1689956600868_56117497
Open/Free Access
۳۱۳
ناصر کاظمی
ناصر کاظمی کا اصل نام سید ناصر رضا کاظمی تھا۔ ان کی ولادت 8 دسمبر 1925ء جبکہ وفات 2 مارچ 1972ء کو ہوئی۔گئے دنوں کا سراغ لیکر کدھر سے آیا، کدھر گیا وہ، عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کرگیا وہ ،جیسے ہزاروں اشعار کے خالق اردوغزل کے رجحان ساز شاعر (۵۲۹۱ - ۲۷۹۱) ناصر رضا کاظمی انبالہ (پنجاب) میں پیدا ہوئے ان کا پورا نام سید ناصر رضا کاظمی تھا۔ ابتدائی تعلیم انبالہ میں ہوئی۔ اس کے بعد اسلامیہ کالج لاہور میں زیر تعلیم رہے۔ اعلیٰ تعلیم کی تکمیل نہ ہو سکی۔۔ ۱۹۴۷ میں تقسیم ہند کے بعد لاہور میں سکونت اختیار کی۔ ناصر کاظمی نے 1939ء میں صرف سولہ سال کی عمرمیں لاہور ریڈیو کے ساتھ بطور اسکرپٹ رائٹر منسلک ہو ئے اور پھر آخری وقت تک کسی نہ کسی صورت ریڈیوپاکستان کے ساتھ منسلک رہے۔اسکے علاوہ وہ مختلف ادبی جریدوں، اوراق نو، ہمایوں اور خیال کے مدیر بھی رہے۔شعر گوئی کا آغاز جوانی میں ہو گیا تھا۔ شاعری کے علاوہ موسیقی سے بھی گہری دلچسپی تھی۔
ناصر کاظمی نے اپنی تخلیقی زندگی کی ابتداء تیرہ برس کی عمر میں کی اور ابتداء میں اس زمانے کے معروف شاعر اخترشیرانی سے متاثرہوکر رومانوی نظمیں اور پھر غزلیں کہیں۔اور میر تقی میر کو اپنا مرشد سمجھا یہی وجہ ہے کہ شاعری میں میر تقی میر کی شاعری کا عکس نظر آتا ہے۔
قیام پاکستان کے بعد ان کے اشعار کی مہک گوشے گوشے میں پھیل گئی اور پاکستان کو ناصر کاظمی کے روپ میں ایک نیا شاعر نصیب ہوا۔ ناصر کاظمی نے پیروی میر کرتے ہوئے اپنے سادہ اسلوب ،قادرالکلامی ،ندرت خیال، سچے جذبوں اور احساسات کی بدولت اردو غزل کا دامن ایسے ایسے تابدار موتیوں سے بھر دیا ہے کہ اردو ادب کی تاریخ میں امر ہو گئے۔کپڑے بدل کر جاؤں کہاں، دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا، دل میں اک لہر سے اٹھی ہے ابھی، نیت شوق بھر نہ جائے کہیں، جیسی غزلیں ظاہر کرتی ہیں کہ جذبے کی شدت،اظہار کی سادگی اور تصویری پیکر سازی ان کی شاعری کے بنیادی عناصر ہیں۔
ناصر کاظمی، حفیظ ہوشیارپوری (۱۹۱۲ تا ۱۹۷۳) کے شاگردوں میں تھے۔ناصر کاظمی جدید غزل کے اولین معماروں میں ہیں۔ چند مضامین لکھے اور نظمیں بھی لکھیں لیکن ان کی شناخت غزل کے حوالے سے قائم ہے جس میں کیفیت، روانی اور لہجے کی نرمی کا بڑا دخل ہے۔
پہلا مجموعہ "برگ نے" (اشاعت اول ۱۹۵۵) ان کی زندگی میں شائع ہوا۔ اس میں ۱۹۴۶ -۱۹۴۷ تک کا کلام شامل ہے۔ دوسرے دو مجموعے "دیوان" (اشاعت اول ۱۹۷۲ئ) اور "پہلی بارش" (اشاعت اول۱۹۷۵ئ) ان کی وفات کے بعد سامنے آئے۔ یہ مجموعے صرف غزلوں پر مشتمل ہیں اور دراصل یہی وہ کلام ہے جس کی بنیاد پر ناصر کاظمی کے مقام و مرتبے کا تعین ہوتا ہے۔ تیسرے مجموعہ "پہلی بارش" کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس کی تمام غزلیں ایک ہی زمین میں ہیں۔ناصر کاظمی کی وفات کے بعد ان کی مزید تین کتابیں منظر عام پر آئیں۔ پہلی "سْر کی چھایا" ایک طویل نظم ہے جسے خود شاعر نے کتھا کہا ہے۔ دوسرے "نشاط خواب" جس میں ریڈیو کے لیے کہی گئی نظمیں شامل ہیں۔ تیسرے کتاب نثر کی ہے "خشک چشمے کے کنارے" (اشاعت اول ۱۹۸۲) جس میں ناصر کاظمی کے مضامین شامل ہیں۔ انھوں نے تین ادبی رسائل "اوراق نو"، "خیال" اور "ہمایوں" جو لاہور سے شائع ہوتے تھے، ان کی ادارت بھی کی۔
ناصر کاظمی نے اپنی وفات سے چند دن قبل ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ مجھے گھڑسواری، جانوروں، پرندوں کا شکار، دیہاتی اور پہاڑی علاقوں کی سیر، دریا کنارے بیٹھنا بہت پسند ہے اور فطرت کے ان مناظر کو میں اپنی شاعری کا رنگ دیتا ہوں۔
ان کی تصانیف میں :دیوان، برگ نئے،دیوانہ، پہلی بارش، نصیحت خواب،سر کی چھایا، خشک چشمے کے کنارے، انتخاب میر، انتخاب نذیر اور انتخاب انشاء شامل ہیں۔ ناصر کاظمی نے 2 مارچ 1972ء کو معدہ کے کینسر کی وجہ سے وفات پائی، تاہم انکی شہرت میں روزبروز اضافہ ہورہا ہے۔خود انکے اپنے الفاظ میں:
ڈھونڈیں گے لوگ مجھ کو ہر محفل سخن میں
ہر دور کی غزل میں میرا نشان ملے گا
ناصر کاظمی کی غزل میں دکھ کی ہلکی سی سلگتی ہوئی آنچ نظر آتی ہے۔ دکھ میں چلبلاہٹ ہوتی ہے غصہ ہوتا ہے لیکن ناصر کے ہاں یہ چیزیں نہیں بلکہ دبی دبی کیفیت موجود ہے جو کہ میر کا خاصہ ہے۔ لیکن ناصر میر کی تقلید نہیں کرتا بلکہ صرف متاثر نظرآتے ہیں۔ ناصر نے جو دکھ بیان کیے ہیں وہ سارے دکھ ہمارے جدید دور کے دکھ ہیں ناصر نے استعارے لفظیات کے پیمانے عشقیہ رکھے لیکن اس کے باطن میں اسے ہم آسانی سے محسوس کرسکتے ہیں۔ محض عشق نہیں بلکہ ہجرت ، جدید دور کے مسائل ،اور دوسری بہت سی چیزیں ان کی غزلوں میں ملتی ہیں۔
ناصر کاظمی ایسے شاعر ہیں جنہوں نے زندگی کا مشاہدہ بہت قریب سے کیا ہے۔ آپ نے سنی سنائی باتوں کو لفظوں کی آغوش میں لیکر اشعار کا جامہ پہنانے سے احتراز کیا ہے۔ آپ نے زندگی کا بذاتِ خود تجربہ کیا اور جو کچھ محسوس کیا اسے غزل کے مخصوص انداز اور لب و لہجہ میں جدید رنگ کے ساتھ بیان کیا۔
میر جدید کہلانے والے عہد ساز شاعر ناصر کاظمی کی شاعری لطیف انسانی جذبات کی بہترین ترجمان ہے۔ آٹھ دسمبر سن انیس سو پچیس کو بھارت کے شہر انبالہ میں پیدا ہونے والے اس شاعر نے اپنی سینتالیس سالہ زندگی کا بیشتر حصہ چائے خانوں، اور رات کی کہانیاں سناتی ویران سڑکوں پر رتجگے کرتے ہوئے گزارا۔ اْن کی بہترین نظمیں اور غزلیں انہیں رتجگوں کا نچوڑ ہیں۔
ناصر نے شاعری میں اپنی لفظیات اور حسیات کے پیمانے رومانوی رکھے اس کے باوجود اْن کا کلام عصرِ حاضر کے مسائل سے جڑا رہا۔ چھوٹی بحر کی خوبصورت پیرائے میں لکھی گئی غزلیں اور منفرد استعارے اْن کی شاعری کو دیگر ہمعصر شعرا کے اْسلوبِ کلام سے ممتاز کرتے ہیں۔
ناصر کاظمی کا پہلا مجموعہ کلام ’برگِ نے‘ سن 1954 میں شائع ہوا اور منظرعام پر آتے ہی مقبولیت حاصل کر لی۔ ان کے دیگر شعری مجموعوں میں ’پہلی بارش‘، ’نشاطِ خواب‘، ’دیوان‘ اور ’سْرکی چھایا‘ شامل ہیں۔ اِس کے علاوہ ان کے مضامین کا ایک مجموعہ ’خشک چشمے کے کنارے‘ بھی شائقینِ اردو نثر سے داد وصول کر چکا ہے۔ناصر کاظمی معروف ادبی رسالوں ’اوراقِ نو‘ ، ’ہمایوں‘ اور ’خیال‘ کی مجلسِ ادارت میں شامل رہے۔ بعد ازاں وہ ریڈیو پاکستان لاہور سے بطورِ اسٹاف ایڈیٹر منسلک ہو گئے اور پھر اپنی وفات تک اسی سے وابستہ رہے۔
ناصر کاظمی کلاسیکل شعرا میں سب سے زیادہ میر تقی میر سے متاثر ہوئے۔ اس کے علاوہ فراق، غالب اور دیگر اساتذہ کے کلام سے بھی اکتسابِ فیض کیا۔ تاہم روایتی غزل کے احترام کے باوصف اپنی شاعری میں جدید رنگ اور حسنِ ادا کو بھر پور انداز میں شامل رکھا۔ اسی عام فہم اندازِ فکراور اْسلوب کے باعث ناصر عوامی شاعر بن گئے۔
دل دھڑکنے کا سبب یا آیا
وہ تری یاد تھی اب یاد آیا
حالِ دل ہم بھی سناتے لیکن
جب وہ رخصت ہوا تب آیا
ناصر کاظمی نے بر صغیر کی آزادی کے ہنگام کو دیکھا اور اس کے ہمراہ آئے دکھ اور الام اْن کی روح کو جھنجوڑ گئے۔ ہجرت کے صدمے سے دوچار ایسی ہی کسی کیفیت میں ناصر نے کہا ہو گا۔
تو جو اتنا اداس ہے ناصر
تجھے کیا ہو گیا بتا تو سہی
ایک اور شعر میں ناصر کہتے ہیں
شہر اجڑے تو کیا، ہے کشادہ زمینِ خدا
اک نیا گھر بنائیں گے ہم، صبرکر، صبر کر
ناصرکاظمی ایک سچے تخلیق کار تھے، وہی لکھتے جو دل پر گزرتی۔ معروف ادیب ممتاز مفتی نے اْن کے بارے میں کہا تھا کہ ناصر کاظمی نہ صرف شاعر تھے بلکہ شاعر دکھائی بھی دیتے تھے۔ ایک گہری سوچ اور فکر اْن کے چہرے پر ہمہ وقت ڈیرہ جمائے رہتی تھی۔ناصر کاظمی نے سن انیس سو سینتالیس میں پاکستان بنتے بھی دیکھا اور سن انیس سو اکہتر میں سقوط ڈھاکا کے مناظر بھی۔ اگر دیکھا جائے تو اْن کی شاعری ان دونوں ادوار کے دوران پاکستان کی تاریخ کا ترتیب نامہ بھی ہے۔
وہ ساحلوں پہ گانے والے کیا ہوئے
وہ کشتیاں چلانے والے کیا ہوئے
وہ صبح آتے آتے رہ گئی کہاں
جو قافلے تھے آنے والے کیا ہوئے
یہ ناصر کاظمی کا منفرد اور دلوں کو چھونے والا اْسلوبِ بیان ہی تھا جس کی بدولت آج اْن کا کلام عوام میں پہلے سے کہیں زیادہ مقبول اور محبوب نظر آتا ہے۔ 2 مارچ سن 1972 کو سخن کی یہ شمع گل ہو گئی لیکن لاہور کے مال روڈ آج بھی اپنے شب بیدار شاعر کے قدموں کی چاپ کی منتظر تو رہتی ہو گی۔
ناصر کاظمی کی کتبے پر اْنہی کا یہ زبان زد عام شعر درج ہے۔
دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہو گا
Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
۱۱ | |||
۱۳ | |||
۱۴ | |||
۱۵ | |||
۱۵ | |||
۲۱ | |||
۲۶ | |||
۳۲ | |||
۳۷ | |||
۴۳ | |||
۵۰ | |||
۵۶ | |||
۶۲ | |||
۶۷ | |||
۶۷ | |||
۶۹ | |||
۷۳ | |||
۸۱ | |||
۸۶ | |||
۸۹ | |||
Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |