Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > مباحث > اردو تنقید کے بنیاد گزار (الطاف حسین حالی)

مباحث |
حسنِ ادب
مباحث

اردو تنقید کے بنیاد گزار (الطاف حسین حالی)
ARI Id

1689956600868_56117488

Access

Open/Free Access

Pages

۲۹۲

اردو تنقید کے بنیاد گزار(مولانا الطاف حسین حالی)
اگرچہ کچھ تذکروںمیں تنقید کے ابتدائی نقوش ضرور ملتے ہیں لیکن اردو تنقید کے پہلے باقاعدہ نقاد مولانا الطاف حسین حالی ہیں۔میر تقی میر کا تذکرہ "ننکات الشعراء "پہلا تذکرہ ہے جو فارسی زبان میں لکھا ہے۔ اس سلسلے کی آخری کڑی مولانا محمد حسین آزادکی کتاب"آب حیات"ہے۔ جس کو تنقید اور تذکرے کی درمیانی شکل کہا گیا ہے۔
حالی وہ شخصیت ہیں کہ جنہوں نے اردو تنقید کے باقاعدہ اصول مقرر کیے۔۱۸۹۲ئمیں "دیوان حالی" شائع ہو ا تو اس میں مولانا کا ایک طویل مضمون بھی شامل تھا۔ اس مضمون میں شاعری کے اصولوں پر بات کی گئی اور بتایا گیا تھا کہ شاعری کس کو کہتے ہیں اور یہ کیسے ہوتی ہے۔یہی مضمون بعد میں علیحدہ" مقدمہ شعر و شاعری "کے نام سے شائع ہوا۔اور اردو تنقید کی پہلی کتاب قرار پایا۔اس کتاب کو جہاں اردو میں اہم مقام حاصل ہے۔وہاں پہ مولانا الطاف حسین حالی ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے۔جیسے ہیر کو زندگی وارث شاہ نے دی اور وارث شاہ ہیر کی وجہ سے مشہور ہو گئے تو تنقید میں پہلا باقاعدہ نقاد الطاف حسین حالی کو مانا جاتا ہے اور ان کی کتاب "مقدمہ شعر وشاعری "کوتنقید کے حوالیسے پہلا کام تصور کیا جاتا ہے۔جب تک تنقید کا نام ہے الطاف حسین حالی کو معمار اول سمجھا جائے گا۔جب مقدمہ شعر وشاعری شائع ہوا تو اس کی مخالفت میں ہر طرف طوفان کھڑے ہوگئے۔ہر آدمہ مخالفت کرنے لگا۔حالی کو "خیالی" اور "ڈفالی" جیسے ناموں سے پکارا گیا۔ مگر کہتے ہیں کہ زمانہ سب سے بڑا منصف ہے۔جب طوفان تھما تو سب کو یہ ماننا پڑا کہ حالی اردو کے پہلے باضابطہ تنقید نگار ہیں اور انہوں نے جو کچھ لکھا ہے صحیح لکھا ہے۔
اس لحاظ سے مقدمہ شعر وشاعری اردو تنقید کی پہلی باضابطہ کتاب ٹھہری۔یہ کتاب دوحصوں میں تقسیم کی گئی ہے۔اس کے پہلے حصے میں شاعری کے اصول بیان کیے گئے ہیں اور دوسرے حصے میں عملی تنقید ہے۔عملی تنقید سے مراد یہ ہے کہ حالی نے بتایا ہے کہ قصیدہ کیسے لکھنا ہے۔مثنوی کیسے لکھنی ہے نیز مرثیہ کا تنقید ی جائزہ لیا گیا ہے وغیرہ۔
مولانا حالی شعرو ادب کو محض مسرت حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں سمجھتے تھے بلکہ وہ شاعری کی مقصدیت کے قائل تھے۔ وہ کہتے تھے کہ شاعری ایسی ہو کہ اس کے پیچھے کوئی مقصد ہو۔وہ شاعری کی تاثیر سے فائدہ اٹھانا جانتے تھے۔وہ کہتے تھے کہ شاعری زندگی کو بہتر بنانے میں مددگار ہوسکتی ہے اور دنیا میں اس سے بڑے بڑے کام لیے گئے ہیں اور لیے جا سکتے ہیں۔حالی کے ان خیالات سے بہت سے لوگوں نے اختلاف کیا اور کہاہے کہ شاعری کا کام تو صرف لطف اندوزی ہے۔اس سے زندگی کو بہتر بنانے اور اخلاق کو سدھارنے کا کام لینا ایسے ہی ہے جیسے ہرن پر گھاس لادنا۔
عمدہ شاعری کے اصول و ضوابط کے حوالے سے حالی کی یہ رائے ہے کہاشاعر میں تین چیزیں ضروری ہیں:
• تخیل
• مطالعہ کائنات
• الفاظ کا چناؤ
شاعری کے لیے سب سے پہلے ذہن میں کسی بات کے حوالے سے تصور موجود ہو پھر جو بات ذہن میں آئی ہو اس کو ذہن میں رکھ کر کائنات کا مطالعہ کریں۔دیکھیں اورپھربیان کرنے کے لیے موثر ، جامع اور جاندار الفاظ کا چناؤ کریں۔حالی نے کہا کہ وزن اور قافیہ شاعری کے لیے ضروری نہیں ہیں مگر اگر وزن کی بات کی جائے اور قافیے کا خیال رکھا جائے تو اس میں خوب صورتی پیدا ہوتی ہے اور قاری دلچسپی سے پڑھتا ہے۔دوسرے حصے میں حالی نے شاعری کی اہم اصناف کے بارے میں اظہار خیال کیا۔مولانا حالی مثنوی کو شاعری کی سب سے اہم اور مفید صنف سمجھتے تھے۔وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس میں بات جس انداز، فصاحت سے کی جا سکتی ہے کسی دوسری صنف شاعری میں نہیں کی جا سکتی۔
حالی مثنوی کے علاوہ اردو مرثیہ کے بھی قدردان ہیں اور ان کا خیال ہے کہ مرثیہ نے اردو شاعری کادامن وسیع کیا ہے۔ قصیدے کو حالی پسند نہیں کرتے تھے کیونکہ اس میں جھوٹ ہوتا ہے، خوشامد ہوتی ہے۔ وہ قصیدہ پڑھتے یالکھتے ہیں ان کے پیش نظر انعام یا مالی مفادہوتا ہے۔غزل کی مقبولیت کا حالی نے اعتراف کیا ہے مگر اس میں بھی انہیں بہت سی خرابیاں نظر آئیں۔وہ یہ کہتے ہیں کہ غزل اچھی چیز ہے مگر اس میں کچھ چیزیں ایسی ہیں کہ جنھیں دور کرنا چاہیے۔غزل پہ مولانا الطاف حسین حالی نے جو اعتراض اٹھائے وہ توجہ طلب ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ:
"غزل میں عشق و عاشقی کے سوا کچھ نہیں اور یہ عشق بھی فرضی ہے۔کسی نے عشق نہیں بھی کیا ہو تو بھی وہ عشق کا دعوی کرتا ہے۔"
الٹی ہی چال چلتے ہیں دیوان گان عشق
آنکھوں کو بند کرلیتے ہیں دیدار کے لیے
اس کے علاوہ شراب، ساقی ،جام اس طرح کی چیزیں ہیں جنھیں پڑھنے کے بعد پڑھنے والا برائی کی طرف مائل ہوجاتا ہے۔اس کے علاوہ سب سے قابل اعتراض جو حالی کو لگتی ہے وہ کہتے ہیں کہ غزل میں محبوب کا مرد ہونا باعث شرم ہے اور ہمارے ہاں آج تک یہی روایت چل رہی ہے کہ اگرکوئی شاعر یہ کہے کہ وہ اتنا خوب صورت ہے کہ میں اس پہ مرتی ہوں تو اس میں بھی یہ ہمت نہیں۔ کوئی مرد شاعر یہ نہیں کہے گا کہ میری محبوبہ ایسی ہے وہ کہے گا :
میرے محبوب قیامت ہو گی
آج رسوا تیری گلیوں میں محبت ہوگی
حالی اردو تنقید کے معمار اول ہیں اور انہوں نے جو کچھ اردو تنقید کے لیے کیا وہ یقینا لائق تحسین ہے۔ حالی کو اس حوالے سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔جہاں تک ذاتی مطالعی کے حوالے سے بات ہے تو حالی کو مشرقی علوم ادب پر تو عبور حاصل تھا مگر مغربی ادب سے ناواقف تھے۔ مگر انہوں نے مغربی تہذیب کا مطالعہ کرنے کے لیے کسی سے ترجمہ کروا کے سنا یا جیسے بھی فائدہ اٹھایا۔خدا نے ان کو اتنی صلاحیت دی تھی کہ وہ ترجمہ سن کر اس میں صحیح نتیجہ اخذ کرلیتے تھے اور یہی وجہ تھی کہ محنت اور غوروفکر کے علاوہ کام کرنے کی دھن نے مولانا حالی کو بہت بڑا نقاد بنا دیا۔مولانا الطاف حسین حالی اردو ادب میں وہ کارنامہ سرانجام دے گئے کہ جب تک اردو تنقید ادب زندہ رہے گا ان کا نام بھی زندہ رہے گا۔ان کی کتاب "مقدمہ شعر و شاعری " بھی ہمیشہ زندہ رہیگی اور ہمیشہ لوگ کہتے رہیں گے کہ وہ بھی اردوتنقید کی پہلی کتاب ہے۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...