Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > مباحث > فیض احمد فیض کی شاعری کی خصوصیات

مباحث |
حسنِ ادب
مباحث

فیض احمد فیض کی شاعری کی خصوصیات
ARI Id

1689956600868_56117480

Access

Open/Free Access

Pages

۲۷۳

رومانیت:
فیض اپنے کلام سے اپنے خشک زاہد اور ناصح ہونے کا تصور نہیں دیتے بلکہ پھول اور تلوار کے ساتھ ساتھ چشم و لب کی کاٹ کی باتیں بھی کرتے ہیں۔ ان کی اْفتاد ِ طبع رومانی ہے ان کے سینے میں پیار بھرا دل دھڑکتا ہے ان کے کلام میں لطافت اور نزاکت کی روحانی فضائ￿ چھائی رہتی ہے وہ تصورِ جاناں پر سب کچھ نچھاور کرتے نظر آتے ہیں۔
حسن ادا اور ندرت ِ بیان:
فیض ندرت بیان سے قاری کواپنے سحر میں جکڑ لیتے ہیں اور ان کے کلام کا جتنا زیادہ مطالعہ کیا جائے نئے نئے خیالات و تصورات و ا ہوتے جاتے ہیں کیونکہ ان کے ہاں ندرت بیاں اور حسن ادا کی دلکش مثالیں پائی جاتی ہیں۔
جذبات کی ترجمانی:
شاعری میں جذبات کی ترجمانی کے لئے صدق و خلوص انتہائی ضروری ہوتے ہیں صرف احساسات ، محسوسات اور جذبات کے بیان کا نام شاعری نہیں ہوا کرتا۔ فیض کے ہاں ہمیں پر خلوص جذبہ صداقت اور اْسلوب ِ اظہار پر کامل قدرت ہمیں بھر پور انداز میں ملتے ہیں۔
عشقیہ شاعری:
فیض کی شاعری حقیقی جذبات کی عکاسی کرتی ہے ان کی شاعری میں عشق و مستی اور چاہت ومحبت کا بھی کثرت سے ذکر ملتا ہے ان کی شاعری محبت کا ایک دل آویز نمونہ ہے اس اظہار میں چاند کی چاندنی کی سی ٹھنڈک اور سکون ، باد نسیم سی نازک خرامی کے علاوہ محبت کا لوچ اور رس ہمیں دلکش پیرایے میں نظر آتا ہے۔
وطن پرستی:
فیض کو اپنی مٹی سے پیا ر ہے۔ اس مٹی کو وہ محبوبہ کی طرح چاہتے ہیں۔ محبوبہ اور وطن میں وہ فرق نہیں کرتے
اسلوب:
دراصل فیض کا مخصوص لہجہ اور اسلوب ہی وہ جادو ہے جو قاری کو اپنا اسیر کر لیتا ہے اور ہر بار ایک نئے اندا ز میں نمودار ہوتا ہے۔ یہ فیض کے اسلوب کا ایک خاص وصف ہے کہ جدید ذہن اس کو جدید حوالے سے لیتے ہیں اور قدیم ذہن اس میں کلاسیکی رکھ رکھائو اور شیرینی تلاش کر لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فیض بیک وقت ، ماضی ، حالی اور مستقبل تینوں زمانوں پر محیط نظر آٹا ہے۔ یہ ان کے اسلوب کا خاصا ہے۔
ساد ہ زبان:
فیض کی زبان سادہ اور لفاظی و مبالغہ سے مبرا ہوتی ہے۔ یہ اہم خصوصیت ہے جو انھیں ہم عصر شعرائ￿ میں ممتاز کرتی ہے۔ ن۔م۔ راشد بلا تکلف فارسی الفاظ کا سہارا لیتے ہیں۔ جوش و مجاز بھی عربی فارسی کے الفاظ کا استعمال کرتے ہیں۔ لیکن فیض جو بات کہتا ہے سیدھے سادے الفاظ میں کہتا ہے۔ اور اس سادگی میں بلا کا درد ، تاثیر ، متوازن نشتریت اور سنجیدہ جذبات سمو دیتا ہے۔ کہ وہ شان و شوکت جو فارسی الفاظ کا حصہ ہے اس کی شاعری میں پیدا ہو جاتی ہے۔
تغزل:
فیض کی شاعری کی اصل خوبی ان کا وہ پیرایہ اظہار ہے جس میں تغزل کا رنگ و آہنگ تہہ نشین ہوتا ہے۔ یہی طرز بیان ان کی شاعری کا امیتازی وصف ہے۔ تعبیرات کی ندرت اور تشبیہوں کی جدت اس کے اہم اجزا ہیں۔ ان کی نظموں میں ایسے ٹکڑے جن میں اجزاء سلیقے کے ساتھ یکجا ہو گئے ہیں۔ واقعتا بے مثال ہیں۔بیان کی شگفتگی ایسے اجزا ئ￿ میں درجہ کمال پرنظر آتی ہے اور پڑھنے والا کچھ دیر کے لئے کچھ کھو سا جاتا ہے۔
خود کلامی:
فیض کی اکثر نظمیں خود کلامی کی مثالیں ہیں۔ اس صنف میں شاعر خود سے باتیں کرتا ہے۔ طرح طرح کے تصورات و خیالات اس کے ذہن میں آتے ہیں۔ بیچ میں کوئی دوسرا شخص مداخلت نہیں کرتا۔ اس کا واحد حاضر یا جمع حاضر کوئی نہ کوئی مخاطب ضرورہوتا ہے۔ یہ صنف ِ شاعری انگریزی میں بہت مقبول ہے اور اردو ادب میں نیا اضافہ۔ فیض کی چند نظمیں اس سلسلہ میں قابل توجہ ہیں۔ کچھ اور جدید شعراء نے بھی اس میں طبع آزمائی کی ہے۔ لیکن فیض زیادہ کامیاب اور قابل تحسین نظر آتاہے۔
تشبیہات و استعارات:
فیض کے طرز کلام کا دھیما پن ان کے اسلوب کی نمایاں خصوصیت ہے خیال اپنے آپ کو نمایاں کرنے کے لئے استعاروں کی جدت اور تشبیہوں کی ندرت کا سہارا لیتا ہے۔ انھوں نے ہاتھ کو بطور استعارہ بہت ہی خوبصور ت طریقے سے استعمال کیا ہے۔
منظر نگاری:
اس نظم میں فیض نے منظر نگاری کا بہتر ین مظاہرہ کیا ہے۔نظم پڑھتے ہوئے یوں لگتا ہے جیسے سارا منظر ہماری آنکھوں کے سامنے گھوم رہا ہے۔
لفظی پیکر تراشی:
فیض شاعری کے جدید اصولوں اور انداز سے واقفیت رکھتے ہیں۔ چنانچہ جدید شاعری میں لفظی پیکر تراشی اور افکار کی تجسیم ایک اہم رجحان ہے۔اْردو شاعری میں اس خصوصیت کے خوبصورت نمونے فیض کی شاعری میں ملتے ہیں۔
عام فہم علامتیں:
فیض کے ہاں علامتوں کے مفاہم کی تلاش پیچیدہ نہیں اسی لئے وہ عام قاری کے فہم سے قریب ہیں۔ انہوں نے ظلمت اور سحر جیسی علامتیں اپنے اظہار کے لئے اختیار کی ہیں۔ جن کا مفہوم قدیم جبر کا نظام اور جدید امن دوستی اور انسان دوستی کا نظام ہے۔
سماجی مساوات:
سماجی انصاف اور مساوات کلام فیض کا اہم موضوع ہے۔ معاشرے میں غریب اور مزدور طبقے کا جس انداز میں استحصال کیا جاتا ہے اس کی بازگشت فیض کے کلام میں سنی جاسکتی ہے۔ سماجی اور اقتصادی عدم مساوات سے معاشرے میں ان گنت مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ فیض ان تمام موضوعات کو شاعرانہ حسن کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔
ترقی پسندی:
فیض ترقی پسندوں کے امام تصور کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے نہایت خلوص اور فنکاری کے ساتھ اور اپنے نظریات اور رجحانات کو شعر میں ادا کیا۔ ترقی پسندی شعرو ادب میں ایک نئی روایت ہے کہ جسے انہوں نے خوبی کے ساتھ اپنایا ، انہوں نے مزدور ، محنت کش، کسان اور دوسرے طبقات کے دکھ درد کی سچی ترجمانی کی۔ فیض کا فنکارانہ کمال یہ ہے کہ انہوں نے مروجہ شعری ڈھانچے سے فکرو خیال کی نئی عمارت کھڑی کی۔
مجموعی تبصرہ :
مختصر یہ کہ فیض کی شاعری جوان جذبوں کی شاعری ہے۔ یہ جذبہ خواہ وہ انقلاب سے تعلق رکھتا ہو یا محبت سے۔ فیض کا سب سے بڑا امتیاز یہ ہے کہ انہوں نے انقلابی آہنگ پر جمالیاتی احساس کو، جمالیاتی احساس پر انقلابی آہنگ کو قربان نہیں کیا۔ بلکہ ان دونوں کی آمیزش سے ایک نیا شعری رچاؤ پیدا کیا، ان کی شاعری میں جو دلاویزی، دل آسانی، نرمی اور قوت شفا ہے۔ وہ اس عہد کے کسی دوسر ے شاعر کے ہاں نہیں ملتی ہے۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...