Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > مباحث > اختر لایمان کی نظم ’’مسجد ‘‘کا تنقیدی جائزہ

مباحث |
حسنِ ادب
مباحث

اختر لایمان کی نظم ’’مسجد ‘‘کا تنقیدی جائزہ
ARI Id

1689956600868_56117478

Access

Open/Free Access

Pages

۲۶۰

منظر نگاری:
اختر الایمان نے جو منظر کشی کی ہے وہ المناک ہوتے ہوئے بھی دل فریب ہے۔اس نظم میں شاعر نے کہیں دور اشارہ کر کے ایک مسجد کی نشاندہی کی ہے۔ برگدی گھنی چھاؤں میں ماضی اور حال گناہگار نمازی کی طرح رات کی تاریک کفن کے نیچے اپنے اعمال پر آہ و زاری کرتے ہیں۔ اسی برگد کی چھاؤں میں ایک ویران سی مسجد ہے جس کا ٹوٹا ہوا کلس پاس بہتی ہوئی ندی کو تکا کرتا ہے۔ اسی مسجد کی ٹوٹی ہوئی دیوار پر کوئی الّو (چنڈول) کوئی پھیکا سا گیت چھیڑ دیا کرتا ہے۔
دور برگد کی گھنی چھاؤں میں خاموش و ملول
جس جگہ رات کے تاریک کفن کے نیچے
ماضی و حال گنہ گار نمازی کی طرح
اپنے اعمال پہ رو لیتے ہیں چپکے چپکے
تشبیہات کا استعمال:
اس نظم میں برگدی گھنی چھاؤں ماضی سے مشابہ ہے۔ رات کو تاریک کفن سے موسوم کیا گیا ہے۔ ماضی و حال کا خاموش و ملول ہونا، شکستہ کلس کا ندی کو تکنا ، بے بسی، مایوسی اورپاسیت کو واضح کرتا ہے۔ چنڈول ایک منحوس پرندہ مانا جاتا ہے اور پھر اس الّو کا کوئی پھیکا سا گیت چھیڑنا یہ بھی توجہ طلب ہے۔ شاعر نے نظم میں ڈوبتے سورج کے لئے ’ سورج کے وداعی انفاس‘کا استعمال کیاہے جس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ قدرت نے بھی اس مسجد کی طرف منہ موڑ لیا ہے۔
ایک ویران سی مسجد کا شکستہ سا کلس
پاس بہتی ہوئی ندی کو تکا کرتا ہے
اور ٹوٹی ہوئی دیوار پہ چنڈول کبھی
گیت پھیکا سا کوئی چھیڑ دیا کرتا ہے
تجسیم نگاری:
نظم میں جوسب سے بڑی فن کاری دکھائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اس دعاؤں کوسننے والا کوئی شخص نہیں بلکہ ان دعاؤں کے گواہ شام و سحر ہیں جن کی تجسیم کر کے ان میں شاعر نے حسرت بھی بھردی ہے اور اس حسرت میں قوت سماعت بھی ا?گئی ہے۔ یہ حسرت ہی ہے جو اپنا ٹوٹا ہوا دل تھام لیا کرتی ہے۔ اختر الایمان نے مجرد محسوسات اور جذبات کونہایت ہی تخلیقی ہنر مندی اور خوبصورتی کے ساتھ الفاظ کے پیکر میں ڈھال دیا ہے۔
حسرت شام و سحر بیٹھ کے گنبد کے قریب
ان پریشان دعاؤں کو سنا کرتی ہے
جو ترستی ہی رہیں رنگ اثر کی خاطر
اور ٹوٹا ہوا دل تھام لیا کرتی ہے
پیکر تراشی:
اس مسجد کی ویرانی کو مزید واضح کرنے کے لئے اختر الایمان دوسرے عوامل کابھی استعمال کرتے ہیں۔ جیسے وہ یہ بتاتے ہیں کہ موسم سرما میں ابا بیل ا?کر اس کے محراب شکستہ میں پناہ گزیں ہوجاتی ہے اور یہ بھی کہ اس مسجد کی دیوار کے سائے میں کوئی بوڑھا گدھا بیٹھ کر اونگھ لیتا ہے یاپھر آنے جانے والا کوئی مسافر تھوڑی دیر کے لیے ڈرا سہما ہوا کچھ دم ٹھہر کر جاتا ہے۔ اس عکس سے اس مسجد کی ویرانی او ربھی بڑھ جاتی ہے۔
یا ابابیل کوئی آمد سرما کے قریب
اس کو مسکن کے لیے ڈھونڈ لیا کرتی ہے
اور محراب شکستہ میں سمٹ کر پہروں
داستاں سرد ممالک کی کہا کرتی ہے
حقیقت نگاری:
محراب شکستہ اس مسجد کی قدامت کے ساتھ ساتھ لوگوں کی بے توجہی کوبھی پیش کرتا ہے۔ شاعر نے مسجد کو اسلامی حمیت اور ایمانی قوت کی علامت کے طور پر پیش کیا ہے۔ موضوع کچھ بھی ہو ،دیکھنایہ ہے کہ موضوع فن پارہ بن پایا کہ نہیں۔کسی بھی نظم میں جس تسلسل خیال اور ارتقائی صورت حال کا تقاضا ہوتا ہے وہ اس نظم میں بالکل موجود ہے۔ نظم ا?گے بڑھتی ہے تو اس کی پیکر تراشی کچھ اور بھی نکھر ا?تی ہے۔ نظم کے مختلف بند پر اگر ا?پ غور کریں تو پائیں گے کہ اس المناک اور اس انگیز فضا میں بھی ایک طرح کا روحانی یا الوہی ارتفاہی نظر ا?تا ہے۔
ایک میلا سا اکیلا سا فسردہ سا دیا
روز رعشہ زدہ ہاتھوں سے کہا کرتا ہے
تم جلاتے ہو کبھی آ کے بجھاتے بھی نہیں
ایک جلتا ہے مگر ایک بجھا کرتا ہے
نغمگی اور موسیقیت:
الفاظ کے تخصص و ترتیب سے اس میں فکری و فنی بلندی پیدا ہوگئی ہے۔ الفاظ کی ہم ا?ہنگی سے المیہ فن پارے میں بھی نغمگی اور موسیقیت پیدا ہوجاتی ہے ،اسلوب میں نکھار ا?جاتا ہے۔
تیز ندی کی ہر اک موج تلاطم بردوش
چیخ اٹھتی ہے وہیں دور سے فانی فانی
کل بہا لوں گی تجھے توڑ کے ساحل کی قیود
اور پھر گنبد و مینار بھی پانی پانی
سماجی شعور:
شاعر نے المناک مسقتبل کا اشاریہ پیش کیا ہے جوکہ در پردہ اپنے اندر انتباہ بھی رکھتاہے۔ اس مسجد کو انہوں نے نگار دل یزداں کہاہے جو کہ بہت ہی با معنی اور پر قوت و پر جمال ہے۔ انہوں نے کس تخلیقی طباعی اور ہنر مندی سے چاندستارے اور شبنم سب کو اسی مسجد کے ساتھ شریک کرلیا ہے۔ سب سے زیادہ بلیغ اور تخلیقی نشان تو ہے مسجد کو نگار دل یزداں قرار دینا۔ ساتھ ہی شاعر نے اس مسجد کے دیئے کوبھی قوت ہم کلامی عطا کردی ہے۔
چاند پھیکی سی ہنسی ہنس کے گزر جاتا ہے
ڈال دیتے ہیں ستارے دھلی چادر اپنی
اس نگار دل یزداں کے جنازے پہ بس اک
چشم نم کرتی ہے شبنم یہاں اکثر اپنی
عظمت رفتہ کے زوال کا نوحہ:
نظم کے آخری بند میں اختر الایمان نے مسجد کے پاس بہتی ہوئی ندی کواتنا تونگر اور پرتمکنت بنا کر پیش کیا ہے کہ اس کائنات کی نا پائیداری کا برملا اظہار ہوجاتا ہے۔ یہی وہ کردار ہیں جو عہدرفتہ کی کہانی بھی پیش کرتے ہیں اور جھوٹے مہذب سماج کی قلعی بھی کھولتے ہیں۔ ساتھ ہی ایک ایسا شعری مرقع پیش کرتے ہیں جو ادب کے قاری کوصرف پسند ہی نہیں ا?تا بلکہ اس کے باطن اس طرح اتر تاہے کہ وہ مرقع اس کے لئے حرزجاں بن جاتا ہے۔
تیز ندی کی ہر اک موج تلاطم بردوش
چیخ اٹھتی ہے وہیں دور سے فانی فانی
کل بہا لوں گی تجھے توڑ کے ساحل کی قیود
اور پھر گنبد و مینار بھی پانی پانی
سماج فہمی:
کسی خیال یا موضوع کو فن پارہ اور اس فن پارہ کو اس طرح پیش کرناکہ وہ ایک مرقع بن جائے آسان نہیں۔ غور طلب امرہے کہ اختر الایمان نے اپنی تخلیقیت میں جو توانائی بھرنے کا فریضہ انجام دیا ہے وہ مضمون کے سبب ہے یا پھر ان کی قوت تخلیق ہے جو خود آگ سے پیدا ہوکر آگ کا سا اثر پیدا کرتی ہے۔ اختر الایمان نے سیدھے اورسپاٹ مگر کہرے بیانیہ اندازکی نظ میں بھی کہیں ہیں۔
ایک میلا سا اکیلا سا فسردہ سا دیا
روز رعشہ زدہ ہاتھوں سے کہا کرتا ہے
تم جلاتے ہو کبھی آ کے بجھاتے بھی نہیں
ایک جلتا ہے مگر ایک بجھا کرتا ہے
اسلوب نگاری:
اختر الایمان کی شاعری قدامت پسندی سے پرے نئے رنگ و آہنگ اور اچھوتے اسلوب سے عبارت ہے۔ اجتماعی زندگی کے معاملات و مسائل ان کی نظموں میں کافی اہمیت رکھتے ہیں۔ وہ ہمیشہ ایک نئے لہجے کی جستجو میں رہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ روایتی موضوعات کے بجائے انہوں نے ہمیشہ ان موضوعات کو اپنی شاعری کا حصہ بنایاجو ان کے پیشتروشعراء کے یہاں نظر نہیں آتے۔
حسرت شام و سحر بیٹھ کے گنبد کے قریب
ان پریشان دعاؤں کو سنا کرتی ہے
جو ترستی ہی رہیں رنگ اثر کی خاطر
اور ٹوٹا ہوا دل تھام لیا کرتی ہے
جذبات نگاری:
الفاظ کی جادو گری سے جذبات نگاری کاہنر اختر الایمان بخوبی جانتے ہیں ۔ مسجد کی ٹوئی ہوئی دیوار پر چنڈول کامرثیہ عظمت رفتہ پڑھناظاہر کرتا ہے کہ اختر الایمان زریں ماضی کو اپنی عظیم روایتوں کا اہم حصہ سمجھتے ہیں اور اپنے عہد کو ابتری کی اخلاقی قدروں کے زوال کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔
ایک ویران سی مسجد کا شکستہ سا کلس
پاس بہتی ہوئی ندی کو تکا کرتا ہے
اور ٹوٹی ہوئی دیوار پہ چنڈول کبھی
گیت پھیکا سا کوئی چھیڑ دیا کرتا ہے
نئی تراکیب و علامات کا استعمال:
نظم مسجد ایک دلکش مرقع ہے۔ یہاں اختر الایمان مسجد کانقشہ کچھ اس انداز سے کھینچے ہیں کہ پہلے بند سے آخر ی بند تک نظروں کے سامنے ایک جیتی جاگتی تصویر نظر آنے لگتی ہے۔ رات کے تاریک کفن کے نیچے ماضی و حال کا گناہ گاروں کی طرح مل کر اپنے اعمال پر رولینا، ویران سی مسجد کے شکستہ کلس کا پاس بہتی ندی کو تکنا ، گرد ا?لود چراغوں کا ہوا کے زور سے مٹی کی تہوں میں دب جانا ،حسرت شام و سحر کا پریشان دعاؤں کو سننا ، تسبیح کے دانوں کے نظام کا کالعدم ہو جانا، طاق میں ٹھہرے ہوئے شمع کے آنسو ،چاند کی پھیکی سی ہنسی ، اور اس جیسی بے شمار ترکیبات اور علامتیں یہ ظاہر کرتیں ہیں کہ اختر الایمان کا زندگی اور فن کے تعلق سے اپنا ایک الگ نظریہ تھا جو کسی اور نظریے کو من و عن قبول کرنے سے انہیں روکتا تھا۔
گرد آلود چراغوں کو ہوا کے جھونکے
روز مٹی کی نئی تہہ میں دبا جاتے ہیں
اور جاتے ہوئے سورج کے وداعی انفاس
روشنی آ کے دریچوں کی بجھا جاتے ہیں
سماجی حالات کی عکاسی:
اختر الایمان کی اس نظم میں اپنے عہدکی سماجی زندگی سے مایوسی کااظہارنظرآتاہے۔ اپنے عہدکے انسان کی خودغرضی،تشدداورجارحیت پسندی سے انھیںخاص کدہے۔ وہ تقلیدکے قائل نہیںاپنی الگ بناناچاہتے ہیںاورانھیںاس بات کاسلیقہ بھی ہے کہ اپنے موضوعات کوکس طرح طاقت ِپروازدی جائے کہ دل سے نکلی ہوئی بات پراثربھی بن جائے۔
دور برگد کی گھنی چھاؤں میں خاموش و ملول
جس جگہ رات کے تاریک کفن کے نیچے
ماضی و حال گنہ گار نمازی کی طرح
اپنے اعمال پہ رو لیتے ہیں چپکے چپکے
سماجی شعور کا احساس:
ان کی نظم کے مطالعے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ نہ خود سے مخاطب ہیں نہ دوسروں سے۔ یہ ایک سچے شاعر کا خلوص پر مبنی اظہار ہے کہ اس نے دنیا کو جیسا دیکھا اور برتا اس کو اسی طرح پیش کر دیا۔ اس پیشکش میں کچھ اشارے بالواسطہ طور پر پائے جاتے ہیں جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے اس قدر بلیغ ہیں کہ پڑھنے والے کو محسوس ہوتا ہے کہ انھیں اس نے دریافت کیا ہے۔
حسرت شام و سحر بیٹھ کے گنبد کے قریب
ان پریشان دعاؤں کو سنا کرتی ہے
جو ترستی ہی رہیں رنگ اثر کی خاطر
اور ٹوٹا ہوا دل تھام لیا کرتی ہے
مشاہدات اور جذبات کا اظہار:
انھوں نے اپنے مشاہدات اور جذبات کے اظہار میں ایسی قوت کا استعمال کیا ہے ان کی شاعری وسیع تر تہذیبی شعور کی آئینہ داربن گئی ہے۔۔ کمال کی بات یہ ہے کہ شاعر نے یہ سب کچھ اپنی زبان سے نہیں کیا ہے اس نے تو صرف تصویروں کا ایک مجموعہ بنا کر پیش کر دیا ہے جس کی اثر آفرینی ہمیں ان معنی تک خود بخود پہنچا دیتی ہے۔ اخترالایمان نے اپنی ذات کو محور بنا کر کائنات کی تفہیم کے سلسلے کو دراز کیا ہے۔
ایک ویران سی مسجد کا شکستہ سا کلس
پاس بہتی ہوئی ندی کو تکا کرتا ہے
اور ٹوٹی ہوئی دیوار پہ چنڈول کبھی
گیت پھیکا سا کوئی چھیڑ دیا کرتا ہے
خارجی اور داخلی احساسات کا اظہار:
اختر الایمان کی نظم میں موضوع کے اعتبار سے یہ انفرادیت بھی نظر آتی ہے کہ اس میں خارجی مشاہدات و تجربات ہیں اور داخلی واردات اور ذاتی کیفیات بھی۔ وہ خارجی مشاہدات و تجربات کو نظم کا پیکر عطا کرنے کا ارادہ اس وقت کرتے ہیں جب وہ ان کے داخلی محسوسات سے پوری طرح ہم آہنگ ہو جائے۔ اس سلسلے میں خود انھیںکا بیان ہے۔وہ داخلیت اور خارجیت کو دونوں کو ملا کر بات کرتا ہوں۔ خارجی چیزیں آتی ہیں وہ پھر اور کہیں داخلیت پر ختم ہو جاتی ہیں۔
کالعدم ہو گیا تسبیح کے دانوں کا نظام
طاق میں شمع کے آنسو ہیں ابھی تک باقی
اب مصلٰی ہے نہ منبر نہ مؤذن نہ امام
آ چکے صاحب افلاک کے پیغام و سلام
جذبات و احساسات کی اہمیت:
اختر الایمان کے یہاں احساس کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ وہ خارجی چیزوں کو جوں کا توں بیان نہیں کر دیتے بلکہ اپنے جذبات اور احساسات کی شمولیت سے اس کے رنگ گہرے کر دیتے ہیں۔بے رنگ خارجی تصویر ان کی قلم کے زیر اثر رنگین، دیدہ زیب اور دلچسپ ہو جاتی ہے۔ یہ تصویریں اس قدر پراثر، قوی اور واضح ہوتی ہیں کہ اس سے شاعری فرسودہ نہیں ہوتی وہ ہمیشہ تازہ اور نئی رہتی ہے۔
ایک میلا سا اکیلا سا فسردہ سا دیا
روز رعشہ زدہ ہاتھوں سے کہا کرتا ہے
تم جلاتے ہو کبھی آ کے بجھاتے بھی نہیں
ایک جلتا ہے مگر ایک بجھا کرتا ہے
پیکرتراشی:
اختر الایمان شعری پیکر کی اس خصوصیت سے خوب واقف ہیں اور اسے برتنا بھی جانتے ہیں۔ وہ لفظوں کی مدد سے ایسے پیکر تراشتے ہیں کہ شاعر کے ذہن کی تصویر قاری کی آنکھوں کے سامنے پھر جاتی ہے۔ ضروری نہیں یہ تصویر خارجی مظاہر کی ہو، شاعر اپنے اندرون کار فرما پیکروں کو اپنی تخلیقی قوت سے زندہ جاوید تصویروں یا پیکروں کاروپ دے دیتا ہے۔ ان کی نظم مسجد کے یہ پیکر ملاحظہ ہوں :
دور برگد کی گھنی چھاؤں میں خاموش و ملول
جس جگہ رات کے تاریک کفن کے نیچے
ماضی و حال گنہگار نمازی کی طرح
اپنے اجمال پہ رو لیتے ہیں چپکے چپکے
الفاظ تراشی:
ہم جانتے ہیں کہ لفظوں کے مفہوم بڑی حد تک محدود ہوتے ہیں۔ اپنے ماضی الضمیرکے اظہار اور قاری تک ان کی رسائی کے لیے ادیب لفظوں کی جستجو کرتا ہے۔ اخترالایمان کے یہاں یہی الفاظ ہاتھ باندھے کھڑے نظر آتے ہیں۔ وہ انھیں زیادہ وسعت، درد مندی اور تہہ داری کے ساتھ استعمال کرتے ہیں جس سے اْن کی شاعری میں گہرائی اورگیرائی پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ ایک نئے لہجے کی جستجو میں رہتے ہیں۔
گرد آلود چراغوں کو ہوا کے جھونکے
روز مٹی کی نئی تہہ میں دبا جاتے ہیں
اور جاتے ہوئے سورج کے وداعی انفاس
روشنی آ کے دریچوں کی بجھا جاتے ہیں
طنزیہ اور تلخ لب و لہجہ:
اخترالایمان خشک اور کھردرے لہجے کے شاعر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ اسی لہجے سے اْن کے یہاں اکثر طنز اور تلخی بھی ابھر آئی ہے۔ لیکن یہ لب و لہجہ قاری کو ناگوار نہیں گزرتا۔ اس سے نظم کی تاثیر میں کمی نہیں آتی بلکہ نظم کا تجسس بڑھ جاتا ہے۔
ایک بوڑھا گدھا دیوار کے سائے میں کبھی
اونگھ لیتا ہے ذرا بیٹھ کے جاتے جاتے
یا مسافر کوئی آ جاتا ہے وہ بھی ڈر کر
ایک لمحے کو ٹھہر جاتا ہے آتے آتے
تراکیب،تشبیہات اور استعارات کا استعمال:
آزاد اور معّرانظم کی ہئیت کو برتنے اور اس میں منفرد اور نئے موضوعات بیان کرنے کے باوجود اخترالایمان ایک ایسے شاعر ہیں جنھوں نے نظم کی وحدت اور اس کی فنی تکمیل پر خصوصی توجہ دی ہے۔ ان کی نظم میں الفاظ، تراکیب، تشبیہات اور استعارات اور پیکر اس طرح نمایاں ہوتے چلے جاتے ہیں جیسے وہ موضوع اور اظہار کا ایک لازمی جزو ہوں۔
کالعدم ہو گیا تسبیح کے دانوں کا نظام
طاق میں شمع کے آنسو ہیں ابھی تک باقی
اب مصلٰی ہے نہ منبر نہ مؤذن نہ امام
آ چکے صاحب افلاک کے پیغام و سلام
وقت کا تصور:
وقت کا تصور اخترالایمان کی نظموں پر حاوی ہے جیسے یہ ان کی ذات کا ہی حصہ ہو۔ اخترالایمان کے نزدیک افراد یا عوام کی سماجی اور تہذیبی زندگی میں جو تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں وہ ایک ناگزیر تاریخی عمل ہے گویا وقت کی تحریر ایسے اٹل فرمان کا حکم رکھتی ہے جس کے سامنے کوئی قوتِ مدافعت کام نہیں کرتی۔
تیز ندی کی ہر اک موج تلاطم بردوش
چیخ اٹھتی ہے وہیں دور سے فانی فانی
کل بہا لوں گی تجھے توڑ کے ساحل کی قیود
اور پھر گنبد و مینار بھی پانی پانی
روایت کا شعور:
اخترالایمان روایت کا گہرا شعور رکھتے تھے۔ اس کی اثر پذیری پر انھیں بھرپور اعتقاد تھا۔ لیکن روایت کے جس جس پہلو سے انھوںنے انحراف کیا اور موضوع، ہئیت اور طرزِ اظہار کے جن منفرد پہلوؤں سے اردو شاعری کو متعارف کرایا وہ نئی روایتوں کے قیام کا سبب ہے۔
کوہ و در اب نہ سنیں گے وہ صدائے جبریل
اب کسی کعبہ کی شاید نہ پڑے گی بنیاد
کھو گئی دشت فراموشی میں آواز خلیل
ناقدین کی رائے:
ڈاکٹرجمیل جالبی نے اخترالایمان کی شاعری کے متعلق لکھا ہے :
’’ان کے یہاں سماجی شعور کا احساس بہت شدید ہے اور اس کا اثر ان کے مزاج میںاس قدر رچ بس گیا ہے کہ قاری تو ان احساسات اور جذبات کو محسوس کر لیتا ہے لیکن خود شاعر کو وہ نظر نہیں آتے۔"
شمیم حنفی نے لکھا ہے :
’’اخترالایمان کی اصل الجھن یہ نہیں کہ شہر سے پھر گاؤں کی طرف کس طرح واپس جایا جائے بلکہ یہ کہ انسانی فطرت کی اندھا دھند بربادی اور تخریب کے چنگل سے اپنے آپ کو کیسے نکالے۔‘‘
ڈاکٹر شفیع ایوب نے اخترالایمان کے ہاں میرا جی کے اثرات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’میرا جی نے اْسلوب و اِظہار کی جو راہیں نکالی تھیں، اْن سے اخترالایمان نے مثبت اور تخلیقی طور پر اِستفادہ کیا ہے۔ اْنھوں نے میرا جی کی رِوایت کو سلیقے کے ساتھ ا?گے بڑھایا ہے۔"
یوسف رام پوری کے بقول:
’’اگر موضوعات کے اعتبار سے دیکھا جائے تو اخترالایمان کی شاعری کا بڑا حصہ غیر رومانی موضوعات پر مشتمل ہے اور اِس شاعری میں اْنھوں نے اپنے مشاہدات، تجربات کو گہرے احساس کے ساتھ پیش کیا ہے۔ گویا کہ اخترالایمان کے یہاں رومانیت ہی سب کچھ نہیں بلکہ رومانیت سے ا?گے بھی بہت کچھ ہے جسے اْنھوں نے شاعری کے قالب میں ڈھالا ہے۔ "
محمد ا?صف زہری نے لکھا ہے کہ:
’’ وقت اور اِس کی ناگزیریت جیسے خالص فلسفیانہ موضوع کو شعری قالب عطا کرنے کے علاوہ معاشرتی مسائل، قدروں کی زبوں حالی، سیاست کی ایذا رسانی، دم توڑتی دْنیا کی کراہیں، حبِ انسانی، نئے نظامِ زندگی کی تلاش ان کے غوروفکر کے خاص نکات ہیں۔"
باقر مہدی کے بقول:
"اخترالایمان کی شاعری میں سیاسی موضوعات بھی ہیں اور وہ بھی ایک عام شہری کی طرح سے اپنے ملک کی سیاسی و سماجی جدوجہد میں حصہ لیتے ہیں۔ اْنھوں نے بھی ا?زادی کی جدوجہد کو اپنی کئی نظموں کا موضوع بنایا ہے۔ وہ اس ’’میدان‘‘ میں بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وہ خطیبانہ انداز اور اِنقلابی لب و لہجہ نہیں اختیار کرتے ہیں۔"

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...