Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > مباحث > لسانی تشکیلات اور افتخار جالب

مباحث |
حسنِ ادب
مباحث

لسانی تشکیلات اور افتخار جالب
ARI Id

1689956600868_56117470

Access

Open/Free Access

Pages

۲۴۶

موضوع11:لسانی تشکیلات اور افتخار جالب
لسانی تشکیلات کی تحریک یا روّیے کی مباحث افتخار جالب نے شروع کی۔ماضی کے لسانی ڈھانچے پر سوالات اٹھائے۔ اور لفظیات کے نئے آفاق کو ترتیب دیا۔ ان کا انسانی مسائل اور لسانی لہجے میں اظہاری انسلاک نظر نہیں آتا۔ جس میں شاعری کے ابہام ابھرتے ہیں۔ ان کے خیال میں ماضی اور اس سے متعلقہ تمام روایات اپنی موت آپ مرچکی ہے۔ ان کے خیال میں لغوی اور شعری معنئی کا فرق ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے۔ لیکن افتخار جالب نے لغوی اور کشافی معنویت کے خلاف اپنا علم بغاوت اٹھا کر نعرہ قلندر بلند کیا کہ قواعد { گرائمر ، اجتماعیت اور ابلاغ تک توسیع دے دی جس سے چند مغاطے بھی پیدا ہوئے۔
افتخار جالب نے کلاسکیل اردو شاعری کے لسانی کے جمالیاتی اور اظہاری لیجے کے علاوہ ترقی پسند شعریاتی زبان پر سخت تنقید کی۔ حالانکہ افتخار جالب کا جھکاو بائیں بازو کی جانب تھا ، وہ ٹریڈ یونینسٹ تھے۔ اور ٹریڈ یونینسٹ سرگرمیوں میں فعال حصہ لینے کی پاداش میں ان کو الائید بنک کی نوکری سے ہاتھ دھونا پڑا۔ افتخار جالب دراصل نحوی ترکیب کا نیا شعری باطن تخلیق کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے معنی اور در معنی کے حوالے سے کئی سوالات اٹھائے۔ اور معنی میں معنی کو تلاش کرتے رہے۔ انہوں نے زنگ آلود افکار ، فرسودہ تراکیب، رموز، پامال کلمات، بدبو دار تشبہیات اور استعاروں کے خلاف آواز اٹھائی۔ اور انہوں نے اس جامد اسلوب شعر اور پھیکے جذبات کے خلاف آواز بلند کی۔ مگر ان کے قبیلے میں شامل شعرا ان کی بات کو نہیں سمجھ سکے اور ایک مضوعی دنیا کی شاعری کرتے رہے اور اردو میں ’’ نئی نئی شاعری’’ خلق نہیں کرسکے۔ اس سلسلے میں افتخار جالب نے اپنی کتاب ’’ لسانی تشکیلات اور قدیم بنجر پن میں سوال اٹھایا ہے وہ اپنے خیال کی تشریح یوں کرتے ہیں:
’’ لسانی تشکیلات اساسی طور پر شعر وادب کی نیابت کرتی ہے۔ مواد کو اس ہیت میں دیکھنا رائج الوقت الحاقی محاکموں سے نجات ہی نہیں دلاتا بلکہ اس جوہر خاص کو بلا شرکت غیر ممیّز کرتا ہے "۔
اس سلسلے میں محمد علی صدیقی نے اپنے شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ ’’ پاکستان میں نئی شاعری کے خواہاں کسی ایک گروپ سے تعلق نہیں رکھتے اگر ایک گروہ پرانے علم الکلام اور متصوفانہ نظریات کی معطر فضاؤں میں رجعت کا خواہاں ہے تو دوسرا ’’ ویجنسائن ‘‘ دوست اور تجربیت دشمن ہے اور تیسرا جدید نظم کے مینی فیسٹوکی ابتدا سے کرتا ہے۔ بظاہر یہ کوئی مربوط اور منظم گروہ نہیں بلکہ لسانی تشکیلات کے متصوفانہ خیال سے پرائیویٹ طور سے لطف اندوز ہونے والا ایک متضاد گروہ ہے۔ جو تعمیر و ترقی کی قوتوں کی وضاحت پسندی اور متاثر کن طاقت کو زائل کرنے کے لئے لفظی، توصیفی اور جذبہ انگیز, اظہار کو ہدف ملامت بناتا ہے اور خود اپنی شاعری کو ممیز کل اور جدا قرار دے کر شعری اضافیت کے فروغ سے شعرائکو سیاسی و سماجی وابستگی کے آورشوں سے ہٹا کر خانقاہوں کے سپرد کر دینا چاہتا ہے۔
1958ء کے مارشل لاء نے خراب سیاسی نظام کو سنبھالنے کی بجائے اسے طرح طرح کے مسائل سے دو چار کر دیا۔ایک سیاسی اور فکری خلا پیدا ہو گیا جس کے نتیجے میں معاشرتی سفر کا رخ خارج سے باطن کی طرف مڑا۔موضوعات کی بجائے فنی اور لسانی بحثوں نے اہمیت حاصل کی اور انداز و اظہار میں ترسیل و ابلاغ کے مسائل نے جنم لیا۔1960ء کے قریب لسانی تشکیلات کی بحث نے نظم کو زیادہ اور اس کے بعد افسانے کو متاثر کیا۔غزل پر یہ اثر قدرے کم پڑا۔ موضوعاتی طور پر یہ دروں بینی کا دور ہے۔ جلیل عالی نے لکھا ہے :
"بڑی تخلیقی واردات کے کثیر الجہت ثمرات میں نئی لسانی پیش رفتوں کا عمل بھی شامل ہینئی لسانی تشکیل مضامین لکھنے سے نہیں ہوتی۔ بڑی تخلیق واردات خود بخود یہ کارنامہ سر انجام دے جاتی ۔"
افتخار جالب نے ساٹھ کے لگ بھگ لسانی تشکیلات تصور پیش کیا اور اس پر اردو میں اتنی بحث ہوئی جتنی کہ دریدا کے ردِ ساختیات یا ڈی کنسٹرکشن کے معاملے پر برطانوی مدرسوں نے دکھائی۔ ہر تخلیقی اور غیر روایتی تصور کی آمد مدرسوں اور مدرسانہ ذہن رکھنے والوں میں اسی نوع کا ردِ عمل پیدا کرتی ہے لیکن اس کا کیا جائے کہ وسیع تر رسائی کے وسائل پر ان چھْٹ بھیّوں کو ہی بالا دستی اور اجارہ داری حاصل ہوتی ہے اور افتخار جالب کا سا تخلیقی باطن اور اور ضمیر علی جیسی فکری و معنویتی رسائی رکھنے والے اس کا کچھ نہیں کر سکتے۔ افتخار جالب کا تصورِ لسانی تشکیلات اسی ماورائے متن کا استعارہ ہے جو ساختیات اور ردِ ساختیات کی جدلیات میں موارائے متن معنی کو دریافت کرنے اور پھر اسکے مسلسل آگے سے آگے جانے پر اصرار کرتا ہے’’ افتخار جالب نے لسانی تشکیلات کے حوالے سے پانچ نکات اٹھائے ہیں۔
• نظم و نثر کا ظاہری اور فروعی فرق چندان اہمیت نہیں رکھتا
• نظم و نثر کا بنیادی فرق زبان کے استعمال کا فرق
• زبان کا غیر معروضی، غیر منطقی، اور جذباتی اسلوب اس کے رک وپے میں ہے۔
• زبان کا شعری باطن ہر مرتبہ تخلیق کیا جانا چاہیے
• استعارتی فلک اور الا افلاک وہ انتہائی حالت ہے جہاں ہر معنئی و مفہوم کا سلیقہ غیر معروضی قرینوں میں ظاہر ہوتا ہے۔ استعاراتی فلک الافلک کو پالینے کے بعد حقیقت حال کی طرف مراجعیت لازمی ہو جاتی ہے۔
کسی ادبی فن پارے کا اسلوبیاتی مطالعہ و تجزیہ لسانیات کی مختلف سطحوں پر معروضی ، توضیحی، تجزیاتی اور غیر تاثراتی انداز میں کیا جا سکتا ہے اور ہر سطح پر اس کے (ادبی فن پارے کے) اسلوبی خصائص کو نشان زد کیا جا سکتاہے۔ اس میں داخلیت یا ذاتی پسند و نا پسند کو ہرگز کوئی دخل نہیں ہوتا نیز اقداری فیصلوں سے بھی گریز کیا جاتا ہے۔ لسانیات کی پہلی سطح ، صوتیات ، (آوازوں کی تشکیل اور ان کی ترتیب و تنظیم) ہے۔اس کی دوسری سطح تشکیلیات ( تشکیل و تعمیر الفاظ) اور تیسری سطح ، نحو، (فقروں اور جملوں کی ترتیب) ہے۔ لسانیات کی چوتھی سطح، معنیات کہلاتی ہے جس میں معنی سے بحث کی جاتی ہے۔قاضی جاوید نے لکھا ہے کہ ’’ جالب نے ادب کی لسانی بینادوں کو اہمیت دی اور یہ تصور پیش کیا کہ ادب شاعری زبان سازی کے عمل سے وجود میں اتی ہے۔’’ لسانی تشکیلات اورقدیم بنجر ’’ کے صفحے پر افتخار جالب رقم طراز ہیں:
’’ ۱۵۹۱ سے ۷۵۹۱ تک لاہورکا ادبی منچ رن بھومی بنا ہوا تھا۔ گھمسان کی جنگ لڑی جاری تھی۔ ایک ادبی حلقہ جس کے علم بردار ظہیر کاشمیری، ممتاز حیسن اور قتیل شفائی وغیرہ تھے۔ یہ کہتے ہوئے سنے جارہے تھے کہ ’’ یہ نئی نئی شاعری کیا بلا ہے؟ سب خرافات ہے "۔ اس حوالے سے ’’ نوائے وقت’’ "امروز’’ ، مشرق’’، ’’ پاکستان ٹائمز ، اور ’’ ڈان’’ کے کالموں کا انبار لگ گیا تھا۔ سلیم احمد اور احمد ہمدانی الگ گولہ باری پر تلے ہوئے تھے۔ اور انیس ناگی، جیلانی کامران اور افتخار جالب کو لڑنا پڑ رہا تھا اور حلقہ ارباب ذوق کا کردار اس وقت ایک آزاد براڈ کاسٹنگ ہاوس کا تھا۔ عارف امان اور عزیز الحق { افتخار جالب کے قائد} نے حلقہ ارباب میں ہفتیوار تحریریں اور زبانی یلغار شروع کردی تھی۔ قیوم نظر، شہرت بخاری اور ناصر کاظمی نے بھی نئے شاعروں کی ٹھکائی شروع کردی تھی۔ گویا نئے شاعروں نے جن میں انیس ناگی، عباس اطہر، زاہد دار، جیلانی کامران، مبارک احمد اور دوسروں کا حال یہ تھا کہ کھائیں کدھر کی چوٹ بچائیں کدھر کی چوٹ۔"
لسانی تشکیلات کا اثر نثری نظم پر بھی پڑا۔ ردتشکیلت کی نظریاتی تنقید پر بھی لسانی تشکیلات نے گہرے اثرات ثبت کئے۔ کیونکہ یہ لسانی تشکیلات ماورائی متن کی فکری ساخت ہے۔ جو لسانی ساخت کو اپنے طور پر مسترد کرتی ہے۔ ۰۵۹۱ کی دہائی میں محی الدیں زور قادری صاحب نے اپنی کتاب ’’ معنئی شکن’’ میں اس قسم کی مباحث شروع کی تھیں۔۔ جس کا علم بہت کم لوگوں کو ہے۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ لسانی تشکیلات کے مزاج میں نفی دانش اور توڑ پھوڑ کم ہوگئی ہے اور اب یہ جارحیت پسند بھی نہیں رہی۔ اور لسانی، شعری اور فکری نراجیت بھی دم توڈ چکی ہے۔۔ لسانی تشکیلات کے حوالے سے ڈاکڑ روبینہ نے ایک بہترین تحقیقی مقالہ بعنوان ’’ ملتان میں لسانی تشکیلات کا عمل اور دوسرے مضامین’’ لکھا ہے۔
ساٹھ کی دہائی پاکستان میں اردو شعروادب کی تاریخ میں ادبی مباحث، خیالات اور رویوں کے حوالے سے ہل چل کی دہائی ہے۔۱۹۶۰ئسے ۱۹۶۵تک پاکستان میں جدید، جدیدیت، جدید شاعری جیسے موضوعات بھی زیر بحث رہے۔ان موضوعات کے پس منظر میں در اصل ایک خیال یا نظریہ کارفرما تھا جو’’لسانی تشکیلات‘‘ کے نام سے جاناگیا۔بعد ازاں یہ نظریہ اور اس کے تحت کی جانے والی ادبی و تخلیقی کاوشیں ’’لسانی تشکیلات کی تحریک‘‘کے نام سے موسوم ہو گئیں۔
لسانی تشکیلات کی ضرورت محسوس کرنے والوں کا خیال تھا کہ قدیم شعری لسانی پیمانوں نے شاعری کو ہی نہیں شاعر وادیب کی فکری و تخلیقی قوت کو بھی مت?ثر کیا۔ نئی فکری و فنی جدت و سہولت اور نئے انسانی ردِ عمل کو شعروادب میں داخل ہونے سے روک دیا۔مثلاً اکیسویں صدی کاشاعر خصوصاً غزل گو مجبور ہے کہ وہ میر تقی میر? اور سودا? کے زمانے کے لسانی ڈھانچوں اور پیمانوں میں اپنے احساسات و جذبات کا اظہار کرے۔اسی طرح اکیسویں صدی کا مرثیہ گو پابند ہے کہ وہ انیس? اور دبیر? کے قائم کردہ اصولوں اورلسانی و جذباتی پیمانوں کے مطابق مرثیہ لکھے۔ صدیوں کے زمانی فاصلے انسانی سوچ، جذبات اور احساسات کے طرز و انداز میں کچھ تو تبدیلیاں ضرور پیدا کرتے ہیں۔ ان تبدیلیوں کو شعروادب میں منعکس کرنے کے لیے لسانی پیمانوں اور لفظیات، علائم، ترکیبات وغیرہ کی تشکیلِ نو کرنے کی ضرورت ہے۔ شاعری کے قدیم اور کلاسیکی مزاج نے شاعری کو کلاسیکی موسیقی بنا دیا ہے جس کے مطابق صدیوں سے راگ کی جو درو بست اساتذہ نے مقرر کی ہے اْسی درو بست میں سْروں کی اْسی تعداد میں راگ گایا جائے گا۔یہ صورت حال شعرو ادب کو بے روح اور غیر متحرک بنا دیتی ہے۔
ان ادیبوں کا طرز فکر اور مدعا یہ تھا کہ شعر و ادب میں مافی الضمیر کے اظہار کے لیے جتنے بھی لسانی پیمانے اب تک رائج رہے ہیں وہ اپنے اپنے زمانے کے تقاضوں اور ضروریات کے مطابق وجود میں آئے ہیں۔ ہمارا زمانہ قدیم زمانے سے اپنی ایک الگ حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے تقاضے اور لسانی ضرورتیں اور ہیں لہٰذا شعروادب کی لسانیات میں ہمیں اپنے وقت کے تقاضوں کے مطابق تغیر و تبدیلی لانی چاہیے۔
اس کا حل۱۹۶۰ئمیں بعض اہلِ فکرو تخلیق نے تحریک کی صورت میں ڈھونڈا۔انھوں نے ضرورت محسوس کی کہ شاعری کے اسلوبیاتی عمل اور پیمانہ اظہار میں تبدیلیاں لانے کی تحریک چلائی جائے۔اس تحریک کی کامیابی اورپھیلاؤکے مختلف امکانات پر غور کرنے کے بعد انھیں موضوعاتی شکل دے کر ان پر قلم اٹھایا جائے۔ اس ضمن میں شعراء میں سے سب سے زیادہ بلند آواز میں لسانی تشکیلات کا نعرہ افتخار جالب نے اپنی کتاب ‘‘مآخذ’’ کے دیباچے میں لگایا۔اس مقصد کے تحت لکھے یا لکھوائے گئے مقالات کی تعداد ۵۲ ہے جن معروف اہلِ قلم و دانش نے مقالات لکھے یا ان سے لکھوائے گئے اْن میں ڈاکٹر سید عبد اللہ، ڈاکٹر گوہر نوشاہی، ڈاکٹر تبسم کاشمیری، ڈاکٹر تبسم کاشمیری، احمد ندیم قاسمی، پروفیسر فتح محمد ملک، انیس ناگی، پروفیسر جیلانی کامران، پروفیسر صفدر میر، ظہیر کاشمیری اور افتخار جالب کے نام شامل ہیں۔ ان تمام مقالات کو افتخار جالب نے ‘‘نئی شاعری’’ کے نام سے کتابی شکل دی۔ افتخار جالب کی اس کتاب اور ان کے شعری مجموعے ’’مآخذ‘‘ کے دیباچے کو لسانی تشکیلات کی تحریک کے اصل مقصد و مدعا کی تفہیم کے حوالے سے بنیادی اہمیت حاصل ہے۔
۱۹۵۸ئکے مارشل لاء ۱۹۶۵کی پاک بھارت جنگ اور لسانی تشکیلات کی تحریک سے شاعری کے رائج اسلوب و الفاظ اور مقبول نظریات کے خلاف ایک زبردست رد، عمل سامنے آیا جس سے نہ صرف نئی بحثوں کا ٓغاز ہوابلکہ غزل کی ہیئت و مستقبل کے بارے میں بعض تنقیدی حلقوں کی طرف سے خدشات کا اظہار بھی کیا گیا۔ کم و بیش یہی صورت حال ستر(۰۷ئ) کی دہائی میں بھی برقرار رہی۔ ملک کے طول و عرض میں پھیلی سیاسی گھٹن، سماجی بے ضابطگیاں ، ادبی سطح پر ہیئت واسلوب کے مروجہ معیارات سے انحراف، رائج لسانی و شعری ڈھانچوں میں توڑ پھوڑ جیسے رویوں نے مجموعی طور پرساٹھ کی دہائی کے تاثر کو جدلیاتی رنگ دیا۔فنی سطح پر ساٹھ اورستر کی دہائیوں میں جو نمایاں تبدیلیاں ہوئیں ان میں اول تو نئی لسانی تشکیلات کے اثرات ہیں جن کے تحت فارسی مزاج کی بجائے اردو کا پاکستانی مزاج وجود میں آیا۔تراکیب سے گریز اور اضافتوں سے بچنے کی شعوری کوششوں نے شاعری کی زبان کو خاصا تبدیل کر دیا۔
لسانی تشکیلات کی تحریک سے محض دو سال پہلے یعنی۱۹۵۸ئکے مارشل لاء نے آزادیِ فکر و قلم قدغن لگانے کی کوشش کی جسکے نتیجے میں ادیبوں کے ہاں علامتوں اور استعاروں میں بات کرنے کا رجحان فروغ پایا۔ فرد اپنے آپ کو ہر میدان میں محبوس اور مقید محسوس کرنے لگا۔ اظہار کے نئے طور طریقوں اور بیان کے جدید و موثر انداز اپنانے کی شعوری کوششیں عمل میں آنے لگیں۔ اہلِ فن و قلم کے ہاں اظہار کا ایمائی انداز پیدا ہو گیا۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اردو غزل میں ترقی پسند تحریک کے زیرِاثرجو راست طرزِاظہار رواج پا گیا تھا وہ مائل بہ زوال ہونے لگا۔تمثال کاری، علامت سازی اور علامتوں کے استعمال کا رجحان فروغ پانے لگا۔اس صورت حال کا مجموعی فائدہ اردو غزل کو یہ ہوا کہ اس کی رمزیت و ایمائیت اور اشاریت کو تقویت ملی جو کہ غزل کی داخلی اور خارجی جہات کو مزید نکھارنے اور چمکانے کا سبب بنی۔اردوغزل کے اسلوب، موضوعات اور ڈکشن میں تغیر ضرور پیدا ہوا۔ ڈاکٹر رشید امجد نے اپنے مضمون’’پاکستانی ادب کے نمایاں رجحانات’’ میں لکھا ہے :
"۱۹۶۰ئکے قریب نئی لسانی تشکیلات کی بحث نے نظم کو زیادہ اور اس کے بعد افسانے کو متاثر کیا۔غزل پر یہ اثر قدرے کم پڑا۔"
ادبی سطح پر موضوعات و اسلوب دونوں میں تبدیلیاں واقع ہونے لگیں۔ غزل میں جدید موضوعات کو نئے عہد کے اسلوب بیان کے مطابق برتنے کا رجحان فروغ پانے لگا ہے۔ پاکستان میں بعض تخلیقی ادیبوں نے اپنے مشاہدات اور مافی الضمیرکے اظہار کے لیے نظم و غزل کے قدیم رائج الوقت لسانی پیمانوں میں بھی تبدیلی کی ضرورت محسوس کی۔ انھوں نے محسوس کیا کہ ہم جو کچھ لکھ رہے ہیں وہ ایک خاص قدیم لسانی ڈھانچے کے مطابق ہے۔یہ قدیم لسانی پیمانہ صدیوں پہلے وجود میں آیا تھا اور صدیوں سے اس نے اردو شاعری کو خاص طور پر اردو غزل کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔اس لسانی ڈھانچے کے سامنے آج کا شاعر مجبور ہے کہ وہ اپنے دور کے احساسات و مشاہدات و جذبات کواْس شکل و صورت اور ہیئت و لفظیات میں پیش کرے جو اسے قابلِ قبول ہو۔
افتخار جالب کے نزدیک شعر و ادب کی لسانیات کی از سر نو تشکیل اس لیے ضروری تھی کہ اب تک کی رائج الوقت زبان پر گرامر کی حکمرانی رہی ہے۔ بے شمار تبدیلیوں سے ہمکنار ہونے والی اردو مختلف ادوار سے گزرتے ہوئے آج جبکہ ہمارے درمیان ہے تو تبدیلی کا یہ عمل رکنا نہیں چاہیے۔ زبان میں موجود تمام مواد کونئے سرے سے منظم ومربوط طور پربروئے کار لایا جانا چاہیے تاکہ شعر و ادب کی لسانیات میں وسعت آجائے۔ ان کے شعری مجموعے’’مآخذ‘‘کے دیباچے سے ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے :
"شعر و ادب پر کب تک گرامروالے حکمران رہیں گے۔ ان سے نجات حاصل کرنا ہی چاہیے۔ وہ زبان جو ادبی وراثت میں مختلف ادوار کی ٹھوکروں ، ترقیوں ، پابندیوں اور زیبائش وآرائش سے مختلف طبائع کی ہنگامہ پروری، کور ذوقی یا خوش ذوقی سے ، تخریب، تعمیر، محنت، دسترس، نارسائی، کم فہمی اور ہیچ مدانی سے اور سننے والوں کی اجتماعی تلازماتی کیفیتوں،گردوپیش، رنگارنگیوں ، طوائف الملوکیوں ، پریشانیوں اور مختلف مقامی اور غیر ملکی وسیلوں ، امنگوں ، سانچوں ، حکائتوں ، داستانوں اور ضرب المثلوں سے ہم تک پہنچی ہے اسے بعینہ برقرار نہیں رکھا جاسکتا۔۔۔ لسانی طور پر جذب شدہ تمام مواد جب نئے سرے سے منظم ہوگا اور آج کی معنویت قبول کرے گا تو نئے راہیں کھلیں گی۔ نئی آواز اور پرانی سرگوشیوں کے ربط باہم سے جذبات کی لسانی حدود ایک نئے وسعت سے ہمکنار ہوں گی۔متذکرہ بالانقطۂ نظرنے پاکستانی اردونظم اور افسانے پرواضح اثرات مرتب کیے۔۔ ‘‘اگرچہ افتخار جالب کی یہ تحریک اپنی شدت کے باعث کامیاب نہ ہو سکی تاہم غزل پر اس تحریک کے اثرات پڑے۔"
اس تحریک سے بعض ادیبوں میں احساس کی کم از کم زیریں سطح پرزبان سازی اور لسانی تشکیلات کی ایک لہر ضرور پیدا ہوئی۔شعری زبان اور ڈکشن کی تشکیل ِنو کا ایک احساس جزوی طور پر پاکستانی غزل کو ضرور عطا کیا۔ لسانی و فنی اعتبار سے دیکھا جائے تو لسانی تشکیلات کی تحریک نے غزل کی پرانی لغت میں نئے الفاظ کی شمولیت نے بھی غزل کی زبان کو وسعت دی۔امیجز، پیکر تراشی اور تمثال کاری نے پرانے استعاراتی نظام کو یکسر بدل دیا۔چنانچہ بعض شعرا کے یہاں اس نقطہ نظر کو شعوری طور پر اپنانے کا رویہ بھی سامنے آیا اور کچھ کے یہاں لسانی تشکیلات کی ایسی صورتیں بھی پیدا ہوئیں جو ناقابلِ قبول حد تک نامانوس نہیں۔
ظفر اقبال کے شعری مجموعے ’’ گلافتاب‘‘میں کیے گئے شاعرانہ تجربات اس ضمن میں نمایاں نظر آتے ہیں۔ یہ تجربات خود ظفر اقبال کے بقول ‘‘ سیلف پیروڈائزیشن ’’ کی ایک صورت تھی۔سلیم احمد کے ہاں غزل کے جارحانہ انداز و آہنگ اور انجم رومانی کی غزل میں لفظیاتی اتار چڑھاؤ نیز جلیل الدین عالی کی غزلوں میں ‘‘فکِ اضافت’’کی جو صورتیں ظہور پذیر ہوئیں انھیں بھی لسانی تشکیلات کی تحریک کے بنیادی مدعا کے تناظر میں دیکھنا بے جا نہ ہوگا۔ظفر اقبال کا شعری مجموعہ ‘‘گلافتاب’’لسانی تشکیلات کے حوالے سے قابلِ توجہ ہے۔اس مجموعے میںشاعرنے شعور و ادراک کی سطح پر شعری لسانیات اور زبان کے رائج الفاظ واسلوب میں تصرف کیا ہے۔اس تصرف کو ظفر اقبال نے باقاعدہ طور پر نظریاتی اساس بھی فراہم کی۔ان کا نقطۂ نظر اس حوالے سے یوں سامنے آیا۔جن چشموں سے اس(اردو) زبان نے ابتدا میں توانائی حاصل کی اورجو ایک مدت تک اس پر روک دیے گئے تھے، میں نے انھیں پھر سے رواں کر دیا ہے کچھ کْلیوں کا احیا کیا ہے، کچھ وضع کیے ہیں۔
‘‘گلافتاب’’ میں اضافت کے رائج طریقے، مصادر کی بناوٹ کے مرسوم پیمانے اور بعض لسانی اصولوں سے انحراف کی واضح صورتیں اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ شاعر پورے شعور وادراک کے ساتھ لسانی تشکیلات کے عمل کو آگے بڑھا رہا ہے۔ ’’گلافتاب‘‘لسانیات کی اصطلاح میں ایک ایسا لفظ ہے جسے Portmenseauکہا جاتا ہے۔ اس میں در اصل دو مختلف لفظ آپس میں مل کر مرکب بننے کے بجائے ایک دوسرے میں مدغم ہو کر ایک نیا لفظ بنا لیتے ہیں۔ ادغام کے اسی عمل سے ظفر اقبال نے استفادہ کیا اور اردو میں لفظ سازی کی سعی کی۔ادغام کایہ عمل عربی، فارسی اور انگریزی زبانوں کے حوالے سے بھی نامانوس نہیں۔ظفر اقبال نے اپنے لسانی تجربات کے لیے جو تخلیقی مساعی کیں ان میں پہلی قابل ذکر کوشش فکِ اضافت ہے۔الف کو حرف اضافت کے طور پر استعمال کرنا کسی لسانی اصول سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ظفر اقبال کے ہاں یہ رویہ بھی نظر آتا ہے مثلاً
سیدھے سیدھے شعر کہتے سب کو خوش آتے ظفر
کیا کیا جائے کہ اپنی عقل میں افتور تھا
یہاں اس نکتے کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ متذکرہ بالا رویہ اردو ہی کے ایک شاعر کا رویہ ہے۔شاعر اپنی زبان کے ساتھ بقولِ شمس الرحمن فاروقی اس طرح کھیل سکتا ہے جس طرح بچہ اپنی ماں کے بدن سے کھیل سکتا ہے اور ضرورت پڑنے پر وہ زبان میں تشدد اور توڑ پھوڑ بھی روا رکھتا ہے۔
اس میں شبہ نہیں کہ لسانی تشکیلات کے تجربات کے نتیجے میں کچھ ایسی صورتیں بھی سامنے آئیں جو غزل کے قارئین و ناقدین کے لیے نامقبول رہیں تا ہم مجموعی طور پر ان لسانی تجربوں نے اردو غزل کو فائدہ پہنچایا اور اسے اظہار کی نئی صورتوں سے روشناس کرایا۔ان تجربات کے نتیجے میں جدید غزل کو بیان کے وہ قرینے میسر آئے جن کے ذریعے اسے ماحول کی استبدادیت، سیاسی انتشار، سماجی گھٹن، اخلاقی قدروں کے زوال اور جنسی و معاشی مسائل جیسے موضوعات کوتمام تر شدتوں کے ساتھ پیش کرنے کی صلاحیت حاصل ہوئی۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...