسم کے کردار تخلیق کیے جاتے ہیں۔ان میں کچھ مرکزی کردار ہوتے ہیں اور کچھ ضمنی کردار ہوتے ہیں۔اس میں کچھ مثالی کردار ہوتے ہیں اور کچھ طلسماتی کردار ہوتے ہیں۔ کچھ حقیقی کردار بھی ہوتے ہیں مثلا ہیرو اور ولن کا کردار۔
۲ : مکالمہ نگاری:
داستان میں مختلف کردار مختلف انداز میں گفتگو کرتے ہیں۔ بعض اوقات طویل مکالمہ نگاری ہوتی ہے جو پڑھنے والے پر اکتاہٹ پیدا کرتی ہے ہر کردار اپنے انداز سے گفتگو کرتا نظر آتا ہے مثلا اگر جن کا کردار ہے تو وہ ایسے جملے استعمال کرے گا جن میں دہشت اور خوف کا عنصر نمایاں ہوگا ہر کردار اپنے کردارکے مطابق الفاظ کا استعمال کرتا ہے۔
۳ :طلسماتی فضا:
داستانوں میں ایک طلسماتی فضا ہوتی ہے۔مثلا جن اور پریوں کا فضا میں اڑنا ،سلطانی ٹوپی پہنتے ہی انسان کا غائب ہو جانا، چند سیکنڈ میں چیزوں کو تخلیق کرنا وغیرہ۔
۴ : منظر نگاری:
داستان لکھنے والا مصنف جب بھی کوئی واقعہ لکھتا ہے تو اس کی خوبصورت الفاظ میں عکاسی بھی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔واقعات کو ایسے الفاظ کے ساتھ پیش کرتا ہے کہ پڑھنے والے کے سامنے اس کی تصویریں بن جائیں اور پڑھنے والا خود کو اس منظر کا حصہ محسوس کرے۔
۵ : طوالت/ طول نگاری:
واقعات کا ایک خاص عنصر طوالت بھی ہے۔اس میں ایک کہانی کے اندر بے شمار چھوٹے چھوٹے قصے اسے آگے بڑھاتے ہیں۔اس طرح یہ داستان طویل سے طویل ہوتی چلی جاتی ہے۔جس کی مثال داستان سب رس ہے۔
۶ : تہذیب و تمدن کی عکاسی:
داستانوں میں اس دور کی تہذیب و تمدن بھی جھلکتی نظر آتی ہے جس دور سے ان داستانوں کا تعلق ہوتا ہے۔
۷ :پلاٹ:
پلاٹ کسی بھی داستان کا ایک بنیادی جزو ہے۔ اس کے بغیر کوئی کہانی تخلیق نہیں ہوتی۔ داستان میں ایک بڑی کہانی کے اندر چھوٹی چھوٹی دیگر کہانیاں بھی ہوتی ہیں جو اسے آگے بڑھاتی ہیں۔ پلاٹ کی حیثیت داستان میں ریڈھ کی ہڈی کی سی ہے۔
۸ : مافوق الفطرت عناصر:
جن، پری ،دیو، جادو وغیرہ کا ذکر داستان میں کثرت سے ملتا ہے۔ چیزوں کا بڑھنا، اچانک غائب ہو جانا ،انسانوں کا غائب ہو جانا ،غیب سے چیزوں کا نزول یہ مافوق الفطرت عناصر ہیں جو داستان کا حصہ ہیں۔
۹ : مشکل الفاظ کا استعمال:
بعض اوقات داستانوں میں مشکل اور پر تکلف الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔
داستان امیر حمزہ:
داستان امیر حمزہ فارسی زبان میں چھوٹی چھوٹی جلدوں میں دستیاب ہے۔ اردو میں فورٹ ولیم کالج کے توسط سے ۱۸۰۱ ء میں خلیل اللہ خان نے فارسی سے اردو میں ایک جلد میں منتقل کیا۔ اس کے نصف صدی کے بعد امان اللہ خان غالب لکھنوی نے ۱۹۵۵ء میں ایک نسخہ تیار کیا۔ ان نسخوں کو سامنے رکھ کر مطبع نول کشور نے عبداللہ بلگرامی کے قلم سے تیسرا حصہ ۱۷۸۱ میں تیار کیا۔ وہ معمولی ترامیم کے ساتھ پہلے صدق حسین رضوی ایڈیشن (۱۸۷۷)( ۱۹۴۳ )کے ایڈیشن کی صورت میں سامنے آیا اسے مجلس ترقی ادب لاہور نے بھی تمام جلدوں کے ساتھ شائع کیا۔داستان امیر حمزہ کے بارے میں چار باتیں ضرور ذہن میں رکھیے۔
1: یہ بیانیہ کی صنف سے وابستہ ہے۔
2: داستان امیر حمزہ تمام نثری یا منظوم داستانوں کی طرح زبانی بیانیہ ہے جو اپنے ضوابط اور اصولوں پر پابند ہے۔
3: داستان امیر حمزہ میں بعض صفات اورخواص ایسے ہیں جو دنیا کی داستانوں میں نہیں ملتے۔دیگر داستانوں سے ذرا ہٹ کے ہیں اس میں کچھ اور تقاضوں کو مدنظر رکھنا پڑتا ہے۔
4 : اس داستان کے بارے میں کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ یہ شاید ناول کے ہوتے ہوئے ہمیں کسی نثری بیانیے کی ضرورت نہیں یہ حقیقی زندگی سے دور ہے اور اخلاقی قدروں سے بھی عاری ہے لیکن رتن ناتھ سرشار نے فسانہ آزاد لکھ کر اس خیال کو رد کیا اس طرح کے ناول میں داستانوی انداز بھی اپنائے جا سکتے ہیں جو دور حاضر کے تقاضوں کو پورا کرتے ہیں۔ اس میں باغ و بہار دیکھی جاسکتی ہے داستان امیر حمزہ کا بہت بار ترجمہ ہو چکا ہے۔)۱۸۲۹ء میں شیخ سجاد حسین بہاولپوری نے غالب لکھنوی اور عبداللہ بلگرامی کی داستان امیر حمزہ کا کچھ حصہ انگریزی میں ترجمہ کروا کے کلکتہ سے چھپوا یا اس کا عنوان An Oriental Novel Dastan e Ameer Hamza ہے۔
اس میں انہوں نے غیر ضروری مبالغہ اور غیر ضروری تفصیلات کو شامل نہیں کیا۔ اس میں دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کو انہوں نے بتایا کہ اس کی وجہ یہ ہے امیر خسرو چاہتے تھے کہ اکبر کا دھیان"مہا بھارت" کی طرف سے ہٹا کر کسی "اسلامی قصے کی طرف منتقل کر دیا جائے مختصریہ کہ داستان کا جدید مطالعہ ہمارے یہاں طرح طرح کی غلطیوں کا شکار ہے اگر غالب لکھنوی کا متن اردو والوں کی نظر میں شروع سے ہوتا تو بھی بہت سے غلط نتائج نکالے جاتے۔ غالب لکھنوی نے چھوٹے سے فقرے میں بڑی بات کہہ دی:
" اس داستان میں چار چیزیں ہیں رزم، بزم، طلسم اور عیاری اس واسطے مترجم نے فارسی کی چودہ جلدوں کا ترجمہ کر کے چار جلدیں کیں۔"
مختصر طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ داستان اردو ادب کی ایسی نثری صنف ہے جس نے ایک محسوس عرصے تک لوگوں کے دل و دماغ پر راج کیا اور اس کے دیرپا نقوش چھوڑے۔کوئی بھی زبان کا ادب دیکھ لیں اس کے آغاز میں قصے کہانیاں اور داستانوں کا رنگ نظر آئے گا۔ ان میں زبان کی تاریخ بھی ہے اور ہماری تہذیب اور تمدن کی تاریخ بھی۔انہیں پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ہم نے انسانی ترقی کی راہوں میں کن کن منزلوں کو طے کیا کن راہوں سے گزر کر ہم یہاں تک پہنچے۔ یہ قصے کہانیاں سبق آموز بھی تھے جن میں اخلاقی درس بھی شامل تھا۔ یہ ان وقتوں کی خوبصورت یادوں کو تازہ کرتی ہیں جب انسان ترقی یافتہ نہ تھا لیکن اخلاقی اور روحانی طور پر کافی مضبوط تھا۔پیار ،محبت اور خلوص کے رشتے قائم تھے۔ لوگ اپنے بزرگوں کے پاس بیٹھ کر اس طرح کی داستانوں کو سن کر بہت کچھ سیکھتے تھے۔ ہم اپنے بچوں کو شروع سے ان کے ساتھ جوڑ کر اپنی تہذیب سے انہیں روشناس کراتے ہیں۔آج زندگی کے رنگ ڈھنگ مختلف ہیں ظاہری طور پر انسان ترقی کر چکا ہے۔لیکن روحانی اور باطنی سطح پر وہ بہت کمزور ہوچکا ہے داستان کی ترقی یافتہ صورت ناول، ناولٹ، افسانہ کی شکل میں دیکھی جا سکتی ہیں۔
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...