Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > مباحث > تمثیل نگاری اور ن۔م۔راشد

مباحث |
حسنِ ادب
مباحث

تمثیل نگاری اور ن۔م۔راشد
ARI Id

1689956600868_56117466

Access

Open/Free Access

Pages

۲۱۲

قول ِمحال:(Paradox)
"ایسا تضادی بیان جو مسلمہ تصور کے برعکس ہو، پیراڈاکس کہلاتا ہے۔"
لیکن قولِ محال محض تضاد نہیں بلکہ قولِ محال جہاں شروع ہوا ہے، وہاں تضاد ختم ہونے لگتا ہے۔ تضاد تو ایک عمومی حقیقت ہے جس کے فنی بیان میں دلکشی تو ہے، صنعت کاری کا جمالِ فریب نہیں۔ اسے اتحادِ ضدین بھی کہہ سکتے ہیں۔
"پیراڈاکس’’ انیسویں صدی کی جدید صنعتِ بیان ہے جو ایک نوع کی ذہنی ورزش ہے۔نثر و نظم میں قولِ محال پیدا کرنا اور اس سے حِظ یاب ہونا، ترقی یافتہ ذہن کا کام ہے۔یہ انگریزی ادب سے ہمارے ہاں آیا۔انگریزی ادب میں آسکر وائلڈ، چسٹرٹن اور برنارڈ شا اس کے نقیب ہیں۔اردو شاعری میں قولِ محال کی مثالیں دیکھیے:
ہم نے جس شخص کو توقیرِ شناسائی دی
اس نے خوش ہوکے ہمیں عزتِ رسوائی دی
(دوسرے مصرعہ میں قولِ محال "عزتِ رسوائی"ہے)
جہلِ خرد نے دن یہ دکھائے!
گھٹ گئے انساں، بڑھ گئے سائے
(پہلے مصرعہ میں قولِ محال "جہلِ خرد’’ ہے)
(پروفیسر انور جمال کی تصنیف "ادبی اصطلاحات’’ مطبوعہ نیشنل بْک فاؤنڈیشن، اشاعتِ چہارم، مارچ 2017ئ￿ ، صفحہ نمبر 144 سے انتخاب)
ابہام:(Ambiguity)
ابہام ایک انگریزی اصطلاح ہے جسے اردو ادب میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ابہام کی صورت حال اس وقت رونما ہوتی ہے جب کسی لفظ، محاورے، جملے، اشارے وغیرہ کی ایسی ترسیل کی جائے کہ اس سے ایک کی بجائے کئی معانی اور مطالب ممکن ہوں۔ ابہام کا ایک عام پہلو عدم تعین ہے۔ یہ ہر خیال یا بیان کا خاصہ ہے جس کے ارادی معانی قطعی طور کسی اصول یا طریق? کار کی روشنی میں سلجھائے نہیں جا سکتے جس میں مقررہ اقدامات شامل ہوں۔
ابہام کی مثالیں:
کئی الفاظ جن کا عام طور سے استعمال کیا جاتا ہے، مختلف لوگوں کے لیے مختلف معانی کے حامل ہوتے ہیں۔ مثلًا لمبا یا اونچا کیا ہوتا ہے، اس کے معانی لوگ اپنی سوچ کے حساب سے طے کر سکتے ہیں۔ اس میں انفرادی کیفیات کا بھی بہت بڑا دخل ہے۔ مثلاً ایک بونا شخص اپنے قد سے کچھ اونچائی کو لمبائی پر محمول کر سکتا ہے جب کہ ایک شخص جو کسی جگہ کے عام لوگوں سے لمبا ہو، لمبائی کے معانی دوسرے کسی شخص سے مختلف رکھ سکتا ہے۔
تمثال نگاری:
انسانی ذہن اشیا ء کی غیر موجودگی میں ان کے تصور کو اپنے طور پر ابھار سکتا ہے۔تصوریت قدیم اور جدید فلسفے کی اہم روایت ہے۔تصوریت کو فلسفہ امثال بھی کہا جاتاہے۔ اس کی روح سے انسانی شعور ایک لوح کی مانند ہے جس پر تصویریں بنتی رہتی ہیں۔علم کا ساراعمل تصوراتی ہے اوروہ کہیں باہر سے حاصل نہیں کیا جاتا۔فن کی دنیا میں تمثال آفرینی کی اہمیت واضع ہے۔ خاص طور پر جدید دور میں تمثالیت کو بہت اہمیت ملی۔یہ انسانی ذہن کی ایک خاص خصوصیت ہے کہ وہ مختلف چیزوں کو اپنے ذہن میں تخلیق کرتا رہتا ہے اور پھر اسے مزید اپنی کیفیات کو ظاہر کرتا ہے۔
خود کلامی:
خود کلامی ڈرامے کی اصطلاح ہے۔ بعض اوقات ڈرامے میں ایسی صورت حال بھی پیدا ہوتی ہے جب کسی کردار کو سوچتے ہوئے دکھایا جاتا ہے۔لیکن اسے سوچتا ہوا کیسے دکھایا جائے ؟اس کے خیالات اور سوچ کے بارے میں ناظرین کو کیسے پتہ چلے گا؟ اس صورت حال میں اس کردار کو اپنے آپ سے بولتا دکھایا جاتا ہے۔جب وہ اکیلا ہوتا ہے۔ علم نفسیات میں سوچنے سے مراد خاموش بولنا ہے۔
علامت نگاری :Symbolism
ڈاکٹر سہیل احمد خان علامت کی تعریف یوں کرتے ہیں:
"لفظSymbol جس کے لیے اردو میں اب علامت کی اصطلاح قبول کرلی گئی ہے۔یونانی لفظSymbolon سے نکلا ہے۔ اور خود یہ لفظ دو لفظوں کا مجموعہ ہے۔Sym+bolon۔پہلے لفظ کا معانی" ساتھ" ہے اور دوسرے لفظ کا معنی "پجینکا ہوا"ہیلہذا پورے لفظ کا مطلب ہوا جسے ساتھ پھینکا گیا۔"
ادبی اصطلاح میں اس کا معنی یہ ہے کہ کوئی شاعر یا ادیب ایسے الفاظ کا استعمال کرتا ہے۔جس کے پس منظر میں کوئی خاص چیز پوشیدہ ہوتی ہے اور یہ لفظ اس کو نشانی کے طور پر بیان کرتا ہے۔ مثلا چاند کا لفظ خوب صورتی اور شیر بہادری کی علامت ہے۔
جدیداردو نظم میں جدید رجحانات:
اردو ادب میں جدید تبدیلیاں 1857 ء کے بعد ہوئیں۔سب سے پہلے طرز احساس میں تبدیلی آئی۔پھر سر سید تحریک نے اردو ادب کا تعلق جدید دور سے وابستہ کیا۔اور پھر اس پر عمل کیا گیا کہ " چلو ادھر کو ہوا جدھر کو"یا پھر حالی نے کہا تھا:
"حالی اب آؤ پیروی مغرب کریں"
مغرب کے خیالات و افکار ہمارے ادب میں داخل ہونے لگے۔محمد حسین آزاد نے کہا تھا:
"علوم و فنون کے صندوقوں کی کنجیاں اہل مغرب کے پاس ہیں۔"
اردو شاعری کو نیچرل بنانے کی کوشش کی گئی اور نئی راہوں کی نشاندہی ہوئی۔اقبال نظم طبع طبائی، اسماعیل میرٹھی جیسے لوگوں نے جدید اردو نظم میں اہم کردار ادا کیا۔
ن۔م۔راشد بطور نظم نگار اور ایک رجحان ساز شاعر
ن۔م۔راشد نے اردو شاعری کے نئے تجرباتی دور کا آغاز کیا کرشن چند" ماورا "کے دیباچے میں لکھتے ہیں:
"ان کی شاعری ہیئت اور مادے دونوں کے اعتبار سے موجودہ دور کی شاعری سے مختلف ہے۔راشد کی شاعری جنگ عظیم اول کے بعد کی شاعری ہے۔بظاہر یہ ایک انقلابی دور تھا۔جب ایشیا کے اکثر حصوں میں صنعتی، سیاسی اورمعاشی بیداری کا آغاز ہو رہا تھا۔راشد کی دوربین نگاہ مستقبل کے تقاضوں کو دیکھ رہی تھی۔اس لیے ان کی شاعری میں ہمیں جدت نظر آتی ہے اور روایت سے فرار کاانداز بھی نظر آتا ہے۔راشد نے اپنے سوچے سمجھے خیالات کے پس منظر میں نئے تجربات کئے۔"
راشد ایک انٹرویو میں بتاتے ہیں:
"میں نے غیر مقفع یا آزاد نظمیں صرف اس لیے لکھی ہیں کہ ان کے توسط سے میں اپنے افکار و خیالات کا اظہار اپنے خیال میں بہتر کرسکتا تھا۔"
راشد کا پہلا مجموعہ کلام "ماورا" 1941ء میں شائع ہوا۔ان کا دوسرا مجموعہ کلام "ایران میں اجنبی " 1955ئ￿ میں شائع ہوا۔ان کا تیسر امجموعہ کلام "لا=انسان"1969 میں شائع ہوا۔
ن۔م۔راشد کی شاعری کی خصوصیات
اختر شیرانی کے اثرات:
ن۔م۔راشد کی ابتدائی شاعری میں رومانوی عناصر زیادہ غالب نظر آتے ہیں۔
عورت کے اثرات:
راشد کی شاعری میں عورت کا مثالی تصور ہے۔بعض جگہوں پر انہوں نے نسوانی نام سے بھی اپنی شاعری میں اظہار خیال کیا۔لیکن ان کی رومانویت میں ایک رکھ رکھاؤ ہے۔مثلا ان کے ابتدائی دور کی ایک مشہور نظم ہے:
سوچتا ہوں کہ بہت سادہ و معصوم ہے وہ
میں ابھی اس کو شناسائے محبت نہ کروں
روح کو اس کی اسیر غم الفت نہ کروں
اس کو رسوا نہ کروں وقف مصیبت نہ کروں
(میں اسے واقف ِ الفت نا کروں)
فرنگ کے خلاف احتجاج:
راشد کی بغاوت محض جذباتی اور جنسی نا تھی بلکہ اس میں سیاسی اور سماجی عناصر بھی شامل تھے۔راشد نے اقتصادی لوٹ کھسوٹ کا جائزہ لیا۔انگریز جو تاجر بن کر آئے تھے پھر ہندوستان کے اقتدار پر قابض ہو گئے تھے۔پورا معاشی نظام ان کے ہاتھ میں چلا گیا تھا اس پر راشد احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔
وہ حسیں اور دور افتادہ فرنگی عورتیں
تو نے جن کے حسنِ روز افزوں کی زینت کے لیے
سالہا بے دست و پا ہو کر بْنے ہیں تار ہائے سیم و زر
اْن کے مردوں کے لیے بھی آج اک سنگین جال
ہو سکے تو اپنے پیکر سے نکال!
زنجیر(ایران میں اجنبی)
مذہب سے بغاوت:
یہ راشد کی تیسری بغاوت ہے جس میں خدا کے تصور پر اس کے ذہن اور دماغ میں ایک بغاوت پیدا ہوئی اس بغاوت کا سیاسی اور سماجی پہلو ہے مثلا وہ اپنی شاعری میں سوال اٹھاتا ہے اگر خدا کا وجود ہے تو وہ ہمیں ذلیل و رسوا کیوں کر رہا ہے صرف مشرق کے لوگوں کو ہی مسائل نے کیوں جھکڑا ہوا ہے مغرب جو اس کے وجود کا انکاری ہے عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رہا ہے ڈاکٹر وزیر آغا نے اس کو انہی باتوں کی بنا پر" باغی" قرار دیا ان کی شاعری میں نہ صرف اپنی دھرتی کے مسائل نظر آتے ہیں بلکہ پوری دنیا کے مسائل کو وہ اپنی شاعری کا موضوع بناتا ہے۔
اسلوبیاتی پہلو اور ہیئت:
راشد نے اپنی نظموں میں نئے انداز اور پیرائے کو اپنایا انہوں نے اپنی نظموں کو مختلف صنفوں میں تقسیم کیا سانیٹ کی ہیئت استعمال کی کہیں پابند نظم قافیوں کا استعمال ہے کہیں نثری نظم ہے انہوں نے مختلف زبانوں کی تراکیب کو بھی جدت دی مثلا فارسی اردو عربی اور ہندی اثرات ان کی شاعری میں نمایاں نظر آتے ہیں۔
جنسیت:
ان کے ہاں جنسیت کا تصور بھی پایا جاتا ہے راشد کی شاعری میں جنس کا تصور اس طرح سے ملتا ہے جو محبت اور گناہ کے جذبات کے درمیان ایک کشمکش نظر آتی ہے مسلمان ان کی ایک مکا فات اس میں وہ اپنے جذبے کو اس اس طرح بیان کرتے ہیں:
یہ مل رہی ہے میرے ضبط کی سزا مجھ کو
کہ ایک زہر لبریز ہے شباب۔۔۔؟
گناہ ایک بھی اب تک کیا نہ کیوں میں نے
سیاسی نظمیں:
راشد نے قدیم طرز سے بغاوت کی پہلے مغرب کی سیاسی غلامی کے خلاف اپنی شاعری میں بغاوت کی اور پھر ادبی اور فنی روایات سے بغاوت کی۔ ماورا کے بعد کی نظموں میں شدتِ جذبات میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔ ان کی یہ نظمیں موضوع کے لحاظ بڑی متنوع ہیں، ان میں مختلف ممالک اور خاص طور پر شرق الاسط کے سیاسی و سماجی مسائل کا ذکر ملتا ہے۔
انسان کا تصور:
راشد کی شاعری میں انسان کا تصور ملتا ہے جس میں ایک نئے انسان کی پیدائش کا ذکر ہے جو آفاقی نوعیت کا ہوگا ان کا ایک مجموعہ کلام لا مساوی انسان ہے۔اقبال کے تصور انسان اور راشد کے تصور انسان میں بہت فرق ہے ان کی نظم میرے بھی ہیں کچھ خواب اس میں ایک سیکولر انسان کا تصور ہے جب کہ اقبال کے ہاں تصور انسان مرد مومن کا ہے۔گماں کا ممکن جس میں ایک نئے آدمی کی پیدائش کی خبر ملتی ہے اس میں آفاقیت ہے۔
کردار نگاری:
راشد کی نظموں میں جو کردار نظر آتے ہیں اسی معاشرے کے ہیں جو مختلف مسائل میں مبتلا نظر آتے ہیں ان کی نظمیں میں" حسن کوزہ گر" شہر کے نام سے نظم ہے اس میں مٹی کے کام کرنے والوں کو علامتی طور پر استعمال کیا حسن کوزہ گر وقت کا چکر بن جاتا ہے جس پر انسان مٹی کے برتنوں کی طرح بنتے اور بگڑتے ہیں ایک نظم ہے" رقص" اس میں جو کردار پیش کیا وہ تہذیب کے زوال کا شکار کردار ہے راشد کی نظموں میں مکالماتی انداز بھی نظر آتا ہے مختلف کرداروں کو پیش کیا تو ان کے مکالموں کو بھی اپنی شاعری میں پیش کیا "اندھا کباڑی "نظم یہ بھی علامتی نظم ہے ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں:
"راشد نے اس انسان کو تلاش کیا جو سب آدمیوں کے بطون میں ایک جوہر نایاب کے طور پر موجود ہے۔"
راشد نے اقوام متحدہ کی ملازمت بھی کی اس کے اثرات بھی شاعری میں نظر آتے ہیں انہوں نے ایک عالم گیر ریاست کا خواب دیکھا۔
فارسی کا اثر:
راشد کی شاعری پر فارسی کا گہرا اثر ہے زیادہ وقت وہ ایران میں رہے وہاں کے حالات اور تہذیب کے اثرات ان کی شاعری میں جا بجا نظر آتے ہیں۔
ابہام:
ان کی شاعری میں کئی قسم کا ابہام نظر آتا ہے اور یہ ایسی خصوصیت ہے جس کے بارے میں انہوں نے خود بھی ایک انٹرویو میں بیان کیا:
"میری نظموں میں ابہام ضرور ہے حتی کہ فیض جیسے ذہین اور دانش مند شاعر نے بھی کہیں اشارہ کیا۔"
یہ ابہام استعماری نوعیت کا بھی ہے اور لفظی نوعیت کا بھی راشد کے ہاں روایت سے ہٹ کر نئے دور کے انداز اور ان کی شاعری میں خوبصورت زبان استعمال کی گئی منظر نگاری کا استعمال ہوا۔ منظر نگاری ان کی فنی اور فکری خصوصیات کو پیش کرتی ہیں" ایران میں اجنبی" میں ایک تنوع پایا جاتا ہے اس میں ایران کوموضوع بنایا راشد نے ایک اجنبی سپاہی کی نظر سے ایران کو دیکھا۔
مختصر یہ کہ راشد جدید اردو شاعری کا بہت بڑا نام ہے جنہوں نے اردو نظم کو نئے موضوعات فکر اور فن سے روشناس کروایا مغربی تحریکوں کے اثرات ان کی شاعری میں نمایاں نظر آتے ہیں زندگی کے تلخ حقائق اور خوبصورتی کو شاعری کے موضوع بنائے ان کی بغاوت فکروفن اور مذہب سے نمایاں نظر آتی ہے انہوں نے اسالیب کو نئے سانچوں میں ڈھال کر پیش کیا۔راشد کی شاعری میں ایک نئے دور کی تمہید ہے اردو نظم کا دائرہ کار وسیع ہوا اور پھر مزید نئے لکھنے والوں کے لئے نئی راہیں کھل گئیں۔ اقبال جس نے جدید نظم کو جدت سے آشنا کیا اسی رنگ کو راشد، مجید امجد ،فیض جیسے لوگوں نے آگے بڑھایا

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...