Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > مباحث > اردو تنقید کے بنیاد گزار (محمد حسن عسکری)

مباحث |
حسنِ ادب
مباحث

اردو تنقید کے بنیاد گزار (محمد حسن عسکری)
ARI Id

1689956600868_56117490

Access

Open/Free Access

Pages

۲۹۷

اردو تنقید کے بنیاد گزار(محمد حسن عسکری)
محمد حسن عسکری کی ادبی زندگی کا آغاز۱۹۳۹ء میں ہوا اور جنوری ۱۹۷۸ء میں اپنے انتقال سے دو روز قبل تک مسلسل لکھتے رہے تھے،ان کی ابتدائی شہرت افسانہ نگار کی تھی۔مگر اپنے پہلے افسانوی مجموعہ"جزیرے"(۱۹۴۳ئ)اس کے اختتامیے پر جو کچ لکھا ،آج بھی ناصرف فکشن بلکہ زندگی،ادب، ثقافت اور مشرق و مغرب کے تہذیبی امتیازکے بارے میں ان کے پختہ تنقیدی شعورکا ایک بے مثال نمونہ ہے۔
محمد حسن عسکری کئی حیثیتوں کیمالک ہیںمگر سب سے زیادہ اہمیت ان کی تنقید نگاری کو حاصل ہے تاہم ان کی تنقید جتنی توجہ کی مستحق تھی اس سیمحروم رہی۔شاید اس کا سبب ان کا تیکھا طنزیہ آمیز انداز بیان ہے کہ اس کی زد سے کم ہی مصنف بچے ہوں گے۔ایک اور سبب یہ کہ ان نقطہ نظر میں جو تبدیلی آئی اسے لوگوں نے مصلحت اور خود غرضی ٹھہرایا اور ان سے بے نیازی کا رویہ اختیار کرلیا۔
ان کا مطالعہ بہت وسیع تھامگر ادب کے سلسلے میں ان کے نظریات مستعارلیے ہوئے نہیں بلکہ ان کے اپنے تھے اور مسلسل غوروفکر کا نتیجہ تھے۔ یہ غوروفکر بھی جاری رہا اور مطالعہ بھی اس لیے ان کے خیالات میں مسلسل تبدیلی آتی رہی۔وہ انگریزی ادب کے معلم تھے بطور خاص انھیں انگریزی ادب کا مطالعہ کرنے کا موقع ملا مگروہانگریزی ادب سے مرعوب نہیں ہوئے۔انہوں نے فرانسیسی زبان بھی سیکھی اور اہم تصانیف تک رسائی حاصل کی۔جس زمانے میں وہ انگریزی اور فرانسیسی ادب کے مطالعے میں منہمک تھے، ان کا نقطہ نظر یہ تھا:
"ساری انسانیت ہمیشہ سے ایک ہے اور ایک رہے گی۔ اس لیے مشرق اور مغرب کے درمیان کوئی فرق نہیں۔سائنس نے سارے فرق مٹا دیے ہیں اور انسانیت کوایک خاندان بنادیا ہے۔اس لیے مشرق اور مغرب کے فرق پر غور کرنا بے معنی ہے۔"
شروع میں ان کا خیال یہی تھا کہ ساری دنیا کا ادب ایک ہی ہے اور ادب میں ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنانے کا سوال پیدا نہیں ہوتا لیکن آخرکار انھیں مشرقی تہذیب کی فضیلت کا احساس ہوا اور وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ انگریزی تہذیب کھوکھلی اور انگریزی ادب خامیوں سے پر ہے۔ ان کا جھکاؤ فرانسیسی ادب کی طرف ہوتا گیا۔لیکن ان کا ذہنی سفر یہاں ختم نہیں ہوا اور ان کا دل بتدریج مشرق کی طرف کھنچتا گیا۔ آگے چل کر مغرب کے بارے میں انھوں نے یہاں تک کہا کہ:
’’اگر ہمیں دنیا کے ادب میں اپنی جگہ بنانی ہے تو دنیا ہم سے وہ مانگے گی جو صرف ایک ہندوستانی دے سکتاہے۔‘‘
غرض انھیں مشرقی ادبیات کا افق وسیع تر لگا اور ان کے قدم اس طرف بڑھتے گئے۔پھر یہ خیال ان کے دل میں جاگزیں ہوگیا اور ایک مفکر کی رائے سے تقویت پاکر انھوں نے اعلان کردیا کہ
"اگرمغرب میں اگر کوئی جاندار ادب پیدا ہوا تو وہ انسانوں کے باہمی تعلقات کے بارے میں نہیں ہوگا بلکہ انسان اور خدا کے باہمی رشتے کے بارے میں ہوگا"
اس کے بعد وہ مکمل طور پر اسلام کی جانب راغب ہوگئے۔اب انھون نے سارے مسئلوں کا حل اور سارے سوالوں کا جواب ڈھونڈ لیا تھا۔اس منزل تک پہنچنے میں انھیں رینے گینوں کے افکار سے بہت مدد ملی تھی۔عسکری کے نظام تنقید میں تہذیب کو مرکزیت حاصل ہے۔وہ مشرقی تہذیب کی برتری کے قائل تھے اور ادب میں اس کی کارفرمائی کو بہت اہمیت دیتے تھے۔تہذیب کے علاوہ علم نفسیات کو بھی اہمیت دیتے تھے۔خاص طور پر ابتدائی زمانے میں لیکن ادب کو کسی ایک زاویے سے دیکھنے اور کسی ایک کسوٹی پر پرکھنے کے وہ قائل نہیں تھے۔
محمد حسن عسکری نہ محقق ہونے کے دعویدار ہیں نہ ناقد اور نہ وہ اپنے انسانوں کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔انھیں ناز ہے تو اپنے انداز بیان پر۔وہ جانتے ہیں کہ بات کہنے کا انھیں ایساہنر آتا ہے کہ کوئی ان کے مضمون کو شروع کردے تو آخر تک پڑھنے پر مجبور ہوتا ہے۔وہ معلم بھی رہے۔شاید خیال کی وضاحت کا فن ان کی تحریروں میں اس راستے میں داخل ہوا۔وہ پیچیدہ سیپیچیدہ مسائل کو سیدھے سادے لفظوں میں بیان کرنے میں بڑی مہارت رکھتے ہیں۔اردو تنقید محمدحسن عسکری کونظر انداز نہیں کرسکتی۔خاص طور پر ان کی دوکتابوںکا مطالعہ ادب کے طالب علم کے لیے مفید ہوگا۔یہ ہیں:انسان اور آدمی، ستارہ یا بادبان۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...