Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > مباحث > غالب کے خطوط

مباحث |
حسنِ ادب
مباحث

غالب کے خطوط
ARI Id

1689956600868_56117464

Access

Open/Free Access

Pages

۲۰۲

تعارف پس منظر:
غالب کے آباؤ اجداد ترکی سے تعلق رکھتے تھے اور ان کا شمار ایبک قوم سے تھا۔غالب کے دادا قوقان بیگ ہندوستان ہجرت کر کے آئے۔یہ دور مغلیہ سلطنت کے زوال کا دور تھا۔
پیدائش:
۷۲ دسمبر ۷۹۷ ۱ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے ان کا پورا نام بمع خطا بات مرزا اسد اللہ خان غالب (تخلص /خطاب) نجم الدولہ دبیر الملک نظام جنگ بہادرعرف مرزا نوشہ تھا۔والد کے انتقال کے بعد چچا نصراللہ بیگ نے پرورش کی آٹھ سال کی عمر میں چچا بھی وفات پا گئے۔ ان کی وفات کے بعد ننھیال رہنے لگے۔
ازدواجی زندگی:
۳۱ برس کی عمر میں نواب احمد بخش خان کے چھوٹے بھائی نواب الہی بخش خان معروف کی ۱۱سالہ لڑکی امراؤ بیگم سے شادی ہوئی۔ اللہ نے سات بچوں سے نوازا لیکن وہ سبھی بچپن میں وفات پا گئے اور بیگم کا بھی انتقال ہو گیا۔غالب ۱۵ فروری ۱۹۶۹ ء میں ۷۲ برس کی عمر میں ظہر کے وقت انتقال کر گئے۔
ابتدائی حالات:
غالب جس دور سے تعلق رکھتے ہیں وہ مسلمانوں کے زوال کا دور ہے اس وقت حکومت کا مرکز دلی تھا۔اس دور میں بادشاہوں کی حیثیت بہت معمولی ہو گئی تھی مغل بادشاہ شطرنج کا مہر بن گئے اور آہستہ آہستہ سکھو ں،جاٹوں اور روہیلوں نے زور پکڑنا شروع کیا اور اس حکومت کو گرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ۱۷۳۹ء میں نادر شاہ نے دلی پر حملہ کیا۔۱۷۴۸ء سے لے کر ۱۷۶۱ء تک احمد شاہ ابدالی نے بہت سے حملے کیے اور مغلوں کی رہی سہی طاقت بھی ختم کر دی۔ احمد شاہ ابدالی نے ان حملوں میں مرہٹوں کی کمر توڑ کر رکھ دی۔اس سیاسی تاریخی پس منظر میں غالب نے ہوش سنبھالا غالب کا تعلق رئیس لوگوں کے ساتھ تھا ان کی پہنچ بادشاہوں کے دربار تک تھی۔
تہذیبی اور معاشرتی حالات:
تہذیبی اور معاشرتی اعتبار سے غالب کا تعلق دو دنیاؤں سے تھا ایک دنیا ۱۸۵۷ئسے پہلے کی اور دوسری اس کے بعد کی دنیا تھی۔غالب کا آشوب یہ تھا کہ وہ ان دونوں دنیاؤں کو مربوط نہ کرسکے مرزا تفتہ کے نام خط میں لکھتے ہیں:
" تم جانتے ہو کہ یہ معاملہ کیا ہے اور کیا واقعہ ہوا وہ ایک جنم تھا جس میں ہم تم باہم دوست تھے اور طرح طرح کے ہم میں تم میں معاملات مہرومحبت پیش آئے شعر کہے اور دیوان جنم دیے۔"
دلی کی تباہی ایک سیاسی نظام کی تباہی نہ تھی بلکہ ایک تہذیبی نظام کا زوال بھی تھا اس حادثے کے پیچھے پورے اخلاقی نظام کا انتشار تھا۔۱۸۵۷ئسے پہلے کی دلی غالب کی رگ رگ میں سمائی ہوئی تھی جبکہ بعد کی دلی اس کے دل کی بربادی تھی۔انیسویں صدی میں مغلوں کا سیاسی نظام تو ختم ہو چکا تھا لیکن ابھی بھی ذہنی طور پر زندگی کا عروج تھا اس وقت دلی شاہ ولی اللہ کے مدرسے کی وجہ سے علم وعرفان کا مرکز تھی۔یہ علمائ￿ دین جو دلی میں موجود تھے انہوں نے اسلام کی ڈوبتی کشتی کو سہارا دیا غالب کی شخصیت اور ان کا فن اسی دور میں پروان چڑھا۔
دلی کی زندگی:
غالب کی نظر میں دلی کی زندگی پانچ ہنگاموں پر منحصر تھی۔
1: قلعہ 2: چاندنی چوک 3: جامعہ مسجد 4: جمنا کا کنارہ 5: پھول والوں کی سیر
غالب اپنے غم یوسف مرزا کو گنواتے ہوئے لکھتے ہیں۔
" پوچھو کیا غم ہے غم مرگ،غم فراق،غم رزق،غم عزت"
غالب کے اندر ایک قلندرانہ مزاج نظر آتا ہے ایک صوفیانہ انداز ہے ان کی اسی خوبی نے غوث علی شاہ قلندر کا دل موہ لیا تھا اور وہ ان کی شخصیت کے بہت قائل ہوگئے یہ تصوف کا انداز ان کی تحریروں میں بھی نظر آتا ہے ویسے تو دلی گئی بار بسی اور اجڑی لیکن ۱۸۵۷ئکے دور کی تباہی ہندوستان کی تہذیب و تمدن کو بہت تباہ کر گئی۔ جس کا غالب کو بڑا دکھ تھا۔ مذکورہ بالا حا لات میں غالب نے اپنی ساری زندگی گزاری اور ان حالات کا بہت گہرائی سے ان کی تحریروں پر اثر نظر آتا ہے۔
شاعری کے ادوار:
شیخ محمد اکرام نے غالب کی شاعری کو چار حصوں میں تقسیم کیا ہے
پہلا دور :
غالب کی شاعری کا پہلا دور اقتدار سے لے کر پچیس سال تک کی عمر کا دور ہے یہ سارا کلام قلمی نسخہ بھوپال کے متن میں شامل ہے۔
دوسرا دور :
دوسرے دور کے اشعار منتخب دیوان غالب کے پہلے ایڈیشن میں ملتا ہے ۱۸۴۲ئمیں شائع کیا گیا۔
تیسرا دور:
یہ دور فارسی شاعری کا دور ہے۔غالب نے تقریبا ۲۹_۳۰ برس کی عمر میں اردو شاعری کو چھوڑ کر فارسی پر توجہ دی لیکن کبھی کبھی اردو میں شعر بھی کہے دربار سے جڑنے تک زیادہ اشعار فارسی میں لکھے۔
چوتھا دور :
یہ دربار سے وابستگی کا دور تھا لیکن ذوق ابھی زندہ تھے مرزا ابھی بادشاہ کے استاد نہیں بنے تھے لیکن اس دور میں میں زیادہ تر غزلیں انھوں نے بادشاہ کے پاس تحفہ لے جانے کی غرض سے سے یا شاہی قلعہ کے لیے لکھیں۔اس طرح ہم ان کی شاعری کے مختلف ادوار کے حوالے سے ان کے ذہنی اور فکری ارتقاء کو سمجھ سکتے ہیں۔ شروع میں ان کا تخلص اسد تھا بعد میں غالب استعمال کرنا شروع کر دیا۔
غالب کے خطوط کی خصوصیات:
مرزا غالب نے فارسی شاعری کے ساتھ ساتھ نثر میں بھی اپنا مقام پیدا کیا ان کی شاعری کے مجموعے میں" اردو معلی" اور "عود ہندی" شامل ہیں۔
اردو نثر کی روایت اور غالب:
مرزا غالب نے اردو میں اپنے خطوط لکھنے شروع کئے تو ان کے سامنے اردو کے مختلف دو اسالیب موجود تھے ایک سادہ اور آسان اسلوب تھا جو فورٹ ولیم کالج نے متعارف کروایا اور ان کی تحریروں میں بھی جا بجا نظر آتاہے۔ اس کا دوسرا اسلوب بہت مشکل اور مقفی اور مسجع انداز بیان پر مشتمل تھا جس میں فارسی کے اثرات بہت گہرے تھے اسے سمجھنا بھی بہت مشکل تھا یوں سمجھئے کہ دو انداز تحریر غالب کے سامنے تھے۔
غالب کی انفرادیت:
غالب نے آسان طرز تحریر اپنایا اور نثر میں سادہ انداز بیان کو فروغ دیا لیکن ان کی تحریریں پہلے سہل ممتنع تھی۔غالب معمولی سے معمولی بات کو اتنا خوبصورت انداز سے نکتہ آفرینی کے باعث اس طرح لکھا ہے کہ پڑھنے والا متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔
تصور عام کی پیروی:
ابتدا میں خود غالب کو بھی اپنے مکاتیب کی حسن و خوبی کا اندازہ نہیں تھا 1۸۵۸ئ￿ میں جب منشی شیو نرائن آرام نے ان کے حدود کو شائع کرنے کے لئے غالب سے اجازت مانگی تو انہوں نے دو ٹوک انداز میں منع کردیا اور خط میں لکھا :
"یہ بھی زائد بات ہے کہ کوئی رقعہ کا ایسا ہوگا جو میں نے قلم سنبھال کر اور دل لگا کر لکھا ہوگا ورنہ صرف تحریر سرسری ہے اس کی شہرت میری سخن وری کے شیوا کی منافی ہے "
یہ وہ زمانہ تھا جب میرزا ہر گوپال تفتہ نے بھی اسی بات پر زور دیا کہ اردو خطوط چھپ جانے چاہیے مرزا غالب اس پر برہم ہو کر لکھتے ہیں:
"رقعات کے چھاپنے میں میری خوشی نہیں ہے لڑکوں کی سی ضد نہ کرو اگر تمہاری اسی میں خوشی ہے تو صاحب مجھ سے نہ پوچھو تم کو اختیار ہے یہ امر میرے خلاف رائے ہے۔"
جب ان کے خطوط کی ہر طرف تعریفیں ہونے لگی تو احساس ہوا کہ یہ خطوط کتنے اہم ہیں۔
بے تکلفی اور سادگی:
غالب کے خطوط میں بے ساختگی، بے تکلفی اور سادگی کی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔مولانا غلام رسول مہر کے مطابق ان کے خط سراسر آمد تھے آورد سے ان کا دامن پاک تھا۔مرزا تفتہ سے خط نہ لکھنے کی شکایت اس طرح کرتے ہیں:
"کیوں صاحب کیا یہ آئین جاری ہوا ہے کہ سکندر آباد کے رہنے والے دلی کے خاک نشینوں کو خط نہ لکھیں ہے اگر یہ حکم ہوا ہوتا تو یہاں بھی اشتہار ہو جاتا کہ زنہار۔۔۔۔۔۔۔کہ کوئی۔۔۔۔۔۔"
جدت:
مرزا غالب کے خطوط کی خصوصیات جدت طرازی ہے۔ وہ لکھنے والے کو مختلف انداز میں مخاطب کرتے ہیں مثلا اس کی چند مثالیں دیکھی جا سکتی ہیں۔
1: بھائی ،تم سچ کہتے ہو۔
2: میاں ،تم کو پینشن کی کیا جلدی ہے؟
3: آئیے جناب میر مہدی صاحب دہلوی بہت دنوں میں آئے۔
4: آ ہا ہا ہا میرا پیارا میرمہدی آیا آ ؤ بھائی مزاج تو اچھا ہے۔
اپنا نام لکھنے کا منفرد طریقہ:
خطوط میں غالب نے اپنا نام بھی منفرد انداز سے لکھنے کا طریقہ اپنایا غلام غوث بے خبر کے نام خط میں لکھتے ہیں:
" قبلہ! آپ کو کبھی یہ بھی خیال آتا ہے کہ کوئی ہمارا دوست جو غالب کہلاتا ہے کیا کھاتا پیتاہے اور کیوں کر جیتا ہے۔"
انداز مکا لمیت:
غالب کے خطوط کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ ان کا انداز مکالمہ تھا وہ خط کیا لکھتے تھے گویا مخاطب کرنے والے سے بات چیت کرتے تھے اس کا احساس انہیں خود بھی تھا۔وہ مرزا حاتم علی بیگ مہر کو خط میں لکھتے ہیں:
" میں نے وہ انداز تحریر ایجاد کیا ہے کہ مراسلے کو مکالمہ بنا دیا ہے۔ ہزار کوس سے با زبان قلم باتیں کیا کرو ہجر میں وصال کے مزے لیا کرو۔"
ذات اور ماحول کی عکاسی:
غالب کی تحریروں میں ان کی شخصیت اور اردگرد کا ماحول بہت تفصیلی انداز سے پیش کیا گیا ہے۔ ان کے سب خطوط کو سامنے رکھا جائے تو غالب کی سوانحی کا بہتر طریقے سے جائزہ لیا جا سکتاہے۔ کن مکانات میں رہے،کن لوگوں سے تعلقات رہے،مشاغل کیا تھے، کھانے پینے کی تفاصیل، ان کو کون ایسی بیماریاں لاحق ہوئیں ،ظعف پیری ،سیر و سیاحت کی تفاصیل ،اخلاق و عادات، اصلاح شعر کا طریقہ وغیرہ سے متعلق معلومات ان کے خطوط سے حاصل کی جا سکتی ہیں۔
نکتہ آفرینی:
غالب کی تحریروں کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ بات بات میں لطیف نکتے پیدا کرتے ہیں۔ چودھری عبدالغفور سرور کو ایک خط میں لکھتے ہیں:
"اب دو باتیں سوچا ہو ں ایک تو یہ کہ جب تک جیتا ہوں یونہی رویا کروں گا دوسری یہ کہ آخر ایک دن مروں گا یہ صغریٰ و کبری دل نشیں ہیں نتیجہ اس کا تسکیں ہے."
شکوہ اور معذرت:
مرزا نے شکوہ اور شکایت میں نئے انداز پیدا کیے۔مرزا حاتم علی بیگ کے نام خط میں شکوہ کی تعریف یوں کرتے ہیں:
"بندہ پرور میں شکوے سے برا نہیں مانتا ،مگر شکوہ کے فن کو سوائے میرے کوئی نہیں جانتا شکوہ کی خوبی یہ ہے کہ راہ راست سے منہ نہ موڑے اور۔۔۔ دوسرے کے واسطے جواب کی گنجایش نہ چھوڑے۔"
تاریخی پرواز:
غالب کی تحریروں کی خصوصیت یہ ہے کہ ان کا تمثیلی اور تلمیحی طریقے کار اور تاریخی حوالے دینے کا انداز ہے جس سے وہ اپنی تحریر کو موثر بناتے ہیں۔
مزاح اور ظرافت:
طنز و مزاح اور ظرافت کا احساس ان کی تحریروں میں ایک تاثر پیدا کرتا ہے۔ الطاف حسین حالی انہیں" حیوان ظریف" کا خطاب دیتے ہیں یہ شوخی اور ظرافت کا احساس ان کی تحریروں میں نظر آتا ہے۔ انوار الدولہ مشفق کو خط میں لکھتے ہیں:
"ڈاک کا ہرکارہ جو بلی ماراں کے خطوط پہنچاتا ہے ان دنوں میں ایک بنیا پڑھا لکھا۔۔۔ کوئی فلاں ناتھ ڈھمک داس ہے۔"
یہ جو ڈاکیے کا نام غالب نے خود سے بنایا ہے اس سے عبارت میں ایک مزاح کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔
مقفیٰ عبارت:
قدیم نثری اسلوب کی یہ خصوصیت ہے کہ مشکل الفاظ اور قافیے کا اہتمام کیا جاتا تھا۔مرزا نے بھی ابتدائی دور میں مقفی انداز اپنایا لیکن آہستہ آہستہ ختم کر دیا اور بے تکلفی والا انداز اپنا لیا۔
کمال حسن تحریر:
غالب کی تحریر کا کمال یہ ہے کہ وہ تھوڑی بات میں گہری بات کہہ جاتیہیں خواہ نثر ہو یا شعر مختصر اور جامع بات کرتے ہیں الفاظ کا چناؤ دیکھ بھال کرتے ہیں۔
تعزیتی خطوط:
امین الدین احمد خان کے نام خط لکھتے ہیں جس میں ان کی والدہ کے انتقال پر تعزیت کر رہے ہیں لکھتے ہیں:
" بھائی صاحب اب تک سوچتا رہا کہ بیگم صاحبہ قبلہ کے انتقال کے بعد میں تم کو کیا لکھوں تعزیت کے واسطے تین باتیں ہیں اظہار غم ،تلقین صبر ،دعائے مغفرت ،سو بھائی اظہار غم تکلف محض ہے جو غم تم کو ہوا ممکن نہیں دوسرے کو ہوا ہو۔ تلقین صبر بے دردی ہے۔۔۔ پس ایسے موقع پر صبر کی تلقین کیا کی جائے۔رہی مغفرت میں کیا میری دعا کیا مگر چونکہ وہ میری مربیہ اور محسانہ تھیں دل سے دعا نکلتی ہے۔"
غالب کی شخصیت خطوط کے آئینے میں:
غالب کی تحریروں میں ان کی شخصیت بہت نمایاں نظر آتی ہے ان کے اخلاق اور عادات، لوگوں سے تعلقات ،غم و غصہ اور خوشی کے موقع پر جذبات، ارد گرد کے حالات کے اثرات، دوستوں کی صحبتوں میں ان کی شخصیت،مسلمانوں کے زوال اور انتشار پر ان کے جذبات نمایاں نظر آتے ہیں۔ان خطوط کے ذریعے ہم ان کی حالات زندگی کو آسانی سے مرتب کرسکتے ہیں۔
منظر کشی:
غالب کا کمال یہ ہے کہ وہ الفاظ کا استعمال اس طرح کرتے ہیں کہ لفظوں سے منظرکشی ہو جاتی ہے اور پڑھنے والا خود کو ان حالات میں محسوس کرنے لگتا ہے جس میں وہ غلط لکھے گئے۔ ان کے انداز بیان سے پڑھنے والے کی دلچسپی اور بڑھ جاتی ہے۔الغرض غالب نے مراسلے کو حقیقی معنوں میں مکالمے میں بدلا اور مراسلے کو نصف ملاقات کے بجائے مکمل ملاقات کی صورت دے دی۔غالب نے اردو نثر کی جو بنیاد رکھی اسی پر سر سید احمد خاں اور ان کے احباب نے مزید کام کیا اور اسے آگے بڑھایا

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...