Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > مباحث > ن۔م۔راشدؔ

مباحث |
حسنِ ادب
مباحث

ن۔م۔راشدؔ
ARI Id

1689956600868_56117467

Access

Open/Free Access

Pages

۲۱۸

تعارف:
اردو کے یہ منفرد روایت شکن، ترقی پسند شاعر یکم اگست 1910ء میں علی پور چٹھہ، ضلع گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام راجا نذر محمد تھا۔ اور تاریخی نام " خضر" تھا۔ آج اردو ادب کی جدید تاریخ ن م راشد کے ذکر کے بغیرنا مکمل ہے۔ وہ جدید شاعری میں آزاد نظم کے بانی، علامت نگاری کی تحریک، نفی دانش کے اولین مشعل بردار ہیں۔
پہلا مجموعہ کلام:
اردو شاعری کو روایتی تنگنائے سے نکال کر بین الاقوامی دھارے میں شامل کرنے کا سہرا ن م راشد اور میرا جی کے سر جاتا ہے۔ 1942ء میں ن م راشد کا پہلا مجموعہ ’ماورا‘ شائع ہوا جو نہ صرف اردو آزاد نظم کا پہلا مجموعہ ہے بلکہ یہ جدید شاعری کی پہلی کتاب بھی ہے۔ ماورا سے اردو شاعری میں انقلاب بپا ہو گیا،اور یہ انقلاب صرف صنفِ سخن یعنی آزاد نظم کی حد تک نہیں تھا، کیوں کہ تصدق حسین خالد پہلے ہی آزاد نظمیں لکھ چکے تھے، لیکن راشد نے اسلوب، موضوعات اور پیش کش کی سطح پر بھی اجتہاد کیا۔
فیض اور راشد:
ن م راشد کا تقابل اکثر فیض احمد فیض کے ساتھ کیا جاتا ہے، لیکن صاف ظاہر ہے کہ نہ صرف فیض کے موضوعات محدود ہیں بلکہ ان کی فکر کا دائرہ بھی راشد کے مقابلے پر تنگ ہے۔ ساقی فاروقی بیان کرتے ہیں :
" فیض نے خود اعتراف کیا تھا کہ وہ راشد کی طرح نظمیں نہیں لکھ سکتے کیوں کہ راشد کا ذہن ان سے کہیں بڑا ہے۔"
فیض اور راشد میں ایک قدرِ مشترک یہ بھی ہے کہ دونوں ترقی پسند شاعروں کے مجموعے دوسری جنگِ عظیم سے پہلے شائع ہوگئے تھے۔ راشد کی ماورا 1940ء اور فیض کی نقشِ فریادی 1941ء میں۔ ماورا نہ صرف اردو آزاد نظم بلکہ جدید اردو شاعری کا پہلا مجموعہ ہے۔ ماورا اردو شاعری میں انقلاب لے آئی اور یہ انقلاب صرف نثری یا آزاد نظم کی حد تک نہیں تھا، کیونکہ آزاد نظم اس سے پہلے بھی لکھی جا چکی تھی، بلکہ اس لیے بھی کہ ن م راشد نے ماورا میں ردیف و قافیہ سے ماورا ہو کر تجریدی اور علامتی شاعری کی اور تکنیک میں نئے تجربے کیے تھے۔
فن:
ن م راشد اورمیرا جی سے پہلے اردو نظم سیدھی لکیر پرچلتی تھی۔ پہلے موضوع کا تعارف، پھر تفصیل اور آخر میں نظم اپنے منطقی انجام تک پہنچ کر ختم ہو جاتی تھی۔ نظم کے موضوعات زیادہ تر خارجی مظاہر سے عبارت ہوا کرتے تھے، جنھیں ایک لحاظ سے صحافتی نظمیں کہا جا سکتا ہے: واقعات کے بارے میں نظمیں، موسم کے بارے میں نظمیں، میلوں ٹھیلوں کا احوال یا حبِ وطن۔ یا اسی قسم کے دوسرے موضوعات کا احاطہ نظم کے پیرائے میں کیا جاتا تھا۔راشد اور میرا جی نے جو نظمیں لکھیں وہ ایک طرف تو ردیف و قافیہ کی جکڑبندیوں سے ماورا ہیں، تو دوسری جانب ان کے موضوعات بھی زیادہ تر داخلی، علامتی اور تجریدی نوعیت کے ہیں اور ان کی نظمیں قارئین سے کئی سطحوں پر مخاطب ہوتی ہیں۔
فکر:
ن م راشد کی زیادہ تر نظمیں ازل گیر و ابدتاب موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں، جو ان پرحتمی رائے قائم نہیں کرتیں بلکہ انسان کو ان مسائل کے بارے میں غور کرنے پر مائل کرتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کی شاعری کے لیے زبردست مطالعہ اور اعلیٰ تخلیقی صلاحیتیں اورتیکھی ذہنی اپج درکار ہے جو ہر کسی کے بس کا روگ نہیں ہے۔ راشد کے پسندیدہ موضوعات میں سے ایک اظہار کی نارسائی ہے۔ اپنی غالباً اعلیٰ ترین نظم حسن کوزہ گر‘میں وہ ایک تخلیقی فن کار کا المیہ بیان کرتے ہیں جو کوزہ گری کی صلاحیت سے عاری ہو گیا ہے اور اپنے محبوب سے ایک نگاہِ التفات کا متمنی ہے جس سے اس کے خاکستر میں نئی چنگاریاں پھوٹ پڑیں۔ لیکن راشد کی بیشتر نظموں کی طرح حسن کوزہ گر بھی کئی سطحوں پر بیک وقت خطاب کرتی ہے اور اس کی تفہیم کے بارے میں ناقدین میں ابھی تک بحث و تمحیص کا سلسلہ جاری ہے۔
جدید انسان:
راشد کے بڑے موضوعات میں سے ایک خلائی دور کے انسان کی زندگی میں مذہب کی اہمیت اور ضرورت ہے۔ یہ ایک ایسا زمانہ ہے جہاں روایتی تصورات جدید سائنسی اور فکری نظریات کی زد میں آ کر شکست و ریخت کا شکار ہو رہے ہیں اور بیسویں صدی کا انسان ان دونوں پاٹوں کے درمیان پس رہا ہے۔ راشد کئی مقامات پر روایتی مذہبی خیالات کو ہدفِ تنقید بناتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی بعض نظموں پر مذہبی حلقوں کی طرف سے خاصی لے دے ہوئی تھی۔
مجموعے:
راشد کے تین مجموعے ان کی زندگی میں شائع ہوئے تھے،
ماورا ایران میں اجنبی لا =انسان،
جب کہ "گمان کا ممکن"ان کی موت کے بعد شائع ہوا تھا۔
انتقال:
راشد کا انتقال 9 اکتوبر 1975ء کو لندن میں ہوا تھا۔ ان کی آخری رسوم کے وقت صرف دو افراد موجود تھے، راشد کی انگریز بیگم شیلا اور ساقی فاروقی جب کچھ لوگ عبداللہ حسین کا ذکر بھی کرتے ہیں۔۔ ساقی لکھتے ہیں کہ شیلا نے جلد بازی سے کام لیتے ہوئے راشد کے جسم کو نذرِ آتش کروا دیا اور اس سلسلے میں ان کے بیٹے شہریار سے بھی مشورہ لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی، جو ٹریفک میں پھنس جانے کی وجہ سے بروقت آتش کدے تک پہنچ نہیں پائے۔ ان کی آخری رسوم کے متعلق یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ راشد چونکہ آخری عمر میں صومعہ و مسجد کی قیود سے دور نکل چکے تھے، اس باعث انہوں نے عرب سے درآمد شدہ رسوم کی بجائے اپنے لواحقین کو اپنی آبائی ریت پر، چتا جلانے کی وصیت خود کی تھی۔
ن م راشدبحیثیت نقاد:
ن م راشد نہ صرف شاعر، بلکہ ایک مفکر، مترجم اور ناقد بھی تھے۔ ان کی اپنی کتابوں کے لیے لکھے گئے ان کے دیباچے ان کی ناقدانہ سوچ کا اظہار کرتے ہیں۔ جدید فارسی شاعری اور جدید ایرانی شعراء پر ان کی کتاب ’’جدید فارسی شاعری‘‘ نہ صرف اس انقلاب کی عکاس ہے جس سے بیسویں صدی میں فارسی شاعری گزری، بلکہ ان کے بحیثیتِ ناقد ہنر کا ثبوت بھی ہے۔ انہوں نے نہ صرف پاکستانی ادب اور نفسیات کے ایران سے ربط پر روشنی ڈالی بلکہ جدید ایرانی فارسی شاعری کا اردو ترجمہ بھی کیا۔ ان کی اپنی شاعری بھی فارسی شاعری سے متاثر نظر آتی ہے۔ ن م راشد کی نظموں میں فارسی تراکیب فارسی زبان سے اردو میں اس طرح منتقل کی گئی ہیں کہ وہ اردو کا ہی حصہ لگتی ہیں، جیسا کہ یزداں و اہرمن، سرزمینِ انجم، جلوہ گہ راز، فردوسِ گم گشتہ، ملائے رومی، مجذوبِ شیراز وغیرہ۔
کھردرے جذبات کے شاعر:
ان کے بعد کے مجموعہء کلام میں ان کے نظریات کافی پختہ دکھائی دیے۔ ان کی شاعری روایتوں میں جکڑی تعلیم یافتہ مسلمان نسل کی عالمی تناظر میں ذہنی صورتِ حال کی عکاس تھی۔ ان کا مخاطب بھی یہی بدلتی ثقافتوں میں حیران کھڑا تعلیم یافتہ شخص ہی ہے۔ ان کی شاعری میں جذبات بھی نظریات کے سائے میں میچور دکھائی دیتے ہیں۔ وہ نرم نہیں بلکہ کھردرے جذبات کے شاعر ہیں۔ ان کی شعری دنیا میں حیرت زدہ سراسیمہ کرداروں کا ہجوم ہے، آدم ہے، خدا ہے، فرشتے ہیں، اور حسن کوزہ گر ہے۔
کردار نگاری:
ماورا میں کچھ کردار ہیں جو کہ ’’میں‘‘ کے صیغہ میں نظر آتے ہیں۔ ان کی نظموں ’’رقص‘‘، ’’خود کشی‘‘ اور ’’انتقام‘‘ میں ایسے کردار پائے جاتے ہیں جن میں ’’میں‘‘ کو بطورِ کردار استعمال کیا گیا ہے۔ یہ کردار زندگی کے مسائل، المیے اور محرومی کا شکار ہیں۔ جب کوئی بھی شاعر، ادیب یا فنکار روایت سے ہٹتا ہے تو لکیر کے فقیر دانت پیستے ہیں۔ اعتراض کرنے والوں کو یہ سمجھ نہ آ سکا کہ نظموں میں ’’میں‘‘ کا استعمال ایک شعری انداز ہے اور ضروری نہیں کہ شاعر اپنا ہی ذکر کر رہا ہو۔ یوں انہیں ابہام کا شکار، مریضانہ فرار، شکست خوردہ ذہنیت اور غیر سماجی رویوں کا مالک کہا گیا۔
علامتی کردار:
ن م راشد کے تخلیق کردہ علامتی کرداروں میں سے ایک ’’اندھا کباڑی‘‘ ہے جو اندھا ہے مگر بصیرت رکھتا ہے۔ اس کا شہر بصارت رکھتا ہے مگر بصیرت سے محروم ہے اور کباڑی کے آواز لگانے اور خوشامد کے باوجود کوئی اس سے خواب خریدنے نہیں آتا۔
خوب لے لو خواب
خواب اصلی ہیں کہ نقلی؟
یوں پرکھتے ہیں کہ جیسے ان سے بڑھ کر
خواب داں کوئی نہ ہو!
محبت کے بارے میں ن م راشد کا نظریہ:
روایتی شاعری کے علاوہ ن م راشد روایتی مشرقی محبت کو بھی چیلنج کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک محبت محض ایک تقاضا ہے۔ اس کی نظم ’’میں اسے واقف الفت نہ کروں‘‘ یوں تو سادہ ہے مگر اس میں زندگی کے کئی پہلو نمایاں ہیں۔
سوچتا ہوں کہ بہت سادہ و معصوم ہے وہ
میں ابھی اس کو شناسائے محبت نہ کروں
روح کو اس کی اسیرِ غم الفت نہ کروں
اس کو رسوا نہ کروں، وقفِ مصیبت نہ کروں
پراسرار شاعری:
ان کی شاعری میں پْراسراریت ہے، ماضی اور ماضی کے تجربات، داستانیں، خواب، ناتمام خواہشیں اور پرانی یادیں ہیں۔ بھولے بسرے چہرے اور فراموش شدہ آوازیں ہیں۔ سمندر کی تہ جو لاشعور ہے۔
سمندرکی تہ میں
سمندر کی سنگین تہ میں
ہے صندوق۔۔۔۔۔۔۔
صندوق میں ایک ڈبیا میں ڈبیا
تشبیہات اور استعارات کا استعمال:
قافیہ اور ردیف کی غیرموجودگی میں ن م راشد کی تشبیہوں، استعاروں اور تلمیح نے ان کی نظموں کو حْسن دیا ہے۔
عشق کا ہیجان آدھی رات اور تیرا شباب
تیری آنکھ اور میرا دل
عنکبوت اور اس کا بے چارہ شکار
تلمیحات کا استعمال:
ان کی کچھ تلمیحات تاریخی ہیں، جیسے ’’سلیماں سر بہ زانو اور سبا ویراں‘‘
سلیماں سر بزانو اور سبا ویراں
سبا ویراں، سبا آسیب کا مسکن
اور ’’اسرافیل کی موت‘‘ جو ن م راشد نے ایوب کے مارشل لائی دور میں آزادیئ￿ تحریر و تقریر پر پابندی پر لکھی تھی۔
مرگِ اسرافیل سے
دیکھتے رہ جائیں گے دنیا کے آمر بھی
زبان بندی کے خواب!
کہانی کی طرز پر نظمیں:
کئی نظمیں کہانی کی طرز پر ہیں خاص طور پر لا=انسان اور گماں کا ممکن میں، مثلاً حسن کوزہ گر اور ابولہب کی شادی۔’’حسن کوزہ گر‘‘ کو اردو شاعری کا شاہکار کہا جاتا ہے۔ اس میں عشق اور تخلیق کے بارے میں نظم میں جو کچھ کہا گیا، بے مثال ہے۔ اردو اور فارسی کی شعری روایت میں آدمی بھی مٹی کا بنا ہے اور کوزہ بھی۔ دونوں کا مقدر خاک ہونا ہے۔ کوزے میں صہبا سما سکتی ہے اور انسان کا دل معرفت کی مے سے لبریز ہو سکتا ہے۔ اس صوفیانہ رنگ میں، ن م راشد نے نظم میں اردو غزل کی کیفیات پرو کر یہ بے مثال اور لازوال افسانوی نظم لکھی۔ وہ ایک فنکار کا المیہ بیان کرتے ہیں جو اب کوزہ گری کی صلاحیت سے محروم ہو گیا ہے اور تخلیق کی صلاحیت دوبارہ پانے کے لیے اپنے محبوب کی ایک نگاہ کا طلب گار ہے۔ انہوں نے یہاں فن اور عشق کا تعلق بتایا ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے ضروری ہیں۔
جہاں زاد، نیچے گلی میں ترے در کے آگے
یہ میں سوختہ سر حسن کوزہ گر ہوں!
روایت شکنی:
ایسا کیا تھا جس نے ن م راشد کی شاعری کو لازوال بنا دیا؟ کیا اس لیے کہ وہ روایت شکن تھے؟ انہوں نے روایت پسندوں اور مذہبی ذہنیت کو تنقید کا نشانہ بنایا لیکن یہ بھی سچ ہے کہ خود ترقی پسندوں اور روشن خیالوں نے بھی انہیں تنقید کا نشانہ بنایا۔ شاید اس سب سے بڑھ کر ان کی شاعری کے زندہ رہنے کا سبب وہ سحر ہے جو وہ اپنے چونکا دینے والے جدت پسند خیالات سے پھونکتے ہیں۔
انہیں غلط طور پر تنقید کا نشانہ ہی نہیں بنایا گیا بلکہ غلط وجوہات کی بنا پر ان کی تعریف بھی کی گئی۔ کچھ نے ان کی تعریف صرف اس لیے کی کہ انہوں نے کٹر ملا اور روایتی مذہبی خیالات کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ کچھ نے انہیں صرف اس لیے تنقید کا نشانہ بنایا کہ انہوں نے اردو میں نثری نظم کی روایت ڈالی، جو قافیے اور ردیف کی شعری روایتوں میں جکڑے کچھ ناقدوں کی رائے میں شاعری ہی نہیں۔ آزاد نظم کو ایک نیا لہجہ اور نئی صورت عطا کرنے والوں میں ن م راشد اور میرا جی قابلِ ذکر ہیں۔ آزاد نظم کا شروع میں خوب مذاق بھی اڑایا گیا۔ شوکت تھانوی، کنہیا لال کپور اور شفیق الرحمٰن نے اس کی پیروڈیاں لکھیں۔
شاعری میں داخلی اضطراب کا اظہار:
ن م راشد کی سوچ اور فکر اپنے زمانے کی کسی سیاسی اور ادبی تحریک کی محتاج نہ تھی بلکہ ان کے اپنے داخلی اضطراب کا نتیجہ تھی جو ہر سوچ اور فکر والے شخص کا نصیب ہے۔ یہی اضطراب ان کی شاعری میں جا بجا دکھائی دیتا ہے۔ ان کی شاعری جذبات کو محض اکساتی نہیں ہے بلکہ ان کا مطمع نظر انسان کی آزادی ہے، روایتوں سے، گھسی پٹی سوچ سے، اور اس سے بڑے پیمانے پر مغرب کی ثقافتی اور فکری غلامی سے مشرق کی آزادی۔
ن۔م۔راشد اور حلقہ ارباب ذوق:
ن۔م۔راشدحلقہء ار باب ذوق سے وابستہ شاعروں میں سے تھے جنہوں نے شاعر ی کو محض اصلاحی وسماجی انقلاب یا سیاسی پیغام کے لئے استعمال کرنے کے روئیے سے بغاوت کی اور اس طرح ترقی پسند تحریک کی نظریاتی شاعری سے انحراف کیا۔ان کی شاعری کا محور و مرکز انسانی حیات کی گوں نا گوں سچائیاں ہیں۔انہوں نے اردو شاعری کو نئی فکری و فنی جہتوں سے ا?شنا کیا اور روایتی اسلوب شاعری سے بغاوت کی۔انہوں نے خود اپنے پہلے شعری مجموعے ’’ ماورا ‘‘ میں خود کو ’’ قدیم اسالیب بیان کا ادنی ٰباغی قرار دیا ہے۔
آزاد اور معرٰی نظمیں:
انہوں نے پابند نظموں سے زیادہ آزاد اور معریٰ نظم کو اپنی تخلیقی اظہار کا وسیلہ بنایا اور اس میں مختلف ہئیتی تجربے کئے۔’’ ماورا ‘‘،’’ایران میں اجنبی ‘‘ انسان ‘‘ اور ’’ گمان میں ممکن ‘‘ ان کے شعری مجموعے ہیں جو اردو شاعری میں نئی حسیت اور نئے تجربوں کی امین ہیں۔’’ رات کے سناٹے ‘‘،’’ اتفاقات ‘‘،’’ دریچے کے قریب ‘‘ ،’’ رقص ‘‘ ، انتقام ‘‘ ،’’ اجنبی عورت ‘‘،’’ نمرود کی خدائی ‘‘ راشد کی نمائندہ نطموں میں شمار کی جا تی ہیں۔ان کی نظم ’’ اتفاقات ‘‘ سے انکے شعری روئیے اور فکری جہات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
آسماں دور ہے لیکن یہ زمیں ہے نزدیک
آ اسی خاک کو ہم جلوہ گہہ راز کریں
روحیں مل سکتی نہی ہیں تو یہ لب ہی مل جائیں
آ اسی لذّت ِ جاوید کا آغاز کریں
معاشرے کے اجتماعی درد کا اظہار:
راشدؔ کی نظموںمیں فرد کی داخلی اضطراب کے ساتھ معاشرے کا اجتماعی درد بھی فنی تقاضوں کے دائرے کے اندر ظاہر ہوتا ہے۔ان کی نظموں میں رومانی فضا بھی ملتی ہے مگر اس میں ایک اضطراب ،ایک بے چینی اور روحانی کرب کا اظہار بھی ملتا ہے اور وہ اس اضطراب اور بے چینی کی کیفیت سے کہیں دور نکل جانا چاہتے ہیں۔
میں نالہء شب گیر کے مانند اٹھوں گا
فریاد اثر گیر کے مانند ٹھوں گا
تْو وقت ِ سفر مجھ کو نہیں روک سکے گی
پہلو سے تیر کے مانندا ٹھوں گا
راشد کا رومانی تصور:
راشدؔکے یہاں محبت کا رومانی تصور وہی ہے جو فیض ؔکے یہاں ملتا ہے۔فیض? کے یہاں عشق سماجی ذمہ داریوں پر قربان ہو جاتا ہے۔ان کے یہاں عشق ہی سب کچھ نہیں ہے بلکہ معاشرے کی پریشانیاں اور محروی عشق پر مقدم ہے اس لئے وہ کہتے ہیں:
اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کے راحت کے سوا
سطحی جنسیت:
راشدؔجنس کے مذہبی تصور کو نہیں مانتے اور اسے ویشومت کے فلسفے کے زیر اثر روحانی تسکین کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور جنسی خواہشات کی تشکیل کے بعد غم کے بحر بیکراں میں سکون پیدا ہو جاتا ہے۔
تیرے سمن زاروں میں ،اٹھیں لرزشیں
میرے انگاروں کو بے تابانہ لینے کے لئے
اپنی نکہت اپنی مستی مجھکو دینے کے لئے
غم کے بحر بیکراں میں ہوگیا پیدا سکوں
لہذا،ن۔م۔راشد کی سطحی جنسیت پر اظہار خیال کرتے ہوئے ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں:
’’ اسی طرح ‘‘،’’ آنکھوں کے جال‘‘ ،’’ گناہ‘‘ اور عہد وفا ‘‘ میں راشدؔنے محبت کی مسرت کو گناہ کی لذ ت تک محدود کر دیا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ وہی شاعرجو ابتداء میں محبت کو گناہ سے کہیں زیادہ ارفع تصور کرتا ہے اور گناہ کی ’’ ہوس پرستی ‘‘سے محبت کی ’’ پاکیزہ زندگی ‘‘کی طرف مراجعت کو ’’فردوس گم گشتہ ‘‘کی تلاش قرار دیتا ہے۔جب بعد ازاں بے اطمینانی کا شکار ہوتا ہے تو محض انتقاماً محبت پر گناہ کو فوقیت دینے لگتا ہے۔بہر حال ،راشدؔ کے یہاں محبت کو تصور سے انحراف کی صورت اختیار کر گیا ہے اور راشدؔ کی بغاوت کا یہ ایک قابلِ ذکر غور پہلو ہے۔"
خدا سے باغیانہ لہجہ:
جنس سے متعلق معاشرے کے روایتی مشرقی تصور کے علاوہ راشدؔ کے یہاں خدا سے متعلق ایک باغیانہ لہجہ ملتا ہے جو نطشے ?سے متاثر ہے۔حلقہء ارباب ذوق اور بعد میں جدیدیت کے تحت ہونے والی شاعری میں خدا کی ذات سے متعلق تشکیک اور باغیانہ رویّہ عام تھا۔نطشےؔنے خدا کی موت کا اعلان کر دیا تھا۔یہ دراصل سماجی انتشار،انسان کی بدحالی اور دنیا میں تباہی و بربادی پر شاعروں اور فلسفیوں کا غیر روایتی ردِّ عمل تھا۔راشد ؔکے یہاں بھی خدا سے بغاوت کا کم وبیش یہی انداز ملتا ہے۔ ’’پہلی کرن ‘‘ ، ’’دریچے کے قریب ‘‘ ،شاعرِ درماندہ ‘‘ اور ’’ اتفاقات ‘‘ انکی ایسی ہی نظمیں ہیں۔
نہیں اس دریچے کے باہر تو دیکھو
خدا کا جنازہ لئے جا رہے ہیں فرشتے
اسی ساحر بے نشاں کا
جو مغرب کا آقا ہے مشرق کا آقانہیں
مگر وزیر آغا ،راشد کو منکر خدا نہیں مانتے تھے۔انکے خیال میں راشدؔخدا کی ’’ ناانصافی ‘‘ کو طنز کا نشانہ بنا تے ہیں۔اس خدا مخالف روئیے کا نفسیاتی تجربہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’ یہ نہیں کہ راشد ؔخدا کے منکر ہیں۔انہوں نے اپنی بہت سی نظموں میں مغرب کے خدا کے وجود کو تسلیم اور مشرق کے خدا کا انکار کرکے دراصل خدا کی ’’ ناانصافی ‘‘ کو نشانۂ طنز بنایا ہے۔تاہم یہ طنز ایک ایسے فرد کی طنز ہے جو بے اطمینانی کا شکار ہو کر انتقامی روش اختیار کرنے پر مجبور ہوگیا ہو۔"
سماجی شعور:
راشدؔکی شاعری میں اگرچہ فرد کے داخلی کرب اور عقیدے کا اظہار زیادہ ہوا ہے مگر وہ گہرا سماجی شعور بھی رکھتے ہیں اور سماجی مسائل سے بھی مضطرب رہتے ہیں۔راشدؔترقی پسند وں کی سماجی انقلاب کے پروپگنڈوے اور شاعری میں سیاسی نعرے بازی کے مخالف تھے مگر وہ سماج کے درد کو شاعری میں فنی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے پرونے میں بھی یقین رکھتے تھے۔انکی نظم ’’ مجھے وداع کر ‘‘ میں اس سماجی شعور کی کارفرمائی ہے۔
مجھے وداع کر
کہ آب و گل کے آنسوئوں
کی بے صدائی سْن سکوں
جات ومرگ کا سلام روستائی سْن سکوں
میں روز و شب کے دست و پا کی نارسائی سْن سکوں
مجھے وداع کر
انقلاب و بغاوت کا پیغام:
راشدؔ جس دور میں شاعری کر رہے تھے وہ دور تحریک آزادی کے شباب کا دور تھا۔غیر ملکی استبداد کے خلاف قلمی وعلمی طور پر جدوجہد جاری تھی۔شاعروں نے اپنے اپنے اسلوب و لہجے میں اس غیر ملکی غلبے اور سامراجی طاقت کے خلاف القلاب وبغاوت کا پیغام دیا۔راشد ؔ نے بھی ایسی نظمیں کہیں جن میں بغاوت کی تر غیب اور ایک نئی صبح کی بشارت ہے۔انکی نظم ’’ زنجیر ‘‘ اس سلسلے میں قابلِ ذکر ہے۔
گوشۂ زنجیر میں
اک نئی جنبش ہویدا ہو چلی
سنگِ خارا ہی سہی ،خار مغیلاں ہی سہی
دشمن ِ جاں ،دشمن ِ جاں ہی سہی
لفظیات، اسلوب اور ہیئت میں انفرادیت:
راشدؔنے موضوعاتی سطح پر جہاں اپنی انفرادیت قائم کی وہیں انہوں نے اپنے ہم عصروں میں لفظیات ،اسلوب،اور ہئیت کے معاملے میں بھی الگ راہ اختیار کی۔وہ اگر چہ میرا جیؔ کے ہم عصروں میں تھے اور میرا جی نے اپنے ہمعصروں پر گہری چھاپ چھوڑی تھی مگر راشد ؔ لفظیات کے معاملے میں میراجیؔسے بہت مختلف تھے۔میراجی کی شاعری میں جہاں ہندی الفاظ اور ہنو دیو مالا و اساطیری فضا ملتی ہے اہیں راشدؔکے یہاں عربی و عجمی روایات کی پاسداری ہے۔نیز راشدؔ کی لفظیات اقبالؔ کی لفظیات سے متاثر ہے۔اپنی نظموں کو انہوں نے الفاظ کے رکھ رکھائو ،نزاکت اور فنی تجربوں سے فنی شاہکار بنا دیا۔
نئے موضوعات کی پیش کش:
انہوں نے جدید نظم کو انتہائی بلندی عطا کی اور نئی نظم کو اظہار کے نئے زاوئیے سے روشناس کیا۔انہوں نے اردو نظم کو مغربی شاعری کے فنی وجمالیاتی اقدار سے متعارف کرایا اور جدید دور کے انسان کے مسائل اور نفسیاتی الجھنوں کو نظموں کا لبادہ عطا کیا۔علاوہ ازیں نظم کی ہئیت کو نئے موضوعات کی پیش کش کے لئے اپنایا اور اسے عروج عطا کیا۔وہ ہئیت کے متعلق اپنے مئوقف کا اظہار اپنے مضمون ’’ جدیدیت کیا ہے ‘‘ میں کرتے ہیں:
’’ جدید شاعری کے نزدیک جہاں ہئیت کی کوئی پابندی نہیں وہیں موضوعات کا میدان بے کنار ہے بلکہ ہئیت کی پابندی بھی اس لئے نہیں تاکہ وہ موضوعات کی مجبوری کا بہانہ نہ بن جائے۔‘‘
نظم کی ہیئتی پابندیوں سے آزادی:
اس طرح راشدنظم کو ہئیتی پابندیوں سے اس لئے آزاد کرتے ہیں تاکہ اس میں انسان اور معاشرے سے متعلق کوئی بھی موضوع کسی بھی نقطہؐٔ ٔ نظر یا عقیدے کے تحت نظم کی جاسکے اور اس موضوع کو نظم کرنے میں ہئیت آڑے نہ آئے۔راشد ؔ کے پہلے دو شعری مجموعوں ’’ ماورا ‘‘ اور ’’ ایران میں اجنبی ‘‘ میں پابند نظموں کا آہنگ ملتا ہے مگر بعد میں انہوں نے کھل کر آزاد نظموں کی ہئیت کا استعمال کیا اور اس میں اظہار کے نئے نئے طریقے تلاش کئے۔انہوں نے مصرعوں میں داخلی آہنگ اور موسیقیت پر زیادہ زور دا اور الفاظ کی نشست و برخاست پر خصوصی توجہ دی۔ لہذا، یہ بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ راشدؔنے اردو نظم کو موضوعاتی،ہئیتی اور اسلوبیاتی سطح پر باغیانہ روش سے مالا مال کیااور اردو ادب پر جو جمود طاری تھا اسکو توڑنے میں اہم رول ادا کیا۔راشد? جدید اردو نظم میں ایک ہم سنگ میل کی حیثیت سے یاد کئے جائیں گے۔
ن۔ م راشد کے شاعری کے متعلق محمد حسن عسکری کے تاثرات:
زندگی پر میں جھپٹ سکتا نہیں
جسم سے تیرے لپٹ سکتا تو ہوں
"یہی مجروح اور شکست خوردہ ذہنیت جب اپنے ملک کے لیے کچھ نہیں کر سکتی تو اجنبی عورت کے جسم سے انتقام لینا شروع کر دیتی ہے۔ آپ لوگوں نے اس نظم ‘‘انتقام’’ پر راشد کو بہت طعنے دیے ہیں لیکن وہ غریب تو خود اپنے آپ کو طعنہ دے رہا ہے، خود اپنے اوپر استہزا کر رہا ہے۔ آپ اس کا لہجہ نہ سمجھیں تو وہ کیا کرے۔ یہ نظم جنسی نہیں ہے جیسا کہ آپ سمجھے ہیں، بلکہ سیاسی اور اخلاقی۔ ایسی نظموں میں راشد اپنی گھناؤنی خواہشوں کا اظہار نہیں کرتا بلکہ قوت ارادی اور ‘‘جینے کی خواہش’’ کی کمزوریوں اور بیماریوں کا تجزیہ۔ محض عشرت پسندی اور تن آسانی اور ‘‘کھاؤ پیو، مگن رہو’’ والا نظریہ آپ کو کسی نئے شاعر میں نہیں مل سکتا۔ "
موضوع9: میرا جی
میراجی، جن کا اصل نام محمد ثناء اللہ تھا۔ منشی محمد مہتاب الدین کے ہاں 25 مئی، 1912ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ پہلے ’’ساحری‘‘ تخلص کرتے تھے۔ لیکن ایک بنگالی لڑکی ’’میرا سین‘‘ کے یک طرفہ عشق میں گرفتار ہو کر ’’میراجی‘‘ تخلص اختیار کر لیا۔ میراجی کی ذات سے ایسے واقعات وابستہ ہیں کہ ان کی ذات عام آدمی کے لیے ایک افسانہ بن کر رہ گئی ہے۔ اْن کا حلیہ اور ان کی حرکات و سکنات ایسی تھیں کہ یوں معلوم ہوتا تھا انہوں نے سلسلہ ملامتیہ میں بیعت کر لی ہے۔ لمبے لمبے بال ،بڑی بڑی مونچھیں، گلے میں مالا، شیروانی پھٹی ہوئی، اوپر نیچے بیک وقت تین پتلونیں، اوپر کی جب میلی ہو گئی تو نیچے کی اوپر اور اوپر کی نیچے بدل جاتی۔ شیروانی کی دونوں جیبوں میں بہت کچھ ہوتا۔ کاغذوں اور بیاضوں کا پلندہ بغل میں دابے بڑی سڑک پر پھرتا تھااور چلتے ہوئے ہمیشہ ناک کی سیدھ میں دیکھتا تھا۔ وہ اپنے گھر اپنے محلے اور اپنی سوسائٹی کے ماحول کو دیکھ دیکھ کر کڑتا تھا اس نے عہد کر رکھا تھا کہ وہ اپنے لیے شعر کہے گا۔ صرف 38 سال کی عمر میں 3 نومبر، 1949ء کو انتقال کرگئے۔ اس مختصر سی عمر میں میراجی کی تصانیف میں ’’مشرق و مغرب کے نغمے‘‘ ’’اس نظم میں ‘‘’’نگار خانہ‘‘’’خیمے کے آس پاس‘‘ شامل ہیں۔ جبکہ میراجی کی نظمیں، گیت ہی گیت، پابند نظمیں اور تین رنگ بھی شاعری کے مجموعے ہیں۔
میرا جی کا ادبی سرمایہ
شعری تصانیف:
• میرا جی کے گیت:1943 • میرا جی کی نظمیں:1944
• گیت ہی گیت:1944 • پابند نظمیں:1968
• تین رنگ:1968
تراجم:
• مشرق و مغرب کے نغمے
• خیمے کے آس پاس (رباعیات عمر خیام)
• بھرتری ہری کے چند شتکوں کے تراجم
• نگار خانہ(داموورگپت کے نٹنی متم کا ترجمہ)
میرا جی کی تنقید:
• میرا جی نے وقتاً فوقتاً شاعری پر جو تنقید کی اس نے اردو تنقید کو ایک نئے رویے سے آشنا کیا ہے میرا جی کی تنقید کے چار دائرے ہیں۔
• حلقہ اربا ب ذوق کے جلسوں میں تنقیدی گفتگو
• نظموں کے تجزیاتی مطالعے
• اردو شاعری کے بارے میں مختلف مضامین میں تنقیدی آراء
• مشرق و مغرب کے نامور شعراء کے تراجم کے ساتھ شاعروں اور ان کے عہد پر تنقیدی آراء ۔
میرا جی کی شاعری کی فکری و فنی خصوصیات
مغربی شعراء کا اثر:
میرا جی فرانس کے ایک آوارہ شاعر ’’چارلس بودلئیر‘‘ سے بہت متاثر تھے۔ بودلیئر دوستوں کو دشمن بنانے میں یدطولیٰ رکھتا تھا۔ میراجی بھی ان سے کم نہ تھے۔ بودلیئر اور میرا جی کی کئی نظمیں اپنی ذات کے لیے ہیں۔ بودلیئر کے بارے میں میراجی نے یہ بھی لکھا ہے کہ وہ لاشعور کا شاعر تھا وہ نئے احساسات ، نئے لہجے ، نئے انداز بیاں اور نئی زبان کا شاعر تھا۔ یہی کام میراجی نے بھی کیا۔
ویشنو مت یا ہندو مت کا اثر:
میراجی کی نظموں میں وشنو مت کے بہت زیادہ اثرات ہیں۔ ویشنو بھگتی تحریک دراصل قدیم ہندوستان کے تہذیبی ابال کی ایک صورت تھی۔ اس تحریک سے پہلے رام اور سیتا کی پوجا ہوتی تھی۔ لیکن ان لوگوں نے کرشن اور رادھا کی پوجا شروع کی اور اپنی شاعری میں اْسے جگہ دی۔جو کہ ایک ناجائز معاشقے کی داستان ہے۔
جنسی حوالہ:
میراجی کی شاعر ی میں جنسی پہلو وشنو بھگتی تحریک کے ان اثرات کا نتیجہ ہے جو دراصل مرد اور عورت کی ناجائز جنسی محبت کے والہانہ پن اور شدت کو اجاگر کرتا ہے۔ ’’مدھر‘‘ میں جنسی ملاپ کی پوری عکاسی ہوتی ہے۔ کالی اور شو کے حوالے سے جنسی علاقوں کی پوجا ہندومت کا ایک لازمی حصہ ہے۔ لہذا ان دونوں رجحانات کو میراجی کی شاعری میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔ میراجی کی نظم’’حرامی‘‘ میں شاعر نے ناجائز جنسی تعلقات کے ثمر کو زندگی کا حاصل قرار دیاہے۔
جوانی میں ساتھ ہے جو اضطراب
نہیں کوئی اس کا علاج
مگر ایک عورت
کھلے جب نہ مجھ پر وسیلوں کے باب
ملے جب نہ چاہت کا تاج
تو پھر کیا کروں میں
تصّور:
میراجی کو اشیا ء سے زیادہ ان کے تصور عزیز تھے خود میراسین بھی ایک تصور ہی ہے۔ بہت سے نقاد میراسین کو میراجی کی نظموں کا لاشعوری موڑ قرار دیتے ہیں۔ لیکن میراسین کا وجود میراجی کے ہاں ایک شعوری وجود سے زیادہ کچھ نہیں۔
سفید بازو گداز اتنے
زباں تصور میں حظ اْٹھائے
اور انگلیاں بڑھ کے چھونا چاہیں مگر انہیں برق ایسی لہریں
سمٹتی مٹھی کی شکل دے دیں
ماضی پرستی:
میراجی ماضی پرست انسان ہیں۔ وہ ٹھوس حقائق سے آنکھیں بند کرکے دیومالائی عہد میں زندہ رہنا چاہتا ہے۔ مگر یہ رائے مکمل طور پر درست بھی نہیں ہے۔ میراجی ماضی پرست ہونے کے ساتھ ساتھ جدید خیالات ، اور احساس کابھی خیرمقدم کرتا ہے۔
جہاں میں اور بھی تھے مجھ سے تم سے بڑھ کے کہیں
جو اجنبی تھے جنہیں اجنبی ہی رہنا تھا
دوری:
میراجی ہر چیز کو دور کی نظر سے دیکھنے کے عادی ہو گئے تھے۔ یہاں تک کہ انہوں نے اپنی محبوبہ میرا سین کو بھی اس نے اتنی دور سے دیکھا کہ اس کا کوئی واضح نقش اس کی نظم میں نہیں ابھر سکا۔ میراجی کو دوری ہی میں حسن نظر آتا ہے۔
ترا دل دھڑکتا رہے گا
مرا دل دھڑکتا رہے گا
مگر دور دور
زمیں پر سہانے سمے آتے جاتے رہیں گے
یونہی دور دورستارے چمکتے رہیں گے
یونہی دور دور
خارجیت:
میراجی کی نظموں کا منظر نامہ اتنا پھیلا ہوا اور متنوع ہے کہ اس پرداخلیت پسندی کا گزر ہی نہیں ہو سکتا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ انہوں نے اس خارجی منظر نامے اور وسیع کینوس کو اپنی ذات کے حوالے سے دیکھا اور بیان کیا ہے۔ میراجی پر داخلیت پسندی اور بیمار ذہنیت کے الزامات وہ لوگ لگاتے ہیں جو میراجی کی نظموں کی تہہ تک نہیں پہنچ سکے۔ ورنہ میراجی کے ہاں داخل اور خارج کو جو توازن ملتا ہے وہ اردو شاعروں میں بہت کم ہے:
یوں سامنے کچھ دور
چپ چاپ کھڑا ہے
آکاش کا پربت
اور چوٹی پہ اْس کی
ہے سوریہ کا مندر
اذّیت پسندی:
میراجی چونکہ بھگتی تحریک سے متاثر تھے لہٰذا بھگتی تحریک کا ایک اہم پہلو اذیت کوشی بھی ہے۔ لہٰذا میراجی کی نظموں میں اذیت پسندی کا رجحان بڑا واضح ہے۔ اس اذیت پسندی میں ایک پہلو محبت میں دوری اور مفارقت ہے۔میراجی کی نظموں میں دوری اور مفارقت کی اس کیفیت کی بہت عمدگی سے بیان کیا گیا ہے۔
ایک تو ایک میں دور ہی دور ہیں
آج تک دور ہی دور ہر بات ہوتی رہی
دور ہی دور جیون گزر جائے گا اور کچھ بھی نہیں
ابہام:
جنسیت کے ساتھ ہی ابہام کا مسئلہ جڑاہوا ہے۔ جسے میراجی نے اپنے باغیانہ تصورات کے اظہار کے لئے ایک ڈھال کے طور پر استعمال کیا تھا۔ جنس کے بارے میں یہ بات واضح رہے کہ جنس ابہام کے پردوں میں چھپ کر ہی جمالیاتی سطح کو چھو سکتی ہے۔ میراجی نے خود ایک جگہ لکھا ہے کہ :
’’’ میری نظموں کا نمایاں پہلو ان کی جنسی حیثیت ہے۔‘‘
علامت نگاری:
جنسی مسائل اگر جوں کے توں بیان کر دیئے جائیں تو یہ اپنی اعلیٰ جمالیاتی قدروں کے ساتھ شعر میں نہیں کھپ سکتے۔چاند میراجی کی نظموں میں محبت کی علامت ہے۔ رات کی علامت میراجی کے ہاں جنسی جذبہ کی علامت ہے۔ اس کے مقابلے میں دن کی علامت غیر جنسی زندگی کی علامت ہے۔ یعنی رات کے سائے کے مقابلہ پر دن کا سایہ پیدا ہوتا ہے۔ اسے جنس سے حقیقی تسکین حاصل نہیں ہوتی۔ سمندرکی علامت بھی میراجی کو بہت محبوب ہے۔ میراجی کے ہاں ایک اور علامت جنگل کی ہے جنگل وحدت کی بجائے کثرت کی علامت ہے۔ اس کے علاوہ میراجی کے ہاں ساڑھی اور روزن بھی جنسی علامتیں ہیں۔ لیکن میراجی کے ہاں سورج ایک رقیب ہے۔
رات کے پھیلے اندھیرے میں کوئی سایہ نہیں
رات اک بات ہے صدیوں کی، کئی صدیوں کی
یا کسی پچھلے جنم کی ہوگی
کردار نگاری:
میراجی اپنی نظموں میں بعض اوقات کرداروں کو تخلیق کرتے ہیں جو کہ ایک ڈرامے یا افسانے کی طرح یہ کردار آگے بڑھتے ہیں اور اس نظم کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ان کرداروں کا اثر نظم پر اول سے آخر تک ہوتا ہے۔ نظموں کے اندر بالکل کہانی کا سا انداز آجاتا ہے۔ ’’کلرک کا نغمہ‘‘ اس حوالے سے اس کا نمائندہ نظم ہے۔
دنیا کے انوکھے رنگ ہیں
جو میرے سامنے رہتا ہے اس گھر میں گھر والی ہے
اور دائیں پہلو میں ایک منزل کا ہے مکاں ، وہ خالی ہے
اور بائیں جانب اک عیاش ہے جس کے ہاں ایک داشتہ ہے
اور ان سب میں اک میں بھی ہوں لیکن بس تو ہی نہیں
اسلوب:
ابہام میراجی کی شاعری کی نمایاں خصوصیت ہے اور ان کی انفرادیت کی سب سے بڑی پہچان ہے جو کہ ان کی بے باک عریاں نگاری کے لئے ایک لطیف پردے کا کام کرتاہیلیکن میراجی نے ایسی نظمیں بھی کہی ہیں جن کا اندازِبیاں واضح اور غیر مبہم ہے۔مثال کے طور پر کلرک کا نغمہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نظم کا موضوع غیر جنسی ہے۔
سب رات میری سپنوں میں گزر جاتی ہے اور میں سوتا ہوں
پھر صبح کی دیوی آتی ہے
اپنے بستر سے اْٹھتا ہوں منہ دھوتا ہوں
لایا تھا کل جو ڈبل روٹی
اس میں سے آدھی کھائی تھی
باقی جو بچی وہ میرا آ ج کا ناشتہ ہے۔
منظر نگاری:
میراجی کی اکثر نظمیں تصاویر یا مناظر کی حامل ہوتی ہیں۔ ان مناظر کی پیشکش میں میراجی ڈرامے کی تکنیک کا پورا پورا فائدہ اْٹھاتے ہیں۔ جبکہ خود کلامی یا تخاطب یا کسی واقعے کے بیان کے ذریعے ایک تاثر کو ابھارتے ہیں اور یکا یک منظر بدل کر نظم کو ایک نیا موڑ دے دیتے ہیں۔ جو زیادہ تر فلش بیک کی شکل میں ہوتا ہے۔ ایسے موقع پر میراجی کی امیجری ،جوان کے اسلوب کی ایک نمایاں خصوصیت ہے۔ اتنی دلکش ہوتی ہے کہ بے اختیار داد دینے کو جی چاہتا ہے۔
یہ بستی یہ جنگل یہ بہتے ہوئے راستے اور دریا یہ پربت
اچانک نگاہوں میں آتی ہوئی کوئی اونچی عمارت
یہ اجڑے ہوئے مقبر ے اور مرگ مسلسل کی صورت مجاور
یہ ہنستے ہوئے ننھے بچے
یہ گاڑی سے ٹکراکے مرتا ہوا کوئی اندھا مسافر
اردو نظم کے موضوعات میں وسعت:
میراجی نے اردو نظم کو موضوع اور ہیئت کے اعتبار سے نئی وسعتوں سے آشنا کیا۔اردو نظم کے مزاج میں ایک بڑی تبدیلی پیدا کی۔میراجی کے بعد ان کے طرز فکر اور انداز بیان کے اثرات کئی جدید نظم نگاروں میں محسوس کئے جا سکتے ہیں۔ میراجی کی نظمیں جدید نظم کے ارتقا میں ایک اہم موڑ کا پتہ دیتی ہیں۔
مادیت اور ماروائیت کا امتزاج:
میراجی کے یہاں مادیت اور ماورائیت کا جو امتزاج نظر آتا ہے۔وہ انہیں اپنے عہد کے دوسرے شعراء سے منفرد ممتاز بنا تا ہے۔ اپنیعہد کے مجموعی انتشار اور مختلف نظریات اور فلسفوں کی یلغارکے باوجود میراجی یک شخصیت میں ایک روایتی عنصر بھی موجودتھا۔یہ عنصر ایک ایسی باطنی یا روحانی تنہائی ہے جس کے تانے بانے صوفیانہ درد و غم سے جا ملتے ہیں۔ یہ ایک ایسا رویہ ہے جو انسان کو اپنے آس پاس کی الجھنوں سے بے نیاز کر دیتا ہے۔
مجموعی جائزہ:
جہاں تک اردو نظم کا تعلق ہے۔ میراجی کی حیثیت منفر اور یکتا ہے۔ اردو نظم گو شعراء میں سے شائد ہی کسی نے اپنے موضوع سے اس قسم کی جذباتی وابستگی ، شغف اور زمین سے ایسے گہرے لگائو کا ثبوت بہم پہنچایا جیسا کی میراجی کے ہاں نظر آتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں میراجی کی شاعری نے اس کی اپنی جنم بھومی سے خون حاصل کیا۔ اور اسی لئے اس میں زمین کی خوشبو ، حرارت اور رنگ نمایاں ہے۔ میراجی کی عظمت بڑی حد تک اس کے اسی رحجان کے باعث ہے۔
میرا جی نامور ناقدین کی نظر میں
بقول ڈاکٹر انور سدید:
"حلقہ ارباب ذوق کو میراجی یک ذات میں وہ شخصیت میسر آ گئی جو بکھرے ہوئے اجزا کو مجتمع کرنے اور انہیں ایک مخصوص جہت میں گامزن کرنے کا سلیقہ رکھتی تھی۔میراجی ذہنی اعتبار سے مغرب کے جدید علوم کی طرف راغب تھے لیکن ان کی فکری جڑیں قدیم ہندوستان میں پیوست تھیں۔ "
وزیر آغا میراجی پر اپنے مضمون میں اظہار خیال کرتے ہیں:
"اردو نظم میں میراجی وہ پہلا شاعر ہے جس نے محض رسمی طور پر ملکی رسوم عقائد اور مظاہر سے وابستگی کااظہار نہیں کیا اور نہ مغربی تہذیب سے رد عمل کے طور پر اپنیوطن کے گن گائے ہیں۔"
شاہد احمد دہلو ی کے بقول:
’’میراجی کو طرح طرح کے غم رہتے تھے۔ میراجی سمجھتے تھے کہ ماں کی جوانی بوڑھے باپ کے ساتھ اکارت گئی۔باپ کو وہ ظالم اور ماں کو مظلوم سمجھتے تھے۔مگر باپ کے ساتھ کوئی گستاخی انہوں نیکبھی نہیں کی بلکہ باپ سے انہیں محبت تھی۔جبھی تو انہیں جب پونے میں اپنے اندھے باپ کے مرنے کی اطلاع ملی تو انہوں نیمسجد میں جا کر منبر کے پاس پیشاب کیا اور کہا ’’تو نے میرے باپ کو مار دیا، اس لیے میں تیرے گھر میں پیشاب کرتا ہوں۔"
سعادت حسن منٹوکے مطابق :
"بحیثیت شاعر کے اس کی حیثیت وہی رہی ہے جو گلے سڑے پتوں کی ہوتی ہے جسے کھا د کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔میں سمجھتا ہوں اس کا کلام بڑی عمدہ کھاد ہے جس کی افادیت ایک نہ ایک دن ضرور ظاہر ہوکے رہے گی۔اس کی شاعر ی ایک گمراہ انسان کا کلام ہے جو انسانیت کے عمیق ترین پستیوں سے متعلق ہونیکے باوجود دوسرے انسانوں کے لیے اونچی فضاؤں میں مرغ باد نماکا کام دے سکتا ہے۔"
بقول ڈاکٹر جمیل جالبی:
’’میراجی کی شاعری میں چیزیں نہیں بلکہ چیزوں کا تصور ملتا ہے۔ انہیں عورت سے زیادہ عورت کا تصور عزیز ہے۔ منظر بھی منظر بن کر نہیں بلکہ تصور بن کر ان کی شاعر ی میں آٹا ہے۔‘‘
اعجاز احمد کے بقول:
"میراجی کی نثر کی اخلاقیات موجودہ معاشرے کی اخلاقیات ہے۔ اورقدم قدم پر خود اس کی زندگی اور شاعر ی کی نفی کرتی ہے۔میراجی تمام عمر دو حصوں میں بٹا رہا اور ایسی دوہری اخلاقیات برتتا رہاجس کی ا یک یک شق کا دوسری شق سے علاقہ نہ تھا۔ "
صلاح الدین احمد کے بقول:
’’میراجی اپنے رسیلے گیتوں، اپنی کنایاتی نظموں اور اپنے بے قافیہ اشعار کی ابہام کیفیتوں کے اعتبار سے اردو کے شعری ادب میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے اور اس امر سے کون انکار کر سکتا ہے کہ اردو میں نظم بے قافیہ اور نظم آزاد کا فروغ اور اس کے وسیلے سیپیچیدہ تاثرات شدید جذبات اور نازک محسوسات کا اظہار ایک بہت بڑی حد تک میراجی کے گوناگوں شعری تجربات کا مرہون ہے۔"

ا

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...