Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > مباحث > اردو کے اہم مدونین (ڈاکٹر جمیل جالبی)

مباحث |
حسنِ ادب
مباحث

اردو کے اہم مدونین (ڈاکٹر جمیل جالبی)
ARI Id

1689956600868_56117495

Access

Open/Free Access

Pages

۳۰۷

اردو کے اہم مدونین (ڈاکٹرجمیل جالبی)
ڈاکٹرجمیل جالبی کثیرالجہات ادبی شخصیت کے مالک ہیں، ان کی خدادادصلاحیتوںکاحلقہ ادب معترف ہے۔ کوئی انھیںماہردکنیات کہتاہے توکوئی نابغہ روزگارادیب، صاحب اسلوب نقدنگار،کوئی تاریخ سازتوکوئی نئی جہات تنقیدکاحامل قراردیتاہے۔
پیدائش وخاندانی پس منظر:
ڈاکٹرجمیل جالبی یکم جولائی، 1929ء کوعلی گڑھ، برطانوی ہندوستان میںایک تعلیم یافتہ گھرانے میںپیداہوئے۔ ان کااصل نام محمدجمیل خان ہے۔ ان کے آبائواجداد یوسفزئی پٹھان ہیں۔ اٹھارویںصدی میںسوات سے ہجرت کرکے ہندوستان میںآبادہوئے۔ ڈاکٹرجمیل جالبی کے والدکانام محمدابراہیم خاںہے۔ ڈاکٹرجمیل جالبی نے جس ماحول میںآنکھ کھولی وہ خالص ادبی تھا۔ لہٰذابچپن ہی سے ان میںادبی ذوق پیداہوااوران کی تخلیقی سرگرمیاںشروع ہوگئیں۔ابتدامیںانگریزی اوراردوزبان میںشاعری کی مگرجلدہی یہ شوق معدوم ہو گیاپھرآپ نے کہانیاںلکھناشروع کیں۔ آپ کی سب سے پہلی تخلیق ’’سکندراورڈاکو’’ تھی جوانھوںنے گیارہ سال کی عمرمیںلکھی۔ڈاکٹر جمیل جالبی نے 89 سال 10 ماہ 6 دن کی عمر میں 18 اپریل 2019ء کو کراچی میں وفات پائی۔
خراج تحسین:
پروفیسرڈاکٹرغلام مصطفی خان کے مطابق :
"ڈاکٹرجمیل جالبی نے اسقدراچھاعلمی کام کیاکہ بڑے بڑے پختہ کارادیبوںاورمحققوںکوان پررشک آتاہے۔"
مایہ نازنقادڈاکٹرعباد ت بریلوی ڈاکٹرجمیل جالبی کے فن پراسطر ح روشنی ڈالتے ہیں:
"جالبی صاحب کی تحقیق میںبھی ایک تخلیقی رنگ وآہنگ پایاجاتاہے۔یہ اندازاردوکے بہت کم محققوںکونصیب ہواہے۔"
تعلیم:
ڈاکٹرجمیل جالبی نے ہندوستان،پاکستان کے مختلف شہروںمیںتعلیم حاصل کی۔ ابتدائی تعلیم علیگڑھ میںہوئی۔ 1943ء میںگورنمنٹ ہائی اسکول سہارنپورسے میٹرک کیا۔میرٹھ کالج سے 1945ء میںانٹراور1947میں میںبی ۔اے کی ڈگری حاصل کی۔ کالج کی تعلیم کے دوران جالبی صاحب کوڈاکٹرشوکت سبزواری، پروفیسرغیوراحمد رزمی اورپروفیسرکرارحسین ایسے استادملے جنہوںنے انکی ادبی صلاحیتوںکواجاگرکیا۔
پاکستان میں منتقلی:
تقسیم ہندکے بعد 1947ء میں ڈاکٹر جمیل جالبی اورانکے بھائی عقیل پاکستان آگئے اورکراچی میںمستقل سکونت اختیارکرلی۔ یہاں انکے والدصاحب ہندوستان سے ان دونوںبھائیوںکے تعلیمی اخراجات کے لیے رقم بھیجتے رہے۔
ملازمت:
بعدازاںجمیل جالبی کوبہادریارجنگ ہائی اسکول میںہیڈماسٹرکی پیشکش ہوئی جسے انہوںنے قبول کرلیا۔ جمیل صاحب نے ملازمت کے دوران ہی ایم اے اورایل ایل بی کے امتحانات پاس کرلیے۔ اس کے بعد 1973 میں سندھ یونیورسٹی سے ڈاکٹرغلام مصطفی خان کی نگرانی میںقدیم اُردوادب پرمقالہ لکھ کرپی ایچ ڈی اور 1978ء میں’’ مثنو ی کدم راؤپدم راؤ’’ پرڈی لٹ کی ڈگریاںحاصل کیں۔
سی ایس ایس کا امتحان:
بعدازاںسی ایس ایس کے امتحان میںشریک ہوئے اورکامیاب ہوگئے۔ ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعدباقاعدہ طورپرادبی سرگرمیوںمیںمصروف ہوئے۔ قبل ازیںانہوں نے ماہنامہ ساقی’’ میںمعاون مدیرکے طورپرخدما ت سرانجام دیں۔اس کے علاوہ انہوںنے اپناایک سہ ماہی رسالہ’’ نیادوربھی جاری کیا۔
تصنیف وتالیف وترجمہ:
ان کی شائع ہونے والی سب سے پہلی کتاب جنورس نتھی جوجارجا رول کے ناول کاترجمہ تھا۔ ڈاکٹرجمیل جالبی نے متعددانگریزی کتابوںکے تراجم بھی کیے جن میںجانورستان، ایلیٹ کے مضامین، ارسطوسے ایلیٹ تک شامل ہیں۔ آپ کی دیگر اہم کتب میںپاکستانی کلچر:قومی کلچرکی تشکیل کامسئلہ،تاریخ ادب اردو،ادب کلچر اور مسائل،مثنوی کدم راؤ پدم راؤ،دیوان حسن شوقی،دیوان نصرتی ،قدیم اردو کی لغت و دیگر شامل ہیں۔
تعلیمی وادبی اداروںکیسربراہی:
ڈاکٹرجمیل جالبی 1983ء میںکراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلراور 1987ء میںمقتدرہ قومی زبان (موجودہ بنام ادارہ فروغ قومی زبان) کے چیئرمین تعینات ہوئے۔اس کے علاوہ آپ 1990ء سے 1997ء تک اردولغت بورڈکے سربراہ بھی مقررہوئے۔
ادبی خدمات:
ان کاپہلااہم تحقیقی کام 1971ء میں ’’دیوان حسن شوقی‘‘ کی تدوین تھااس کے بعدجالبی صاحب نے’’ دیوان نصرتی‘‘1972 میں مرتب کی یہ ایک لحاظ سے نودریافت ادبی نادرکی حیثیت رکھتاہے پھراس کے کچھ عرصے بعد1973 میں ایک معرکہ آراتحقیق پیش کی۔ جسنے اردوتحقیق کی تاریخ میںبعض نئے رہنمااصول مرتب کیے اورمحققین اورمدونین نے اسے تدوین متن اورتصحیح متن کامثالی نمونہ قراردیا۔ ہماری مرادنظامی کی مثنوی’’کدم راؤپدم راؤ‘‘ ہے ۔ جالبی صاحب نے یہ مثنوی مرتب کرکے بلاشبہ ایک عہدآفریںتحقیقی کارنامہ انجام دیاہے ۔اس قسم کے تحقیقی کاموںکے لیے جس تنقیدی شعور، صحیح محنت، اورذہانت کی ضرورت ہوتی ہے۔ جالبی صاحب میںبدرجہ اتم موجودہے جمیل صاحب نے اس مثنوی پرتقریباسات برس کام کیا۔
جس کی تدوین نے بلاشبہ دنیاتحقیق کوچونکادیاتھا۔ یہ تینوںکام اہل تحقیق سے دادپاچکے توجالبی صاحب کی محنت اورجانکاہی کانچوڑتاریخ ادباردو’’ کی تین جلدوںکی صورت میںمنظرعام پرآیاجس میںاردوزبان سے اٹھارہویںصدی عیسوی تک کہ اردوادب تاریخی تواتراورتحقیق کی تفحص کے ساتھ متعارف کرایاگیا۔ جمیل جالبی صاحب نے تدوین کے جدیداصولوںکوہمیشہ مدنظررکھاڈاکٹرجمیل جالبی کاطریقہ تحقیق تھاکہ وہ پہلے نئے موضوع کی دریافت کرتے دریافت شدہ متن کی تصحیح اورجانچ پرکھ کی شخصیت کاتعین یعنی سوانحی تفصیلات کی فراہمی کرتے زمانہ تصنیف حالات مصنف موضوع املااورلسانی خصوصیات ہمیشہ انکے پیش نظررہیں۔ ڈاکٹرجمیل جالبی نے اردوتحقیق وتدوین میںمحنت،لگن،عمیق مطالعہ اورمنطقی فکرکی جوروایت قائم کی ہے اس پراردوتحقیق اورتدوین کی عمار ت کوخوش اسلوبی سے استواراوربلندوبالاکیاجاسکتاہے۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...