Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > مباحث > فیض کی نظم ’’ہم دیکھیں گے‘‘ کا تنقیدی جائزہ

مباحث |
حسنِ ادب
مباحث

فیض کی نظم ’’ہم دیکھیں گے‘‘ کا تنقیدی جائزہ
ARI Id

1689956600868_56117481

Access

Open/Free Access

Pages

۲۷۶

موضوع 6:فیض احمد فیض کی نظم " ہم دیکھیں گے " کا تنقیدی جا ئزہ
ہم دیکھیں گے لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے جو لوحِ ازل میں لکھا ہے
جب ظلم و ستم کے کوہ گراں روئی کی طرح اڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پاؤں تلے یہ دھرتی دھڑدھڑدھڑکے گی
اور اہلِ حکم کے سر اوپر جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی
جب ارضِ خدا کے کعبے سے سب بت اٹھوائے جائیں گے
ہم اہلِ صفا، مردودِ حر مسند پہ بٹھائے جائیں گے
سب تاج اچھالے جائیں گے سب تخت گرائے جائیں گے
بس نام رہے گا اللہ کا جو غائب بھی ہے حاضر بھی
جو منظر بھی ہے ناظر بھی اٹھے گا انا الحق کا نعرہ
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو اور راج کرے گی خلقِ خدا
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
تنقیدی جائزہ
نظم کے عنوان کا پس منظر
"ہم دیکھیں گے" فیض احمد فیض کی ایک انتہائی مشہور و مقبول نظم ہے جس کا اصل عنوان "ویبقیٰ وجہ ربک" تھا۔ فیض کی یہ اکیس سطری نظم ان کے ساتویں شعری مجموعہ "میرے دل میرے مسافر" میں شامل ہے۔ فیض نے اس نظم کو پاکستانی آمر جنرل ضیاء الحق کے عہد حکومت کے استبداد کے خلاف احتجاجاً لکھا تھا لیکن جب مشہور مغنیہ اقبال بانو نے 13 فروری 1986ء کو الحمرا آرٹس کونسل کے ایک اجلاس میں سیاہ لباس پہن کر اسے پڑھا تو یہ نظم احتجاج و انقلاب کا استعارہ بن گئی اور ترقی پسندوں اور بائیں بازوکے افراد کی زبانوں پر مزاحمتی گیت کی شکل میں جاری ہو گئی۔اقبال بانو نے اس نظم کو ایسے وقت میں گایا تھا جب فیض کی شاعری پر پابندی عائد تھی اور سامعین میں اس قدر جوش امڈ آیا تھا کہ وہ بار بار انقلاب زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے۔ یہ نظم سنہ 1979ء میں پہلی بار شائع ہوئی تھی۔اس وقت انھوںنے یہ نظم پاکستان کے آمرجنرل ضیاء الحق کے خلاف لکھی تھی ۔ علی اعلان یہ کمیونسٹ کی ایک آمرکی مخالفت میںلکھی ہے اس نظم نے حکمرانوںکی پیشانیاںشکن آلودکی ہیں۔ دراصل اس نظم کا اصل عنوان ہے ’’ویبقیٰ وجہ ربّک‘‘۔ یہ سورۃ الرحمان کی آخری آیت کا ٹکڑا ہے جس کا مفہوم ہے کہ صرف اللہ کی ہی ذات باقی رہے گی۔ لیکن اب یہ نظم ’’ہم دیکھیں گے‘‘ کے عنوان سے پوری دنیا میں مشہور ہو چکی ہے۔
کمیونسٹ نظریات کا پرچار:
فیض کہتے ہیں کہ لوح ازل میں یعنی قرآن مجید میں لکھا ہے کہ ایک دن وہ آئے گا جب سب کا حساب کتاب ہوگا اور جب ظالموں کا ظلم ختم ہو جائے۔ چونکہ فیض ایک کمیونسٹ شاعر تھے اس لیے اس نظم میں انھوں نے اپنے کمیونسٹ نظریات بھی داخل کیے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب ظالم حکمرانوں کے تاج اچھال دیئے جائیں گے اور ان کے تخت گرا دیئے جائیں گے تو اس کے بعد اقتدار عوام کے ہاتھ میں ا?ئے گا جو صدیوں سے دبے کچلے اور محرومی کے شکار رہے ہیں۔
سب تاج اچھالے جائیں گے سب تخت گرائے جائیں گے
بس نام رہے گا اللہ کا جو غائب بھی ہے حاضر بھی
بغاوت کا اعلامیہ:
فیض احمد فیض کی مشہور نظم '' ہم دیکھیں گے''جو سیاست کی بالادستی اور ناانصافیوں کے خلاف بغاوت کا اعلامیہ بن چکی ہے۔چونکہ اردو میں لکھی گئی ہے اور شاعر اپنے عقیدے کے اعتبار سے مسلمان ہے، اس کا مطالعہ مشرقی علوم اور مشرقی زبانوں کا بہت زیادہ ہے اس لیے لازمی طور پر ایسا ہے کہ نظم کی زمین مشرقی مہا بیانیوں کے علامتی لفظ وصوت اور تصوروخیال سے بھر گئی ہے۔ اور یہ بالکل فطری ہے۔
ترقی پسندیت :
کوئی بھی نظم جس زبان میں لکھی جاتی ہے اسی زبان کے محاوروں، کہاوتوں،علامتوں ،استعاروں اور تشبیحات وتلمیحات بلکہ خود شاعر کے ایمان و مذہب کو ظاہر کرنے والی علامتوں او ر صوتیات سے بھری ہوتی ہے اور جب تک لفظ اور علامتوں کا برتاؤمنفی نہیں ہے، تب تک اس میں کچھ برائی بھی نہیں۔ اس کے برعکس اگر ظلم کی مخالفت اور ا?زادیوں کی حمایت کی با ت ہے تو یہ ہر طرح سے پروگریسو ہے اور اس کی ہر حال میں تائید کی جانی چاہیے۔
پرامیدی:
یہ نظم اس وقت لکھی گئی تھی جب فیض امریکہ میں مقیم تھے اور وطن سے دور اپنے اس قیام کو جلا وطنی سے بھی تعبیر کرتے تھے ، یہ نظم فیض کے دیوان ''مرے دل مرے مسافر'' میں شامل ہے۔ اس کا عنوان 'ویبقیٰ وجہ ربک''ہے، جو سورہ? رحمان کی ا?یت کا ایک ٹکڑاہے یہ نظم ڈکٹیٹر شپ کے خلاف بغاوت کا اعلامیہ ہے اور جمہور کی حکومت کا مڑدہ سنانے والی ہے۔ ا س میں یہ دعویٰ بہت یقین کے ساتھ دوہرایا گیا ہے کہ حالات ایک دن یقینا بد لیں گے۔شاعر کے دل میں یقین کی یہ کیفیت قرا?ن کے بیانیے اور اس پر اعتماد ویقین سے بھی پیدا ہوئی ہے۔ اور ان ادبی وسیاسی سرگرمیوں اور وابستگیوں سے بھی، جن سے وہ عمر بھر وابستہ رہے۔
علامات اور استعارات کا استعمال:
اقبال اور رومی تو ان کے پسندیدہ شاعر رہے ہیں۔ اس نظم میں جتنے بھی ایسے الفاظ ا?ئے ہیں جو مذہبی شعار اورعلامات کے حوالے سے جانے پہچانے ہیں جیسے کعبہ وبْت اور حرم وانا الحق وغیرہ ، حقیقت یہ ہے کہ یہ سب الفاظ علامتی اور استعاراتی معنیٰ میں استعمال ہوئے ہیں، ان میں سے کوئی بھی حقیقی معنیٰ میں استعمال نہیں ہوا۔ بْت سے مراد بھی ہندو مذہب کیدیوی ودیوتاؤں کی کوئی مورتی نہیں ہے بلکہ ظالم حکمراں اور نامراد اہل سیاست مراد ہیں۔اردو شاعری میں بْت کا استعمال بہت کثرت اور بہتات کے ساتھ ملتا ہے۔اور اکثر جگہ اس سے معشوق مراد ہوتا ہے، خاص کر وہ ،جو شوخ اوربے پرواہ ہے جو محبت کا مثبت جواب نہیں دیتا۔
فیض کی نظم میں اللہ کا نام بے شک حقیقی معنیٰ میں استعمال ہوا ہے اوراس نظم کی یہی لائن '' بس نام رہے گا اللہ کا'' اس نظم اور اس کے عنوان میں ربط پیدا کرتی ہے۔مگر یہاں لفظ 'اللہ' کے استعمال کی وجہ یہ ہے کہ نظم اردو زبان میں ہے اورشاعر اللہ کی ذات میں عقیدہ (ا?ستھا) رکھتا ہے۔ اگر شاعر غیر مسلم ہوتا یا نظم دوسری زبان میں ہوتی تو اللہ کے سوا کوئی دوسرا لفظ ہوسکتا تھا جیسے مالک ،بھگوان اور گاڈ وغیرہ۔ اسی طرح 'حرم 'اور 'کعبہ ' بھی ایوان سیاست کی اعلی مسندوں کے معنیٰ میں استعمال ہوئے ہیں۔ اور یہ اسی طرح ہے جس طرح عدالتِ عالیہ کو'' انصاف کا مندر'' کہا جاتا ہے۔ اور ظاہر سی بات ہے کہ ایسا کہتے وقت حقیقی مندر مراد نہیں ہوتا اور نہ ہی عدالت ِعالیہ کو مندر بتانا مقصود ہوتا ہے۔
نظم کے مضمون کی نوعیت:
''ہم دیکھیں گے/لازم ہے کہ ہم دیکھیں گے'' ان لائن میں دو نوعیت کا مضمون ہے۔ ایک یہ کہ دیکھتے ہیں اللہ ظلم کو مٹانے اور انصاف قائم کرنے کا اپنا وعدہ کس طرح پورا فرماتا ہے اور دوسرے یہ کہ اللہ کا یہ وعدہ سچ ہوکر رہے گا اور ہم (یعنی انسان، نہ کہ خود فیض) اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ لیں گے۔ ''وہ دن کے جس کا وعدہ ہے/جو لوح ازل میں لکھا ہے'' یہاں وعدے کے دن سے قیامت کا دن مراد نہیں ہے اور نہ ہی لوح ازل سے محض قرا?ن مراد ہے، جیسا کہ بعض اہل قلم نے بتانے کی کوشش کی ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے قوانین فطرت میں بھی اور قوانین شریعت میں بھی اللہ کا یہ اصول اور وعدہ ہے کہ ایک دن ایسا ضرور ا?تا ہے جب ظالم بے موت مارا جاتا ہے اور مظلوم سرخ رو ہوتا ہے۔ موسیٰ وفرعون کی لمبی داستان ِ دلخراش میں ایک دن وہ بھی آیا جب فرعون غرقاب ہوا اور موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم سرخ روہوئی۔ یہی بات قرآن میں اس طرح لکھی ہے۔ جاء الحق وذہق الباطل۔ جس طرح فرعون کا غرق ہونا دنیا میں ہی ہوا ، اسی طرح یہ بھی دنیا ہی میں ہوتا ہے کہ باطل کا چراغ گل ہوتا ہے اور حق کی شمع روشن ہوتی ہے۔اس لئے ''وعدے کے دن ''سے قیامت کا دن مراد لینا درست نہیں اور'' لوح ازل ''سے قرآن ہی سمجھنا بھی غلط ہوسکتا ہے۔اس میں ابتدائے آفرینش کے معنی بھی ہوسکتے ہیں۔اسی طرح نظم میں زمین کے دھڑدھڑ دھڑکنے اور بجلی کے کڑکڑ کڑکنے کی صوتیات کی خام بنیادیں قرآنی بیانئے میں تلاش کرنا بھی دور کی کوڑی لانیکے مترادف ہے۔مگر کئی قلم کاروں نے یہ کوشش بھی کرڈالی ہے۔
تلمیحات کا استعمال:
''جب ارضِ خدا کے کعبے سے /سب بت اٹھوائے جائیں گے'' ارضِ خدا کے کعبے سے یعنی اللہ کی زمین کے قابل احترام مقامات اور ایوان سیاست سے ، جب ظالم حکمرانوں کو بے عزت کرکے نکالا جائے گا۔ بالکل اسی طرح جس طرح بیت اللہ سے بتوں کو نکالا گیا تھا۔ یہا ں تلمیحاً اْس واقعے کی طرف اشارہ ہے، جب بیت اللہ الحرام کو بتوں سے پاک کیا گیا تھا ، مگر مقصود آج کے زمانے کے ظالم حکمرانوں سے سیاست کے ایوانوں کو پاک کرنا ہے۔ اور مردودِ حرم، (سیاست کے محل اور ایوانوں سے دھتکارے ہوئے لوگ) یعنی عوام کو ایوان سیاست کی اعلیٰ مسندوں پر بٹھایا جائے گا۔آج کی دنیا میں جو دھتکارے ہوئے لوگ ہیں اور دبے کچلے انسان ہیں ، جلد ہی وہ دن بھی آئے گا جب وہ سیاسی و مذہبی محلوں اورایوانوں کی اعلی مسندوں پر جلوہ افروز ہوں گے اور یہ ہوکر رہے گا کیونکہ قدرت کے کارخانے میں ہمیشہ سے یہی ہوتا رہا ہے۔ اس نظم کا عنوان اور پھر نظم میں موجود بعض الفاظ اور تلمیھات اس کو مذہب اسلام ،اسلامی تہذیب اور پھر اسلامی بیانیے سے جوڑ دیتی ہیں۔
عنوان کے لیے تو قرآن کے الفاظ من وعن لے لیے گئے ہیں۔ اس میں منصور کے نعرے 'انا الحق' کا ذکر بھی بطور تلمیح آگیا ہے۔یہ نعرہ بھی بنیادی طور پر کسی غیراسلامی مذہب کے مخالف نہیں ہے، بلکہ اْس وقت جب یہ نعرہ حسین بن منصور حلاج کی زبان سے اداہواتھا ، اسے اسلامی توحید کے خلاف ہی سمجھا گیا تھا ، بعد میں سیاست بھی اس کے خلاف ہوگئی اور منصور کو دار پر کھینچا گیا۔ اور پھر مزید بعد کے زمانوں میں یہ نعرہ سیاست گردی کے خلاف اور غلامی کے خلاف 'انقلاب زندہ باد ' جیسا نعرہ بن گیا۔ اور فیض کی نظم میں اس نعرے کی گھن گرج نعرہ انقلاب کی گھن گرج کے ہم معنیٰ ہی ہے۔اب اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ فیض اس نعرے سے فی الواقع کیا معنیٰ سمجھتے تھے، وہ بھلے ہی منصور کو درست مانتے ہوں اور اپنے من میں 'انا الحق' کی کوئی توجیہ کرتے ہوں جیسے کہ بہت سے صوفیاء اور علماء نے کی ہے ،مگر نظم میں یہ محض عزم واستقلال اور انقلاب کے معنیٰ میں ہی ہے۔ اس میں اس عزم کا اظہار ہے کہ منصور حلاج کی طرح ہم بھی خوشی خوشی تختہ دار کو چوم لیں گے مگر اپنے دعوے سے سرمو انحراف نہ کریں گے۔
انا الحق اور انا ربکم الاعلیٰ میں فرق:
ایک جملۂ معترضہ کے طورپر یہ بھی سن لیں کہ نعرۂ اناالحق سے کوئی کچھ بھی سمجھے اور جو چاہے معانی نکالے مگر' اناالحق' فرعون کے نعرے 'انا ربکم الا علیٰ' سے بہت مختلف ہے۔ اس میں غرور اور خدائی کا دعویٰ ہے جبکہ' اناالحق' میں عاجزی اور فنا کا تصور ہے۔دونوں قلبی واردات کی سطح پر ایک دوسرے کے متضاد ہیں، ایسے ہی جیسے کفر اور ایمان ایک دوسرے کے کھلے متضاد ہیں۔ اورجس طرح کوئی فلم، ناول یا افسانہ وغیرہ جس کی زمین مذہبی علامتوں پر استوار ہو، یا اس کی کہانی مندر، مسجد، گردوارہ یا چرچ وغیرہ کے ارد گرد گھومتی ہو تو محض اس بات سے وہ افسانہ، ناول یا فلم مذہبی نہیں ہوجاتی،اسی طرح کوئی نظم، فن پارہ یا ادب مذہبی علامتوں کی وجہ سے مذہبی نہیں ہوجاتا۔انہیں اگر کوئی چیز مذہبی بناتی ہے تو وہ لفظوں ، استعاروں اور تلمیحات کا برتاوا ہے کہ ان میں معنیٰ کو کس کیف ونوع کے ساتھ برتا گیا ہے۔اگر کسی نے یہ بات نہیں جانی تو اس نے آرٹ اور ادب کو نہیں جانا۔
اس نظم کو یا اس کی کسی لائن کو ہندومخالف بتاناشعر وادب سے سراسر ناآشنائی والی بات ہے یا پھر یہ کہ سیاست چلانا مقصود ہے اور کچھ نہیں، کوئی بھی ادب وساہتیہ کا آدمی اس نظم کو ہندومخالف نہیں کہہ سکتا۔اور جبکہ یہ معلوم ہے کہ یہ نظم خود پڑوسی ملک کے حکمراں جنرل ضیاء الحق کی بعض پالیسیوں کے خلاف کہی گئی تھی ،تب تو اور بھی کوئی تْک نہیں بنتی کہ اسے ہندو مخالف بتایا جائے۔ تعجب ہے کہ پڑوسی ملک پاکستان میں جس شاعر کو ہندوستان نواز کہا گیا، آج اسی کے چند بول ہندو مخالف قرار دئے جارہے ہیں۔اس نظم سے ایک زمانے میں پاکستان کی حکومت خوف کھاتی تھی اور آج ہندوستان کی حکومت کو اسی نظم سے ڈر ستارہا ہے۔ سیاسی اکھاڑوں کے پہلوان بھی کتنے بہادر ہوتے ہیں، کہ لفظ وصوت کی گھن گرج سے ڈرجاتے ہیں ، حالانکہ ان کے اپنے پاس توپوں ، میزائیلوں اور ٹینکوں کی گڑگڑاہٹ ہوتی ہے اور پھر بھی وہ کمزور اور سریلی آوازوں سے خوف کھاتے ہیں۔ کیا یہ اپنے آپ میں کچھ کم تعجب خیز بات ہے۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...