Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > مباحث > میرا جی

مباحث |
حسنِ ادب
مباحث

میرا جی
ARI Id

1689956600868_56117468

Access

Open/Free Access

Pages

۲۳۰

موضوع9: میرا جی
میراجی، جن کا اصل نام محمد ثناء اللہ تھا۔ منشی محمد مہتاب الدین کے ہاں 25 مئی، 1912ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ پہلے ’’ساحری‘‘ تخلص کرتے تھے۔ لیکن ایک بنگالی لڑکی ’’میرا سین‘‘ کے یک طرفہ عشق میں گرفتار ہو کر ’’میراجی‘‘ تخلص اختیار کر لیا۔ میراجی کی ذات سے ایسے واقعات وابستہ ہیں کہ ان کی ذات عام آدمی کے لیے ایک افسانہ بن کر رہ گئی ہے۔ اْن کا حلیہ اور ان کی حرکات و سکنات ایسی تھیں کہ یوں معلوم ہوتا تھا انہوں نے سلسلہ ملامتیہ میں بیعت کر لی ہے۔ لمبے لمبے بال ،بڑی بڑی مونچھیں، گلے میں مالا، شیروانی پھٹی ہوئی، اوپر نیچے بیک وقت تین پتلونیں، اوپر کی جب میلی ہو گئی تو نیچے کی اوپر اور اوپر کی نیچے بدل جاتی۔ شیروانی کی دونوں جیبوں میں بہت کچھ ہوتا۔ کاغذوں اور بیاضوں کا پلندہ بغل میں دابے بڑی سڑک پر پھرتا تھااور چلتے ہوئے ہمیشہ ناک کی سیدھ میں دیکھتا تھا۔ وہ اپنے گھر اپنے محلے اور اپنی سوسائٹی کے ماحول کو دیکھ دیکھ کر کڑتا تھا اس نے عہد کر رکھا تھا کہ وہ اپنے لیے شعر کہے گا۔ صرف 38 سال کی عمر میں 3 نومبر، 1949ء کو انتقال کرگئے۔ اس مختصر سی عمر میں میراجی کی تصانیف میں ’’مشرق و مغرب کے نغمے‘‘ ’’اس نظم میں ‘‘’’نگار خانہ‘‘’’خیمے کے آس پاس‘‘ شامل ہیں۔ جبکہ میراجی کی نظمیں، گیت ہی گیت، پابند نظمیں اور تین رنگ بھی شاعری کے مجموعے ہیں۔
میرا جی کا ادبی سرمایہ
شعری تصانیف:
• میرا جی کے گیت:1943 • میرا جی کی نظمیں:1944
• گیت ہی گیت:1944 • پابند نظمیں:1968
• تین رنگ:1968
تراجم:
• مشرق و مغرب کے نغمے
• خیمے کے آس پاس (رباعیات عمر خیام)
• بھرتری ہری کے چند شتکوں کے تراجم
• نگار خانہ(داموورگپت کے نٹنی متم کا ترجمہ)
میرا جی کی تنقید:
• میرا جی نے وقتاً فوقتاً شاعری پر جو تنقید کی اس نے اردو تنقید کو ایک نئے رویے سے آشنا کیا ہے میرا جی کی تنقید کے چار دائرے ہیں۔
• حلقہ اربا ب ذوق کے جلسوں میں تنقیدی گفتگو
• نظموں کے تجزیاتی مطالعے
• اردو شاعری کے بارے میں مختلف مضامین میں تنقیدی آراء
• مشرق و مغرب کے نامور شعراء کے تراجم کے ساتھ شاعروں اور ان کے عہد پر تنقیدی آراء ۔
میرا جی کی شاعری کی فکری و فنی خصوصیات
مغربی شعراء کا اثر:
میرا جی فرانس کے ایک آوارہ شاعر ’’چارلس بودلئیر‘‘ سے بہت متاثر تھے۔ بودلیئر دوستوں کو دشمن بنانے میں یدطولیٰ رکھتا تھا۔ میراجی بھی ان سے کم نہ تھے۔ بودلیئر اور میرا جی کی کئی نظمیں اپنی ذات کے لیے ہیں۔ بودلیئر کے بارے میں میراجی نے یہ بھی لکھا ہے کہ وہ لاشعور کا شاعر تھا وہ نئے احساسات ، نئے لہجے ، نئے انداز بیاں اور نئی زبان کا شاعر تھا۔ یہی کام میراجی نے بھی کیا۔
ویشنو مت یا ہندو مت کا اثر:
میراجی کی نظموں میں وشنو مت کے بہت زیادہ اثرات ہیں۔ ویشنو بھگتی تحریک دراصل قدیم ہندوستان کے تہذیبی ابال کی ایک صورت تھی۔ اس تحریک سے پہلے رام اور سیتا کی پوجا ہوتی تھی۔ لیکن ان لوگوں نے کرشن اور رادھا کی پوجا شروع کی اور اپنی شاعری میں اْسے جگہ دی۔جو کہ ایک ناجائز معاشقے کی داستان ہے۔
جنسی حوالہ:
میراجی کی شاعر ی میں جنسی پہلو وشنو بھگتی تحریک کے ان اثرات کا نتیجہ ہے جو دراصل مرد اور عورت کی ناجائز جنسی محبت کے والہانہ پن اور شدت کو اجاگر کرتا ہے۔ ’’مدھر‘‘ میں جنسی ملاپ کی پوری عکاسی ہوتی ہے۔ کالی اور شو کے حوالے سے جنسی علاقوں کی پوجا ہندومت کا ایک لازمی حصہ ہے۔ لہذا ان دونوں رجحانات کو میراجی کی شاعری میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔ میراجی کی نظم’’حرامی‘‘ میں شاعر نے ناجائز جنسی تعلقات کے ثمر کو زندگی کا حاصل قرار دیاہے۔
جوانی میں ساتھ ہے جو اضطراب
نہیں کوئی اس کا علاج
مگر ایک عورت
کھلے جب نہ مجھ پر وسیلوں کے باب
ملے جب نہ چاہت کا تاج
تو پھر کیا کروں میں
تصّور:
میراجی کو اشیا ء سے زیادہ ان کے تصور عزیز تھے خود میراسین بھی ایک تصور ہی ہے۔ بہت سے نقاد میراسین کو میراجی کی نظموں کا لاشعوری موڑ قرار دیتے ہیں۔ لیکن میراسین کا وجود میراجی کے ہاں ایک شعوری وجود سے زیادہ کچھ نہیں۔
سفید بازو گداز اتنے
زباں تصور میں حظ اْٹھائے
اور انگلیاں بڑھ کے چھونا چاہیں مگر انہیں برق ایسی لہریں
سمٹتی مٹھی کی شکل دے دیں
ماضی پرستی:
میراجی ماضی پرست انسان ہیں۔ وہ ٹھوس حقائق سے آنکھیں بند کرکے دیومالائی عہد میں زندہ رہنا چاہتا ہے۔ مگر یہ رائے مکمل طور پر درست بھی نہیں ہے۔ میراجی ماضی پرست ہونے کے ساتھ ساتھ جدید خیالات ، اور احساس کابھی خیرمقدم کرتا ہے۔
جہاں میں اور بھی تھے مجھ سے تم سے بڑھ کے کہیں
جو اجنبی تھے جنہیں اجنبی ہی رہنا تھا
دوری:
میراجی ہر چیز کو دور کی نظر سے دیکھنے کے عادی ہو گئے تھے۔ یہاں تک کہ انہوں نے اپنی محبوبہ میرا سین کو بھی اس نے اتنی دور سے دیکھا کہ اس کا کوئی واضح نقش اس کی نظم میں نہیں ابھر سکا۔ میراجی کو دوری ہی میں حسن نظر آتا ہے۔
ترا دل دھڑکتا رہے گا
مرا دل دھڑکتا رہے گا
مگر دور دور
زمیں پر سہانے سمے آتے جاتے رہیں گے
یونہی دور دورستارے چمکتے رہیں گے
یونہی دور دور
خارجیت:
میراجی کی نظموں کا منظر نامہ اتنا پھیلا ہوا اور متنوع ہے کہ اس پرداخلیت پسندی کا گزر ہی نہیں ہو سکتا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ انہوں نے اس خارجی منظر نامے اور وسیع کینوس کو اپنی ذات کے حوالے سے دیکھا اور بیان کیا ہے۔ میراجی پر داخلیت پسندی اور بیمار ذہنیت کے الزامات وہ لوگ لگاتے ہیں جو میراجی کی نظموں کی تہہ تک نہیں پہنچ سکے۔ ورنہ میراجی کے ہاں داخل اور خارج کو جو توازن ملتا ہے وہ اردو شاعروں میں بہت کم ہے:
یوں سامنے کچھ دور
چپ چاپ کھڑا ہے
آکاش کا پربت
اور چوٹی پہ اْس کی
ہے سوریہ کا مندر
اذّیت پسندی:
میراجی چونکہ بھگتی تحریک سے متاثر تھے لہٰذا بھگتی تحریک کا ایک اہم پہلو اذیت کوشی بھی ہے۔ لہٰذا میراجی کی نظموں میں اذیت پسندی کا رجحان بڑا واضح ہے۔ اس اذیت پسندی میں ایک پہلو محبت میں دوری اور مفارقت ہے۔میراجی کی نظموں میں دوری اور مفارقت کی اس کیفیت کی بہت عمدگی سے بیان کیا گیا ہے۔
ایک تو ایک میں دور ہی دور ہیں
آج تک دور ہی دور ہر بات ہوتی رہی
دور ہی دور جیون گزر جائے گا اور کچھ بھی نہیں
ابہام:
جنسیت کے ساتھ ہی ابہام کا مسئلہ جڑاہوا ہے۔ جسے میراجی نے اپنے باغیانہ تصورات کے اظہار کے لئے ایک ڈھال کے طور پر استعمال کیا تھا۔ جنس کے بارے میں یہ بات واضح رہے کہ جنس ابہام کے پردوں میں چھپ کر ہی جمالیاتی سطح کو چھو سکتی ہے۔ میراجی نے خود ایک جگہ لکھا ہے کہ :
’’’ میری نظموں کا نمایاں پہلو ان کی جنسی حیثیت ہے۔‘‘
علامت نگاری:
جنسی مسائل اگر جوں کے توں بیان کر دیئے جائیں تو یہ اپنی اعلیٰ جمالیاتی قدروں کے ساتھ شعر میں نہیں کھپ سکتے۔چاند میراجی کی نظموں میں محبت کی علامت ہے۔ رات کی علامت میراجی کے ہاں جنسی جذبہ کی علامت ہے۔ اس کے مقابلے میں دن کی علامت غیر جنسی زندگی کی علامت ہے۔ یعنی رات کے سائے کے مقابلہ پر دن کا سایہ پیدا ہوتا ہے۔ اسے جنس سے حقیقی تسکین حاصل نہیں ہوتی۔ سمندرکی علامت بھی میراجی کو بہت محبوب ہے۔ میراجی کے ہاں ایک اور علامت جنگل کی ہے جنگل وحدت کی بجائے کثرت کی علامت ہے۔ اس کے علاوہ میراجی کے ہاں ساڑھی اور روزن بھی جنسی علامتیں ہیں۔ لیکن میراجی کے ہاں سورج ایک رقیب ہے۔
رات کے پھیلے اندھیرے میں کوئی سایہ نہیں
رات اک بات ہے صدیوں کی، کئی صدیوں کی
یا کسی پچھلے جنم کی ہوگی
کردار نگاری:
میراجی اپنی نظموں میں بعض اوقات کرداروں کو تخلیق کرتے ہیں جو کہ ایک ڈرامے یا افسانے کی طرح یہ کردار آگے بڑھتے ہیں اور اس نظم کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ان کرداروں کا اثر نظم پر اول سے آخر تک ہوتا ہے۔ نظموں کے اندر بالکل کہانی کا سا انداز آجاتا ہے۔ ’’کلرک کا نغمہ‘‘ اس حوالے سے اس کا نمائندہ نظم ہے۔
دنیا کے انوکھے رنگ ہیں
جو میرے سامنے رہتا ہے اس گھر میں گھر والی ہے
اور دائیں پہلو میں ایک منزل کا ہے مکاں ، وہ خالی ہے
اور بائیں جانب اک عیاش ہے جس کے ہاں ایک داشتہ ہے
اور ان سب میں اک میں بھی ہوں لیکن بس تو ہی نہیں
اسلوب:
ابہام میراجی کی شاعری کی نمایاں خصوصیت ہے اور ان کی انفرادیت کی سب سے بڑی پہچان ہے جو کہ ان کی بے باک عریاں نگاری کے لئے ایک لطیف پردے کا کام کرتاہیلیکن میراجی نے ایسی نظمیں بھی کہی ہیں جن کا اندازِبیاں واضح اور غیر مبہم ہے۔مثال کے طور پر کلرک کا نغمہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نظم کا موضوع غیر جنسی ہے۔
سب رات میری سپنوں میں گزر جاتی ہے اور میں سوتا ہوں
پھر صبح کی دیوی آتی ہے
اپنے بستر سے اْٹھتا ہوں منہ دھوتا ہوں
لایا تھا کل جو ڈبل روٹی
اس میں سے آدھی کھائی تھی
باقی جو بچی وہ میرا آ ج کا ناشتہ ہے۔
منظر نگاری:
میراجی کی اکثر نظمیں تصاویر یا مناظر کی حامل ہوتی ہیں۔ ان مناظر کی پیشکش میں میراجی ڈرامے کی تکنیک کا پورا پورا فائدہ اْٹھاتے ہیں۔ جبکہ خود کلامی یا تخاطب یا کسی واقعے کے بیان کے ذریعے ایک تاثر کو ابھارتے ہیں اور یکا یک منظر بدل کر نظم کو ایک نیا موڑ دے دیتے ہیں۔ جو زیادہ تر فلش بیک کی شکل میں ہوتا ہے۔ ایسے موقع پر میراجی کی امیجری ،جوان کے اسلوب کی ایک نمایاں خصوصیت ہے۔ اتنی دلکش ہوتی ہے کہ بے اختیار داد دینے کو جی چاہتا ہے۔
یہ بستی یہ جنگل یہ بہتے ہوئے راستے اور دریا یہ پربت
اچانک نگاہوں میں آتی ہوئی کوئی اونچی عمارت
یہ اجڑے ہوئے مقبر ے اور مرگ مسلسل کی صورت مجاور
یہ ہنستے ہوئے ننھے بچے
یہ گاڑی سے ٹکراکے مرتا ہوا کوئی اندھا مسافر
اردو نظم کے موضوعات میں وسعت:
میراجی نے اردو نظم کو موضوع اور ہیئت کے اعتبار سے نئی وسعتوں سے آشنا کیا۔اردو نظم کے مزاج میں ایک بڑی تبدیلی پیدا کی۔میراجی کے بعد ان کے طرز فکر اور انداز بیان کے اثرات کئی جدید نظم نگاروں میں محسوس کئے جا سکتے ہیں۔ میراجی کی نظمیں جدید نظم کے ارتقا میں ایک اہم موڑ کا پتہ دیتی ہیں۔
مادیت اور ماروائیت کا امتزاج:
میراجی کے یہاں مادیت اور ماورائیت کا جو امتزاج نظر آتا ہے۔وہ انہیں اپنے عہد کے دوسرے شعراء سے منفرد ممتاز بنا تا ہے۔ اپنیعہد کے مجموعی انتشار اور مختلف نظریات اور فلسفوں کی یلغارکے باوجود میراجی یک شخصیت میں ایک روایتی عنصر بھی موجودتھا۔یہ عنصر ایک ایسی باطنی یا روحانی تنہائی ہے جس کے تانے بانے صوفیانہ درد و غم سے جا ملتے ہیں۔ یہ ایک ایسا رویہ ہے جو انسان کو اپنے آس پاس کی الجھنوں سے بے نیاز کر دیتا ہے۔
مجموعی جائزہ:
جہاں تک اردو نظم کا تعلق ہے۔ میراجی کی حیثیت منفر اور یکتا ہے۔ اردو نظم گو شعراء میں سے شائد ہی کسی نے اپنے موضوع سے اس قسم کی جذباتی وابستگی ، شغف اور زمین سے ایسے گہرے لگائو کا ثبوت بہم پہنچایا جیسا کی میراجی کے ہاں نظر آتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں میراجی کی شاعری نے اس کی اپنی جنم بھومی سے خون حاصل کیا۔ اور اسی لئے اس میں زمین کی خوشبو ، حرارت اور رنگ نمایاں ہے۔ میراجی کی عظمت بڑی حد تک اس کے اسی رحجان کے باعث ہے۔
میرا جی نامور ناقدین کی نظر میں
بقول ڈاکٹر انور سدید:
"حلقہ ارباب ذوق کو میراجی یک ذات میں وہ شخصیت میسر آ گئی جو بکھرے ہوئے اجزا کو مجتمع کرنے اور انہیں ایک مخصوص جہت میں گامزن کرنے کا سلیقہ رکھتی تھی۔میراجی ذہنی اعتبار سے مغرب کے جدید علوم کی طرف راغب تھے لیکن ان کی فکری جڑیں قدیم ہندوستان میں پیوست تھیں۔ "
وزیر آغا میراجی پر اپنے مضمون میں اظہار خیال کرتے ہیں:
"اردو نظم میں میراجی وہ پہلا شاعر ہے جس نے محض رسمی طور پر ملکی رسوم عقائد اور مظاہر سے وابستگی کااظہار نہیں کیا اور نہ مغربی تہذیب سے رد عمل کے طور پر اپنیوطن کے گن گائے ہیں۔"
شاہد احمد دہلو ی کے بقول:
’’میراجی کو طرح طرح کے غم رہتے تھے۔ میراجی سمجھتے تھے کہ ماں کی جوانی بوڑھے باپ کے ساتھ اکارت گئی۔باپ کو وہ ظالم اور ماں کو مظلوم سمجھتے تھے۔مگر باپ کے ساتھ کوئی گستاخی انہوں نیکبھی نہیں کی بلکہ باپ سے انہیں محبت تھی۔جبھی تو انہیں جب پونے میں اپنے اندھے باپ کے مرنے کی اطلاع ملی تو انہوں نیمسجد میں جا کر منبر کے پاس پیشاب کیا اور کہا ’’تو نے میرے باپ کو مار دیا، اس لیے میں تیرے گھر میں پیشاب کرتا ہوں۔"
سعادت حسن منٹوکے مطابق :
"بحیثیت شاعر کے اس کی حیثیت وہی رہی ہے جو گلے سڑے پتوں کی ہوتی ہے جسے کھا د کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔میں سمجھتا ہوں اس کا کلام بڑی عمدہ کھاد ہے جس کی افادیت ایک نہ ایک دن ضرور ظاہر ہوکے رہے گی۔اس کی شاعر ی ایک گمراہ انسان کا کلام ہے جو انسانیت کے عمیق ترین پستیوں سے متعلق ہونیکے باوجود دوسرے انسانوں کے لیے اونچی فضاؤں میں مرغ باد نماکا کام دے سکتا ہے۔"
بقول ڈاکٹر جمیل جالبی:
’’میراجی کی شاعری میں چیزیں نہیں بلکہ چیزوں کا تصور ملتا ہے۔ انہیں عورت سے زیادہ عورت کا تصور عزیز ہے۔ منظر بھی منظر بن کر نہیں بلکہ تصور بن کر ان کی شاعر ی میں آٹا ہے۔‘‘
اعجاز احمد کے بقول:
"میراجی کی نثر کی اخلاقیات موجودہ معاشرے کی اخلاقیات ہے۔ اورقدم قدم پر خود اس کی زندگی اور شاعر ی کی نفی کرتی ہے۔میراجی تمام عمر دو حصوں میں بٹا رہا اور ایسی دوہری اخلاقیات برتتا رہاجس کی ا یک یک شق کا دوسری شق سے علاقہ نہ تھا۔ "
صلاح الدین احمد کے بقول:
’’میراجی اپنے رسیلے گیتوں، اپنی کنایاتی نظموں اور اپنے بے قافیہ اشعار کی ابہام کیفیتوں کے اعتبار سے اردو کے شعری ادب میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے اور اس امر سے کون انکار کر سکتا ہے کہ اردو میں نظم بے قافیہ اور نظم آزاد کا فروغ اور اس کے وسیلے سیپیچیدہ تاثرات شدید جذبات اور نازک محسوسات کا اظہار ایک بہت بڑی حد تک میراجی کے گوناگوں شعری تجربات کا مرہون ہے۔"

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...