Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > مباحث > اردو کے اہم مدونین ( مسعود حسین رضوی ادیب)

مباحث |
حسنِ ادب
مباحث

اردو کے اہم مدونین ( مسعود حسین رضوی ادیب)
ARI Id

1689956600868_56117492

Access

Open/Free Access

Pages

۳۰۱

اردو کے اہم مدونین
(پروفیسر سید مسعودحسن رضوی ادیب)
سید مسعود حسن ادیب اردو کے بہت بڑے محقق تسلیم کیے جاتے ہیں۔ آپ کی پیدائش ۹ جولائی۱۸۹۳ء ہوئی۔آپ کی تحقیق طرح طرح کے موضوعات پر محیط ہے۔ انہوں نے فائز، میر، غالب اور انیس سے متعلق اہم ، معتبر اور کارآمد معلومات فراہم کیں، مرثیے کی تاریخ کی طرف توجہ کی اور اس کے مواد کی جمع آوری کا مشکل مرحلہ سرکیا، مرثیوں کی تخلیق کے زمانوں اور ان کے متون کی صحیح ترین صورتوں سے واقف کرایا۔ اردو ڈرامے کی ابتدا کے زمانے کا تعین کیا اور اودھ میں اردو ڈرامے کی بنا اور اس کے ارتقا کا تفصیل سے جائزہ لیا۔ اودھ بالخصوص لکھنئو کی تہذیب و ثقافت ، یہاں کے علوم و فنون اور یہاں کے تہذیبی اور ادبی محرکات کا اس حد تک مطالعہ کیا کہ انہیں لکھنویات کا ماہر کہا جانے لگا۔
آپ کی پہلی تالیف کے وقت آپ کی عمر تیرہ سال تھی۔مالی اور مادی وسائل کے اعتبار سے ادیب پر طالب علمی کا یہ دور بہت سخت گزر رہا تھا۔مڈل پاس کرنے کے بعد مزید تعلیم کے لیے ادیب ۱۹۰۸ئمیں ادیب لکھنئو آگئے۔ لکھنئو کی طالب علمی کے اس دور نے ایک طرف ادیب کی ادبی زندگی کو جلا بخشی ، دوسری طرف ان کو اس مٹتے ہوئے شہر اور اس کی ختم ہوتی ہوئی ادبی اور تہذیبی روایات نے مسحور کرنا شروع کردیا۔
سنہ 1915ء سے 1917ء تک وہ کیننگ کالج کے طالب علم رہے اور اس کے بورڈنگ ہاؤس کے ساتھیوں میں علی عباس حسینی اور مرزا حامد حسین وغیرہ ادب کے مطالعے میں غرق رہتے تھے۔ ان میں ادبی موضوعات پر گرما گرم بحثیں ہو تی تھیں۔ جن میں مرزا محمد ہادی رسوا، مولانا بے خود موہانی اور مرزا یاس یگانہ چنگیزی شریک ہو تے تھے۔ ان اہل قلم نے ادیب کے ذہن کو وسعت دی۔ بی اے پاس کرنے کے بعد ادیب نے ریاستی حکومت کے محکمہ? تعلیم میں ملازمت اختیار کر لی اور ملازمت کے دوران میں ہی انہوں نے پہلی کتاب سنہ 1920’’امتحان وفا‘‘ شائع کی جو لارڈ ٹینی سن کے ایک منظوم انگریزی قصے اینوک آرڈن (Enoch Arden) کا اردو نثر میں ترجمہ ہے۔ انہوں نے گولڈ اسمتھ کی نظموں کا بھی اردو میں ترجمہ کیا تھا۔ سنہ 1922میں وہ لکھنئو یونیورسٹی میں اردو کے لکچرر ہوئے اور اس کے بعد وہیں سے سبک دوش ہوئے۔ انہیں کتابیں جمع کرنے کا بے حد شوق تھا اور اس شوق نے ہی ان کے گھر کو ایک لائبریری میں تبدیل کر دیا۔
۱۹۲۳ء میں ادیب لکھنئو یونیورسٹی میں لیکچرار اور پھر چند سال کے اندر شعبہ فارسی و اردو کے صدر مقرر ہوگئے۔اب تصنیف و تالیف کا شوق ان کا منصبی فرض بن گیا۔رفتہ رفتہ ان کے پاس قدیم نادر اور کمیاب کتابوں اور مخطوطوں کا ایسا ذخیرہ جمع ہو گیا جس کا شمار ملک کے اہم کتب خانوں میں ہونے لگا۔
ذاتی کتب خانے، یونیورسٹی کی معلمی، ادبی تخلیقات اور سنجیدہ مگر خوش گوار شخصیت کی وجہ سے ادیب کا حلقہ احباب تیزی سے وسیع ہو ا۔قدیم کتابوں کے شغف نے ادیب کی ادبی سرگرمیوں کا رخ تنقید سے تحقیق کی جانب کردیا جس کا اثر ان کے نثری اسلوب پر بھی پڑا۔تحقیق کی جانب رجوع ہونے کے بعد سیا نہوں نے سادہ اور متین اسلوب اختیار کر لیا تھا جس میں ان کی فطری طباعی کی وجہ سے خشکی پیدا نہیں ہونے پاتی تھی بلکہ ایک شگفتگی اور تخلیقی شان موجود رہتی تھی۔
مسعود حسن رضوی تحقیق کی اہمیت اور اس کے وقار و اعتبار کو اچھی طرح سمجھتے تھے۔وہ جانتے تھے کہ مطلوبہ اور متعلقہ مواد کو جمع کس طرح کیا جاتا ہے، اس کی ترتیب و تنظیم کا طریقہ کیا ہے، صحیح ماخذ تک پہنچنے اور متن کی صحیح صورت کو سامنے لانے کے لیے کتنی محنت اور مہارت کی ضرورت ہے، ناقص یا نامکمل متن کی تصحیح کے اصول و آداب کیا ہیں۔نیز دوسرے کی تحقیق پر شک کرنے اور اپنی دریافت کو درست بتانے کا استدلالی طریقہ کیا ہے۔
مسعود حسین رضوی ادیب 60برسوں تک لکھتے پڑھتے رہے اور مضامین نو کے انبار لگا دیے۔ اس نابغہ روزگار شخصیت کا 29نومبر سنہ 1975ء کو لکھنئو میں کتابوں کے اس ذخیرے میں ہی انتقال ہوا جہاں بیٹھ کو وہ لکھا پڑھا کرتے تھے۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...